skip to Main Content

کنڈر گارٹن

ناول: Extract From Confessions of a failed southern Lady
مصنف: Florence Ting

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھیے! کنڈر گارٹن کی ایک دلچسپ کہانی…. کہیں آپ بھی کنڈر گارٹن تو نہیں….؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

 نوٹ: زیر نظر تحریر فلورنس کنگ کے ناول کا ایک ٹکرا ہے اور کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسی بچی ہے جس کی ذہنی صلاحیتیں اپنی عمر کے حساب سے غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ مترجم

۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہم اس نئے مکان میں شفٹ ہوئے تو یہ میرے اسکول میں داخلے کا وقت تھا۔ مجھے کے جی وَن میں داخلہ دِلا دیا گیا۔
آج اسکول میں میرا پہلا دن تھا۔ ماما اور میں پیدل چلتے ہوئے اسکول پہنچے جو ہمارے گھر سے قریب ہی تھا۔ کے جی وَن کی کلاس گراﺅنڈ فلور پر تھی۔ نو بجتے ہی ٹیچر نے ڈیسک بجا کر اعلان کیا کہ کلاس کا وقت شروع ہوچکا ہے اور سر کے اشارے سے تمام ماﺅں کو کلاس روم سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ ساری مائیں بادل نخواستہ اپنے بچوں کا ہاتھ چھوڑ کر دروازے کی جانب بڑھ گئیں لیکن پھر کلاس میں اچانک زلزلہ آگیا۔ میرے قریب کھڑے ایک چھوٹے سے لڑکے نے آنکھیں بند کرکے زور دار چیخ ماری اور پھر تو جیسے وائرس کی طرح یہ چیخ و پکار پوری کلاس میں پھیل گئی۔ ہر بچہ چیخ چیخ کے رو رہا تھا۔ جیسے ہی کوئی بچہ رو رو کے بے ہوش ہونے کے قریب ہوتا، اس کی ماں بانہیں پھیلائے، آنکھوں میں آنسو بھرکے کلاس میں داخل ہوجاتی اور اپنے بچے کو گود میں اُٹھا کر دِلاسے دینے لگتی۔ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ایک بچہ زمین پر لیٹ کر ایڑیاں رگڑ رہا تھا، دوسرے نے رو رو کر اپنی سانس روک لی تھی، ایک کرسی پر بیٹھ کر قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو لاتیں مار رہا تھا، کچھ بچے رو رو کے اُلٹیاں کرنے لگے اور ایک ننھی لڑکی فرش پر گر کر بے ہوش ہوگئی تھی۔ اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
میری ماما کلاس روم سے باہر کھڑی یہ سب مناظر دیکھ رہی تھیں۔ اُن کی نظر مجھ سے ملی تو انھوں نے اشارے سے پوچھا کہ کیا میں خیریت سے ہوں اور میں نے سر ہلایا۔ اگرچہ یہ جھوٹ تھا۔
میرا کوئی بہن بھائی نہیں تھا اور میں اتنے سارے بچوں کے بیچ پریشان ہو رہی تھی۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ احساس اس حقیقت کو جان لینے سے ہو رہا تھا کہ میں خود بھی ایک بچی ہوں۔ مجھے آج تک یہ بات معلوم نہیں تھی۔ میں تو بس یہ خیال کرتی تھی کہ میرا قد عام لوگوں سے زیادہ چھوٹا ہے۔
میں نے بہرحال ماما کو ہاتھ ہلایا، تو وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔ بے ہوش بچی کو اُس کی ماں اُٹھا کر باہر لے گئی۔ فرش پر جن بچوں نے رو رو کر اُلٹی کر دی تھی، وہ صاف کردی گئی۔ باقی مائیں ابھی بھی شیشے کے دروازے سے ناک چپکائے کھڑی تھیں اور بچے اُن کی طرف دیکھ دیکھ کر منھ بسور رہے تھے۔ آخرکار ٹیچر نے بے صبری سے ہاتھ ہلا کر ماﺅں کو جانے کا اشارہ کیا اور وہ سب جیسے دل پر جبر کرکے چلی گئیں۔ اب کلاس میں نسبتاً سکون تھا۔ صرف ایک بچے کے انگوٹھا چوسنے کی آواز آرہی تھی جو بہت جانفشانی سے اس کام میں مصروف تھا۔
ٹیچر نے ہم سب کو میزوں کے گرد بٹھایا۔ اس کے بعد ڈرائنگ پیپر اور رنگین پنسلیں دے کر کہا کہ ہم سب کسی بھی ایسی چیز کی تصویر بنائیں، جو ہمیں پسند ہو۔ میں نے ٹائی ٹینک بنانا پسند کیا۔ کیوں کہ بابا نے چند دن پہلے ہی مجھے اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا اور اس کی تصاویر بھی دکھائی تھیں۔ تصویر مکمل کرنے کے بعد میں نے اس پر ”آر ایم ایس ٹائی ٹینک“ لکھا اور تصویر کے نیچے اپنے دستخط کر دیے۔ جب میں نے ٹیچر کو اپنی ڈرائنگ دکھائی تو وہ اسے بہت دیر تک تکتی رہیں۔
”آر ایم ایس ٹائی ٹینک! آپ کو معلوم بھی ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟“ آخر کار انھوں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے سوال کیا۔
”یس میڈم! آر ایم ایس…. رائل میل اسٹیمر کا مخفف ہے۔“ میں نے فوراً جواب دیا۔
”آپ نے آئس برگ نیلے رنگ کا کیوں بنایا ہے؟ آئس تو سفید ہوتی ہے۔“ انھوں نے پھر پوچھا۔
”میڈم! آئس برگ ہمیشہ نیلے رنگ کے ہی دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ جب سورج کی روشنی ان سے منعکس ہو کر لوٹتی ہے تو ہمیں وہ نیلا رنگ نظر آتا ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
”ہمم….“ ٹیچر نے سر ہلایا اور ایک کاغذ پر کچھ لکھنے لگیں۔ پھر وہ کاغذ تہہ کرکے ایک پِن کی مدد سے میرے کندھے پر لگا دیا۔
”جب آپ کی امی آپ کو لینے آئیں تو ان سے کہیے گا، یہ نوٹ ضرور پڑھ لیں۔“ ٹیچر نے کہا۔
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ جو کچھ انھوں نے لکھا تھا وہ براہ راست میری امی سے خود کیوں نہ کہہ دیا۔ شاید آج کی تاریخ میں وہ مزید ماﺅں سے بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ میں خاموش رہی۔
نوٹ میں لکھا تھا: ”فلورنس کے جی وَن کے حساب سے بہت ایڈوانس ہے۔ براہ مہربانی، کل سے اسے کے جی ٹو میں لے کر جائیے۔“
گھر آکر ماما نے فخر سے بابا کو نوٹ دکھایا اور کہا: ”میری بچی بہت بہادر ہے۔ کلاس کی واحد بچی تھی، جو ذرا بھی رو دھو نہیں رہی تھی۔“
”بھئی واہ! ہماری بیٹی تو بہت ذہین ہے۔“ بابا نے فخر سے کبھی میری طرف اور کبھی میری بنائی ڈرائنگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لیکن دادای میری بے جا تعریف کرنے کے شروع سے خلاف تھیں، یہ سب سن کر رہ نہ سکیں اور بولیں: ”اے لو! یہ بہادری کی بھی خوب کہی…. بچی اسکول بھیجی گئی تھی یا پولیس میں بھرتی کا امتحان دینے، جو اس کی بہادری کے چرچے ہوگئے۔ حَد ہے! بچی ابھی زمین سے اُگی نہیں اور ’ایڈوانس‘ کا خطاب بھی مل گیا…. توبہ توبہ!“
’ارے اماں….! ایڈوانس کا مطلب، وہ نہیں جو آپ سمجھیں۔ ایڈوانس کا مطلب دوسرے بچوں سے آگے، یا پھر بلند ذہنی سطح رکھنے والا ہے۔ اصل میں یہ اس کی بنائی ہوئی تصویر تھی، جس پر اس کی ٹیچر نے یہ راے دی ہے۔ یہ لفظ اس کے طور طریقے کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے علم کے بارے میں لکھا گیا ہے۔“ بابا نے جلدی جلدی وضاحت کی مگر دادی مطمئن نہ ہوئیں۔
”جو بھی ہو! میرے لیے اس سارے معاملے میں پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ اسکول کے پہلے دن ہی پروموٹ کر دی گئی ہے۔“ انھوں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
”تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟“ بابا نے پوچھا۔
”کوئی ایک پریشانی….؟ ایک تو یہ کہ اس رفتار سے اگر یہ پروموٹ ہوتی رہی تو اگلے پندرہ دن میں گریجویٹ ہوجائے گی۔ لڑکیوں کو اتنی تیز رفتاری سے تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے، اس سے وہ عمر میں بڑی معلوم ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ زیادہ ذہین ہونا لڑکیوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، اس سے وہ خود سَر ہوجاتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ کتابی کیڑا قسم کی لڑکیاں عام طور پر پھوہڑ اور بدسلیقہ ہوتی ہیں۔ اگر یہ ہر وقت کتابوں میں ناک گُھسا کر بیٹھی رہی تو بطور ایک معزز گھرانے کی اعلیٰ چشم و چراغ کے کیسے پہچانی جائے گی؟“
”وہ اماں!“ بابا نے بے صبری سے سر ہلایا۔
”میں کوئی نواب یا جاگیردار تو ہوں نہیں، جو میری بیٹی معزز گھرانے کی اعلیٰ چشم و چراغ کہلائی جاسکے۔ یہ معاشرے کی ایک کار آمد شہری بن جائے، مجھے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہیے۔“ بابا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”کار آمد شہری؟ ہونہو! مجھے یہ اصطلاح لڑکیوں کے لیے پسند نہیں، خاصے مردانہ الفاظ ہیں۔“ دادی نے ناک سکیڑی۔
اس کے بعد دادی نے مجھے کار آمد شہری بنانے کے بجاے ’معزز گھرانے کی اعلیٰ چشم و چراغ‘ بنانے کا بیڑہ سر پر اُٹھا لیا۔ سب سے پہلے مجھے بُنائی سکھانے پر لگایا گیا۔ دادی کی زیر ِنگرانی میں چند ہی روز میں اُونی ملبوسات بُننا سیکھ گئی۔ یہ بہت آسان کام تھا۔
”تم اپنے بابا کی سالگرہ پر انھیں اپنے ہاتھ سے بُنے ہوئے اُونی مفلر کا تحفہ دوگی۔“ دادی نے حکم دیا۔
بابا کو اُداس رنگ پسند تھے لہٰذا میں نے گہرے سرمئی رنگ کا اُون منتخب کیا اور مفلر بُننا شروع کر دیا۔ دادی مجھے مفلر بُننے کا حکم دے کر اپنی بہن سے ملنے دوسرے قصبے چلی گئی تھیں۔ مجھے یہ مفلر بابا کی سالگرہ کے دن تک مکمل کرنا تھا۔ کام بور ہوتا جا رہا تھا۔ یکسانیت سے بچنے کے لیے میں اب تیزی سے اون کے رنگ تبدیل کرتی جارہی تھی۔ سرمئی رنگ سے بے زار ہو کر میں نے گہرے نیلے رنگ کا انتخاب کیا اور پھر نیلے رنگ سے اُکتا کر ہلکے سرمئی رنگ کا اُون استعمال کرنا شروع کردیا۔ اگلے دن تک مفلر میں مہرون، نیلا، جامنی، سبز، پیلا، لال، نارنجی اور گلابی رنگ شامل ہوچکا تھا۔ جب تک دادی واپس لوٹیں، مفلر چار فٹ لمبا ہوچکا تھا اور دادی کی ٹوکری میں موجود سارے رنگوں کا اُون اس میں بُنا جاچکا تھا۔ وہ اور ماما اس مفلر کو دیکھ کر دَھک سے رہ گئیں۔
”یہ کیا گولا گنڈا بنا لیا؟“ دادی نے اپنا سر پکڑلیا۔
”اچھا تو ہے! ہر سوٹ کے ساتھ چلے گا۔“ ماما نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
وہ بھی دادی کے ہمراہ دوسرے قصبے گئی ہوئی تھیں اور پہلی دفعہ یہ مفلر دیکھ رہی تھیں۔ چوں کہ یہ مفلر میں دادی کے کمرے میں بیٹھ کر بُن رہی تھی، لہٰذا بابا کو کانوں کان اس دھنک رنگ کے مفلر کی خبر نہ ہوئی جو جلد ہی ان کا ہونے والا تھا۔
”اور آج تمھارے بابا کی سالگرہ ہے۔ دیکھو! تمھارے ساتھ وہ کیا کرتے ہیں۔“ دادی نے مفلر میرے ہاتھ سے لے لیا اور سلائی سے اُتار کر گرہ لگا دی۔ میں نے اسے تہہ کرکے پیک کر دیا۔ پھر ہم سب بابا کے پاس آگئے۔
دادی نے بابا کو حسب معمول موزے اور رومال تحفے میں دیے۔ ماما کا تحفہ اس سے بھی زیادہ حسب معمول تھا۔ بابا نے صبح اُنھیں گھر کے خرچے کے لیے جو پیسے دیے تھے، انھوں نے اس میں سے پانچ سو روپے نکال کر انھیں واپس کر دیے اور بولیں: ”سالگرہ مبارک ہو۔ میری طرف سے کوئی کتاب خرید لیجیے گا۔“
اب بابا نے میرا تحفہ کھولا۔ ڈبے میں سے برآمد ہونے والی قوس قزح کو دیکھ کر اُنھیں جو جھٹکا لگا، اس پر انھوں نے فوراً ہی نہایت خوب صورتی سے قابو پا کر کہا: ”اوہ! بہت ہی خوب صورت مفلر ہے۔ بہت شکریہ میری پیاری بیٹی! میں اسے آج ہی پہنوں گا۔“
اگرچہ وہ مفلر زیادہ لمبا تھا لیکن بابا نے کوئی پریشانی ظاہر کیے بغیر جیسے تیسے اسے اپنے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔
”واہ! بہت عمدہ!“ وہ بار بار کہتے جاتے تھے۔ پوری سردیوں میں انھوں نے میرا بنایا ہوا یہ عجوبہ پہنا اور گرمیاں شروع ہونے پر نہایت احتیاط کے ساتھ لپیٹ کر اپنی قیمتی چیزوں کے ساتھ دراز میں رکھ دیا۔
میرے بابا….! جو میری ذہنی صلاحیت عام بچوں سے زیادہ ہونے پر ناز کرتے تھے لیکن دوسری جانب وہ دِل سے مجھے کنڈر گارٹن کی ہی بچی سمجھتے اور مانتے تھے۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
بادل نخواستہ: بے دلی سے، مرضی کے خلاف
منھ بسورنا: منھ کی ہیئت بگاڑ کر رونے کی شکل بنانا، رونی صورت بنانا
نوٹ (انگریزی): کاغذ یا بیاض وغیرہ جس میں یاد دہانی کے لیے کچھ لکھا جائے، نوٹ بک، ڈائری
جان فشانی: محنت، جاں نثاری
مخفف: گھٹایا گیا، مختصر کیا گیا، اختصار کیا گیا
آئس برگ: برفانی تودہ، ٹیلا اُونی: اُون سے منسوب
منعکس: کسی شفاف چیز پر عکس کی صورت میں نظر آنے والا وہ (شعاع یا صورت) جو شفاف چیز میں الٹ کر آئی ہو
خود سَر: مغرور، خود پسند، ضدی
پھوہڑ: بے وقوف، احمق، ناشائستہ
کنڈر گارٹن: کے جی (کلاس)، کے جی، کنڈر گارٹن کا مخفف ہے

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top