چڑی مار کا سارس
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک دن ایک مداری نے چڑی مارکے دروازے پر دستک دی
۔۔۔۔۔۔
صبح کا وقت تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ نیلے آسمان پر بادل امڈ آئے تھے۔ اچانک مغرب کی جانب سے سارسوں کی ایک ڈار نمودار ہوئی۔ وہ اپنے لمبے پر پھیلائے اور انگریزی حرف وی (v)کی شکل بنائے مشرق کی طرف اڑ رہے تھے۔ اس طرح پرواز کرنے سے ان کی کم طاقت خرچ ہوتی تھی۔ یہ ان کے ہر سال کا معمول تھا۔ جب مغربی پہاڑوں کے پیچھے موسم سرد ہوجاتا تو وہ گرم علاقوں کا رخ کرتے، اس دوران وہ فلک بوس پہاڑوں، بہتے دریاؤں اور گھنے جنگلوں پر سے گزرتے، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے کسی جھیل کے کنارے جا اترتے اور کئی مہینے وہاں گزارتے تھے۔
وہ قطار بنائے اڑے جارہے تھے کہ ایک جگہ دریا کے کنارے انہیں سرسبز گھاس کا ایک قطعہ نظر آیا۔ ان میں سے ایک نوعمر سارس بولا: ”کیسی اچھی جگہ ہے، آؤ یہاں اترتے ہیں۔“
دوسروں نے اس کی بات نہیں مانی۔ ایک بوڑھا سارس بولا: ”ہماری اترنے کی جگہیں مقرر ہیں یہ جگہ ان میں شامل نہیں ہے۔“ لیکن نوعمر سارس نے وہاں اترنے کا فیصلہ کیا اور قطار سے الگ ہو گیا۔ ساتھیوں نے اسے منع کیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آخر وہ آگے بڑھ گئے اور یہ پر پھیلائے نیچے اترنے لگا۔
وہ دھان کے کھیت تھے۔ فصل ہوا سے لہرا رہی تھی، جونہی وہ گھاس پر اترا چڑی مار کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔ اس کے پنجے جال میں الجھ گئے تھے۔ اس نے پھڑپھڑا کر جال سے نکلنے کی کوشش کی لیکن مزید پھنستا چلا گیا۔ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا تو جال میں کئی توتے اور چڑیائیں بھی پھنسی نظر آئیں۔ کچھ دیر بعد چڑی مار بھی وہاں آگیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا۔ وہ پرندوں کو جال سے چھڑا کر پنجرے میں ڈالنے لگا۔ سب کو پکڑنے کے بعد وہ سارس کے پاس آیا لیکن سارس کی گردن اور ٹانگیں بہت لمبی تھیں، پنجرہ اس کے لیے ناکافی تھا۔ چڑی مار جب سارس کو جال سے نکال رہا تھا تو وہ بے چارگی سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو۔
”اے انسان! مجھ سے غلطی ہو گئی میں تیرے کسی کام کا نہےں ہوں، مجھے چھوڑ دے، میرے ساتھی ابھی کچھ دور ہی گئے ہوں گے میں انہیں تیز اڑ کر پا لوں گا۔“
لیکن چڑی مار نے اسے جال سے نکال کر بغل میں دبالیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے اچھے پیسے مل جائیں گے۔
گھر آکر اس نے سارس کے پر کاٹ دیئے اور اسے صحن میں چھوڑ دیا۔ اس کے بچے خوشی اور حیرت سے اتنے بڑے پرندے کو دیکھ رہے تھے۔ اتوار کو قریبی شہر میں پرندوں کا بازار لگتا تھا۔ چڑی مار بھی وہاں گیا۔ بازار میں بہت ہجوم تھا۔ لوگ اپنی اپنی پسند کے پرندے خرید رہے تھے۔ دوپہر تک اس نے بھی کئی توتے اور چڑیاں بیچ دیں لیکن سارس میں کسی نے بھی دلچسپی نہیں لی۔ وہ اسے ایک نظر دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ چڑی مار کو اس کی طرف سے فکر لاحق ہونے لگی تھی کیونکہ وہ اب تک چالیس روپے کی مچھلی کھا چکا تھا۔ دوپہر کے بعد ایک شخص نے اس کی قیمت پوچھی وہ حلیے سے دھوبی لگتا تھا اور شاید سارس کا سفید رنگ اسے پسند آگیا تھا۔ چڑی مار نے سنبھل کر مناسب قیمت بتائی وہ چاہتا تھا کہ سودا بن جائے۔
”یہ کھاتا کیا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”مچھلی…. یہ مچھلیاں کھاتا ہے۔“ چڑی مار نے کہا۔
”اوہ! مچھلی تو بہت منہگی ہے۔“ آدمی پیچھے ہٹتے ہوئے بولا اور آگے بڑھ گیا۔ پھر ایک شخص اپنے بچے کی انگلی پکڑے وہاں آیا۔ بچہ سارس کے لیے ضد کرنے لگا۔ آدمی نے منہ بنایا لیکن بچے کا دل رکھنے کے لیے یونہی قیمت پوچھ لی ۔پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ آؤ تمہیں لال چڑیاں دلاؤں۔ سارا دن گزر گیا۔ چڑی مار کے تمام پرندے بک گئے، لیکن سارس نہیں بکا۔ آخر وہ اسے اپنے گھر لے آیا۔
اگلی بار پھر وہ اسے بازار لے کر گیا لیکن کسی نے بھی اسے نہیں خرید ا، کئی ہفتوں تک وہ اسے لے جاتا رہا لیکن کوئی بھی اتنا بڑا پرندہ خریدنے کو تیار نہیں تھا، آخر تنگ آکر اس نے اسے لے جانا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں تک تو چڑی مار اسے مچھلی کھلاتا رہا پھر باسی روٹی پانی میں بھگو کر دینی شروع کر دی، مجبوراً اسے روٹی کھانی پڑی جس سے وہ بیمار اور کمزور ہو گیا لیکن پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔ سارس چڑی مار کے گھر میں پلتا رہا۔ وہ صحن کی ایک منڈیر پر بیٹھا اپنی لمبی گردن گھما گھما کر ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا۔ بچوں نے اب اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔ چڑی مار بھی اسے پکڑ کر پچھتا رہا تھا۔
دن گزرتے رہے، کئی بار سورج نے مشرق سے سر نکالا اور مغرب میں جا ڈوبا، کاروبار زندگی یونہی چلتا رہا۔ اب سوائے چڑی مار کے سارس کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دیتا تھا۔ ایک رات سب سوئے ہوئے تھے کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ غریب چڑی مار کے گھر میں جب اسے کوئی قیمتی چیز نہیں ملی تو بھنا کر اس نے سارس کو بغل میں دبایا اور دیوار پھاند گیا۔ اس کی قیں قیں کی آوازوں سے چڑی مار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً چور کے پیچھے بھاگا اور دوڑ کر اسے پکڑ لیا۔ چور نے چاقو مار کر اس کا بازو زخمی کر دیا اور سارس کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ چڑی مار کو اسپتال جانا پڑا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے خواہ مخواہ بیکار پرندے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی۔ سارس اسی طرح پھر منڈیر پر بیٹھا نظر آنے لگا۔
پھر ایک دن ایک مداری نے اس کے دروازے پر دستک دی ۔ وہ جانوروں کو کرتب سکھا کر اپنی روزی کماتا تھا۔ وہ سارس خریدنے کے لیے تیار تھا اور اچھی قیمت دے رہا تھا لیکن چڑی مار نے صاف انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مداری جانوروں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ سارس کے پر نکل آئے تھے وہ اڑ کر چھت پر جا بیٹھتا تھا۔ چڑی مار کی بیوی نے پر کاٹنے کو کہا لیکن اس نے پر نہیں کاٹے۔ دن گزرتے رہے۔ سارس کو اپنے بڑوں کا کہنا نہ ماننے کی کافی سزا مل گئی تھی۔ چڑی مار بھی اسے پکڑ کر خوش نہ تھا۔ وہ اکثر اس کے لیے مچھلیاں لے آتا اور اسے اپنے ہاتھ سے کھلاتا تھا۔
دھیرے دھیرے موسم بدل رہا تھا۔ ایک دن وہ صحن میں بیٹھے تھے، سارس بار بار اپنی گردن گھما رہا تھا، ان دنوں اس کی نظریں آسمان پر ہی لگی رہتی تھیں، اچانک مشرق کی طرف سے سارسوں کی ایک ڈار اڑتی نظر آئی، وہ واپس اپنے علاقے میں جارہے تھے۔ چڑی مار کے سارس نے ایک نظر پورے گھر پر دوڑائی، پر پھڑپھڑائے اور اڑ گیا۔ چڑی مار کو ایسا لگا کہ وہ گر جائے گا کیونکہ بہت دن بعد اس نے اڑان بھری تھی وہ بار بار اپنے پر ہوا میں مار رہا تھا آخر وہ سنبھل گیا، اس نے ایک تیز آواز نکالی اور اوپر جانے لگا۔ چڑی مار اس پر نظریں جمائے آہستہ سے بڑبڑایا۔
”الوداع اے دوست مجھے معاف کردینا۔“
سارس ڈار کے ساتھ جا ملا۔ وہ ساتھ مل کر اڑتے رہے پھر آہستہ آہستہ آسمان کی وسعتوں میں غائب ہو گئے۔
٭….٭