دو باپ دو بیٹے
بانو سرتاج
۔۔۔۔۔
حسن اور روہن کی دوستی گاؤں بھر میں مشہور تھی۔ بچپن کے دوست تھے، جوانی میں بھی دوستی قائم تھی۔ دونوں کے مزاج میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ایک چیز ایک کو پسند آتی تو دوسرا بھی اسے پسند کرنے لگتا۔ کسی بات سے ایک ناراض ہوتا تو دوسرا بھی اس طرف سے رخ پھیرلیتا۔ دونوں کے خاندان والے بھی ان کی دوستی پر ناز کرتے۔
روہن بچپن سے بیمار رہتا تھا۔ بارش میں بھیگا کہ بخار جکڑ لیتا، لو لگتی تو بستر پر پڑجاتا، سردی میں نزلہ، کھانسی اسے گھیرے رہتے۔ اس وجہ سے دماغی طور پر کمزور ہوگیا تھا۔ ساتویں کلاس کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑدی۔
حسن کو بھی پڑھائی لکھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی مگر اس کے والد کی بڑی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ دسویں جماعت کے بعد اس نے بھی اسکول جانا چھوڑ دیا اور اپنے والد کے ساتھ پر چون کی دکان پر بیٹھنے لگا۔ اس کی شادی بھی جلدی ہوگئی۔ دس سال کا ایک بیٹا محسن تھا اس کا۔
روہن اپنے پتا کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ ایک روز وہ حسن کے پاس پہنچا تو کچھ غمگین تھا۔ حسن سے بولا، چلو کہیں باہر چل کر باتیں کرتے ہیں۔ تنہائی ملتے ہی بولا:
”حسن، میری شادی طے ہوگئی ہے۔“
”یہ تو خوشی کی بات۔“ حسن نے اسے مبارکباددی،” کب ہے شادی؟“
”تاریخ طے کرنے پرسوں جانا ہے۔ تجھے بھی ساتھ چلنا ہے۔ مگر ایک مسئلہ سامنے آگیا ہے۔“
”تم لوگوں کی طرف سے یا لڑکی والوں کی طرف سے؟“ حسن نے پوچھا۔ ”نہ ہماری نہ ان کی طرف سے بلکہ لڑکی نے مجھ سے ایک پہیلی بوجھنے کو کہا ہے۔“
حسن کو ہنسی آگئی۔ روہن روتی صورت بنا کر بولا”تمہیں ہنسی آرہی ہے۔“
”توبہ توبہ! اب نہیں ہنسوں گا۔ پوری بات بتا۔“ حسن نے معافی مانگ لی۔ سب کچھ طے ہوگیا، ہم لوگ واپس لوٹنے لگے تو ایک چھوٹی لڑکی مجھے اشارہ سے ایک طرف بلالے گئی۔ وہاں میری ہونے والی پتنی کھڑی تھی۔ اس نے کہا،”میں نے سنا ہے تم کم پڑھے لکھے ہو، میری ایک پہیلی کا جواب دو۔ جواب نہ دے سکے تو میں شادی سے انکار کردوں گی۔“
”کیا ہے وہ پہیلی؟“
”دو باپ، دو بیٹے، ایک ساتھ مچھلی پکڑنے گئے، ہر ایک نے ایک ایک مچھلی پکڑی، آپس میں تقسیم کر لی۔ خوشی خوشی تین مچھلیاں لے کر گھر لوٹے۔ کیسے؟ لوگ تو چار تھے۔“
”مجھے جواب نہیں دیتے بنا۔ مجھے جواب نہیں معلوم تھا۔“
”پھر کیا ہوا؟“ حسن نے پوچھا۔
”میرا اترا ہوا منہ دیکھ کربولی، کل تک جواب لے کر آؤ، حسن! تجھے پہیلی کا جواب معلوم ہے؟ میں کسی اور سے نہیں پوچھ سکتا۔ پورے گاﺅں میں بات پھیل جائے گی۔ پھر کوئی لڑکی مجھ سے شادی نہیں کرے گی۔“
حسن نے سوچتے ہوئے کہا،”نہیں، جواب مجھے بھی نہیں معلوم مگر میں سوچتا ہوں ، تم بھی سوچو یقیناجواب مل جائے گا۔“
حسن کی بیوی نعیمہ بڑی عقلمند تھی۔ حسن نے اسے ساری بات بتائی۔ کسی سے نہ بتانے کا وعدہ لیا۔ نعیمہ کو بھی جواب نہیں معلوم تھا۔
نعیمہ نے رات کا کھانا بنایا۔ وہ مسلسل پہیلی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے دسترخوان بچھایا۔ کھانا لگایا۔ سُسر صاحب کو بلایا، حسن کو بلایا اور محسن کو بھی آواز دی۔ تینوں بیٹھ گئے تو نعیمہ نے جوار کی تین موٹی موٹی روٹیاں ایک پلیٹ میں لاکر رکھ دیں۔ بولی:
”دوباپ، دو بیٹے، روٹیاں پکائیں تین۔ ہر ایک کے حصہ کی ایک ایک روٹی چلو بسم اللہ کرو۔“
”واہ امی!“ محسن کھل کرہنس پڑا” آپ کا حساب غلط ہوگیا۔ دو باپ دو بیٹے مل کر تو چار ہوتے ہیں۔“
”بالکل غلط نہیں ہوا بیٹے۔“ نعیمہ نے ہنس کر کہا”دادا باپ اور بیٹا، کہنے کو تو تین ہیں مگر دو باپ یعنی ایک تمہارے ابو اور ایک تمہارے ابو کے ابو۔ اور دو بیٹے، یعنی دادا جان کے بیٹے تمہارے ابو اور تمہارے ابو کے بیٹے تم گنتی میں چار ہیں۔“
حسن کے دماغ کی کھڑکی کھل گئی۔ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ بولا:
”ابوجان، بسم اللہ کیجئے، میں ابھی آیا۔“
حسن تقریباً دوڑتا ہوا روہن کے گھر پہنچا۔ اسے باہر بلایا۔ اس کے کان میں بولا:
” دو باپ۔ دو بیٹے یعنی دادا، باپ اور پوتا۔ تین مچھلیاں، ان تینوں میں تقسیم ہوئیں۔ اب کل صبح ہی سسرال پہنچ جا۔ ہونے والی دلہن کو پہیلی کا جواب دے دے۔ میں جارہا ہوں ابو جان کھانے پر میراانتظار کررہے ہیں۔“
روہن نے خوش ہو کر حسن کو گلے لگالیا۔ حسن گھر لوٹ گیا۔