skip to Main Content

انوکھا پروگرام

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔

گھر کے سب لوگ بے تحاشا خوش تھے، وجہ یہ تھی کہ ابا جان کی تنخواہ میں ایک دم اضافہ ہوگیا تھا۔ گھر آکر انھوں نے یہ خوش خبری سنانے کے ساتھ ہی اعلان کیا:
”آج کوئی عجیب اور انوکھا پروگرام ہونا چاہیے۔“
”ابا جان! عجیب اور انوکھا ایک ہی وقت میں کس طرح ہوسکتا ہے، یا تو پروگرام عجیب ہونا چاہیے، یا انوکھا۔“ فرحت نے نئی کہی۔
”بال کی کھال نہ اتارو، نئی بات سوچو۔“ ابا جان بولے۔
”چاہے پروگرام پر کتنے ہی پیسے خرچ ہوجائیں۔“ نوید نے پوچھا۔
”ہاں خرچ کی پروا نہ کرو، میں آج کے دن کسی انوکھے پروگرام پر دو ہزار روپے تک خرچ کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
”بھئی واہ! پھر تو مزا آجائے گا۔“ راحت نے خوش ہو کر کہا۔
”میرا تو خیال ہے، اس قسم کا کوئی پروگرام کل ہونا چاہیے، کیونکہ چھٹی کا دن ہے، آج تو یوں بھی شام ہوچلی ہے۔“ امی پہلی مرتبہ بولیں۔
”با ت تو بیگم تمہاری بہت معقول ہے، پروگرام کل ہی سہی، لیکن سوچ تو آج ہی لینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ کل کا دن سوچتے ہوئے ہی گزر جائے۔“ ابا جان بولے۔
”آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں، تو پھر ایسا کیجیے، ہمیں سوچنے کی کچھ مہلت دے دیں۔“ توحید بولا۔
”دو گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے اور ساتھ ہی اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ جس نے بھی کوئی انوکھا پروگرام بنایا، اسے500 روپے انعام دیا جائے گا۔“
”ابا جان! اس طرح تو آپ کے پچیس سو روپے خرچ ہوجائیں گے۔“ میں پہلی مرتبہ بولا۔
”پروا نہ کرو، ادھر اُدھر کی باتوں کی بجائے کوئی پروگرام سوچو۔“ ابا جان بولے۔
”جی بہتر!“
اور ہم سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے، ہر کوئی500 روپے حاصل کرنے کی فکر میں گم ہوگیا، ہمارے ساتھ امی جان بھی تھیں، وہ کیسے500 روپے حاصل کرنے کا موقع کھو سکتی تھیں، لیکن حدتو اس وقت ہوئی جب سب کے ساتھ ابا جان بھی سوچ میں گم ہوگئے۔ فرحت سے رہا نہ گیا۔ بول پڑی۔
”ابا جان! آپ ہمارے ساتھ کیوں سوچنے بیٹھ گئے۔“
”کیا پتا بیٹی! میرے ذہن میں ہی کوئی پروگرام آجائے۔“ ابا جان مسکرائے۔
”لیکن اس طرح آپ انعام کسے دیں گے۔“ نوید نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”خود کو دے دوں گا۔“ انھوں نے کہا۔
”بھلا آپ خود کو انعام کس طرح دے سکتے ہیں۔“ راحت نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
”دے کیوں نہیں سکتا، اپنی ایک جیب سے500 روپے نکال کر دوسری میں ڈال لوں گا۔“
ابا جان کی بات سن کر ہم سب مسکرا دیے، لیکن ابا جان نے منہ بنا کر کہا۔
”اگر اسی طرح باتیں ہوتی رہیں تو ضرور ہی کوئی پروگرام سوچا جاسکے گا۔“
”اچھا بھئی! اب کوئی کچھ نہ بولے۔ جب تک کسی کی سمجھ میں کوئی پروگرام نہ آجائے ، منہ نہ کھولے، پروگرام ذہن میں آنے پر ہاتھ اوپر اٹھا سکتا ہے۔“ ابا جان نے گویا اعلان کیا۔
ہم خاموش ہوگئے۔ ایک بار پھر سب سوچ کے سمندر میں ڈوب گئے، آخر کوئی آدھ گھنٹے بعد فرحت نے ہاتھ اوپر اٹھایا۔
”ہاں فرحت بتاﺅ، تمہاری سمجھ میںکیا آیا ہے۔ نوید تم لکھتے جاﺅ۔ ہر ایک کی تجویز کو نوٹ کرنا تمہارا کام ہے۔“ ابا جان بولے۔
”جی بہت بہتر!“ نوید نے کہا۔
”ا با جان! میں نے سوچا ہے کہ کل ہم سب پکنک منائیں، دو ہزار روپے کی کھانے پینے کی تیار شدہ چیزیں بازار سے لے لیں اور نکل جائیں کسی پُرفضا مقام پر۔“
”ہوں! تجویز کچھ بُری نہیں، خیر دیکھیں ،دوسروں کے ذہن کیا کہتے ہیں۔“ انھوں نے کہا اور ایک بار پھر سب سوچ میں گم ہوگئے، البتہ فرحت نے اب سوچنے کا سلسلہ بند کر دیا تھا، وہ اب ہمیں سوچتے دیکھ رہی تھی۔
اس بار میں نے سر اوپر اٹھایا اور ہاتھ کھڑا کیا۔
”ہاں توصیف بتاﺅ۔“
”میں نے سوچا ہے،500 روپے کی آئس کریم خرید کر کھائی جائے۔“
”تمہارا پیٹ تو پھر بھی نہیں بھرے گا، آئس کریم کے بھوکے۔“ امی جان نے منہ بنا کر کہا۔
”تجویز یہ بھی اچھی ہے، نوید تم نے نوٹ کر لی؟“ ابا جان بولے۔
”جی ہاں کر چکا ہوں۔“
”خوب! ذرا جلدی جلدی سوچو۔“
پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ راحت نے ہاتھ اوپر اٹھا دیا اور اجازت ملنے پر کہنے لگی:
”دو ہزار روپے کے چرغے لا کر اڑائے جائیں۔“
”اور میرا خیال ہے، دو ہزار روپے کسی غریب آدمی کو دے دیے جائیں، کسی ضرورت مند کو، جسے بیٹی کی شادی کے سلسلے میں کچھ خریدنا ہو۔“ توحید نے کہا۔
اس کی بات سن کر سب چونک اُٹھے، فرحت نے جلدی سے کہا۔
”لیکن اس طرح ہم کوئی پروگرام تو نہیں بنا سکیں گے۔“
”بالکل! یہ تو سارا مزا کرکرا کر دینے والی بات ہوگی۔“ نوید نے کہا۔
”ابا جان نے تو کسی انوکھے اور عجیب پروگرام کی بات کی ہے، نہ کہ کسی کی مدد کرنے کی۔“ راحت نے کہا۔
”بالکل ٹھیک! آخر ہم ان دو ہزار روپے کے لطف سے کیوں محروم ہوجائیں جو اتفاق سے ابا جان نے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔“ میں نے جھلا کر کہا۔
”نوید! تم نے توحید کی تجویز نوٹ کر لی ہے۔“ ابا جان نے پوچھا۔
”کیا یہ بھی کوئی تجویز ہے؟“ نوید کے لہجے میں حیرت تھی۔
”بھئی تم نوٹ تو کر لو۔یہ بعد میں دیکھیں گے کہ کون سی تجویز بہترین ہے۔“ انھوں نے کہا اور نوید نے توحید کا خیال بھی لکھ لیا۔
”اور اب رہ گئے بیگم اور میں، ہاں تو بیگم تمہارا کیا خیال ہے۔“
”قیمے والے پراٹھے پکا کر جہانگیر کے مقبرے پر چلتے ہیں، وہاں سے آم لے لیں گے اور مزے لے لے کر کھائیں گے۔“ انھوں نے کہا۔
”بہت خوب! اب رہ گیا میں، لیکن میں توحید کی بات سننے کے بعد کوئی تجویز، کوئی پروگرام پیش نہیں کروں گا۔“ ابا جان نے عجیب بات کہی۔
”وہ کیوں ابا جان؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
”اس لیے کہ اس سے بہتر کوئی پروگرام، کوئی بات اور کوئی تجویز ہو ہی نہیں سکتی۔ اس طرح500 روپے کے انعام کا حق دار توحید کو قرار دیا جاتا ہے، کل دو ہزار روپے محلے کے غریب مزدور جانو کو دے دیے جائیں گے، کیونکہ اگلے مہینے اس کی بیٹی کی شادی ہے۔“ ابا جان نے اعلان کیا۔
”ابا جان! میرے حصے کے500 روپے بھی ان دو ہزار میں شامل کر دیں۔“ توحید نے جلدی سے کہا۔
”بھئی واہ! بہت خوب! توحید تمہارا جواب نہیں۔“
یہ کہہ کر ابا جان نے اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔
٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top