skip to Main Content

بزدل چیتا بہادر شکاری

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔

جب میں خان صاحب کے گھر پہنچاتو وہاں حسب معمول مجمع لگا ہوا تھا۔خان صاحب بہت خوش مزاج،مہمان نواز اور یار باش آدمی تھے اور ہمارے ابا کے دوست تھے ۔ان کے گھر روزانہ شام کو بے فکروں کی محفل جمتی،خوش گپیاں ہوتیں بلکہ بعض اوقات تو صرف گپیں ہی ہوتیں۔ خاص طور پر جس دن خان صاحب کے شکاری دوست سیٹھ افریقہ والے آتے،اُس دن تو بڑے دلچسپ اور ناقابل یقین واقعات سننے کو ملتے۔اُس دن بھی سیٹھ افریقہ والا آئے ہوئے تھے اور افریقہ میں اپنے شکار کے واقعات سنا رہے تھے۔وہ دراصل افریقہ میں خاصا عرصہ رہے تھے اور وہاں ان کا کاروبار تھا۔اس لیے ان کا نام سیٹھ افریقہ والا پڑگیا۔میں خان صاحب کے گھر پہنچ کر ایک کونے میں دبک گیا جہاں دوسرے بچے اور میرے دوست ٹلّو میاں پہلے سے موجود تھے۔
جب میں خان صاحب کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو سیٹھ افریقہ والا کہہ رہے تھے”بس جناب،میرا درخت سے کودنا غضب ہو گیا۔وہ خوں خوار چیتا قریب ہی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔میرے کودتے ہی جھاڑیوں سے نکلا اور مجھ پرحملہ کرنے کوہی تھا کہ میں سر پر پیر رکھ بھاگ کھڑا ہوا۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کروں؟وہ موذی چند لمحوں میں مجھے آلیتا کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔
جنگل میں افریقہ کے لوگوں نے جانوروں کو پکڑنے کے لیے گڑھے کھود رکھے تھے اور ان پر درختوں کی شاخیں اور پتے وغیرہ ڈال کر انہیں چھپادیا تھا تاکہ جانور ان پر پاﺅں رکھیں تو گڑھے میں جا گریں۔مرتا کیا نہ کرتا۔میں نے ایک گڑھے پر سے شاخیں اور پتے ہٹائے اور اللہ کا نام لے کر غڑاپ سے اندر کودگیا۔میرا خیال تھا کہ چیتا میرا پیچھا کرتا ہوا اس چھ فٹ گہرے گڑھے میں تو کودنے سے رہا۔ لیکن صاحب،یہ دیکھ کرمیرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ چیتا گڑھے کے کنارے پر کھڑا مجھے خونی نظروں سے گھوررہاہے۔اور پھر آن کی آن میں اس نے گڑھے میں چھلانگ لگادی۔اگر میں پہلو بدل کر ایک طرف جھکائی نہ دے دیتا تو وہ ظالم سیدھا میرے اوپر ہی گرتا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شایددہشت ہی سے اس کا دم نکل جاتا لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میری پوری زندگی افریقہ کے خوف ناک جنگلوں میں درندوں سے دودو ہاتھ کرتے گزری ہے۔میں ذرا نہ گھبرایا۔“
سیٹھ افریقہ والا کا بیان لوگ بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے لیکن جب انہوں نے کچھ زیادہ ہی ڈینگیں مارنا شروع کیں تو کچھ لوگ مسکرائے بھی لیکن وہ اپنی دھن میں بے خبر کہتے گئے،”بس جناب،اُسی وقت میرے ذہن میں ایک ایسی ترکیب آئی کہ کچھ دیر کے لیے تو خود میں بھی حیران رہ گیا۔جانور آگ سے بہت ڈرتے ہیں۔میں نے سوچاکیوں نہ اسے بھی آگ سے ڈرایا جائے۔میں نے فوراً جیب سے سگرٹ لائٹر نکال کر جلایا۔چیتا مجھ پر چھلانگ لگانے والا ہی تھا کہ سگرٹ لائٹر کا شعلہ بھڑکا۔وہ دوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔اب تو میں بھی شیر ہوگیا۔میں نے آگے بڑھ کر لائٹر کے شعلے سے اس کی دا ہنی مونچھ کے بال جلانا شروع کر دیے۔چیتا اچھل کر پیچھے ہٹا اور بڑی دردناک آواز میں دھاڑا۔
اُف وہ دھاڑ!خدا کی پناہ! کم زور دل والے تو اس دھاڑ کو سنتے ہی فوت ہوجاتے،لیکن میں نے ایک بھرپورقہقہہ لگایا اورپھر ہاتھ آگے بڑھایا کہ اس کی بائیں مونچھ بھی جلادوں۔یہ دیکھتے ہی اس نے مجھے چھوڑ کر او پر چھلانگ لگائی اور گڑھے سے باہر نکلنے کوہی تھا کہ میں نے لپک کر اس کی دم پکڑلی۔اب اس کے اگلے دو پاﺅں گڑھے کے کنارے پر ہیں،پچھلے دو گڑھے کے اندر اور میں پیچھے سے اس کی دم مروڑ رہا ہوں۔ذرا سوچیے کہ کیا منظر ہوگا۔“سیٹھ افریقہ والا نے کہا اور اپنے برابر بیٹھے ہوئے ملک صاحب کی پیٹھ پر زور سے ایک ہاتھ رسید کیا۔ملک صاحب ڈر کے مارے چونکے۔سب نے قہقہہ لگایا جس میں سب سے بلند قہقہہ سیٹھ افریقہ والا کا تھا۔
خان صاحب کی نظریں تو اپنے دوست سیٹھ افریقہ والا پر تھیں لیکن ان کا ہاتھ مونچھ مروڑ رہا تھا،اور ہونٹوں پر ایک شریرسی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔دراصل انہوں نے اسی مسکراہٹ کو چھپانے کے لیے مونچھوں کو تاﺅدینے کے بہانے چہرے کے آگے ہاتھ رکھ لیا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ انہیں اپنے دوست کی باتوں پر ذرہ برابر یقین نہیں آرہا۔کچھ اور لوگ بھی بے یقینی کے عالم میں بیٹھے تھے۔البتہ بچے سہمے ہوئے تھے۔خود میرا دل دھڑ دھڑ کررہا تھا۔لیکن ٹلّو میاں کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی۔
”لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ آج اس بزدل چیتے کو چھوڑنا نہیں ہے۔“سیٹھ صاحب نے کہنا شروع کیا”کم بخت کی وجہ سے مجھے گڑھے میں گرنا پڑا تھا۔میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اب اسی کے سہارے باہر نکلوں گا۔جب اس نے دیکھا کہ میں اس کی دم نہیں چھوڑ رہا تو وہ گڑھے کا کنارہ چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہوگیا اور بڑی بے چارگی سے مجھے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ پلیز مجھے جانے دولیکن میں نے سگریٹ لائٹر آگے کردیا۔یہ اشارہ تھا اس بات کاکہ باہر نکلیں گے تو دونوں ورنہ تمہیں یہیں جلا کر خاک کردوں گا۔وہ میرا اشارہ سمجھ گیا۔اگلی دفعہ جب اس نے باہر کی طرف چھلانگ لگائی تو میں اس کی دم پکڑ کر لٹک گیا۔وہ زور لگاتا رہا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ایک ایک انچ کھسکتا ہوا تھوڑا باہر نکل گیا۔میں اس کی دم سے چمٹا ہوا تھا۔
خیر صاحب، گڑھے سے باہر نکلتے ہی میں نے اس کی دم چھوڑدی اور وہ دم دبا کر بھاگ گیا۔سوچتا ہوگا کہ یہ کون سی بلا گلے پڑ گئی۔ بزدل! گیدڑ کہیں کا!“
ابھی افریقہ والا صاحب نے اپنی بات پوری کی ہی تھی کہ ان کی گود میں ایک مردہ چوہا آکر گرا۔انہوں نے ایک ہول ناک چیخ ماری اور اچھل کر صوفے پر کھڑے ہوگئے۔چوہا بھی ان کے اچھلنے سے اچھلا اور میز پر جا گرا۔افریقہ والا نے ایک اور چیخ ماری اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ان کو ہوش میں لانے کے لیے لوگوں کو بہت محنت کرنی پڑی۔اس کے بعد ٹلّو میاں کی ڈھنڈیا پڑی۔لیکن وہ بھلا وہاں کہاں ملتے۔آخر انہیں چوہے والے ہاتھ بھی تو دھونے تھے!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top