سب سے زیادہ مہربان انسان
محمد ولی اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔
اب سے کوئی چو دہ سوسال پہلے ملک عرب کے شہر مکہ میں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کے باپ کا نام عبداللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا۔بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔
اس زمانے میں عرب میں رواج تھا کہ شہر کے کھاتے پیتے لوگ اپنے دودھ پیتے بچوں کو گاؤں بھیج دیتے تھے۔گاؤں کی دائیاں انہیں دودھ پلاتیں اور بچے کھلی ہوا میں پلتے ،اسی طرح یہ بچہ بھی اپنی دائی حلیمہ کے پاس گاؤں میں پلتا رہا۔
دائی کی بیٹی بکریاں چراتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے ساتھ بکریوں کے پیچھے دوڑتے اور جو بکری بھاگ جاتی اسے گھیر کر واپس لاتے۔پانچ سال دائی حلیمہ کے پاس رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ماں آمنہ کے پاس شہر مکہ میں واپس آگئے۔جب چھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔باپ اور ماں کے مر جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش آپﷺ کے دادا کرنے لگے لیکن دو سال بعد جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ رہنے لگے۔چچا کی بکریاں چراتے تھے اور ساتھ ہی تجارت کا طریقہ بھی سیکھتے۔بچپن سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت شریف اور نیک تھے۔بہت اچھی اور پیاری باتیں کرتے۔نہ کسی کو ستاتے اور نہ دوسرے بچوں کی طرح کسی سے لڑتے۔جھوٹ نہیں بولتے تھے،بڑوں کی عزت کرتے ،چھوٹوں سے محبت کرتے ،بیماروں اور بوڑھوں کی مدد کرتے اور وعدہ ضرور پورا کرتے۔اس وجہ سے مکہ کا ہر آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرتا تھا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوان ہوئے تو خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت شروع کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا روپیہ پیسہ تو تھا نہیں، اس لئے دوسروں کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی ایمانداری اور سچائی سے کام کیا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو”صادق“اور”امین“یعنی امانت دار کہنے لگے۔
اس زمانے میں شہر مکہ کے رہنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے جو قریش کہلاتے تھے،بڑے ہی خراب لوگ۔ تھے شراب پیتے،جوا کھیلتے،ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے سے لڑتے بھرتے،لڑکیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیتے اور بہت سے بتوں کی پوجا کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوانی میں خود بھی ان باتوں سے دور رہے اور دوسروں کو بھی ان سے روکنے کی کوشش کرتے تھے۔
چالیس سال کی عمر میں ایک روز جب آپﷺ ایک گھر میں اللہ کی عبادت کر رہے تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی دکھائی دیا۔آدمی کی شکل میں یہ فرشتہ تھا۔اس فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی خبر سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری کے لیے چن لیا ہے۔یعنی اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور اس طرح لوگوں کو سچے اور سیدھے دین پر چلانے کے لیے۔
اس کے بعد اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ کے لوگوں کو اور جو بھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل جاتے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے لوگو! اللہ کو ایک مانو۔اس کا کوئی شریک نہ بناؤ۔اللہ ہی کی عبادت کرو۔بے حیائی اور برے کاموں سے بچو۔لیکن وہی لوگ جو اب تک آپﷺ کی عزت کرتے تھے اور صادق اور امین کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بن گئے۔وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی کہ تمہارا بھتیجا،جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں،ان کو نکما اور ناکارہ بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارے باپ دادا گمراہ تھے۔اسے منع کرو۔نہ مانے تو تم اس کی مدد کرنا چھوڑ دو۔پھر ہم خود اس کو ٹھیک کر لیں گے۔چچا نے بھتیجے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے کہا:
”چچا جان!خدا کی قسم یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند دے دیں۔تب بھی میں سچ کہنا نہیں چھوڑوں گا۔آپ مجھے میرے خدا پر چھوڑ دیں۔“جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات نہ مانی اور اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے تو ان لوگوں نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی زیادہ ستانا شروع کر دیا۔جہاں وہ جاتے ان کا مذاق اڑاتے۔انہیں دیوانہ مشہور کر دیا۔نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے تو ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے یا کوئی بھاری اور گندی چیز رکھ دیتے۔راہ میں کانٹے بچھا دیتے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لالچ یا دباﺅ سے اپنے نیک کام سے نہ رکے تو آخرکار مکہ کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کر دیا جائے۔چنانچہ کوئی ان سے نہ ملتا،کوئی رشتے دار ی نہ کرتا۔ان سے نہ کوئی چیز خریدتا نہ ان کے ہاتھ بیچتا۔یہ لوگ کھانے پینے کا سامان ان کے پاس جانے نہ دیتے۔بائیکاٹ ختم کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے کر دے۔تین سال تک بائیکاٹ جاری رہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لوگ مکہ چھوڑ کر پاس کی ایک پہاڑی کی گھاٹی میں جس کا نام’ شعب ابی طالب‘ تھا جا بسے۔اس عرصے میں درختوں کے پتے اور بوٹیاں کھا کر گزارا کرتے۔ایک مرتبہ تو سوکھا چمڑا ابال کر کھایا گیا۔بچے بھوک سے بلبلاتے تو مکہ کے لوگ ٹھٹھا اور مذاق کرتے۔
ایک مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے لوگوں کو اللہ کا پیغام سنا نے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپﷺ کو پتھر مار کر لہو لہان کردیا۔طائف مکہ سے پچپن میل دور ایک بستی ہے۔یہ بستی اب ایک شہر بن گئی ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح بھی اللہ کا پیغام سنانے اور پہنچانے سے نہ رکے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے مار ڈالنے کی سازش کی اور قتل کیلئے ایک رات بھی مقرر کر لی۔مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
ملک عرب میں ایک شہر اور بھی تھا۔یہ مکہ سے تین سو میل دور شمال میں تھا۔اس کا نام یثرب تھا۔اس شہر کو اب مدینہ کہتے ہیں ۔یہ شہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وطن تھا۔جس زمانہ میں مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے مار ڈالنے کی سازش کر رہے تھے، کچھ لوگ یثرب سے مکہ اپنے کسی کام سے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں تو انہیں بہت پسند آئیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور آپ ﷺکے بتائے ہوئے طریقے پر جسے دین اسلام کہتے ہیں، چلنے لگے ۔یعنی مسلمان ہو گئے۔ ان لوگوں نے جو تعداد میں پچھتّر تھے۔ یہ دیکھ کر کہ مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستاتے ہیں یہ مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ کے وہ لوگ جو اس وقت تک مسلمان ہو چکے تھے، مکہ چھوڑ کر یثرب چلے آئیں۔
آپ نے یہ مشورہ قبول کر لیا اور آخر تیرہ سال مکہ کے لوگوں کو اللہ کا پیغام سنانے کے بعد اور ترپن سال مکہ میں رہنے کے بعد ایک رات مکہ کو چھوڑ کر یثرب کی راہ لی۔اس واقعہ کو ہجرت کہتے ہیں۔یعنی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا۔اس واقعہ سے مسلمانوں کا سال شروع ہوتا ہے، جسے سن ہجری کہتے ہیں۔اب یثرب کا نام مدینة النبی یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہو گیا۔ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال زندہ رہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تریسٹھ سال چار دن کے ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے اللہ سے جا ملے تو قریب قریب سارا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکا تھا۔جانتے ہو یہ ہمت والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کون تھے؟یہ تھے ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ان پر اللہ کی سلامتی ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
بچوں سے شفقت
رسول اللہﷺ بچوں پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ان کا معمول تھا کہ سفر پر جاتے تو راہ میں جو بچے ملتے ،ان سے الفت بھرا سلوک فرماتے اور یہی تعلیم دوسروں کو دیتے تھے۔ ان میں سے کئی بچوں کو اپنے ساتھ سواری پر آگے پیچھے بٹھاتے تھے ۔ راستہ میں جو بچے مل جاتے، ان کو مسکراتے ہوئے نہایت محبت سے سلام کرتے اور پیار بھری باتیں کرتے ۔ایک ایک کو گود میں اٹھا تے اور کھانے کی چیزیں دیتے۔ آپﷺ بچوں کو چومنا ان سے لاڈپیار کرنا ان کا حق سمجھتے تھے۔ماں اور بچے کے واقعات سے آپ پر گہرا اثر ہوتا تھا۔حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی رحم دل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو اتنی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں،اس کی ایک بڑی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی تھی۔
ایک دفعہ عید کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے جا رہے تھے۔راستے میں کچھ بچے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔مگر ایک بچہ اداس سب سے الگ تھلگ بیٹھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب جا کر پوچھا۔”کیا بات ہے ،رنجیدہ کیوں ہو؟“اس نے جواب دیا ،میرا باپ مرچکا ہے، ماں نے دوسری شادی کر لی ہے۔کوئی نہیں جو مجھے دیکھے بھالے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(تسلی دیتے ہوئے) فرمایا۔کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا باپ ہو۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہاری ماں ہو اور فاطمہ تمہاری بہن۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ساتھ لیا اور واپس گھر آئے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا۔”تمہیں بیٹے کی آرزو تھی ،یہ تمہارا بیٹا ہے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا، تمہیں بھائی کی آرزو تھی ، یہ تمہارا بھائی ہے اور فرمایا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے لاؤ۔
ان کپڑوں میں سے ایک اچھا جوڑا اس بچے کو پہنایا اور اسے ساتھ لے کر عید کی نماز پڑھنے تشریف لے گئے۔دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم نے ایک بن باپ کے بچے کو باپ کی شفقت ہی نہیں بلکہ ماں اور بہن کا پیار، کپڑے اور خوشی سب کچھ ہی دلادی۔
ایک دفعہ ایک غریب عورت آپﷺ کے گھر حضرت عائشہ کے پاس آئی۔ دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی ساتھ تھیں۔اس وقت حضرت عائشہ کے پاس کھانے کے لئے ایک کھجور تھی، وہی اس غریب عورت کو دے دی۔ اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں لڑکیوں میں تقسیم کر دیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے یہ قصہ سنایا۔انہوں نے ارشاد فرمایا کہ خدا جس کو اولاد کی محبت دے اور وہ ان کا حق بجا لائے تو وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔
ان والدین کی تعریف فرماتے تھے جو اپنی اولاد بالخصوص بچیوں کے لئے اور انہیں آرام پہنچانے کی خواہش کرتے ہیں۔آپﷺ بچیوں کی تعلیم و تربیت کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ ایسے والدین کو جنت میں داخلہ کی بشارت سناتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا جب کوئی موسم کا نیا میوہ خدمت اقدس میں پیش کرتا تو حاضرین میں جو سب سے کم عمر بچہ ہوتا ہے، اس کو عنایت فرماتے۔ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے۔ایک دفعہ بچوں کو پیار کر رہے تھے، ایک یہودی نے جو موجود تھا، کہا تم بچوں کو پیار کرتے ہو، میرے دس بچے ہیں اور میں نے اب تک کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
ہجرت کے موقعے پر جب مدینہ میں آپ ﷺکا داخلہ ہوا، انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں خوشی سے دروازوں سے نکل کر گیت گا رہی تھیں۔جب آپ ﷺکا ادھر سے گزر ہوا تو فرمایا کہ اے لڑکیو! کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟ سب نے کہا ،جی ہاں یا رسول اللہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،میں بھی تم کو پیار کرتا ہوں۔رسول اللہ ﷺیتیمو ںکے سرپرست تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔خود بھی ان کی مدد کرتے ،پیار کرتے اور دوسروں سے بھی اس کی تاکید فرماتے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ اس گھر کو بہت پسند کرتا ہے جس میں یتیم بچے کی عزت کی جاتی ہے۔ جو شخص کسی تیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرے گا۔اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
ایک دفعہ ایک یتیم بچہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور عرض کی حضور پاکﷺ میرے ماں باپ کے مرنے کے بعد ایک شخص جس کا نام ابو جہل ہے، نے میرے مال پر قبضہ کر لیا ہے،اور مجھے کچھ بھی نہیں دیا ہے۔اب میں بدن ڈھاپنے کے لئے کپڑوں کا محتاج ہوں۔آپ یتیم بچے کی بات سن کر اسی وقت کھڑے ہوئے اور بچے کا ہاتھ پکڑ کر سیدھے ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے بڑے رعب اور دبدبے سے فرمایا، بچے کا حق اس کو دے دو و۔ ابو جہل پر اتنا رعب طاری ہوا کہ وہ کانپ گیا اور اسی وقت یتیم بچے کا مال لاکر دے دیا۔
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ اپنے دولت خانہ تشریف لے گئے۔میں آپﷺ کے ساتھ ہو لیا۔راستہ میں اور بچے ملے۔ آپﷺ نے سب کے رخساروں پر دست شفقت پھیرا اور میرے رخساروں پر بھی پھیرا۔ میں نے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسی پائی گویا آپ کا ہاتھ جیسے عطر بیچنے والے عطار کے صندوقچہ سے نکلا ہے۔
یہ محبت اور شفقت مسلمان بچوں تک محدود نہ تھی بلکہ مشرکین کے بچوں کو بھی اسی طرح پیار کرتے تھے۔ایک دفعہ ایک غزوہ میں چند بچے لڑنے والوں کی جھپٹ میں آ کر مارے گئے۔ آپ کو خبر ملی تو آپ بہت آزردہ ہوئے۔ ایک صاحب نے کہا ،یا رسول اللہﷺ وہ مشرکین کے بچے تھے۔آپﷺ نے فرمایا، مشرکین کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔ہر جان خدائی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔
عورتوں پر شفقت
پرانے زمانے میں ہمارے رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے عورتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ان پر بہت احسان فرمایا۔ ان کو عزت دی اور بتایا کہ عورتیں بہت عزت اور ہمدردی کے لائق ہیں۔ عورتوں کی حق رسی کی۔عزت اور تربیت کے لحاظ سے ان کو مردوں کے برابر جگہ دی۔آپ کے واقعات زندگی میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ مستورات کے ساتھ ان کا طریقہ اور رویہ بہت ہمدردی کا تھا اور ان کی خاطر داری کا خیال رکھتے تھے۔
رسول خداﷺ ایک مرتبہ بازار تشریف لے جارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آٹھ درہم تھے۔درہم ایک قدیم رومی سکہ تھا۔جو اس وقت عرب میں چلتا تھا۔آپﷺ نے ایک عورت کو رستے میں روتے دیکھا تو دریافت فرمایا،”تم کیوں رو رہی ہو؟“وہ بولی، گھر والوں نے درہم دے کر کچھ خریدنے بھیجا تھا ،وہ مجھ سے گم ہوگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درہم اس کو دے دیے اور چھ درہم لے کر بازار تشریف لے گئے ۔آپ نے ایک قمیض خریدی اور واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے مسلمان کو دیکھا جو ننگا تھا اور کہہ رہا تھا، مجھے جو کپڑے پہنائے گا ۔ خدا اسے جنت کے کپڑے پہنائے گا۔آنحضرتﷺ نے اپنی قمیض اسے پہنا دی۔پھر بازار تشریف لے گئے ۔دو درہم میں پھر ایک قمیض خریدی، اسے پہنا اور واپس تشریف لائے ۔ واپسی پر وہ عورت پھر روتی ہوئی ملی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اب کیا بات ہے؟وہ بولی یا رسول اللہ گھر سے نکلے ہوئے دیر ہوگئی ہے، ڈر لگتا ہے کہ کہیں گھر والے سزا نہ دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،گھر واپس جاؤ،وہ واپس چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے ہمراہ ہولیے۔ راستہ میں بعض انصار کے گھر آئے۔انصار مدینہ کے رہنے والے ان مسلمانوں کو کہتے ہیں جنہوں نے مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو بھائی بنا لیا تھا۔انصار کے معنی مددگار کے ہیں۔بوڑھی عورت کے مالک کے گھر پہنچے۔ مرد باہر گئے ہوئے تھے۔عورتیں گھر پر موجود تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا،اے بیبیو! تم پر خدا کی سلامتی اور رحمت ہو۔تمہاری اس باندی کو دیر ہو گئی ہے۔یہ ڈر رہی ہے کہ سزا نہ دی جائے۔اس کی غلطی مجھے بخش دو۔وہ کہنے لگیں یا رسول اللہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئی ہے ۔ہم اسے آزاد کرتے ہیں۔واپس ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،یہ آٹھ درہم کتنے برکت والے تھے ۔ان کی وجہ سے ایک ڈرنے والے کو امن ملا۔دو آدمیوں کا تن ڈھانکا گیا۔ایک غلام عورت آزاد ہوئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں چونکہ ہر وقت مردوں کا ہجوم رہتا تھا ۔عورتوں کو وعظ اور نصیحت سننے اور مسائل دریافت کرنے کا موقع نہ ملتا تھا۔مستورات نے درخواست کی کہ مردوں سے ہم عہدہ برا نہیں ہو سکتیں۔اس لئے ہمارے لئے ایک دن خاص مقرر کیا جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور ان کے لیے دربار کا ایک خاص دن مقرر کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا اور نہ اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے بدلہ لیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں پر ہی مہربانی نہیں فرماتے تھے بلکہ پرندوں اور حیوانوں پر بھی اسی قدر مہربان تھے۔
جانوروں پر رحم
ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مسلمان ساتھیوں کی ہمراہ، جنہیں صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ۔ کہیں باہر تشریف لے جارہے تھے۔ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک گھونسلے میں انڈے یا دو بچے دیکھے، انہیں اٹھا لیا۔چڑیا بے چین ہوکر چوں چوں کرتی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سروں پر اڑنے لگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا۔”انڈے یا بچے وہیں گھونسلے میں رکھ آؤ۔“
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک واقعہ سنایا کہ ایک عورت کو میں نے دوزخ میں دیکھا۔پوچھا اس کو یہ سزا کیوں مل رہی ہے۔تو جواب ملا۔اس نے اپنی بلی کو رسی سے باندھ دیا تھا اور اسے کھانے کو نہ دیتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تھکے ماندے جانور پر سوار نہ ہوتے بلکہ اس کے ساتھ پیدل چلتے۔ایک دفعہ ایک گدھاراستہ میں نظر آیا۔جس کا چہرہ داغا گیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس کا چہرہ داغا ہے۔اس پر خدا کی لعنت ہے۔علالت یا کسی دیگر ضرورت کے باعث اونٹوں اور بکریوں کو داغنا پڑتا تھا تو ہدایت کی کہ ایسے اعضاءکو داغا جائے جو زیادہ نازک نہ ہو ں۔
ایک بار راستہ میں ایک اونٹ نظر سے گزرا جس کا پیٹ اور پیٹھ بھوک کی شدت سے ایک ہوگئے تھے۔فرمایا اس بے زبان کے متعلق خدا سے ڈرو۔
ایک دفعہ آپﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ایک بھوکا اونٹ نظر پڑا۔آپﷺ کو دیکھ کر بلبلایا۔آپ ﷺنے شفقت سے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پھر لوگوں سے اس کے مالک کا نام پوچھا۔ معلوم ہوا ایک انصار ی کا ہے۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو اس چوپائے کے بارے میں ،جس کا اللہ نے تجھے مالک بنایا ہے ،خدا سے نہیں ڈرتا۔اس نے میرے پاس شکایت کی ہے، تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور تکلیف دیتا ہے ۔چنانچہ اس نے آئندہ اس کا خاص خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔
آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جانوروں کو پیٹ بھر کر کھانا دو اور ان پر زیادہ بوجھ مت لا دو۔
بے جانوں پر رحم کی نگاہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانداروں پر ہی رحم نہیں فرماتے تھے بلکہ بے جانوں کو بھی رحم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔آپﷺ بارش کےلئے دعا مانگتے تھے تو یوں فرماتے۔
”اے اللہ پانی پلا۔ بندوں کو،بستیوں کو اور چوپایوں کو۔“
”اے اللہ پھیلا دے اپنی رحمت اور زندگی بخش اپنی مردہ بستی کو۔“
دیکھا آپ نے، ہمارے پیارے رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے در و دیوار کے لئے بھی دعا مانگتے تھے۔
غریبوں کے ساتھ محبت اور شفقت
ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ بن ابی وقاص کے مزاج میں کسی قدر غرور تھا۔وہ اپنے آپ کو غریبوں سے بالاتر سمجھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف خطاب کر کے فرمایا کہ تم کو جو روزی اور نصرت میسر آتی ہے وہ ان غریبوں ہی کی بدولت آتی ہے۔ان کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید سے فرمایا،”میں نے جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ زیادہ تر غریب اور مفلس لوگ ہی اس میں داخل ہیں۔“
عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مسجد نبوی میں بیٹھا تھا اور غریب مہاجر حلقہ باندھے ایک طرف بیٹھے تھے۔اس اثناءمیں آنحضرت شریف لے آئے اور ان کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے۔یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔آنحضرت نے فرمایا ،تو فقراءمہاجرین کو بشارت ہو کہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ یہ سن کر ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور مجھے حسرت ہوئی کہ کاش میں بھی انہیں میں سے ہوتا۔
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو غریبوں اور مسکینوں سے بہت محبت تھی۔آپ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔ان سے ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان کو غریبی محسوس نہ ہوتی تھی۔آپﷺ ان کی مدد کرتے اور دلجوئی کرتے۔اگر کوئی غریب قرض ادا نہ کر سکتا تو آپﷺ اس کا قرض ادا کر دیتے۔کوئی بھوکا ہوتا تو اس کو کھانا کھلا دیتے۔کسی کو روپیہ،پیسا یا اناج کی ضرورت ہوتی تو اس کی ضرورت پوری کر دیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کوئی غریب قرض چھوڑ کر مر جائے تو مجھے اطلاع دی جائے۔ میں اس کا قرض ادا کروں گا۔اور وہ جو سامان وجائیداد چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دعا مانگتے تھے کہ خداوند مجھے مسکین زندہ رکھ۔مسکین اٹھا اور مسکینوں کے ساتھ میرا حشر کر۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے دریافت کیا کہ آپﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ دولت مندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔اور فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد نہ پھیرو۔خواہ چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دو۔اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! غریبوں کو اپنے سے نزدیک کروں تو خدا بھی تم کو اپنے سے نزدیک کرے گا۔
کافروں سے حسن سلوک
ایک کافر، قبیلہ اہل یمامہ کا سردار جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا۔نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا۔ جب رسول خداﷺ نے مسلمانوں کا ایک فوجی دستہ نجد کی طرف روانہ کیا تو ثمامہ گرفتار ہو گیا اور اس کو مدینہ لاکر مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔رسول خداﷺ نے اس سے پوچھا کہ ثمامہ اب کیا چاہتے ہو۔ثمامہ نے کہا، اگر مجھے قتل کرو گے تو میں ایک مجرم ہوں اگر احسان کرو گے تو شکر گزار ہوں۔رسول اللہ نے معاف کردیا۔ اس نیکی اور مہربانی کے باعث ثمامہ نے غسل کیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام لے آیا۔
جب رسول اللہﷺ غزوہ خیبرسے محرم۷ ہجری میں واپس ہوئے تو ایک یہودی عورت نے بکری کا گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا، جسے آپﷺ نے اور چند اصحاب نے کھایا۔یہ گوشت زہر آلود تھا۔اس کا علم ہوگیا اور یہودی عورت نے اعتراف جرم کرلیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی عورت کو معاف کردیا۔یہ تھا آپﷺ کا احسان اور مہربانی۔زہر آلود گوشت کھانے سے ایک صحابی انتقال کر گئے تو رسول اللہﷺ نے قصاص میں یہودی عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابو ہریرہ پکے مسلمان ،رسول اللہﷺ کے خادم تھے۔انہوں نے بتایا کہ میری ماں مشرکہ تھی اور میں اس کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا۔اس نے ایک دن رسول اللہﷺ کی شان میں ناجائز باتیں سنائیں۔میں روتا ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ بیان کیا اور انہوں نے یوں دعا فرمائی کہ، ایک خدا !ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔میں خوش ہو کر واپس گھر آیا۔ دروازہ بند تھا۔میری ماں نے میرے قدموں کی آواز سن کر کہا۔ ابو ہریرہ ٹھہر جاؤ۔میں نے پانی کی آواز سنی ۔ماں نے غسل کر کے دروازہ کھولا اور کلمہ شہادت پڑھ کر فوراًمسلمان ہو گئی۔یہ رسول خدا کی دعا اور مہربانی کا اثر تھا۔
عکرمہ بن ابو جہل اپنے باپ کی طرح رسول خدا کا سخت دشمن تھا ۔فتح مکہ کے دن عکرمہ قتل کے ڈر سے بھاگ کر یمن چلا گیا تھا۔ اس کی بیوی مکہ میں رہی اور مسلمان ہو گئی۔وہ عکرمہ کے پاس یمن پہنچی اور رسول خدا کے اخلاق حمیدہ بیان کیے ۔عکرمہ پر اس کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ وہ یمن سے مکہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا اور کھڑے ہو گئے اور جلدی سے خوش آمدید کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک گرگئی۔اور فرمایا کہ ہجرت کرنے والے کا آنا مبارک ہو ۔یہ تھا آپ کا احسان۔
جب رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر کیا تو راستہ میں چند بیوقوف کافروں نے تکلیف دی۔ ایک کافر ہبار بن اسود قریشی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کواونٹ سے گرا دیا۔پتھر پر گریں۔ان کے سخت چوٹ آئی اور اسی زخم کے باعث شہید ہوگئیں۔فتح مکہ کے دن ہبار مذکورہ واجب القتل اشتہاری ملزموں میں سے تھا۔وہ مکہ سے بھاگ کر ایران جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گیا۔اورعرض کی ،یا رسول اللہ! میں آپﷺ کے ہاں سے بھاگ کر شہروں میں پھرتا رہا ہوں۔میرا ارادہ ایران جانے کا تھا لیکن آپ ﷺکی مہربانی،صلہ رحمی اور معافی اور کرم یاد آئے تو واپس آیا ہوں۔میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے معاف کر دیجیے۔یہ سن کر رسول اللہ ﷺنے فرمایا، میں نے تجھے معاف کر دیا۔ سبحان اللہ کیسی مہربانی اور رحم تھا۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم دل تھے۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔اس لیے آپﷺ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر رحم دل تھے۔آپﷺ دوست، دشمن، بوڑھے، بچے ،مرد، عورت، جانور، کافر اور مسلمان ہر ایک پر رحم کرتے تھے۔کسی کو مصیبت میں دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آتا تھا۔آپﷺ اس کا دکھ دور کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ آپﷺ سے پہلے عرب اوردنیا کی دوسری قومیں لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں سے بہت برا سلوک کرتی تھیں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ قیدیوں سے اچھا سلوک کیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحم صرف عرب والوں کیلئے ہی نہیں تھا۔بلکہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لئے تھا۔آخری حج کے موقع پر جسے حجة الوداع کہتے ہیں، میدان عرفات میں خطبہ دیا۔عرفات مکہ سے تیرہ میل پر ایک ریتیلا میدان ہے اور اس کے ساتھ ایک پہاڑ ہے،جس کو جبل رحمت،یعنی رحمت کا پہاڑ کہتے ہیں۔اس میدان میں حج والے دن حاجیوں کو سورج نکلنے کے بعد پہنچنا،پھر وہاں ٹھہرنا اور سورج ڈوبنے کے فوراً بعد یا ذرا پہلے میدان کو چھوڑ دینا ضروری ہے۔اس قیام عرفات کو حج کہتے ہیں۔ اس میدان کے خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی،فرمایا۔
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے سب انسانوں کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے، اس لیے نہ کسی عربی کو کسی عجمی (غیر عرب) پر کوئی بڑائی حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر،نہ کالا گورے سے بہتر اور نہ گورا کالے سے۔تم میں سے زیادہ عزت اور بڑائی والا وہ ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔
لوگو! دور جاہلیت (اسلام آنے سے پہلے کا زمانہ ) کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا(یعنی تمام بری رسوم جو اسلام سے پہلے تھیں بند کر دی گئی ہیں۔)
لوگو!جہالت کے زمانے کے تمام قتلوں کے بدلے اور سودی روپیہ ختم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے قتل کا بدلہ اور اپنے خاندان کا سودی روپیہ معاف کرتا ہوں۔
لوگو!تمہارے خون و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے بالکل حرام کر دی گئیں۔
لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اپنی غلاموں کا خیال رکھو۔انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو۔
لوگو! قرض قابل ادائیگی ہے۔(یعنی ادا کرنا ضروری ہے) ادھار لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔تحفہ کا بدلہ دینا چاہیے۔جو کوئی کسی کا ضامن (ذمہ دار) بنے وہ اس نقصان کو پورا کرے۔
لوگو! دیکھو تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔عورتوں سے بہتر سلوک کرو۔کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں۔ان کے معاملے میں اللہ کے احکامات کا خیال رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا ہے۔“
آپ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح بیکسوں،غریبوں،کمزوروں،مظلوموں،انسانوں،حیوانوں،چرندوں اور پرندوں پر زندگی بھر مہربانی فرماتے رہے۔یہی نہیں بلکہ بے جانوں کو بھی رحم کی نظر سے دیکھتے رہے۔اور جب آپﷺ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت فرما گئے۔آپ نے فرمایا،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو”رحمت اللعالمین“یعنی دنیا کی رحمت کہا ہے۔اور اسی لیے وہ سب سے زیادہ مہربان انسان سمجھے جاتے ہیں۔
ایسے رحمت والے نبی کی پیروی دین اور دنیا میں کامیابی کی کنجی ہے اور آپﷺ کا بتایا ہوا راستہ یعنی دین اسلام سب سے سچا اور سیدھا راستہ ہے۔دین محمدی سیدھی سڑک ہے۔جس میں کوئی کھٹکا نہیں،اس راستے پر چلنے والا کوئی شخص اس راہ سے آج تک نہیں بھٹکا۔ اسلام کی تعلیم کا نچوڑ کلمہ طیبہ ہے۔
کلمہ طیبہ:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
نہیں ہے کوئی اللہ ،یعنی معبود مگر اللہ،اور محمد اس کے رسول ہیں۔
آنحضرت محمد ﷺ کی پاک زندگی کے خاص خاص واقعات:
۱۔پیدائش:شہر مکہ میں ۹ ربیع الاول سنہ عام الفیل بمطابق ۲۲ اپریل ۱۷۵ءبروز پیر بوقت صبح صادق۔
۲۔معراج:۲ رجب۰۱ نبوی ﷺ مطابق۰۲۶ مکہ کا واقعہ ہے۔
۳۔پہلی وحی:غار حرا میں نازل ہوئی جس کی تاریخ ۰۱۶ ہے۔
۴۔معاشرتی مقاطعہ:یعنی ملنا جلنا چھوڑدیا،محرم۷ نبوی ﷺ مطابق۷۱۶ شروع ہوا اور تین سال بعد ختم ہوا یعنی ۰۲۶ میں۔
۵۔شہر مکہ سے ہجرت:روانگی یکم محرم۱ مطابق ۶۱ جولائی ۲۲۶بروز جمعہ۔
۶۔آمد مدینہ(یثرب):۲۱ ربیع الاول مطابق ۲۲ ستمبر بروز جمعہ۔
۷۔وفات(شہر مدینہ میں):۲۱ ربیع الاول ۱۱ ہجری بروز پیر بوقت چاشت(سورج نکلنے کے بعد)مطابق ۸ یا ۹ جون ۳۲۶ئ