برگد اور بنفشی پودے
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہاڑوں پر سردیاں چپکے سے آن پہنچی تھیں۔ ہواؤں میں خنکی بڑھنے لگی اور برف کے نرم گالے آسمان سے گرنے لگے تھے۔ دور کے پہاڑ تو برف سے سفید نظر آنے لگے تھے۔ بوڑھے برگد کا تنا جہاں ختم ہوتا تھا اور اُس کی جڑیں شروع ہوتی تھیں۔ وہاں اُگے ہوئے سبزی مائل بنفشی رنگ کے ننھے منے پودے اب خوف سے کانپنا شروع ہو گئے تھے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ” اب کیا ہو گا سردیاںتو آن پہنچیں۔ ہم کیا کریں گے؟ سردی سے اب بھی ہم ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ برف اور دھند تو ہمیں یقینا مار ہی دیں گے۔“ اِن پودوںکے دوست پرندے جو پوری گرمیوں میں اِن پودوں کے پاس بیٹھے نغمے گایا کرتے تھے کب سے گرم علاقوں کی طرف پرواز کر چکے تھے؟ اور حدِ نظر تک کہیں کوئی پھول نظر نہیں آتا تھا۔
جو پتے ابھی تک برگد کے درخت کے ساتھ لگے ہوئے تھے بھورے اور خشک تھے اور سخت سردی سے کانپ رہے تھے بنفشی پودے دوبارہ بولے ”ہم کہرے سے مر جائیں گے۔“ تبھی بوڑھا برگد بڑی ملائمت سے پودوں سے کہنے لگا ”ڈرو مت میرے ننھے ساتھیو! تمہاری پیاری پیاری کلیاں پوری گرمیاں میرا دل بہلاتی رہی ہیں۔ اب میری باری ہے کہ میں اُن کاشکریہ ادا کروں۔ میں ساری سردیاں تمہارا خیال کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کہرے کو تمہیں نقصان نہیں پہنچانے دوں گا۔ اب مجھ پر بھروسہ رکھو اور آرام سے سو جاؤ۔“
بوڑھا برگد بہت بڑا اور توانا تھا۔ وہ جو کہتا تھا پورا کرتا تھا اور پودے اُس پر مکمل بھروسہ کرتے تھے۔ وہ اُس کا وعدہ سن کر مسکرائے اور پھر آرام سے سو گئے۔ بوڑھے برگد نے بھورے پتوں سے کہا کہ وہ اِن ننھے پودوں کے اوپر گرتے جائیں۔ اُنہوں نے بوڑھے برگد کی بات مانی اور ننھے پودوں کے اوپر گر کر اُنہیں ڈھانپ لیا۔
پھر کئی دفعہ بارش برسی۔ دھندچھائی اور پھر برف نے ہر شے ڈھانپ لی۔ بھورے پتوں نے اکٹھے ہو کر ننھے پودوں کے اوپر ایک چادر سی تان لی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ننھے پودوں نے کمبل اوڑھ لیا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ سردیاں جانے لگیں اور بہار چھانے لگی۔ پھر سورج چمکا اور ننھے پودے بیدار ہوئے۔ سبز پتے اُگنے لگے اور خوشی سے بھرپور آوازیں گونجیں۔ شکریہ بوڑھے مہربان برگد۔ ”تم نہ ہوتے تو ہم برف کے نیچے دفن ہو چکے ہوتے۔“