جھونپڑی میں رہنے ولا صدر
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۱ فروری ۰۹۸۱ء۔ یہ وہ تاریخ ہے جب امریکہ کے مضافات میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔جس کا نام ابراہیم لنکن تھا۔ وہ ایک لکڑی سی بنی ہوئی جھونپڑی میں اپنی بہن سارا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ ابراہیم کا گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔جس میں کچھ پرانی کرسیاں اور ایک ہاتھ سے بنا ہوا میز پڑا تھا۔ پورے گھر میں صرف یہی فرنیچر تھا۔ کسی کھڑکی میں کوئی شیشہ نہیں لگا ہوا تھا۔ ایک تڑخی ہوئی لکڑی کی سیڑھی دیوار کے سہارے کھڑی تھی جس سے بچے ایک زینے تک پہنچ کر سوتے تھے۔ سردیوں میں جب گھر سے باہر برف کی دہلیز تہہ جم جاتی اور درختوں کی شاخیں بھی سفید برف سے اٹ جاتیں تو ابراہیم اور سارا لحاف میں لیٹ کر اپنی ماں سے کہانیاں سنا کرتے۔ لنکن خاندان کے لیے زندگی گزارنا آسان نہ تھا۔ ان کی جھونپڑی بالکل ویران جگہ پر تھی جب کہ ان کے گھر سے خاصی دور آبادی تھی۔ اس لیے بچوں کا کوئی دوست نہیں تھا۔ ان کا اپنا گھر آرام دہ نہیں تھا۔ جو ہر وقت سخت موسموں کی زد میں رہتا تھا۔ کبھی سرد برفیلی ہوائیں درازوں سے سیٹیاں بجاتے ہوئے گزرتیں اور کبھی تیز بارشوں سے چھت ٹپکنے لگتی۔ اور کبھی کبھار تو باہر چھائی ہوئی دھند بھی گھر میں گھس آتی۔بچے اتنی دیر بھوکے رہتے جب تک ان کا باپ کوئی پرندہ شکار نہ کر لاتا اس کے ہاتھ کوئی خرگوش چڑھ جاتا یا کوئی مچھلی جال میں پھنس جاتی اور جب کچھ بھی نہ ہوتا تو وہ رس بھریاں جمع کرتے اور گھر میں پڑی کسی پرانی ڈبل روٹی پر لگا کر مزے سے کھا لیتے۔ وہاں خطرات بھی تھے۔ جنگل کے ہرے ریڈ انڈین رہتے تھے۔ جو نہیں چاہتے تھے کہ کوئی سفید فام شخص ان کے مالک میں نظر آئے۔ لنکن خاندان ریڈ انڈین رہتے تھے۔ جو نہیں چاہتے تھے کہ کوئی سفید فام شخص ان کے ملک میں نظر آئے۔ لنکن خاندان ریڈ انڈین لوگوں سے اتنا ڈرتا تھا کہ وہ کبھی بھی بندوق کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ ننھے ابراہیم نے بھی بندوق چلانا سیکھ لیا تھا اور وہ ابھی سات سال کا تھا۔ ایک دن جب ابراہیم نے بھی بندوق چلانا سیکھ لیا تھا اور وہ ابھی سات سال کا تھا۔ ایک دن جب ابراہیم ابھی کم سن ہی تھا۔ اس کے باپ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اوہائیو دریا کے پار زرخیز سرزمین پر جا کر آباد ہوگا ۔ جھونپڑی اور اس میں موجود بوسیدہ فرنیچر کو بیچا گیا اور لنکن خاندان ایک چھوٹی سی کشتی پر اپنا مختصر سا سامان لے کر سفر پر روانہ ہو گیا اور لنکن خاندان ایک چھوٹی سی کشتی پر اپنا مختصر سا سامان لے کر سفر پر روانہ ہو گیا ۔ابراہیم کی ماں اداس تھیں کیوں کہ اسے مستقبل کے بارے میں خدشات تھے لیکن ابراہیم بہت خوش تھا۔ اس نے کشتی چلانے اور مچھلی پکڑنے میں باپ کی مدد کی۔ وہ ٹکٹکی باندھے دریا کے کنارے درختوں کو دیکھتا رہا اور پرندوں کے بولنے کی نقل اتارتا رہا۔ لمبے سفر کے بعد وہ جنگل میں ایک کھلی جگہ پر پہنچے۔ کشتی کو کنارے پر باندھا اور نئی جھونپڑی کی تعمیر میں جٹ گئے۔ اگرچہ ابراہیم بہت طاقتور نہیں تھا لیکن وہ بہت عقل مند تھا۔ اس نے باپ کے برابر محنت کی۔ اس نے درختوں سے لکڑی کاٹی۔ مکئی بونے کے لیے زمین سے جھاڑ جھنکار پرے کیا۔ جب سب ٹھیک ہوگیا تو ایک پرمسرت حیرت اس کی منتظر تھی۔ اس کے چچا ،چچی اور دو کزن بھی رہنے واہیں آگئے اور پھر دونوں خاندان اکٹھے کھیت میں کام کرنے لگے۔ پھر ایک سال تک سب کچھ درست سمت میں چلتا رہا۔ لیکن پھر زندگی میں ابراہیم کو پہلا بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کی والدہ اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد ابراہیم ہنسا بھی ہوگا اور اس نے لوگوں کو بھی ہنسایا ہوگا مگر وہ زندگی میں کبھی خوش نہیں ہوا۔ اب اس نے بہت زیادہ محنت شروع کردی تھی۔ جب وہ کھیت میں کام سے کبھی فارغ ہوتا تو یاد کرتا رہتا کہ اس کی ماں اسے کیا نصیحتیں کیا کرتی تھی۔ اس کے پاس کچھ کتابیں تھیں جنہیں وہ بار بار پڑھتا رہتا۔ وہ ہجے کرنے کی مشق کرتا رہتا اور ایک ایک لفظ پر اتنیدیر غور کرتا جب تک کہ اس کا مطلب صحیح طور پر سمجھ نہ لیتا۔ یہی طریقہ اپنا کر اس نے جو علم حاصل کیا وہ لوگ ایک لائبریری سے ساری کتابیں پڑھ کر بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ ابراہیم کا ایک چچرا بھائی کہتا تھا ”جب ہم کھیت سے کام کرکے تھکے مارے واپس آتے تو ابراہیم الماری کھولتا۔ کتاب نکالتا۔ ایک مکئی کا بھڑ کھانے لگتا اور ساتھ پڑھتا رہتا۔ ”ابراہیم جیسے غریب لڑکے کو بہت سی کتابوں کی ضرورت تھی اور کسی شفیق استاد سے بہت سی چیزیں سیکھنے کی بھی۔ کبھی کبھار کوئی استاد سفرکے دوران ان کے پاس رکتا تو رات کو ابراہیم اسے سوال حل کرکے دکھاتا۔ یہ سب وہ لکڑی کے تختے پر لکھتا کیونکہ نہ اس کے پاس قلم تھی نہ کاغذ۔ تمام زندگی ابراہیم کبھی اسکول نہیں گیا۔ ماسوائے ایک سال کے اس مدت میں اس کے پانچ اساتذہ تبدیل ہوئے۔ ایک دن وہ خود اپنے ملک کے بارے میں کچھ جاننا چاہتا تھا۔ وہ قریبی جنگل میں رہنے والے ایک کسان کے پاس گیا۔ جس کے پاس کچھ کتابیں تھیں۔ ابراہیم نے اسے پوچھا۔ ”کیا آپ مجھے جارج واشنگٹن کے بارے میں کوئی کتاب دے سکتے ہیں؟ ابراہیم کو پتا تھا کہ اس کے ہم وطنوں میں جارج واشنگٹن ایک عظیم شخص تھا۔ کسان نے اسے کتاب تھمائی تو وہ اسے لے کر گھر آگیا۔ جب اس نے کام ختم کیا تو وہ انہماک سے کتاب پڑھنے میں مگن ہوگیا۔ لیکن پھر اس کے ابا نے کسی کام سے اسے آواز دی تو اسے بڑی پریشانی ہوئی۔ لیکن وہ گیا تو بارش شروع ہوگئی اور جب وہ واپس آیا تو کتاب کے بھیگنے کی وجہ سے اس کا سرورق خراب ہوگیا تھا۔ مایوسی کے عالم میں وہ کسان کے پاس گیا اور کہنے لگا۔”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروںکیونکہ میں نے تمھاری کتاب خراب کردی ہے اور مجھ میں اتنی سکت بھی نہیں کہ میں نئی خرید سکوں۔“ کسان نے ہنستے ہوئے لڑکے کے شانے کو تھپتھپایا اور کہنے لگا۔” کوئی بات نہیں ابراہیم۔ تین دن میرے لیے کام کرو۔ تو میں ہمیشہ کے لیے یہ کتاب تمھیں ہی دے دوں گا۔مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔“
ابراہیم کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے کتاب سے محبت تھی اور وہ ابھی پڑھنے کے قابل بھی تھی کیونکہ اس کا صرف سرورق ہی خراب ہوا تھا۔ اس نے تین دن کام کیا اور رات قیمتی کتاب پڑھنے میں گزاری اور حیران ہوتا رہا کہ وہ کس طرح جارج واشنگٹن کی نقل کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرسکتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ابراہیم کے ہم عمروں نے دیکھا کہ کتابوں میں وہ بہت زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا اور اکثر اب وہ لکڑی کے بڑے ٹکڑوں پر کھڑا ہو کر تقریر کرنے کی مشق بھی کرتا رہتا۔ اب جب ابراہیم جوان ہو گیا تھا تو اس کے چہرے پر ہر وقت ایک سوچ سی چھائی رہتی۔ اس کے ہاتھ پاؤں بہت کھلے تھے۔ وہ اپنے ہم عمروں سے طاقتور اور لمبا تھا ۔وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے کشتی کرتے اور ہمیشہ ابراہیم سب سے جیتا جاتا۔ لیکن اگرچہ ابراہیم بہت طاقتور تھا لیکن پھر بھی دل کا وہ بہت نرم تھا۔ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کمزوروں کا ساتھ دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے اس نے دیکھا کہ ایک کانٹوں والی ہیج دو پتھروں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اگرچہ وہ سارے دن کی مشقت کے بعد سخت تھک چکا تھا۔ پھر بھی وہ تین کلومیٹر تک دوڑتا ہوا گیا اور ایک لوھار سے لوھے کا راڈ لے کر آیا اور پتھروں کو اس سے اٹھا کر اس نے جانور کو آزاد کروایا۔ ابراہیم دل کا بہت نرم تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے باپ کے کھیت میں کام کرنے کی بجائے پڑوسی کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ وہ اب کشتی چلاتا تھا اور اس پر سامان لاد کر ندی کے اردگرد لے جاتا تھا۔ ایک دن وہ ضروری سامان خریدنے نزدیکی بازار گیا تو پہلی بار اس نے ایک سیاہ فام شخص اس کی بیوی اور بچوں کو غلام بننے کے لیے بکتا دیکھا۔ اسے معلوم تھا کہ ملازموں اور غلاموں کے ساتھ ان دنوں میں کتنا ظلم کیا جاتا تھا۔ وہ شدید غصے اور افسوس میں تھا۔ اگرچہ اس وقت وہ کچھ نہ کرسکا لیکن جو وہ دیکھ چکا تھا۔ اسے کبھی بھلا نہ سکا اور اس نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ان غلاموں کی مدد کرے گا۔ وقت گزرتا رہا اور پیٹ بھرنے کے لیے ابراہیم کو بہت محنت کرنی پڑی۔ اس نے ایک دکان میں ملازمت اختیار کی۔ پھر اپنی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ پھر اس نے ڈاکیے کی نوکری اختیار کی۔ اب وہ جنگل میں نہیں بلکہ قصبے میں زندگی گزار رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پس انداز کی ہوئی رقم سے کتابیں خرید سکتا تھا۔ وہ اساتذہ سے سبق لے سکتا تھا۔ قصبے میں رہنے سے ابراہیم نے بہت سی چیزیں سیکھیں۔ جلد ہی اسے احساس ہوا کہ اس کا گفتگو کرنے کا انداز بہت اجڈ ہے اور وہ شائستہ انگریزی بھی نہیں بول سکتا۔ لہٰذا جب قصبے کے لوگ گفتگو کرتے تو وہ بہت توجہ سے انھیں سنتا ہر رات جب دوسرے سو جاتے وہ موم بتی جلا کر پڑھنے بیٹھ جاتا اور کتابوں میں لکھے فقرات کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اگر آپ نوجوان ابراہیم لنکن کی کی ہوئی تقریروں کو پڑھیں تو وہ بہت سادہ انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ ابراہیم عقلمند بھی تھا اور محنتی بھی۔ اب وہ اتنا پڑھ چکا تھا کہ مشکلات میں اپنی پڑھائی سے مدد لے سکتا تھا۔ پھر وہ وکیل بن گیا لوگ اسے ایماندار ابراہیم کہنے لگے۔ وہ اپنی قابلیت سے آگے بڑھتا رہا اور پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا اور پھر آٹھ سال کی محنت کے بعد کانگریس کا ممبر بھی بنا دیا گیا۔ لیکن وہ ساری زندگی کانگریس میں نہیں رہ سکتا تھا۔ وقت گزرا اور کسی دوسرے نے اسی کی جگہ لے لی۔ لیکن وہ جہاں بھی گیا ملک کے لےے محنت کرتا رہا۔ ان دنوں امریکہ کی شمالی ریاستیں آپس میں لڑرہی تھیںاور وجہ تنازع غلاموں کی تجارت تھی۔ شمالی ریاستوں کے لوگ اس تجارت کے خلاف تھی جبکہ جنوبی ریاستوں کے لوگ حق میں تھے اور اگر تجارت کو روکا جاتا تو جنوبی ریاستیں علیحدگی کی دھمکی دے رہی تھیں۔ ابراہیم یہ سب دیکھ کر بہت افسردہ تھا۔ وہ شروع ہی سے اس تجارت کے خلاف تھے۔ جبکہ جنوبی ریاستوں کے لوگ حق میں تھے اور اگر تجارت کو روکا جاتا تو جنوبی ریاستیں علیحدگی کی دھمکی دے رہی تھیں۔ ابراہیم یہ سب دیکھ کر بہت افسردہ تھا۔ وہ شروع ہی سے اس تجارت کا مخالف تھا لیکن اسے ملک سے محبت تھی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ انارکی ملک کو کمزور کردے گی۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ اگر جنوب اور شمال کی ریاستوں نے اکٹھا رہنا ہے تو غلاموں کی تجارت بند ہونی چاہیے اس نے ملک کے ہر شہر میں جا کر تقریریں کرکے لوگوں کو سمجھایا ۔ اس کی محنت دیکھ کر لوگوں نے اسے اپنا رہنما مان لیا اور پھر وہ غریب لیکن ایماندار ابراہیم ملک کا صدر بن گیا۔ اسے اتنی مشکلیں آئیں کہ آسان ہو گئیں۔ جنوبی ریاستیں بدستور علیحدگی کی کوشش کرتی رہیں۔ پھر ایک افسوس ناک بات جنوبی اور شمالی ریاستوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کئی سال خون بہتا رہا۔ ابراہیم لنکن نے شمالی ریاستوں کے سپاہیوں کے لیے بہت محنت کی ۔ اس کے مقصد میں بہت مشکلات تھیں۔ وہ ملک کو متحد بھی رکھنا چاہتا تھا لیکن غلاموں کی تجارت بھی بند کروانا چاہتا تھا۔ لیکن آخر وہ جیت گیا۔ اس کی ہمت اور عقلمندی نے شمالی ریاستوں کو جتوا دیا۔ غلاموں کو آزادی مل گئی اور ریاستیں بھی امریکہ کا حصہ رہیںاور ابراہیم نے ساری ریاستوں کی خوشحالی کے لیے کام کیا۔ ایک دن جب امن ہوچکا تھا۔ صدر ایک تھیٹر دیکھنے گیا۔ وہ تھکا ہوا تھا لیکن پھر وہ لوگوں کی خوشی کے لیے چلا گیا۔ ڈرامے کے درمیان پستول چلنے کی آواز آئی اور گولی لگنے سے ابراہیم لنکن خالق حقیقی سے جا ملا۔ ایماندار اور غریب لڑکا ابراہیم اب ملک کی مزید کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا۔ شمالی ریاستوں کا رہنما چلا گیا تھا اور جنوبی ریاستوں کا بہترین دوست ان کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
٭….٭