دوستی کا پھل
شفیع عقیل
۔۔۔۔۔۔
کسی جنگل میں ایک کبوتر اور کبوتری امن و سکون سے رہ رہے تھے۔ جب کبوتری نے گھونسلے میں انڈے دئیے تو اسے اپنے اور انڈوں کی حفاظت کی فکر ہوئی۔ دونوں نے صلاح کی کہ کسی قریب رہنے والے جانور کودوست بنا لیا جائے جو مصیبت میں کام آسکے،کبوتر نے بتایا کہ یہاں سے نزدیک ایک درخت پر گدھوں کا جوڑا رہتا ہے، میرے خیال میں ان سے دوستی سود مند رہے گی۔ کبوتری کہنے لگی ،اگرچہ وہ ہماری برادری کے نہیں ہیں لیکن دوستی میں یہ چیز نہیں دیکھی جاتی۔
کبوتر اور کبوتری گدھوں کے جوڑے کے پاس پہنچے اور آپس میں دوستی قائم کرنے کا دلی منشا بیان کیا،گدھوں نے اتفاق کیا کہ دوستی اچھی چیز ہے۔ مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد ہی سود مند رہتی ہے۔ انہوں نے یہ رائے دی کہ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک سانپ رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے بھی دوستی کے رشتے میں پرو لیا جائے۔ جب یہ پرندے سانپ کے پاس پہنچے تو سانپ نے بھی ان کی خواہش کا احترام کیا یوں پانچوں دوستی کے رشتے میں منسلک ہوگئے۔
ایک دن ایک شکاری جنگل میں آنکلا ۔جب اسے کوئی اور شکار نہ ملا تو اس نے چاہا کہ خالی ہاتھ واپس جانے کی بجائے کبوتر کے گھونسلے سے بچے ہی نکال لئے جائیں ۔اندھیرا ہورہا تھا۔ اس نے کچھ خشک لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ روشن کی تاکہ اس کی روشنی میں درخت پر چڑھ کر آسانی سے کبوتر کا گھونسلا ڈھونڈسکے ۔کبوتر اور کبوتری خاصے پریشان ہوئے ۔انہوں نے چاہا کہ اپنے دوستوں کی مدد کے لیے بلائیں لیکن پھر سوچا کہ پہلے اپنی مدد آپ کا سنہری اصول آزمایا جائے۔ بات قابو سے باہر ہوگئی تو دوستوں کو بھی بلالیں گے۔ دونوں تیزی سے قریبی دریا پر پہنچے اور چونچوں اور پنجوں میں پانی بھر کر لائے اور آگ پر پھینک دیا۔ آگ بجھ گئی شکاری کو اندھیرے میں گھونسلادکھائی نہیں دے رہا تھا اس لئے وہ درخت سے نیچے اتر آیا اور دوبارہ آگ جلائی ۔کبوتر اور کبوتری نے دوبارہ پانی لاکر آگ بجھادی ۔اب کے شکاری کو غصہ آیا۔ اس نے موٹی موٹی لکڑیاں اکٹھی کیں تاکہ آگ جلد نہ بجھ سکے ۔کبوتر اور کبوتری نے صورتحال قابو سے باہر دیکھی تو گدھوں کے جوڑوں سے رابطہ کیا۔ دونوں فوراً امداد کے لئے پہنچے اور اپنے بڑے بڑے پنجوں اور پروں کی مدد سے دریا سے پانی لائے اور اس سے قبل کہ شکاری روشنی میں کبوتر کے گھونسلے تک پہنچے آگ بجھادی۔ اندھیرا مزید بڑھ گیا ۔شکاری اپنی ناکامی سے تلملا رہا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ رات جنگل میں ہی گزار دی جائے۔
صبح سورج طلوع ہوتے ہی روشنی میں کبوتر کے بچے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔شکاری جنگل میں آرام سے کپڑا بچھا کر لیٹ گیا ۔چاروں پرندوں نے شکاری کی نیت کو بھانپ لیا۔انہوں نے سوچا کہ ایسے میں سانپ ہی ان کے کام آسکتا ہے۔ وہ سانپ کے پاس پہنچے اور تمام قصہ بیان کیا۔ سانپ نے تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو صبح سب انتظامات ہوجائیں گے۔
اگلی صبح شکاری بیدار ہوا۔ وہ کبوتر کے بچے حاصل کرنے کے لئے درخت پر چڑھنے لگا لیکن یک دم حواس باختہ ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ جس درخت پر وہ چڑھ رہا ہے، اس کے تنے کے ساتھ ایک خوف ناک سانپ لپٹا ہوا پھنکار رہا ہے۔شکاری کو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ وہ اپنا سارا سامان چھوڑ کر بھاگ گیا اور آج تک کہیں اس کا پتہ نہیں چل سکا ۔کبوتر آج بھی سکھ چین کی علامت ہے اور یہ سب ان کی پر خلوص دوستی کا نتیجہ ہے۔