skip to Main Content

جرم کی سزا

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوڑھی عورت جمیل کو دیکھ کر زور سے چونکی۔ پھر اس نے بے اختیار ہو کر اس کا دامن پکڑ لیا اور چلائی:”تم… تم میرے شیدے ہو۔“
جمیل نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ایک جھٹکے سے اپنا دامن چھڑا کر بولا:”مائی! تم پاگل تو نہیں ہو؟“
”لوگ مجھے پاگل بھی سمجھتے ہیں، لیکن میں ہوں نہیں۔ دیکھو! تمہارے دائیں کان کی لو میں ایک پیدائشی سوراخ ہے، میں نے اس سوراخ میں بالی ڈال دی تھی۔ تم بچپن میں راج نگر کے ریلوے اسٹیشن پر مجھ سے بچھڑ گئے تھے۔ اس دن اسٹیشن پر بہت رش تھا۔ میں نے تمہاری کلائی پکڑ رکھی تھی۔ اچانک بہت سے لوگوں کاایک ریلا آیا۔ ریلا مجھ سے ٹکرایا تو تمہارا ہاتھ مجھ سے چھوٹ گیا۔ پھر میں نے پورے اسٹیشن پر تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا، لیکن تم اس طرح غائب ہوگئے تھے، جیسے زمین تمہیں نگل گئی ہو۔ پھر میں نے تمہاری تلاش کے سلسلے میں کیا کچھ نہیں کیا، لیکن تم نہیں ملے۔ آج پچیس سال بعد تم ملے ہو۔ تم ہی میرے شیدے ہو۔“
”مائی! تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں جمیل ہوں، اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا۔ وہ دیکھو! میری امی چلی آرہی ہیں۔ انھی کو لینے کے لیے میں ہسپتال آیا تھا۔ ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔ وہ تین دن ہسپتال میں رہی ہیں۔ میں یہاں آدھے گھنٹے دیر سے پہنچا ہوں۔ راستے میں ٹریفک جام ہوگیا تھا، اس لیے یہ بے چاری تنگ آکر خود نکل آئی ہیں۔“ یہ کہہ کر جمیل اپنی ماں کی طرف بڑھ گیا۔ ماں نے اسے سینے سے لگایا۔ جمیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنی کار کی طرف بڑھا۔ بوڑھی عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ دوڑ کر ان کے راستے میں آگئی اور بولی:”نہیں ، نہیں، تم میرے شیدے ہو۔ میرا دل پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔“
جمیل کی والدہ بولیں:”یہ کون ہے بیٹا؟“
”معلوم نہیں کون ہے۔ مجھے اپنا بیٹا سمجھ رہی ہے۔ اس بے چاری کا بیٹا بچپن میں گم ہوگیا تھا۔ آج تک اسے یاد کرتی پھر رہی ہے۔ مجھے دیکھ کر بول اٹھی کہ تم میرے شیدے ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا نام جمیل ہے اور آپ میری امی ہیں۔“
بوڑھی عورت تڑپ کر بولی:”لیکن تمہارے کان کی لو میں سوراخ کیوں ہے؟“
جمیل کی والدہ کے منہ سے نکلا:”سوراخ؟“
”ہاں! جب میرا شیدا پیدا ہوا تھا تو اس کے کان کی لو میں ایک سوراخ تھا۔ میں نے اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان کی لو میں بالی ڈال دی تھی۔“
جمیل کی والدہ نے منہ بنایا:”چلو بیٹا! بیٹے کے غم میں شاید اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔“
جمیل بولا:”جی چلیے۔“
بوڑھی عورت بولی:”میں نے آج تک کسی نوجوان کا دامن پکڑ کر یہ نہیں کہا کہ تم میرے بیٹے ہو۔ پچیس سال میں یہ پہلا موقع ہے۔“
”لیکن میری والدہ میرے ساتھ کھڑی ہیں۔“
اس کی والدہ پھر بولیں:”چلو بیٹا!“
دونوں آگے بڑھ گئے اور کارمیں بیٹھ گئے۔ بڑھیا سکتے کے عالم میں کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ کار کی طرف دوڑی،لیکن اسی وقت کار آگے بڑھ گئی ۔
٭
رات کو کھانے کی میز پر جمیل کی زبان پر اس بڑھیاکا ذکر آگیا۔ اس وقت وہاں اس کے والد بھی تھے۔ جمیل نے انہیں بتایا:”ہسپتال کے باہر آج ہمیں ایک بڑھیا ملی تھی۔“
اس کے ابو نے کہا:”اچھا تو پھر۔“
جمیل کی امی نے جواب دیا:”وہ بے چاری جمیل کو اپنا بیٹا خیال کر بیٹھی تھی، کیوں کہ اس کا بیٹا بچپن میں گم ہوگیا تھا۔“
ابو کی دلچسپی بڑھ گئی:”اوہو! اچھا، وہ کیا کہہ رہی تھی؟“
جمیل اور اس کی والدہ دونوں انہیں تفصیل بتانے لگے۔ اس کے ابو مسکرانے لگے۔ پوری بات سننے کے بعد وہ بولے:”صدمہ ایسی ہی چیز ہوتی ہے۔“
”یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ اگر اس کے بیٹے کے کان کی لو میں قدرتی طور پر سوراخ تھا تو ہمارے بیٹے کے کان کی لو میں بھی ہوسکتا ہے۔“
اس طرح بات آئی گئی ہوگئی۔ جمیل اس کے بعد بھی کئی بار اس ہسپتال کے سامنے سے گزرا، لیکن وہ بوڑھی عورت پھر اسے نظر نہ آئی۔ اس بات کو کئی مہینے گزر گئے۔ ایک رات وہی بوڑھی عورت اسے خواب میں نظر آئی۔ وہ اس کا دامن پکڑ کر کہہ رہی تھی:”تم… تم ضرور میرے بیٹے ہو۔“
جمیل نے اپنا دامن چھڑایا اور اسے زور دار دھکا دیا کہ وہ دھڑام سے گر پڑی۔ ساتھ ہی جمیل کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا پورا بدن پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ حالانکہ موسم کچھ خنک تھا۔ اچانک اس نے سنا کہ ساتھ والے کمرے میں اس کے ابو اور امی دبی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ اسے حیرت ہوئی۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور باہر آکر ان کے دروازے سے لگ کر خاموش کھڑا ہوگیا۔ اب اسے بات چیت صاف سنائی دینے لگی۔
اس کی امی پریشانی سے بول رہی تھیں:”لیکن ندیم! میں اپنی نیند کا کیا کروں؟ جب سے میں نے اس بوڑھی عورت کی باتیں سنی ہیں، رات کو نیند نہیں آتی۔ صبح تک کروٹیں بدلتی رہتی ہوں۔ تمہیں یاد ہوگا کہ ہم ٹرین میں سوار تھے۔ پلیٹ فارم پر بے تحاشا ہجوم تھا۔ایسے میں ایک شخص نے ایک بچے کو ڈبے میں سوار کیا اور خود بھی اوپر آگیا۔ پھر بچہ ہمارے حوالے کر کے کہا کہ میں اس کے لیے کچھ کھانے کو لے آﺅں۔ بس وہ نیچے اتر گیا۔ اسی وقت گاڑی چل پڑی۔ ہم نے اس شخص کی تلاش میں نظریں دوڑائیں، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا۔ وہ شاید چیزیں لینے کے لیے دور نکل گیا تھا، اس لیے ٹرین میں سوار نہ ہوسکا۔ بچہ ہمارے پاس رہ گیا۔ ہم اگلے اسٹیشن پر اتر گئے، تاکہ وہ شخص دوسری ٹرین سے آئے تو بچہ اس کے حوالے کر دیں، مگر ہمیں وہ شخص کہیں نظر نہ آیا، البتہ ہم نے لوگوں سے سنا کہ ایک عورت پچھلے اسٹیشن پر”میرا بچہ، میرا بچہ“ کہتی پھر رہی تھی۔ وہ عورت بھی وہاں نظر نہ آئی۔ پھر ہمارے دل میں بے ایمانی آگئی اور ہم اس بچے کو خاموشی سے اپنے گھر لے آئے، کیوں کہ ہماری کوئی اولاد نہ تھی۔ لگتا ہے، ہمارا جمیل اسی بڑھیاکا بیٹا ہے، کیوں کہ اس نے بھی اپنے بچے کے اسٹیشن پر گم ہونے کی کہانی سنائی ہے۔“
”تب پھر وہ آدمی کون تھا؟“
”شاید کوئی بچوں کو اغوا کرنے والا۔ اس عورت کا بیان ہے کہ لوگوں کا ایک ریلا آیا تھا اور اس سے بچے کا ہاتھ چھوٹ گیا تھا۔ اس نے بچے کے باپ کا ذکر نہیں کیا، لیکن وہ اس کے کان کے سوراخ اور بالی کا ذکر کر رہی تھی اور اس کے کان میں واقعی بالی تھی۔“
”کیا؟“ جمیل کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
اس کی آواز سن کر دونوں بری طرح اچھلے۔ ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ اسی وقت جمیل اندر داخل ہوا۔ میاں بیوی اب بہت سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جمیل بھی پلکیں جھپکائے بغیر ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آخر اس کے منہ سے نکلا:”تو پچیس سال پہلے یہ ہوا تھا اور آپ دونوں نے مجھے میری ماں تک پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہی بات ہے نا؟“ وہ چیخ پڑا۔
”ہاں بیٹا! یہی بات ہے۔“ ماں بھی پھٹ پڑی۔
”لیکن کیوں؟ آپ نے اتنا بڑا جرم کیوں کیا؟“
”ڈاکٹر ہمیں بتا چکے تھے کہ ہمارے ہاں کبھی اولاد نہیں ہوگی۔“
”اف خدایا! یہ آپ نے کیا کیا اور پچیس سال پہلے کے جرم کو آپ نے پھر دہرا دیا۔ آپ کو اب بھی اس دکھی عورت پر ترس نہ آیا۔ میں جارہا ہوں۔ میں اسے تلاش کر کے رہوں گا۔ وہ مجھے مل گئی تو اسے ساتھ لے کر یہاں آﺅں گا۔ اس صورت میں ہم یہاں ایک ساتھ رہیں گے، لیکن یاد رکھیے! اگر وہ مجھے نہ ملی تو میں کبھی اس گھر میں لوٹ کر نہیں آﺅں گا۔ یہی آپ دونوں کے جرم کی سزا ہوگی۔“
ان دونوں کے منہ سے نکلا:”نہیں بیٹا! رک جاﺅ۔“
لیکن بیٹا تو جا بھی چکا تھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top