کہاوتوں کی کہانیاں۔۳
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
الٹی گنگا بہانا
اس کہاوت کا مطلب ہے عقل کے خلاف بات کہنا یا رواج کے خلاف کرنا۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جو بالکل الٹی اور کم عقلی کی بات ہو یا ناممکن ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی ساتھی کہے:
”اسکول میں امتحان سے پہلے ہی نتیجہ آجانا چاہیے،تو آپ جواب میں کہہ سکتے ہیں،”یہ تو الٹی گنگا بہانا ہے۔“یا”تم تو الٹی گنگا بہا رہے ہو۔“
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک عورت بہت ضدی تھی۔ اس کا شوہر اس سے جو کہتا وہ اس کے برعکس کام کرتی۔ ایک روز شوہر نے تنگ آ کر کہا،”تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔“
وہ بولی،”ہرگز نہیں جاؤں گی۔“
شوہر نے کہا،”اچھا مت جاؤ۔“
کہنے لگی،”ضرور جاؤں گی۔“
شوہر بولا،”کل جانا۔“
بولی،”ابھی اور اسی وقت جاؤں گی۔“
شوہر نے کہا،”خود ہی جاؤ اکیلی۔“
کہنے لگی،”تم چھوڑنے چلو گے، اکیلی تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔“
مجبوراً شوہر اس کے ساتھ ہولیا۔ دونوں چلے۔ راستے میں دریائے گنگا پڑتا تھا۔
شوہر نے کہا،”تم ٹھہرو میں کشتی لاتا ہوں۔“
عورت بولی،”کشتی نہیں چاہئے۔ میں تیر کر جاؤں گی۔“‘
شوہر نے اسے بہت سمجھایا کہ پانی گہرا ہے اور بہاؤ بھی تیز ہے، مگر اس ضدی عورت نے ایک نہ مانی اور پانی میں کود پڑی۔ ظاہر ہے ڈوبنا تو تھا ہی۔ پانی میں غوطے کھانے لگی اور پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی جانے لگی۔ شوہر نے یہ دیکھا تو اسے بچانے کے لیے دوڑا، مگر بہاؤ کے ساتھ دوڑنے کے بجائے بہاؤ کی مخالف سمت کنارے کنارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، ”وہ پانی کے ساتھ بہہ کر نیچے کی طرف گئی ہوگی، تم بہاؤ کے الٹ اوپر کیوں اسے پکڑنے جا رہے ہو؟“
اس پر اس نے جواب دیا،”تم اسے نہیں جانتے۔ وہ بہت ضدی ہے۔ یہاں بھی الٹی گنگا بہائے گی۔“
اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا
بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی اور ترکاری اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے۔(دہلی میں بعض لوگ کھاجا کے بجائے”مکھن بڑا“ بھی بولتے تھے۔) کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بےوقوف یا نالائق ہو تو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہو جاتی ہے۔
یہ کہاوت عام طور پر ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ، ملک، شہر یا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے برے کی تمیز نہیں، بد نظمی ہے، لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزرے جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی۔ چاہے سبزی ہو یا مٹھائی۔ سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے، یعنی ایک ٹکے کی ایک سیر(ٹکا آدھے آنے کو کہتے تھے۔ایک آنے میں چار پیسے ہوتے تھے۔بعد میںایک آنہ چھ پیسے کا ہونے لگا۔اب آنہ ختم ہوگیا ہے۔اب رپے میں صرف پیسے ہوتے ہیں۔ٹکے کا مطلب ہوا دو پیسے۔ٹکے سیرسے مراد ہے بہت سستا۔)اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا۔ گرو سے کہنے لگا،”یہیں رہ جاتے ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔“گرو نے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں جہاں اچھے اور برے میں کوئی فرق نہیں، لیکن چیلا نہ مانا۔ گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھا کھا کر خوب موٹا ہوگیا۔ ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے مار دیا۔ سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑ سکے۔ مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے۔ راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اندھیر نگری تو تھی ہی اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا۔ اس بےوقوف راجا نے حکم دیا،”کوئی بات نہیں، جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔ شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہو اسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔ انصاف ہو جائے گا۔“
ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور چلے پھانسی دینے۔ اتفاق سے گرو جی دوبارہ وہاں سے گزرے۔ چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی۔
گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا،”میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہاں برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں۔ خیر اب کوئی تدبیر کرتا ہوں۔“
یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا، ”اسے چھوڑ دو، مجھے پھانسی دے دو، تمہاری مہربانی ہوگی۔“
سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا،”کیوں؟“
گرو نے جواب دیا،”اس لیے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنّت میں جائے گا۔“
یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے۔
کوتوال نے یہ سنا تو کہا،”سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔“
اس طرح پورے شہر میں”مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو“کا شور مچ گیا۔
راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا، ”جنت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے۔ پہلے مجھے پھانسی دو۔“
پس راجا کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح چیلے کی جان بچی اور گرو جی اسے لے کر بھاگے۔
یہ منہ اور مسور کی دال
اس کہاوت کا مطلب ہے کہ یہ منہ اس کام یا ذمہ داری کے قابل نہیں اور اسی منہ سے کہتے ہو کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی سے یہ کہنا ہو کہ تم نالائق ہو اور فلاں کام نہیں کر سکتے۔مثلاً کوئی طالب علم پڑھنے لکھنے میں پھسڈی ہو اور کہے کہ میں پورے اسکول میں اول آﺅں گا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ”یہ منہ اور مسور کی دال۔“
اس کا قصّہ بھی سنیے۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا باورچی ایک نواب کے ہاں نوکر ہوگیا۔
نواب نے اس سے پوچھا، ”تم کیا چیز سب سے اچھی پکاتے ہو؟“
وہ بولا،”مسور کی دال ایسی مزید ار پکاتا ہوں کہ جو کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔“
نواب نے کہا، ”اچھا کل ہمارے ہاں دعوت ہے۔ کل ہی مسور کی دال پکا کر دکھاؤ تو جانیں۔“
باورچی نے ہامی بھر لی۔ اگلے روز شامیانہ بندھا۔ مہمان آئے۔ باورچی نے مسور کی دال طشتری میں نکال کر پیش کی۔ پورا شامیانہ مہک اٹھا۔ نواب صاحب آئے۔ دال چکھی۔ واقعی ایسی ذائقے دار اور مزیدار دال کبھی نہ کھائی تھی۔ اَش اَش کر اٹھے، لیکن تھے آخر کو کنجوس، خرچ کا خیال آگیا۔ بادشاہ ہوتے تو خرچ کی فکر نہ کرتے، لیکن باورچی بادشاہ کے محل میں کام کر چکا تھا۔ دل کھول کر خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اس لےے جب نواب صاحب نے پوچھا کہ دال تو بہت مزے کی ہے، مگر خرچ کتنا اٹھا، تو باورچی کو بہت برا لگا۔
ضبط کر کے بولا،”دو آنے کی دال ہے، بتیس روپے کا مسالا ہے۔“
سستا زمانہ تھا۔ نواب صاحب اتنی مہنگی دال کا سن کر چیخ پڑے،”کیا کہا! بتیس روپے دو آنے کی مسور کی دال!“
باورچی تو بھرا بیٹھا تھا۔ طیش میں آکر جیب سے بتیس روپے دو آنے نکال کر رکھ دیے اور دال کا برتن زمین پر پٹخ دیا اور کہا،”اونھ! یہ منہ اور مسور کی دال۔“
یہ کہہ کر چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ دال شامیانے کے جس بانس پر گری تھی وہ کچھ روز بعد مسالے کے اثر سے سر سبز ہوگیا اور اس طرح یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔
بھیگی بلی بتانا
اردو میں ایک محاورہ ”بھیگی بلی بن جانا“ہے۔اس کا مطلب ہے کمزور اور سیدھا سادہ بن جانا یا ڈر کر چپ ہو جانا۔ اس کو یوں بھی بولتے ہیں،”بھیگی مرغی بن جانا۔“لیکن” بھیگی بلی بتانا“کہاوت ہے جس کا مطلب ہے سستی کی وجہ سے بہانہ کرنا، ٹالنا، کام نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ کر دینا، کام چوری کرنا۔ اگر کوئی شخص کام کو ٹالنے کے لیے کوئی بہانہ کرے تو کہا جاسکتا ہے، ”یہیں پر بیٹھے بیٹھے بھیگی بلی بتا رہے ہو۔“
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنے نوکر سے لیٹے لیٹے پوچھا،” کیا باہر بارش ہو رہی ہے؟“
نوکر بھی چارپائی پر پڑ اینڈ رہا تھا۔ نیند آ رہی ہو تو کس کا جی اٹھنے کو چاہتا ہے۔اس نے وہیں پڑے پڑے کہہ دیا،”ہاں جی ہو رہی ہے۔“
ان صاحب نے کہا، ”تم عجیب آدمی ہو۔ باہر گئے نہیں اور دیکھے بغیر کہہ دیا کہ ہاں ہو رہی ہے۔“
نوکر نے جھٹ بہانہ کیا،”ابھی بلّی باہر سے آئی تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ بھیگی ہوئی تھی۔“
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فوراً دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا ”اوسط گہرائی چار فٹ۔“ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔پریشان ہو کر بولے:
”حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟“
اس کہاوت کو یوں بھی بولا جاتا ہے،”حساب جیوں کا تیوں کنبہ ڈوبا کیوں؟“لیکن امید ہے کہ نونہال اوسط کے قاعدے کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد دریا پار کریں گے۔لہٰذا یہ کہنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ویسے اوسط کا قاعدہ بڑی عجیب چیز ہے۔اگر اسے سمجھا نہ جائے تو وہی لطیفہ ہوگا جو اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرحمن صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے۔
ایک گھر میں دس آدمی رہتے تھے۔ایک کاانتقال ہوگیا۔کسی حساب دان نے اوسط کے قاعدے سے بتایا کہ اس گھر کے افراد نوے فی صد زندہ ہیں اور جو غریب مرگیا ہے وہ صرف دس فی صد مرا ہے۔