بوڑھی خواہش
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپ میری ایک خواہش پوری کر سکتے ہیں؟“
میں نے نظر بھر کر اس بوڑھی عورت کی طرف دیکھا۔ پھر ہمدردانہ لہجے میں بولا: ”شاید آپ کھانے کی کسی خاص چیز کی خواہش محسوس کر رہی ہیں، لیکن محترمہ! میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم باہر سے آپ کو کوئی چیز لا کر نہیں دے سکتے۔ جو چیزیں طے ہیں، آپ کو بس وہی ملیں گی۔“
”میں نے اپنی زندگی میں بہت اچھے اچھے کھانے کھائے ہیں۔ میں خود لذیذ ترین کھانے پکانے کی ماہر ہوں، اس لیے آپ غلط سوچ رہے ہیں، ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔“
”تب پھر آپ کیا چاہتی ہیں؟“
”مجھے چند کاغذ اور ایک قلم چاہیے۔ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ۔“ وہ کہتے کہتے رک گئی۔
”اور اس کے ساتھ ساتھ کیا؟“ نہ جانے کیوں مجھے دلچسپی محسوس ہونے لگی۔ آج سے پہلے ایسی خواہش کسی نے نہیں کی تھی۔
”اس کے ساتھ ساتھ آپ میری تحریر کو ایک اخبار کے ایڈیٹر کو بھی پہنچائیں گے۔ کیا آپ میرا یہ کام کر دیں گے؟“ ان کی آنکھوں میں التجا کا ایک سمندر نظر آیا، لیکن وہ سمندر مجھے بہا کر نہ لے جاسکا۔ اس کی وجہ یہ تھی، یہاں تو آئے دن بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں سے ہی واسطہ پڑتا تھا۔ وہ طرح طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا، ہم ان کی فرمائشوں کو پورا کرتے رہتے تھے، اس لیے میں اس قدر جلد کیسے متاثر ہوجاتا، لہٰذا میں نے کہا: ”میں آپ کا یہ کام آخر کیوں کروں؟“
”میرے پاس آپ کو دینے کے لیے ایک چیز ہے۔ آپ وہ چیز لے کر میرا کام کر دیں۔“ ان کے لہجے میں درد تھا، بے قراری تھی۔ وہ جس دن سے آئی تھیں، انھوں نے کچھ نہیں کہا تھا، نہ کوئی فرمائش کی تھی۔ آج پہلا موقع تھا۔
”کیا چیز ہے وہ؟“ میرے چہرے پر چمک آگئی۔
”سونے کی ایک انگوٹھی، کم ازکم ایک تولے کی تو ضرور ہوگی۔ آپ وہ انگوٹھی لے لیں اور میرا کام کر دیں۔“
”کہاں ہے انگوٹھی؟“
”اپنے کپڑوں میں سے انگوٹھی نکال کر دینا میرا کام ہے۔ اس معاملے میں باقی کام کرنا، آپ کا کام ہے۔“
”ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ آپ کو کاغذ قلم مہیا کروں گا اور آپ جو تحریر دیں گی، وہ اخبار میں ضرور دوں گا۔ اب نکالیے انگوٹھی۔“
میں کافی بے چین ہوگیا تھا۔ سونے کی انگوٹھی کا سن کر میرے منہ میں پانی آگیا تھا۔
”کیا میں آپ پر اعتبار کر لوں۔“ انھوں نے میری آنکھوں کی گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس لمحے میں نے خوف محسوس کیا کہ کہیں وہ میرے بارے میں کوئی غلط رائے نہ قائم کر لیں۔ میں نے جلدی سے چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا: ”آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے، آخر میں یہاں کے دفتری معاملات کا انچارج ہوں۔ میں آپ کی جو مدد کرسکتا ہوں، کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔“
”اچھی بات ہے، یہ رہی انگوٹھی۔“ اس نے میرے سامنے اپنی مٹھی کھول دی۔
میں اس انگوٹھی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ واقعی ایک تولے سے کم کی نہیں تھی۔ یہی نہیں، اس میں نگ کی جگہ کوئی بہت قیمتی موتی جڑا گیا تھا۔ شایدانہیں اس موتی کی قیمت کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کے خیال میں وہ کوئی عام موتی تھا۔ اگر وہ ایسا سمجھتیں تو یہ اور زیادہ عجیب بات تھی، کیوں کہ اگر وہ اس کی انگوٹھی تھی تو اسے یہ بات کیوں معلوم نہیں تھی۔ میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا:”کیا یہ انگوٹھی آپ کی نہیں ہے؟“
”بالکل میری ہے۔“
”کیا آپ نے خود خریدی تھی؟“
”نہیں! یہ میرے مرحوم شوہر نے شادی کی رات مجھے تحفے میں دی تھی۔“
”کیا انھوں نے اس کے بار ے میں آپ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔“
”بتایا کیوں نہیں تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ ہیرے کی انگوٹھی ہے۔ مطلب یہ کہ جس نگ کو آپ عام موتی خیال کر رہے ہیں، وہ دراصل ہیرا ہے۔“
”اور پھر بھی آپ یہ مجھے دے رہی ہیں۔ وہ بھی اتنے سے کام کے بدلے میں کہ میں آپ کو چند کاغذ اور قلم دوں گا اور پھر آپ جو کچھ لکھ کر دیں، میں اسے اخبار میں اشاعت کے لیے دے دوں گا۔ بس اتنی سی ہی بات ہے!“
”ہاں، اتنی سی ہی بات ہے، لیکن یہ بات معمولی نہیں ہے۔ میری کہانی اگر منظر عام پر آگئی تو ہل چل مچ جائے گی۔ پھر ایسی ایک کیا، میں آپ کو دس انگوٹھیاں دے سکوں گی۔“ بوڑھی عورت نے یقین کے لہجے میں کہا۔
”کیا… کیا کہا آپ نے؟“ میں دھک سے رہ گیا۔
”بھئی، اس میں بے یقینی کی کون سی بات ہے۔ جو عورت آپ کو ایسی ایک انگوٹھی دے سکتی ہے، وہ دس بھی دے سکتی ہے۔ آپ بس میرا یہ معمولی سا کام کر دیں۔ میرے اس کام کے بدلے میں شاید ادارے والے آپ کو ملازمت سے نکال دیں، لیکن جب آپ کو دس انگوٹھیاں مل جائیں گی تو آپ ایسا اپنا ذاتی ادارہ قائم کرنے کے قابل ہوجائیں گے، کیا خیال ہے؟“
”میں… میں آپ کا کام کروں گا… جو ہوگا، دیکھا جائے گا… فی الحال آپ یہ انگوٹھی تو مجھے دے ہی رہی ہیں نا۔“
”بالکل بالکل! لیکن پہلے کاغذ اور قلم مجھے لا دیں۔“
”وہ آپ کو تھوڑی دیر بعد مل جائیں گے۔ فکر نہ کریں۔“
”اور اس میں راز داری شرط ہے۔“
”ٹھیک ہے، یہ معاملہ میرے اور آپ کے درمیان رہے گا۔“
”اچھا تو میں اپنے کمرے میں چلتی ہوں۔ آپ کاغذ اور قلم وہیں لے آئیں۔“ اس نے انگوٹھی کو پھر اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوئے کہا۔
میں نے سر ہلا دیا۔ اس کے جاتے ہی میں عمارت سے باہر نکلا اور ایک سٹیشنری کی دکان سے بہت سے کاغذ اور دو قلم خرید لایا۔ اب میرا رُخ اس کے کمرے کی طرف تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور میز کے سامنے وہ کرسی پر بیٹھی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ میں نے کاغذ اور قلم میز پر رکھ دیے۔
میں بے تابانہ انداز میں بولا:”لائیے انگوٹھی!“
”ضرور کیوں نہیں۔“ وہ مسکرائی اور انگوٹھی میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ میں تو جھوم اُٹھا۔
اسی شام میں نے انگوٹھی ایک جوہری کو دکھائی اور پوچھا:”ہیرے کی اس انگوٹھی کی اس وقت آپ کیا قیمت لگاتے ہیں؟“
جوہری نے انگوٹھی کو حیرت سے دیکھا اور بولا:”میں آپ کو اس کے ایک کروڑ دے سکتا ہوں۔“
میں سکتے میں آگیا۔ دس انگوٹھیوں کا مطلب تھا، دس کروڑ۔ دس کروڑ کے بعد تو میں اپنے ادارے کو دس مرتبہ چھوڑ سکتا تھا۔
”میں ذرا کسی اور کو دکھا لوں۔“ میں نے نظر انداز کرنے کے لہجے میں کہا کہ وہ کچھ زیادہ دے سکتا ہے یا نہیں۔
اس نے انگوٹھی میری طرف بڑھا دی اور بولا:”سوا کروڑ تک دے دوں گا بس۔ آپ بے شک جتنے لوگوں کو چاہیں دکھا لیں، لیکن خیال رہے کہ جیب کترے نہ آپ کے پیچھے لگ جائیں۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ میں محکمۂ پولیس میں ملازمت کر چکا ہوں ، اب بھی میرے کئی افسروں سے تعلقات ہیں۔“ یہ کہہ کر میں مسکرایا اور وہاں سے چلا آیا۔
ویسے اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایسے جھوٹ بولنا میرا بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ اب مارے حیرت کے میرا برا حال تھا۔ میں سوچ رہا تھا، یہ بوڑھی عورت آخر کیا چیز ہے، جس کے پاس ایک کروڑ سے زیادہ قیمت کی ایک انگوٹھی موجود ہے اور وہ مجھے ایسی دس انگوٹھیاں دینے کی بات کرتی ہے۔ میں اس کی بات کو گپ کیسے خیال کر لیتا، جب کہ اس انگوٹھی کی قیمت معلوم ہوچکی تھی۔ اب مجھے بے تابی سے انتظار تھا تو صرف اس بات کا تھا کہ وہ کب اپنی تحریر مکمل کریں اور کب میں اس کواخبار کے دفتر میں دے کر آﺅں۔
مجھے دو دن تک انتظار کی کیفیت میں رہنا پڑا۔ آخر تیسرے دن وہ میرے پاس آئی اور راز دارانہ انداز میں بلا کر اپنے کمرے میں لے گئی۔
”مجھے جو لکھنا تھا، میں لکھ چکی ہوں۔ اب شرط یہ ہے کہ آپ اسے پڑھے بغیر اخبار کے دفترپہنچائیں گے۔ اگر میرا مضمون شائع ہوگیا تو اس صورت میں آپ کو ہیرے کی مزید انگوٹھیاں دینے کے قابل ہوجاﺅں گی۔“
میرے منہ سے نکلا:”آخر کیسے؟“
”اگر آپ نے اخبار کے دفتر میں دینے سے پہلے اس مضمون کو پڑھ لیا اور شائع ہونے کے لیے نہ دیا تو یہ معاملہ جوں کا توں رہ جائے گا۔ اس صورت میں یہ انگوٹھی بھی مجھے واپس دے دیجیے گا۔“
انھوں نے میرا جملہ سنا ہی نہیں۔ بس اپنی سناتی رہیں۔ آخر میں نے کہا:
”میر ادماغ تو نہیں چل گیا۔ آخر میں اپنا اتنا بڑا نقصان کیوں کروں گا!“ یہ کہتے ہوئے میں بھرپور انداز میں مسکرایا۔
اس نے مضمون میرے حوالے کر دیا اور بولی:”اسے لفافے میں بند کر کے گوند لگا دیں اور یہ اخبار کے دفتر میں دینے والا کام آج ہی کر ڈالیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ کل کے اخبار میں چھپ جائے گا۔“
”ٹھیک ہے۔ میں ایسا ہی کروں گا، آپ فکر نہ کریں۔“
میں اپنے دفتر میں چلا گیا۔ ایک لفافے میں مضمون کو ڈالا اور گوند لگادی۔ شام کے پانچ بجے جب میری جگہ میرے ساتھی نے لے لی تو میں اپنے گھر آگیا۔ اب مجھے لگا کہ جیسے قدرت مجھ پر بہت مہربان ہو۔ آخر بے وقوف بڑی بی نے یہ کیسے سوچا کہ میں پڑھے بغیر کہانی اخبار کے دفتر کو دے دوں گا۔
گھر آکر میں نے مضمون پڑھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس وقت مجھے ساری حقیقت معلوم ہوئی۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا۔ میرے سامنے اب دو راستے تھے۔ ایک تو وہی جو بڑی بی نے بتایا تھا۔ دوسرا راستہ ایک اور تھا۔ اس پر عمل کرنے کی صورت میں بہت زیادہ دولت مند بن سکتا تھا۔
لیکن معاملہ اس کے اُلٹ بھی ہوسکتا تھا اور مجھے اپنی جان کے لالے بھی پڑ سکتے تھے۔ بے خطر راستہ پہلا تھا اور میں بے وقوف نہیں تھا کہ پُرخطر راستہ اختیار کرتا۔ میں بازار گیا۔ وہاں سے اس مضمون کی فوٹو کاپی نکلوائی۔ اس کاپی کو گھر میں رکھا اور اخبار کے دفتر پہنچ گیا۔ بڑی بی نے باقاعدہ اس کے ایڈیٹر کا نام تک بتایا تھا۔ ایڈیٹر کا نام عبدالجبار کریمی تھا۔ وہ بااخلاق طریقے سے ملے۔ میں نے یہ لفافہ ان کے سامنے رکھ دیا۔
”یہ کیا ہے؟ کوئی مضمون، کالم یا پھر خبر؟“ اب ان کے لہجے میں قدرے ناگواری در آئی، کیوں کہ اس قسم کے کام کے لیے الگ شعبہ تھا۔ ایڈیٹر سے تو کسی خاص مقصد کے لیے ملاقات کی جاسکتی تھی۔
”آپ لیڈی ذاکر جمالی کو جانتے ہیں؟“
ایڈیٹر صاحب بری طرح اچھلے۔ ان کے منہ سے نکلا: ”میرے خدا! کیا ان کاغذات میں لیڈی ذاکر کے بارے میں کچھ ہے؟“
”ایک مضمون ہے، جو انھوں نے خود لکھا ہے۔“
”کیا کہہ رہے ہو، وہ کہاں ہیں؟“ ایڈیٹر صاحب اچھل پڑے۔
میں نے اگر مضمون نہ پڑھا ہوتا تو انہیں اس طرح اُچھلتے دیکھ کر خود بھی ضرور اچھل پڑتا،لیکن چونکہ میں کہانی پڑھ چکا تھا، اس لیے پرسکون انداز میں مسکراتا رہا۔
”وہ جہاں بھی ہیں، خیریت سے ہیں۔ آپ ان کی یہ کہانی پڑھ لیں اور اسے شائع کر دیں، بس یہی وہ چاہتی ہیں۔“
”ہم اور ان کی کہانی شائع نہ کریں، ہمارا دماغ تو نہیں چل گیا۔ یہ کل کی سب سے بڑی خبر ہوگی، لیکن مجھے تو بتا دو، وہ ہیں کہاں؟“
”انھوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اخبار میں خبر شائع ہونے کے بعد وہ خود سامنے آئیں گی۔“ میں نے بات اس طرح کی، جیسے مجھے بڑی بی نے یہ بات خود بتائی ہو، حالانکہ اس نے تو مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔
”اچھا تو آپ اپنا فون نمبرتو دے دیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے فون نمبر بتا دیا اور وہاں سے چلا آیا۔ واپس آکر میں نے بڑی بی کو بتا دیا کہ اس کی ہدایات کے مطابق کام ہوگیا ہے۔ یہ سن کر ان کے چہرے پراطمینان پھیل گیا۔
دوسرے دن اس اخبار کے پہلے صفحے پر سب سے بڑی سرخی یوں تھی۔
”لیڈی ذاکر جمالی کی کہانی خود ان کی زبانی۔“
اس سرخی کے بعد وہ کہانی درج تھی، جو مضمون کی صورت میں ایڈیٹر صاحب کو دے آیا تھا۔
لیڈی ذاکر جمالی کی کہانی کچھ یوں تھی:
”میں اپنی کہانی آج خود آپ کو سنا رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ روزنامہ اکرام کے ایڈیٹر صاحب میری اس کہانی کو ضرور شائع کریں گے۔ اخبارات کی دنیا میں اگر مجھے کوئی شخص پسند رہا ہے تو وہ یہی ایڈیٹر صاحب ہیں، اس لیے میں نے اپنی کہانی سنانے کے لیے روزنامہ اکرام ہی کو منتخب کیا۔ چار سال سے میرے یعنی لیڈی ذاکر جمالی کے بارے میں کسی کو کوئی پتا نہیں چل رہا ہوگا کہ وہ کہاں ہے۔ میرے گھر کے افراد نے چار سال پہلے میری گم شدگی کی رپورٹ درج کرائی ہوگی اور انھوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے ہوں گے۔ میرے بارے میں بتانے والے کے لیے بہت بڑے بڑے انعامات کے اعلان کیے ہوں گے، لیکن سچ یہ ہے کہ میرے گھر کے سبھی افراد ہی مجھے غائب کر دینے کے ذمے دار ہیں۔ ان سب نے مل کر یہ کام کیا ہے۔
میرے شوہر جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کئی ارب کے مالک تھے۔ وہ اس ملک کے تو شاید سب سے بڑے دولت مند آدمی تھے۔ ان کی وفات کے بعد میرابیٹا او ر بیٹی اور میں، بس یہ تینوں ہی اس ساری دولت کے مالک تھے۔ میں نے ان دونوں کی شادیاں کرا دیں اور وہ اپنے بچوں میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمارے پاس کیا نہیں تھا؟ اللہ کا دیا سبھی کچھ تو تھا۔ پھر ایک دن میرا بیٹا اور بیٹی ایک تقریب میں جانے کے لیے گھر سے نکلے اور پھر واپس نہ آئے۔ ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
میری دنیا اندھیر ہوگئی۔ خیر، رفتہ رفتہ میں پرسکون ہوگئی۔ اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں میں گھِر کر اس غم کو بھول گئی، مگر دولت کی ریل پیل نے ان سب کے دماغ خراب دیے۔ میں انہیں قدم قدم پر ٹوکنے لگی۔ انہیں برائیوں سے روکنے لگی، لیکن وہ غلط کاموں میں اس طرح مگن ہوئے کہ ان کی اصلاح میرے بس کی بات نہ رہی۔ میں کڑھنے اور جلنے لگی۔ انہیں بار بار جھڑکتی، برا بھلا کہتی، یہاں تک کہ وہ تنگ آگئے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ساری جائیداد میرے نام تھی اور میری زندگی میں وہ اس کے مالک نہیں بن سکتے تھے۔ بڑا نواسا ڈاکٹر ہے۔ اس نے مجھے سوتے میں نیند کے انجکشن لگا کر محل نما کوٹھی کے ایک تہہ خانے میں قید کردیا۔ پھر میری گم شدگی کی رپورٹ درج کرا دی اور اخبارات میں اشتہارات دے دیے۔
اب تہ خانے میں میرے ساتھ کیا ہوتا رہا۔ یہ بہت بھیانک کہانی ہے۔ ڈاکٹر نواسے نے ہوش و حواس تباہ کرنے کی دوائیں، انجکشنوں کی صورت میں مجھے دینا شروع کر دیں۔ وہ مجھے ہر وقت سلائے رکھتا۔ اس طرح میرے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہوتارہا۔ آخر میں پاگل ہوگئی۔ اپنے حواس کھو بیٹھی۔ یادداشت غائب ہوگئی۔ مجھے اپنے بارے میں کچھ ہوش نہ رہا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں؟ جب ڈاکٹر نواسے نے یہ جان لیا کہ میں مکمل طور پر پاگل ہوچکی ہوں تو انھوں نے مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا پروگرام بنایا۔ ایک رات وہ مجھے پاگل خانے میں داخل کروا آئے۔
انہیں یقین تھا کہ میں کسی کو بھی کچھ بتانے کے قابل نہیں رہ گئی ہوں۔ شاید ان کا خیال درست بھی ثابت ہوتا،ا گر پاگل خانے کے ڈاکٹر بہت ہی مہربان ہستی نہ ہوتے۔ انھوں نے جب میرے بازوﺅں کو انجکشنوں سے چھلنی دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ میں پاگل ہوئی نہیں، بلکہ پاگل بنا دی گئی ہوں۔ انھوں نے میرا علاج شروع کیا۔ جو دوائیں مجھے دی گئیں تھیں، ان کے بارے میں اندازہ لگایا، پھر ان کے اثرات دور کرنے والی دوائیں مجھے استعمال کرائیں۔ نواسے نے مجھے پاگل بنانے میں دو سال صرف کیے تھے۔ اسی طرح مہربان ڈاکٹر صاحب کو مجھے صحت مند حالت میں لانے میں بھی دو سال لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے پاگل خانے سے باہر لا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے، اچانک ان کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ پاگل خانے میں یہ خبر سن کر پاگل اس قدر روئے کہ کیا کوئی سگا رشتے دار اپنے مرنے والوں پر رویا ہوگا۔
اب میرے لیے یہ نیا مسئلہ تھا کہ پاگل خانے سے باہر کیسے نکلوں۔
باہر نکل کر اپنے گھر چلی جاتی تو نواسے، پوتے مجھے پھر تہہ خانے میں بند کر دیتے۔ میں نے اپنے گھر میں اخبار ”اکرام“ لگایا ہو ا تھا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر میرے پاس اخبار کی مالی امداد کے سلسلے میں آتے رہتے تھے۔ وہ مجھے بہت اچھے اور ایمان دار لگے تھے۔ سو اس موقع پر مجھے وہ یاد آئے۔ ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے تو مجھے کچھ بھی نہ کرنا پڑتا۔ اب میں نے جائزہ لیا، غور کیا اور آخر کلرک سے بات کی۔ میرے پاس ایک انگوٹھی موجود تھی۔ مجھے پاگل بنانے والوں کا دھیان اس انگوٹھی کی طرف نہیں گیا یا پھر انھوں نے اسے عام انگوٹھی خیال کیا ہوگا۔ سوچا ہوگا، انگوٹھی نکال کر کیا کریں گے۔ پاگل خانے میں بھی انگوٹھی کی طرف کسی نے دھیان نہ دیا، لیکن میں انگوٹھی کے بارے میں جانتی تھی، اسی لیے کلرک کو وہ انگوٹھی دے کر کام نکالا اور اس طرح اپنی کہانی آ پ تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہوں۔
یہ تھی لیڈی ذاکر جمالی کی کہانی۔ جونہی یہ کہانی شہر میں پھیلی، پولیس نے ان کی کوٹھی کو گھیرلیا، ان کے پوتے، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کو گرفتار کر لیا گیا، پھر پولیس ہی لیڈی ذاکر جمالی کو پاگل خانے سے نکال کر کوٹھی تک لائی۔
کوٹھی پر ملنے والوں کا ہجوم ہوگیا۔ اس طرح لیڈی ذاکر جمالی دو دن تک بری طرح مصروف رہیں۔ اس کے بعد انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور تحریری بیان جمع کروایا۔ انھوں نے اپنے بیان میں لکھا تھا، وہ اپنے گھر کے تمام پوتوں اور نواسوں اور سب کو معاف کرتی ہیں۔ ان کے خلاف کوئی پولیس کارروائی نہیںچاہتیں۔ اس بیان کے بعد ان سب کو رہا کر دیا گیا، تاہم لیڈی ذاکر نے انہیں اپنی تمام جائیداد سے محروم کر دیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی دولت دکھی انسانیت پر صرف کریں گی، ہسپتال بنوائیں گی اور دوسرے فلاحی ادارے قائم کریں گی۔
اخبارات نے ان خبروں کو خوب زور و شور سے شائع کیا۔ تیسرے دن میں ان سے ملنے جا پہنچا۔ ملازم نے انہیں میرے بارے میں بتایا۔ انھوں نے مجھے اندر بلا لیا۔ بہت گرم جوشی سے استقبال کر کے کہا:”مجھے آپ کا انتظار تھا۔ آپ بیٹھیں، میں ابھی آتی ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں ہیرے کی دس انگوٹھیاں تھیں۔
”آپ نے زحمت کی۔“میں نے ان انگوٹھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”زحمت کیا! کیا مطلب! بھئی، یہ میرا آپ سے وعدہ تھا۔“
”میں یہ انگوٹھیاں لینے نہیں، بلکہ پہلی انگوٹھی بھی واپس دینے کے لیے آیا ہوں۔“
”کیا!“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔
”ہاں، میں نہیں چاہتا، میرے ساتھ بھی وہی ہو، جو آپ کے ساتھ ہوا۔ پاگل خانے کے انچارج نے مجھے ملازمت سے فارغ نہیں کیا، بلکہ انھوں نے تو مجھے ترقی دے کر اسسٹنٹ منیجر بنا دیا ہے۔ میرے لیے یہی بہت ہے۔ آپ کی انگوٹھیاں آپ کو مبارک ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ رخصت ہونے سے پہلے میں نے ان کے چہرے پر بہت دل کش مسکراہٹ دیکھی۔ یہ مسکراہٹ میری بات سن کر ان کے چہرے پر اُبھری تھی، گویا انہیں میرا فیصلہ بہت پسند آیا تھا۔
٭٭٭