چھت پر اُونٹ
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس دن صبح کو پورے قصبے میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ ہر شخص اسلامیہ ہائی اسکول کی طرف دوڑا چلا جارہا تھا۔ اسکول کے ساتھ ہی اس کے ہاسٹل کی عمارت تھی۔ ہاسٹل کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ قہقہے لگارہے تھے اور کچھ مسکرا مسکرا کر باتیں کررہے تھے۔ پولیس اور میونسپلٹی کے آدمیوں کا بُرا حال تھا۔ سب کے ہاتھ پاﺅں پھولے ہوئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟
بات ہی کچھ ایسی تھی۔ ہاسٹل کی ایک منزلہ عمارت کی چھت پر دو اُونٹ کھڑے تھے۔ وہ چاروں طرف گھومتے لیکن اُترنے کا راستہ نہ پا کر بلبلانے لگتے۔ چھت کا زینہ نہ تھا۔ ضرورت کے وقت لکڑی کی سیڑھی لگا کر اوپر چڑھتے تھے۔ لوگ حیران تھے کہ اُونٹ چھت پر کس طرح چڑھ گئے؟ اونٹوں والا سر پکڑے کھڑا تھا۔ ہیڈ ماسٹر طالب علموں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ کس کی حرکت ہے؟ لیکن کوئی ایک لفظ نہیں بول رہا تھا۔
ہوا یوں کہ وہ اُونٹ والا پچھلے روز شام کے وقت قریب کے ایک گاﺅں سے ہمارے قصبے میں آیا تھا۔ یہ اُونٹ اسے شہر پہنچانے تھے۔ اُس نے سوچا کہ رات اس قصبے میں گزار لیتے ہیں، اگلی صبح آگے چلیں گے۔ اسکول کا خالی گراﺅنڈ دیکھ کر اس نے وہاں اونٹوں کو باندھا اور پاﺅں پسار کر سوگیا لیکن اگلی صبح اٹھا تو اُونٹ نہ پا کر بہت سٹپٹایا۔ بہت ڈھونڈا لیکن اُونٹ کہیں نہ ملے۔ اتنے میں اسے چھت سے اُونٹوں کے بلبلانے کی آواز سنائی دی۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ اس کے دونوں اُونٹ چھت پر کھڑے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں لوگ جمع ہونے شروع ہوگئے۔ کسی نے پولیس اور میونسپل کمیٹی کو بھی اطلاع دے دی۔ اُونٹ والا سر پکڑے بیٹھا تھا اور بار بار درخواست کررہا تھا کہ کسی طرح اس کے اُونٹوں کو نیچے اتارا جائے لیکن اُتارنے کا مسئلہ جوں کا توں تھا۔ پہلے تو کسی کی کھوپڑی میں یہی نہیں آرہا تھا کہ اُونٹ اوپر گئے کیسے؟ ان کو کس نے اور کس طرح اوپر چڑھایا؟ اُتارنا تو بعد کی بات تھی۔
آخر سب بڑوں نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا کہ پہلے اس شخص کو تلاش کیا جائے جس نے اُونٹوں کو چھت پر چڑھایا ہے۔ اسی سے پتا چل سکتا ہے کہ اونٹوں کو چھت پر لے جانے اور نیچے لانے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد اُنھوں نے اسلامیہ ہائی اسکول کے بچوں کو قطار میں کھڑا کیا، کیوں کہ اُن کو شبہ تھا کہ یہ حرکت کسی طالب علم کی ہی ہوسکتی ہے۔
جب تمام طالب علم قطار میں کھڑے ہوگئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک چھوٹی سی تقریر کی۔ اُنھوں نے فرمایا ”شرارت حد سے گزر جائے اور اس سے کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ شرارت نہیں رہتی، گناہ بن جاتی ہے۔ یہ غریب اُونٹ والا بہت پریشان ہے۔ سارا قصبہ ان اونٹوں کو چھت پر دیکھ کر حیران ہے۔ اسکول کی بدنامی ہورہی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے، اسے چاہیے کہ چپ چاپ میرے کمرے میں آجائے اور اُونٹوں کو اتارنے کا طریقہ بتادے۔ اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
طالب علموں نے فیصلہ کیا کہ ٹُلو میاں اور سجی بھائی ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس جائیں اور اُنھیں ساری بات بتادیں۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ بات سارے قصبے کو معلوم ہوگئی کہ اسلامیہ ہائی اسکول کے لڑکوں ہی نے اُونٹ چھت پر چڑھائے تھے اور اب وہ اُنھیں نیچے اُتارنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ اب تو ہجوم میں اور بھی اضافہ ہونے لگا۔ ہر شخص یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر اونٹ چھت پر گئے کیسے؟
تھوڑی دیر بعد ہیڈ ماسٹر صاحب سجی بھائی اور ٹُلو میاں کے ہاتھ تھامے اپنے کمرے سے نکلے اور اعلان کیا ”مجھے خوشی ہے کہ ہمارے بچوں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرارت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وعدے کے مطابق اُنھیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔“ اس کے بعد اُنھوں نے اونٹوں کی طرف اشارہ کرکے کہا: ”چلو بچو، اب ان بے چاروں کی جان بخش دو۔“
ٹُلو میاں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر ایک مخصوص اشارہ کیا۔ اشارہ کرنا تھا کہ تمام طالب علم اپنے کمروں کی طرف دوڑے۔ لوگ حیران کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تھوڑی دیر گزری تھی کہ سب لڑکے ایک ایک کرکے کمروں سے نکلنے لگے۔ ہر ایک نے اپنے بستر کا گدا اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں نے گدوں کو چھت کی دیوار کے ساتھ رکھا اور کچھ اس ترتیب سے اُنھیں ایک دوسرے پر اور آگے پیچھے جمایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک سیڑھی سی بن گئی۔ گدوں کی سیڑھی کو دیکھ کر لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ اونٹ اوپر کیسے پہنچے تھے۔ تین چار طالب علم اسی سیڑھی کے ذریعے اوپر پہنچے اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نیچے لے آئے۔ سارا مجمع تعجب کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔
اونٹ نیچے آئے تو ان کو اونٹ والے کے حوالے کردیا گیا۔ لوگوں نے زور زور سے تالیاں بجانی شروع کردیں۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: ”ہمارے بچے بہت ذہین ہیں…. کاش! یہ اپنی ذہانت کا صحیح استعمال کریں۔ اونٹوں کو چھت پر اس طرح چڑھانے کا خیال بھلا کس کے ذہن میں آسکتا ہے؟“
اور اس دن قصبے والے بھی مان گئے کہ چاہے ٹُلو میاں پڑھائی میں بہت تیز نہ ہوں، شرارت میں بہت تیز ہیں۔
٭….٭