skip to Main Content

سفید ہاتھی

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

وہ ایک سفید ہاتھی تھا جسے اس بات پر بڑا غرور تھا کہ جنگل کے سارے ہاتھیوں سے مختلف ہے اور مرتبے کے لحاظ سے کوئی ہاتھی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا،کیوں کہ اس کا رنگ سفید ہے جبکہ باقی تمام ہاتھی سیاہ یا سلیٹی رنگ کے ہیں۔وہ اپنی اس خوبی کا اکثر ذکر کرتا رہتا تھا،مگر جنگل کے ہاتھی اس کی اس خوبی کو مانتے تو تھے،مگر کہتے تھے ۔”آخر تم ہو تو ہاتھی ہی نا۔ہاتھی ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔صرف سفید ہونے کی وجہ سے تم ہم سے بلند نہیں ہو گئے۔“سفید ہاتھی کو یہ بات بہت بری لگتی تھی اور وہ اپنے ساتھیوں سے لڑتا جھگڑتا ہی رہتا تھا۔
ایک بار جنگل کے سب سے بزرگ ہاتھی نے اسے تنہائی میں بلا کر سمجھایا کہ” دیکھو،یہ تمہارا رویہ درست نہیں ہے۔تم صرف اس وجہ سے کہ تمہارا رنگ سفید ہے اپنے ساتھیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ان سے نفرت کرتے ہو حا ل آنکہ وہ تمہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔کیا کسی ہاتھی نے تمہیں گنے کھانے سے روکا ہے یا کبھی یہ کہا ہے کہ جہاں سے ہم پانی پیتے ہیں وہاں سے تم پانی نہیں پی سکتے۔مل جل کر رہنے میں بڑی برکت ہے۔ہمارے جنگل میں جتنے بھی ہاتھی رہتے ہیں وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں کبھی سستی نہیں کرتے،مگر ایک تم ہو کہ کسی بزرگ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔“
بزرگ ہاتھی کو امید تھی کہ سفید ہاتھی پر اس کی نصیحت کا ضرور اثر ہوگا اور وہ اپنے طور طریقوں سے باز آجائے گا۔وہ بعض آیا تو ضرور،مگر فقط چند روز کے لئے۔اس کے بعد وہ پھر اپنے سفید رنگ پر غرور کرنے لگا اور خود کو سب سے برتر سمجھنے لگا۔
اب کے بزرگ ہاتھیوں نے تو اس سے کچھ نہ کہا البتہ ایک ہاتھی جو ذرا شریر واقع ہوا تھا بولا:
”ہم تمہیں اتنے ہی برے لگتے ہیں تو کسی اور جنگل میں کیوں نہیں چلے جاتے،کیوں جلتے رہتے ہو؟“
سفید ہاتھی کہنے لگا:
”میں چلا جاؤں گا تو تمہیں بڑا افسوس ہوگا۔سارے جنگل میں مجھ جیسا کوئی اور ہاتھی دکھا سکتے ہو؟“
دوسرا ہاتھی بولا:
”ہمارے جنگل میں سفید ہاتھی صرف تم ہو،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمہارا مرتبہ ہم سے بلند ہوگیا ہے۔تم ہم جیسے ہو اور ہمیشہ ہم جیسے ہی رہوگے۔“
”یہ غلط ہے۔میں تم جیسا ہرگز نہیں۔میں سفید ہوں اور تم کالے ہو۔“
باتوں باتوں میں ان کے درمیان تکرار ہونے لگی۔قریب تھا کہ دونوں گتھم گتھا ہوجاتے کہ ایک بزرگ ہاتھی وہاں آ گیا اور اس نے ان دونوں کو الگ الگ راستوں پر چلنے کے لئے مجبور کر دیا۔سفید ہاتھی نے اس وقت دل میں سوچ لیا کہ وہ اب اس جنگل میں نہیں رہے گا، کسی اور جنگل میں رہے گا۔چناںچہ دوسرے دن جب سورج آسمان پر چمک رہا تھا اور ہاتھی گنے کے کھیتوں کی طرف جارہے تھے وہ چپ چاپ اپنے جنگل سے نکل پڑا اور دیر تک چلنے کے بعد ایک ایسے جنگل میں پہنچ گیا جو اس کے اپنے جنگل سے زیادہ وسیع نظر آتا تھا۔ ابھی اس جنگل میں پہنچ کر وہ چند قدم ہی چلا ہوگا کہ اس نے دیکھا کہ طرح طرح کے جانور اس کی طرف آرہے ہیں،پرندے درختوں سے اڑاڑ کر شور مچا رہے ہیں اور اس کے اوپر چکر لگا رہے ہیں۔
اصل میں یہ سارے جانور اور پرندے اسے خوش آمدید کہہ رہے تھے،کیوں کہ ان کے جنگل میں سفید ہاتھی تو کجا کوئی کالے رنگ کا ہاتھی بھی نہیں تھا۔سفید ہاتھی اس پر بڑا خوش ہوا۔
جانوروں کا سردار شیر ہوتا ہے،وہ ہاتھی کو دیکھ کر کہنے لگا:
”اے معزز سفید ہاتھی!ہم تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا تم راستہ بھول کے یہاں آ گئے ہو یا تمہارا کوئی مقصد اور ہے؟“
سفید ہاتھی نے جواب دیا:
”اے جنگل کے طاقت ور بادشاہ!میں راستہ بھول کر ادھر نہیں آیا بلکہ اپنا جنگل ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر یہاں آگیا ہوں۔“
یہ الفاظ جانوروں اور پرندوں نے سنے تو بہت خوش ہوئے۔ہر ایک نے اس کا خیر مقدم کیا۔شیر بولا:
”تم نے دیکھا کہ تمہاری آمد پر جنگل کے درندے اور پرندے کس قدر خوش ہیں۔تم ہمارے مہمان ہو اور ہم سب میزبان ہیں۔ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے ہاں ایک سفید ہاتھی گھومے پھرے گا۔ہم تمہاری ہر طرح خاطر تواضع کریں گے۔“
سفید ہاتھی نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی اس طرح عزت افزائی کی جائے گی اور اس پر پورا جنگل فخر کرے گا۔
اس نے شیر کا دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا:
”اے جنگل کے بہادر حکم راں!مجھے یہاں آکر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔میں سب کی عزت کرتا رہوں گا۔“
”ہم بھی تمہاری عزت کریں گے،کیونکہ تم ہو ہی عزت کے لائق۔“شیر نے کہا۔
جنگل کے سارے درندے اور پرندے اس کی عزت کرتے تھے اور وہ جدھر سے بھی گزرتا تھا جانور اور پرندے آکر کہتے تھے،”معزز مہمان! ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو فرمائے۔ ہم ہرطرح حاضر ہیں۔“
ہاتھی جنگل میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔اچانک اس کے کان میں ایک بلند قہقہے کی آواز آئی۔اس نے اوپر دیکھا۔ایک الو درخت کی شاخ پر بیٹھا تھا۔
یہ حقیر پرندہ میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ہاتھی کو اس پر بڑا غصہ آیا:
”او دنیا کے سب سے احمق اور حقیر پرندے! تیری یہ مجال کے تو مجھ پر ہنستا ہے جبکہ جنگل کا بادشاہ میری عزت کرتا ہے۔“
الو نے پہلے سے زیادہ بلند قہقہہ لگایا:
”سفید ہاتھی! میں تم پر ہنستا ہوں اور ہنستا رہوں گا۔“
”کیوں ہنستے رہو گے بے وقوف؟“ہاتھی نے غضب ناک لہجے میں پوچھا۔
الو نے کہا:”اس لیے ہنستا رہوں گا کہ میں جانتا ہوں حقیقت کیا ہے اور تم حقیقت سے بے خبر ہو۔“
جنگل کے کئی جانور اور پرندے وہاں آگئے تھے۔ان میں سے ایک بارہ سنگھا بھی تھا۔بولا:
”اے ہمارے معزز مہمان! یہ الو تو اول درجے کا بے وقوف اور احمق ہے۔اس کی باتوں کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں کرتا۔آپ بھی اس کی پروا نہ کریں ۔اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔“
سب جانوروں اور پرندوں نے بارہ سنگھے کی تائید کی اور ہاتھی بڑی شان سے آگے بڑھ گیا۔اس کے کانوں میں الو کے قہقہے گونجتے رہے،مگر اُسے ان کی کیا پروا تھی۔
جنگل میں جتنے بھی جانور اور پرندے رہتے تھے تمام کے تمام نہ صرف اس کی بڑی عزت کرتے تھے بلکہ اس کے کھانے پینے کا بھی بڑا خیال رکھتے تھے۔بارہ سنگھوں نے اس کے لئے گنے لانے کی ذمے داری اٹھا لی تھی۔ہرن اسے روز چشمے کے کنارے لے جاتے تھے تاکہ وہ اپنی پیاس بجھا لے۔شیر ہر روز اسے بلوا کر کہتا تھا،”ہمارے معزز مہمان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟“
ہاتھی شکریہ ادا کرکے کہتا،”جنگل کے بادشاہ! مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔“
چند روز بعد جنگل کے جانوروں نے بڑا شان دار جشن منایا۔اس جشن میں سارے جانور اس کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آئے۔سرخ سرخ سیب،امرود اور بے شمار پھل۔بارہ سنگھے اور ہرن گنے لے آئے اور یہ سب کچھ اس کے آگے ڈھیر کردیا۔اس وقت سفید ہاتھی نے سوچا۔ میں نے خواہ مخواہ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس جنگل میں گزار دیا تھا۔مجھے تو بہت پہلے یہاں آ جانا چاہیے تھا۔
وہ اس قدر خوش تھا کہ اپنے پرانے وطن کی یاد اس کے دل میں کبھی آتی ہی نہیں تھی۔سب کے سب جانور اور پرندے اسے دیکھتے تھے تو ادب اور احترام سے اپنے سر جھکا لیتے تھے اور یہ ضرور پوچھتے تھے:
”جناب! آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟“
وہ ہر ایک کا شکریہ ادا کر کے کہتا:
”آپ سب نے مجھے جو عزت اور محبت دی ہے وہ میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ ہے ۔“
سارے جنگل میں کوئی جانور اور پرندہ ایسا نہیں تھا جس نے کبھی اس سے ذرا سی بھی تلخ بات کی ہو یا عزت کرنے میں کسی کوتاہی اور سستی سے کام لیا ہو،مگر ایک الو تھا کہ جب بھی اسے دیکھتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا تھا اور دیر تک ہنستا رہتا تھا۔ہاتھی کو اس کا اس طرح ہنسنا بہت برا لگتا تھا،مگر وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتا تھا کہ یہ الو آخر ہے کیا۔بہت ہی معمولی پرندہ جو دن کے وقت دیکھ بھی نہیں سکتا اور جنگل کے سارے جانور اور پرندے اسے بے وقوف سمجھتے ہیں۔
چھ ماہ گزر گئے۔
سارے کے سارے جانور اور پرندے برابر اس کی عزت کرتے رہے۔اس سے محبت کرتے رہے۔پیٹ بھرنے کے لیے اسے کہیں بھی جانا نہیں پڑتا تھا۔اسے ہر طرح کا آرام حاصل تھا۔رات دن مزے ہی مزے تھے۔وہ بھول گیا تھا کہ زندگی میں کوئی تکلیف بھی ہوتی ہے۔
ساتویں مہینے کا آغاز ہوا تو ایک بارہ سنگھا اس کے پاس آ کر بولا:
”معزز مہمان! گھومتے گھماتے ذرا ادھر چلے جایا کریں۔جنگل کے شمالی حصے میں گنوںکے کئی کھیت ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ہاتھی بولا۔
اور وہ ہر روز لمبا سفر طے کرکے گنوں کے کھیت میں جانے لگا۔
پہلے جب بھی اسے پیاس لگتی تھی تو کوئی نہ کوئی جانور اس کے ساتھ جاتا تھا اور جب تک وہ پانی پی نہیں لیتا تھا کوئی جانور چشمے کے پاس نہیں جاتا تھا،مگر اب ایسا نہیں ہوتا تھا۔کوئی نہ تو اس کے ساتھ ساتھ روانہ ہوتا تھا اور نہ یہ دیکھا جاتا تھا کہ وہ پانی پی رہا ہے بلکہ جانور اس کی موجودگی میں ہی چشمے کے اندر چلے جاتے تھے اور خوب نہاتے تھے۔
ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ جانور اسے دیکھتے تھے تو نہ اس کو سلام کرتے تھے،نہ حال پوچھتے تھے اور نہ پہلے کی طرح اس سے پوچھتے تھے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ایک روز اس کی طبیعت خراب تھی۔وہ ایک درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔پہلے تو یہ حالت ہوتی تھی کہ جانور اور پرندے اس سے یوں ہی پوچھتے رہتے تھے۔آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا،لیکن اب وہ بیمار ہوکر ایک جگہ کھڑا تھا اور کوئی بھی بیمار پرسی کے لئے اس کے پاس نہیں آیا تھا۔ساری رات وہ تنہا پڑا رہا۔صبح سورج نکلا تو اس کی طبیعت بہتر ہوگئی۔اسے سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ شمالی حصے میں،جہاں گنوں کے کھیت تھے وہ پہنچا۔اس نے دیکھا کہ کھیت خالی پڑے ہیں۔
”یہ کیا ہوا؟“اس نے ایک لومڑی سے پوچھا۔
”کیا ہوا؟“لومڑی اس کی طرف دیکھے بغیر بولی۔
”گنے کہاں گئے؟“
”گنے!“ لومڑی زور سے ہنسی،”دوسرے جنگلوں کے ہاتھی کھا گئے۔“
ہاتھی کو بہت حیرت ہوئی۔
”پہلے وہ ہاتھی کہاں تھے؟“
لومڑی نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
”وہ وہیں ہوتے تھے جہاں آج ہیں۔ہم ان گنوں کی حفاظت کرتے تھے۔جنگل کا بادشاہ خود یہاں آ جاتا تھا۔“
”تو اب کیوں نہیں آیا؟“
لومڑی بولی:
”میں کیا جانوں۔ہمارے بادشاہ سے پوچھئے۔“اور یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی۔
ہاتھی بھوکا واپس آگیا اور شیر کے پاس پہنچا،”جنگل کے بادشاہ! آپ کا یہ مہمان بھوکا ہے۔“
”اچھا ہمارا مہمان بھوکا ہے۔ہم نے نیل گائے کا شکار کیا ہے۔بڑ کے درخت کے نیچے آدھا گوشت پڑا ہے۔جاؤ کھالو۔“
ہاتھی نے یہ لفظ سنے تو حیران ہو کر بولا،”بادشاہ سلامت! میں ہاتھی ہوں،گوشت نہیں کھاتا۔“
شیر دھاڑا،”کیوں نہیں کھاتے۔ہم کھاتے ہیں تو تم کیوں نہیں کھاتے؟“
ہاتھی اس کا کیا جواب دیتا۔اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔اس نے درخت کے پتوں اور ٹہنیوں سے پیٹ بھرا،مگر ہاتھی کی خوراک توگنا ہوتی تھی۔
ایک دن اور گزر گیا ۔دوسراروز بھی گزر گیا۔وہ ایک جگہ پر چلا جا رہا تھا کہ اوپر سے قہقہے کی آواز آئی،”کیا حال ہے جنگل کے معزز مہمان؟“
ہاتھی جانتا تھا کہ یہ آواز الو کی ہے۔اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
الو پھر بولا،”مجھ سے ناراض ہو۔اچھا تمہاری مرضی۔مگر میری ایک بات سن لو۔“
”کیا بکتے ہو؟“ہاتھی نے غصے سے پوچھا۔
”میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب تم کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ میں تمہیں دیکھ کر کیوں ہنسا تھا۔ کیوں ہنسا تھا بھلا۔جان گئے ہو نا؟“
ہاتھی نے اس سوال کا بھی کوئی جواب نہ دیا،مگر دل میں وہ سخت شرمندہ ہو رہا تھا۔
اس رات وہ اس جنگل سے نکل کر اس راستے پر آہستہ آہستہ چلا جارہا تھا جو اس کے اپنے جنگل کی طرف جاتا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top