skip to Main Content

کھلنڈری فرخندہ

عصمت چغتائی

…….

فرخندہ سے جماعت کی سب ہی لڑکیاں دبتی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ عمر میں سب سے بڑی تھی اور ساتویں جماعت میں دو سال سے فیل ہورہی تھی، دوسرے وہ بہت تگڑی تھی، تیسرے وہ بہت امیر تھی، آئے دن لڑکیوں کی دعوتیں کیا کرتی۔ اماں باوا کی اکلوتی چہیتی بیٹی اور تین بھائیوں کی ایک بہن جو تھی…. وہ اس سے بے حد لاڈ کرتے۔ اس کے ساتھ رہنے میں مزے ہی مزے تھے۔ اسے بہت سا جیب خرچ ملتا اور وہ ڈھیروں پھل چھٹی کے وقت اپنی سہیلیوں کو بانٹتی۔ اس کا پورا گروہ بنا ہوا تھا۔ پڑھنے میں اس کا جی نہیں لگتاتھا کیوں کہ دو سال سے وہی نصاب پڑھ رہی تھی۔ کسی کو پڑھتے دیکھ کر چڑ جاتی تھی۔
اس کا ہم سب رعب مانتے تھے۔ جو ذرا بغاوت کرنے کی کوشش کرتا، اسے وہ ناکوں چنے چبوادیتی، اتنا دق کرتی کہ اس کی زندگی دوبھر ہوجاتی تھی۔ میں بھی اس کے دُم چھلوں کی صف میں اس کے آگے پیچھے اس کی بیہودہ شرارتوں پر داد دینے والوں میں تھی۔ مجھے اس پر بڑا رشک آتا تھا۔ اس کے ابا کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ ہمارا اسکول امیروں کی امداد پر چلتا لیکن ساتویں جماعت کا امتحان بورڈ سے ہوا کرتا، وہاں اس کے ابا کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ بھی فیل نہ ہوتی۔ گھر کا کام وہ کبھی کر کے نہیں لاتی تھی۔ استانیاں بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتیں تھیںورنہ وہ ان کا مذاق اڑادیتی تھی۔ کون اس کے منھ لگتا؟ کبھی مذاق مذاق میں پیٹھ پر دھموکا دھر دیتی تو اوپر کا سانس اوپر، نیچے کا نیچے رہ جاتا مگر ہم کھسیا کر ہنس دیا کرتے تھے، برا ماننے یا شکایت کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
نئی لڑکیوں کے لیے تو فرخندہ کا قہر بڑا خوفناک تھا۔ جب تک وہ اس کا لوہا نہ مان لیں، خون کے آنسو رلواتی تھی مگر ایک نئی لڑکی نے فرخندہ کا قطعی رعب نہ مانا۔ وہ نہ اس کی بھونڈی شرارتوں پر ہنسی اور نہ اس کے جتھے میں شریک ہوئی۔ آمنہ ایک غریب بچی تھی، دبلی پتلی، نازک سی، خاموش اور پڑھاکو قسم کی…. وہ فرخندہ کی ہر تجویز کو ”بہن ہمیں پڑھنا ہے“ کہہ کر ٹال دیتی۔ اس کے پھل اور دعوتوں میں بالکل حصہ نہیں لیتی نہ کبھی خود کوئی کھانے کی چیز خریدتی۔ وہ پیدل گھر سے اسکول آتی اور اپنی روکھی سوکھی خاموش بیٹھ کر کھالیتی۔
فرخندہ اس کی غریبی کا مذاق اڑایا کرتی۔ کبھی کبھی اس کی روٹی کی پوٹلی جس میں دو روٹیاں اور اچار کی پھانک ہوتی، سب کے سامنے کھول کر خوب قہقہے لگاتی۔ وہ بار بار کہتی: ”مس صاحب کا کھانا دیکھو۔“ ہم سب اسے خوش کرنے کو قہقہے لگاتے مگر آنکھ سے آنکھ ملاتے جھینپ آتی تھی۔
آخر ایک دن آمنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ جب فرخندہ نے اس کی اندھی ماں کا مذاق اڑایا اور اسے فقیرنی کہا۔ آمنہ کا باپ جنگ میں شہید ہوگیا تھا اور اس کی بیوہ کو جو وظیفہ ملتا تھا، اسے فرخندہ نے خیرات کہا۔
”میرے باپ ملک کی حفاظت میں شہید ہوئے۔ ہمیں خیرات نہیں ہمارا حق ملتا ہے۔“ آمنہ نے غرور سے سر اونچا کیا۔
”وظیفہ ملتا ہے…. وظیفہ معنی خیرات ہی ہے۔“ فرخندہ نے دھاندلی کی۔
اب آمنہ نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ فرخندہ کی کچوری جیسے پھولے گال پر کس کے ایک طمانچہ دھردیا۔ دل میں تو سب خوش ہوئے مگر فرخندہ کے خوف سے ہنسنے کی کس میں ہمت تھی، سہم کر رہ گئے کہ دیکھیے اب کیا قیامت آتی ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں گتھم گتھا ہوگئیں۔ ہم نے سمجھ لیا کہ آج آمنہ کی لاش پڑجائے مگر دبلی پتلی آمنہ بلا کی پھرتیلی تھی، پل بھر میں اس نے فرخندہ کی ناک، منھ اور بال کھسوٹ کر رکھ دیے۔ اس کا ریشمی دوپٹہ تار تار کردیا۔ ادھر آمنہ کی نکسیر پھوٹ پڑی اور خون کی دھار بہ نکلی۔ مارے خوف کے ہم سب چلانے لگے۔
جلد ایک اُستانی آگئیں اور اللہ اللہ کرکے مار پیٹ ختم ہوئی۔ فرخندہ نے بھوں بھوں کرکے رونا شروع کردیا۔ اسے مارنا تو آتا تھا پٹنا نہیں آتا تھا۔ ذرا سی دیر میں آمنہ نے اسے اتنا پیٹ ڈالا کہ وہ ساری عمر میں نہیں پٹی تھی۔ دونوں کو سزا ملی۔ آمنہ نے سزا پوری کردی مگر فرخندہ حسب عادت ٹال گئی۔ وہ استانی نئی آئی ہوئی تھیں اور ابھی انھیں فرخندہ کے بابا کے رسوخ کا پتا نہیں چلا تھا۔ وہ فرخندہ کی بیہودہ گوئی سے ویسے ہی نالاں تھیں۔ پرنسپل تک بات پہنچی مگر فرخندہ نے کہہ دیا: ”دیکھیں کس کے باپ میں اتنی ہمت ہے جو ہمیں سزا دلوائے۔“
”اگر تمھیں اسکول سے نکال دیا تو؟“ اختر نے ڈر کر کہا۔
”کیا کھا کے اسکول سے نکالیں گے؟“ ابا ہمارے لیے نیا اسکول کھول دیں گے مگر یہ اسکول ویرانہ بن جائے گا…. اسے امداد دینے والے ان کے دوست ہیں، کوئی ایک کوڑی نہ دے گا۔“ فرخندہ نے ہنس کر کہا۔
فرخندہ کی سزا ٹل گئی مگر اس دن سے فرخندہ کی دہشت گردی کم ہوگئی۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ آمنہ جیسی دبلی پتلی لڑکی اس کی اس بُری طرح ٹھکائی کرسکتی ہے۔ چند لڑکیاں تو ٹوٹ کر آمنہ کی طرف داروں کی صف میں آئیں گو کھلے بندوں اعلان کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
فرخندہ بھی آمنہ سے ڈر گئی اور بظاہر بڑی نرمی سے بولنے لگی۔ اسے بدلتی دیکھ کر آمنہ بھی نرم پڑگئی مگر اسے فرخندہ کے دل کا حال معلوم نہیں تھا۔ اس کے دل میں آمنہ کے خلاف کس قدر زہر بھرا ہوا ہے، اس کا اسے اندازہ نہیں تھا۔ فرخندہ نے آج تک کسی کو نہیں چھوڑا تھا، اسے کیسے چھوڑ دیتی؟ بظاہر بھول کر وہ دل ہی دل میں آمنہ کو نیچا دکھانے کے منصوبے باندھ رہی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں فرخندہ نے کہا ”پرانے قلعہ میں بھوت رہتے ہیں۔“
”بھوت کوئی چیز نہیں، جاہلوں کا وہم ہے۔“ آمنہ نے بات کاٹ دی۔ ہم لوگ سکتہ میں رہ گئے۔ فرخندہ کو اپنی گپ جھٹلائے جانے کی عادت نہیں تھی، مارے غصہ کے بھنبھنا اٹھی۔
”بڑی ہمت ہے ہم تو جب جانیں کہ شام کے وقت چلی جاﺅ۔“
”کچھ شرط لگاتی ہو؟“ آمنہ نے مسکرا کر کہا۔
”سو سو روپے۔“ فرخندہ نے چمک کر کہا۔
”نا بابا، ہم غریب آدمی ہیں۔ سو سو روپے کی شرطیں نہیں لگایا کرتے۔“
”تو پھر؟“
”پھر یہ کہ اگر تم جیتیں تو تمہاے سامنے ہم ناک سے سات لکیریں کھینچیں گے اور ہم جیتے تو…. آمنہ پھر مسکرائی۔
”تو؟“
”تو تم ایک ہفتہ تک دودھ مکھن نہیں چکھو گی۔“
”وہ کیوں؟“ ہم سب نے پوچھا۔ ”بھئی یہ کیسی شرط ہے؟“
”وہ اس لیے کہ فرخندہ بہت موٹی ہوگئی ہے۔“
ایک دَم سے ہمارے منھ سے قہقہہ نکل گیا۔ فرخندہ نے ہمیں قہر آلود نظروں سے دیکھا تو ہمارا خون خشک ہوگیا۔ آمنہ ہنستی رہی۔ بہرحال موقع کی نزاکت دیکھ کر فرخندہ نے بات بڑھائی۔ ”مگر شرط یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اکیلی جاﺅ، اماں سے کہوگی تو وہ ضرور چپکے سے کسی کو تمھاری حفاظت کے لیے بھیج دیں گی۔“
”ہم اماں سے کوئی بات نہیں چھپاتے۔“
تو یوں کہو ڈر گئیں۔“
”نہیں بالکل نہیں۔“
آخر شرط طے ہوگئی۔ تین دفعہ آمنہ اور فرخندہ نے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ طے ہوا کہ آج شام آمنہ اسکول کے پیچھے موجود قلعے میں جائے گی اور وہاں رکھے بت کے سامنے سے دیا اٹھا کر لائے۔
کھیل کے گھنٹے کے بعد فرخندہ نے اپنے گروہ کی خاص لڑکیوں کو چن چن کر کھسر پھسر کرکے ایک منصوبہ بنایا۔ میں بھی ان پانچ خوش نصیب لڑکیوں میں سے تھی۔ ہماری جماعت کے پچھلے حصے میں ایک دروازہ، قلعے کی طرف جو جنگل تھا، اس میں کھلتا تھا۔ اس کی چابی چوکیدار کے پاس تھی، ہم نے اسے ہتھیانے کا منصوبہ بنالیا۔
چوکیدار اپنی کوٹھڑی میں بیٹھا چائے بنا رہا تھا کہ کسی لڑکی کے چلانے کی آواز آئی۔ ”بچاﺅ…. بچاﺅ۔“
چوکیدار سمجھا اسکول کی کوئی لڑکی باغ میں ڈر گئی ہے، وہ ڈنڈا لے کر بھاگا۔ جیسے ہی وہ کوٹھڑی سے نکلا فرخندہ جو اندھیرے میں دروازے سے لگی، جھپٹ کر اندر آگئی اور اسکول کی چابیوں کے گچھے میں جو اس کے سرہانے ٹنگا تھا، کنجی نکال لائی۔ کنجی کی پہچان مشکل نہ تھی کیوں کہ کبھی کبھی ہم سیر کے لیے جنگل جایا کرتے تھے تو چوکیدار دروازہ کھولا کرتا تھا۔ چوکیدار سمجھا کہ کسی نے مذاق کیا ہوگا، سوچا کسی وقت پرنسپل صاحبہ سے شکایت کروں گا لہٰذا واپس آکر چائے پینے لگا، کنجی کا اسے خیال بھی نہیں آیا۔
شام کو آمنہ چپ چاپ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر اندھیرے میں چھپتی چھپاتی قلعے کی طرف چلی۔ ہم پانچوں پہلے ہی وہاں چھپی بیٹھی تھیں۔ آمنہ ڈرپوک نہیں تھی مگر نیم تاریکی میں قلعے کے کھنڈر واقعی بھوت لگ رہے تھے۔ ہم پانچ تھے مگر پھر بھی دَم نکلا جارہا تھا۔ وہ اپنے ساتھ دیا سلائی کی ڈبیہ لائی تھی، قلعے میں اندھیرا زیادہ تھا لہٰذا بار بار جلا کر راستہ ٹٹولتی وہ بڑے ہال تک پہنچ گئی جس کے آخری کونے میں ایک مہیب بت نصب تھا۔ جیسے ہی اس نے جھک کر دیا اٹھایا ایک زور دار دھماکا ہوا۔ آمنہ نے جو پلٹ کر دیکھا تو پانچ سفید پوش بھوتوں کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے پایا۔ گھبراہٹ میں دیا سلائی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ چیخ مار کر بھاگی۔ ہمیں آمنہ کو ڈرانا مقصود تھا مگر اس کی جان تو نہیں لینی تھی، وہ بجائے دروازے کی طرف بھاگنے کے اس برج کی طرف بھاگی جو دریا کے رُخ پر تھا۔
فرخندہ نے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا اور چادریں اتار کر ہم آمنہ کو چڑانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگیں مگر وہاں جا کر جو کچھ ہم نے دیکھا اس سے ہمارے ہوش خطا ہوگئے۔ آمنہ گھبراہٹ میں اس برج پر چلی گئی تھی جو صرف چند اینٹوں پر ٹکا ہوا تھا اور تنکے کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ایک چیخ ہوا میں گونجی اور ملبے کے ڈھیر کے سامنے آمنہ ہماری نظروں سے غائب ہوگئی۔ مارے خوف کے ہماری گھگی بند گئی، ہم بے تحاشا بھاگیں اور چپکے سے اپنے اپنے گھر پہنچ گئیں۔
صبح ہوئی، کسی کو کچھ پتا نہیں چلا مگر ہمارے دلوں کے چور ہمیں رات کو بھیانک واقعہ یاد دلا کر ڈرا رہے تھے۔ ہم پانچوں خوفناک راز کو سینوں میں چھپائے ایک دوسرے کی طرف سہمی ہوئی نظروں سے دیکھتیں پھر نظریں چرالیتیں۔ جماعت میں جب آمنہ کا نام پکارا گیا تو فرخندہ جیسی سنگ دل لڑکی کا بھی رنگ پیلا پڑگیا۔ آدھی چھٹی میں نہ ہم سے کچھ کھایا گیا اور نہ پڑھا گیا، جیسے کوئی گلا گھونٹ رہا تھا۔
سب سے پہلے تو پچھلے دروازے کو کھلا دیکھ کر چوکیدار پر ڈانٹ پڑی۔ کنجی گھبراہٹ میں ہم سے کہیں گر گرا گئی تھی۔ ہم سہیلیاں ڈریں کہ پکڑی جائیں گی مگر فرخندہ نے کہا: ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں، رات کو بارش کی وجہ سے ہمارے پیروں کے نشان مٹ چکے ہوں گے۔ اگر ہم قبولیں گے تو کسی کو ہم سے پوچھنے کا خیال تک نہ آئے گا۔“
چوکیدار نے بتایا کہ کل سہ پہر ایک لڑکی کے چیخنے کی آواز آئی تھی۔ وہ باہر گیا مگر کوئی نہیں تھا۔ وہ سمجھا کسی لڑکی کی شرارت ہوگی لہٰذا واپس آگیا۔ کنجی کا گچھا اس نے پھاٹک بند کرکے ٹانگا تھا۔ اس کے بعد اس کی کوٹھڑی میں کوئی نہیں آیا۔
”تو پھر کنجی کہاں غائب ہوگئی؟“
”اس چند منٹ کے وقفے میں ہی کوئی کنجی لے جاسکتا تھا مگر کون اور کیوں؟“
کسی کی سمجھ میں کوئی وجہ نہیں آئی۔ لڑکیوں سے پوچھا کہ کسی کو کنجی ملی ہے۔ شاید پرانی کنجی تھی، ٹوٹ کر گر گئی ہوگی۔ سب کے ساتھ ہم پانچوں نے بھی معصوم صورتیں بنا کر انکار کردیا۔ بات آئی گئی ہوگئی کیوں کہ ابھی تک سوائے ہم پانچ لڑکیوں کے آمنہ کے گم ہوجانے کا کسی کو پتا نہیں تھا لیکن وہ خوفناک راز ہمارے دلوں میں زلزلے اٹھا رہا تھا۔ اختر، صبیحہ تو کئی بار چھپ کر روئیں بھی…. اور پھر ہم پانچوں سر جوڑ کر روئیں۔ آخر آمنہ کی تلاش شروع ہوئی۔ تیسرے دن کسی کو آمنہ کا دوپٹہ دریا کے کنارے جھاڑیوں میں الجھا ہوا ملا۔ قلعے کے تازہ ٹوٹے ہوئے برج کے قریب آمنہ کی لال کانچ کی چوڑیوں کے ٹکڑے ملے اور جوتیاں بت سے تھوڑی دور پڑی ملیں۔ کچھ فاصلے پر دروازے کی کنجی بھی ملی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد پولیس نے فیصلہ کیا کہ آمنہ چوکیدار کے ہاں سے کنجی چرا کر قلعے میں گئی اور وہاں اندھیرے کے باعث ٹھوکر کھانے سے گرگئی۔
”مگر آمنہ قلعے میں کیا کرنے گئی تھی؟“ پرنسپل صاحبہ نے کہا۔
”اور وہ لڑکی کون تھی جس نے چوکیدار کو پکارا تھا؟“
کوئی ان رازوں کی تہ تک نہیں پہنچ سکا۔ ہمیں سب کچھ معلوم تھا مگر خوف سے ہماری زبانیں گنگ تھیں، کبھی کبھی تو ایسی وحشت ہوتی کہ جی چاہتا کہ سب کچھ جا کر سچ سچ بتادیں کہ سینوں پر سے پتھر کی سلیں تو سرکیں مگر فرخندہ نے کہہ دیا: ”ہم پانچوں کو پھانسی ہوگی۔“
پھانسی کے خوف سے ہم چپ ہوگئیں۔
آمنہ کی غریب اندھی ماں کی تو دنیا مزید تاریک ہوگئی۔ آمنہ اس کی آنکھوں کا نور تھی۔ وہ اسی کے سہارے اپنے باقی دن گزار رہی تھی کہ ایک دن وہ کسی قابل ہو کر آنکھوں کا علاج کروائے گی۔ جب اس نے آمنہ کی موت کی خبر سنی تو اسے غش آگیا۔ وہ اس کا دوپٹہ اور جوتیاں منہ سے مل مل کر روتی رہی۔ ہم نے جب اس کا حال سنا تو ایسا معلوم ہوا کہ ہم قاتل ہیں، ہماری گردنوں پر آمنہ کا خون ہے اور بے کس ماں کی بد دعا ہمیں ساری عمر ستائے گی۔
ایک دن پرنسپل صاحبہ سے پوچھ کر ہم آمنہ کی ماں سے ملنے گئیں اور ان کی حالت دیکھ کر برا حال ہوگیا۔ اگر پھانسی کے تختے کا خوف نہیں ہوتا تو ہم وہیں ان کے پیر پکڑ کر بتادیتیں: ”ہم ہیں آمنہ کے قاتل!“
”تم اسے بہت چاہتی ہوگی، اس کی سہیلیاں ہو نا۔“
انھوں نے پیار سے ہمارے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دیں۔ ” اللہ تعالیٰ تمھیں خوش رکھے کہ مجھ بد نصیب کو تسلی دینے آئی ہو۔“
ہم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اس کے بعد ہفتہ بھر کے اندر اندر ہماری ساری شرارتیں رفو چکر ہوگئیں اور فرخندہ بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ وہ سہمی سہمی گھنٹوں ہوا میں گھورا کرتی۔ نہ وہ دعوتیں رہیں نہ کھانوں سے کوئی دلچسپی رہی۔ بہرحال آہستہ آہستہ ہم آمنہ کو بھولنے لگیں کہ ایک دن ہماری کھیلوں کی استانی نے ہم سب کو ہال میں جمع کیا۔ پرنسپل اور تمام استانیاں بھی آئیں۔ ہال میں سناٹا چھایا ہوا تھا کیوں کہ ہم جو شرارت کی جڑ تھیں، سر جھکائے خاموش کھڑی تھیں۔
”کسی بھی لڑکی کو آمنہ کے بارے میں اگر کچھ معلوم ہو تو وہ سچ سچ سب کچھ بتادے، اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی؟“ پرنسپل نے کہا۔ ہم اتنے دنوں بعد دوبارہ آمنہ کا ذکر سن کر حیران رہ گئیں۔
ہم نے فرخندہ کی طرف دیکھا، وہ بدل گئی تھی مگر اتنی نہیں کہ اس وقت بول اٹھتی۔ اس کی آنکھوں کا اشارہ پاکر ہم بھی چپ رہے۔
پرنسپل صاحبہ نے کہا: ”میں وعدہ کرتی ہوں کسی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ کسی کو معلوم ہے کہ آمنہ قلعے میں کیوں گئی تھی۔“
ہم خاموش رہے۔ ظاہر ہے وہ ہمیں کسی طرح بھی پکڑ سکتی تھیں۔
”اچھا تم لوگ نہیں بتاتیں تو مجھے خود آمنہ سے پوچھنا پڑے گا۔“ ہم لوگ سمجھ گئے کہ ہمیں بے وقوف بنارہی ہیں۔ انھوں نے کہا: ”بجلی گل کرادو۔“ پورے ہال میں تاریکی چھاگئی۔ اس گھپ اندھیرے میں ان کی آواز آئی: ”تم لوگوں نے بھوت تو نہیں دیکھے ہوں گے، مگر آج میں تم لوگوں کو بھوت دکھاﺅں گی“ آمنہ…. آمنہ…. یہاں آﺅ۔“ انھوں نے اپنے دفتر کے دروازے کی طرف منھ کرکے پراسرار طریقے سے پکارا۔ ”آﺅ آمنہ۔“
آہستہ آہستہ ہمیں اندھیرے میں دھندلی دھندلی چیزیں نظر آنے لگیں تھیں۔ اچانک دفتر کا دروازہ آہستہ سے کھلا…. اور ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ سفید لمبا کرتا پہنے ہاتھ میں ایک دیا لیے جیسے ہوا پر تیرتی آمنہ ہماری طرف بڑھنے لگی۔ اس کے بھورے بھورے بال پیشانی اور کندھوں پر لہرا رہے تھے۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں گڈھوں میں سے جھانک رہی تھیں اور نیلگوں سفید چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔
”آخاہ تو یہ وہ پانچ بھوتنیاں ہیں جنھوں نے آمنہ کو ڈرایا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آمنہ بچ گئی اور اسے مچھیروں نے بچا کر دریا کے اس پار کے ہسپتال میں پہنچادیا۔ کئی دن کے بعد جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے گھر کا پتا بتایا مگر وہ یہ نہ بتاسکی کہ وہ کون لڑکیاں تھیں جنھوں نے اسے ڈرانے کی سازش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ وہی لڑکیاں تھیں جنھوں نے چوکیدار کی کوٹھڑی سے کنجی چرائی تھی۔ کئی دن سے میں پریشان تھی کہ کس ترکیب سے ان کا پتا لگاﺅں۔ گو آمنہ اور اس کی ماں نے کہا کہ لڑکیوں کی شرارت تھی، در گزر کردی جائے۔ اس لیے میں نے سب سے پوچھا کہ سچ سچ بتادو مگر کوئی نہیں بولا لہٰذا میں نے چوروں کو پکڑنے کے لیے یہ تدبیر چلی جو کار گر ہوئی۔“
ظاہر ہے ہمیں علم تھا کہ کنجی چرانے اور اتنا بڑا جھوٹ بولنے کے بعد ہمیں اسکول سے نکال دیا جائے مگر آمنہ اور اس کی ماں صرف ایک شرط پر پرنسپل صاحبہ کی ترکیب پر عمل کرنے کو تیار ہوئی تھیں کہ سب لڑکیوں کو معاف کردیا جائے گا کیوں کہ انھیں اسکول سے نکالا گیا تو کہیں ان کا داخلہ نہیں ہوگا۔ پھر ان کے والدین کو بڑا دکھ ہوگا اور وہ جاہل رہ کر معاشرے کے لیے اور بھی بڑا خطرہ بن جائیں گی۔
ہم سب سر جھکائے سب کے سامنے چور بنے کھڑے تھے۔ ہمیں کافی سزا مل چکی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح آمنہ سے معافی مانگیں۔ آخر وہی بولی: ”میں نے سب کو معاف کیا مگر فرخندہ کو صرف ایک شرط پر معاف کروں گی۔“ اس نے شرارتاً مسکراتے ہوئے کہا۔
”وہ کیا؟“ فرخندہ نے لرزتی آواز میں پوچھا۔
”وہ یہ کہ تم دن رات منھ چلانا چھوڑ دو اور چٹور پن میں جیب خرچ ضائع کرنے کے بجائے کسی اچھے کام پر پیسے خرچ کرو۔ بہت موٹی ہوگئی ہو۔“
سب نے زور کا قہقہہ لگایا، ہمارے اندر بھی فرخندہ پر ہنسنے کی ہمت پیدا ہوگئی تھی۔
”مجھے منظور ہے۔“ فرخندہ نے شرمندہ ہو کر کہا۔
اس کے بعد میٹرک تک ہمارا ساتھ رہا۔ فرخندہ اور آمنہ ایسی جگری دوست بن گئیں کہ حد نہیں! فرخندہ کا سارا موٹاپا غائب ہوگیا۔ دبلی پتلی، لمبے قد کی دونوں سہیلیاں جب کھیل کے میدان سے ٹرافیاں اور کپ جیت کر لاتیں تو فخر سے سارے اسکول کا سر اونچا ہوجاتا۔ کمال کی بات یہ ہوئی کہ فرخندہ کے ابا نے آمنہ کی اماں کی آنکھیں بنوادیں۔
آمنہ نے بہت کہا: ”میں تعلیم ختم کرکے کسی قابل ہوجاﺅں گی تو خود ان کا علاج کراﺅں گی۔“
”بیٹی! یہ علاج کا روپیہ تم قرضہ سمجھ کر لے لو۔ جب کسی قابل ہوجاﺅ تو میرا قرضہ چکادینا۔“ فرخندہ کے باپ نے کہا۔
اور واقعی بی اے کرنے کے بعد آمنہ نے قرضہ چکادیا۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top