skip to Main Content

سرخ نرگس کا پھول

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

” یہ کتنا خوش نصیب ہے اسے خدا نے دوسروں سے کتنا مختلف بنایا ہے“

۔۔۔۔۔۔۔۔

موسم بہار اپنے پورے جوبن پر تھا اور تمام نرگس کے پھول سر اُٹھا کر سورج کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کر رہے تھے۔ نہایت آہستگی سے وہ اپنی روپیلی پنکھڑیاں کھول رہے تھے اور ان کے شہنائیوں جیسے پھول ہوا میں جھوم رہے تھے۔ سنہری نرگس کے پھولوں کا ایک کھیت تھا جو بچھا ہوا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے کھیت میں سونا بویا گیا ہو لیکن اس سنہری رنگ کے بیچوں بیچ ایک ننھی سی آمیزش سرخ رنگ کی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اتنی روپیلے نرگس کے پھولوں میں ایک نرگس کا پھول ایسا بھی موجود تھا جو سرخ رنگ کا تھا۔
سرخ نرگس کے پھول کو بخوبی علم تھا کہ وہ دوسرے پھولوں سے مختلف ہے اور یہ بات وہ تب سے جان گیا تھا جب اس کی پنکھڑیاں کھلی ہی تھیں۔ دوسرے پھولوں نے اسے دیکھا اور چہ مگوئیوں میں لگ گئے تھے۔
”بے چارہ! اس کی قسمت ہی خراب ہے، بے چارہ کتنا بُرا دکھائی دے رہا ہے۔“
پھر کسی نے صدا لگائی: ”یہ ہمارے سنہری رنگ سے کتنا حسد کرتا ہوگا۔“
یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی اگرچہ اس جذبے کو حسد تو نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن سرخ رنگ والے نرگس کے پھول کے دل سے خواہش تھی کہ کاش وہ بھی دوسرے سنہری پھولوں کی طرح عام نرگس کا پھول ہی ہوتا، بجاے اس کے وہ فخر کرتا کہ خدا نے اسے خصوصی طور پر مختلف بنایا ہے، اس کا سر ہمیشہ افسوس اور شرم سے جھکا ہی رہتا، وہ سوچتا کہ آخر وہ ایسا کیوں ہے؟ اور کھیت میں اُگے ہوئے ہزاروں پھولوں سے مختلف کیوں ہے؟
راہگیر اس کھیت کے قریب سے گزرتے تو دم بخود ہو کر رُک جاتے اور اللہ کی قدت کی تعریف کرتے وہ حیران ہو کر بے اختیار کہتے: ”کیا خوب نظارہ ہے۔“
یہ تبصرہ سن کر نرگس کے شہنائیوں جیسے زرد پھول فخر سے ہوا میں اور بھی لہراتے۔ یوں لگتا وہ خوشی سے رقص کررہے ہیں۔
پھر اچانک کسی راہ گیر کی نظر سرخ نرگس کے پھول پر پڑی۔ وہ چلا کر کہنے لگا: ”قدرت کا کیا حسین معجزہ ہے۔“
ہر کوئی اس کی بات سن کر کھیت کے درمیان میں جا پہنچا جہاں یہ پھول اُگا ہوا تھا۔ ایک اور شخص بولا: ”تم صحیح کہتے ہو واقعی نرگس کا ایک پھول سرخ بھی ہے۔“
جلد ہی لوگوں کی ایک بھیڑ وہاں اکھٹی ہوگئی۔ سب پھول کی طرف اشارے بھی کررہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے اور شرماتے ہوئے نرگس کا پھول جس کا چہرہ پہلے ہی سرخ تھا اور بھی سرخ ہورہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا کررہا تھا کہ کاش ایک دفعہ پھر اس کی پنکھڑیاں بند ہوجائیں اور اس کا چہرہ کوئی نہ دیکھ سکے۔
لیکن اب کیا ہوسکتا تھا وہ چاہے جتنی بھی کوشش کرلیتا اس کا سرخ شہنائی جیسا پھول ہوا میں مسلسل لہرا رہا تھا اور سبھی اسے بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ اسی ہجوم میں سب سے پیچھے ایک ننھی بچی بھی کھڑی تھی۔ لوگوں کی دھکم پیل کی وجہ سے وہ کسی صورت پھول کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ آخر اس کے ابا نے اسے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ اب وہ کھیت کو دیکھ سکتی تھی۔
ننھی بچی خوش ہو کر چلائی: ”وہ دیکھو سرخ نرگس کا پھول۔ کتنا خوبصورت دکھائی دے رہا ہے اور یہ کتنا خوش نصیب ہے اسے خدا نے دوسروں سے کتنا مختلف بنایا ہے۔“
دوسرے لوگوں نے بچی کی آواز سنی تو وہ کھسر پھسر کرنے لگے۔ اب وہ کہہ رہے تھے: ”واقعی پھول تو بہت ہی خوبصورت لگ رہا ہے۔“ پھر چند ہی لمحوں میں سارے لوگوں کی زبان پر یہی تھا کہ سرخ نرگس جیسا خوبصورت پھول اُنھوں نے پہلے نہیں دیکھا اور واقعی یہ قدرت کا معجزہ ہے۔
سرخ نرگس نے لوگوں کے تبصرے سنے تو فخر سے اس نے سر کو بلند کیا جیسے دوسرے پھولوں کے تھے لیکن اب دوسرے پھول بہت غصے میں تھے۔ ان میں سے ایک بولا: ”یہ کتنا بے وقوف لوگوں کا مجمع ہے، ہم سب سنہری پھول خوبصورت ہیں۔“ یہ کہہ کر سبھی پھولوں نے سرخ نرگس سے منھ پھیر لیا اور اسے نظر انداز کردیا جس سے سرخ نرگس کا دل دوبارہ مایوسی سے بھرگیا۔
اب اس سرزمین کے کونے کونے تک سرخ نرگس کے بارے میں لوگ جان گئے تھے۔ جلد ہی وہاں کی شہزادی کو بھی سرخ نرگس کے بارے میں معلوم ہوگیا۔ اس نے ایک ملازم کو ساتھ لیا اور اس پھول کو دیکھنے نکل پری۔ وہ جلد ہی اس کھیت کے کنارے پہنچ گئی جہاں سرخ نرگس اُگا ہوا تھا۔ جب شہزادی کی نظر سرخ نرگس پر پڑی تو وہ بے اختیار خوش ہو کر تالیاں بجانے لگی۔ وہ بولی: ”میں نے اس کی خوبصورتی کے بارے میں جو اندازہ لگایا تھا یہ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔“
شہزادی کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے ملازم کو کہا: ”جاﺅ اور میری پالتو قمری (فاختہ) کو لے کر آﺅ۔“ ملازم شہزادی کا حکم سن کر حیران تو ہوا لیکن جلدی سے گیا اور قمری کو لے آیا۔ شہزادی ملازم کو کہنے لگی۔ ”تم اچھی طرح جانتے ہو کہ کل میری شادی ہے۔ میں چاہتی ہوں اس موقع پر میرے لیے جو پھولوں کا گلدستہ بنایا جائے اس میں یہ سرخ نرگس بھی شامل ہو۔“
پھر شہزادی نے قمری کو اُڑایا۔ وہ اُڑی اور کھیت میں گئی۔ اس نے بہت نزاکت سے سرخ نرگس کو اس کی شاخ سے علیحدہ کیا اور اسے لے کر شہزادی کے پاس آگئی۔ شہزادہ سرخ نرگس کو لے کر محل میں واپس آگئی۔ اس نے پھول کو پانی سے بھرے گلدان میں سجایا جہاں اسے اگلے دن تک رہنا تھا۔ صبح ملازم پھول کو لے کر محل میں وہاں لے آیا جہاں شہزادی کی شادی ہورہی تھی۔ اسے خوشیوں کی گھنٹیاں اور مہمانوں کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ پھر شہزادی کی سواری ایک بگھی میں آئی جسے چار سفید براق گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ شہزادی اپنے سفید ریشم کے کپڑوں میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے بالوں پر سرخ گلابوں سے بنا تاج پہنچ رکھا تھا۔
ملازم نے مالن کو پھول دیا جس نے اسے گلدستے میں سجایا اور پھر اسے شہزادی کو پیش کیا۔ دوسرے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوﺅں میں سرخ رنگ کا پھول گم ہوگیا تھا لیکن شہزادی نے گلدستے کو دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔ حالاں کہ باقی سب پھول بھی سرخ تھے۔ سرخ گل بہاری تھے، سرخ سوسن کے پھول تھے، سرخ گلنار تھے۔
سرخ گلبہاری نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے اسے کہا: ”تم ہم میں سے ایک ہو۔“ یہ سن کر پہلی دفعہ سرخ نرگس نے سکھ کا سانس لیا اسے لگا جیسے وہ گھر پہنچ گیا ہو۔
شادی کے بعد شہزادی نے گلدستے کے تمام پھولوں کو اپنے باغ میں دوبارہ اُگادیا۔ اب ہر بہار کے موسم میں جب سرخ نرگس کا پھول اپنی پنکھڑیوں کو کھولتا ہے تو اپنے آپ کو بے شمار سرخ پھولوں میں گھیرا ہوا پاتا ہے اور وہ خوشی خوشی کئی بہاروں سے باغ میں رہ رہا ہے۔ ہم جیسے ناچیز شاید قدرت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کسی کام کو ’بھول‘ سے کرلیا ہے لیکن قادر قدرت نے جس چیز کو جو مقام عطا کرنا ہوتا ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بلا شبہ وہ قادرِ قدرت ہے۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
شہنائی: پھونک سے بجنے والا ایک ساز
آمیزش: ملاوٹ، ملاپ
دھکم پیل: رش کی وجہ سے دھکے لگنا
بگھی: چار پہیوں کی گھوڑا گاڑی
براف: تیز رفتار

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top