بڈھا الیون، بچہ الیون
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے پاکستان نے ورلڈ کرکٹ کپ کا فائنل جیتا تھا تب سے کرکٹ کے بخار نے پورے قصبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔جسے دیکھو اس بیماری میں مبتلا تھا۔کئی لوگ سڑک پر چلتے چلتے خالی ہاتھ گھما کر باﺅلنگ کی مشق کرتے پائے جاتے تھے۔کئی باقاعدہ ٹیمیں وجود میں آ چکی تھیں اور جمعے کے جمعے ان کے میچ ہوتے تھے۔چھوٹے تو چھوٹے،بڑے بھی گیند بلا لے کر میدان میں پہنچ جاتے تھے۔آخر جب کرکٹ کا یہ جوش و خروش اتنا بڑھ گیا کہ ضبط سے باہر ہونے لگا تو قصبے میں اعلان ہوا کہ بقرہ ا عید کے دوسرے روز ایک شاندار میچ کھیلا جائے گا۔
ہمارا قصبہ چھوٹا سا ہے۔ اسے ایک بڑا سا گاؤں سمجھ لیجئے۔ ہمارے دوست ٹلّو میاں کے والد قصبے کے رئیسوں میں شمار ہوتے ہیں اور یونین کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس میچ کا انتظام انہوں نے ہی کروایا تھا کیونکہ وہ کرکٹ کے بہت شوقین ہیں۔
میچ کا اعلان ہونا تھا کہ پورے قصبے میں ہلچل مچ گئی۔ ہر شخص کمرکس کے میچ کھیلنے کے لیے تیار ہوگیا۔ بکراعید میں تین چار روز باقی تھے۔ لڑکے بالوں نے بکروں اور گایوں کو بہلانے کا شغل چھوڑ کر گیند بلے سنبھال لیے اور میچ کیلئے پریکٹس شروع کر دی ۔ ادھر بڑوں نے بھی طاقت کی دوائیں کھانی شروع کر دیں اور روزانہ ڈنڈ پیلنے شروع کر دیے۔دو ٹیمیں بنائی گئی تھیں۔ ایک میں بڑی عمر کے لوگ شامل تھے اور دوسری میں بچے اور لڑکے۔ منچلے لڑکوں نے ان ٹیموں کے نام بھی رکھ دیے تھے۔ ایک ٹیم کانام بچہ الیون اور دوسری کا بُڈھا الیون تھا، لیکن ٹیموں میں الیون یعنی گیارہ گیارہ کی بجائے تیس تیس چالیس چالیس کھلاڑی شامل ہونا چاہتے تھے۔ ہر بچہ، جوان اور بوڑھا کھیلنا چاہ رہا تھا۔ آخر سب کو سمجھا بجھا کر دو ٹیمیں بنا لی گئیں جن میں گیارہ گیارہ باقاعدہ کھلاڑی اوردودو فالتو کھلاڑی رکھے گئے۔ باقی لوگ تماشائیوں میں شامل ہوگئے۔
قصبے میں ایک ہی میدان تھا جس کی کوئی چاردیواری نہ تھی ۔ ایک طرف گھنی جھاڑیاں تھیں ۔ دوسری طرف گندے پانی کا جوہڑ ۔ تیسری طرف درختوں کے جھنڈ اور چوتھی طرف ایک سڑک تھی ۔میچ ظاہر ہے کہ اسی میدان میں ہونا تھا ۔ ہم اور ٹلّو میاں بچہ الیون میں شامل تھے۔ ایک روز ہم دونوں میدان میں پہنچے۔ وہاں قربانی کے جانور بندھے ہوئے تھے اور چاروں طرف گوبر پھیلا ہوا تھا ۔ یہ دیکھ کر ہمارے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ٹلو میاں کے والد کو ہم نے یہ بات بتائی تو بڑی مشکل سے سے انہوں نے میدان خالی کروایا۔
خیر صاحب خدا خدا کرکے عید آئی۔ سب نے قربانی کا گوشت کھا کر جان بنائی۔ اس کے بعد باسی عید کا دن طلوع ہوا۔ تماشائیوں نے دھاوا بول دیا۔ کہیں دل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سڑک کے کنارے اور درختوں کے جھنڈوں میں آدمی ہی آدمی تھے ۔ کئی لڑکے درختوں پر چڑھے ہوئے تھے ۔ بعض لوگ ڈھول اور بھونپو لائے تھے ۔ غرض جب میچ شروع ہوا تو تالیوں اور سیٹیوں کے شور میں ڈھول اور بھونپوکا شور بھی شامل تھا۔
ہماری ٹیم کے کپتان فرحان بھائی تھے جبکہ بڈھا ٹیم میں ہر شخص کپتان بننا چاہتاتھا۔ بڑی مشکل سے فیصلہ ہوا کہ یہ چاچا رمجو اُن کے کپتان ہوں گے، کیونکہ ان کی عمر سب سے زیادہ تھی۔ یہی کوئی 70 برس۔فرحان بھائی کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں، اس لئے ہم سب نے ان کو اپنا کپتان مان لیا تھا۔ خیر صاحب تالیوں کی گونج میں ٹاس ہوا۔ رمجو بھائی ٹاس جیت گئے اور ان کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرنے کی ٹھانی۔ میچ 25 اوور کا تھا یعنی ہر ٹیم کو 25 اوور کھیلنے تھے۔
میچ شروع ہونے میں کچھ دیر ہو گئی ، کیونکہ بڈھا ٹیم کا ہرکھلاڑی پہلے خود کھیلنا چاہتا تھا ۔ آخر بڑی مشکل سے رمجو بھائی نے ڈانٹ ڈپٹ کرکے فضلو قصائی اور ماسٹر حیدر کو اوپننگ پر بھیجا۔فضلو کی قصبے میں گوشت کی دکان تھی ۔ جب وہ بیٹنگ کرنے پہنچا اور بلاکریز پر رکھ کر اسے ہلکے ہلکے زمین پر مارا تو لڑکے چلانے لگے ،”اوئے !گوشت کا ٹ رہا ہے کہ کرکٹ کھیل رہا ہے؟“ اس پر فضلو بپھر گیا اور بلا تماشائیوں کی طرف ہلا کر بولا،” اب اگر کسی نے آواز نکالی تو کھال اتار کر سری پائے بنادوں گا۔“
اس پر کچھ دیر کے لئے تو سناٹا چھا گیا لیکن پھر ایسا شور اٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ فضلو قصائی پہلی ہی گیند پر بولڈ آؤٹ ہوگیا اور جھلایا ہوا سا واپس پویلین کی طرف چلا گیا ۔ پویلین کیا تھا ؟پندرہ بیس کرسیاں درختوں کے نیچے لگا دی گئی تھیں اور ان کے پاس پانی کا مٹکا رکھا ہوا تھا۔
اگلا بلے باز شمیم بقّال تھا ۔ اس کی سبزی کی دکان تھی ۔ تماشائیوں نے اسے وکٹ پر جاتا دیکھ کر،” آلو ٹنڈے آلو ٹنڈے ۔“ کا شور مچادیا، لیکن وہ مسکراتا رہا اور اگلی پانچ گیندیں آرام سے کھیل لیں ۔ اب اوور ختم ہوا اور ہم نے گیند کرنی شروع کی ۔ ماسٹر حیدر بلا سنبھالے سامنے کھڑے تھے چونکہ استاد ہونے کی وجہ سے لڑکے ان کا احترام کرتے تھے اس لیے کسی نے کچھ نہ کہا ،البتہ میچ دیکھنے والے چند لڑکوں نے گلے پھاڑ پھاڑ کر ایک آواز میں پہاڑ ے پڑھنے شروع کر دیے،” دواِ کم دو، دو دونی چار….“
لیکن ماسٹر حیدر ڈٹے رہے اور دبادب رن بناتے رہے۔پانچ اووروں کے بعد بڈھا ٹیم نے 16 رن بنا لیے تھے اور اُن کا ایک ہی کھلاڑی آؤٹ تھا ۔ اگلے اوور میں ماسٹر صاحب نے فرمان کی گیند کی خوب پٹائی کی۔ ان کا ایک چھکا تو پویلین میں رکھے ہوئے مٹکے پر جاکر لگا جس سے وہ ٹوٹ گیا۔ اس پر تماشائیوں نے خوب داد دی۔ اسکور اب دس اووروں میں 50 رنز تھا ۔ اب تو ہمارے کھلاڑی بڑے گھبرائے ۔وہ ان بڑوں کو آؤٹ کرنا آسان سمجھ بیٹھے تھے۔
فرحان بھائی کے جی میں خدا جانے کیا آئی کہ انہوں نے ٹلو میاں کو گیند دی۔ اب ٹلومیاں کی گیند کا حال کیا بتائیں۔ بے چارے کبھی سیدھی گیند کراہی نہ سکتے تھے اور جو کبھی غلطی سے سیدھی گیند پڑ بھی جاتی تو وکٹ پر پہنچنے سے پہلے چھ سات ٹپے کھاتی اور پھر کہیں آدھے راستے ہی میں آرام کرنے لیٹ جاتی۔ اس دن بھی یہی ہوا۔ ٹلومیاں کی پہلی گیند وکٹوں سے چھ سات گز دور تھی۔ تماشائیوں نے اس پر خوب تالیاں بجائیں ۔اگلی گیند وکٹوں پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑ گئی۔ اس پر خوب ڈھول اور بھونپو بجائے گئے ۔لوگوں نے قہقہے لگائے۔ اس پرٹلومیا ںکو تاؤ آگیا۔
اس کے بعد غصے میں آ کر انہوں نے جو کھیل پیش کیا، وہ قصبے والے مدتوں یاد رکھیں گے۔ خدا جانے ان میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی۔ کئی گز دور سے بھاگ کر جو گیند کرائی تو وہ اتنی تیز تھی کہ بے چارے ماسٹر صاحب کو نظر ہی نہ آئی اور وکٹ صاف اڑا گئی۔ اگلے کھلاڑی وکیل صاحب تھے۔ بیچارے جیسے آئے تھے ویسے ہی چلے گئے۔ پہلی ہی گیند پر ہم نے ان کا کیچ لے لیا ۔ اس کے بعد تو” تو چل میں آیا“ کا سا سماں بندھ گیا ۔ ٹلو میاں ایک کے بعد ایک سب کو آؤٹ کرتے چلے گئے ۔بیسویں اوور میں ان کا اسکور 60 تھا اور 9 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ ٹلو میاں نے سات وکٹ لیے تھے۔
اب آخری جوڑی رہ گئی تھیں۔ بڈھا ٹیم کے کپتان رمجو بھائی ہانپتے کانپتے وکٹ پر آئے۔ سب کا خیال تھا کہ یہ گئے کہ وہ گئے ، لیکن اس اللہ کے بندے نے آؤٹ ہونے کا نام ہی نہ لیا۔ شاید وہ طے کرکے آئے تھے کہ نہ تو آﺅٹ ہوں گے اور نہ رن ہی بنائیں گے۔ ان کے سامنے دوسرے بلے باز ولی بھائی تھے۔ یہ حضرت حلیم بیچا کرتے تھے۔ ولی بھائی جب بھی بلا اٹھاتے لڑکوں کی آوازیں آتیں، ”دیگ میں چمچہ چلا رہا ہے۔“ آخر فرحان بھائی نے ولی بھائی کو رن آؤٹ کر دیا۔ ہوا یہ کہ والی بھائی تو ہٹ لگا کر رن لینے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن رمجو بھائی کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ ولی بھائی بہت چلائے کہ بھاگو !بھاگو !لیکن رمجو بھائی کو بڑھاپے کی وجہ سے کم سنائی دیتا تھا۔ ولی بھائی ان کے پاس پہنچ کر انہیں بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگے لیکن وہ وہیں جمے کھڑے رہے۔ اب ولی بھائی انہیں چھوڑ کر اپنی وکٹ بچانے واپس بھاگے تو فرحان بھائی نے انہیں رن آوٹ کردیا۔
لیجئے صاحب بڈھا ٹیم 60 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی ۔اب ہماری ٹیم کی باری آئی۔ ہمارا خیال تھا کہ پچیس اوور میں 60 رن بنانا کیا بڑی بات ہے۔ اسی لئے ہمارے دونوں اوپنر آصف اور عامر اکڑتے ہوئے بیٹنگ کرنے آئے، لیکن کسی نے سچ کہا ہے کہ غرور کا سر نیچا۔ ابھی 12 رن بنے تھے اور ہمارے5 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ سب نے باؤلنگ کو کمزور سمجھ کر بڑھ بڑھ کر شاٹ مارنے کی کوشش کی تھی ۔ کوئی کیچ آؤٹ ہو گیا اور کسی کی وکٹیں اڑ گئیں۔
اب ہم سب بڑے گھبرائے اور خدا سے دعائیں مانگنے لگے۔ فرحان بھائی اور ہماری جوڑی کچھ دیر جمی اور دونوں نے مل کر بیس رن بنائے ، لیکن پھر دونوں ہی آؤٹ ہوگئے، اب سجا داورٹلومیا ںوکٹ پر تھے۔ رمجو بھائی کی ایک گیند پر ٹلو میاں نے ایسا زوردار شاٹ کھیلا کہ گیند میدان سے باہر سڑک پر جانے والے ایک ٹرک میں جا گری ۔ ایک دو فیلڈر اس کے پیچھے دوڑے لیکن ٹرک پشاور جا رہا تھا۔ آخر امپائر نے چھکے کا اشارہ دیا اور دوسری گیند نکالی گئی ۔ اگلی گیند پر ٹلومیاں نے جو ہٹ لگائی تو وہ اڑتی ہوئی گندے پانی کے جوہڑ کی طرف گئی اور فضلو قصائی نے اس کا پیچھا کیا ۔ گیند جوہڑ میں جاگری اور اس کے پیچھے فضلونے بھی چھلانگ لگا دی ۔جب وہ گیند تلاش کرکے باہر نکلا تو حلیہ بگڑا ہوا تھا ۔ کسی نے ہانک لگا ئی،” لو بھائی !خود اپنے ہی سری پائے بنا دیے۔“
ہمارا اسکور 42 تھا۔ سات کھلاڑی آوٹ ہو چکے تھے اور دواوور باقی تھے۔ اب رمجو بھائی نے گیند وکیل صاحب کو دی۔ وکیل صاحب وکٹ سے کوئی بیس قدم پیچھے گئے ۔آستینیںچڑھائیں،خوب کھانسے،۔ چھینکے، پھر جوتے کے تسمے کس کے باندھے، پتلون ٹھیک کی اور اس کے بعد جیب میں سے رومال نکال کر عینک کے شیشے صاف کرنے لگے ۔تماشائیوں نے انتظار سے تنگ آکر ایسا شور مچایا کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گئے ، لیکن وکیل صاحب یونہی کھڑے عینک کے شیشے رگڑتے رہے۔
آخر امپائر نے کھنکار کر انہیں توجہ دلائی۔ اس پر انہوں نے پہلے امپائر کو اور پھر تماشائیوں کو گھور کر دیکھا۔ پھر یہ کہہ کر گیند کپتان رمجو بھائی کو دے دی کہ میں منگل کے دن گیند نہیں کراتا۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ آج منگل نہیں جمعہ ہے ۔ یہ سن کر انہوں نے سر کھجایا اور بڑے آرام سے ہاتھ گھما کر ایک مریل سی گیند کرائی ۔سجاد نے آگے بڑھ کر ہٹ لگائی تو گیند تارا ہوگئی ۔ یہ چھکا تھا۔ تالیوں کے ساتھ بھونپو اور ڈھول بھی بچنے لگے۔ میچ کے آخری دلچسپ لمحات دیکھنے پورا قصبہ امڈ آیا تھا۔ اگلی گیند اس سے بھی سست تھی۔ سجاد نے پھر ہٹ لگائی لیکن یہ کیا؟ رمجو بھائی نے بجلی کی سی تیزی سے اچھل کر چھلانگ لگائی اور کیچ لے لیا ۔ کھلاڑی مارے خوشی کے دیوانے ہو گئے۔ انہوں نے کپتان کو کندھوں پر اٹھا لیا ۔ ان کو جیت سامنے نظر آ رہی تھی۔
پھر ہمارے چھوٹے سے وکٹ کیپر فی فی کھیلنے آئے۔ وہ ناک سُڑسُڑ کرتے آئے اوراسی اوور کی آخری گیند پر بولڈ ہوگئے۔ وکیل صاحب نے اس اوور میں دو وکٹیں لی تھیں لیکن ابھی ہماری آخری امید یعنی ٹلومیا ںباقی تھے۔ انہوں نے اگلے اوور میں پھر دو چوکے لگا دیے۔ میچ جیتنے کے لیے آخری اوور میں پانچ رن درکار تھے اور صرف ایک وکٹ باقی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ باؤلر کا سامنا ٹلو میاں کے بجائے بھائی ادریس کر رہے تھے اور بھائی ادریس بیٹنگ میں بالکل کل کورے تھے ۔ٹلومیاںنے بھائی ادریس کو سمجھایا کہ کسی طرح ایک رن لے کر دوڑ جانا تاکہ میری بیٹنگ آجائے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ باؤلر کے ہاتھ سے گیند چھوٹتے ہی دوڑ پڑے۔ ساتھ ہی ٹلومیا ںکو” دوڑو!دوڑو!“ کی آواز لگاتے گئے۔ ادھر ٹلو میاں بھی بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ خدا کا شکر ہے کہ گیند آڑی ترچھی تھی ،اس لئے وکٹ سے دور نکل گئی۔ اس سے پہلے کہ وکٹ کیپر گیند کو پکڑتا ۔ دونوں اپنی اپنی کریز میں پہنچ چکے تھے۔ امپائر نے بائی کا اشارہ کیا ۔ ایک رن کا اضافہ ہوچکا تھا۔ اب پانچ گیندوں میں چار ن چاہیے تھے۔ اگلی تین گیندیں بہت تیز تھیں اور ٹلو صاحب انہیں بڑی مشکل سے روک سکے تھے ۔رن کیا خاک بنتا۔ اب آخری گیند تھی اور اسکور 57۔
ہم سب دل ہی دل میں دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ! ہماری عزت رکھیو۔ آخری گیند کے لئے باؤلر نے بھاگنا شروع کیا تو ہمارے دل بری طرح دھڑکنے لگے ۔گیند آئی۔ ہٹ لگی۔ اونچا شاٹ تھا۔ گیند باؤنڈری لائن کی طرف جا رہی تھی۔ وہاں ایک فیلڈر موجود تھا۔ دونوں بلے باز رن لینے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ فیلڈر نے ہاتھ اٹھائے۔ گیند اس کے ہاتھوں میں آگئی…. اور آکر نکل گئی ، اور باؤنڈری لائن پارکرگئی۔ ہم میچ جیت چکے تھے!
تماشائی میدان میں داخل ہوگئے اور ٹلومیاں کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ انہیں ہار پہنائے گئے اور ان کا شان دار جلوس نکالا گیا۔
آج بھی اس میچ کا خیال آتا ہے تو ہم بے خیال میں اپنی خیالی مونچھوں پر تاؤ دینے لگتے ہیں۔(آخر کسی روز تو نکلیں گی، تب اُن پر تاؤ دینے کا صحیح لطف آئے گا)۔