کھلی کھڑکی
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔
ایک دن یوں ہی راستے سے گزرتے ہوئے ان کی ملاقات ہوگئی۔ وہ ایک دوسرے کو فوراً پہچان گئے ، اگرچہ ان کی آپس میں دوستی نہیں تھی مگر وہ ایک دوسرے سے خوب واقف تھے وہ رک گئے اور حال چال پوچھا۔ ہم انھیں آسانی کے لئے روشن خان اورکالے خان کانام دے دیتے ہیں۔ کالے خان بولا” اگرچہ ہم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ہماری اپنی اپنی حدود ہیں۔جہاں آپ ہوتے ہیں وہاں میں نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ہم میں ایک رشتہ تو ہے۔“
” اچھا آپ اسے رشتہ سمجھتے ہیں ؟“ روشن خان نے مسکراکر کہا۔
کالے خان نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ ” ہاں مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے ، خیر میں چاہتا ہوں آپ اس اتوار کو میرے گھر تشریف لائیں۔“
” ہم مل تو لئے اب گھر آکر کیا کریں گے ؟“ روشن نے کہا۔
مگر کالے ضد کرنے لگا۔آخر روشن کو حامی بھرنی پڑی۔ کالے اسے اپنا پتا بتانے لگا تو وہ بولا۔”مجھے آپ کا گھر پتا ہے “۔کالے نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔تو وہ بولا۔” آپ جانتے ہیں مجھے سب علم ہوتا ہے۔“
کالے نے جھینپ کر گردن ہلائی اوربولا۔”اچھا ضرور آئیے گا میں آپ کا انتظار کروں گا۔“وہ بہت پرجوش تھا۔دراصل وہ اپنا نیا گھر روشن کو دکھانا چاہتا تھا۔
اتوار کو روشن اپنی بیگم کے ساتھ وہاں پہنچا۔ کالے کاگھر ایک شاندار علاقے میں تھا۔ روشن نے گھنٹی بجائی تو کتے کے بھونکنے کی خوفناک آواز سنائی دی۔اس کی زنجیر کھلی تھی اور وہ ادھر ادھر بھاگتے ہوئے غرارہا تھا۔ کالے نے کچھ دیر بعد آکر اسے باندھا اور گیٹ کھولا۔
روشن نے کہا۔ ” آپ نے بہت خطرناک کتا پال رکھا ہے۔“
” ہاں جرمن نسل کا ہے، ذرا پڑوسیوں پر رعب رہتا ہے۔“ کالے ہنس کر بولا اور انھیں ڈرائنگ روم میں لے آیا۔پھر وہ فورا! باہر نکل گیا اور راہداری میں چپکے چپکے اپنی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ انکی سرگوشیاں اتنی بلند تھیں کہ سب سنائی دے رہی تھیں۔وہ اس پر بحث کررہے تھے کہ مہمانوں کے آگے کیا رکھا جائے۔ان کی باتیں کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگئیں تھیں۔ روشن نے بور ہوکر ڈرائنگ روم کا جائزہ لینا شروع کیا۔ وہاں بہت دھیمی روشنی تھی۔ کھڑکیوں پر بھاری پردے پڑے تھے۔ دیواروں کا رنگ شوخ تھا۔ ایک بہت بڑی اور بھدی پینٹنگ بھی دیوار پر لگی تھی۔غرض کمرہ بہت بھرابھرا تھا۔ برابر والے کمرے سے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ کھیل کم لڑ زیادہ رہے تھے۔تیز آواز میں ٹی وی بھی چل رہا تھا۔اچانک کسی چیز کے گرنے کی زوردار آواز آئی۔کالے کی بیوی چیختی ہوئی وہاں گئی اور اس نے کسی بچے کو پیٹ ڈالا۔ وہ زور زور سے رونے لگا۔روشن نے گہری سانس لی اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔اس نے اٹھ کر پردے ہٹائے اور کھڑکی کھول دی۔ باہر شام کی خوشگوار دھوپ پھیلی تھی۔ قریب لگے درختوں سے ٹکراکر فرحت بخش ہوا اندر آنے لگی۔ اسی وقت کالے خان کمرے میں داخل ہوا اور بولا”اوہ میں ایئر کنڈیشنر چلانا تو بھول ہی گیا۔“ وہ کھڑکی بند کرنے کے لئے بڑھا۔مگر روشن نے اسے روک لیا اور بولا۔” نہیں، ایسے ہی ٹھیک ہے۔ باہر کامنظر بہت اچھا ہے۔“
کالے نے کہا۔” ہم تو کھڑکی بند رکھتے ہیں اے سی جو چلتا رہتا ہے۔“
” جب موسم اچھا ہو تو مصنوعی طریقے استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“روشن بولا۔
کچھ دیر بعد کالے کی بیوی ایک ٹرالی میں چائے اور دوسرے کھانے کے لوازمات لے آئے۔ٹرالی لبالب بھری ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا چائے پر دو لوگ نہیں دس لوگ مدعو ہیں۔کالے نے اصرار کرکے روشن کو کھلانا شروع کیا۔اس دوران اس کا بیٹا بھی وہاں آگیا۔ وہ ایک بدتمیز بچہ تھا۔وہ کوئی چیز اٹھاتا اور تھوڑی سی کھاکر چھوڑ دیتا۔کالے اسے منع کررہا تھا مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوررہا تھا۔کالے کا اصرار جاری تھا۔وہ ہر چیز روشن کو کھلانا چاہتا تھا۔چیزیں بہت زیادہ تھیں مگر ان میں کوئی تنوع( ورائٹی) نہ تھی۔ایک ہی قسم کے ڈھیروں بسکٹ تھے۔ روشن نے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔چائے کے بعد روشن کی بیوی جوس لے آئی۔
روشن نے کہا کہ ہم گرم کے بعد ٹھنڈا نہیں پیتے۔لیکن کالے خان اصرار کرتا رہا۔پھر اس نے سیاست پر گفتگو شروع کردی۔روشن ہوں ہاں کرتا رہا۔صاف محسوس ہورہاتھا کہ اسے اس موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں۔لیکن کالے بہت پرجوش تھا۔اس کی گفتگو عامیانہ اور سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھی۔اس نے اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کی خوب تعریف کی اور مخالفوں کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ روشن کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کالے کی باتیں ختم نہیں ہورہی تھیں۔ آخر روشن بےزار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔کالے خان کی باتوں کا سلسلہ صدر دروازے تک جاری رہا۔ پھر روشن نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک پرچے پر اپنا پتا لکھ کر اسے دیتے ہوئے بولا۔ ” اگلی اتوار کو میں آپ کا انتظار کروں گا۔“
اگلی اتوار کو کالے خان، روشن خان کے گھر پہنچا۔روشن کا گھر بھی ایک اچھے علاقے میں تھا۔کالے نے گھنٹی بجائی۔روشن فوراً دروازے پر چلاآیا۔وہ بہت گرمجوشی سے ملا اور مہمانوں کو اندر لے آیا، اندر بہت خوبصورت لان تھا۔ایک طرف پھولوں کی کیاریاں تھیں جن میں موتیا اور چنبیلی اپنی بہار دکھارہے تھے۔دوسری طرف خوش رنگ پرندوں کے پنجرے تھے۔ وہ خوب چہچہارہے تھے۔روشن مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں لے آیا۔وہ ایک روشن اور ہوادار کمرہ تھا۔ جسے نفاست اور سادگی سے سجایا گیا تھا۔ ایک خوبصورت الماری میں ڈھیر ساری کتابیں بھی ترتیب سے رکھی تھیں۔کتابیں دیکھ کر کالے کو گھبراہٹ ہونے لگی وہ دوسری طرف منھ کر کے بیٹھ گیا۔روشن نے اس سے حال چال پوچھا اور تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد اس کے بچے بھی چلے آئے اور سلام کر کے ایک طرف ادب سے بیٹھ گئے۔ پھر روشن کی بیگم چائے لے آئیں۔ ساتھ ہی تازہ خوشبو دار بسکٹ اور سینڈوچ تھے۔کالے نے کھانا شروع کیا ، بسکٹ کھاکر وہ چونک اٹھا۔اس نے حیرت سے پوچھا۔” یہ بسکٹ کس برانڈ کے ہیں ؟“
روشن مسکراکر بولا۔” یہ ہماری بیگم کا شوق ہے۔وہ اکثر چیزیں مہارت سے گھر میں ہی بنالیتی ہیں۔“
کالے کو بسکٹ بہت پسند آئے۔ وہ پوری پلیٹ صاف کرگیا۔ چائے بھی بہت مزیدار تھی۔ناشتے سے فارغ ہوکر روشن اس سے ہلکے پھلکے موضوعات پر باتیں کرتا رہا۔پھر وہ بولا۔” میرے پاس چند بہت اچھی کتابیں آئی ہوئی ہیں۔آپ پڑھنے کے لیے لے جائیں۔“
یہ سن کر کالے گھبرا گیا اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ وہ گھبرا کر بولا۔” نہیں نہیں مجھے پڑھنے کاوقت کہاں ملتا ہے۔“
پھر وہ جلد وہاں سے رخصت ہوگیا۔روشن اس باہر تک چھوڑنے گیا تھا۔
آپ شاید اُن دونوں کو پہچان گئے ہوں گے۔اگر نہیں پہچانے تو ہم بتادیتے ہیں۔ وہ دونوں دوست جنہیں دوست کہنا درست بھی نہیں علم اور جہل تھے۔