skip to Main Content

نئے سال کا تحفہ

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار رنجیت کو بھی نئے سال کا تحفہ مل ہی گیا

۔۔۔۔۔۔۔

سری لنکا میں نئے سال کا آغاز ہمیشہ ڈھول کو بجانے اور آتش بازی کے مظاہروں سے ہوتا ہے اور ہر کوئی نئے کپڑے پہنتا ہے۔ موژی نے بھی بہت خوب صورت پھولوں والا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس سال کے آغاز پر اسے ہر طرف سے تحفے موصول ہوئے تھے۔ اس کے امی ابا نے اسے نئے کپڑے دلائے تھے اور اس کی خالہ نے اسے نئی کھلونا ریل گاڑی لے کر دی تھی۔ تمام تحفوں میں اسے اپنا یہ کھلونا بہت پسند آیا تھا۔ صبح سویرے ہی وہ اس کھلونے کو بغل میں دبالیتی اور جہاں جانا ہوتا اسے لے کر جاتی۔ ڈھول کے بجنے اور آتش بازی کے چھوٹنے سے کان پھٹے جارہے تھے۔ اس کے گھر کے نزدیک اِملی کے درخت کے نیچے چند عورتیں ڈھول بجارہی تھیں۔ موژی ان کے ہاتھوں سے ڈھول بجانے کا تال میل غور سے دیکھ رہی تھی۔ وہ ڈھول کو ہاتھوں سے کہنیوں سے اور کبھی کبھی ماتھے سے بھی ضرب لگارہی تھیں۔
کچھ دیر وہ عورتوں کو دیکھتی رہی پھر اپنی ریل گاڑی کو بغل میں دبائے کھڑی ہوگئی کہ اس نے پڑوسی لڑکے رنجیت کو دیکھا۔ وہ اپنے برآمدے میں تین چار لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ موژی ان کے نزدیک گئی اور کوئی آواز پیدا کیے بغیر اُنھیں دیکھنے لگی۔ رنجیت نے چند کوڑیاں ناریل کے خول میں ڈالیں، اپنے ہاتھ سے خول کو ڈھانپ کر اسے ہلایا اور پھر کوڑیاں زمین پر گرادیں۔ پانچ کوڑیاں سیدھے منھ گریں، رنجیت چلا کر کہنے لگا۔ ”میں نے پانچ کوڑیاں جیتی ہیں۔“ رنجیت لڑکوں سے آگے ہی ایک پتنگ، پانچ چھہ کنچے اور کچھ پٹاخے جیت چکا تھا۔
موژی اس کی جیت سے جل گئی۔ اس نے اپنی ریل گاڑی کو چابی دی اور اسے زمین پر چھوڑ دیا۔ ریل گاڑی چلنے لگی اور اس میں سے آواز نکلنے لگی۔ رنجیت نے آواز سن کر پیچھے دیکھا موژی رنجیت کو صرف اپنی ریل دکھانا چاہتی تھی کھلانا نہیں چاہتی تھی۔ موژی اکثر رنجیت کے ساتھ کھیلتی تھی لیکن جب سے اسے ریل گاڑی کا کھلونا ملا تھا، وہ اس سے اجتناب برتنے لگی تھی، ریل گاڑی دیکھ کر رنجیت موژی کی طرف آیا اور اس نے اپنی ساری قیمتی چیزیں زمین پر پھینک دیں۔ جب وہ موژی کے نزدیک آرہا تھا تو وہ چلا کر کہنے لگی: ”تمھیں ادھر آنے کو کس نے کہا ہے، یہاں سے چلے جاﺅ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔“
وہ بولا: ”میں تمھاری گاڑی دیکھنا چاہتا ہوں۔“ موژی نے گاڑی کو سینے سے لگالیا اور کہنے لگی: ”میں اسے کسی کو نہیں دکھاﺅں گی۔“ رنجیت اس کے پاس بیٹھ گیا۔
موژی پھر اُونچی آواز سے بولی: ”میں نے تمھیں پہلے ہی کہا ہے کہ یہاں سے چلے جاﺅ ورنہ میں امی کو بلا لوں گی…. امی…. امی دیکھیں رنجیت مجھے تنگ کررہا ہے۔“
رنجیت اس کے چلانے سے ڈر گیا اور اپنے گھر بھاگ گیا۔ رنجیت کا باپ ایک بہت غریب کسان تھا۔ بدقسمتی سے اس دفعہ سیلاب کی وجہ سے اس کی چاول کی فصل خراب ہوگئی تھی لہٰذا نئے سال کے آغاز میں جب ہر کوئی اچھے کھانے کھارہا تھا اور اچھے کپڑے پہن رہا تھا رنجیت اور اس کے بھائی کے پاس پہننے کے لیے نئے کپڑے بھی نہیں تھے۔
کھلونوں اور پٹاخوں کی بات تو تھی ہی دوسری، موژی کو بہت سے نئے تحفے ملے تھے اور پیاری سی ریل گاڑی بھی۔ رنجیت سوچ رہا تھا کہ اسے کیوں کچھ نہیں ملا۔ وہ بہت غم زدہ تھا۔ رنجیت گھر واپس آیا وہاں ایک سیمنٹ سے بنا ہوا تھڑا تھا۔ تمام گھروں کا گندا پانی اسی تھڑے کے نالے سے گزرتا تھا۔ یہ کبھی نہیں سوکھتا تھا۔ رنجیت اس نالے کے ساتھ بیٹھ گیا اور پانی کی سطح پر بننے والے بلبلوں کو دیکھنے لگا۔ اگرچہ وہ دیکھ تو بلبلوں کو رہا تھا لیکن اس کے دماغ میں موژی کی ریل گاڑی چل رہی تھی۔ خیالوں میں گم اس نے نالے کو سمندر سمجھ لیا۔ نالے کی سیمنٹ والی طرف اس کی ریلوے لائن تھی۔ ٹھکا ٹھک…. ٹھکا ٹھک۔ یہ وہ آواز تھی جو ریل سمندر کے ساتھ پٹڑی پر گزرتے ہوئے نکالتی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کاش اس کے پاس بھی ریل گاڑی ہوتی اور میں اس نالے کے ساتھ چلاتا ٹھکا ٹھک…. ٹھکا ٹھک۔ رنجیت موژی کی ریل گاڑی خیال میں دوڑانے لگا۔
نالے کے اطراف میں کائی اُگی ہوئی تھی۔ ایک بہت بھڑکیلے رنگوں والا کاغذ اُڑ کر آیا اور نالے کی کائی میں پھنس گیا۔ رنجیت جھک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ ایک بہت خوب صورت ڈاک کا ٹکٹ تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ موژی کو ٹکٹیں جمع کرنے کا شوق ہے۔ ایک دو دفعہ اس نے رنجیت سے بھی ٹکٹیں مانگی تھیں لیکن اس کے پاس کوئی ٹکٹ تھی ہی نہیں۔ پھر اس کو اچانک اپنے چھوٹے بھائی اُپل کا ٹکٹوں کا البم یاد آیا۔ رنجیت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ مجھے موژی کو کچھ ڈاک کے ٹکٹ دینے چاہییں، ہوسکتا ہے پھر وہ میرے ساتھ کھیلے اور مجھے اپنی ریل گاڑی دیکھنے دے۔ رنجیت یہ سوچ کو دوڑ کر گھر گیا۔ رنجیت کو علم تھا کہ اس کا بھائی البم کہاں رکھتا ہے۔ اُپل اپنے البم کو یوں چھپا کر رکھتا تھا جیسے کوئی اپنے خزانے کو۔
رنجیت نے اُپل کو کھڑکی سے دیکھا تو وہ دور اپنے دوستوں کے ساتھ پتنگ اُڑا رہا تھا۔ رنجیت اپل کی الماری کے پاس گیا اور اس کی ایک دراز کھولی۔ دراز کے اندر اپل کی کتابیں،قلم، پنسلیں، کنچے، ربڑ اور دوسری جمع شدہ چیزیں پڑی تھیں۔ وہ اس میں البم تلاش کرنے لگا۔ پھر اسے پتنگ کی ڈور ملی جو ایک چرخی میں اکٹھی کی گئی تھی۔ البم دراز میں سب سے نیچے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اس نے خاموشی سے البم نکال لیا اور اس کے صفحے اُلٹنے لگا۔ البم کے ہر صفحے پر انتہائی خوب صورت ڈاک کے ٹکٹ چسپاں کیے گئے تھے۔ پہلے چند صفحات پر صرف سری لنکا کے ٹکٹ تھے اور بعد کے صفحات میں غیر ملکی ٹکٹ تھے۔ ٹکٹوں پر جانوروں، جہازوں، کشتیوں، بادشاہوں اور ملکاﺅں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔
رنجیت البم سے کچھ صفحات پھاڑنے ہی والا تھا۔ جب اس کی امی نے اسے پکارا تو وہ ڈر گیا۔ پہلے تو وہ چپ رہا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کہیں وہ اسے تلاش کرتے ہوئے ادھر ہی نہ آجائیں وہ بولا: ”جی امی جان۔“ لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔
امی دوبارہ بولیں۔ ”وہاں کیا کررہے ہو، ادھر آﺅ اور باورچی خانے میں آکر میری مدد کرو۔“ رنجیت نے جلدی سے البم میں سے دو تین صفحے پھاڑ لیے اور پھر بولا: ”اچھا! امی آتا ہوں۔“
وہ جانتا تھا کہ موژی کو غیر ملکی ٹکٹیں زیادہ پسند ہیں اگر میں اس کو غیر ملکی ٹکٹیں دوں تو ہوسکتا ہے وہ مجھے اپنی ریل گاڑی سے کھیلنے بھی دے۔ اس نے غیر ملکی ٹکٹوں کے بھی دو تین صفحات پھاڑ لیے۔ اس نے پھاڑے ہوئے صفحے علیحدہ رکھ لیے اور البم دراز میں سب سے نیچے رکھ دیا اور اوپر دوسری چیزیں سجادیں۔ رنجیت نے کتابیں ترتیب سے نہیں رکھیں۔ دراز بالکل بھرچکا تھا اور اسے بند کرنا بہت مشکل تھا۔ البم کے صفحے لے کر وہ موژی کی طرف بھاگا، اور اسے ٹکٹیں دکھائیں۔ موژی اشتیاق سے بولی: ”کیا یہ ڈاک کی ٹکٹیں ہیں؟“
رنجیت بولا۔ ”ہاں یہ بہت خوب صورت ٹکٹیں ہیں اور میرے پاس اور بھی ہیں۔ کیا میں باڑ پھلانگ کر آجاﺅں؟“
موژی بہت شرمندہ تھی، کچھ دیر پہلے تو اس نے خود ہی کہہ کر رنجیت کو بھگایا تھا۔ اب وہ اسے کیسے بلاسکتی تھی۔ موژی کی نظریں نیچے تھیں۔ اس نے کہا۔ ”آجاﺅ۔“ رنجیت نے جلدی سے اس کے گھر کے باہر لگی ہوئی باڑ پھلانگی، جلدی میں اس کی قمیص بھی باڑ کے ساتھ اُلجھ گئی اور پھٹ گئی لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ موژی کی طرف دوڑا۔ اس نے پوچھا: ”تم نے یہ کہاں سے لی ہیں؟“ رنجیت نے موژی کو ٹکٹیں دیتے ہوئے کہا۔ ”مجھے ملی ہیں۔“ موژی خوش ہو کر بولی۔ ”ارے اس میں ایک تکونی ٹکٹ بھی ہے۔“ رنجیت ریل کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھوں میں خارش سی ہورہی تھی کہ وہ کسی طرح ریل کو چھونا چاہتا تھا۔
موژی بولی: ”کوئی بات نہیں تم ریل کو چھوسکتے ہو بلکہ تم اس کے ساتھ کھیل بھی سکتے ہو لیکن میں یہ ساری ٹکٹیں لے لوں گی۔“
رنجیت بہت خوش ہوا۔ وہ بولا: ”ضرور رکھو میں یہ تمھارے ہی لیے لے کر آیا ہوں۔“
موژی کہنے لگی: ”میں اِنھیں اپنے کمرے میں رکھوں گی۔“
یہ کہہ کر وہ بولی: ”میری خالہ یہ ریل میرے لیے لے کر آئی ہیں۔ اس کا ڈبہ بھی تھا۔“
پھر اس نے اشارے سے گتے کا ڈبہ رنجیت کو دکھایا جو گلی میں پڑا ہوا تھا۔ وہ بہت خوب صورت ڈبہ تھا اور اس کے چاروں طرف ریل کی رنگین تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ رنجیت نے موژی سے وہ ڈبہ لے لیا۔ اسے کھولا اور اندر دیکھا پھر بولا: ”اس میں کتنی عمدہ خوشبو آرہی ہے۔ بالکل ریل جیسی خوشبو ہے۔“
پھر رنجیت کے کہنے پر موژی تھڑے والے نالے کے پاس آگئی۔ موژی ریل کو چابی دینے لگی تو رنجیت نے کہا۔ ”اس کو چابی نہ دو ہم ہاتھ سے اسے دھکیلتے ہیں۔ کہیں یہ پانی میں نہ گرجائے۔” پھر رنجیت اسے اپنے خیال میں بنائی ہوئی ریل کی پٹڑی اور خیالی سمندر کے بارے میں بتانے لگا۔ موژی حیران ہو کر پوچھنے لگی۔ ”سمندر کدھر ہے۔“ پھر دونوں کی ریل کی آواز پر گرما گرمی ہوگئی۔ رنجیت کو ٹھکا ٹھک والی آواز پسند تھی اور موژی کو چگا چک…. چگا چک لگتی تھی لیکن پھر رنجیت کو احساس ہوا کہ موژی کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ رنجیت ایک ہاتھ سے ریل کو دھکیلنے لگا اور منھ سے موژی کی پسندیدہ آواز نکالنے لگا جس سے موژی خوش ہوگئی۔
موژی بولی: ”وہ آسمان پر دیکھو اُپل اور اس کے دوست پتنگیں اڑا رہے ہیں۔ ایک…. دو…. تین دیکھو وہ ایک پتنگ کتنی اونچی چلی گئی ہے۔ ”وہ باتوں میں مگن تھے انھوں نے اُپل کو آتے نہیں دیکھا اُپل موژی کو تنگ کرنے کے لیے کہنے لگا: ”تمھیں پتنگیں گننے کی اجازت کس نے دی، کہیں تمھاری نظر لگ کر کوئی پتنگ ہی نہ گرجائے۔“
موژی نے پوچھا: ”کیا تم پتنگیں اُڑانا ختم کرآئے ہو؟“ وہ بولا: ”نہیں وہ کوبرے جیسی پتنگ میری ہے۔ میں اپنے دوست کو اس کی ڈور تھماکر آیا ہوں تاکہ گھر سے اور ڈور لے کر آﺅں۔ زیادہ ڈور سے میں پتنگ اور اُونچی اُڑاﺅں گا۔“
رنجیت اُپل کی باتیں سن کر بالکل نہیں بولا۔ وہ ڈر گیا تھا اسے معلوم تھا کہ اُپل ڈور لینے جارہا ہے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ڈور دراز سے نکالتے ہوئے اسے البم سے پھٹے صفحوں کا پتا چل جائے گا۔ اُپل چلا گیا تو موژی نے پوچھا: ”تم اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟ کیا تم اپنے بھائی سے ڈرتے ہو؟“ رنجیت نے نفی میں سر ہلایا اور وہ دونوں پھر ریل سے کھیلنے لگے۔ رنجیت اچانک شکایت کرتے ہوئے بولا: ”شاید تم گوری ہو اور میں کالا۔ سبھی مجھے کوئلہ کہہ کر بلاتے ہیں، کوئی مجھے پیار نہیں کرتا اور نہ ہی کھلونے لے کر دیتا ہے۔“ پھر اس نے اپنی قمیص کے ایک کونے سے ریل کو صاف کیا۔ موژی اسے کوئی جواب دینے لگی تھی لیکن رنجیت کے گھر سے شور کی آواز آئی۔ رنجیت اور بھی خوف زدہ ہوگیا۔ اسے پتا تھا کہ اُپل کو ساری بات کا علم ہوگیا ہے۔ رنجیت کی ماں گھر سے باہر آگئی۔ اس کے ہاتھ میں اُپل کی ٹکٹوں کا البم تھا اور اُپل اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس کی ماں چِلّا کر بولی: ”رنجیت ادھر آﺅ۔ تم نے اتنی گری ہوئی حرکت کیوں کی ہے، کیوں تم نے البم سے صفحے پھاڑے ہیں؟“
رنجیت کچھ بولے بغیر زمین کو گھورتا رہا۔ وہ بولی: ”میں نے تمھیں باورچی خانے میں اپنی مدد کے لیے بلایا اور اس کے بدلے میں تم نے یہ کیا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے رنجیت کو ہاتھ سے پکڑلیا تو رنجیت کی پھٹی ہوئی قمیص نظر آئی۔ اس نے رنجیت کے منھ پر ایک تھپڑ رسید کیا تو وہ رونے لگا۔ امی نے اُپل سے چھڑی لانے کو کہا۔ رنجیت ماں سے چمٹ کر منت کرنے لگا کہ وہ اسے نہ مارے لیکن امی نے اسے بُری طرح مارنا شروع کردیا۔ اُپل چھڑی ایک امرود کے درخت سے توڑ کر لایا تھا۔ رنجیت رو رہا تھا اور موژی خوف زدہ تھی۔ وہ مڑی اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔ رنجیت کی امی نے اسے تسلی سے مارا پھر چھڑی کو ایک طرف پھینکا اور گھر چلی گئیں۔
رنجیت روتا ہوا نالے پر بیٹھ گیا۔ چھڑی سے اس کے بازوﺅں اور ٹانگوں پر نشان پڑے ہوئے تھے۔ پھر اسے موژی کی آواز آئی۔ ”چگا چک…. چگا چک۔“ رنجیت نے مڑ کر دیکھا۔
وہ بولی: ”ادھر آﺅ میں تمھیں کچھ دوں۔“ رنجیت اس کی طرف بڑھا۔ وہ بولی: ”تم اچھے دوست ہو اتنی مار کھانے کے باوجود تم نے نہیں بتایا کہ تم نے ٹکٹیں مجھے دی ہیں۔ اگر یہ بات میری امی کو معلوم ہوجاتی تو مجھے بھی اتنی ہی مار پڑتی۔“
موژی نے ٹکٹیں رنجیت کو دکھائیں اور اسے کہنے لگی: ”یہ لے جاﺅ اور اپنی امی کو واپس کردو۔“
رنجیت کہنے لگا۔ ”اب ان کو واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کے بدلے کی مار کھاچکا ہوں اب اِنھیں تم اپنے پاس رکھو۔“
وہ بولی: ”صرف بُرے بچے چوری کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں تھا کہ صرف ٹکٹیں چوری کی ہیں، میں سمجھی تھی کہ یہ تمھاری ہیں۔“
رنجیت غصے سے بولا: ”ہاں میں بُرا بچہ ہوں میں نے چوری کی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
لیکن موژی ضد کرکے بولی۔ ”تم بہت بُرے ہو یہ ٹکٹیں لو اور اپنی امی کو واپس کرکے آﺅ۔ اُپل اور تمھاری امی تم سے فوراً مان جائیں گے۔“ رنجیت نے انکار کیا تو موژی بولی۔ ”تو ٹھیک ہے آئندہ میں اپنی ریل سے تمھیں کھیلنے نہیں دوں گی۔“ رنجیت بولا: ”نہ دو میرے پاس خالی ڈبہ ہے میں اس کے ساتھ کھیل لوں گا۔“
موژی بولی: ”اور اگر میں ریل تمھیں ہی دے دوں تو کیا تم یہ ٹکٹیں واپس کردوگے۔“
رنجیت نے پوچھا۔ ”کیا ہمیشہ کے لیے دے دو گی لیکن اگر تمھاری امی کو علم ہوگیا تو۔“
وہ بولی: ”میں نے ان سے پہلے ہی اجازت لے لی ہے انھوں نے کہا کہ یہ میرا تحفہ ہے اور میری مرضی پر ہے میں جس کو چاہوں دے دوں۔“ رنجیت نے ریل ہاتھ میں پکڑ کر پوچھا۔ ”کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟“
موژی بولی: ”لیکن وعدہ کرو کہ ٹکٹیں تم واپس کردوگے۔“ رنجیت کہنے لگا: ”میں وعدہ کرتا ہوں۔“ رنجیت نے ریل اور ٹکٹیں پکڑیں اور ماں کو پکارتا ہوا اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top