skip to Main Content

سامنے والی کوٹھی

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

بوڑھے نے دلہن کی طرح سجی کوٹھی کو حیر ت بھری نظروں سے دیکھا… کوٹھی نور کا ٹکڑا لگ رہی تھی… بہت سے مرد اور عورتیں کوٹھی کا رخ کر رہے تھے… کاریں آآ کر رک رہی تھیں… مہمان ان سے اتر کر کوٹھی کی طرف جارہے تھے… ایسے میں ایک پیدل نوجوان بوڑھے کے پاس سے گزرنے لگا، اس کا رخ بھی کوٹھی کی طرف تھا:
”ذرا بات سننا بیٹا۔“
نوجوان ٹھٹک کر رک گیا۔ اس نے نظر بھر کر بوڑھے کو دیکھا، پھر بولا:
”جی فرمائیے!“
”آپ بھی اس کوٹھی میں جارہے ہیں نا۔“
”ہاں جی۔“ اس نے کہا۔
”آج یہاں کیا ہے۔“
”یہ کوٹھی سردار احمد بیگ کی ہے… ان کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا ہے… اس خوشی میں انھوں نے اپنے دوستوں کو دعوت دی ہے۔“
”سردار احمد کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔“ بوڑھے کی آواز مارے خوشی کے بے قابو ہونے لگی۔
”ہاں! کیوں کیا بات ہے… کیا آپ جانتے ہیں انہیں۔“
”میں… ہاں… میں تو انہیں جانتا ہوں… وہ مجھے نہیں جانتے… بڑے کاروباری آدمی ہیں نا۔“
”جی ہاں! یہ تو ہے… ان کی تو بہت دھوم دھام ہے… آپ کو ان سے کوئی کام تو نہیں۔“
”نہیں بیٹا… میں تو بس یونہی کوٹھی کی دھوم دھام دیکھ کر آپ سے پوچھ بیٹھا تھا… آپ کا شکریہ… ویسے کسی زمانے میں میرا ان سے بہت گہرا تعلق تھا… اس تعلق کی بنیاد پر مجھے چاہیے کہ کم ازکم انہیں بیٹے کی پیدائش پر مبارک باد تو دے دوں… کیا خیال ہے… اگر میں مبارک باد کے دو چار جملے لکھ کر آپ کو دے دوں تو آپ انہیں دے دیں گے۔“
”کیوں نہیں… ضرور دوں گا۔“
”اچھی بات ہے، میں ابھی لکھے دیتا ہوں۔“
یہ کہہ کر بوڑھے نے جیب سے کاغذ نکالا اور لکھنے لگا… پھر کاغذ تہہ کر کے اس کی طرف بڑھا دیا:
”یہ لو بیٹا… انہیں دے دینا… وہ سمجھ جائیں گے… کون آیا تھا۔“
”جی اچھا… لیکن بڑے میاں! اگر آپ کا ان سے قریبی تعلق رہا ہے تو آپ ان سے مل کیوں نہیں لیتے۔“
”آج یہاں لوگوں کی دعوت ہے نا… میرا اندر جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا… لوگ خیال کریں گے… کھانے کے لیے اندر گھس آیا ہے… ظاہر ہے… میری وضع قطع ایسی تو ہے نہیں کہ مہمان نظر آسکوں۔“
”ہوں… اچھا ٹھیک ہے… آپ فکر نہ کریں… میں یہ انہیں دے دوں گا۔“
”جیتے رہو بیٹا! کیا نام ہے آپ کا۔“
”جی میرا نام کاشف خان ہے۔“
”کاشف خان۔“ بوڑھے نے نام دہرایا۔
”جی ہاں! یہی نام ہے۔“
”اچھا شکریہ! میں چلتا ہوں۔“
وہ لگا مڑنے… اس وقت کاشف خان نے اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے دیکھ لیے… لیکن وہ کچھ پوچھ نہ سکا… البتہ اس نے الجھن ضرور محسوس کی… پھر وہ کوٹھی کی طرف قدم اٹھانے لگا… دروازے پر پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا… وہ دیکھنا چاہتا تھا… بوڑھا چلا گیا ہے یا ابھی کھڑا ہے… اس نے دیکھا، بوڑھا بھی چلتے چلتے مڑ کر کوٹھی کی طرف دیکھ رہا تھا… ایک بار اس کی نظریں اس پر بھی پڑیں…اس نے جلدی سے رخ موڑ لیا اور قدم اٹھانے لگا… جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا… وہ کوٹھی کے اندر داخل نہ ہوسکا…
بوڑھے کے نظروں سے اوجھل ہونے پر اس نے اپنے دل کو ٹٹولا، اب وہاں پہلے کی نسبت اور زیادہ بوجھ محسوس ہوا… وہ اس بوجھ کو سمجھ نہ سکا… آخر اندر داخل ہوگیا… دعوت شروع ہوچکی تھی… لوگ خوب جوش و خروش سے کھانے میں مصروف تھے… سردار احمد بیگ کی مصروفیت کا تو عالم ہی اور تھا… بار بار ادھر اُدھر دوڑ کر مہمانوں کو پوچھ رہا تھا… کاشف خان نے اس پر ایک نظر ڈالی… کاغذ اس کے ہاتھ میں تھا…اس نے سوچا… اس وقت یہ کاغذ اسے دینا مناسب نہیں ہوگا… اول تو اس کے پاس پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے… یونہی ادھر اُدھر کاغذ گرا دے گا… وہ نزدیک تو رہتا ہی ہے… کل کسی وقت دے دے گا…
یہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا… دوسرے دن رات کے وقت اس نے سردار احمد بیگ کے دروازے پر دستک دی… ملازم باہر آیا تو اس نے سردار احمد بیگ کو پیغام بھیجا… وہ ان سے ملنا چاہتا ہے…
کاشف خان اس کا قریبی پڑوسی تھا… اور سردار احمد بیگ اس نوجوان کو بہت پسند کرتا تھا… کبھی کبھار وہ اس سے گھر کا کوئی کام کاج بھی لے لیتا تھا… اس نے فوراً ہی اسے اندر بلوا لیا… علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا:
”کہیے کاشف صاحب… کیسے آئے۔“
”میں کل جب دعوت میں شرکت کے لیے آرہا تھا تو آپ کی کوٹھی سے ذرا فاصلے پر ایک بوڑھا آدمی کھڑا نظر آیا تھا… اس نے مجھے یہ پرچہ دیا تھا… اور کہا تھا، یہ آپ کو دے دوں… لیکن اس وقت آپ بہت مصروف تھے… میں نے سوچا آج فرصت میں دے دوں گا۔“
”آپ نے اچھا کیا کاشف میاں… آپ کا شکریہ!“ یہ کہہ کر سردار احمد بیگ نے کاغذ لے لیا۔ اس پر لکھے الفاظ پڑھ کر ا س نے کاغذ جیب میں ڈال لیا۔
”اچھا! میں چلتا ہوں۔“
”چائے نہیں پئیں گے۔“
”پھر سہی۔“
اور وہ چلا آیا… ایسے میں اس نے کئی بار چاہا… پوچھ لے، بوڑھا کون تھا… لیکن پوچھ نہ سکا… اس واقعے کو کئی دن گزر گئے… اسے بار بار بوڑھے کا خیال آتا رہا… آخر آہستہ آہستہ وہ اسے بھول ہی گیا…
٭
اس شام وہ اپنے دفتر سے فارغ ہو کر گھر آرہا تھا… سردار احمد بیگ کی کوٹھی کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ بہت زور سے چونکا… وہی بوڑھا کھڑا تھا… غیر ارادی طور پر اس کے قدم اس کی طرف اٹھنے لگے:
”السلام علیکم بڑے میاں۔“
وہ چونک اٹھا… نظریں اس کے چہرے پر جماد یں… چند سیکنڈ تک دیکھتا رہا، آخر بولا:
”آپ… آپ وہی تو نہیں جنہیں میں نے اس دن پیغام لکھ کر دیا تھا۔“
”جی ہاں! میں وہی ہوں… آپ آج پھر یہاں نظر آرہے ہیں۔“
”میں مہینے میں ایک بار یہاں ضرور آتا ہوں۔“
”لیکن کیوں؟“
”بس! اس کوٹھی کو ایک نظر دیکھنے کے لیے… اور۔“
”اور کیا؟“ کاشف خان جلدی سے بولا۔
”او ر اس کوٹھی والوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے… دراصل… گاﺅں میں ایک پاگل عورت رہتی ہے… بس وہ ضد کرتی ہے… میں یہاں آﺅں اور ان کی خیریت کی خبر اسے سناﺅں۔“
”وہ… وہ کون ہے… آپ کس گاﺅں میں رہتے ہیں۔“
”سندر گاﺅں میں… میرا نام ابرار احمد ہے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ جانے کے لیے مڑا… پھر اس نے السلام علیکم کہا اور قدم اٹھا دیے… کاشف اسے دیکھتا رہ گیا… ایک بار پھر وہی بوجھ اس پر آسوار تھا… اچانک وہ بڑبڑایا:
”میں… میں اس بوجھ سے نجات ضرور حاصل کروں گا۔“
اتوار کے دن وہ سندر گاﺅں کا رخ کر رہا تھا… اور وہاں پہنچ کر ابرار احمد کا گھر تلاش کرنا ذرا بھی مشکل ثابت نہ ہوا… اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے پر دستک دی… وہ وقت صبح کا تھا… گاﺅں شہر سے زیادہ دور نہیں تھا… دروازہ کھلا تو ابرار احمد کی حیرت زدہ آواز سنائی دی:
”اوہ… یہ… یہ آپ ہیں… آئیے… اندر آجائیے۔“
”کون ہے میاں صاحب؟“ اندر سے بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی۔
”شہر سے کوئی صاحب آئے ہیں۔“
اس نے کہا اور اسے اندر لے آیا… چھوٹا سا گھر تھا… دو کمرے کا… اس کی ہر چیز سے غربت ٹپک رہی تھی…
”کیسے آئے بیٹا!“
”میں… میں اپنی الجھن دور کرنے کے لیے آگیا ہوں، امید ہے، آپ محسوس نہیں کریں گے… آپ کا سردار احمد بیگ صاحب سے کیا رشتہ ہے… آپ وہاں کیوں جاتے ہیں۔“
”یہ کوئی نئی کہانی نہیں… دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہا ہے… ہمارے ساتھ کوئی نئی بات نہیں ہے… بس وہ زیادہ پڑھ لکھ گیا نا… ہم گنواروں کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔“
”تو کیا وہ آپ کو اخراجات دیتے ہیں۔“
”اخراجات کی ہمیں ضرورت نہیں… ہم دونوں مل کر دو وقت کی روٹی کما لیتے ہیں… دیہات میں اتنا کام سبھی کو مل جاتا ہے… کٹائی کا موسم ہے… سبزیاں توڑنے کا کام… یہ کام سارا سال چلتے رہتے ہیں۔“
”مطلب یہ کہ وہ آپ سے ملتے بھی نہیں۔“
”اگر ملتے تو یہ وہاں جا کر باہر ہی باہر سے کیوں آنے لگے۔“ بڑھیا درد بھرے انداز میں لمبا سانس بھر کر بولی۔
”آپ نے اس دن کاغذ پر کیا لکھ کر دیا تھا؟“
”یہ کہ… مبارک ہو… بہت آرزو تھی… تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو… اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم دونوں تڑپتے رہ جاتے… اب بہت سکون ہے… وہ پیدا ہوگیا جس کا انتظار تھا… بس یہ لکھ کر دے آیا تھا۔“
”اس کا کیا مطلب… وہ پیدا ہوگیا… جس کا انتظار تھا۔“
”بیٹے تم ناشتا کس چیز سے کرتے ہو… چائے یا لسی۔“
”مطلب یہ کہ آپ میرے اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔“
”یہ میری اور اس بڑھیا کی خواہش ہے… سردار کا بیٹا بھی خوب پڑھے لکھے… بہت بڑا کاروباری آدمی بنے… اور… اور۔“
”اور کیا؟“ اس نے بے چین ہو کر کہا۔
”مجھے اور اس سے آگے کیا کہنا چاہیے سردار کی ماں۔“
”وہ ایک ایسی خواہش ہے… جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے… کوشش کریں تب بھی۔“ بڑھیا بولی۔
”لیکن بیٹا! ایک دن آئے گا… جب تمہیں اس سوال کا جواب خودبخود مل جائے گا۔“
”مم… میرا بوجھ اتر گیا… اب میں کوئی بے چینی محسوس نہیں کر رہا۔“ کاشف خان کے منہ سے نکلا۔
”اللہ کا شکر ادا کرو میاں۔“
پھر وہ ان کے گھر کا سادہ ناشتا کر کے وہاں سے چلا آیا۔ تیس سال بعد اسے اس سوال کا جواب مل گیا… سردار احمد بیگ کا کاروبار ان تیس سالوں میں بالکل ختم ہوچکا تھا… کوٹھی بک چکی تھی… اور اب وہ کرائے کے مکان میں رہتا تھا… بڑھاپا اس پر بری طرح سوار ہوچکا تھا، تاہم ا س نے اپنی کاروباری زندگی میں اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم ضرور دلوائی تھی… اس کی ایک بڑے گھرانے میں شادی بھی کر دی تھی اور اب وہ ایک بڑا سرکاری افسر بن چکا تھا… باپ سے الگ کہیں اور رہتا تھا… کاشف خان اس روز کسی دوست سے ملنے گیا تو ایک شان دار سجی بنی کوٹھی کے سامنے اسے بوڑھا سردار احمد کھڑا دکھائی دیا… اسے ایک جھٹکا لگا… اس کے قدم خود بخود اس کی طرف اٹھ گئے…
”سردار احمد بیگ… یہ… یہ آپ ہیں۔“
اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا… کئی سیکنڈ تک دیکھتا رہا… پھر بولا:
”اچھا! یہ آپ ہیں… کاشف خان۔“
”ہاں… آپ نے ٹھیک پہچانا… لیکن آپ یہاں کیسے کھڑے ہیں۔“
”وہ… سامنے والی کوٹھی دیکھ رہے ہو… یہ… یہ میرے بیٹے کی ہے… آج اس کے ہاں بیٹاپیدا ہوا ہے۔“
”اوہ… اوہ۔“
کاشف خان دھک سے رہ گیا…اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا…

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top