skip to Main Content

کچھوا اور مینڈک

شکیل الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔

ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دنیا بھر کی باتیں، سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن انڈوں کو توڑ دیا کرتے تھے اس لیے اس بزرگ کچھوے کی رائے لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ گرو نے انڈے دینے کے لیے جو جگہ بتائی وہاں کوئی دشمن کبھی نہیں پہنچ سکا، پھر گرو جی سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سمندری طوفان کب آئے گا، سمندر کی لہریں کتنی تیز ہو سکتی ہیں،تمام کچھوے اپنے بال بچوّں کو لے کر ساحل کے قریب کس مقام پر رہیں۔ طوفان کتنی دیر رہے گا، یہ سمجھو بچوّ ذہین، دور اندیش فلسفی قسم کا کچھوا تھا وہ۔
ایک صبح سمندر سے نکل کر وہ کچھوا ریت پر بیٹھا سوچ رہا تھا، ہم تو سمندر اور ریت پر رہتے ہیں، پاس ہی جو بستی ہے ،وہاں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔ سوچتے سوچتے اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بستی کی طرف جائے اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا حال دیکھے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ کچھوے کی چال کیسی ہوتی ہے، بہت ہی آہستہ آہستہ چلتا ہے نا وہ۔ اپنی خاص چال سے آہستہ آہستہ چلا اور پہنچ گیا بستی میں۔
بستی میں پہنچتے ہی اسے ایک آواز سنائی دی ”چھپ چھپ“ پھر یہ آواز بند ہو گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی ”چھپ چھپ“ پھر یہ آواز رک گئی، کچھوے کو یقین آگیا کہ یہ پانی کی آواز ہے۔ کہیں قریب ہی پانی میں کوئی چیز اچھل رہی ہے۔ پھر آواز آئی ”چھپ چھپ“ کچھوے کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ پانی کی آواز بہت پاس سے آ رہی ہے اور اس میں کوئی جانور اچھل رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی خاص چال سے اس جانب چلا کہ جہاں سے آواز آ رہی تھی اور پہنچ گیا ایک کنویں کے پاس۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پانی نظر آیا۔ پانی میں آواز ایک مینڈک کی اچھل کود سے ہو رہی تھی۔ مینڈک پھر اچھلا اور آواز آئی ”چھپ چھپ“ کچھوے نے پوچھا ”بھائی مینڈک بڑے خوش نظر آ رہے ہو، بات کیا ہے، خوب اچھل رہے ہو کنویں کے پانی میں؟“
مینڈک نے جواب دیا ”میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں اور کنویں کے پانی میں اسی طرح اچھلتا رہتا ہوں“۔
کچھوے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ”کنواں گہرا تو ہے لیکن تم اندر نہیں جا سکتے۔“
”بھلا میں اندر کیوں جاو¿ں، گہرائی میں تو میرا دَم گھٹ جائے گا۔“ مینڈک نے جواب دیا۔
”تم صرف اس کی سطح ہی پر اچھل کود کر سکتے ہو۔“ کچھوے نے کہا۔
”ہاں اس پانی میں مجھے اسی طرح چھپاک چھپاک کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔“
”اور پانی تو اینٹوں کی دیواروں سے گھِرا ہوا ہے، تم اینٹوں کے درمیان بند ہو۔“
”کمال کرتے ہو بھائی ۔اگر کنویں کے گرد دیوار نہ ہو تو پانی بہہ جائے گا اور میں بھی بہہ جاو¿ں گا۔ پھر کنواں کہاں رہے گا۔“مینڈک نے کہا۔
”وہی تو میں سوچ رہا ہوں۔“ فلسفی کچھوے نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش رہا۔
”کیا سوچ رہے ہو بھائی، اس کنویں میں تم سما نہیں سکتے۔ یہی سوچ رہے ہو نا۔ میری قسمت پر رشک آ رہا ہے تمہیں۔“ مینڈک نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”نہیں مینڈک جی، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے، تم نے سمندر نہیں دیکھا، سمندر دیکھو گے نا تو علم ہو گا کہ پانی کیا ہوتا ہے۔“ کچھوے نے اپنی بات سمجھائی۔
”سمندر کیا ہوتا ہے؟“ مینڈک نے پوچھا۔
”سمندر پانی کا ایک بہت بڑا، بہت ہی بڑا اور بہت ہی بڑا کنواں ہوتا ہے جو دیواروں کے درمیان نہیں ہوتا، اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی۔ اینٹوں پتھروں کی کوئی دیوار نہیں ہوتی، جہاں تک دیکھو گے نا پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ سمندر نے ساری دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہم سمندر ہی میں رہتے ہیں۔تم وہاں نہیں رہ سکتے۔“
”کیوں نہیں رہ سکتے بھلا؟“ مینڈک نے دریافت کیا۔
”اس لیے کہ تم اس کے بہاو¿ میں بہہ جاو¿ گے اور تمہاری خبر تا قیامت کسی کو نہیں ملے گی۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے۔“ فلسفی کچھوے نے سوچتے ہوئے کہا۔
”کیا؟ کون سی بات؟“ مینڈک نے پوچھا۔
”یہ ہو سکتا ہے کہ تم کنویں سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کی طرف چلو، دیکھو سمندر کیا ہے، اس کی لہریں کیسی ہیں، ہم کچھوے وہاں کس طرح رہتے ہیں۔“
”نہیں بھائی، میں تو اسی کنویں میں خوش ہوں۔ میں نہیں جاتا سمندر و مندر دیکھنے، تم ہی کو مبارک ہو سمندر۔“
”تو تم زندگی پھر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے؟“ کچھوے نے غیرت دِلائی۔
”یہی میری تقدیر ہے تو میں کیا کروں؟“ مینڈک نے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں اداسی تھی۔
”دیکھو تقدیر و قدیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں، تم چاہو تو خود اپنی تقدیر بنا سکتے ہو۔“کچھوے نے سمجھانے کی کوشش کی۔
”بھلا کس طرح؟ تم تو کہتے ہو کہ میں سمندر میں جاو¿ں گا تو پانی میں بہہ جاو¿ں گا، میرا اَتا پتا بھی نہ ہو گا۔“
”یہ تو سچی بات ہے لیکن تم سمندر کے اندر نہیں اس کے پاس رہ سکتے ہو جس طرح دوسرے سینکڑوں ہزاروں مینڈک رہتے ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مینڈک بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بھی، تہاری طرح۔ سمندر کے کنارے کئی مقامات پر پانی جمع رہتا ہے کہ جس میں مینڈک رہتے ہیں، وہاں رہ کر سمندر کا نظارہ بھی کرتے ہیں۔ نکلتے ہوئے خوبصورت سورج کو بھی دیکھتے ہیں، ڈوبتے ہوئے پیارے سورج کا منظر بھی دیکھتے ہیں۔ سورج کی خوبصورت روشنی کو لہروں پر دیکھ کر اچھلتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں، تم سے زیادہ چھپاک چھپاک چھپ چھپ کرتے ہیں، ان کے بال بچّے ہیں جو کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ رات میں چاندنی کا مزہ لوٹتے ہیں، انھیں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں ملتی ہیں، وہاں ان کی غذا کا بھی انتظام ہے، تمھیں اس کنویں میں کیا ملتا ہے، باہر نکل کر تو دیکھو دنیا کتنی خوبصورت اور کتنی پیاری ہے، ہواو¿ں میں درخت کس طرح جھومتے ہیں، سمندر کی لہریں کس طرح اٹھتی ہیں، کیسی کیسی خوبصورت مچھلیاں ساحل تک آتی ہیں۔ تم تو کنویں کے اندر بند ہو دنیا سے الگ، میرے ساتھ چل کر دیکھ لو۔ اگر سمندری علاقہ تمہیں پسند آئے تو وہیں رہ جانا اور پسند نہ آئے تو واپس آ جانا اور بن جانا کنویں کا مینڈک۔ میں تو تمہیں دنیا اور اس کی خوبصورتی دِکھانا چاہتا ہوں۔ تم نے کنویں کے اندر رہ کر بھلا دیکھا کیا ہے، کچھ بھی تو نہیں۔ بولو چلو گے میرے ساتھ سمندر کی طرف یا یہاں رہو گے کنویں کا مینڈک بن کر؟“ کچھوے نے صاف جواب طلب کیا۔
مینڈک سوچنے لگا ۔یہ تو سچ ہے کہ میں نے دنیا کو نہیں دیکھا ہے۔ اسی کنویں میں جنم لیا اور اسی میں اچھل کود کر رہا ہوں، دنیا اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ لینے میں مضائقہ کیا ہے۔
”چلو تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔جگہ پسند نہ آئی تو واپس آ جاو¿ں گا۔“ مینڈک نے کہا۔
”ٹھیک ہے ایسا ہی کرنا لیکن مجھے یقین ہے کہ تمھیں سمندر کی آزاد فضا اور دنیا کی خوبصورتی بہت بھلی لگے گی اور تم وہاں سے واپس آنا پسند نہ کرو گے۔ کنویں کا مینڈک بن کر رہنے والے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ انھیں دنیا کب نظر آتی ہے۔“
مینڈک باہر آگیا اور دونوں سمندر کی جانب روانہ ہو گئے۔ سمندر کے ساحل پر پہنچتے ہی مینڈک کی بانچھیں کھل گئیں۔ بھلا اس نے کب دیکھا تھا یہ ماحول، کب دیکھا تھا سمندر کی خوبصورت لہروں کو، ابھرتے ہوئے سورج کو، مچھلیوں کے خوبصورت رنگوں کو اور کچھوﺅں کی فوج کو اور مینڈکوں کے ہجوم کو۔ کنویں کا مینڈک خوش ہو گیا، پہلی بار اسے ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی، پہلی بار اس نے دیکھا دنیا کتنی بڑی ہے، پہلی بار دیکھا کہ تمام کچھوے، تمام مچھلیاں اور تمام آبی جانور اور تمام چھوٹے بڑے مینڈک کتنے آزاد ہیں۔ سب خوشی سے ناچ رہے ہوں جیسے۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک نے کچھوے سے کہا:
”بھائی تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، کنویں کی زندگی سے باہر نکالا ہے۔ اب تو میں ہرگز ہرگز کنویں کے اندر نہیں جاو¿ں گا۔ یہیں رہوں گا اپنے نئے دوستوں کے ساتھ۔ دنیا دیکھو ں گا، دنیا کی خوبصورتی کا نظارہ کروں گا، خوب کھاو¿ں گا، ناچوں گا، گیت گاو¿ں گا۔“
کنویں کے مینڈک کے اس فیصلے سے کچھوا بہت خوش ہوا۔ اس نے یہ خوشخبری سب کو سنائی، کچھوﺅں کو، مینڈکوں کو، مچھلیوں کو، تمام آبی جانوروں اور آبی پرندوں کو، سب خوشی سے ناچنے لگے ،گانے لگے، کنویں کے مینڈک نے سوچا ،”اگر میں کنویں میں رہتا تو یہ جشن کب دیکھتا“ا±س نے ذرا فخر سے سوچا ”بھلا ایسا استقبال کب کسی مینڈک کا ہوا ہو گا“۔
گرو کچھوے اور اس مینڈک میں گہری دوستی ہو گئی۔ نئی آزاد خوبصورت سی پیاری دنیا کو پاکر مینڈک بھول گیا کنویں کو ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top