skip to Main Content

الہٰ دین کا چراغ اور ہم

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے ہم نے الہٰ دین اور اس کے جادوئی چراغ کی کہانی پڑھی تھی۔ ہم پر یہی بھوت سوار تھا کہ کہیں سے ایک ایسا ہی چراغ حاصل کیا جائے جو الہٰ دین کے پاس تھا۔ چراغ رگڑا اور جن حاضر۔ پھر مزے سے سارے کام کروالو۔
ہوم ورک تو خیر جن کر ہی دے گا۔ امتحان بھی اسی سے دلوایا کریں گے۔ روزانہ ڈھیر ساری آئس کریم اور مزے مزے کے رسالے، ذرا بڑے ہوئے تو ایک موٹر کار بھی منگوالیں گے، پھر سیر کا مزہ آئے گا۔ ہر کام بغیر محنت کے ہی ہوجایا کرے گا۔
غرض اسی دُھن میں رات دن بسر ہورہے تھے۔ ایک رات یہی سوچتے سوچتے سوگئے کہ جادوئی چراغ کہاں سے حاصل کیا جائے۔ صبح آنکھ کھلی تو سب سے پہلا خیال ذہن میں یہ آیا کہ جمن کباڑیے کے پاس جایا جائے۔ اس کے پاس دنیا کا کاٹھ کباڑ جمع ہے، کیا پتا کوئی چراغ بھی اس میں پڑا ہو۔
جلدی جلدی ناشتہ کیا اور جمن کباڑی کے پاس جا پہنچے۔ خاصی مغز ماری کے بعد ایک پرانا میلا کچیلا چراغ نظر آیا۔ ہمارا دل خوشی سے دھک دھک کرنے لگا۔ جمن کباڑیے نے اس چراغ کے دس روپے مانگے جو ہم نے جلدی سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور سر پر پاﺅں رکھ کر وہاں سے بھاگے، مبادا اس کا خیال بدل جائے۔
گھر آکر ہم نے اپنے کمرے کو اندر سے بند کیا اور چراغ نکال کر اسے رگڑنے لگے۔ فوراً ہی چراغ میں سے دھواں اُٹھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس دھوئیں نے جن کی شکل اختیار کرلی۔ جن بڑھتے بڑھتے چھت سے جالگا اور خوف ناک آواز میں بولا: ”کیا حکم ہے میرے آقا؟“ ہمارا دل خوشی سے جھوم گیا۔ یہ جملہ سننے کو ہم برسوں سے منتظر تھے۔
جن بولا: ”آقا آپ مجھے دیکھ کر ڈرے نہیں۔“
”ڈرتا کیوں بھلا؟“ ہم نے جواب دیا۔ ”میں نے تمھیں کوئی پہلی مرتبہ تھوڑی دیکھا ہے۔ ٹی وی اور فلموں میں تمھیں برسوں سے دیکھتا چلا آرہا ہوں۔ ویسے تم اداکاری ٹھیک ٹھاک ہی کرتے ہو۔ تم سے اچھا کام تو کنگ کانگ کرتا ہے۔“
جن شاید بُرا مان گیا۔ کہنے لگا: ”تو پھر تم نے مجھے طلب کیوں کیا؟ کنگ کانگ کو ہی بلالیا ہوتا۔“
”ارے بھئی جو کام تم کرسکتے ہو وہ کنگ کانگ بھلا کیسے کرسکتا ہے۔“ ہم نے اسے مکھن لگایا۔
”مثلاً۔“ جن نے حیرانی سے پوچھا۔
”مثلاً، ذرا سی دیر میں تم میرے گھر کے باہر آئس کریم کے پہاڑ کھڑے کردوگے۔ کنگ کانگ کے بس میں یہ کام نہیں۔“ ہم بولے۔
”یہ آپ کی خوش فہمی ہے میرے آقا۔“ جن بولا: ”میں اس قسم کا کوئی کام نہیں کرسکتا۔“
”اچھا؟ تو کیا تم درختوں میں پھلوں اور پھولوں کی جگہ ٹافیاں اور چاکلیٹ بھی نہیں اُگاسکتے۔“ ہم نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”ہرگز نہیں۔ میں حیران ہوں کہ آپ کو اس قسم کی غلط معلومات کس نے فراہم کی ہیں۔“ وہ بولا۔
”تو کیا تم میرا ہوم ورک بھی نہیں کرکے دوگے؟“ ہم نے جھوٹ موٹ غصے سے کہا۔
”اگر میں پڑھا لکھا ہوتا تو کوئی نوکری نہ کرتا۔ آپ لوگوں کی فرمائشیں کیوں پوری کرتا۔“ وہ بے زاری سے بولا۔
”عجیب بے ہودہ جن ہو تم بھی! تم جیسا کام چور اور نکما جن میں نے آج تک نہیں دیکھا۔“ اب ہمیں سچ مچ غصہ آگیا۔ ”الہٰ دین اور دوسرے لوگوں کے تو تم بھاگ بھاگ کر کام کرتے تھے۔“
”وہ زمانہ اور تھا۔ اب میں کام کاج کا عادی نہیں رہا۔“ جن جمائی لیتے ہوئے بولا: ”آپ کے پاس چیونگ گم ہوگی؟“
”تو آخر تم سارا دن کیا کرتے رہتے ہو؟“ ہم نے پوچھا۔
”جی میں انٹر نیٹ پر فلمیں دیکھتا ہوں۔“ اس نے شرما کر کہا۔
”کیوں جھوٹ بول رہے ہو۔ نیٹ تو پاکستان میں ابھی حال ہی میں آیاہے۔ اس سے پہلے کیا کرتے تھے؟“ہمیں شبہ ہورہا تھا کہ یہ کم بخت جان بوجھ کر ہمارے کاموں سے جان چھڑا رہا ہے۔
”اس سے پہلے لارڈز کے گراﺅنڈ پر میچ دیکھا کرتا تھا۔ جیف بائیکاٹ میرا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
”اچھا اب زیادہ باتیں مت بناﺅ اور جو میں کہتا ہوں کرتے جاﺅ، ورنہ مرغا بنادوں گا۔“ ہم ڈانٹ کر بولے۔
”کیا حکم ہے میرے آقا؟“ وہ ادب سے ہاتھ باندھ کر بولا۔
”ہمیں بغداد کی سیر کراﺅ۔“ ہم نے حکم دیا۔ یہ سنتے ہی جن ہنسنے لگا۔ پھر بولا:”سرکار اب بغداد میں کیا رکھا ہے۔ سیر کرنا ہے تو یورپ کی کیجیے۔ امریکا کی کیجیے۔“
”اچھا چلو امریکا لے چلو۔“ ہم بولے۔
”لے چلو کیا معنی۔“ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔
”بھئی جس طرح تم کہانیوں اور فلموں میں لے جاتے ہو سب کو کندھے پر بٹھا کر۔“ ہم بولے۔
”معاف کیجیے گا صاحب۔ یہ کام میں نے چھوڑ دیا ہے۔“ وہ عاجزی سے بولا۔
”بھلا کیوں؟“
”ایک دفعہ جمبو جیٹ ہوائی جہاز سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔ اس کے بعد سے توبہ کرلی۔“ وہ کانوں کو چھو کر بولا۔
”اچھا تو اڑن قالین لے آﺅ۔ اس پر چلتے ہیں۔“ ہم نے تجویز پیش کی۔ یہ سن کر وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔
”کیا مصیبت ہے، کیوں ہنس رہے ہو جن کے بچے۔“ ہم جھنجھلا کر بولے۔
”اڑن قالین قسم کی چیزیں صرف کہانیوں اور قصوں میں ہی ہوتی ہیں۔ اصل میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ آپ اتنا بھی نہیں سمجھتے؟“ وہ مذاق اُڑانے کے انداز میں بولا۔
”بکو مت اور کسی طرح ہمارے لیے امریکا کی سیر کا بندوبست کرو۔“ ہم گرج کر بولے۔
وہ سہم گیا اور مری مری آواز میں بولا: ”ابھی حاضر ہوا۔“ یہ کہہ کر غائب ہوگیا اور کوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا۔
”کہاں دفعان ہوگئے تھے۔“ ہم غصے سے بولے۔
”سرکار آپ کے لیے پاسپورٹ، ویزا اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے گیا تھا، یہ لیجیے اس لفافے میں ساری چیزیں ہیں۔“
ہم نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لے کر کھولا۔ کم بخت ایک گھنٹے میں سب کچھ لے کر آیا تھا۔ امریکا تک کا ہوائی ٹکٹ، واپسی کا ٹکٹ، پاسپورٹ وغیرہ ہر چیز تیار تھی۔ جن نے پہلی بار ہمیں خوش کیا تھا۔
”شاباش! اب جلدی سے ہمیں ایک ٹیکسی لادو ائیرپورٹ جانے کے لیے۔“ ہم بولے۔
اس نے ہاتھ جوڑ دیے اور تقریباً رو کر بولا: ”میرے آقا یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ کراچی میں رکشہ اور ٹیکسی تلاش کرنا میرے بس سے باہر ہے۔“
”اچھا مجھے کچھ پیسے لادو میں خود ہی چلاجاﺅں گا۔“ ہم نے کہا۔
فوراً ہی اس نے روپوں کا ایک بنڈل لا کر دیا اور خدا حافظ کہہ کر غائب ہوگیا۔ ہم نے چراغ اٹھا کر جیب میں ڈالا اور خوشی خوشی ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔
ہوائی جہاز کا سفر نہایت خوش گوار تھا۔ جلد ہی امریکا پہنچ گئے۔ ہمیں کسی نے نہیں روکا اور نہ ہی کچھ پوچھ گچھ کی گئی۔ پاسپورٹ پر مہر لگوا کر ہم ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر آگئے۔
باہر آکر چراغ کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ جن کو بلا کر ٹیکسی منگوائیں، لیکن چراغ جیب میں نہ تھا۔ ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ چراغ ہوائی جہاز میں ہی جیب سے نکل گیا تھا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ اللہ کا نام لے کر ایک ٹیکسی روکی اور ڈرائیور سے ہوٹل چلنے کو کہا۔
ٹیکسی ڈرائیور کی شکل نہایت خوف ناک تھی۔ لمبی لمبی مونچھیں، لہرائی ہوئی ڈاڑھی، نوکیلے دانت اور حیرت انگیز طور پر چھوٹا قد، ٹیکسی بہت دیر تک شہر کی مختلف سڑکوں پر گھومتی رہی۔ رفتہ رفتہ ٹیکسی آبادی سے نکل کر ویرانے کی طرف جانے لگی، ہم نے ڈرائیور سے پوچھا کہ وہ ہمیں کہاں لیے جارہا ہے، لیکن جواب میں وہ ہنسنے لگا۔ اس کے لمبے لمبے نوکیلے دانت دیکھ کر ہماری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر دوڑ گئی اور سارا جسم تھر تھر کانپنے لگا۔ کیا یہ ڈرائیور کوئی چڑیل ہے جو شکل بدل کر آیا ہے؟ اب یہ ضرور ہمیں کھاجائے گا۔ اب ہم جن کو کوسنے لگے اور ہمیں وہ منحوس گھڑی یاد آنے لگی، جب ہم نے چراغ والے جن کو پانے کی آرزو کی تھی۔
اچانک ایک جنگل میں پہنچ کر ٹیکسی رک گئی۔ ڈرائیور نیچے اترا اور اس نے ہمیں بھی گھسیٹ کر نیچے اتارا۔ اس کے بعد وہ ہمیں دبوچ کر گھنے جنگل میں لے جانے لگا۔ تھوڑا آگے چل کر اس نے ہمیں ایک درخت سے باندھ دیا اور ایک تیز سیٹی بجائی۔ہمارے پاس چراغ ہوتا تو اسے رگڑتے اور جن کو بلاتے، لیکن چراغ تو ہم اپنی لاپروائی کی وجہ سے پہلے ہی کھوچکے تھے۔
تیز سیٹی کی آواز سنتے ہی زمین میں بنتے ہوئے ایک سوراخ سے بے شمار بونے باہر نکلنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے قد، لمبے لمبے تیز دانت، لہراتی ڈاڑھیاں اور نوکیلے کان، خوف سے ہمارا سارا بدن پسینہ پسینہ ہوگیا۔ پھر سارے بونے ہمارے گرد ناچنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گا بھی رہے تھے۔ ”کام چور پکڑا گیا۔ مفت کی کھانے والا پکڑا گیا۔“
اب ہمیں وہ وقت یاد آیا جب ہم الہٰ دین کا چراغ ڈھونڈ کر مفت کی کھانے اور مزے اڑانے کی سوچتے تھے۔
آخر بونوں کا ناچ بند ہوا اور ڈرائیور جو کہ دراصل ایک بونا تھا، آگے آکر بولا: ”جو لوگ مفت کی کھاتے ہیں، کام نہیں کرتے اور دوسروں کی محنت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ اب تم اسی طرح بندھے رہو۔ تمھیں چھڑانے والا کوئی نہیں۔“
یہ کہہ کر وہ بھی دوسرے بونوں میں شامل ہوگیا اور سب گول دائرے میں ہمارے گرد ناچتے ہوئے گانے لگے۔
”کام چور پکڑاگیا۔ مفت کی کھانے والا پکڑا گیا۔“
ہم نے زور زور سے رونا اور چلانا شروع کیا:”چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو، خدا کے لیے چھوڑ دو۔ میں کام کروں گا۔ مجھے چھوڑ دو۔“
”کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ کیوں چِلّا رہے ہو۔ کیا خواب میں ڈر گئے؟“ امی ہمیں جھنجھوڑ کر بولیں۔ ہم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ سارا جسم کانپ رہا تھا اور منھ سے یہ الفاظ جاری تھے۔
”چھوڑ دو، میں کام کروں گا، مجھے چھوڑ دو۔“
دراصل رات کو چراغ حاصل کرکے مزے اُڑانے کا پروگرام بناتے بناتے ہم سوگئے تھے اور خواب میں یہ سب کچھ دیکھ کر ڈر گئے۔ ہم نے اسی وقت طے کرلیا کہ اب اس قسم کی باتیں نہیں سوچیں گے۔ مفت میں مزے اُڑانے سے توبہ کی اور ارادہ کیا کہ محنت کریں گے اور محنت ہی کے بل بوتے پر مزے اُڑائیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top