چھوٹے آئیڈیاز
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ نے اپنا سفر شروع کر دیا تھا چھوٹے چھوٹے آئیڈیاز سے بڑے بڑے منصوبوں تک کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ آج اتنا خوش تھا جیسے اسے کوئی قارون کا خزانہ مل گیا ہو آج اس کی سالگرہ تھی اور اس کے چچا نے اسے سالگرہ پر اس کا پسندیدہ تحفہ دیا تھا اور وہ تحفہ تھا کیمسٹری کے تجربات کرنے کے لیے ایک ڈبہ۔
یہ اک بڑا سا ڈبہ تھا جس میں مختلف محلول ڈالنے کے لیے نلکیاں تھیں۔ شیشے سے بنی ہوئی سلاخیں تھیں اور بڑے ڈبے میں چھوٹے چھوٹے ڈبے تھے جن میں مختلف کیمیائی محلول تھے۔ اس کے علاوہ ایک چولھا بھی تھا جسے کیمیائی زبان میں Bunsen Burner کہا جاتا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو من پسند حرارت پر جلایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک کتابچہ بھی تھا جس پر ہدایات درج تھیں جسے پڑھ کر مختلف محلول کو ملا کر مختلف تجربات کیے جا سکتے تھے۔ اس میں آکسیجن اور ہائیڈروجن جیسی گیسیں ملانے کی ہدایات درج تھیں اور اسی طرح ضرورت کی دوسری چیزیں اس ڈبے میں بند تھیں۔ معاذ نے ابو کو آتے دیکھا تو خوشی کے مارے اُن سے لپٹ گیا اور انھیں کہنے لگا: ”بابا جان! میرا تو چھٹیوں میں وقت بہت مزے سے گزرے گا۔“
اس نے ڈبے میں بند چیزیں باہر نکال کر رکھی ہوئی تھیں اور انھیں اب تک خوشی سے کوئی بیسیوں بار دیکھ چکا تھا۔ ابو نے اسے خوش ہوتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ”بیٹا تمھارے شوق کی شدت سے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں تجربہ کرتے ہوئے گھر میں آگ نہ لگا دو یا کوئی دھماکا نہ کر بیٹھو۔“
معاذ فوراً بولا: ”نہیں نہیں بابا جان! ان شاءاللہ ایسا نہیں ہوگا لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کرنا کیا چاہتا ہوں؟ بابا جان! اب مجھے یہ کیمسٹری کا سامان مل گیا ہے تو میری شروع سے یہی خواہش رہی ہے کہ میں کوئی نئی چیز ایجاد کروں۔ اگرچہ مجھے ابھی علم نہیں کہ میں کیا ایجاد کروں گا۔ ہو سکتاہے میں کوئی نیا کیمیائی مادہ یا کوئی نئی دوا بنا لوں جس سے لوگوں کی جان بچائی جاسکے۔ ہو سکتا ہے میری دوا کے نتیجے بھی پنسلین جیسے ہوں۔ ہو سکتا ہے اس دوا کے اثر سے پیٹ کی بیماریاں ٹھیک ہوسکیں۔ میری دوا سے لاکھوں مریض شفا یاب ہو سکیں گے۔ “ معاذ نے ایک سانس میں اپنے بابا جان کو ہزاروں خواہشیں گنوادیں۔ اس کی لمبی تقریر ابھی جاری رہتی اگر اس کے بابا جان اسے بیچ میں نہ ٹوک دیتے۔ اُنھوں نے معاذ کی بات کاٹتے ہوئے کہا:” ایک منٹ رکو معاذ! سانس تو لو۔ کیا تم ضرورت سے زیادہ جذباتی نہیں ہو رہے ہو؟ تم نے ابھی اپنے ڈبے سے تجربے کے لیے ایک شیشے کی نلی بھی نہیں نکالی اور تمھارا یہ حال ہے۔“
لیکن بجاے اس کے معاذ جھینپتا فورا کہنے لگا: ”میں جانتا ہوں بابا! لیکن میں بھی کچھ باتیں آپ سے کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مجھے کام شروع کرنے سے پہلے ایک مکمل تجربہ گاہ کی ضرورت ہو گی۔ کیونکہ سارا سامان تو چچا مجھے بھجوا ہی چکے ہیں۔ مجھے تجربہ میں استعمال کے لیے ایک واش بیسن چاہیے ہوگا۔ جس کی ٹونٹیوں سے ٹھنڈا اور گرم پانی آ تا ہو۔ مجھے چولھا bunsen burnerجلانے کے لیے گیس کی بھی ضرورت ہو گی اور بجلی کی بھی ….اور….اور کئی الماریوں کی بھی جن میں میری چیزیں محفوظ رہیں۔“بابا جان مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سنتے رہے اور پھر کہنے لگے:
”بیٹا! یہی یا کچھ اور بھی چاہیے ہوگا۔“ معاذ نے بڑا سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا: ”بابا! میں سوچتا رہوں گا تو اور چیزیں میرے دھیان میں آتی رہیں گی اور میں آپ کو بتاتا رہوں گا۔ اب میرے پیارے بابا جان! مجھے بتائیے کب آپ مجھے میری تجربہ گاہ بنادیں گے؟ میرا خیال ہے ہمارے پاس موٹر گیراج کے قریب اس کے لےے جگہ بھی میسر ہے۔ یہاں شور بالکل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں اچھا لگے گا جب ایسی ہی کسی جگہ پر لوگ مجھے اور میرا کام دیکھنے آیا کریں گے۔“ اب کی بار معاذ کی باتیں سن کر بابا جان کی باقاعدہ ہنسی چھوٹ گئی۔ معاذ شرمندہ ہو کر پوچھنے لگا: ”بابا جان آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔“
بابا جان نے ہنستے ہوئے اسے جواب دیا:” بیٹا صرف تمھاری تقریر کی روانی پر ہنس رہا ہوں۔ جو بڑی مزے کی ہے۔ بالکل صحیح بات ہے میں بھی چاہتا ہوں کہ تم اپنے خوابوں کی تعبیر پوری ہوتی دیکھو۔ بڑے بڑے خواب ضرور دیکھنے چاہییں لیکن یہ پورے ہوں گے تب جب تم بڑے ہوجاﺅ گے ۔ لیکن تمھارا مسئلہ یہ ہے کہ تم اُلٹی طرف سے کام شروع کرنا چاہتے ہو۔ جس طرف جا کر کام کو ختم ہونا چاہیے تم وہاں سے اسے شروع کرنا چاہتے ہو۔ بہت بڑے بڑے منصوبے چھوٹے چھوٹے آئیڈیاز سے شروع ہوتے ہیں اور ایسے عظیم لوگ جنھوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے اُنھوں نے اپنے کاموں کا آغاز بہت ہی معمولی پیمانے پر شروع کیا تھا۔ جیسے…. ایڈیسن جس نے سائنس دانوں میں سب سے زیادہ ایجادات کیں۔ اُس نے اپنا کام معمولی اوزاروں سے شروع کیا۔ بنجمن فرینکلن نے روشنی کرنے کی تدبیر ایک ریشمی کپڑے سے بنی پتنگ اور ایک چابی کی مدد سے کی تھی۔ ولکی نے جو ایک مشہور فنکار تھا مصوری کا آغاز بھوسے سے بنے دروازے پر ایک جلی ہوئی لکڑی سے کیا تھا۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا مورس جو ایک ارب پتی تھا اور بہت مشہور کار ساز ادارے کا مالک تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں محنت کا آغاز ایک بائی سائیکل کی دکان پر مزدوری سے کیا تھا۔ منجمن ویسٹ نے بلی کی دُم سے بال کھینچ کر اپنے لیے پہلے برش بنائے اور ڈاکٹر وولاسٹن جو ایک کیمیا دان کی حیثیت سے بہت بڑی پہچان رکھتے ہیں اپنے دوستوں کو بڑے شوق سے اپنی زندگی کی سب سے پہلی تجربہ گاہ دکھایا کرتے تھے۔ اُن کی تجربہ گاہ ایک پرانی ٹرے۔ کچھ عدسی شیشے۔ ایک دو وزن کرنے والے پیمانے اور کچھ شیشے کی نلیوں پر مشتمل تھی۔ لہٰذا بیٹے معاذ میری تمھیں نصیحت ہے اگر تم جانے مانے سائنس دان بننا چاہتے ہو اور اپنے لیے نام کمانا چاہتے ہو جس نے انسانیت کی خدمت کی تو اس منزل کی طرف قدم قدم بڑھو۔ لیکن وہاں سے کام شروع نہ کرو جہاں لوگ اسے ختم کرتے ہیں۔“
یہ سب سن کر معاذ نے بابا جان سے سوال کیا: ”بابا جان اس کا مطلب ہے مجھے اپنی تجربہ گاہ نہیں مل سکتی۔“
بابا جان نے اُسے سمجھایا: ”کیوں نہیں؟ ضرور مل سکتی ہے۔ وہ دیکھو تم باغیچے کے آخری کونے میں چھتری بنی ہوئی ہے۔ تم اسے استعمال کر سکتے ہو۔ وہاں پانی بھی میسر ہے اور گیس پائپ گزرنے کی وجہ سے تمھیں وہاں سے گیس بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن تمھیں وہ جگہ صاف کرنا ہو گی اور پھر صاف بھی رکھنا ہوگی۔ تم اُسے اپنی ضرورت کے مطابق ٹھیک کر سکتے ہو۔ یہ بہت دانش مندانہ بات ہے کہ کسی منصوبے یا پراجیکٹ کو چھوٹے پیمانے سے شروع کر کے ترقی کرو اور پھر اس منصوبے کو بڑے پیمانے پر لے جاﺅ۔ بجاے اس کے کہ کسی پراجیکٹ کو بہت بڑے پیمانے پر شروع کرو اور پھر وہ منصوبہ پورا نہ ہو اور تمھارے سارے خواب بکھر جائیں اور ایک چیز جو یاد رکھنے والی ہے وہ یہ کہ ان کاموں کے لیے تمھیں اوزاروں یا سامان کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ضرورت تمھیں اپنے آئیڈیاز اور صبر کی ہو گی ۔ سب سے اہم بات یہ کہ تمھارے سارے کام اللہ کی رضا کے لیے ہوں اور ہر کام میں اللہ سے مدد ونصرت طلب کیا کرو۔“ معاذ کے جیسے بڑھتے ہوئے قدم گویا کسی نے روک لیے ہوں ۔ اس نے کہا:”میرا خیال تھا میں اپنی ایک شاندار تجربہ گاہ بناﺅں گا۔ لیکن کوئی بات نہیں میں باغیچے کی چھتری کے سائے کو ہی استعمال کر لیتا ہوں۔ میں اسے اپنی ضرورت کے مطابق بنا لوں گا۔ بابا جان! آپ دیکھیے گا۔“
بابا جان نے خوش ہو کر اسے بتایا: ”بیٹا! میری ساری اُمیدیں مستقبل میں تم سے ہیں۔ میں تم میں یہی جذبہ دیکھنا چاہتا ہوں۔“
کچھ وقت کے بعد معاذ باغیچے میں دوڑتا پھررہا تھا۔ اس کے ہاتھوںمیں اس کا کیمسٹری کے سامان والا ڈبہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ ’معاذ کی تجربہ گاہ زندہ باد۔ میں آ رہا ہوں۔‘ وہ جوش سے چلا رہا تھا۔ معاذ نے اپنا سفر شروع کر دیا تھا چھوٹے چھوٹے آئیڈیاز سے بڑے بڑے منصوبوں تک کا سفر۔
٭….٭