skip to Main Content

ڈاکٹر کمال کا ٹیلی فون

تاجور نجیب آبادی
۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کمال الدین نے خدا خدا کر کے نوسال میں ایم۔ بی۔ بی ایس کا امتحان پاس کیا۔یوں تو میڈیکل کالج کا کورس پانچ سال کا ہے ، مگر ہے بڑا سخت کورس، کمال الدین دماغ کے کچھ گٹھل تھے۔ انہوں نے نو سال لگ کر یہ آخری امتحان پاس کر کے اس مصیبت سے پیچھا چھڑا یا۔
اب فکرپڑی کمانے کی، آدمی تھے چلتے پر زے، سوچا کہ تاجروں کے محلے میں بڑا سا مکان کرائے پر لے کر کام شروع کیا جائے تاکہ امیر بیماروں کی آمدروفت ہونے لگے۔چنانچہ ایک بہت شان دار مکان کرائے پر لیا گیا۔اُسے خوب سجایا گیا ، رنگ برنگی شیشیوں میں الابلا بھر کے الماری سجادی گئی، اور نام چارے کو اپنے چھوٹے بھائی کو کمپاﺅنڈر کے طور پر رکھ لیا گیا۔
یہ مکان امیر لوگوں کے محلے میں تھا اسی لیے نمائشی انداز میں جی لگا کر سجایا گیا تھا مگر ایک کسر رہ گئی تھی، اس میں ٹیلیفون نہ تھا۔
آپ جانتے ہیں آج بڑے بڑے ڈاکٹروں کا اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ چنانچہ کمال الدین نے دوڑ دھوپ کر کے فون کی بھی منظوری لے لی۔
ٹیلیفون آگیا مگر ابھی کنکشن نہیں ملا تھا کن۔کشن دینے کے لیے ٹیلیفون کے دفتر کا مستری آیا ۔ڈاکٹر صاحب اس وقت اندر بیٹھے تھے۔ انہوں نے مستری کو اندر آتا دیکھ کر یہ گمان کر لیا کہ کوئی مریض پھنسا ہے۔ اس پر اپنا رعب جمانا ضرور ی ہے۔ مستری کو کرسی پر بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے آپ نے ریسیور اٹھایا، اور بے کنکشن کے فون پر باتیں شروع کر دیں اور آپ ہی فرضی سوالوں کے جواب دینے لگے۔
”جی ہاں! میں ڈاکٹر کمال الدین ہوں۔
اور سر ابراہیم :السلام علیکم۔ نواب صاحب میں اپنے مطب میں تھا ، نہیں۔ کرنل ہاکسر بیمار ہیں۔ انہوں نے طلب کیا تھا۔ ابھی ابھی وہاں سے آرہا ہوں۔
اچھا، اچھا آپ کی طبیعت بھی خراب ہے۔
لیکن چھ بجے سے پہلے تو میں حاضر نہ ہو سکوں گا۔ اب تو میں کرنل باٹ کو دیکھنے چھاﺅنی جا رہا ہوں۔
ہاں ہاں اُنہیں جگر کی کچھ شکایت ہے، کرنل باٹ کو دیکھ کرپھر سربرہان کے ہاں جاﺅں گا۔جی ؟ جی ہاں ، جی ہاں۔ان کی طبیعت کچھ ناساز ہے۔ ان کی کوٹھی سے فون پر فون آرہے ہیں۔
مگر کیا کروں، مجبور ہوں، وعدہ خلافی بھی تو نہیں کر سکتا۔
کیا فرمایا؟۔۔ وہاں سے پھر کہاں جانا ہے؟۔۔ یہ نہ پوچھئے، ڈاکٹروں کی زندگی بھی بڑی مصروف زندگی ہوتی ہے۔۔ ہاں عرض تو کر رہا ہوں۔
سربرہان کو دیکھ کر پھر وزیراعظم صاحب کی کوٹھی جاﺅں گا۔
اُن کا کوئی دوست مجھ سے علاج کرانے کی خاطر کئی دن سے اُن کے گاﺅں سے آیا ہوا ہے۔ قبلہ یہ سب کچھ صحیح ، مگر یہ ہمارا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی کو انکار نہیں کر سکتے۔ کوئی بلاتا ہے تو جانا ہی پڑتا ہے۔۔۔جی؟۔۔۔ کیا فرمایا؟ نو بجے رات ؟ بالکل ٹھیک مجھے بھی یہی ٹائم سوٹ کرے گا۔
کیونکہ پونے دس بجے رات کا وقت علاءالدین صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کے لیے مقرر ہے۔ ان کی ناک میں پھر غدود اُبھرآئے ہیں۔“
ڈاکٹر کمال یہ فرضی باتیں اس لیے کر رہے تھے کہ آنے والا نووارد بیمار رعب میں آجائے گا اور اُنہیں معقول فیس اس سے وصول ہو جائے گی چنانچہ بے کرنٹ کے فون پر گپیں ہانک کر آپ نووارد سے بولے:
”جناب معاف کیجئے گا، آپ کو بڑی دیر ہو گئی۔ کیا کروں یہ اُونچے طبقے کے بیمار سانس ہی نہیں لینے دیتے ، بڑے لوگ ہیں۔ ان سے بے پروائی بھی تو نہیں برتی جا سکتی۔ اچھا ،اب فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے؟ نووارد نے جواب دیا، جناب میں خدا کے کرم سے بیمار نہیں۔ نہ علاج کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ ٹیلیفون کے دفتر کا مستری ہوں۔ آپ نے سپر نٹنڈنٹ سے کنکشن کی درخواست کی تھی ۔میں اس لئے حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کے فون کو چالو کردوں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top