آزادی کی قیمت
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان اس تصویر میں جو لوگ نظر آرہے ہیں وہ کون ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن نے دادا جان کے کمرے میں جھانکا۔ وہ اخبار تہہ کرکے رکھ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہو کر سلام کیا اور بولی
” دادا جان آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ دادا نے سلام کا جواب دیا اور مسکرا کر بولے ” اﷲ کا بہت کرم ہے۔ آج تم اسکول نہیں گئیں۔“
” دادا جان شہر کے حالات ٹھیک نہیں، سب اسکول بند ہیں۔“
” ہاں بھئی تمام اخبار ان ہی خبروں سے بھرا ہے، اﷲ اس شہر پر اپنا رحم فرمائے۔“ کرن نے آمین کہا اور بولی لگتا ہے آج آپ کے پاس فرصت ہے ۔ میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤں۔“ دادا جان زور سے ہنسے اور بولے۔” میرے پاس توفرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ وقت تو تمہارے پاس نہیں ہوتا۔ صبح اسکول ، پھر مدرسے اور شام کو ٹیوشن کے بعد تم اتنا تھک جاتی ہو کہ فوراً بستر یاد آنے لگتا ہے۔“
کرن مسکرا کر بولی ” آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن کل میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی لیکن آپ مصروف تھے۔“
” ہاں کل مجھے کچھ کام نمٹانے تھے لیکن آج میں بالکل فارغ ہوں تم جو چاہو پوچھو۔“
کرن جم کر کرسی پر بیٹھ گئی اور بولی ” دادا جان جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ۔ آپ کے کمرے کی دیوار پر یہ تصویر لگی دیکھ رہی ہوں۔“ دادا جان نے گھوم کر دیوار پر دیکھا جہاں ایک بہت پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویر فریم میں لگی، دیوار پر لٹکی تھی، وہ پھیکی پڑ چکی تھی۔ ”تم اس تصویر کے بارے میں کیا پوچھنا چاہتی ہو؟“
” میں نے آپ کی فوٹو البم میں بہت ساری اس طرح کی پرانی تصویریں دیکھی ہیں، لیکن اس تصویر میں کیا خاص بات ہے جو آپ نے اسے اپنی دیوار پر لگا رکھا ہے؟“ دادا جان نے چشمہ اتار دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولے۔
”بہت خوب بھئی تم نے اچھا اندازہ لگایا ۔ واقعی اس تصویر میں کوئی تو بات ہے۔“
” جی اس تصویر میں جو لوگ نظر آرہے ہیں وہ کون ہیں؟“ کرن نے پوچھا۔
دادا جان ماضی کی یادوں میں کھوتے ہوئے بولے۔ ” ہاں بھئی یہ ایک خاص تصویر ہے اس میں جو لوگ نظر آرہے ہیں میرے وہ دوست ہیں جو جماعت کے سب سے نمایاں طالب علم تھے، تم یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے منہ میاں مٹھو بن رہا ہوں، یہ سب اس وقت کے ذہین ترین لوگ تھے اور بعد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی فیلڈ میں نمایاں ترقی کی ۔ہم علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اس زمانے میں وہ مسلمانوں کی واحد یونیورسٹی تھی۔“ وہ سانس لینے کیلئے رکے۔ کرن بولی ” جی میں نے اپنی کورس کی کتابوں میں اس کے بارے میں پڑھا ہے۔“ دادا سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے بولے۔” یہ تصویر اس وقت کی ہے جب ہم لوگ اپنی تعلیم مکمل کرچکے تھے ۔ میں نے دوستوں کو گھر میں چھوٹی سی پارٹی دی تھی۔ یہ ہمارے گھر کا لان ہے، پیچھے پرانی وضع کا گول برآمدہ نظر آرہا ہے۔ تصویر میں جو لوگ ہیں ان میں دائیں سے پہلے والے صاحب جنہوں نے بڑا سا ولایتی ہیٹ پہن رکھا ہے بیرسٹر احتشام الدین تھے ۔ چند سال پہلے ہی انتقال ہوا ہے ۔ بہت کامیاب وکیل تھے، دوسرے جو بہت پتلے اور لمبے ہیں اور چیک دار کوٹ پہنے ہوئے ہےں ایم انعام الحق ہیں، ملک کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ آکسفورڈ سے بھی ڈگری حاصل کی تھی، تیسرے فرد سے تو تم اچھی طرح واقف ہی ہو۔ دادا مسکرا کر بولے۔
کرن تیزی سے بولی ” انہیں تو میں اچھی طرح جانتی ہوں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ بہت ساری کتابیں لکھی ہیں، شاعر اور افسانہ نگار بھی ہیں، گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے، اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ہمارے گھر میں رہتے ہیں۔“ دادا ہنسے اور بولے ” واہ! تمہیں تو بہت بولنا آتا ہے۔“ اور یہ چوتھے صاحب جن کی آنکھوں پر موٹا سا چشمہ چڑھا ہے ابرار احمد ہیں، لندن سے ڈاکٹری پڑھی، بہت ذہین ہیں، لندن میں ہی پریکٹس کرتے تھے۔ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔“ دادا جان صحن میں دیکھتے ہوئے بولے۔ جہاں چڑیاں جمع ہو رہی تھیں اور یہ پانچوے کھلنڈرے سے صاحب اکبر خاں ہیں، کرکٹ کے دلدادہ تھے، قومی ٹیم میں گئے خوب ترقی کی کپتان بنے لیکن ایک ایکسڈینٹ میں انتقال کر گئے۔ “ دادا جی اداسی سے بولے اور خاموش ہو گئے۔” اور یہ چھٹے فرد جنہوں نے موٹی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں اور کھدر کا کرتہ پہنے ہیں۔“ کرن نے پوچھا۔
دادا جان چونک کر سیدھے ہوئے اور تصویر کو تکتے ہوئے بولے ” یہ ہمارا ملازم رمضو ہے۔“
” ہائیں! آپ تو کہہ رہے ہیں کہ یہ سب لوگ بہت کامیاب تھے۔“ کرن نے حیرت سے کہا۔
” کیا ایک ملازم کامیاب انسان نہیں ہو سکتا؟ کامیابی صرف اعلیٰ عہدے اور پیسے کا نام تو نہیں۔“ دادا جان بولے۔
کرن شرمندگی سے بولی ” سوری، لیکن بات جس طرح چل رہی تھی میں یہی سمجھی۔“ دادا بولے ” اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں، معاشرہ لوگوں کو یہی سبق پڑھاتا ہے۔ خیر جس وقت یہ تصویر کھینچی گئی وہ ہمارا ملازم تھا لیکن بعد میں بہت سی باتیں سامنے آئیں، لیکن ٹہرو پہلے میں تمہیں تصویر کھنچوانے کا قصہ سنا دوں۔“
جس زمانے میں یہ تصویر اتروائی گئی آج جیسے جدید کیمرے نہیں ہوتے تھے۔ فوٹو گرافر بھی بہت اہم اور نخریلے لوگ ہوتے تھے، ایسی تصویر یں بہت اہتمام سے اتروائی جاتی تھیں۔بہرحال ہم نے فوٹو گرافرکو بلوایا۔ ہمیں گروپ فوٹو بنوانا تھا۔ فوٹو گرافر بہت دیر تک ہم لوگوں کو فوکس کرتا رہا ۔ کئی بار اس نے ہماری جگہیں تبدیل کرائیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ سنایا کہ یا تو ایک فرد کم ہوجائے یا ایک کا اضافہ کر دیا جائے۔ تصویر اس صورت میں اتر سکتی ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب بات تھی لیکن فوٹو تو ہم نے کھنچوانا ہی تھا، گھر میں اور کوئی موجود نہ تھا اور کسی کا کم ہونا بھی ممکن نہ تھا لہٰذا رمضو کو تکلیف دی گئی ، وہ راضی نہ تھا، ہم نے اسے زبردستی کھڑا کیا۔ بہرحال تصویر اتروائی گئی اور سب نے پسند بھی کی۔“
” پھر کیا ہوا؟“ کرن نے دلچسپی سے پوچھا۔ اسے ان باتوں میں بہت مزا آرہا تھا۔
میرا خیال ہے آگے بتانے سے پہلے میں تمہیں رمضو کے ملازم ہونے کی کہانی سنا دوں۔ ہمارے ایک عزیز اسے لے کر آئے اور بتایا کہ فلاں گاؤں سے ان کا تعلق ہے ۔ بہت ایماندار اور شریف آدمی ہیں لیکن شہر کی زندگی سے گھبراتے ہیں انہیں کوئی کام دے دیں۔ ہمیں مالی کی ضرورت تھی ہم نے اسے رکھ لیا، لیکن وہ ایک عجیب آدمی تھا۔ کبھی گھر سے باہر نہ نکلتا، اکثر بہت سمجھ داری کی باتیں کرتا، مہمان گھر آتے تو ان کا سامنا کرنے سے کتراتا۔ ایک بار تو عجیب واقعہ ہوا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ انگریزی اخبار پر جھکا جیسے پڑھ رہا تھا مجھے دیکھ کر گھبرا گیا جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔ میں نے پوچھا تم پڑھنا جانتے ہو تو صاف انکار کر دیا۔ بولا تصویریں دیکھ رہا تھا۔ خیر وقت اسی طرح گزر رہا تھا۔
پھر تحریک آزادی میں ز ور آگیا، الگ وطن کی باتیں تو پہلے سے ہو رہی تھیں اب ایسا لگتا تھا کہ وہ وقت آپہنچا۔ ہم لوگ اپنا مستقبل بنانے میں لگے تھے ۔ گاہے بگاہے جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کرلیتے۔ اسی دوران رمضو ایک رات خاموشی سے غائب ہو گیا۔ اس نے ایک خط چھوڑا جس میں شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ اس کا اندازِ بیان اور تحریر دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ایک پڑھا لکھا آدمی تھا۔
ایک دن میں ایک جلسے میں شریک تھا، مقرر جوش و خروش سے تقریریں کررہے تھے، ہم سب پرعزم تھے، پھر دلاور خان کا نام پکارا گیا۔ میں نے دلاور خان کا نام بہت سنا تھا لیکن کبھی دیکھا نہ تھا ۔ اس زمانے میں ٹی وی تو ہوتا نہیں تھا کہ ہر لیڈر کو لوگ آج کی طرح پہچانیں ۔ آج تو میڈیا کی بدولت کوئی بھی نام نہاد لیڈر کا چوغہ پہن کر عوام کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔ خیر دلاور خان کی تقریر شروع ہوئی ۔ وہ ایک داڑھی مونچھیں صاف جوان آدمی تھا اور بڑی شعلہ بیان تقریر کررہا تھا۔ لوگ بار بار تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے لیکن میں پریشان تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں دلاور خان سے کبھی ملا ہوں لیکن کہاں…. یہ مجھے یاد نہیں آرہا تھا۔ تقریر چلتی رہی آخر میں اسے پہچان گیا۔ وہ ہمارا ملازم رمضو تھا، حیرت سے گنگ رہ گیا۔
تقریر ختم ہوئی تو لوگ اپنے محبوب لیڈروں سے ملنے کیلئے آگے بڑھنے لگے میں بھی بے خیالی میں بڑھتا گیا اور دلاور خان تک جا پہنچا۔ سب مصافحہ کررہے تھے۔ میں نے بھی ہاتھ ملایا۔ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور میرا نام لے کر بولا آپ کیسے ہیں؟ وہ بھی مجھے پہچان گیا تھا۔ میں اور باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن لوگوں کا جم غفیر بڑھتا جا رہا تھا۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ جلسے سے واپس آکر میں ان عزیز سے ملا جنہوں نے اسے نوکر رکھوایا تھا۔ وہ مسکرا کر بولے۔ اچھا اب تم پہچان ہی گئے ہو تو چھپانے سے کیا فائدہ۔ دراصل وہ تحریک آزادی کا ایک سپاہی ہے جس زمانے میں وہ تمہارے گھر کام کررہا تھا انگریز فوج اس کے پیچھے تھی۔ اس کے وارنٹ جاری تھے۔ اسے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا۔ ڈر تھا کہیں پھانسی نہ دے دی جائے۔ ایسے میں ہم لوگوں کے ذہن میں یہی آیا کہ اسے کہیں چھپا دیا جائے۔ تمہارا گھر ذرا الگ تھلگ ہے لہٰذا اسے ہی چنا۔ وہ بھی علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہے اور ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے ملاقات کی فرمائش ظاہر کی۔ عزیز بولے آج تو وہ کلکتہ روانہ ہو گیا۔ جیسے ہی دہلی آئے گا آپ کی ملاقات کا بندوبست کروں گا ۔ میں واپس آگیا۔
تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی تھی۔ میں اخباروں میں دلاور خان کی مصروفیات پر نظر رکھتا۔ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر دورے کررہا تھا۔ اگرچہ وہ بہت بڑا لیڈر نہ تھا لیکن ایک اچھا منتظم تھا۔ جلسے منعقد کرنا اور لوگوں کو جمع کرنا وہ بخوبی جانتا تھا۔ آزادی سے چند ماہ پہلے ایک شہر میں جلسہ تھا، وہ بھی وہاں موجود تھا، وہاں شرپسندوں نے کچھ گڑبڑ کر دی۔ ہندو اور انگریز سپاہی تو موقع کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ دلاور خان نے اپنے سینے پر گولی کھائی اور شہید ہو گیا۔ بس اس کے بعد تو ایسی افراتفری مچی کہ کچھ ہوش نہ رہا۔ ہم ہجرت کرکے یہاں آگئے۔ لاکھوں لوگ راستوں میں خون میں نہلا دیئے گئے۔ ہندوؤں اور سکھوں نے صدیوں سے دل میں چھپی عداوتوں کو خوب نکالا۔
دادا جان خاموش ہو گئے، کرن بھی خاموش تھی۔ پھر وہ بولے۔ ” میرے پاس بہت ساری تصویریں ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی دلاور خان نہیں۔ جب ہم اس گھر میں آئے تو میں نے تمام تصویروں میں سے اسے دیوار پر لگانے کے لیے منتخب کیا۔ وہ ایک عظیم آدمی تھا، اپنے مقصد کیلئے اس نے جان کی بھی پروا نہ کی۔ مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ دلاور اس تصویر میں اتفاقیہ نہیں آیا تھا بلکہ قدرت اسے لانا چاہتی تھی۔“ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور تصویر کے پاس چلے آئے۔ ان کی نظریں تصویر پر جمی تھیں۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔ ” بیٹی! آزادی یونہی نہیں مل جاتی اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہیں اور اپنی آزادی کی حفاظت بھی کم مشکل کام نہیں۔ آج اس وطن پر مصائب کے گھٹا ٹوپ سائے منڈلا رہے ہیں ایسے میں ہر فرد کو تعمیر وطن کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے، ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے وطن پر کبھی آنچ نہ آنے دیں گے۔“ کرن نے سعادت مندی سے گردن ہلائی۔
”چلو نماز کا وقت ہو رہا ہے۔“ وہ بولے۔ کرن اٹھ کھڑی ہوئی اس کی آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح جھلملا رہے تھے۔
٭….٭