رِپ وین وِنکل
تحریر: واشنگٹن اِروِنگ
ترجمہ: ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک پرانا گاﺅں ہے۔ اس علاقے میں سفر کرنے والوں نے کاٹس کِل کے پہاڑوں کے قدموں میں آباد اس گاﺅں کے مکانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتے دیکھا ہوگا۔
ان مکانوں کی ڈھلوان چھتیں درختوں کے درمیان چمکتی ہیں۔ اس گاﺅں کو صدیوں پہلے ہالینڈ سے امریکا آنے والے لوگوں نے آباد کیا تھا۔ بعض مکانوں میں ابھی تک ہالینڈ سے لائی ہوئی پیلے رنگ کی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ بعض مکانوں کی چھتوں پر مرغ بادنما لگے ہوئے ہیں اورمکانوں کا طرز تعمیر ہالینڈ کا سا ہے۔ بعض مکانوں کے سامنے کے حصے تکونی چھت والے ہیں۔
اس گاﺅں کے سب سے پرانے اور خستہ حال مکان میں ایک سیدھا سادہ اور نیک طبیعت کا آدمی رہتا تھا۔ اس کا نام ’رِپ وین وِنکل‘ تھا۔ وہ ایک اچھا پڑوسی اور فرماں بردار شوہر تھا۔ اس کی سیدھی ساتھی طبیعت کی وجہ سے لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے۔
گاﺅں کے بچے بھی رِپ کو دیکھتے ہی خوشی سے چلانے لگتے۔ رِپ بچوں کے کھیل میں ان کی مدد کرتا۔ ان کے کھلونے ٹوٹ جاتے تو ان کی مرمت کردیتا، اُنھیں پتنگ اُڑانا اور کنچے کھیلنا سکھاتا اور اُنھیں بھوتوں، جادوگروں اور ریڈ انڈینوں کی کہانیاں سناتا۔ جب وہ گاﺅں سے گزرتا تو بچے اُسے گھیر لیتے۔ کوئی اس کے کپڑے پکڑ کر لٹک جاتا اور کوئی اس کے کندھے پر چڑھ جاتا۔ بچے اس کے ساتھ شرارتیں بھی کرتے، کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ رِپ انھیں کچھ نہیں کہے گا۔ گاﺅں کے کتے بھی رِپ سے اتنے ہلے ہوئے تھے کہ وہ اس پر کبھی نہیں بھونکتے تھے۔
مگر رِپ میں ایک خامی تھی، وہ کوئی ایسا کام نہ کرتا تھا جس سے اسے کچھ آمدنی ہوتی۔ وہ سارا سارا دن مچھلی پکڑنے کی ایک لمبی سی بھاری سی بنسی لیے کانٹے پر چارا لگائے بیٹھا رہتا لیکن کوئی مچھلی کانٹے میں تو کیا پھنستی چارے پر منھ تک نہ مارتی۔ اس پر رِپ کو مچھلیوں سے یا اپنی قسمت سے ذرا شکایت نہ ہوتی۔
مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کے علاوہ رِپ وین ونکل کندھے پر بندوق رکھے گھنٹوں جنگل میں اور وادیوں میں مارا مارا پھرتا مگر اسے کوئی شکار نہ ملتا سوائے گلہریوں اور جنگلی کبوتروں کے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ محنت سے جی چراتا تھا۔ وہ اپنے پڑوسیوں کی مدد سے کبھی انکار نہ کرتا، چاہے ان کا کام کتنا ہی سخت کیوں نہ ہوتا۔ وہ مکئی سے بھوسہ الگ کرنے اور کھیتوں کی باڑھ بنانے میں ان کی مدد کرتا۔ گاﺅں کی عورتیں بھی رِپ سے چھوٹے موٹے کام کروالیتیں۔
مختصر یہ کہ رِپ صاحب سب کا کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ سوائے خود اپنے کام کے۔ اپنے کھیت میں کام کرنا رِپ کو ناممکن لگتا۔ بلکہ رِپ نے اعلان کردیا تھا کہ خود اس کے کھیت میں کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ اس کے کھیت کی زمین علاقے میں سب سے خراب ہے اور کھیت میں کام کرتے ہوئے ہر دفعہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ایک تو کھیت کی باڑھ اکثر ٹوٹتی رہتی۔ اس کی گائے یا تو کھوجاتی یا کھیتوں میں گھس کر فصل کو برباد کردیتی۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اس کے کھیت میں جنگلی گھاس دوسرے کھیتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اُگتی ہے اور یہ کہ وہ جب بھی کھیت میں کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے بارش ہونے لگتی ہے۔ اس کے ان بہانوں سے اس کی زمین آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سے نکلتی گئی اور آخر اس کے پاس زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی رہ گیا جس پر وہ آلو اور مکئی اگایا کرتا تھا۔
رِپ وین ونکل کے بچے بھی اس کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہنتے اور اس کی طرح مارے مارے پھرتے جیسے ان کا کوئی وارث نہ ہو۔ اس کا بیٹا رِپ وین ونکل جونیئر اپنے باپ یعنی رِپ کے پرانے کپڑوں کے ساتھ ان کی عادتوں کو بھی اپناتا جارہا تھا۔
لیکن رِپ وین ونکل ان لوگوں میں تھا جو اپنی سادہ اور خوش رہنے والی طبیعت کی وجہ سے ہنسی خوشی زندگی گزارلیتے ہیں۔ چاہے اُنھیں روکھی سوکھی کھانے کو ملے یا چُپڑی، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس وہ کم سے کم محنت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر رِپ کو محنت کرکے ایک روپیہ مل سکتا تو وہ بغیر محنت کیے ایک پیسہ ملنے پر خوش رہتا۔ اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ ساری زندگی سیٹیاں بجاتے ہوئے اطمینان سے گزار دیتا مگر اس کی بیوی ڈیم وین ونکل اس کی کاہلی اور بے پروائی پر اسے ہر وقت ڈانٹتی رہتی تھی۔ صبح ہو یا شام ڈیم وین ونکل کی زبان ہر وقت چلتی رہتی۔ رِپ کے پاس اس کی باتوں کا ایک ہی جواب تھا اور وہ یہ کہ رِپ اپنے کندھے اُچکاتا، سر ہلاتا اور آنکھیں اوپر چڑھالیتا لیکن منھ سے کچھ نہ کہتا۔ یہ جواب وہ اتنی بار دیتا تھا کہ اب کندھے اُچکانا، سر ہلانا اور آنکھیں چڑھانا اس کی عادت بن گئی تھی لیکن یہ جواب اس کی بیوی کے غصے کو اور تیز کردیتا اور رِپ اس کے غصے سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکل جاتا۔
رِپ کی گھر میں سب سے زیادہ اپنے کتے سے بنتی تھی جس کا نام وولف تھا۔ وولف بھی رِپ کی بیوی سے اتنا ہی ڈرتا تھا جتنا خود رِپ۔ رِپ کی بیوی وولف کو اکثر غصے سے دیکھتی تھی، کیوں کہ رِپ اور وولف دونوں اکثر ایک ساتھ گھر سے غائب ہوجاتے تھے۔ وولف بڑا بہادر کتا تھا لیکن رِپ کی بیوی کے غصے کے سامنے اس کی ساری بہادری ہوا ہوجاتی تھی۔ گھر سے باہر اور جنگلوں میں وولف کی بہادری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی لیکن گھر میں گھستے ہی اس کے اوپر کو اُٹھے ہوئے کان نیچے جھک جاتے، دُم لٹک جاتی یا پچھلی ٹانگوں کے درمیان دب جاتی اور وہ چپ چاپ مسکین بنا رِپ کی بیوی کو دیکھتا رہتا لیکن اس کے ہاتھ سے جھاڑو کھاتے ہی ٹیاﺅں ٹیاﺅں کرتا گھر سے باہر لپکتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رِپ کے لیے زندگی مشکل ہوتی گئی، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رِپ کی بیوی کا غصہ بڑھتا گیا اور زبان تیز ہوتی گئی۔ ایک عرصے تک رِپ کی بیوی کے غصے سے بچنے اور دل بہلانے کے لیے وقت کا زیادہ حصہ گاﺅں کے ان کاہل اور بے فکرے لوگوں کے ساتھ گزارتا جو گاﺅں کی چھوٹی سی سرائے کے باہر بینچ پر جمع ہوتے تھے۔ سرائے کی دیوار پر انگلستان کے بادشاہ جارج سوم کی تصویر لگی تھی (اس زمانے میں امریکا پر انگلستان کی حکومت تھی) یہ لوگ وہاں بیٹھے سارا دن گپیں ہانکتے اور ایک دوسرے کو عجیب عجیب بے تکی کہانیاں سناتے رہتے۔ سرائے میں ٹھہرنے والے کسی مسافر کا کوئی پرانا اخبار اگر کہیں کبھی ان کے ہاتھ لگ جاتا تو پھر ان کی باتیں سننے سے تعلق رکھتیں۔ گاﺅں کے اسکول کے استاد ڈیرک وین بمل سے وہ لوگ اخبار پڑھوا کر سنتے اور واقعات پر بحث کرتے جو مہینوں پہلے ہوچکے ہوتے۔
ان بے فکروں کی ٹولی میں سرائے کے مالک نکولس ویڈر کی راے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ نکولس ویڈر سارا دن سرائے کے باہر درخت کے سائے میں بیٹھا رہتا اور جیسے جیسے دھوپ آگے بڑھتی وہ اپنی جگہ بدلتا رہتا لیکن وہ بولتا کم تھا اور اپنی رائے پائپ کا دھواں اُڑا کر ظاہر کرتا تھا۔ اگر کسی خبر پر اسے ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا تو وہ پائپ کے تیز تیز کش لگاتا اور ڈھیر سارا دھواں جھٹکوں سے چھوڑتا اور جب کسی بات پر خوش ہوتا تو بڑے آرام سے کش لیتا اور بڑے سکون سے آہستہ آہستہ دھواں چھوڑتا اور ایسے میں کبھی کبھی منھ سے پائپ ہٹا کر دھوئیں کے مرغولے اپنی ناک کے آس پاس جمع ہونے دیتا اور پھر سر ہلا ہلا کر اشارے سے ہاں کہتا۔
لیکن اس محفوظ جگہ پر بھی رِپ اپنی بدمزاج بیوی سے ہار جاتا تھا جو اچانک ان کی محفل کے سکون کو درہم برہم کرکے وہاں موجود تمام لوگوں کو نکھٹو اور کاہل کہتی۔ سرائے کا مالک نکولس ویڈر بھی رِپ کی بیوی کی تیز زبان سے نہ بچ سکتا اور وہ اس سے کہتی کہ تم میرے شوہر کو اپنی طرح کاہل بنارہے ہو۔
اب رِپ بے چارہ بالکل ہی مایوس ہوگیا۔ اس کے لیے جان بچانے کا اب ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ کھیتوں میں محنت کرنے سے بچنے اور بیوی کے غصے سے ڈر کر وہ اپنی بندوق اُٹھا کر اپنے کتے وولف کے ساتھ جنگلوں میں نکل جاتا۔ جنگل میں وہ کبھی کسی درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا اور اس کے پاس جو کچھ کھانے کو ہوتا وہ اور وولف مل کر کھاتے۔ وہ وولف سے کہتا کہ ”میرے دوست وولف! میری اور تمھاری زندگی تمھاری مالک نے برباد کردی ہے مگر فکر نہ کرو، جب تک میں زندہ ہوں تمھیں کسی اور دوست کی ضرورت نہیں۔“ وولف یہ سن کر اپنی دُم ہلانے لگتا اور خوش ہو کر رِپ کی طرف دیکھتا جیسے وہ بھی رِپ سے یہی کہہ رہا ہو۔
ایک دن رِپ اور وولف اسی طرح گھر سے نکل گئے اور گھومتے گھامتے بے خیالی میں کاٹس کِل کے پہاڑوں کی سب سے اُونچی چوٹی پر جا پہنچے۔ رِپ اپنے پسندیدہ کھیل یعنی گلہریوں کے شکار میں مصروف تھا اور اس کی بندوق سے چلنے والی گولیوں کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی تو ایسا لگتا کہ دوسری طرف بھی کوئی گولی چلارہا ہے۔ آخر شام ہوگئی اور رِپ اتنا تھک گیا کہ ایک ہری بھری جگہ دیکھ کر وہیں لیٹ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے نیچے وادی میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ ایک طرف عظیم دریا ہڈسن بہہ رہا تھا۔ دوسری طرف ایک کھائی تھی جس میں نوکیلی چٹانیں نکلی ہوئی تھیں جو ڈوبتے سورج کی روشنی میں بڑی مشکل سے نظر آرہی تھیں۔ رِپ کچھ دیر یونہی پڑا اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ شام گہری ہوچلی تھی۔ پہاڑوں کے سائے لمبے اور دھندلے ہوتے جارہے تھے۔ رِپ نے سوچا گھر پہنچتے پہنچتے بالکل اندھیرا ہوجائے گا۔ آخر وہ ایک گہری سانس لے کر اُٹھا۔ اسے بیوی کے غصے کا اندازہ تھا۔
رِپ نے جیسے ہی پہاڑ سے نیچے کی طرف چلنا شروع کیا اسے دور سے آتی ہوئی ایک آواز سنائی دی۔ کوئی اسے پکار رہا تھا: ”رِپ وین ونکل! رِپ وین ونکل!“ رِپ نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن اسے پہاڑی کوے کے سوا کوئی نظر نہ آتا۔ رِپ نے سوچا کہ شاید میرے کان بج رہے ہیں۔ یہ سوچ کر دوبارہ نیچے کی طرف چلا اسے دوبارہ وہی گونجتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ”رِپ وین ونکل! رِپ وین ونکل!“ اسی وقت وولف کی کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور ہلکی ہلکی آواز میں غراتے ہوئے رِپ کے قریب دبک گیا۔ وولف نے ڈرتے ڈرتے نیچے کھائی کی طرف دیکھا۔ اب رِپ کو بھی ڈر لگنے لگا اور اس نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا جدھر وولف دیکھ رہا تھا۔ اسے ایک عجیب طرح کا شخص چٹانوں سے آہستہ آہستہ اوپر آتا دکھائی دیا۔ اس شخص کے اوپر بہت سا بوجھ لدا ہوا تھا جس کے نیچے وہ دہرا ہوا جارہا تھا۔ رِپ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس سنسان جگہ پر کون آگیا ہے لیکن وہ یہ سوچ کر اس کی مدد کو آگے بڑھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے گاﺅں کا ہی آدمی ہو۔
اس شخص کے قریب پہنچ کر رِپ کو اس کے عجیب حلیے پر اور بھی حیرت ہونے لگی۔ وہ ایک ٹھگنا اور چوڑا سا بوڑھا آدمی تھا جس کے گھنگھریالے اور گھنے بال تھے۔ اس کی داڑھی کھچڑی ہوچکی تھی اور کپڑے ایسے تھے جیسے پرانے زمانے میں ہالینڈ کے لوگ پہنا کرتے تھے۔ اس نے ایک تنگ اور چست سا چمڑے کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی پتلون گھٹنے کے کچھ نیچے تک تھی جس کے پائنچوں کو ڈوری سے کس لیا گیا تھا۔ اس کی پتلون پر رنگین بٹنوں کی قطاریں ٹنکی ہوئی تھیں اور گھٹنوں کے پاس بہت سارے بٹن لگے تھے۔ اس نے اپنے کندھے پر ایک چھوٹا سا پیپا اُٹھا رکھا تھا جس میں کوئی مشروب بھرا ہوا تھا۔ اس نے رِپ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اس کی مدد چاہ رہا ہو۔ پہلے تو رِپ اس کا حلیہ دیکھ کر جھجکا لیکن اس کی عادت تھی کہ ہر ایک کی مدد کو فوراً تیار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ وہ اس اجنبی کی مدد کے لیے بڑھا۔ دونوں پیپے کو ایک تنگ سے راستے سے گزار کر اوپر لے جانے لگے وہ جس طرف جارہے تھے وہاں سے رِپ کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی بہنے کی آواز آتی جیسے کوئی پہاڑی جھرنا بہہ رہا ہو۔ رِپ نے سوچا کہ یہ شاید اس تیز بارش کی آواز ہے جو پہاڑی چوٹیوں پر ہوا کرتی ہے۔ وہ جس راستے پر جارہے تھے وہ دراصل ایک سوکھی ہوئی پہاڑی ندی تھی۔ اس سوکھی ندی میں چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جو چاروں طرف سے اونچی اونچی پہاڑیوں سے گھری ہوئی تھی۔ ان پہاڑیوں کے کناروں پر اونچے اونچے درخت تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بڑے پیالے کی تہہ میں ہیں۔ رِپ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے آسمان اور بادل ایک دائرے کی شکل میں نظر آئے۔
سارے راستے رِپ اور اس عجیب حلیے والے اجنبی کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ اگرچہ رِپ سوچتا رہا کہ آخر اس دشوار گزار اور سنسان پہاڑی علاقے میں مشروب سے بھرا ہوا پیپا لے جانے کی کیا تُک ہے؟ اسے یہ سب عجیب لگ رہا تھا لیکن پیالے نما جگہ پر پہنچ کر رِپ کی حیرت اور بڑھ گئی۔ وہاں زمین کے ایک ہموار ٹکڑے پر عجیب و غریب حلیے اور شکلوں والے کچھ اور لوگ جمع تھے اور کنچے کھیل رہے تھے۔ ان کے کپڑوں سے بھی یہی لگتا تھا کہ وہ پرانے زمانے کے ہالینڈ کے رہنے والے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اس بوڑھے کی طرح تنگ اور چست چمڑے کے کوٹ پہنے ہوئے تھے اور کچھ نے ایسی جیکٹیں پہنی تھیں جن کی آستینیں کلائی کے پاس تنگ اور کہنی سے اوپر ڈھیلی ڈھالی تھیں۔ اکثر نے بوڑھے کی طرح کی گھٹنے سے کچھ نیچے تک آنے والی پتلونیں پہن رکھی تھیں جن کے پائنچے ڈوری سے کَسے ہوئے تھے۔ انھیں دیکھ کر ہنسی آتی تھی۔ اکثر نے ا پنے کمر پٹوں میں لمبے لمبے چاقو اَڑس رکھے تھے۔ ان کے چہرے اور ناک نقشہ بھی بہت الگ قسم کا تھا۔ ایک کا چہرہ بہت چوڑا، سر بڑا لیکن آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ ایک کی ناک اتنی بڑی تھی کہ لگتا تھا پورے چہرے پر صرف ناک ہی ہے۔ اس لمبی چوڑی ناک والے نے بڑی سی کناروں والی سفید ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر کسی پرندے کا سرخ پَر لگا ہوا تھا۔ ان سبھی کی مختلف قسم کی داڑھیاں تھیں۔ ان میں سے ایک سردار اور چہرے سے بڑا تجربہ کار اور دنیا دیکھا ہوا لگتا تھا۔ اس کی ٹوپی درمیان سے اُونچی تھی اور اس نے اُونچی ایڑی کے لمبے لمبے جوتے پہن رکھے تھے جو اس کے گھٹنوں تک آتے تھے۔ جوتوں پر گلاب کے پھول لگے تھے۔ ان سب لوگوں کو دیکھ کر رِپ کو ہالینڈ کے پرانے باشندوں کی وہ تصویر یاد آگئی جو اس نے گاﺅں میں پادری کے گھر دیکھی تھی۔
رِپ کو جو چیز سب سے زیادہ عجیب لگی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ اور ان کے حلیے ایسے تھے کہ اُنھیں دیکھ کر ہنسی آتی تھی لیکن وہ خود بہت سنجیدہ چہرے بنا کر بالکل خاموشی سے بلکہ کسی حد تک اُداسی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر طرف خاموشی تھی اور اس خاموشی میں صرف ان کنچوں کے لڑھکنے کی آواز آتی تھی جن سے وہ پراسرار اجنبی کھیل رہے تھے۔
جب رِپ اور اس کے ساتھ چلنے والا اجنبی بوڑھا ان کے پاس پہنچے تو اُنھوں نے اچانک اپنا کھیل بند کردیا اور رِپ کو کچھ ایسی کڑی نظروں سے گھورنے لگے کہ رِپ کا کلیجا اُچھل کر حلق میں آگیا اور اس کے گھٹنے کپکپانے لگے۔ اس بوڑھے نے پیپے میں موجود سارا مشروب پیالوں میں اُنڈیل دیا اور رِپ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اسے انتظار کرنے کو کہہ رہا ہو۔ رِپ خاموشی سے کھڑا ڈرتا رہا لرزتا رہا اور انتظار کرتا رہا۔ عجیب شکلوں والے پیالے اٹھا کر مشروب خاموشی سے مزے لے لے کر چڑھاگئے اور دوبارہ اپنے کھیل میں مصروف ہوگئے۔
اب رِپ کا ڈر کچھ کم ہوا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی طرف کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ چپکے سے پیالوں کی طرف بڑھا۔ عجیب شکلوں والے اور رِپ کے ساتھ آنے والا بوڑھا سب کے سب کنچے کھیلنے میں لگے تھے۔ رِپ نے ایک پیالا اٹھایا اور مشروب چکھا۔ اسے اس کا ذائقہ بہت اچھا لگا اور وہ پورا پیالا پی گیا۔ اس کا دل دوسرا پیالا پینے کو چاہا اور دوسرے کے بعد تیسرا، تیسرے کے بعد چوتھا۔ ایک کے بعد ایک وہ مشروب کے پیالے چڑھاتا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مشروب کے اثر سے اسے نیند آنے لگی۔ اس کی آنکھیں خود ہی بند ہوگئیں اور سر ایک طرف کو جھک گیا۔ رِپ وین ونکل کو گہری نیند نے آلیا تھا۔
جب رِپ کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو اسی ہری بھری جگہ پر پایا جہاں اس نے اور وولف نے اجنبی کو پہلی بار دیکھا تھا۔ رِپ نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ صبح ہوچکی تھی۔ ہر طرف چمک دار دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے درختوں اور جھاڑیوں میں پھڑپھڑارہے تھے۔ عقاب پہاڑوں کی صاف ہوا میں اُونچی اُونچی اڑانیں کررہے تھے۔ ”یقینا میں ساری رات یہاں نہیں سویا۔“ رِپ نے سوچا۔ اس نے سونے سے پہلے کے واقعات یاد کرنے شروع کردیے۔ ”عجیب بوڑھا، مشروب کا پیپا، خشک پہاڑی ندی، کچھ عجیب شکلوں والے لوگ، مشروب کے پیالے…. اوہ! اچھا تو یہ شیطانی مشروب ہی تھا جس نے مجھ پر نیند طاری کردی۔ اب میں اپنی بیوی کو کیا جواب دوں گا کہ میں ساری رات کہاں رہا؟“
رِپ اپنی بندوق کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگا لیکن اسے اپنی نئی چمک دار اور صاف ستھری بندوق کی جگہ ایک پرانی بندوق ملی جس کی نال کو زنگ لگ چکا تھا۔ بندوق کا گھوڑا ٹوٹ کر گرچکا تھا اور لکڑی کے دستے میں کیڑوں نے جگہ جگہ سوراخ کردیے تھے۔ اب اسے شک ہونے لگا کہ وہ عجیب شکلوں والے لوگ اور بوڑھا سب کے سب بھوت تھے اور اس پہاڑ کے بھوتوں نے اس کے ساتھ چالاکی کی ہے اور اسے نیند لانے والا مشروب پلا کر اس کی بندوق لے اڑے ہیں۔ اس کا کتا وولف بھی غائب تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی گلہری یا پرندے کے پیچھے نکل گیا ہو۔ یہ سوچ کر اس نے وولف کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی اور اس کا نام لے کر اسے بلانے لگا لیکن سب بیکار، اسے اپنی سیٹی کی گونج سنائی دی جو پہاڑ سے ٹکرا کر آرہی تھی مگر کتا نہیں آیا۔
اب رِپ نے فیصلہ کیا کہ رات کو اس نے جہاں ان عجیب شکلوں والے بھوتوں سے ملاقات کی تھی وہاں جانا چاہیے اور اگر ان میں سے کوئی مل جائے تو ان سے اپنی نئی بندوق اور کتا واپس مانگنا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے اُٹھنے کا ارادہ کیا لیکن وہ جیسے ہی اُٹھا اسے محسوس ہوا کہ اس کی ہڈیوں اور جوڑوں میں وہ لچک نہیں رہی اور اسے اُٹھنے اور چلنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اس نے سوچا کہ شاید پہاڑی راستوں پر دیر تک چلتے رہنے اور وزنی پیپا اُٹھانے کی وجہ سے اس کا جسم درد کررہا ہے۔ آخر وہ کسی نہ کسی طرح رات والی جگہ جانے کے لیے اسی راستے پر پہنچا لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جس سوکھی ندی سے وہ اور عجیب بوڑھا رات گزرے تھے وہاں اب ایک ندی بہ رہی تھی۔ اس کا پانی پتھروں سے ٹکراتا، جھاگ اُڑاتا، بلبلے بناتا تیزی سے نیچے کی طرف جارہا تھا۔
اس ندی کے کنارے کنارے چلتا ہوا رِپ آگے بڑھنے لگا۔ کنارے پر گھنی جھاڑیاں، گھاس اور جنگلی بیلیں اُگی ہوئی تھیں۔ رِپ ان بیلوں کو پکڑتا اور جھاڑیوں کا سہارا لیتا کسی نہ کسی طرح اس کھلی جگہ پہنچا جس کی شکل پیالے جیسی تھی اور جو چاروں طرف سے اُونچی پہاڑیوں سے گھری ہوئی تھی لیکن اس جگہ اب پہاڑی ندی پورے زور و شور سے بہہ رہی تھی اور اس کا پانی ایک مہیب آواز کے ساتھ نیچے وادی میں گر رہا تھا۔ یہاں پہنچ کر رِپ رُک گیا۔ اس نے اپنے کتے کو بلانے کے لیے پھر سیٹی بجائی اور اسے آواز دی جس کا جواب پہاڑی کوﺅں کے ایک غول نے دیا۔ ”اب کیا کیا جائے؟“ رِپ سوچنے لگا۔ صبح کا وقت گزرتا جارہا تھا اور رِپ کو بہت زور کی بھوک لگ رہی تھی۔ آخر اس نے بڑے افسوس کے ساتھ فیصلہ کیا کہ کتے اور بندوق کی تلاش ختم کرکے گھر چلا جائے اور کسی نہ کسی طرح بیوی کا سامنا کیا جائے، کیوں کہ پہاڑوں میں بھوکا مرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹکا، زنگ کھائی بندوق اپنے کندھے سے لٹکائی اور بڑی بے چینی کے ساتھ، بھاری دل لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
گاﺅں کی طرف جاتے ہوئے اسے راستے میں کئی لوگ ملے جن میں سے وہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ اس پر اسے حیرت بھی ہوئی کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اس علاقے کے ہر آدمی کو وہ پہچانتا ہے۔ اسے ان لوگوں کے کپڑے بھی عجیب طرح کے اور نئے فیشن کے لگے۔ ان لوگوں نے بھی رِپ کو اتنی ہی حیرت سے دیکھا، بلکہ راستے میں جس کسی نے بھی رِپ کو دیکھا اس نے حیرت سے اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ لیا۔ ان لوگوں کو ایسا کرتا دیکھ کر رِپ نے بھی بے خیالی میں اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھا اور یہ دیکھ کر اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ اس کی داڑھی بالشت بھر لمبی ہوچکی ہے۔
اب وہ گاﺅں کے باہر پہنچ چکا تھا۔ کچھ بچے اس کے پیچھے لگ گئے اور اُنھوں نے اس پر آوازیں کسیں۔ وہ اس کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ گاﺅں کے کتے بھی اس پر بھونکنے لگے۔ ان بچوں اور کتوں میں سے وہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ حالاں کہ گاﺅں کے کتے اور بچے اس سے بہت مانوس تھے۔ اس کے لیے ہر چیز نئی اور عجیب تھی۔ گاﺅں کی صورت بھی بدل چکی تھی۔ گاﺅں نہ صرف پھیل گیا تھا بلکہ اس کی آبادی بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ وہاں کچھ نئے مکان بھی بنے ہوئے تھے جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اس کے سب جانے پہچانے مکان غائب ہوچکے تھے۔ مکانوں کے دروازوں پر لوگوں کے نئے اور اجنبی نام لکھے ہوئے تھے۔ گاﺅں میں ہر طرف نئے چہرے نظر آرہے تھے۔ اب رِپ کا سر گھومنے لگا۔ یہ ایک ہی رات میں کیا سے کیا ہوگیا؟ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر اور ساری دنیا پر کسی نے جادو کردیا ہے اور جادو کے اثر سے ہر چیز بدل گئی ہے۔ ”لیکن یہ تو وہی گاﺅں ہے جہاں میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا، جہاں میرے باپ دادا رہا کرتے تھے اور جو میں نے صرف ایک دن پہلے چھوڑا تھا۔“ اس نے سوچا، اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، سامنے اس کا جانا پہچانا دریائے ہڈسن بہہ رہا تھا۔ دوسری طرف کاٹس کِل کے پہاڑ کھڑے تھے۔ دریا اور پہاڑ تو بالکل ویسے کے ویسے تھے۔ ”پھر کیا میرا سر گھوم رہا ہے؟ شاید رات کے مشروب سے میرا دماغ چل گیا ہے۔“ رِپ نے سوچا۔
اسے اپنے گھر کا راستہ تلاش کرنے میں بھی مشکل پیش آئی۔ سارا راستہ اس نے خاموشی سے طے کیا اور اپنی بیوی ڈیم وین ونکل کی تیز اور باریک آواز سننے کے انتظار میں رہا لیکن اس نے اپنے گھر کو تباہ حالت میں پایا۔ اس کے مکان کی چھت گرچکی تھی۔ کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں اور دروازوں کے پٹ قبضوں سے نکل کر جھول رہے تھے۔ ایک بھوک کا مارا دبلا پتلا کتا جس کی شکل وولف سے ملتی تھی وہاں لوٹ لگا رہا تھا۔ رِپ نے اس کا نام لے کر اسے پکارا مگر کتے نے بھونک کر دانت نکالے اور آگے بڑھ گیا۔ رِپ کے دل کو یہ دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی کہ اس کا کتا بھی اسے نہیں پہچان رہا۔
رِپ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں داخل ہوا جس کو اس کی بیوی ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی تھی۔ گھر خالی اور اجڑا پڑا تھا۔ اس میں رہنے والے اسے بہت پہلے خالی چھوڑ کر جاچکے تھے۔ گھر کی بربادی دیکھ کر رِپ بیوی کا ڈر بھول گیا اور اپنے بچوں اور بیوی کو آوازیں دینے لگا۔ خالی کمروں میں اس کی آواز گونجی اور پھر خاموشی چھاگئی۔ اب وہ تیزی سے باہر نکلا اور اپنے پرانے اڈے یعنی گاﺅں کی سرائے کی طرف بڑھا لیکن سرائے کی حالت بھی تباہ تھی۔ سرائے ایک پرانی سی عمارت میں تبدیل ہوچکی تھی جس میں بڑی بڑی سی کھڑکیاں لگی تھیں۔ کچھ کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں جن کی مرمت میں شیشے کے بجائے پرانی ٹوپیاں اور گتے استعمال ہوئے تھے۔ دروازے پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا:
یونین ہوٹل
مالک: جوناتھن ڈولٹل
سرائے کے باہر لگا وہ گھنا درخت غائب تھا جس کے سائے میں سرائے کا پرانا مالک نکولس ویڈر اور دوسرے کاہل بیٹھا کرتے تھے۔ اس کی جگہ ایک ڈنڈا سا کھڑا تھا جس کے سرے پر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جھنڈے پر بہت سارے ستارے اور پٹیاں بنی ہوئی تھیں۔ رِپ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ اصل میں امریکا کا جھنڈا تھا اور اب اس کے ملک امریکا پر انگلستان کے بادشاہ کی حکومت نہیں رہی تھی بلکہ اب اس کا ملک آزاد تھا۔ سرائے کے باہر انگلستان کے بادشاہ جارج سوم کی تصویر کی جگہ پر ایک اور شخص کی تصویر لگی تھی جس کے نیچے موٹا سا لکھا ہوا تھا: جارج واشنگٹن ….رِپ کو پتا نہیں تھا کہ اب اس کے ملک پر جارج واشنگٹن راج کررہا ہے۔
وہاں پر اب بھی بہت سارے بے فکرے جمع تھے مگر رِپ ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ لوگوں کا حلیہ ہی بدلا ہوا تھا۔ اب وہاں سکون کے بجائے شور شرابا تھا۔ اس نے نکولس ویڈر کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو وہاں کاہلی سے بیٹھا رہتا تھا لیکن نکولس ویڈر اب وہاں نہ تھا۔ پھر اس نے اسکول ماسٹر وین بمل کو تلاش کرنا چاہا جو پرانے اخبار پڑھ کر اُنھیں سنایا کرتا تھا۔ وین بمل بھی اسے نظر نہ آیا۔ اس کی نظر ایک دبلے پتلے سے آدمی پر پڑی جو بڑے جوش سے تقریر کررہا تھا۔ اس کے پاس بہت سارے کاغذ تھے۔ اس کی تقریر میں بار بار ایسے الفاظ آتے تھے جو رِپ کے لیے بالکل انوکھے تھے اور جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے جیسے الیکشن، ووٹ، کانگریس کا ممبر، آزادی، ۶۷۷۱ءکے ہیرو وغیرہ۔
رِپ کی داڑھی اُلجھی ہوئی تھی۔ اس کی بندوق زنگ لگی تھی۔ اس کے کپڑے پرانے اور بھدے تھے اور بچوں اور عورتوں کی فوج اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی۔ رِپ کے اس حلیے نے وہاں موجود لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ وہ سب اس کے گرد جمع ہوگئے اور اسے سر سے پیر تک غور سے دیکھنے لگے۔ مقرر نے بھی اپنی تقریر روک دی اور اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور اس سے پوچھا: ”تم نے کس کو ووٹ دیا تھا؟“ رِپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اسے ووٹ کا مطلب ہی نہیں معلوم تھا۔ رِپ بے وقوفوں کی طرح اس کا منھ تکتا رہا۔ اتنے میں ایک ٹھگنا سا آدمی آگے بڑھا۔ اس نے رِپ کا بازو پکڑ کر کھینچا اور پنجوں کے بل اُچک کر اس کے کان میں بولا: ”تم فیڈرل ہو یا ڈیموکریٹ؟“ رِپ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی۔ (اصل میں یہ دو نام امریکا کی پارٹیوں کے تھے جو اس زمانے میں الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں) اسی دوران ایک بوڑھا سا خوش پوش شخص جو اونچی سی لمبی سی ٹوپی لگائے ہوئے تھا بھیڑ میں سے نکلا اور رِپ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور تیز لہجے میں بولا: ”تم الیکشن میں بندوق اور اتنا سارا مجمع لے کر کیوں آئے ہو؟ کیا تمھارا ارادہ گاﺅں میں ہنگامہ اور فساد کرانے کا ہے؟“
”اللہ کو مانو! میں ایک غریب اور سیدھا سادہ آدمی ہوں۔ اسی گاﺅں کا رہنے والا ہوں اور بادشاہ جارج کی رعایا میں سے ہوں۔ اللہ ہمارے بادشاہ کو سلامت رکھے۔“ رِپ نے جواب دیا۔ رِپ کا یہ کہنا تھا کہ مجمعے میں ایک شور سا اُٹھا:
”غدار ہے…. غدار ہے…. جاسوس ہے، مارو، اس کو مارو۔“
آخر اس اونچی ٹوپی والے بوڑھے سے سب کو بڑی مشکل سے چپ کرایا اور پہلے سے کہیں زیادہ غصے سے رِپ سے کہنے لگا کہ وہ سچ سچ بتادے کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟ رِپ نے بڑی مسکینی سے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ یہاں اپنے چند پڑوسیوں کی تلاش میں آیا ہے جو وہاں سرائے کے پاس ملا کرتے تھے۔
”اچھا! کون ہیں تمھارے وہ پڑوسی؟ ان کے نام بتاﺅ؟“ بوڑھے نے کہا۔
رِپ نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر پوچھا: ”نکولس ویڈر کہاں ہے؟“
رِپ کی بات سن کر سب خاموش ہوگئے۔ آخر ایک بوڑھے نے ہلکی اور کھوکھلی سی آواز میں کہا: ”نکولس ویڈر؟ اس کے انتقال کو اٹھارہ سال ہوگئے۔ اس کی قبر پر لکڑی کا ایک کتبہ ہوا کرتا تھا مگر اب تو وہ بھی نہیں رہا۔“
”بروم ڈچر کہاں ہے؟“ رِپ نے پوچھا۔
”وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ سنا ہے کہ وہ ایک حملے میں مارا گیا۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ طوفان میں پھنس کر مرگیا۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ بہرحال وہ کبھی واپس نہیں پلٹا۔“
”اچھا اسکول ماسٹر وین بمل کہاں ہے؟“ رِپ نے سوال کیا۔
”وہ بھی جنگ لڑنے چلا گیا تھا۔ بڑا زبردست فوجی جرنیل نکلا۔ اب کانگریس میں ہے۔“ رِپ کو جواب ملا۔
رِپ کو ایسا لگا جیسے اس کا دل رُک کر بند ہوجائے گا۔ اپنے گھر کی تباہی اور اپنے دوستوں سے جدائی کے بعد وہ اپنے آپ کو دنیا میں بالکل اکیلا محسوس کررہا تھا۔ اس کے ہر سوال کے جواب میں اسے جو کچھ بتایا گیا تھا وہ اسے ایک پہیلی کی طرح لگ رہا تھا اور پھر وہ تو صرف ایک رات گاﺅں سے باہر رہا تھا۔ اتنے سال کیسے بیت گئے؟ اب اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے دوسرے دوستوں کے بارے میں پوچھ سکے، لیکن اس نے رو دینے والی آواز میں یہ ضرور کہا: ”کیا کوئی رِپ وین ونکل کو بھی جانتا ہے؟“
”اوہ! رِپ وین ونکل؟“ دو تین آدمی بولے: ”ہاں ہاں، وہ ہے رِپ وین ونکل، ادھر اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے۔“ ان میں سے ایک نے اشارہ کیا۔
رِپ نے اس کی طرف دیکھا جہاں اشارہ کیا گیا تھا۔ اسے وہاں ہو بہو اپنی ہی شکل کا ایک شخص بیٹھا نظر آیا۔ اس کی شکل بالکل ویسی ہی تھی جیسی رِپ کی پہاڑوں پر جانے اور مشروب پینے سے پہلے تھی۔ وہ رِپ کو اپنی ہی طرح غریب اور کاہل لگا۔ اب رِپ کا دماغ پوری طرح گھوم چکا تھا۔ اسے اپنے آپ پر شک ہونے لگا کہ وہ کون ہے۔ وہ سوچنے لگا: ”میں کون ہوں؟ رِپ وین ونکل ہی ہوں یا کوئی اور ہوں، اور وہ شخص کون ہے جس کا نام لوگ رِپ وین ونکل بتارہے ہیں اور اس کی شکل بالکل میرے جیسی ہے؟“ اتنے میں خوش پوش بوڑھے نے سختی سے پوچھا: ”تم کون ہو اور تمھارا نام کیا ہے؟“
”اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں میں نہیں ہوں اور وہ میرا ہم شکل ہے۔ نہیں وہ کوئی اور ہے جس نے میرا بہروپ بھرا ہوا ہے۔ کل رات میں ….میں ہی تھا لیکن میں پہاڑوں پر سوگیا۔ بھوتوں نے میری نئی بندوق اپنی پرانی بندوق سے بدل لی اور یہاں پر بھی ہر چیز بدلی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ میں خود بھی بدل چکا ہوں۔ میں نہیں بتاسکتا کہ میں کون اور میرا نام کیا ہے۔“
یہ سن کر مجمعے میں کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ وہ پلکیں جھپکارہے تھے۔ کئی نے حیرت سے سر کھجایا۔ وہ اسے پاگل سمجھنے لگے۔ اتنے میں مجمعے میں کسی نے سرگوشی کی اس کی بندوق لے لو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پاگل پن میں کسی کو نقصان پہنچادے۔ یہ سنتے ہی خوش پوش بوڑھا پیچھے ہٹ گیا۔ عین اسی وقت مجمعے کے پیچھے کھڑی ہوئی ایک خوب صورت اور نوجوان لڑکی نے لوگوں کے درمیان سے جھانکنے کی کوشش کی تاکہ رِپ کی شکل دیکھ سکے۔ اس لڑکی نے اپنی گود میں ایک چھوٹے سے گول مٹول بچے کو اُٹھایا ہوا تھا۔ بچے نے رِپ کی عجیب شکل دیکھ کر رونا شروع کردیا۔ ”چپ ہوجاﺅ، چپ، ڈرو مت۔“ لڑکی نے بچے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ ”یہ بوڑھا تمھیں کچھ نہیں کہے گا۔“
لڑکی کی آواز تیز اور باریک تھی۔ اس کے بولنے کا انداز اور شکل بھی ایسی تھی کہ رِپ کو اپنی بیوی ڈیم وین ونکل یاد آگئی۔ ”آپ کا نام کیا ہے محترم خاتون؟“ رِپ نے اس سے پوچھا۔
”جوڈتھ۔“ لڑکی نے جواب دیا۔
”اور تمھارے والد کا کیا نام ہے؟“ رِپ نے پوچھا۔
”آہ! میرے والد! ان کا نام رِپ وین ونکل تھا۔ بیس سال پہلے وہ گھر سے اپنی بندوق لے کر کتے کے ساتھ نکلے تھے اور پھر ان کا کوئی پتا نہ چلا۔ ان کا کتا تو گھر واپس آگیا لیکن ان کا کیا ہوا کچھ نہیں پتا۔ اُنھوں نے خود کو گولی مارلی یا اُنھیں ریڈ انڈین اُٹھا کر لے گئے؟ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ اب رِپ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی کون ہے۔ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ”تمھاری ماں کہاں ہے؟“
”ان کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔“ جوڈتھ نے جواب دیا۔
اب رِپ کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ اس نے لڑکی اور اس کے بچے کو پکڑلیا اور بولا: ”میں تمھارا باپ ہوں۔ میں کبھی جوان رِپ وین ونکل تھا۔ اب میں بوڑھا رِپ وین ونکل ہوں۔ کیا کسی کو بے چارہ رِپ وین ونکل بھی یاد ہے؟“
یہ سن کر سب لوگ حیران کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ آخر ایک بوڑھی عورت مجمعے سے نکل کر آگے آئی۔ اس نے آگے بڑھ کر رِپ کو غور سے دیکھا اور بولی: ”ہاں ہاں یقینا یہ رِپ وین ونکل ہی ہے۔ ہمارا پرانا پڑوسی۔ گھر واپسی مبارک ہو۔ مگر تم بیس سال تک کہاں تھے؟“
رِپ نے ساری بات کہہ سنائی۔ رِپ کی کہانی جلد ہی چاروں طرف پھیل گئی کہ وہ بیس سال تک سوتا رہا تھا اور اس کے پورے بیس سال صرف ایک رات میں گزر گئے۔ لوگوں نے سنا تو دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ اکثر لوگوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا۔ آخر کچھ لوگوں نے طے کیا کہ یہ سارا معاملہ ’پیٹروینڈرڈنگ‘ کے سامنے رکھا جائے جو نہ صرف گاﺅں کا سب سے پرانا باسی تھا بلکہ اسے گاﺅں کی تاریخ، خاص خاص واقعات اور لوگوں کے قصے زبانی یاد تھے۔ اسے رِپ فوراً ہی یاد آگیا۔ پھر اس نے رِپ پر گزرے ہوئے واقعات سن کر کہا کہ رِپ سچ کہہ رہا ہے۔
اس نے بتایا: ”میرے دادا پردادا کے زمانے سے یہ بات مشہور ہے کہ کاٹس کِل کے پہاڑوں پر بھوت رہتے ہیں، پیٹر نے یہ بھی بتایا کہ ان پہاڑوں اور گاﺅں کے قریب بہنے والے دریائے ہڈسن کو سب سے پہلے ایک شخص ہنرک ہڈسن نے دریافت کیا تھا۔ اسی لیے اس دریا کا نام ہڈسن رکھا گیا۔ اب ہڈسن کی روح ہر بیس سال بعد کاٹس کِل کے پہاڑوں پر اپنے ساتھیوں کی روحوں کو لے کر دریائے ہڈسن کو دیکھنے آتی ہے۔ ایک دفعہ میرے دادا نے ہڈسن اور اس کے ساتھیوں کی روحوں کو پرانے زمانے کے ہالینڈ کے لوگوں جیسے کپڑے پہنے ان پہاڑوں پر کنچے کھیلتے دیکھا تھا بلکہ خود میں نے بھی ایک دفعہ پہاڑوں سے آتی ہوئی کنچوں کی آواز سنی تھی۔
رِپ کی بیٹی جوڈتھ اسے اپنے گھر لے گئی۔ اس کا آرام دہ اور سامان سے بھرا ہوا گھر تھا جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا شوہر ایک طاقتور اور خوش مزاج کسان تھا۔ رِپ کو یاد آگیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر جب چھوٹا بچہ تھا تو گاﺅں کے دوسرے شریر لڑکوں کے ساتھ وہ بھی رِپ کے کندھوں پر چڑھا کرتا تھا۔ رہا رِپ کا بیٹا رِپ وین ونکل جونیئر تو وہ وہی شخص نکلا جس کی شکل رِپ سے ہوبہو ملتی تھی اور جسے دیکھ کر رِپ چکرا گیا تھا کہ یہ رِپ وین ونکل ہے تو میں کون ہوں۔ اس کی عادتیں بھی رِپ جیسی تھیں اور وہ بھی رِپ کی طرح دوسروں کا کام تو کردیتا تھا لیکن خود اپنا کام کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔
اب رِپ نے اپنی ساری پرانی عادتیں اپنالیں لیکن اس کے پرانے دوست سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس لیے اب اس نے نئی نسل کے لوگوں کو دوست بنایا اور وہ بھی رِپ کو پسند کرنے لگے۔ رِپ پہلے کی طرح سرائے یعنی ہوٹل کے باہر بینچ پر کاہلی سے بیٹھنے لگا۔ اب اس کا شمار گاﺅں کے بزرگوں میں ہوتا تھا اور لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے پہاڑوں پر جانے کے بعد بڑی تبدیلیاں ہوگئی تھیں۔ اس کے جانے کے بعد ایک جنگ بھی ہوئی تھی جس کے بعد اس کے ملک پر انگلستان کی حکومت نہیں رہی بلکہ اس کا ملک آزاد ہوگیا اور وہ اب امریکا کا شہری تھا لیکن رِپ کو ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان باتوں سے اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ اب اس کا جہاں دل چاہتا وہ جاتا کوئی اسے روکنے والا نہ تھا۔ اسے اب ڈیم وین ونکل کے غصے کا کوئی ڈر نہ تھا لیکن جب بھی کوئی ڈیم وین ونکل کا نام لیتا وہ اپنی عادت کے مطابق اپنے کندھے اُچکاتا، سرہلاتا اور آنکھیں چڑھاتا جیسا کہ ڈیم کے ڈانٹنے پر کرتا تھا۔
جو اجنبی ڈولٹل کے یونین ہوٹل آتا رِپ اسے اپنی کہانی سناتا۔ یہ کہانی اس نے اتنی بار سنائی کہ آس پاس کے لوگوں کو زبانی یاد ہوگئی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہمیشہ رِپ کی کہانی پر شک کرتے اور کہتے کہ رِپ کا دماغ چل گیا ہے لیکن گاﺅں کے پرانے باسی رِپ کی کہانی کو بالکل سچا اور صحیح مانتے تھے بلکہ آج بھی جب کاٹس کِل کے پہاڑوں پر بادل گرجنے کی آواز آتی ہے تو یہ پرانے باسی کہتے ہیں کہ کاٹس کل کے پہاڑوں پر ہڈسن کی روح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کنچے کھیل رہی ہے، اور رِپ کے گاﺅں میں کئی کاہل شوہر ایسے ہیں کہ جب ان کی بیویاں ان پر غصہ کرتی ہیں اور زندگی اُنھیں دوبھر معلوم ہونے لگتی ہے تو وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی رِپ وین ونکل کی طرح کاٹس کِل کے پہاڑوں پر جاکر ایسا مشروب پی لیں جو انھیں بیس سال کے لیے سلادے۔
٭….٭