بچوں کے لیے سیرت النبی
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔
باب: ۱
اسلام سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں جہالت کا غلبہ
جزیرہ نمائے عرب اسلام سے پہلے
سرورِ عالم حضرت محمدمصطفےٰ ﷺکی ولادت کے وقت جزیرہ نمائے عرب کی کیفیت کیا تھی ؟ یہ موضوع بے حد دلچسپ اور معلومات افزا ہے ۔ ہماری کہانی جس خطۂ زمین سے شروع ہوتی ہے اُسے پرانے زمانے میں حجاز کہا جاتا ہے ۔ حجاز کا موجودہ نام سعودی عرب ہے ۔ یہ ملک ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ شمال میں اِسے صحرائے نجد نے گھیرا ہوا ہے ۔ جنوب میں بحرِ ہند واقع ہے ، مشرق میں بحیرۂ عرب اور مغرب میں بحیرۂ احمر واقع ہے ۔ مزید وضاحت کے لیے نقشہ دیکھئے ۔
قدیم عربوں کی دو اقسام
قدیم عرب قبائلی اور طبقاتی زندگی گزارتے تھے ۔اُن دنوں عرب میں دو اقسام کے باشندے آباد تھے:
(۱)صحرا نشین بدو
اَسی فیصد عرب بدو یعنی دیہاتوں میں رہنے والوں پر مشتمل تھے۔ ان میں متعدد خاندانی سپہ گر تھے ۔بدوؤں کی اکثریت لوٹ مار اور ڈاکا زنی میں بھی اُلجھی رہتی تھی۔
(۲)شہری عرب
شہروں میں بسنے والے عربوں کی اکثریت نسبتاً مہذب تھی۔تجارت ان کا پسندیدہ شغل تھا۔ان میں سے بعضوں کو شعر و شاعری کا شغف بھی تھا۔
تاریخ عرب کے تین مشہوردور
تاریخ عرب کے تین مشہور دو ر مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)قدیم عرب دور
یہ دور بہت پرانے وقتوں سے شروع ہو کر ۴۵۰ ء پرختم ہو جاتا ہے ۔اس دور میں کہیں بھی تہذیب و تمدن کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔
(۲)دورِجا ہلیہ
دور جاہلیہ ۴۵۰ء سے شروع ہو کر ۵۷۰ء میں ظہورِ اسلام پر ختم ہو جاتا ہے۔اس بد نام دور کی چیدہ چیدہ خاصیتیں یہ ہیں:عربوں میں متعدد نئی تبدیلیوں کا اِظہار ،تجارت اور کاروبار میں اضافہ اور نئی منڈیوں کا قیام،تجارتی میلوں ٹھیلوں کا اہتمام اور تجارتی قافلوں کا رواج وغیرہ۔قرضوں پر رقم فراہم کرنے اور سُود کا لین دین کرنے والے شہریوں کا کاروبار خوب چمکتا تھا۔دولت کی اس فراوانی کے دور میں مکہ کا نامی گرامی قریش قبیلہ اور طائف کا مشہور قبیلہ بنو ثقیف دولت و ثروت اور عزت و مرتبت میں بہت ممتاز مقام حاصل کر چکے تھے۔
اس دور کی سیاسی زندگی انتشار ،نفاق اور تصادم کی تلخیوں سے اَٹی پڑی تھی۔پرانے عربوں میں منظم ریاست یا متحد سیاسی زندگی کا تصور سرے سے غائب تھا ۔محدود اور تنگ قبائلی وفاداریوں کی وجہ سے اُن کے ہاں کسی منظم سیاسی تصور یا با ضابطہ نظامِ حیات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔اپنے مخصوص قبیلے کی اَندھا دُھند وفاداری اور تقلید کو ’’عصبیہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پُرانے عربوں کے اعصاب پر عصبیت کا بھوت ہر لحظہ سوار رہتا تھا۔
عصبیت کے حوالے سے قدیم عربوں کی ذہنی اور علمی زندگی میں مندرجہ ذیل تین باتوں کو بڑا مقام حاصل تھا:(۱) عربی زبان، فصاحت ،بلاغت ۔(۲) اپنے مخصوص قبیلے سے حددرجہ محبت ،عقیدت۔(۳) اونٹ سے متعلق جامع علم بے حد قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ گھڑ سوار ی اور تیر اندازی بلند محاسن میں شمار ہوتے تھے ۔ اس قسم کے اوصاف کسی معیاری اور معزز عرب کا ضروری خاصہ سمجھے جاتے تھے ۔ اسی وجہ سے شاعروں ، خطیبوں اور جنگجوؤں کو معاشرے میں معزز مقام حاصل تھا۔
(۱) اِخلاقی گراوٹیں
قدیم عربوں کی اخلاقی زندگی طرح طرح کی گراوٹوں کا شکار ہو چکی تھی ۔ لوٹ مار ، ظلم و تشدد ، قتل و غارت ،قصاص و اِنتقام کے خونی ہنگامے ، دروغ گوئی اور چغل خوری اُن کے پسند یدہ مشاغل کارُوپ دھار چکے تھے ۔ عورت کوکوئی مقام حاصل نہ تھا بلکہ اُس کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر تھی ۔ اِن تمام گھناؤنی برائیوں کے ساتھ ساتھ پُرانے عربوں کی اِخلاقی زندگی میں چند منفرد اوصاف بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔ قدیم عرب سخاوت ، مہمان نوازی اور بلند ہمتی میں بھی بہت مشہور تھے ۔
(۲)مذہبی زندگی کی قباحتیں
پُرانے عربوں کی مذہبی زندگی طرح طرح کی کج رویوں سے داغ دار تھی ۔ وہ پتھروں ، درختوں ، دریاؤں ، چاند ، سورج اور کئی دوسرے مظاہر قدرت کی پرستش کرتے تھے ، مگر اُن کا محبوب ترین مذہبی مشغلہ بت پرستی تھا۔ وہ اپنے بتوں پر جان دیتے تھے ۔ اُن کے زیادہ محترم اور مقبول بت یہ تھے :(۱) ہُبل (۲) عُزٰی (۳) لات اور (۴) منات ۔ اُس زمانے میں جزیرہ نمائے عرب اور اُس کے گرد و نواح کے خطوں میں اِن مذاہب کو بھی خاصی مقبولیت حاصل تھی :(۱) عیسائیت (۲) یہودیت (۳) زرد شتیت (۴) بدھ مت (۵) ہندو مت ، وغیرہ ۔
بالائی سیاسی سطوح پر اُس کی یہ دو نامور طاقتیں غالب سیاسی اور عسکری قوتوں کے طور پر ارد گرد کے خطوں میں چھائی ہوئی تھیں :(۱) ایرانی سلطنت اور (۲) بازنطینی (رومی) سلطنت ۔
(۳) ظہورِ اسلام کادور
آنحضورﷺ کی ولادت مبارکہ اور جزیرہ نمائے عرب میں ظہور اسلام سے زندگی بالکل نئی کروٹ بدلنے لگی ۔ اسلامی تعلیمات سے معیشت و معاشرت میں عظیم تعمیری تبدیلیوں کا آغاز ہوا ۔ زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح اور ترقی کا دور دورہ ہوا ۔ اِ س طرح کا ہمہ گیر انقلاب انسانی تاریخ میں اِس سے پہلے کہیں رونما نہ ہوا تھا۔ سارا عرب اسلام کی روشنی سے منور ہو چکا تو گر دو نواح کے خطے بھی اسلام کی بر کتوں اور نعمتوں سے فیض یاب ہونے لگے ۔ کچھ عرصہ بعد جب مسلمانوں نے ہسپانیہ فتح کر لیا تو متعدد مزید مغربی ممالک بھی اسلامی تہذیب و تمدن سے منور ہونے لگے ۔ اِ س طرح دنیا کے کئی علاقوں میں اسلامی طرزِ فکر و عمل کا غلغلہ بُلند ہوا ، جس سے ساری کائنات کی ہےئت بدلنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۲
وِلادت مبارک اور ابتدائی زندگی
حضرت محمدﷺ کی مبارک تاریخ وِلادت ہے :۱۲ ربیع الاول ، عام الفیل کا پچاسواں دن ۔ عیسوی کیلنڈر کے مطابق مبارک تاریخ ۲۲ اپریل ۵۷۱ ء بنتی ہے ۔ مصر کے ایک مشہور ماہر فلکیات محمود پاشا فلکی نے حساب کتاب کے بعد تاریخ ولادت ۹ ربیع الاول یا ۲۰ اپریل ۵۷۲ء بتائی ۔ تاہم آنحضورﷺ کے یوم ولادت کی تقریبات ۱۲ ربیع الاول ہی کو دنیا بھر میں منعقد ہوتی ہیں ۔ آنحضورﷺحضرت اسماعیل ؑ کی مشہور و مبارک نسل سے تھے ۔ حضرت اسماعیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے سب سے بڑے بیٹے تھے ۔
نام محمدﷺ کیوں رکھاگیا ؟
آنحضورﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب قبیلہ قریش کے بڑے نام ور سردار تھے۔ اُنہوں نے ہی اپنے پیارے پوتے کا نام محمدﷺ رکھا تھا ۔ محمدﷺ عربی لفظ ہے ، جس کے معنی ہے ’’جس کی بہت تعریف کی جائے ۔ ‘‘اُن دنوں ایسا نام عام نہیں تھا اس لیے جب اس غیر مانوس نام کے بارے میں اُن سے پوچھا گیا تو حضرت عبد المطلب نے فرمایا :’’میری خواہش ہے کہ آسمان پر اللہ اور زمین پر لوگ اس نومولود کی تعریف کریں ۔‘‘
تاریخ میں حضرت محمدمصطفےٰ ﷺ کومتعدد پیارے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپﷺ کا نام احمد رکھا تھا ۔ لفظ ’’احمد ‘‘ کا مطلب ہے ’’بہت تعریف کے لائق‘‘۔ قرآن حکیم میں ان جگہو ں پر لفظ محمدچار مرتبہ آیا ہے :
(۱) سورہ آل عمران (۱۴۴:۳)
(۲) سورۃ الاحزاب (۴۰:۳۳)
(۳) سورؤ محمد (۲:۴۷)
(۴) سورۂ فاتحہ (۲۹:۴۸)
لفظ ’’احمد صرف ایک بار سورۃ الصّف کی آیت نمبر ۶ میں آیا ہے ۔
بعد از وفاتِ والد پیدا ہونے والے ہونہار
حضرت محمدﷺ اپنے والد کی وفات کے بعد پیدا ہوئے۔آپ ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ قریش کے بڑے اچھے تاجرتھے ۔ آپ ﷺ کی والدہ محترمہ اسی قبیلے کی بڑی نیک خاتون تھیں ۔
دونوں کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی حضرت عبداللہؓ کو ایک تجارتی کاروان کے ہمراہ ملک سے باہر جانا پڑا۔واپسی پر بیمار ہوئے اور مدینہ میں انتقال فرماگئے۔آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔
حضرت آمنہؓ کو خاوند کی بے وقت و فات کا بہت صدمہ ہوا۔ننھے محمدﷺ مرحوم والد کی وفات کے تین ماہ بعد پیدا ہوئے۔
صحرا کے رضاعی گھر میں اِبتدائی پرورش
اُس زمانے میں عرب کے اعلیٰ گھر انوں میں یہ دستور عام تھا کہ والدین اپنے نومولود بچوں کی ابتدائی پرورش کے لیے اُنہیں صحراؤں کی رہائشی اہلِ ہنر دایوں کے گھروں میں بھجوادیا کرتے تھے۔ابتدائی دیکھ بھال اور پرورش مکمل کرنے کے بعد یہ دایہ عورتیں ان بچوں کو اُن کے والدین کے پاس لوٹا دیتیں تھیں۔والدین انہیں اس خدمت کے عوض معقول اجرت ادا کر دیتے تھے۔اس قسم کی مروّجہ ابتدائی تربیت کے تین اہم مقاصد یہ تھے:
ا وّل :نو مولود بچوں کی زندگی کے اوّلین ایام صحرا کے کھلے اور مفرح ماحول میں بسر کرنے کا موقع فراہم کرنا۔
دوم: اُنہیں عربی زبان کے صحیح تلفظ اور استعمال سے روشناس کرانا ،جس کا رواج صحرائی عربوں میں عام تھا۔
سوم:عربی تہذیب و تمدن سے ابتدائی تعارف کرانا،کیونکہ عرب کے آزاد صحرائی ماحول میں اس کی بہترین عکاسی ہوتی تھی۔
چنانچہ اسی رواج کی وجہ سے آنحضورﷺ کو ولادت کے چند دن بعد ہی قبیلہ ہوازن کے ایک مشہور صحرائی گھرانے میں بھیج دیا گیا ۔ اس گھرانے کی مشہور ماہرِ فن دایہ کا نام بی بی حلیمہ سعدیہؓ تھا جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد کے ایک نامی بدو قبیلے سے تھا ۔
آنحضورﷺ پانچ برس کی عمر تک اِسی خوش نصیب گھرانے میں پر ورش پاتے رہے ۔ اِ سی دور میں ’’شق الصدر ‘‘کا مشہور واقعہ بھی رونما ہوا ، جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات ۹۴:(۱ تا ۸)میں ہوا ۔
مدینہ کی جانب ماں بیٹے کا سفر
جب آنحضورﷺ کی ابتدائی صحرائی تربیت مکمل ہو گئی تو بی بی حلیمہ سعدیہؓ نے اُنہیں مکہ میں اُن کی والدہ کے سپرد کر دیا ۔ ایک روز حضرت آمنہؓ نے اپنے پیارے بیٹے کے ہمراہ مدینہ کی سیر کا پرو گرام بنایا ، جہا ں اُن کے آباء و اجداد اور عزیز و اقارب رہتے تھے ۔ والدہ کے ذہن میں اس سفر کے چار مقاصد تھے :
(۱) اپنے مر حوم شوہر کی قبر کی زیارت کرنا ۔
(۲) مدینہ میں چند روز قیام کے دوران اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے میل ملاقات ۔
(۳) آنحضورﷺ کو اپنے ما موؤں ، پھوپھیوں اور ااُن کی آل اولاد سے متعارف کرانا۔
(۴) اپنے ہمراہ آنحضورﷺ کو تفریح کے کچھ سامان فراہم کرنا ، وغیرہ ۔
چنانچہ حضرت آمنہؓ آپﷺ کے ہمراہ مدینہ جانے والے ایک تجارتی کارواں میں شامل ہو گئیں ۔ اُن کی خاندانی کنیز ، اُم ایمن بھی اُن کے ہمراہ تھیں ۔ کارواں مدینہ کی جانب رواں دواں ہوا ۔ چند دن بعد یہ لوگ مدینہ میں مختصر قیام کے دوران آنحضورﷺ رشتہ داروں سے میل جول اور تفریحوں میں شمولیت سے بہت لطف اندوز ہوتے رہے ۔ ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل کود سے آپﷺ بہت محظوظ ہوئے ۔ اسی دور میں آپ ﷺ نے پیرا کی بھی سیکھی ۔ مدینہ سے باہر کچھ تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ بھی واقع ہیں ۔ آپ ﷺ ان کے معائنہ سے بھی بہت خوش ہوئے ۔
ٍسفر واپسی کے دوران والدہ ماجدہ کا انتقال
مدینہ میں میل ملاقات اور تفریحوں سے ماں بیٹا کافی محظوظ ہوئے ۔ پھر والدہ ماجدہ نے مکہ واپس لوٹنے کا پروگرام بنا لیا ۔ بد قسمتی سے ابھی یہ لوگ مدینہ سے ذرا دور ایک گاؤں اَبوآء تک ہی پہنچے تھے کہ حضرت آمنہؓ شدید بیمار ہو گئیں ۔ وہ بیماری سے صحت یاب نہ ہوسکیں اور آخر کار انتقال فرماگئیں ۔ اُ نہیں ابوآء گاؤں ہی میں دفن کر دیا گیا ۔ ننھے محمدﷺ پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ وہ بے حد افسردہ اور بہت زیادہ سہمے نظر آنے لگے ۔
حضرت آمنہؓ بہت متمدن اور مہذب خاتون تھیں ۔ آپ شعر بھی کہتی تھیں ۔ اپنی ایک نظم میں اُنہوں نے کہا تھا :
کس مقدس ہستی کو جنم میں نے دیا ہے!
ٍٍاک روز تو آخر میں نے بھی مرنا ہے ضرور
پر یاد میری زندہ و تابندہ رہے گی
میں نیکی و خیر چھوڑے جاتی ہوں پیچھے
کس مقدس ہستی کو جنم میں نے دیا ہے !
پیاری والدہ کے اچانک انتقال نے ایک اچھے بھلے تفریحی سفر کو ایک بے انتہا غم گین المیے میں بدل دیا ۔اُم ایمن نے معصوم بچے کی بہت تسلی و تشفی کی اور اُنہیں صحیح وسلامت واپس مکہ لے آئیں ۔ گھر پہنچتے ہی وہ سیدھی سردار عبد المطلب کے ہاں پہنچیں اور اُنہیں اس سانحہ سے آگاہ کیا ۔ یہ جانکاہ خبر سنتے ہی دادا پر غم وحسرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ اس سانحہ کے بہت عرصہ بعد تک بھی وہ یاس و حسرت کی گہرائیوں میں ہچکولے کھاتے رہے ۔ اب اُن کا زیادہ وقت اپنے یتیم پوتے کی دیکھ بھال میں صرف ہونے لگا ۔ سردار عبدا لمطلب ننھے محمدﷺ کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے تھے ۔ وہ سارا وقت آنحضورﷺ کی دل جوئی اور پرورش میں مصروف رہتے تھے ۔
داداجان کی غم آلود وفات
ابھی والدہ ماجدہ کے انتقال کو بمشکل دو سال گزر ے تھے کہ ننھے محمدﷺ پر غم اور مصیبت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ آپ ﷺ کے پیارے داداجان بھی انتقال کر گئے تھے ۔ معصوم محمدﷺ پے در پے صدموں پر انتہائی پریشان اور بے کس سے نظر آتے تھے ۔
سردار عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کے آرام و آسائش کاخاص خیال رکھتے تھے ۔ وہ آنحضورﷺ پر مسلسل شفقت و محبت نچھاور کرتے رہتے تھے ۔ خانہ کعبہ کے باہر سردار عبد المطلب کے لیے ایک خاص مسند بچھا کرتی تھی ۔ وہ انتہائی پیار اور احترام سے آنحضورﷺ کو اپنے پہلو میں بٹھا یا کرتے تھے ۔ دادا کی ان شفقتوں سے والدہ کے انتقال کے زخم کافی حد تک مندمل ہو رہے تھے کہ داداجان کی بے وقت موت سے آپﷺ کے زخم ایک بارپھر ہرے ہو گئے ۔ جب آپﷺ دادا کے جنازہ میں شامل ہوئے تو آپﷺ کی معصوم آنکھوں سے آنسوؤ ں کی مسلسل لڑیاں تھمنے کا نام نہ لیتی تھیں ۔
آنحضورﷺ ابو طالب کی سر پرستی میں
سردار عبد المطلب کے انتقال کے بعد اس عظیم ہستی کی دیکھ بھال کی سعادت کا فریضہ آپﷺ کی چچا حضرت ابو طالب کے سپرد ہوا ۔ حضرت ابو طالب کا کنبہ خاصا بڑا تھا مگر بھتیجے محمدﷺ کو اُن کے گھر میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا ۔ ہر چھوٹا بڑا آپ ﷺ سے انتہائی شفقت اور احترام سے پیش آتااور یوں آنحضورﷺ اپنے محترم چچا کے ہاں ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ ان دنوں آپﷺ کبھی کبھی اپنے چچا کی بھیڑ بکریاں بھی چرایا کرتے تھے ۔ بلکہ بسا اوقات آپﷺ اُجرت پر دوسروں کے لیے بکریاں چرانے کاکام بھی ذمے لے لیا کرتے تھے ۔چرواہی کے انہی مشاغل کے دوران آپﷺ کو مکہ کی نواحی پہاڑیوں میں قدرت کے مشاہدوں اور غورو فکر کے متعدد مواقع بھی نصیب ہوتے رہے ۔
یہاں ایک اہم بات کا ذکر بہت ضروری ہے ۔تقریباً تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے وقتوں میں گلہ بانی کی ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے گلہ بانی کو تمام انبیاء کے نصاب تربیت میں شامل کر دیا ہو۔ایک اچھا گلہ بان اپنی بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے فرائض بخوبی انجام دیتا ہے۔وہ اُن کی خوراک کا اہتمام بھی کرتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی خاص بندے کو نبوت کے لیے منتخب فرماتے ہیں تو اُس سے انسانوں کے بارے میں بھی گلہ بانی سے ملتے جلتے فرائض ادا کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
شام کا تجارتی سفر اور راہب بحیرا سے ملاقات
چچا ابو طالب کپڑے اور عطریات کے تاجر تھے۔وہ تجارت کے سلسلہ میں بیرون ملک بھی جایا کرتے تھے۔آنحضور ﷺ ابھی بمشکل بارہ برس کے تھے کہ اُنہیں چچا کے ساتھ ایک تجارتی سفر کے سلسلہ میں شام جانے کا اتفاق ہوا۔راستے میں اُن کا تجارتی قافلہ ایک گرجے کے باہر رُکا۔گرجے کا نگران ایک عیسائی راہب بحیرا تھا۔بحیرا نے اپنی مقدس کتابوں میں بیان کی ہوئی انبیا ء کی تمام نشانیوں کو آنحضور ﷺ میں صاف موجود پایا۔اُس نے پیش گوئی کی کہ حضرت عیسیٰ کے بعد اَب آنحضور ﷺ ہی کو نبوت عطا ہو گی ۔راہب بحیرا نے جب آپ ﷺسے تھوڑی بہت بحث و تمحیص کی تو اُسے آپ کی آئندہ نبوت پر یقین کامل ہو گیا۔
راہب بحیرا کو ڈر تھا کہ شام کے یہودی بھی آنحضور ﷺ میں نبوت کی تمام نمایاں نشانیوں کو بھانپ لیں گے اور آپ ﷺ کے پیچھے پڑجائیں گے۔اس خدشے کے پیش نظر اُس نے حضرت ابوطالب کو مشورہ دیا کہ وہ شام کی جانب مزید آگے نہ جائیں اور اپنے بھتیجے کو ساتھ لے کر واپس مکہ لوٹ جائیں ۔چنانچہ ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ابوطالب نے راہب بحیرا کا مشورہ قبول کر لیا اور آنحضورﷺ سمیت مکہ واپس لوٹ آئے۔
جواں سال محمد ﷺ کے بے مثال اخلاق و اطوار
یہ تھے نوجوان محمد ﷺ کے ابتدائی شب وروز ۔کمر عمری ہی میں آپ ﷺ کے یہ منفرد محسن ہر کسی کو بے حد متاثر کرتے تھے:
(۱)وقار اور وجاہت کی واضح جھلکیاں۔
(۲)مظاہر قدرت کے مشاہدے اور اُن پر سنجیدہ غور وخوض اور
(۳) زندگی اور مذہب کے بارے میں مختلف عالموں سے خیال انگیز مباحثوں اور مذاکروں میں آپ ﷺ کے قابلِ قدر تبصرے ،وغیرہ۔
روز مرّہ عمومی زندگی میںآپﷺ کا انداز بہت متاثر کُن تھا۔ اس کم عمری ہی میں اہل مکہ آپﷺ کے بلند محاسن اور نیک خصائل سے بخوبی واقف ہو چکے تھے ۔ آپﷺ روزِ اوّل ہی سے بے حد راست گوواقع ہوئے تھے ۔ لوگ آپﷺ کو’’صادق‘‘(راست گو) کہہ کر پکار تے تھے ۔ آپ ﷺ کی دیانت داری کے گھر گھر چرچے تھے۔ آپﷺ کا دوسرا مشہور عوامی خطاب ’’اَمین ‘‘(امانت دار ) تھا۔
یہ تھے حضرت محمدﷺ اور یہ تھا اُن کے متعلق ہر خاص و عام کا بے ساختہ تصور ۔ آپﷺ کے محاسن اورخصائل نے ابتدائی عمر ہی میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیا تھا ۔ لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو چکا تھا کہ آپﷺ بالکل مختلف اور منفرد قسم کی کوئی عظیم ہستی ہیں ۔ غرضیکہ آپﷺ کی بلند و بالا شخصیت اور کردار شروع ہی سے تقویٰ و طہارت اور سنجیدگی و متانت سے ہر لحظہ مہکتے نظر آتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۳
گناہ گاروں کی خوں ریز جنگ
آنحضورﷺ کوئی ۱۴ ، ۱۵ برس کے تھے کہ گناہ گاروں کی جنگ (حربِ الفجار ) چھڑ پڑی ۔ اس میں ایک فریق بنی کنانہ تھے، جن میں قریش بھی شامل تھے ۔ دوسری طرف قیس عیلان تھے جن میں ثقیف اور ہوازن کے قبیلے شامل تھے۔ جنگ ۵۸۰ ء اور ۵۹۰ ء کے درمیان دس سال جاری رہی ۔ وقفے وقفے کے بعد کل چار جنگیں لڑی گئیں ۔ ان سب جنگوں کو’’گناہ گاروں کی جنگ ‘‘ (حرب الفجار) اس لیے کہاجاتا ہے کہ یہ اُن مقدس مہینوں میں لڑی گئیں جس میں عربوں کے قدیم رسم و رواج کے مطابق تنازع و تصادم اور قتل و غارت ممنوع تھا۔ اسی لیے قریش کا خیال تھا کہ جنگ میں شمولیت سے ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ۔
حضرت محمدﷺ کی شمولیت اور پشیمانی
ٍ آنحضورﷺ نے ان خونین جنگوں میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا ۔ آپ ﷺ اپنے چچاؤں کے ساتھ میدان جنگ میں ضرور تشریف لے گئے مگر آپﷺ کی شمولیت محض اس حد تک محدود تھی کہ دوسری جانب سے جو تیر آتے تھے آپﷺ انہیں اُٹھا اُٹھا کر اپنے چچاؤں کو دے دیتے تھے ۔جنگ کے اختتام کے کافی عرصہ بعد ایک دفعہ حضورﷺ نے فرمایا تھا:’’یہ بہتر تھا کہ اس خفیف سی شرکت سے بھی میں نے اجتناب ہی کیا ہوتا ۔‘‘
مذاکرات امن میں شرکت پر آنحضورﷺ کا اظہارِ مسرت
خونی جنگ کا دائر ہ اور شدت وسیع ہونے لگا تو چند صلح جو قبائلی سردارجنگ بندی اور امن و صلح کی بحالی کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے۔ اُنہوں نے حلف اُٹھایا کہ وہ ظلم و ستم کا سلسلہ بند کریں گے اور کمزوروں اور مظلوموں کے متاثرہ حقوق بحال کریں گے ۔
چنانچہ امن کا ایک معاہدہ طے پا گیا، جسے ’’حلف الفضول ‘‘کہا جا تاہے ۔ا س مشہور معاہدہ امن کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں:
(۱) امن مذکرات اور معاہدے میں شریک اکثر افراد کے ناموں میں لفظ’’فضل ‘‘شامل تھا۔ اس لیے اسے حلف الفضول کہا جانے لگا۔
(۲) حلفِ الفضول کے معاہدۂ امن کی اصل غرض و غایت کمزوروں اور مظلوموں کے متاثرہ حقوق (فضول ) کی بحالی تھا۔
مذاکراتِ امن میں آنحضور ﷺ نے بھی شرکت فرمائی ۔ کافی عرصہ بعد اُن مذاکرات میں اپنی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے آپﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’اگر مجھے سرخ اونٹ بھی اس لیے پیش لیے جاتے کہ میں مذاکرات میں شریک نہ ہوں تو بھی میں نے انکار کر دیا ہوتا ۔ اسلام کے اس دور میں بھی اگر کوئی مجھے اس قسم کے امن مذاکرات کی دعوت دے تومیں اسے بخوشی قبول کروں گا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۴
آنحضورﷺ کا مبارک نکاح
شہر مکہ میں ایک زمانے میں ایک بہت مشہور خاتون رہاکرتی تھیں ۔ آپ کا نام خدیجہؓ تھا ۔ آپ مکہ کی نیک ترین اور انتہائی پر وقار خاتون تھیں ۔ آپ کے بلند اخلاق اور تعمیری کردار کی بناء پر لوگ آپ کو ’’طاہرہ ‘‘ کے خطاب سے پکارتے تھے ۔ آپ بے حد متمول خاتون تھیں ۔ آپ ایک منجھی ہوئی تاجرہ بھی تھیں ۔ آپ کی تجارت اور کاروبار بڑے زوروں پر تھے اور آپ کو بے حساب منافع ہوتاتھا ۔ اپنے وسیع کاروبار کی کامیابی کے لیے کمیشن اور شراکت پر لائق ، محنتی او ر شریف لوگوں سے آپ کا لین دین رہتا تھا ۔ آپ نے یکے بعد دیگرے دوبار شادی کی تھی ، مگر بد قسمتی سے ہر بار آپ کے خاوند کا انتقال ہوتا رہا ۔ آپ کی عمر چالیس برس تھی ۔
آنحضورﷺ کی شرافت اور دیانت کی تاثیر
ایک بار حضرت خدیجہؓ کو کاروباری سلسلہ میں آنحضورﷺ سے واسطہ پڑا ۔ اُنہوں نے شام جانے والے ایک تجارتی کاروان کی قیادت کے لیے آپ ﷺ کو منتخب کیا۔ آنحضورﷺ کی دیانت و فراست کی وجہ سے تجارتی قافلے کو کاروبار میں غیر متوقع منافع ہوا۔ سفر سے واپسی پر آنحضورﷺنے منافع کی ساری رقم اور شام میں ہونے والے تمام کاروبار ی سودوں کی تفاصیل حضر ت خدیجہؓ کے حوالے کر دیں۔ حضرت خدیجہؓ کو نہ تو اتنے زیادہ منافع کی توقع تھی اور نہ اس سے پہلے کسی نے آپ سے اس کمال دیانت داری سے لین دین کیا تھا ۔ چنانچہ آنحضورﷺ کی تاجرانہ لیاقت اور دیانت کے صلہ میں اُنہوں نے آپﷺ کو طے شدہ منافع سے کہیں زیادہ رقم پیش کی۔ مکہ میں آنحضورﷺ کے بلند اخلاق اور نیک سیرت کی شہرت سے حضرت خدیجہؓ پہلے ہی بے حد متاثر تھیں ۔ آپ ﷺ کے ساتھ پہلے تجارتی معاملے سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ۔ مکہ کے متعدد عالی نسب افراد آپ سے شادی کے خواہش مند تھے۔مگرآپ کارُجحان آنحضورﷺ ہی کی طرف تھا۔
نکاح کے بارے میں ایک جھوٹی تہمت
آنحضورﷺسے نکاح کا ارادہ کر لینے کے بعد حضرت خدیجہؓ نے بہت سنجیدہ رویہ اختیار کیا۔آپ نے اپنی ایک قریبی سہیلی نفیسہ کے ذریعے آنحضورﷺ سے ابتدائی بات چیت بھی کی ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق شامی تجارتی قافلے کی واپسی کے تین ماہ بعد آپ نے آنحضورﷺ کو اپنے ہاں مد عو کیااور مروجہ دستور کے مطابق نکاح کی تجویز پیش کی ۔ حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد حرب الفجار میں جاں بحق ہو چکے تھے ، اس لیے نکاح میں باپ کے تمام فرائض آپ کے چچا نے ادا کیے ۔ بعض لوگ ایک من گھڑت الزام گاتے ہیں کہ چونکہ حضرت خدیجہؓ کے والد کو یہ رشتہ پسندنہ تھا اس لیے آپ نے اُنہیں شراب پلا دی اور نشہ کی حالت میں رشتہ کی منظوری لے لی ۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے ۔ اوّل تو حضرت خدیجہؓ ایسا گھٹیا کام کرنے والی خاتون ہر گز نہ تھیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کے والد کا تو سالوں پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔
نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر ۴۰برس تھی اور آنحضورﷺ اپنی مبارک زندگی کے پچیس سال پورے فرما چکے تھے ۔
نکاح کی تقریبیں اور مسرتیں
آنحضورﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے نکاح کی تقاریب بڑے پر وقار طریقے سے منعقد ہوئیں ۔ خطبہ نکاح آپ ﷺکے چچا حضرت ابو طالب نے پڑھا ۔ دعوتِ ولیمہ کے لیے کئی اونٹ ذبح کیے گئے ۔ متعدد مہمان مدعو تھے ۔ ہر طرف مسرتوں کا دور دورہ تھا ۔ اس پُر مسرت تقریب میں دلہن خدیجہؓ نے اپنی کنیزوں کو دف بجانے اور رقص کرنے کے لیے بھی کہہ رکھا تھا ۔
شادی سے کافی عرصہ پہلے حضرت خدیجہؓ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ آپ کے گھر میں چانداُتر رہا ہے ۔ آپ کے بزرگ دانش ور عیسائی چچا ورقہ بن نوفل نے اس خواب کی تعبیر یوں کی تھی کہ اُن کی شادی ایک ایسی بلند و بالاشخصیت سے طے پائے گی جسے بعد میں نبوت عطا ہو گی ۔ حضرت خدیجہؓ کے اس تاریخی خواب کا پہلا حصہ تو حرف بحرف پورا ہو چکا تھا ۔ تا ہم خواب کے دوسرے حصے کے پورا ہونے میں ابھی پندرہ سال باقی تھے ۔
خاندان کے سات بچوں کی تفاصیل
یہ شادی بہت پُر مسرت اور کامیاب ثابت ہوئی ۔ آپ ﷺ کے ہاں یکے بعد دیگرے تین لڑکے پیدا ہوئے ، جن کے نام یہ رکھے گئے :(۱) حضرت قاسمؓ (۲) حضرت عبداللہؓ اور(۳) حضرت ابراہیمؓ ۔یہ تینوں اپنے ابتدائی بچپن میں قبل از نبوت دور ہی میں مکہ میں انتقال فرما گئے ۔ ایک کامیاب ازدواجی زندگی اور خوش باش گھرانے میں ان ننھے بچوں کی حسرت ناک وفات ہی واحد غم کا موجب تھی ۔ خاندان کی چار صاحب زادیوں کے نام یہ ہیں :(۱) سیدہ زینبؓ (۲) سیدہ رقیہؓ (۳) سیدہ اُ کلثوم اور (۴) سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ ۔ ان میں سے تین اوّل الذکر خواتین تو آنحضورﷺ کی زندگی ہی میں انتقال فرما گئیں ۔ حضرت فاطمہؓ بھی آنحضورﷺ کے وصال کے تھوڑاعرصہ بعد اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں ۔
پُر مسرت زندگی کی پُر مسرت یادیں
حضرت خدیجہ کبریٰؓ سے نکاح کے بعد آنحضورﷺ کو مالی مشکلات سے قدرے نجات میسر آئی ۔ حضرت خدیجہؓ بے مثال اخلاق اور بے حساب دولت کی مالک تھیں ۔ عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا عظیم شرف بھی آپ ہی کو نصیب ہوا تھا ۔ آنحضورﷺ اور آپ کی شادی اوّل سے آخر تک مسرتوں سے لبریز رہی ۔ دونوں بلند مرتبت میاں بیوی ایک دوسرے سے بے حد محبت اور احترام کرتے تھے ۔ دسویں سنہ نبوت اور ہجرت سے تین سال پہلے حضرت خدیجہؓ مکہ میں انتقال فرما گئیں ۔
اُس وقت اُن کی عمر ۶۵ برس تھی ۔ آ پ کو مکہ میں دفن کر دیا گیا۔ آنحضورﷺ حضرت خدیجہؓ کو بے حد محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ اُن کی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ اُنہیں بہت یاد کیا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے :’’جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو آپؓ نے اسلام قبول کیا ۔ جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو اُنہوں نے مجھے ’صادق ‘قرار دیا۔جب لوگوں نے مجھے مال و دولت سے محروم کرد یاتو اُنہوں نے اپنی دولت سے مجھے مستفیض کیا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۵
حجرِ اسود کا خوفناک ہنگامہ
پرانے وقتوں سے ہی خانہ کعبہ تمام مسلمانوں کی عزت و احترام کا مرکز چلاآ رہا ہے ۔مسلمانوں کے پہلے نبی اور خطۂ زمین کے پہلے انسان حضرت آدم ؑ نے سب سے پہلے اس کی تعمیر کی تھی ۔حضرت جبرائیل ؑ ایک بڑا سیاہ پتھر (حجر الاسود ) جنت سے اُٹھا لائے تھے ۔ اس خوبصورت پتھر کو بیت الحرام کی جنوب مشرقی دیوار کے کونے میں گاڑھ دیا گیا تھا ۔
بارشوں اور طوفانوں کی تباہ کاریاں
خانہ کعبہ مکہ کی مشہور وادی فاران کے سب سے زیادہ نشیبی علاقے میں واقع ہے ۔ ماضی میں بھاری بارشوں اور تیز طوفانوں سے اسے بہت نقصان پہنچتا رہا ہے ۔ حضرت نوح ؑ کے زمانے میں طوفان عظیم اسے بہا لے گیا تھا ۔ موقع پر صرف ایک چھوٹاسا ٹیلہ باقی رہ گیا تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل ؑ نے پھر احکام الٰہی کے تحت خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی تھی ۔
۶۰۵ ء میں ایک بار پھر اس مقدس عمارت کو شدید طوفانوں نے سخت نقصان پہنچایا ۔ عمارت کی خستہ حالت پر اہل مکہ بہت فکر مند ہوئے ۔ آخر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ زیادہ بوسیدہ حصوں کو منہدم کر کے ساری عمارت از سر نو تعمیر کی جائے ۔ آنحضرت ﷺ کی عمر اس وقت ۳۵ برس تھی ۔ آپ ﷺ اپنے عمدہ اخلاق اور نیک فطرت کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ تعمیرِ نو کے تمام کاموں میں آپﷺ اہلِ مکہ سے ہمیشہ بھر پور تعاون کیا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کوخصوصی طور پر کعبہ کی مر مت اور حفاظت کی فکر دامن گیر تھی ۔
مرمت کے منصوبہ میں حائل مشکلات اور خدشات
مرمت کے اس اہم منصوبہ کی تعمیل میں چند واقعات و حوادث اور خوف و خدشے حائل ہو رہے تھے ۔ ان میں چند ایک دلچسپ عقیدوں اور حادثوں کی مختصر تفاصیل یوں ہیں :
(۱)قہرِ الٰہی کا خدشہ
اہلِ مکہ کے دل و دماغ پر بُری طرح یہ خدشہ سوار تھا کہ کعبہ چونکہ اللہ کا گھر ہے اس لیے جو کوئی بھی اس کے کسی حصے کو گرائے گا ، چاہے وہ مرمت کی غرض ہی کیوں نہ ہو ، اُس پر قہر الٰہی نازل ہوگا۔ اللہ کے اس متوقع غیظ و غضب کے ڈر کی وجہ سے بھی کسی کو مرمت کے کام پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔
(۲)کعبہ کے خزانہ میں چوری
پرانے وقتوں میں کعبہ کے اندر وسط میں ایک بڑا گڑھا سا ہوتا تھا ۔ زائرین اس میں اپنے نذرانے پھینک دیا کرتے تھے ۔ کعبہ کے اوپر کوئی چھت نہ تھی ۔ چنانچہ ایک روز یہ ہوا کہ دیو یک نامی ایک چور رات کے اندھیرے میں دیوار پھلانگ کر اندر گھس گیااور گڑھے سے متعدد بیش قیمت چیزیں کھسکا کر بھاگ نکلا۔چور کی اس نازیبا حرکت سے قریش سخت بر ہم ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد چور پکڑ لیا گیا ۔ اُس سے مسروقہ اشیا بر آمد ہو گئیں تو سزا کے طور پر اس کے ہاتھ کاٹ دیے گئے ۔ آئندہ چوری کی مزید وارداتوں کے انسداد کی خاطر کعبہ کی خستہ دیواروں کی فوری مرمت اور چھت کی تعمیر کاکام ناگزیر دکھائی دینے لگا ۔
(۳) اژدہے کاخوف و دہشت
مرمت کے رُکے ہوئے کام کو فوقیت دلانے میں ایک اور دلچسپ حادثے نے بڑا اَہم کردار ادا کیا۔ اُن دنوں کعبہ کے اندر والے گڑھے میں ایک بہت بڑا اژدھا بھی رہتا تھا ۔ دن کے وقت وہ رینگتا ہوا اکثر باہر نکل آتا اور کعبے کی دیوار پر بیٹھ کر دھوپ سینکا کرتا تھا۔ تازہ ہوااور سورج کی روشنی اُسے کچھ زیادہ ہی مرغوب تھیں ۔ اگر کوئی من چلا اُس کے نزدیک پھٹک جاتاتو وہ اپنا پھن پھیلا کر خوفناک طریقے سے پھنکارنے لگتا ۔ ڈسنے کے لیے وہ بڑی پھرتی سے حملے بھی کر دیتا تھا۔ اِس وجہ سے بھی کوئی اس کے قریب پھٹکنے اور مرمت کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔
اژدھے کو عقاب لے اُڑا
اژدھے کاخوف و دہشت کعبہ کی مرمت اور تعمیر نو کے منصوبے میں بُری طرح حائل تھا۔ خوش قسمتی سے ایک دن ایک عقا ب اُڑتا ہوا اُدھر آنکلا۔ کعبہ کی دیوار پر مزے سے بیٹھے ہوئے اژدھے کو عقاب نے ایک ہی جھپٹ میں دبوچ لیااور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔اس دلچسپ واقعہ سے اہلِ مکہ کے حوصلے بلند ہو گئے ۔ اُنہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ کعبہ کی مرمت کے کام کی راہ اللہ نے ہموار کر دی ۔
اس دلچسپ واقعہ پر اُس وقت کے مشہور عرب شاعرزبیر نے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار کا آزاد ترجمہ یوں ہے :
عقاب نے مشکلیں آسان کر دیں !
حیرت ہوئی بہت یہ دیکھ کر مجھے
کیا خوب جھپٹا اژدھے پر وہ مُشکل کشا عقاب !
ڈراؤنا اژدھا کہ زائروں پہ جھپٹتا تھا بار بار
پھنکارے اُس کے تھے بے حد مہیب و خوفناک
مرمت کے اٹکے کام کو جو ہوتے تھے ہم جمع
لپکتا وہ ڈسنے کو اور بھگا دیتا تھا ہمیں
پھر اِ ک روز ہو ایوں کہ اِ ک تیز نظر عقاب
شکار کی تلاش میں آیا جو اُس طرف
جھپٹا وہ برق رفتاری سے مغرور سانپ پر
مضبوطی سے اُسے آہنی پنجوں میں تھام کر
عقاب پھر گامزن ہوا منزل کو تیز تر
ہموار کر دی راہ اُس نے مرمت کے کام کی
کیا خوب کیا کام اس پھرتیلے عقاب نے !
کھٹکا رہا نہ کوئی تو فوراً گرا دیں ہم نے خستہ دیواریں سب
اور جُت گئے ہم سب تند ہی سے تعمیر نو کے کام پر
پھر بنیادیں نئی ہم نے کھود ڈالیں جلدی جلدی سب
کام اور موسم کی گرمی تھی اُس روز اس قدر
رکھ دیے تھے اُتار کے ہم نے فالتو کپڑے اک طرف
یونانی انجینئر کی فنی نگرانی
پھر ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا ۔ اُن دنوں ایک یونانی انجینئر باقوم اپنے بحری جہاز میں جزیرہ نمائے عرب کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ جب باقوم کا جہاز جدہ کی بندرگاہ کے قریب پہنچا تو اُسے شدید طوفان نے آلیا ۔ ہچکولوں کی زد میں آکر جہاز ساحلی زمین پر چڑھ کر تباہ ہو گیا ۔
باقوم بڑا ذہین سول انجینئرتھا۔ اُسے عمارات کی تعمیر اور لکڑی کے کام کاخاصا تجربہ تھا۔ جب اہلِ مکہ کو باقوم کے جہاز کی تباہی کا پتہ چلا تو اُنہوں نے اس کے پاس اپنا ایک وفد بھیج کر تباہ شدہ جہاز کا ساراڈھانچہ خرید لیا تا کہ لکڑی کے تختے کعبہ کی تعمیر نو میں کام آسکیں ۔ اُنہوں نے باقوم کو مکہ آنے اور تعمیری کام کی نگرانی کرنے پر بھی رضا مند کرلیا۔ باقوم کی اعانت کے لیے ایک مقامی مستری کی خدمات بھی حاصل کر لی گئیں ۔ تعمیر کا باقی ماندہ سامان بھی مختلف ذرائع سے اکٹھا کر کے بڑے زور شور سے کام شروع کر دیا گیا ۔
اس تاریخی کام میں شرکت کے شرف کے لیے تمام قبیلوں کے نمائندے پہنچ چکے تھے ۔ ہر شخص اشتیاق اور انہماک سے اپنا متعین کام کرنے لگا۔ آنحضورﷺ نے بھی اس کارِ خیر میں خصوصی دلچسپی لی ۔
تصادم اور خون خرابے کی کالی گھٹائیں
سارا منصوبہ بڑے اہتمام اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ کعبہ کی دیواریں جب تین چار فٹ اوپر اُٹھ گئیں تو ایک بڑا نازک مرحلہ آپہنچا ۔ حجر اسودد کو اُٹھا کر اُسے اپنے صحیح مقام پر کون نصب کرے ؟ حجر اسود کااُٹھانا اور اُسے دیوار کعبہ میں صحیح جگہ پر رکھنا ایک بے حد منفرد اعزاز تھا۔ ہر قبیلہ خواہش مند تھاکہ یہ عظیم اعزاز کسی طرح صرف اُسے ہی میسر آجائے ۔ چنانچہ تلخ کلامی اور تصادم جذبات کا ایک بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ کوئی قبیلہ بھی اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کو ہر گز تیار نہ تھا ۔ معاملہ طول پکڑتا گیا اور حالات نازک تر ہوتے چلے گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا مکہ خانہ جنگی کے دہانے پر آکھڑا ہوا ۔ وہ تمام وحشی قبیلے ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل بیٹھے ۔
ایک خونخوار قبیلے نے تو حد کر دی ۔ اُس نے صاف صاف اعلان کر دیا کہ وہ حجر اسود والے اعزاز میں اپنے علاوہ کسی اور کو قطعی شریک نہیں ہونے دے گا ۔ قدیم عربوں میں رواج تھا جب کوئی کسی سنجیدہ اور خطر ناک کام کی خاطر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا بر ملا اظہار کرنا چاہتا تو وہ انسانی خون سے بھرے ہوئے ایک خصوصی پیالے میں اپنی اُنگلیاں ڈبو دیتا تھا۔ اُس وحشی قبیلے کے سردار نے کعبہ کے فرش پر خون کاخصوصی پیالہ رکھوا دیا ۔ پھر اُس قبیلے کے تمام نمائندوں نے باری باری اپنی اُنگلیاں خون میں تر کر لیں اور صاف صاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ اگر کسی اور قبیلے نے حجر اسود کو چھونے کی جرأت بھی کی تو اُن سب کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا ۔
اس انتہائی تلخ اور دہشت ناک فضا نے مسلسل چار روز تک سب کو اپنی آہنی گرفت میں لیے رکھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی خطر ناک خانہ جنگی کسی بھی وقت سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی سے دو چار کر دے گی ۔
بزرگ قریشی کی دانش مندانہ تجویز
ٍٍ کشیدگی اور تصادم حد سے زیادہ بڑھ چکے تھے ۔ اتنے میں قریش کے ایک بزرگ سردار نے بڑی دانش و تدبر کا ثبوت دیا۔ اُس کانام اُمیہ بن مغیرہ تھا۔ وہ حجر اسود کے خطر ناک ہنگامے کے معقول اور پر امن حل کا واقعی متمنی تھا۔ اُ س نے یہ تجویز پیش کی کہ اگلی صبح جو شخص بھی کوہِ صفا والی جانب سے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوتا نظر آئے اُسے متفقہ طور پر ثالث تسلیم کر لیا جائے ۔پھر اس خطر ناک ہنگامے کے بارے میں وہ جو فیصلہ بھی کرے سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اُمیہ کی تجویز بڑی معقول تھی ۔ چنانچہ تمام متصادم قبائل نے اسے اتفاق رائے سے قبول کر لیا۔
اگلی صبح حجرِ اسود کے اعزاز کے تمام خونخوار دعویدار خانہ کعبہ کے باہر اک کونے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ دیکھیے کوہِ صفا والی جانب سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوتاہے۔اُن کی خوش قسمتی تھی کہ اُس صبح اُس جانب سے جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوا وہ خود آنحضورﷺ تھے ۔ لوگوں نے جوں ہی آنحضورﷺ کو اندر آتے دیکھا تو وہ خوشی خوشی چلااُٹھے :’’لو وہ’صادق‘ آگیا! لو وہ ’امین ‘ آگیا ! ہم اسے خوب جانتے پہنچانتے ہیں ۔ ہم سب اسے اپنا ثالث تسلیم کرتے ہیں !‘‘
نجات دہندہ نے خطرہ ٹال دیا
آنحضورﷺ نے معاملے کی ثالثی قبول فرما لی ۔ آپﷺ معاملے کی اہمیت ، نزاکت اور پیچیدگی سے بخوبی آگاہ تھے۔ آپﷺ نے زمین پر اپنی چادر بچھا دی ۔ آپﷺ نے حجرِ اسود اُٹھا کر اسے آرام سے چادر کے وسط میں رکھ دیا پھر آپﷺ نے تمام متصادم قبائل کے سرداروں سے کہا اُن کاایک ایک نمائندہ چاروں طرف سے چادر کے کونے تھام لے ۔ اس طرح حجر اسود چادر میں اُٹھا ئے یہ سب لوگ اسے اس کے صحیح مقام پر لے آئے توآپﷺ نے فرمایا کہ چادر پھر زمین پر رکھ دی جائے ۔ اس کے بعد آپﷺ آگے بڑھے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے حجرِ اسود اُٹھا کر اسے دیوار میں مقررہ جگہ پر رکھ دیا ۔
آنحضورﷺ کے اس تدبر سے سب مطمئن ہوگئے اور یوں مکہ ایک بڑے خون ریز تصادم اور خوفناک خانہ جنگی سے نجات پا گیا۔ واقعہ حجرِ اسود کو تاریخ میں عظیم اہمیت حاصل ہے ۔ ایک عظیم نبی ﷺ کی عظیم دانش مندی سے ایک عظیم خانہ جنگی کا عظیم خطرہ بڑے عمدہ طریق سے ٹل گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۶
نبوت کا سنسنی خیز آغاز
پرانے وقتوں سے عربوں میں روحانی رواج چلا آرہا تھا کہ اُن کے متعدد پارسا دانش ور ہر سال کچھ عرصہ روز مرہ زندگی سے الگ تھلگ ہوکر تخلیے میں غور و فکر اور سوچ بچار کیا کرتے تھے ۔ اس روحانی ریاضت کانام تحنث تھا، جس کا مطلب ہے ’’سوچ بچار ‘‘،’’گناہوں سے توبہ ‘‘ وغیرہ ۔آغاز نبوت سے پہلے کے دور میں آنحضورﷺ۶۰۵ء سے ۶۱۰ ء تک تقریباً پانچ سال تحنث فرماتے رہے ۔ اس ریاضت کے لیے آپﷺ نے غارِ حرا کا انتخاب کر رکھا تھا ۔ مکہ سے مشرق کی جانب تین میل دور کوہِ حرا واقع ہے ۔ غار حرا اسی پہاڑ کی آخری چوٹی سے ذرا نیچے واقع ہے ۔ اس پہاڑ کو اب جبل النور (روشنی کا پہاڑ ) کانام دے دیا گیا ہے ۔ حرا ایک چھوٹی سی غار ہے ۔ اس کی لمبائی تقریباً ۱۲ فٹ، چوڑائی تقریباً ۳ فٹ اور اونچائی اتنی ہے کہ انسان نماز کے لیے بمشکل کھڑا ہوسکتا ہے ۔ غار سطح سمندر سے تقریباً ۰۰۰ ۲ فٹ بلند ہے ۔ غار تک رسائی بڑے پیچ و خم کھاتے ہوئے اور کئی قدرے پر خطر راستوں سے ہوتی ہے ۔
حرا میں اِبتدائی سوچ بچار
یہ ہے وہ مشہور تاریخی غار جہاں آنحضورﷺ اپنے ابتدائی سوچ بچار اور نماز وغیرہ کے لیے تشریف لیے جایا کرتے تھے ۔ آپ ﷺاپنے ساتھ کھجوریں ، ستو اور پینے کاپانی بھی لے جاتے تھے ۔ جب یہ اشیائے خورونوش ختم ہوجاتیں توآپﷺ گھر لوٹ آتے اور کچھ وقفہ آرام کے بعد مزید سامان ساتھ لے کر واپس حرا پہنچ جاتے ۔ کبھی کبھی کھانے پینے کا ضروری سامان حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو غار ہی میں پہنچا دیا کرتی تھیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ آپﷺ کی تنہائی اور سوچ بچار کی تحنثی ریاضتیں طول اور شدت پکڑتی گئیں ۔ آپﷺ روزے بھی رکھا کرتے تھے ۔ وقفوں وقفوں پر آپﷺ غار سے باہر نکل کر تھوڑی بہت چہل قدمی بھی فرمالیا کرتے تھے ۔ گھر واپس لوٹنے سے پہلے آپﷺ ہر بار طواف کعبہ کر لیا کرتے تھے ۔ اسی دوران آنحضورﷺ راتوں کو عجیب وغریب خواب بھی دیکھنے لگے تھے جو من و عن پورے ہو جاتے تھے ۔
حرائی ریاضتوں کے موضوعات
حراکی روحانی ریاضتوں میں آنحضورﷺ جن مختلف موضوعات پر سنجیدہ غور و فکر فرمایا کرتے تھے وہ کچھ اس قسم کے تھے :
(۱)انسانی زندگی اور اس کی غرض و غایت
انسانی زندگی کا آغاز کیسے ہوا ؟ زندگی کااصل مقصد کیا ہے ؟ کیاانسان اپنے افکار و اعمال میں خود مختار ہے یا خارجی عوامل کاتابع ہے ؟ کیا یہ زندگی یہیں ختم ہوجاتی ہے یایہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہتا ہے ؟ موت کے بعد زندگی کا جواز اور کیفیت کیا ہیں ؟وغیرہ وغیرہ۔
(۲)حق و باطل کے مسائل
حق کیا ہے ؟ باطل کیا ہے ؟ دونوں میں فرق اور امتیاز کیا ہے ؟
(۳) اللہ کی عبادت اور بتوں کی پوجا
توحید میں صحیح ایمان کیا ہے؟ لوگ ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں اور جھوٹے خداؤں کی پرستش کیوں کرتے ہیں ؟معاشرے کو شرک اور بت پرستی سے نجات کیسے دلائی جائے ؟
(۴)بد اخلاقی اور بدعنوانی سے نجات
اہلِ مکہ اس قدر بداخلاق کیوں ہیں ؟اُنہیں بد عنوان طرزِ حیات سے نجات کیسے دلائی جائے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ تھے وہ چند موضوعات جن پر آنحضورﷺ حرائی ریاضتوں کے دوران سنجیدہ غور و فکر فرمایا کرتے تھے ۔
حرائی ریاضتوں کا طریق کار اور فلسفہ
ایک اور بنیادی نکتہ جواب طلب ہے۔حرائی ریاضتوں میں آنحضورﷺ کا فلسفہ اور طریق کار کیا تھے ؟ ابن کثیر نے اس کے بارے میں اِ ن تین نظریوں کا ذکر کیا ہے :
(۱)حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت
بعض دانش وروں کے نزدیک آپﷺ اُن دنوں حضرت نوح ؑ کی شریعت کو مد نظر رکھا کرتے تھے ۔
(۲) حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی شریعتیں
چند مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپﷺ شریعت ابراہیمی اور شریعت موسوی کی پیروی کیا کرتے تھے ۔
(۳)اپنی خصوصی شریعت
ایک مکتب فکر کے نزدیک آپﷺ اپنی ایک مخصوص شریعت کو زیر نظر رکھتے تھے ۔ جس کی حقیقت کا انکشاف آپﷺ پر ہوچکا تھا۔
یہ آخری نظریہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ بہر کیف جو نظریہ بھی صحیح ہو یہ حقیقت آشکار ہے کہ آنحضورﷺ کی حرائی ریاضتیں تحنث کے اُن روایتی سلسلوں سے مختلف تھیں جو قدیم عرب کے نیک منش دانش وروں میں مروج اور مقبول تھے۔
نبوت کی حیرت انگیز ابتداء
ایک تاریخی رات آنحضورﷺ حسب معمول غارِ حرا میں روحانی غور و فکر میں محو تھے ۔تاریخ ۹ ربیع الاوّل (۱۲ فروری ۶۱۱ء) تھی ۔ آپﷺ کی عمر اُس وقت چالیس برس تھی ۔ کوہِ حرا کے پر شکوہ پہاڑی سلسلوں پر رات کا سناٹا طاری تھا ۔ اچانک حضرت جبرائیل ؑ غار میں نمودار ہوئے اور فرمانے لگے :’’محمد مبارک قبول فرمائیے !آپ اب اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ میں جبرائیل ؑ ہوں ۔‘‘
اس ڈرامائی انداز میں یہ تاریخی خوش خبری سنا کر حضرت جبرائیل ؑ تو چلے گئے مگر آنحضورﷺ طرح طرح کے خیالوں میں غوطہ زن ہو گئے ۔ حضرت جبرائیل ؑ کے تین مختصر فقرے آنحضورﷺ کے نام اللہ تعالیٰ کا پہلا پیغام تھے ۔ نتیجتاً آپﷺ خاصے خائف اور متحیر ہوئے ۔ اضطراب کے اس عجیب عالم میں آپﷺ پر کپکپی بھی طاری ہو گئی ۔ آپﷺ بڑی تیزی سے گھر پہنچے ۔ آتے ہی آپﷺ اپنے بستر پر لیٹ گئے اور حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ میرے اوپر چادر ڈال دو ۔
کچھ عرصہ آرام کر نے سے آپﷺ کو قدرے سکون محسوس ہوا ۔ آپ ﷺ نے پھر حضرت خدیجہؓ کوغار حرا والاسارا واقعہ سنا دیا۔ آپﷺ نے یہ بھی کہا :’’ان دنوں مجھے کچھ عجیب و غریب محسوسات بھی ہورہے ہیں ، جس سے مجھے اکثر خوف بھی آتاہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاید میں آسیب زدہ ہوں ۔ میری تو زندگی بھی خطروں میں نظر آتی ہے۔۔۔‘‘
حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی دِ ل جوئی کی
حضرت خدیجہؓ بڑی سلیقہ شعار خاتون تھیں ۔ اُنہیں اپنے عزیز خاوند کے بارے سخت تشویش لاحق ہوئی مگر اُنہو ں نے اپنی پریشانی کا بر ملا اظہار نہ کیا ۔خاوند کو تسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہؓ نے فرمایا: ’’آپ ﷺ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ! آپﷺ اپنے رشتہ داروں سے شفقت برتتے ہیں ۔ آپﷺ بیواؤں ، یتیموں او ر محتاجوں کا سہارا ہیں ۔ آپﷺ ہر مصیبت زدہ سے ہمدردی اور معاونت کرتے ہیں ۔ آپﷺ ایسے بلند مرتبہ انسان کو اللہ تعالیٰ کبھی غمگین نہ ہونے دیں گے ۔ کوئی جن بھوت آپﷺ کے پاس پھٹک نہیں سکے گا۔‘‘
اپنی سلجھی ہوئی بیوی کی ہمدردی اور تسلی سے آنحضورﷺکی طبیعت خاصی سنبھل گئی ۔
ورقہ سے تسلی بخش ملاقات
تاہم یوں دکھائی پڑتا جیسے حضرت خدیجہؓ جیسی عالی ہمت خاتون بھی اندر ہی اندر کافی ہل چکی تھیں ۔ وہ یہ محسوس کر رہی تھیں جیسے اُنہیں بھی کسی کی تسلی و تشفی کی ضرورت ہو۔ چنانچہ وہ اپنے مضطرب خاوندکوساتھ لے کر اپنے ایک دانا چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ۔ ورقہ ایک دانا بینا عیسائی بزرگ تھا۔ مکہ کی غالب بت پرست فضا سے تنگ آکر اس نے عیسائیت قبول کر لی تھی ۔ حضرت خدیجہؓ کے اصرار پر آنحضورﷺ نے اُسے غارِ حرا کے شبانہ واقعہ کی تفاصیل سُنادیں ۔
ورقہ بڑے غور اور دلچسپی سے آنحضورﷺ کی باتیں سنتا رہا۔ پھر بڑے پُر جوش انداز میں بولا۔’’بخدا آپﷺ فی الواقع ان لوگوں کے پیغمبر ہیں ۔اس حقیقت میں قطعی کوئی شک و شبہ نہیں ۔ و ہ عظیم فرشتہ جوآپ کے پاس آیا تھا وہی تھا جو آپ سے پہلے وقتوں میں حضرت موسیٰ کے پاس نازل ہوا تھا ۔ اب آئندہ یہ لوگ آپﷺ کو جھٹلائیں گے اور آپﷺ کو سخت تکلیفیں دیں گے ۔ آپﷺ جلا وطن کر دیے جائیں گے ۔ آپﷺ کے خلاف جنگیں لڑیں جائیں گی ۔ تاہم آپﷺ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ انجام کار آپﷺ اپنے مقدس مشن میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اگر میں اُس مبارک روز تک زندہ رہا تو میں بھی خدا کے سچے دین ہی کا ساتھ دوں گا ۔‘‘
اتنا کہہ کر ورقہ نے اپنا سر بطور تعظیم و احترام جھکا دیااور پھر آپﷺ کے سرکے وسط میں عقیدت و احترام سے بوسہ دیا ۔
حرا میں وحی کاآغاز
تقریباًچھ ماہ بعدایک دن آنحضورﷺ غارِ حرا میں اپنے معمول کے غورو فکر اور عبادتوں میں منہمک تھے۔ اچانک حضرت جبرائیل ؑ پھر نمو دار ہوئے ۔ اس دفعہ وہ اپنے ہاتھ میں سلکی کپڑے کا ایک ٹکڑا تھامے ہوئے تھے۔ آنحضورﷺ کو پھر حضرت جبرائیل ؑ نے یہ پانچ آیتیں پڑھوائیں :
بسم اللہ الرحمن الرَّحیم۔ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کر نیوالا ہے
اِقْرَا ء بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ۔ (۱)پڑھو اپنے پروردگار کے نا م کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔
خَلَقَ الْاِنْسَا نَ مِنْ عَلَقِِ ۔ (۲)خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ۔
اِقْرَاء وَرَبُّکَ الْاَکْرَمِِ۔ (۳)پڑھو، تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ،
الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَم۔ (۴)جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ،
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ ےَعْلَمْ ۔ (۵)انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا
(۹۶:۱۔ ۵) (5-1-96 )۔
یہ پانچ آیات آنحضورﷺ پر نازل ہونے والی پہلی تاریخی وحی ہیں ۔ یہ قرآن حکیم کی سورہ نمبر ۹۶(العلق )کی ابتدائی آیات ہیں ، چنانچہ وحی کے آغاز ہی سے علم کی اہمیت و تقدس اور تحصیل علم کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔
جب آنحضورﷺ حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ ساتھ یہ پانچویں آیات دہرا چکے تو وہ آپ ﷺ کو پہاڑ کے ایک طرف لے گئے ، جہاں دونوں نے وضو کیااور اکٹھے نماز پڑھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب :۷
خفیہ تبلیغ اور اَوّلین نومسلم
غارِ حرا میں پہلی وحی کے خاصہ عرصہ بعد تک کوئی مزید وحی وصول نہ ہوئی ۔ وحی کے اس غیر متوقع تعطل سے آنحضورﷺ کوکافی تشویش لاحق ہوئی ۔ وحی کے عارضی تعطل کو’’فترۃ الوحی ‘‘کہتے ہیں ۔ آپ ﷺکے بڑھتے ہوئے اضطرا ب کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ غیر معمولی طور پر متفکر رہنے لگے تھے ،اور ذہن میں طرح طرح کے خدشات موجزن ہونے لگے تھے۔
تبلیغ اسلام سے متعلق پہلی وحی
اذیت دہ وقفہ فترۃ آخر کار ٹوٹ گیااور سورۃ المدثر (اُوڑھے لپیٹے ہوئے )کی مندرجہ ذیل سات ابتدائی آیات نازل ہوئیں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(۱) یا ایّھَا المدَّثِّرُ (۱)اے اُوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے !
(۲)قُم فَاَ نْذِرْ (۲)اُٹھو اور خبردار کرو!
(۳)وربَّکَ فَکَبِّرْ (۳)اور اپنے پروردگار کی بڑائی کااعلان کرو!
(۴)وَثِیابَکَ فَطَھِّر (۴)اپنا لباس پاک رکھو!
(۵)والرُّجْزَفَاھْجُرْ (۵)گندگی سے دُور رہو!
(۶)ولاتَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ (۶)زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کرو!
(۷)وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (۷)اپنے پرورد گار کی خاطر کرو!
(۷۴:ا۔۷) (7-1:74 )
حضرت خدیجہؓ نے آنحضورﷺ کے اضطراب و تلاطم کو دیکھاتواُنہوں نے آپﷺ کوکچھ آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا:’’آرام کے دن ا ب بیت گئے ۔ اب تو میں لوگوں کو برائیوں اور اُن کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی سزاؤں سے خبر دار کروں گا۔‘‘
پہلا خفیف تصادم
آنحضورﷺ نے دعوت و تبلیغ اسلام کا آغاز بڑے دانش مندانہ اور محتاط طریقے سے فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ابتدا ء ہی سے اُن کے خاص حامیوں میں شامل تھے۔ آغازِ تبلیغ و ہدایت کے پہلے تین سال بخیر و خوبی گزر چکے تھے ۔ مکہ کے چند افراد اسلام کی آغوش میں آچکے تھے ۔ ایک روز کچھ مسلمان ایک پہاڑی درّہ میں نماز میں مصروف تھے کہ قریب سے گزرتے ہوئے مشرکین کی ایک ٹولی نے اُن کا مذاق اُڑایا ۔ یہ تلخ صورت حال یک لخت نازک شکل اختیار کر گئی ۔ کھلم کھلا تصادم شروع ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اونٹ کی ایک بڑی سی ہڈی اُٹھا کرایک مشرک پر دے ماری جس سے اُس کے سر سے خون بہنے لگا۔ حالات مزید خراب ہونے کا سخت اندیشہ تھا۔ مگر آنحضورﷺ کی دانش مندی سے بات وہیں ختم ہوگئی ۔
دارالارقم ۔۔۔۔اوّلین مرکزِ تبلیغ
حضرت اَرقمؓ کامکان کوہِ صفا کے قریب واقع تھا۔ آنحضورﷺ نے اسے مسلمانوں کے ابتدائی مرکز کے طور پر منتخب فرمایا تاکہ حلقہ اسلام میں نو وارد مسلمان یکجا ہو کر سکون و تحفظ کے الگ تھلگ ماحول میں اطمینان سے نماز ادا کر سکیں ۔ چنانچہ ابتدائی عرصے میں اسلام میں داخل ہونے والے تمام مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اور رشد و ہدایت کا مرکز دارالارقم ہی رہا۔
دارالارقم کو’’دارالاسلام ‘‘یعنی مرکز اسلام کے طور پر تعمیری خدمات کا منفرد شرف حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور کے بعد بھی یہ تاریخی مرکز اپنامخصوص کردار ادا کرتا رہا ۔
ابتدائی تبلیغ کے سُست رفتار نتائج
دعوت و تبلیغ اسلام کے اولین ایام میں آنحضورﷺ کو شدید مشکلات ، مخالفت اور مصائب کا سامنا اس لیے نہ ہوا کہ تبلیغ کاکام تمام تر خفیہ اور الگ تھلگ ماحول میں انجام پا رہا تھا۔ اسلام میں داخل ہونے والوں کی رفتار بھی بہت سُست تھی ۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے پہلے چار ممتاز خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں :(۱)حضرت خدیجہؓ (۲) حضرت علیؓ (۳)حضرت ابو بکرؓ اور (۴) حضرت زید بن حارثہؓ ۔
ان چار نام ور ہستیوں کے علاوہ اولین مسلمانوں کی مختصر فہرست میں ۱۲۹دوسرے افراد بھی شامل ہیں جو خفیہ تبلیغ کے ابتدائی تین سالوں میں حلقۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے ۔ اس دور میں نو مسلموں کی کل تعداد ۱۳۳ بنتی ہے ۔
خفیہ دورِ تبلیغ میں آنحضورﷺ کی تحصیلات
اشاعت اسلام کے اس تین سالہ خفیہ دور میں بھی آنحضورﷺ قابلِ قدر تحصیلات سے ہمکنار ہوئے ۔ ابتدائی نو مسلم بہت بلند پایہ افراد تھے۔ اُن کی تعداد ۱۳۳ تھی جو اتنی کم بھی نہیں ۔اگر دیکھا جائے تو قبولِ اسلام کی سالانہ اوسط ۳.۴۴بنتی ہے جو اُن ناساز گار حالات میں قطعی حوصلہ شکن نہیں تھی ۔
اس دور میں آنحضورﷺ نے صحیح العقیدۃ مسلمانوں کی ایک ایسی ٹھوس جماعت تیار کر لی تھی جن کے تمام افراد کا اندازِ فکر و کردار بہت سلجھا ہوا تھا۔ ان نو مسلموں میں مندرجہ ذیل اُمور کے بارے میں غیر معمولی وضاحت اور استقامت پیدا ہو چکی تھی :(۱) توحید کی برکتیں اور شرک کی برائیاں (۲) آنحضورﷺ کی رسالت پر ایمان (۳) قرآن حکیم پر اللہ تعالیٰ کے کلام اور جامع ہدایت نامہ ہونے پر یقین محکم اور (۴) آخرت پر پختہ یقین ۔
دعوت و تبلیغ اسلام کاکام علی الاعلان شروع ہونے کاوقت اب آچکا تھا اور آنحضورﷺ اپنے مقدس مشن کے اس نئے مرحلہ کے لیے پوری طرح تیار دکھائی دے رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۸
علانیہ تبلیغ اور شدید مخالفت
مخفی تبلیغ کے تین سالہ دور میں کسی بڑے تصادم یا مخالفت کی کوئی صورت پیش نہ آئی مگر علانیہ تبلیغ کا دَور مشکلات و مصائب ، تلخی و تصادم سے بھرا پڑا ہے ۔ اس دَور میں جن مخالفوں نے آنحضورﷺ کو سب سے زیادہ اذیتیں دیں اُن بدبختوں کے نام یہ ہیں :(۱)ابو جہل (۲) ابو لہب (۳) زوجہ ابو لہب (۴)ابو سفیان (۵)ولید بن مغیرہ اور (۶) عتبہ بن ربیعہ ۔
علانیہ تبلیغ کاآغاز
علانیہ تبلیغ و تلقین کے دور کے تین اہم اور منفرد واقعات یہ ہیں :(۱) خانہ کعبہ میں کھلم کھلا نماز کا قیام (۲) قریبی رشتہ داروں کی خصوصی دعوت اور (۳) کوہِ صفا پر تاریخی وعظ ۔
(۱)خانہ کعبہ میں کھلم کھلا نماز کا قیام
مخفی تبلیغ کے پہلے دور میں مسلما ن دارالارقم میں نماز چپکے چپکے پڑھ لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت موصول ہونے پر آنحضورﷺ نے خانہ کعبہ میں علانیہ نماز کا فیصلہ کرلیا۔ کفار قریش کو مسلمانوں کا یہ فیصلہ قطعی نا پسند تھا۔ ابو جہل اور اُس کے ٹولے نے اس کی سب سے زیادہ شدید مخالفت کی مگر تمام مشکلوں اور مخالفتوں کے باوجود آنحضورﷺ اور اُن کے ساتھی اپنے فیصلے پر سختی سے ڈٹے رہے ۔
(۲) قریبی رشتہ داروں کی خصوصی دعوت
آنحضورﷺ کو قرآنی وحی کے ذریعے یہ ہدایت موصول ہو چکی تھی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کرو !‘‘(214:26)۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے سب رشتہ داروں کی دعوت کا اہتمام کیا۔اُن کی کل تعداد ۴۵تھی ۔ مگر ہوایوں کہ آنحضورﷺ کے کچھ فرمانے سے پہلے ہی آپﷺ کے چچا ابو لہب نے بڑے دھمکی آمیز انداز میں بولنا شروع کر دیا۔ اُس نے آپﷺ سے صاف صاف کہہ دیا کہ آپﷺ اس موقع پر تبلیغ اسلام سے اجتناب کریں ۔ اس طرح رشتہ داروں کی پہلی دعوتِ طعا م ابو لہب کی تلخ کلامی اور تہدید آمیزی کی نذر ہو گئی ۔
دوسرے روز آنحضورﷺ نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو پھر دعوت دی ۔ آپﷺ نے یہ بات واضح کر دی کہ اسلام کا پیغام صرف آپﷺ کے دوستوں اور پیروکاروں ہی کے لیے نہ تھابلکہ یہ دعوت حق سب کے لیے تھی ۔تاہم صرف آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالبؓ اور اُن کے فرزند ارجمند حضرت علیؓ نے آپ کی حمایت کا وعدہ کیا۔
(۳) کوہِ صفا پر تاریخی وعظ
تیسرا علانیہ اقدام جو آنحضورﷺ نے نئے دور میں اُٹھایا کوہِ صفا پر کھلم کھلا وعظ تھا، جس میں آپﷺ نے انتہائی پُر زور انداز میں بت پرستی ترک کرنے اور خدائے واحد کی عبادت شروع کرنے کی تلقین فرمائی ۔ یہ مجلس بھی ابو لہب ہی نے ناکام بنا دی ۔ وہ کھڑا ہو کر چلانے لگا’’تیرا ستیاناس ہو! کیا تو نے ہمیں آج اسی لیے بلایا ہے ؟‘‘یہ مجلس بھی ہنگامے کی نذر ہو گئی اور حاضرین غیر مناسب حالت بلکہ غیض و غضب کی کیفیت میں منتشر ہو گئے ۔
مخالفوں کی اُلجھنیں اور تعصبات
آنحضورﷺ کااخلاق اور شخصیت نہایت پر وقار اور مسحور کن تھے۔ اس حقیقت کوآپﷺ کے جانی دشمن تک تسلیم کر تے تھے۔ اُنہیں اکثر یہ احساس ہوتا تھا کہ آپﷺ کی باتیں معقول اور سود مند تھیں ۔ تاہم چند دیرینہ اُلجھنیں اور تعصبات انہیں آپﷺ کی مخالفت جاری رکھنے پر مجبور کیے ہوئے تھے۔
کافروں کی چند ایک پرانی الجھنیں اور تعصبات جو اُنہیں اسلام ، آنحضورﷺ اور مسلمانوں سے عداوت پر مجبور کیے رکھتے تھے ،درج ذیل ہیں :
(1)اقتصادی اجارہ داری میں تبدیلی کا خدشہ
مکہ کی اندرونی اور بیرونی تجارت پر کفار کی اجارہ داری تھی ۔اُنہیں یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ اسلام چونکہ مساوات اور معاشرتی انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے اُن کی صدیوں پرانی تجارتی اجارہ داری خطروں میں پڑ سکتی ہے ۔
(2)سیاسی غلبے کے اختتام کاخطرہ
کفار کو مکہ کی سیاسی صورت حال پر بھی غلبہ حاصل تھا ۔ اُنہیں ڈر تھا کہ اسلام کے جمہوری اُصول اُن کی موروثی قبائلی ترجیحات کوبُری طرح متاثر کر دیں گے اور لیاقت و فطانت کی اسلامی بالادستی اُن کے روایتی سیاسی غلبہ کا کباڑا کر دے گی ۔
( 3)مذہبی تنگ نظری اور ہٹ دھرمی
اسلام اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا درس دیتاتھا ،اس کے برعکس کفارِ مکہ شرک اور بت پرستی کے اندھیروں میں غرق ہو چکے تھے ۔اُنہیں خدشہ تھا کہ اسلام کی روشنی ان کے آبائی مذہب کاخاتمہ کر دے گی ۔
(4)قریش کی معاشرتی برتری کا ڈھونگ
کفارِ قریش کو اپنی معاشرتی برتری کا بڑا گھمنڈ تھا۔ اس کے بر عکس اسلام سب انسانوں کی اخوت اور مساوات کا داعی تھا۔
(5)تنگ نظر اخلاقی اندازِ زندگی
کفار کا اخلاقی اندازِ حیات بھی بے حد تنگ نظر اور تعیش پسندانہ تھا۔ وہ شرارت ، جنسی خرابیوں اور رنگ رلیوں کی متنوع علتوں کابُری طرح شکار ہو چکے تھے ۔ اُن کی اخلاقی زندگی میں اعلیٰ معیار واقدار کا سخت قحط تھا۔اُنہیں ڈر تھا کہ اسلام کی اعلیٰ اقدار اُن کی تعیش پسندی اور آوارہ اندازِ حیات پر ضرب کاری ثابت ہوں گی ۔
(6) کفار کی ثقافتی علتیں
کفار کی چند پرانی ثقافتی علتیں بھی اُنہیں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت پر مجبور کیے ہوئے تھیں ۔ اُن کی چند نمایا ں ثقافتی اور تمدنی علتیں یہ تھیں :برانگیختہ کرنے والی شاعری ، بے ہودہ مصوری ، مشرکانہ سنگ تراشی ، جذباتی خطابت و فصاحت ،وغیرہ ۔ انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں مقصدیت ، تقویٰ و طہارت کی بالادستی کی اسلامی تعلیمات اُنہیں اپنی روایتی ثقافت کی گوناگوں لذتوں سے محروم کر دیں گی ۔
یہ تھے اُس عہد کے کفار کے چند دل پسند معیار و اقدار اور افکار وکر دار جن سے مجبور ہوکر وہ اسلام کی ہر بات جھٹلانے اور آنحضورﷺ کی اندھا دھند مخالفت پر تُل بیٹھے تھے۔
ایذا رسانی اور لالچ کے چکر
کفار مکہ آنحضورﷺکو طرح طرح کی اذیتوں اور لالچوں سے حق بات سے روکنے پر تلے بیٹھے تھے ۔ وہ مسلمانوں کی بلا جواز توہین کرتے ، اُنہیں گالیاں دیتے اور اُنہیں بدنام کرتے تھے ۔ وہی اہل مکہ جو کل تک آنحضورﷺ کے مداح تھے اور اُنہیں ’’امین‘‘اور ’’صادق‘‘کے اعلیٰ لقبوں سے پکارتے تھے ، اعلانِ حق سنتے ہی یکایک انہیں جھوٹا قرار دینے پر بھی اُترآئے ۔
جسمانی اور ذہنی ایذا رسانی کے ساتھ ساتھ انہوں نے آپﷺ پر لالچ کے جال پھینکنے بھی شروع کر دیے ۔ آپﷺ کو یکے بعد دیگرے طرح طرح کے بھاری مالی ، سیاسی اور جنسی لالچ دیے گئے ۔ جب اُن کے یہ تمام مذموم حربے اور ہتھکنڈے ناکام ہو گئے تو اُنہوں نے اس بارے میں حضرت ابو طالب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے آنحضورﷺ کے مشن کے خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دیں اور چند پیشکشوں کا لالچ بھی دیا ۔عمر رسیدہ چچا نے بھتیجے کو بہتیرا سمجھایا بجھایا کہ کفار کی مخالفت سے بنو ہاشم کو شدید نقصان اور سنگین خطروں کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ اُنہوں نے کافروں کی دھمکیوں کے علاوہ اُن کی پیشکشوں کا ذکر بھی کیا۔ اس مرحلہ پر آنحضورﷺ نے صاف صاف فرمادیا :’’پیارے چچا !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اپنے مقدس مشن سے دستبردار نہیں ہوں گا۔‘‘
لغو لوک قصوں ، لچر نغموں اور بے ہودہ رقصوں کے دلفریب جال
ان خوفناک دھمکیوں اور لالچ کے جالوں کے ساتھ ساتھ کفار نے آنحضورﷺ کے خلاف زیادہ بازاری اور لچر ثقافتی حربے بھی استعمال کیے ۔آنحضورﷺ کو ورغلانے اور اپنے مشن سے ہٹانے کے لیے اُنہوں نے اس قسم کے لغو منصوبے بھی تشکیل دینے شروع کر دیے :
لوک قصوں سے ورغلانے کامنصوبہ
کفار نے اردگرد کے علاقوں سے مشہور اور شہوانی لوک قصے منگوانے کا منصوبہ تیار کیا تا کہ انہیں عوام میں مقبول بنا دیا جائے ۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے لوگ آنحضورﷺ کی طرف مائل ہونے کی بجائے ان لچر لوک قصوں کی لذتوں میں کھو جائیں گے ۔
بیہودہ نغموں اور واہیات قصوں سے پھسلانے کا حربہ
ایک اور زیادہ شہوانی منصوبہ یہ تھا کہ عوا م میں بیہودہ نغموں اور واہیات رقصوں کو اس قدر عام کر دیا جائے کہ اُنہیں دعوت اسلام کی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہ ملے ۔
اس منصوبے کاخالق نصر بن الحارث تھا۔ اُس نے اس شیطانی منصوبے کو عملی شکل دینا بھی شروع کر دی تھی ۔ اُس نے غلاموں کی منڈی سے چند گانے ناچنے والی خوبصورت لونڈیاں خرید رکھی تھیں ۔ جب بھی کسی کے مسلمان ہو جانے کی اطلاع ملتی وہ ان حسین رقا صاؤں کے ذریعے اُسے پھسلانے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیتا۔وہ اس غلیظ غرض کے لیے جس مغنیہ اور رقاصہ کا انتخاب کرتا اُسے یہ نکتہ بخوبی سمجھا دیتاکہ وہ اسلام اور آنحضورﷺ کے مشن کے بارے میں سب کچھ بھول جائے ۔
تا ہم اس قسم کے لغو اور گھٹیا ثقافتی حربے بھی مسلمانوں کو ورغلانے ، پھسلانے اور بہکانے میں قطعی ناکام رہے ۔
کفار کو ابو طالب کی دھمکی
ایک دفعہ جب کفار کی دشمنی اور مخالفت خوب زوروں پر تھی ، حضرت ابو طالب اپنے خاندان کے ہمراہ آنحضورﷺ کے گھر آئے ۔ اُنہیں وہاں موجود نہ پایا تو ابو طالب قدرے خائف ہو گئے ۔ اُنہیں خدشہ تھا کہ اُن کے پیارے بھتیجے کوکفار نے شہید نہ کر ڈالا ہو۔
وہ اِس خیال سے طیش میں آگئے ۔ چنانچہ اُنہوں نے فوراًبنی ہاشم اور بنی مطلب کے چند منچلے جانبازوں کو بلایااور اُن سے یوں مخاطب ہوئے :’’تم میں سے ہر جوان ایک خنجر یا کوئی اور تیز دھار ہتھیار پکڑ لے اور اسے اپنی چادر کے نیچے چھپالے ۔ پھر تم سب میرے ساتھ خانہ کعبہ چلو۔ جو نہی ہم خانہ کعبہ میں داخل ہوں تو تم دیکھ لینا کہ ابو جہل کس سمت کس مجمعے میں بیٹھا ہے ۔ بس اُس مجمعے کے کسی بھی فرد کو ہر گز زندہ نہیں چھوڑنا، کیونکہ ظاہر ہے اسی مجمعے کے افراد ہی نے محمدﷺ کو شہید کیا ہوگا۔‘‘
یہ ہدایات سنتے ہی حضرت ابو طالب اور اُن کا مسلح دستہ خانہ کعبہ کی طرف تیزی سے بڑھے ۔ راستے میں اُنہیں زید بن حارثہؓ ملے ۔انہوں نے بتایا کہ آنحضورﷺ بالکل صحیح و سلامت ہیں ۔ حضرت ابو طالب نے سکھ کا سانس بھرااور اپنا منصوبہ ترک کر دیا ۔
اگلی صبح حضرت ابو طالب پھر آنحضورﷺ کے گھر گئے ۔ وہ آنحضورﷺ کا ہاتھ تھامے اپنے اُسی مسلح دستے کو ساتھ لے کر کافر اکابر کی مجلس میں پہنچ گئے ۔ اُنہوں نے کفار کو اپنے گزشتہ روز والے منصوبہ کی تفصیلات بتادیں ۔ پھر آپ نے مسلح جوانوں کو اپنی چادروں کے پلو اوپر اُٹھانے کو کہا ۔ کفار یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ہر جوان واقعی اپنی اپنی چادر کے نیچے تیز دھار ہتھیار چھپائے ہوئے تھا۔
پھر اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے حضرت ابو طالب نے بلند آواز سے کہا:’’قسم ہے خدا کی !اگر تم کہیں محمدﷺ کو مار ڈالو گے تو تم میں سے کسی کو ہر گز زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ خواہ لڑتے لڑتے ہم سب ختم ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔‘‘
حضرت ابو طالب کی اس ڈرامائی دھمکی سے کفار اکابر بہت مرعوب اور متفکر ہوئے۔ اُنہیں پختہ یقین ہو گیا کہ آنحضورﷺ کاکام تمام کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اُس محفل میں موجود اُن تمام کفار میں سے ابو جہل پر اس حوصلہ شکن واقعے کا سب سے زیادہ ناگوار اثر مرتب
ہوا۔
کفار کی مخالفت کی ناکامی
کفار کی شدید مخالفت آخر کار ناکام کیوں ہوئی ؟صورت حال کی صحیح سوجھ بوجھ کے لیے اس سنجیدہ سوال کا جواب ضروری ہے ۔ کفار کی ناکامی کے چند اہم اسباب درج ذیل ہیں :
(اوّل)دعوتِ اسلامی کی داخلی قوت
اسلامی تحریک پختہ تر اندرونی جوش و جذبے سے سرشار تھی ۔ اس کے بر عکس کفار مکہ کے شرک اور بت پرستی میں کوئی داخلی دَم خم موجود نہ تھا۔
(دوم)آنحضورﷺ کی طلسماتی شخصیت اور انقلابی کردار
آنحضورﷺ کی شخصیت پُر وقار اور بے مثال طور پر اثر انگیز تھی ۔ آپﷺ کا کردار بے حد حر کی اور انقلابی تھا۔ اس کے بر عکس اکابرینِ کفار میں اس پایہ کی کوئی ایسی عظیم اور مؤثر ہستی مقابلہ کے لیے موجود نہ تھی ۔
(سوم)اللہ تعالیٰ کی حمایت
تحریک اسلامی کو اللہ تعالیٰ کی مسلسل حمایت حاصل تھی ، جس کی برکتوں سے تعداد اور سامان کی کمی کے باوجود مسلمانوں کے عزم و ہمت ہمیشہ بلند رہتے تھے اور وہ حق و انصاف اور اپنی برتری کے لیے ہر لحظہ ڈٹے رہتے تھے ۔ اسکے بر عکس کفارِ مکہ میں اس طرح کی کوئی قوت قطعی موجود نہ تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۹
حبشہ کی طرف کامیاب ہجرت
حبشہ کی جانب مسلمانوں کی ہجرت اہم واقعات اور حوادث کی دلچسپ داستان ہے ۔ جوں جوں کفار مکہ مسلمانوں کی ایذا رسانی اور مخالفت میں شدت کرتے چلے جاتے توں توں مسلمان بھی اشاعت اسلام میں تیزی کرتے چلے جاتے تھے ۔
مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ پر کفار کاغم و غصہ
قرآن حکیم میں جہاد کے بعد ہجرت کو اہمیت دی گئی ہے ۔ جب کفار کے تشدد و تعذیب کے سلسلے زیادہ شدت اختیار کرتے چلے گئے تو قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو ہجرت کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔ آنحضورﷺ نے بھی مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرجانے کا مشورہ دیا۔ حبشہ آج کل کے ایتھو پیا کا پرانا نام ہے ۔ یہ اُن دنوں ایک مشہور عیسائی مملکت تھی ۔ اس کاعیسائی بادشاہ نجاشی بہت انصاف پسندحکمران تھا۔
چنانچہ نبوت کے پانچویں سال (۶۱۴ء)چودہ مسلمانوں پر مشتمل ایک مختصر جماعت حبشہ ہجرت کر گئی ۔ اگلے سال مزید ۱۰۳ مسلمان مہاجر حبشہ چلے گئے ۔ جب کفار کو معلوم ہو اکہ کچھ مسلمان ہجرت کر کے حبشہ میں امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو اُنہیں سخت غم و غصہ لاحق ہوا۔ اُنہوں نے ان مہاجروں کو مکہ واپس لانے کے لیے فوراًایک وفد حبشہ روانہ کردیا ۔ کفار کا وفد اپنے ساتھ بادشاہ کوپیش کرنے اور اس کے درباریوں کو رشوت دینے کے لیے قیمتی تحفے بھی لے گیا تھا۔
حضرت جعفرؓ کی اسلام پر تاریخی تقریر
کفار کے وفد کاموقف سننے کے بعد شاہ نجاشی نے مسلمان مہاجروں کو بھی دربارمیں بلایا اور اُنہیں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کو کہا ۔ اس پر حضرت جعفرؓ بن ابو طالب نے نجاشی کے دربار میں بغیر کسی تیاری کے مندرجہ ذیل تقریر کی، جسے تاریخِ اسلام میں بڑی علمی اہمیت حاصل ہے ۔
اسلام سے پہلے ہماری زبو ں حالی
بادشاہ سلامت !اسلام سے پہلے ہم ایک جاہل قو م تھے ۔ ہم بتوں کو پوجتے تھے۔ ہم مردہ جانوروں کا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم طرح طرح کی بے حیائیوں میں ملوث تھے۔ ہمیں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کاکوئی پاس نہ تھا۔ ہم حسبِ منشا عہد وپیمان توڑ دیا کرتے تھے ۔
محمدﷺ نے ہماری تعلیم اور رہنمائی فرمائی
ہم اس زبوں حالی میں گرفتار تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک نیک فطرت شخص کو ہمارا رسول ﷺ بنا کر بھیجا ۔ ہم اس محترم شخص اور اسکے معزز خاندان کو پہلے ہی سے بخوبی جانتے تھے۔ وہ سچائی اور دیانت کا مجسمہ تھا۔ اس نے ہمیں توحید کے درس دیے ۔اس نے ہمیں صرف ایک اللہ کی عبادت کے طریقے بتائے۔اس نے ہمیں پتھروں ، درختوں ،چاند،سورج ، ستاروں اور ہر قسم کے اُن بتوں کی پرستش سے منع کیا جن کی ہمارے آباء واجداد پچھلے وقتوں سے پوجا کرتے چلے آئے تھے ۔
اُس نے ہمیں ہمیشہ سچ بولنے اور دیانت سے کام لینے کی تربیت دی ۔ رشتہ داروں اور ہمسایوں سے بہتر سلوک کے لیے کہا۔ اُس نے ہمیں عہد و پیمان توڑنے سے منع کیا۔ اُس نے غیر قانونی حرکتوں اور قتل وغارت سے ہمارے منہ موڑ دیے ۔ اُس نے ہمیں تمام ناشائستہ حرکتوں ، جھوٹ فریب ،یتیموں کے مال و دولت ہتھیانے اور پاکباز عورتوں پر جھوٹی تہمتیں گھڑنے سے منع کیا۔ اس نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تلقین کی اور اُس کے ساتھ کسی اورکو شریک ٹھہرانے سے سختی سے روک دیا۔ اُس نے نماز کے قیام ، زکوٰۃ کی ادائیگی اور روزے رکھنے کی تربیت دی ۔
ہم نے اسلام قبول کر لیا
ہمیں اُن کی تعلیمات سچ اور مفید دکھائی دیں ۔ ہم اُس کے سچے دین پر ایمان لے آئے ۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ بھی ناز ل ہوتا تھا ہم اُس پر ایمان لے آئے اور اس کی پیروی کرنے لگے ۔ ہم نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت شروع کر دی ۔ ہم نے کسی اور کو اُس کے ساتھ شریک ٹھہرانے سے انکار کر دیا ۔ جس بات کو انہوں نے حرام قرار دیا ہم نے اُسے حرام تسلیم کر لیا۔ جسے اُنہوں نے حلال کہاہم نے اُسے حلال مان لیا۔
کفا رکی شدید اذیت رسانی
اس پر ہمارے لوگوں نے ہماری اذیت و تعذیب کے انتہائی تکلیف دہ سلسلے شروع کر دیے ۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑ کر بت پرستی کی طرف لوٹانے کے لیے ہمیں طرح طرح کی سخت سزائیں دینا شروع کر دیں ۔ وہ مُصر تھے کہ ہم حرام کو پھر سے حلال مان لیں ۔
زندگی اَجیرن ہو گئی تو ہم نے ہجرت کرلی
روز بہ روز ہم پر ظلم و ستم کی شدتیں تلخ و تیز تر ہوتی گئیں ۔ ہماری زندگی اجیرن ہو گئی ۔ حتیٰ کہ ہمارے لیے اپنے دین کی پیروی ناممکن ہو گئی ۔ ایسے میں ہمارے لیے آپکے ملک کی جانب ہجرت کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ بادشاہ سلامت !کسی اور ملک کی جانب ہجرت کر جانے کی بجائے ہم نے تحفظ کے لیے آپ کی سر زمین کاانتخاب اس لیے کیا کہ ہمیں اُمید تھی کہ یہاں ہم سے نا انصافی نہ ہوگی ۔
ٍنجاشی نے مہاجروں کی واپسی سے انکار کر دیا
شاہ نجاشی نے حضرت جعفرؓ کی مدلل تقریر کو بڑی توجہ اور دلچسپی سے سنا ۔ پھراُس نے حضرت جعفرؓ کو چند قرآنی آیات سنانے کے لیے کہا۔ حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی تلاوت کی۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگیں ،حتیٰ کہ اُس کی ساری داڑھی تر ہو گئی ۔
پھر جذبات پر قابو پاتے ہوئے اُس نے کہا:’’یقینایہ آیات اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات ایک ہی سر چشمے سے نکلی ہیں ۔ بخدا !میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے ہر گز نہ کروں گا !‘‘
اس کے بعد کفار کے وفد سے مخاطب ہوکرشاہ نجاشی نے اُنہیں حبشہ سے نکل جانے کاحکم دیا۔ اُ س نے اُن کے تحائف بھی لوٹا دیے ۔ مکمل طور پر ناکام ہو کر کفار کا وفد انتہائی غم وغصے کے عالم میں واپس مکہ لوٹ آیا۔
حبشہ پر ہجرت کے حیرت انگیز اثرات
نجاشی کے دربار میں حضرت جعفرؓ کی تقریر سے اہل حبشہ پر بہت حیرت انگیز نتائج مرتب ہوئے ۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان آناجانااور قریبی رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کچھ عرصے بعد ۲۰حبشی عیسائیوں کا ایک وفد آنحضورﷺ سے اسلام کے بارے میں رُشد و ہدایت لینے کے لیے مکہ روانہ ہوا۔
اس وفد کے اراکین آنحضورﷺ سے خانہ کعبہ میں ملے ۔ جب آپﷺ نے اُن کے سامنے قرآن حکیم کی تلاوت کی تو وہ سب زارو قطار رونے لگے۔ اُنہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ جب یہ نو مسلم وفد واپس وطن جا رہا تھا تو ابو جہل اُنہیں راستے میں ملااور بڑے تلخ انداز میں کہنے لگا :
’’تم نے اپنامذ ہب چھوڑنے اور اسلام قبول کر نے میں بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے ۔ ہم نے تم سے بڑھ کر احمق کہیں اور نہیں دیکھے !‘‘اس پر اُن نو مسلم حبشیوں نے جواب دیا :’’ہم آپ سے فضول بحث میں اُلجھنانہیں چاہتے۔ مگر ہمیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ہم اچھائی اور سچائی سے دیدہ و دانستہ محروم رہیں ۔‘‘
اس پہلے وفد کے بعد اِسی طرح کے اور وفود بھی مکہ آنے شروع ہو گئے ۔ حبشہ میں اسلام پھیلنے لگااور یوں حبشہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت نے وہاں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار کر دی ۔ بعد میں حبشہ کے ذریعے گرد و نواح کے کئی دیگر ملکوں میں بھی اسلام کی نشر و اشاعت کا آغاز ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۰
شدید معاشرتی اور اقتصادی مقاطعہ
اسلام کی بڑھتی ہوی مقبولیت پر کفارِ مکہ کا غیض و غضب بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔اُ نہیں اس بات کا سخت رنج تھا کہ اُن کی شب وروز کوششوں اور مسلسل اسلام دشمنی کے باوجود آنحضورﷺ کا مقدس مشن آگے بڑھ رہا تھا۔ ہجرت حبشہ کے بعد اسلام جزیرہ نمائے عرب کی حدود پار کر کے کئی اور ملکوں میں بھی پھیلنے لگاتھا ۔ شاہ نجاشی مسلمانوں کا کھلم کھلا حمایتی بن چکا تھا ۔ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے ،اُن سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے حبشہ سے آنے والے وفود کا سلسلہ بڑے زور وشورسے جاری ہو گیا تھا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے کفار کے غم وغصہ میں مزید اضافہ ہوا ۔ اپنے وقت کی ان دونوں عظیم ہستیوں کے قبول اسلام کی ڈرامائی داستانوں کی تفاصیل یوں ہیں :
حضرت حمزہؓ کا اچانک قبولِ اسلام
نبوت کے چھٹے سال ایک روز ابو جہل کوہِ صفا کے قریب آنحضورﷺ کے پاس سے گزرا ۔ اُس نے اپنے مخصوص ذلیل انداز میں آنحضورﷺ پر آوازے کسے ۔ پھر اُس نے اسلام کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی بکے ۔ اپنی اس بد کلامی سے مطمئن نہ ہوا تو آنحضورﷺ کو زخمی بھی کر دیا۔ تاہم حضورﷺ نے صبر وتحمل سے کام لیااور بالکل خاموش رہے۔
اُس روز آنحضورﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ مکہ سے باہر شکار پر گئے ہوئے تھے ۔ اُن کی واپسی پر ایک لونڈی نے جو اس واقعے کی عینی شاہد تھی ، انہیں سب کچھ بتا دیا۔ حضرت حمزہؓ سخت غضب ناک ہو گئے۔ چنانچہ وہ ابو جہل کی تلا ش میں نکل پڑے ۔ اُنہوں نے اُسے ایک جگہ دوستوں کے ساتھ بیٹھے گپیں ہانکتے ہوئے جا لیا۔ حضرت حمزہؓ نے ایک کمان اس زور سے دے ماری کہ ابو جہل کا سر زخمی ہو گیا ۔ پھر سخت لعن طعن کرتے ہوئے حضرت حمزہؓ نے کہا:’’تمہیں اُن کی بے عزتی کرنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟لو اب ذرا دھیان سے سنو ! میں بھی اسلام قبو ل کر رہا ہو ں۔اب سے میں بھی وہی کچھ کہوں گا جو وہ کہتے ہیں ۔ اگر تم میں کچھ دم خم ہے تو میرے ساتھ بھی اُ س جیسا سلوک کرکے دیکھ لو !‘‘
ابو جہل نے سزا اور سر زنش چُپکے سے برداشت کر لی ۔ اُس کے کچھ دوست اُس کی حمایت میں اُٹھے ۔مگر اُس نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے روک دیا:’’اسے جانے دو !آخر میں نے بھی تو اس کے بھتیجے سے بد سلوکی کی ہے ۔‘‘حضرت حمزہؓ پھر وہیں سے سیدھے دارالارقم پہنچے اور اسلام قبو ل کر لیا ۔
حضرت عمرؓ کے قبول اسلام پر اظہار مسرت
نبوت کے چھٹے سال ایک دفعہ عمر بن خطاب نے آنحضورﷺ کوختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک دن آپ خانہ کعبہ میں بیٹھے اسلام کے بڑھتے ہوئے رجحان پر باتیں کر رہے تھے ۔ اسلام کی روز افزوں مقبولیت پر آپ کو اچانک طیش آگیا۔ آپ نے آنحضورﷺ کو شہید کرنے کا تہیہ کر لیا ۔ چنانچہ آپ اپنی بے نیام تلوار اُٹھائے سخت اشتعال انگیز کیفیت میں دارالارقم کی جانب نکل پڑے ۔
راستے میں آپ کو نعیم بن عبداللہؓ مل گئے ۔عمر کے بدلے ہوئے تیور دیکھ اُنہوں نے پوچھا کہ آپ کدھر جا رہے ہیں ۔ عمر نے آپﷺ کو قتل کے منصوبے سے آگاہ کیا تو حضرت نعیمؓ نے اُنہیں بتایا کہ آپکی اپنی بہن فاطمہؓ اور اُن کے میاں دونوں مسلمان ہو چکے ہیں اس لیے پہلے اُنکی خبر لے لینی چاہیے ۔
عمرکے غیض و غضب میں مزید اشتعال پیدا ہو ا۔ وہ وہیں سے سیدھے فاطمہؓ کے گھر جا پہنچے ۔ دونوں میاں بیوی اُس وقت تلاوتِ قرآن میں مصروف تھے ۔عمر سخت غصے کے عالم میں اُن پر جھپٹ پڑے اور انہیں اتنا مارا پیٹا کہ وہ ودونوں لہولہان ہو گئے ۔ تاہم دونوں نے عمر کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ اسلام ترک کرنے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں ۔ اس پر عمر نے اُنہیں قرآنی آیات سنا نے کو کہا۔
قرآن کا سننا تھا کہ مشتعل عمر کی کایا ہی پلٹ گئی ۔ وہ ایک بار پھر دار الارقم کی جانب پلٹے ۔مگر اس بار اُن کی نیت بالکل مختلف تھی ۔ اُسی بے نیام تلوار کے ساتھ وہ نہایت عجز و احترام سے آنحضورﷺکی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ جب اُنہوں نے اسلام قبول کر لیا تو دارالارقم نعرۂ تکبیر کی صداؤں سے گونج اُٹھا ، حتیٰ کہ اللہ اکبر کے گرم جوش نعروں میں آنحضورﷺ بھی شامل ہو گئے ۔ اس عالی مرتبہ اور دلیر شخصیت کے قبول اسلام پر مسلمان بے حد خو ش تھے۔ اُس روز نعرہ تکبیر کی فلک بو س صدائیں مکہ کے طول و عرض میں کافی دیر تک گونجتی رہیں ۔
مسلمانوں کا لرزہ خیز مقاطعہ
مسلمانوں کی کامیابی اور تر قی کے ایسے واقعات سے کفار کی رگِ جاہلیت پھڑک اُٹھی ۔آخر کار اُنہوں نے آنحضورﷺ سے تعلق رکھنے والے دونوں قبیلوں یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کے مکمل بائیکاٹ (مقاطعہ) کا فیصلہ کر لیا۔ مقاطعہ کی طرزِ تحریر بے حد لر زہ انگیز تھی ۔ اس کے لکھنے والے کا نام منصور بن عکرمہ تھا۔
مقاطعہ کی شدت اور جامعیت
مقاطعہ کی زبان بڑی تلخ تھی۔ اس میں اللہ کانام لے کر حلفیہ اقرار کیا گیا تھا کہ جب تک آنحضورﷺ کفار کے حوالے نہیں کر دیے جاتے دونوں قبیلوں کا مکمل مقاطعہ جاری رہے گا ۔ یہ مقاطعہ ان قبیلوں کے تمام چھوٹے بڑے افراد پر لاگو ہوگا۔ دونوں قبیلوں سے شادی بیاہ ، زبانی یا تحریری رابطہ اور ضروریا ت زندگی کی فراہمی مکمل طور پر منع کر دی گئی ۔ اس تحریری مقاطعہ کو کعبہ کی ایک دیوار پر لٹکادیا گیا تا کہ کفار کے سپوتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال کی آگ بھڑکتی رہے ۔
مقاطعہ کے ستم رسیدوں کے لیے جائے پناہ
جب حضرت ابو طالب کو مقا طعہ کا علم ہوا تو اُنہوں نے دونوں متاثرہ قبیلوں کا اجلاس بلالیااور اُنہیں مقاطعہ کے دوران شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہونے کی دعوت دی ۔ شعب ابی طالب کوہِ ابو قبیس کا ایک تنگ سا نیم آباد پہاڑی کوچہ تھا جہاں حضرت ابو طالب کی رہائش بھی تھی ۔ اسے سوق اللیل بھی کہا جاتا تھا۔ آپ نے تمام متاثرین کوخاص ہدایت کر دی تھی کہ شعب میں رہائش کے دوران وہ لوگ کفار کے تمام خطروں سے آنحضورﷺ کو محفوظ رکھیں ۔
مقاطعے کی شدید مشکلات
کفار کا مقاطعہ اُن کی سنگ دلی کی بد ترین مثال تھا۔ شعب کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے ۔ ابو جہل اور ابو لہب خصوصاً اور باقی کفار اکابرین عموماً ابو قبیس کے بے آب و گیاہ پہاڑی ماحول کی با قاعدہ نگرانی کرتے تھے تاکہ مسلمان محصور ین باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہوجائیں ۔ اُن پر قافیہ حیات مکمل طور پر تنگ کر دیا گیا تھا ۔حتیٰ کی اُن پر افلاس اور فاقوں کی نوبت بھی آپہنچی تھی۔ بسا اوقات دودھ اور روٹی کوتر ستے ہوئے بچوں کی دِ ل خراش چیخیں دور دور تک سنائی دیتی تھیں ۔ اس اذیت دہ مقاطعہ اور شدید محاصرہ کے دوران اسلام میں داخل ہونے والے نو مسلموں کی رفتار بھی بے حد متاثر ہوئی تھی ۔
آنحضورﷺ کی بے مثال ثابت قدمی
کفار کی اس وحشت اور سنگ دلی سے آپﷺ کی ثابت قدمی اور استقلال میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔ قید وبند اور ناکہ بندی میں بھی آپ ﷺاور آپﷺ کے ساتھیوں کے ایمان اور حوصلے چٹان کی طرح مضبوط رہے ۔ مقاطعے کے تیسرے سال شق القمر کا واقعہ بھی رونما ہوا۔
سفاک مقاطعے اور مکمل محاصرے کاخاتمہ
پورے تین سال بعد مہلک مقاطعہ اور سفاک محاصرہ ختم کر دیا گیا۔ اذیت رساں مقاطعے کی تنسیخ کے تین بڑے اسباب یہ تھے :
(۱)مقاطعے سے متعلق کفار کی اپنی مشکلات
کفار کے تقریباً تمام قبیلوں اور خاندانوں اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خاندانو ں کی آپس میں رشتہ داریاں اور ازدواجی تعلقات پچھلے وقتوں سے چلے آرہے تھے ۔ ان رشتوں اور تعلقوں کی وجہ مقاطعہ اور محاصرہ دونوں فریقوں کے عمومی میل ملاپ میں بری طرح حائل ہو رہا تھا۔ چنانچہ کفار کے متعدد متاثرہ افراد اور خاندان بھی ایسے شدید مقاطعہ سے سخت نالاں تھے ۔
(۲)محصور خاندانوں سے بڑھتی ہوئی ہمدردی
ناکہ بندی کی تلخیاں ، قید تنہائی کے افسردہ مناظر اور بلکتے ہوئے بچوں کی دِ لخراش صداؤں سے شعب کے گرد و نواح کی بستیوں میں محصور ین کے حق میں ہمدردی کے جذبات فروغ پا رہے تھے ۔ بیرونی ہمدردی اور رحم کے اس تاثر میں روز بروز خاص وسعت اور شدت پیدا ہو رہی تھی ، جس سے مقاطعہ ختم کرنے کے لیے سازگار فضا استوار ہونے لگی ۔
(۳)دیمک والا دلچسپ عنصر
پھر ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔ مقاطعہ کی جو تحریری دستاویز خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکائی گئی تھی اُسے دیمک چاٹ گیا۔ آنحضوﷺ کو اپنی خداداد بصیرت سے ا س بات کا علم ہو گیا۔ آپ نے حضرت ابوطالب کی وساطت سے کفار کو اس سے مطلع کیا۔ وہ موقعہ پر پہنچے تو اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی۔ چنانچہ یہ تاثر پھیلنے لگا کہ قدرت کو بھی مقاطعہ کامزید جاری رکھنا پسند نہیں ۔
انجام کار پورے تین سال بعد نبوت کے دسویں سال مقاطعہ منسوخ قرار دے دیا گیااور ناکہ بندی ختم کر دی گئی ۔ اس مہلک مقاطعے اور محاصرے کے اختتام پر محصور مسلمان خوشی خوشی اپنے گھروں کولوٹ آئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکی زندگی کے آخری تین سال
حالات اور واقعات کے دھارے سے صاف آشکار تھا کہ مکہ کے سفاک کفا ر کے چنگل سے مستقل نجات کے لیے مسلمانوں کو ایک نہ ایک دن مکہ چھوڑناہی پڑے گا ۔ مکہ میںآنحضورﷺ کی مبارک زندگی کے آخر ی تین سا ل میں رونما ہونے والے چند ایک واقعات ایسے ہیں جنہیں بڑی تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔ اس قسم کے چار مندرجہ ذیل واقعات کا ذکر ضروری ہے :
(۱)دو مسلسل اموات کا شدید صدمہ۔
(۲)طائف میں آنحضورﷺ پر بے تحاشہ اذیت ۔
(۳)عقبہ کی بیعتوں سے مدینہ میں فروغِ اسلام۔
(۴)اسراء اور معرا ج کے پر اسرا رسفر ۔
دو مسلسل اموات کا شدید صدمہ
اذیت دہ مقاطعہ کی منسوخی اور وحشیانہ ناکہ بندی کے اختتام پر محصور مسلمانوں کو قدرے سکھ کا سانس نصیب ہوا تھا۔ تاہم اُن کی مسرتیں یکدم پھر حسرتوں اور غموں میں تبدیل ہو گئیں ۔ شعب سے رہائی کے بعد نبوت کے دسویں سال آنحضورﷺ کو یکے بعد دیگرے دو عظیم صدمات سے واسطہ پڑا ۔ اختتا م مقاطعہ کے چھ ماہ بعد آنحضورﷺ کے پیارے چچا حضرت ابو طالب انتقال فرما گئے ۔
آپﷺ ایک مستقل اور با اثر سر پرست اور نڈر محافظ سے محروم ہو گئے ۔ حضرت ابو طالب کی عمر اُس وقت ۸۰ برس تھی ۔
ابھی آپﷺ اس اندوہناک سانحہ کے غم میں ڈوبے ہوئے تھے کہ آپ ﷺکو ایک اور بڑے صدمے سے دو چار ہونا پڑا۔ آپﷺ کی وفا شعار زوجہ ، حضرت خدیجہؓ بھی اُنہی دنوں انتقال فرما گئیں ۔ وفات کے وقت اُن کی عمر ۶۵ سال تھی ۔
غم کاسال
یہ دونوں سانحے آنحضورﷺ کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے ۔ ان بے مثال صدمات نے شعب ابی طالب میں محصوری سے نجات کا سارا مزہ کِر کرا کر دیا۔آنحضورﷺ پر ان کے اس قدر گہرے اثرات مرتب ہوئے کہ آپﷺ نے اُس سال کانام ہی ’’غم کا سال ‘‘(عام الحزن )رکھ دیا۔حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد کفار کے حوصلے بہت بلند ہو گئے اور اُنہوں نے آنحضورﷺ کے خلاف سازشوں اور سزاؤں کے ہتھکنڈے تیز تر کر دیے ۔
طائف میں آنحضورﷺ پر بے تحاشہ اذیت
دسویں سال نبوت کے اُنہی غمناک ایّام میں آنحضورﷺ نے ایک بار طائف جا کر اشاعتِ اسلام کی خواہش کی ۔ آپﷺ نے سوچا کی شاید اُس زرخیزوادی کے خوشحال باشندے آوازِ حق سننے پر آمادہ ہو جائیں ۔ مالی وسائل کی کمیابی کی وجہ سے آپﷺ نے ۷۵ میل کی ساری مسافت پیدل طے فرمائی ۔ حضرت زید بن حارثہؓ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ طائف پہنچ کر آپﷺ نے بنوثقیف کے تینوں سردار وں ، جو سگے بھائی تھے ، سے انفرادی ملاقاتیں کیں مگر نتیجہ بے تعلقی ، مخالفت اور بد سلوکی کے سوا کچھ نہ نکلا۔
گستاخ سردارانِ بنو ثقیف کے آوازے اور تمسخر
اُن دنوں طائف میں تین سردار بھائیوں کی حکمرانی تھی ۔ اُن کے نام تھے:(۱) عبد یا لیل ، (۲) مسعود اور (۳) حبیب ۔آنحضورﷺ کی دعوتِ اسلا م پر لبیک کہنے کے بجائے تینوں نے آپﷺ کا مذاق اُڑایا اور آوازے کسے ۔ ایک بدتمیز سردار نے کہا کہ اگر خدا نے (آپﷺکو)تجھے ہی رسول بنایا ہے تو میں تو غلافِ کعبہ پھاڑ ڈالوں گا۔ دوسرا گستاخ سردار بولا کہ کیا خدا کو رسالت کے لیےّ (آپﷺ)تجھ سے بہتر اور کوئی بھی نظر نہ آیا تھا ؟تیسرا جاہل سردار چلا اُٹھا :اگر آپﷺ اللہ کانام لے کر جھوٹ بول رہے ہیں تو میں تجھ سے بات ہی نہیں کروں گا ۔‘‘
طائف کے بد معاشوں کی سنگ باری
اُن بدنصیب سرداروں نے اسی ہی پراکتفا نہ کی ۔اُنہوں نے وادی کے تمام آوارہ لوگوں اور بدمعاشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا ۔ وہ سب اوباش گلی بازاروں میں نکل آئے اور آنحضورﷺ پر گالیوں اور پتھروں کی بارش شروع کر دی ۔ آنحضورﷺ شدید زخمی ہو گئے ۔ بہتے ہوئے خون سے آپﷺ کے جوتے تک بھر گئے ۔ آپﷺ نے ایک قریبی باغ میں پناہ لے لی۔
آنحضورﷺ طائف کی وادی ، وہاں کے بے مغز سرداروں اور ظالم لوگوں سے ازحد مایوس ہوئے مگر آپﷺ نے پھربھی ہمت و حوصلہ نہ چھوڑا ۔ آپﷺ خاموش اور ثابت قدم رہے ۔ مکہ کی جانب پیدل واپسی پر آپﷺ راستے میں آباد قبائل میں بھی تبلیغ اسلام کرتے رہے ۔ سفر واپسی کے دوران جنوں کی ایک جماعت سے بھی آپﷺ کی ملاقات ہوئی ۔ آپﷺ کو قرآن حکیم تلاوت کرتے سن کر وہ بے حد متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔
آنحضورﷺ بمشکل تمام مکہ واپس پہنچے ۔ چونکہ آپﷺ کو شر پسند کفا ر سے جانی خطرہ تھااس لیے آپﷺ مطعم بن عدی کی اَمان میں اپنے گھر داخل ہوئے ۔ کفار مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانی زوروں پر تھی مگر آنحضورﷺ نے اشاعتِ اسلا م کامقدس مشن بدستور جاری رکھا ۔
عقبہ کی بیعتوں سے مدینہ میں فروغِ اسلام
مدینہ میں اشاعتِ اسلام کی داستاں بڑے اہم ، دلچسپ اور سنسنی خیز واقعات سے مر صع ہے ۔ مدینہ میں اسلام کی مقبولیت میں مکہ میں کی جانے والی مندرجہ ذیل تین بیعتوں کو بڑا عمل دخل حاصل ہے :
(۱)پہلی بیعت عقبہ
پہلی بیعت عقبہ نبوت کے گیارہویں سال منعقد ہوئی ۔ مکہ میں عقبہ کے مقام پر حضورﷺ کو مدینہ کے مشہور عرب قبیلہ خزرج کے چھے ایسے افراد سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اُن دنوں حج کے لیے مکہ آئے ہوئے تھے ۔ عقبہ عربی زبان میں گھاٹی کو کہتے ہیں ۔
آنحضورﷺ نے انہیں اسلام کے بنیادی اُصولوں سے متعارف کرایا ۔ آپﷺ نے چند قرآنی آیا ت کی تلاوت بھی فرمائی ۔ پھر آپﷺ نے اُنہیں اسلام قبول کرنے کی باقاعدہ دعوت دی ۔ اُنہوں نے دعوت قبو ل کر لی اور مسلمان ہو گئے ۔ اُنہوں نے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے وعدہ کیا کہ وہ اسلام کی حمایت کریں گے اور بت پرستی اور بے حیائی سے اجتناب کریں گے ۔ مدینہ واپس پہنچ کر ان نومسلموں نے بڑے وسیع پیمانے پر اشاعت اسلام کاکام شروع کر دیا ،یہاں تک کہ مدینہ کے کئی گلی کوچے اسلام اور آنحضورﷺ کے نام نامی سے گونجنے لگے ۔
(ب)دوسری بیعتِ عقبہ
دوسری بیعت عقبہ بھی اگلے سال حج کے دوران اسی جگہ منعقد ہوئی ۔ اس بار مدینہ سے حج کی غرض سے آئے آدمیوں کی تعداد ۱۲ تھی۔ انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا اور آنحضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے وعدہ کیا کہ وہ بت پرستی اور تمام غیر اسلامی باتوں سے قطعی پر ہیز کریں گے ۔
(ج)تیسری بیعت عقبہ
تیسری بیعت عقبہ تیرہویں سالِ نبوت (جون یا جولائی ۶۲۲ء)کوہوئی ۔ اس دفعہ مدنی زائرین کی تعداد تقریباً ۷۰ تھی ۔ اُنہوں نے اسلام قبول کیااور بیعت کر کے آنحضورﷺ کی حمایت کا عہد کیا۔ اُنہوں نے آنحضورﷺ کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت بھی دی ۔اُس وقت تک اسلام مدینے میں خاصی رفتار سے پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔
مدینہ میں اشاعتِ اسلام پر بھی کفارمکہ کو سخت رنج تھا۔ وہ اکثر حج پر آئے ہوئے نو مسلموں کا پیچھا کرتے ۔ جو کوئی بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتا وہ اُس کی بُری طرح پٹائی کرتے مگر اُن کی یہ اذیت رسانی بھی اہلِ مدینہ میں اشاعتِ اسلام کے بڑھتے ہوئے زور کو نہ توڑ سکی۔ مدینہ کی زرخیز زمین اسلام کے لیے زیادہ مفرح ثابت ہو رہی تھی۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے جلد ہی مدینے کا یہ قدیم شہر ’’مدینتہ الاسلام ‘‘ (یعنی اسلام کا شہر ) کا رنگ روپ دھار لے گا۔
اسراء اور معراج کے پر اسرار سفر
نبوت کے تیرہویں سال کی ۲۷ رجب کو ایک ایسا غیر معمولی اور مبارک واقعہ رونما ہو اجسے ساری تاریخ اسلام میں بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ یہ رات کی تاریکی میں آنحضورﷺ کے آسمانوں کے سفر کا تاریخی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں یو ں ہوا ہے :
سبحٰن الذی اَسری بِعَبْدِ ہ لیلاً من المسجدالحرام اِلی المسجد الاقصا الذی بٰرَکْنَاحَوْلَہٗ لِنُرِیہٗ من اٰیتِنَا
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد
(۱۷:۱) اقصیٰ لے گئی ، جس کاماحول ہم نے با برکت بنا دیاہے ، تا کہ اُسے
ہماری کچھ نشانیاں دکھائی جائیں (1:17)
قرآن حکیم میں تو اس کے علاوہ مزید تفاصیل موجود نہیں ۔ تاہم حدیث اور سیرتی ادب میں اس مشہور اور مُحیر العقل واقعے پر خاصی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
دلچسپ واقعے کاخلاصہ
اس عظیم واقعے کی تفاصیل قرآن حکیم ، احادیث نبوی اور سیرتی حوالوں سے مکمل اور مستند طور پر مرتب ہوتی ہیں ۔ چنانچہ سارے واقعے کے دوبڑے حصے یہ ہیں :(اوّل) بیت الحرام ، مکہ سے مسجدالاقصیٰ ، یرو شلم کا شبانہ سفر (دوم ) پھر اس سے آگے کاآسمانی سفر ۔
اس پر اسرار سفر کی تفاصیل کاخلاصہ یوں مرتب ہوتا ہے کہ ایک رات حضرت جبرائیل ؑ آنحضورﷺ کوخانہ کعبہ سے یرو شلم میں واقع مسجد اقصیٰ میں لے گئے ۔ یہ سفر براق پر طے ہو اجو ایک میانے قد کا پروں والا اَنوکھا چوپایہ تھا۔ مسجد اقصیٰ میں آنحضورﷺ نے پچھلے پیغمبروں کے ساتھ نماز ادا کی ۔ یہاں تک کے سفر کے حصے کانام اسراء ہے جس کا مطلب رات کا سفر ہے ۔
اس کے بعد آپﷺ نے آسمانوں کی سیر فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی حضوری سے سر فراز کیے گئے ۔ سفر کے اس دوسرے حصے کانام معراج ہے جس کے معنی ہیں ’’اوپر چڑھنا ۔‘‘معراج کے دوران آپﷺ کو اسلام کے بارے میں اہم بنیادی ہدایات دی گئیں ۔
تین خدائی تحفے
معراج کے دوران آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین خصوصی تحفے عطا ہوئے ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
(۱) سورۃ البقرہ کی آخری آیات جن میں مسلمانوں کو کفار مکہ کے مظالم سے نجات کی بشارت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام کے بارے میں مزید رُشد و ہدایت اورآ ئندہ نئی مدنی ریاست میں معیشت و معاشرت اور دیگر اہم امور کا ذکر بھی ہے ۔
(۲) یہ خوشخبری کہ مسلم اُمہ کا ہروہ فرد جو شرک کا مرتکب نہ ہوا ہوگایوم قیامت خصوصی بخشش سے نوازا جائے گا۔
(۳) روز مرہ نمازیں جو بعد میں پچاس سے تخفیف کر کے پانچ کر دی گئیں ۔
سارا معاملہ اختتام کو پہنچا تو آنحضورﷺ اُسی رات گھر واپس لوٹ آئے ۔ اللہ تعالیٰ کے مخصوص نظام الاوقات کے تحت یہ سب کچھ فقط لمحہ بھر میں طے پا گیا ۔
کفار کے اعتراضات اور تضحیک و تمسخر
اگلی صبح آنحضورﷺ نے اہل مکہ اسراء اور معراج کے تمام واقعات سے آگاہ کیا تو اس سے سارے شہر میں ایک عجیب اور شدید ہلچل سی مچ گئی ۔ کفار نے تو اس معاملے کو ایک بہت بڑا ایشو بنا لیا ۔ بے ہنگم اعتراضات کی بوچھاڑ کے علاوہ وہ اپنی روایتی گھٹیا تضحیک و تمسخر پر بھی اُتر آئے ۔ اس کے برعکس اکثر و بیشتر مسلمان واقعہ کی صداقت پر ایمان لے آئے ۔ مگر پھر بھی بعض کمزور ایمان مسلمان اس بظاہر عجیب و غریب واقعے کی تفاصیل سے اندر ہی اندر خاصے ہلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
معراج کی اصل غرض و غایت
واقعہ معراج کو تاریخ اسلام میں بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ ہجرت کے دن قریب آرہے تھے۔ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی نئی اسلا می ریاست تحریک اسلامی میں ایک عظیم انقلاب بر پا کرنے والی تھی ۔ اس لیے اس نازک اور مہم مر حلے پر اللہ تعالیٰ نے ضروری سمجھا کہ اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو اپنے حضوربلا کر اُن تمام ضروری اُمور کے بارے میں وہ حتمی ہدایات اور تشریحات دے دی جائیں جنہوں نے مسلمانوں کی آئندہ زندگی میں مرکزی کر دار ادا کرنا تھا۔
ہجرتِ مدینہ کے لیے ساز گار ماحول
ان تمام اہم واقعات سے صاف عیاں تھا کہ ہجرت مدینہ کے لیے سازگار ماحول مرتب ہو چکا ہے ۔ تحریک اسلامی کی فوری اور موثر کامیابی کے لیے مکہ کی نسبت مدینے کا ماحول زیادہ سازگار تھا۔
معیاری اسلامی ریاست کے قیام و انتظام کے لیے بھی مدینہ ہی مناسب جگہ تھی ۔ وہ وقت تیزی سے قریب آرہا تھا جب تحریک اسلامی اور مدینہ کی معیاری اسلامی ریاست سے ساری دنیا کے لیے تعمیر و ترقی کے عدیم المثال چشمے پھوٹنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۲
مدینہ کی جانب تاریخی ہجرت
مسلمانوں پر کفار کے وحشیانہ مظالم کی انتہاء ہو چکی تھی ۔ مکہ میں اُن کا جینا دو بھر ہو گیا تھا۔ کچھ مسلمان پہلے ہی حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔ اکثر مسلمان ہجرت کر کے مدینہ میں آباد ہو چکے تھے ۔ صرف آنحضورﷺ ،حضرت ابو بکرؓ ، حضرت علیؓ اور چند ایک اور مسلمان مکہ میں رہ گئے تھے ۔ آنحضورﷺ ہجرت کے بارے میں الٰہی اجازت کے منتظر تھے ۔
کفار نے آنحضورﷺ کے قتل کا تہیہ کر لیا
مدینہ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مسلمانوں کی خفیہ اور علانیہ ہجرت میں روز افزوں اضافہ سے کفار کے غیض و غضب کا پارہ مزید اوپر چڑھ گیا تھا۔ اُنہیں ڈر تھا کہ اگر کہیں آنحضورﷺ بھی مکہ سے نکل کر مدینہ چلے گئے تو مسلمانوں کو خداداد صلاحیتوں والاایک ایسا بے مثال قائد مل جائے گا ۔ جو اُنہیں ایک بڑی اور نئی طاقت بن کر اُبھرنے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا۔ مدینہ سے گزر نے والی تجارتی شاہراہ کفار کے لیے بند کرنے سے مسلمان اندرونی اور بیرونی تجارت پر کفار کی دیرینہ اجارہ داری بھی ختم کر سکتے تھے ۔
غصے میں بپھرے ہوئے کافروں نے فوراًدارالندوہ میں ، جو اُن کاکونسل ہال تھا، ایک خفیہ اور ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ بند دروازوں کے پیچھے کفار نے آنحضورﷺ کی سزا یابی کے بارے میں مندرجہ ذیل تین تجویزوں پر سنجیدہ غورو فکر شروع کیا:
(۱)لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر عمر قید ،
(۲)مستقل جلا وطنی ،یا
(۳)فوری قتل۔
آخری تجویز ابو جہل نے پیش کی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس ہنگامی اجلاس میں شیطان بھی بھیس بدل کر شریک ہو اتھااور اس نے بھی اسی آخری تجویز کی پر زور تائید کی تھی ۔ فوری قتل کی تجویز بالآخر کثرت رائے سے منظور کر لی گئے ۔
آنحضورﷺ ناکہ بندی توڑ کر نکل گئے
فیصلہ یہ ہوا کہ آنحضورﷺ کو سوتے میں شہید کر دیا جائے ۔ چنانچہ کفار کے مختلف قبائل کے نمائندوں پر مشتمل سپوتوں کا ایک خونخوار جتھہ منتخب کرکے آپﷺ کے مکان کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا گیا ۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اُس رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور مکہ سے نکل جائیں ۔
چنانچہ آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سوجانے ، اگلی صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر دینے اور اس کے بعد مدینہ چلے آنے کے لیے کہہ دیا۔ آپﷺ سورۃ ےٰسین کی آیات تلاوت فرماتے ہوئے محاصرہ توڑ کر صاف نکل گئے اور سیدھے حضرت ابو بکرؓ کے ہاں جا پہنچے جو پہلے ہی بے تابی سے آپﷺ کے منتظر تھے ۔
غارِثور میں تین روزہ قیام
۲۷ صفر تیرہویں سال نبوت کی اُس تاریخی رات کے سناٹے میں حضرت ابو بکر صدیقؓ آنحضورﷺ کو کندھوں پراُ ٹھائے غارِ ثور کے دہانے پر پہنچ گئے ۔ یہ غار مکہ سے تین میل دور جنوب میں کوہِ ثور میں واقع ہے ۔ دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہو اتھا کہ وہ تین دن تک اِسی غار میں چھپے رہیں گے تا کہ اس دوران کفار کے غیض و غضب کی شدت کم ہو جائے اور اُنہیں چھپ چھپا کر مکے سے نکل جانے میں سہولت ہو۔جب یہ دونوں دوست غار میں داخل ہوئے توایک مکڑی نے غار کے دہانے پر جالا بُن دیا۔ قریبی درخت پر ایک کبوتری نے دوانڈے بھی دے رکھے تھے ۔ اس قسم کے قدرتی ماحول سے یہ تاثر غالب ہوتا تھا کہ ایسے ویرانے میں کسی انسان کی موجودگی ممکن نہیں ۔
اگلی صبح جب کفار کو معلوم ہو اکہ آنحضورﷺ اُن کی ناکابندی توڑ کر جا چکے ہیں تو اُن کی وحشت مزید شدید ہو گئی ۔ اُنہوں نے فوراً اعلان کر دیا کہ جو کوئی آنحضورﷺ کو زندہ یا مردہ حالت میں پکڑ لائے گا اُسے ایک سو اُونٹنیوں کا انعام دیا جائے گا۔ اتنے بڑے انعام کے لالچ میں کئی منچلے افراد اور منظّم جتھے اپنی قسمت آزمانے کے لیے آنحضورﷺ کی تلاش میں چل نکلے ۔
ثور سے قبا تک کا سنسنی خیز سفر
آنحضورﷺ اور آپﷺ کے جانثار ’’یار غار ‘‘نے ہجرت کے لیے مکمل اور خفیہ منصوبہ پہلے ہی سے تیارکر رکھا تھا۔ آنحضورﷺ کی اس مختصر جماعت میں یہ چار افراد شامل تھے :(۱) خود آنحضورﷺ (۲) حضرت ابو بکرؓ (۳)آنحضورﷺ کا ایک آزاد کر دہ غلام حضرت عامر بن فہیرہؓ (۴)ایک اُجرتی سفری رہنما عبداللہ بن اریقط ۔
یکم ربیع الاوّل ، نبوت کے تیرہویں سال یہ چھوٹی سی جماعت تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہو کر غار ثور سے روانہ ہوئی ۔ پیچھا کرنے والوں سے بچ نکلنے کے لیے عام راستے سے ہٹ کر طویل ساحلی راستہ اختیار کیا گیا تھا ۔ مختلف سفری حادثوں اور واقعوں سے گزرتے ہوئے یہ مختصر کاروانِ ہجرت بالآ خر ۸ربیع الاول (۲۰ ستمبر ۶۲۲ ء ) کو قبا پہنچ گیا۔
قبا مدینے سے تین میل دور ایک گاؤں کانام ہے ۔ قبا میں آنحضورﷺ نے تقریباً دو ہفتے قیام فرمایا ۔ وہاں پہنچتے ہی آپﷺ نے سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر فرمائی ۔ یہ مسجد خطۂ زمین کی پہلی مسجد ہے ۔جس کی تعمیر میں آنحضورﷺ نے پورا حصہ لیا۔
مدینہ میں والہانہ استقبال
آنحضورﷺ کی تشریف آوری کی خبر مدینہ کے گلی کوچوں میں خوش گوار خوشبو کی مانند مہک رہی تھی ۔ فرط اشتیاق سے مسلمان آپﷺ کے والہانہ استقبال کی تیاریوں میں ہمہ تن مصروف تھے ۔
جوں ہی کاروانِ ہجرت ثنیات الوداع میں داخل ہوا،ا نصار مدینہ کے بچوں کے اس استقبالی گیت کی سُروں کی گونج سے ساری فضا جھوم اُٹھی :
طلع البدر علینا۔ ہم پہ چودھویں کاچاند نکل آیا
من ثنیات الوداع ۔ ثنیات الوداع کی جانب سے
وَجَبَ الشکر علینا۔ اب ہم پر شکر واجب ہے
ماداع اللہ داع ۔ جب تک کوئی اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے
ایھالمبعوث فینا۔ اے ہم پر بھیجی جانے والی ہستی !
جئت بالامر المطاع۔ آپﷺ کی اطاعت فرض ہے !
اس ولولہ انگیز نغمے کی سریلی دُھنیں ساری فضا میں گونج رہی تھیں ۔ آنحضورﷺ اپنی اونٹنی سے نیچے اُتر آئے اور چھوٹے بچوں سے پیار اور شفقت کی باتیں کرنے لگے ۔ پھر آپﷺ شہر کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہاں لوگ گلی بازاروں میں جوق در جوق جمع ہو چکے تھے ۔ ہر طرف مسرت اورشادمانی کا دور دورہ تھا۔ ہر کوئی اپنے پیارے نبی ﷺ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سخت بیتاب تھا۔
مسجد نبوی کی تعمیر اور اس کا مرکزی مقام
عقبہ میں قیام کی مانند آنحضورﷺ نے مدینہ منورہ میں بھی تشریف لاتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی ۔ جس قطعۂ زمین پر اس کی تعمیر ہوئی وہ دو یتیموں کی ملکیت تھا۔ وہ مسجد کی تعمیر کے نیک کام کے لیے اپنا یہ قطعہ تحفتاًدینا چاہتے تھے مگر آنحضورﷺ نے اسے قیمتاً خریدنا ہی مناسب سمجھا ۔ مسجد قبا کی طرح مسجد نبوی کی تعمیرمیں بھی آپﷺ نے خود بھی مزدوری کا پورا پورا کام کیا۔ مسجد کے اندر آنحضورﷺ کی رہائش کے لیے بھی ایک حصہ تعمیر کیا گیا ۔ رہائش کی تعمیر کی تکمیل تک آپ حضرت ایوب انصاریؓ کے ہاں ٹھہرے رہے ۔ اس عظیم مسجد کو قرآن حکیم کی آیت (108:9)میں مذکور ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔
سب کچھ ہو چکا تو مدینے کا پرانا نام یثرب تبدیل کرکے نیا نام ’’مدینتہ النبی ‘‘(نبی کا شہر) رکھ دیا گیا۔ بعد میں اس عظیم شہر کو مختصر اور موجودہ نام یعنی مدینے سے بھی یا د کیا جانے لگا۔ جب ہجرت کے ابتدائی کام ہو چکے تو آنحضورﷺ نے زیادہ اہم امور پر توجہ دینا شروع کر دی ۔ اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی معیشت و معاشرت کی تعمیر کے تمام مر حلوں میں مسجد نبوی ہمیشہ مرکز و محو بنی رہی ۔
ہجرت کی تاریخی اہمیت
تاریخِ اسلام میں خصوصاً اور عالمی تہذیب و تمدن میں عموماًہجرت مدینہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔ ذیل میں تاریخی اہمیت کے ان تمام پہلوؤں پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
(۱) اسلامی کیلنڈر کا نکتہ آغاز
عہد نبوت حتیٰ کہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت تک اسلامی کیلنڈر کاکوئی باضابطہ نظام واضح نہیں ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک دفعہ ایرانی اور رومی کیلنڈر وں کے نمونے زیر غور آئے تھے مگر یہ سب مسترد کر دئیے گئے تھے ۔ اس پر حضرت علیؓ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ واقعہ ہجرت کو اسلامی کیلنڈر کا نکتہِ آغا ز مقرر کر دیا جائے ، اپنی معقولیت کی بناء پر یہ تجویز کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ۔ اسی وجہ سے اسلامی کیلنڈر ہجری کیلنڈر کہلاتا ہے ۔
(۲)ہجرت کی دینی اہمیت
ہجرت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب دین کی سوجھ بوجھ ، تعلیم وتعمیل اور نشرو اشاعت کے لیے ایک معیاری اور سازگار ماحول فراہم کیا۔ اس عظیم واقعہ نے اسلا م کے خلاف کفارِ مکہ کے تمام ناپاک منصوبوں اور سازشوں کو خاک میں ملا دیا۔ ہجرت کا ذکر سورۂ توبہ کی چالیسویں آیت میں ہوا ہے ۔ ہجرت نے مسلمانوں کی معیشت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کی جڑیں مزید مضبوط کر دیں ۔ کفار مکہ ہجرت کی ہمہ جہت دینی اہمیت خوب سمجھتے تھے اسی لیے اُنہوں نے اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگایا تھا مگر ان سب مہلک حربوں کے باوجود وہ ناکام رہے تھے ۔
(۳)ہجرت کی سیاسی اہمیت
ہجرت ہی نے پہلی معیاری اور فلاحی اسلامی ریاسست کا سنگِ بنیاد رکھا۔یہ عظیم اسلامی ریاست تقویٰ و طہارت ، تعمیر و ترقی ، فلاح و بہبود اور امن و تحفظ کے اسلامی اُصولوں پر استوار ہوئی تھی ۔ اس عظیم معیاری فلاحی ریاست کاقیام ، تنظیم اور کار گزاری دُنیا کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد سنگ میل کا مقام رکھتی ہے ۔
(۴)ادبی اور ثقافتی اہمیت
ہجرت سے ایسے ایسے لطیف الفاظ اور محاورے وجود میں آئے جن کا تعلق اس عظیم واقعہ کے کسی نہ کسی پہلو سے تھا۔ مثلاً عربی میں ’’غار کا ساتھی ‘‘(رفیق فی الغار )کا جملہ عام استعمال ہونے لگا۔ اس طرح فارسی اور اُردو میں حضرت ابو بکرؓ کی طرح کے مخلص دوست کے لیے ’’یار غار ‘‘ (غار کا دوست ) کی ترکیب بہت مقبول ہو گئی ۔
ظاہر ہے ہجرت کو ساری تحریک اسلامی میں خصوصاً اور عالمی تہذیب و تمدن میں عموماًبے حد اہمیت حاصل ہے ۔عصر جدید میں خصوصاً روح ہجرت کے احیاء کی شدید ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۳
نیا اسلامی معاشرہ اور نئی اسلامی ریاست
آنحضورﷺ کی ساری زندگی مختلف مورچوں اور محاذوں پر نیکی و اچھائی ، تعمیر و ترقی کے فروغ اور بدی و برائی کے انسداد کے لیے ہر قسم کے چھوٹے بڑے جہادوں میں گزری ہے ۔ مکی زندگی میں عہد نبوت کے ۱۳ سال آپ ﷺبدخصلت کفار سے نبرد آزما رہے ۔ اُنہوں نے ایک لمحہ بھر کے لیے بھی آپ ﷺ کو سکھ چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ اُنہوں نے آپ ﷺ کو انجام کار اپنا مقدس مشن کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر کے مدینہ کی جانب بعجلت تمام ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ۔
مدینہ کا معاشرتی اور سیاسی نقشہ
مدینہ کے معاشرتی اور سیاسی حالات مکہ کی نسبت خوش گوار دکھائی دیتے تھے ۔ تاہم آپ ﷺ کو مختلف سمتوں سے مخالفت کا سامنا بھی تھا۔ مشکلات اور تشویش کے تین بڑے مراحل مندرجہ ذیل تھے:
(۱)طاقتور یہودیوں کااثر و رسوخ
مدینہ کے گرد و نواح میں بسنے والے دولت مند یہودی بڑی طاقت ور اور بااثر جمعیت بن چکے تھے ۔ آنحضورﷺ کو ان سے نمٹنے کے لیے بڑی فراست ، سلیقے اور ہمت سے کام لینا پڑا ۔
(۲)سازشی منافقوں کی تخریبی کارروائیاں
مدینہ کی ایک خاصی تعداد منافقوں پر بھی مشتمل تھی ۔ بدنام عبداللہ بن اُبی ان کا سر غنہ تھا ۔ یہ لوگ بظاہر مسلمان نظرآتے مگر دراصل اسلام اور مسلمانوں کے سب سے زیادہ خطر ناک دشمن تھے ۔
(۳)ضبط بعید کے عادی کفارِ مکہ
کفار مکہ جو دور بیٹھے بھی مسلمانوں کو سکھ چین کاسانس لینے کا موقع نہیں دیتے تھے ، وہ اپنی مختلف ریموٹ کنٹرول حرکتوں اور حملوں سے مدینہ میں گڑ بڑ کے منصوبے بناتے رہتے تھے ۔
آنحضورﷺ نے ان تمام دشمنوں سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے ہمیشہ اپنے خداداد تدبر اور بصیرت سے کام لیا۔
مہاجرین اور انصار کا معاملہ
سب سے پہلا ضروری قدم جو آنحضورﷺ نے اُٹھایا وہ اندرونی حالت کااستحکام تھا۔ اُس دور کے مدنی مسلمان مندرجہ ذیل دو فریقوں پر مشتمل تھے:
(۱)مکہ سے آکر بسنے والے مہاجرین
یہ وہ مصیبت زدہ مسلمان تھے جو مکہ سے نہایت ابتر حالت میں مدینہ پہنچے تھے ۔ وہ اپنے پیچھے اپنے عزیز و اقارب ، اپنامال و دولت ، اپنے مکان اور سامان غرضیکہ اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے کیونکہ کفار مکہ نے اُنہیں کچھ بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دی تھی۔ یہ ساری قربانیاں اُنہوں نے محض اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر دی تھیں ۔ ان کی کل تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تھی اور ان میں سے اکثر مفلسی اور قلاشی کی انتہائی منزلوں تک بھی پہنچ چکے تھے۔
(۲)مدینہ کے مقامی انصار
یہ وہ مقامی مسلمان تھے جو پہلے ہی سے مدینہ میں آباد تھے ۔ انہیں انصار یا مدد گار اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے مصیبت زدہ مہاجر بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرتے تھے تا کہ وہ مدینہ کی معیشت و معاشرت میں باعزت طور پر بحال ہو سکیں ۔
انصار اور مہاجر ین میں بھائی چارہ
دونوں فریقوں کو آپس میں مستقل طور پر متحد و متفق کرنے کے لیے آنحضورﷺ نے ایک عہد نامۂ اخوت یعنی موآخات رائج کیا۔ اس کے تحت انصار اور مہاجرین آپس میں سگے بھائی قرار دیے گئے ۔ہر انصاری کے لئے ایک مہاجر کو بھائی بنا دیا گیا۔انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے گھر کا آدھا سازو سامان ،حتیٰ کہ ساری جائیداد کا نصف بھی بخوشی دے دیا ۔ اُخوت اور شراکت کا یہ جذبہ اس قدر شدید تھا کہ اسلامی قانون وراثت میں بھی متعلقہ تبدیلیاں کرنا پڑیں ۔ اس موقع پر مدینہ کی مسلم آبادی کی پہلی مردم شماری بھی کی گئی ۔ اس کے مطابق تقریباً ۱۵۰۰ مسلمانوں کے نام درج کیے گئے ۔
تمام انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی امداد کے کام میں بڑے جوش و جذبے ، ایثار و قربانی اور رضا و رغبت کا عملی ثبوت دیا۔ بعد میں تمام مہاجرین کو اُجرتی کام کاج میسر آنے لگے تو اُنہوں نے خودہی انصار سے موآخاتی مدد لینا بند کر دی ۔ موآخات کا یہ تجربہ آنحضو ر ﷺ کی خداداد فہم و فراست کا ایک تخلیقی شاہکارتھااور یہ مکمل طور پر کامیاب اور ثمر آور ثابت ہوا۔
میثاقِ مدینہ (عہد نامۂ مدینہ )
ّآنحضورﷺ بڑی شدو مد سے نئی نویلی اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی میں مصروف تھے ۔ آپﷺ کی دو ردرس نگاہیں مدینہ کے اندر اور باہر تمام سمتوں کا مکمل احاطہ کر رہی تھیں ۔
مدینہ کے نواحی علاقوں میں یہودیوں کو کافی اثر و رسوخ حاصل تھا۔ اُنہیں نظر انداز کر دینا یا اُن سے تصادم میں اُلجھنا کوئی مصلحت نہ تھی ۔ اس طرح کے جذباتی اقدا م طرح طرح کے سنگین خطرات کو دعوت دینے کے مترادف تھے۔ آنحضورﷺ نے یہ مناسب سمجھا کہ پُر امن بقائے باہمی کے لیے معقول و مؤثر اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ یہودیوں سے کوئی بامقصد اور معنی خیز معاہدہ نا گزیر دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ یہودیوں کونئی اسلامی ریاست کے انتظام اور دفاع میں شریک کرنے کے لیے آنحضورﷺ نے ایک عہد نامہ مرتب کیا جس کی چند اہم شقیں یہ تھیں :
(۱) اپنے ایمان اور مذہبوں کے بارے میں مسلمانوں اور یہودیوں کو مکمل آزادی ہوگی ۔
(۲) فریقین کو داخلی انتشار اور تصادم کی فضاختم کر کے تعاون اور امن سے کام لینا ہوگا۔
(۳) فریقین زندگی اور اَملاک کے مکمل تحفظ سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے رہیں گے ۔
(۴) مسلمانوں پر کسی بھی حملے کی صورت میں شہر کادفاع دونوں فریقوں کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی ۔
عظیم عہد نامے کے مثبت نتائج
میثاق مدینہ کو اسلام کے ابتدائی دَور کا منشور عظیم (میگنا کارٹا)بھی کہا جاتا ہے ۔ اس سے مدینہ کے سب لوگوں کو امن اور تحفظ کی ٹھوس ضمانت میسر آئی ۔ آنحضورﷺ کے تدبر اور خداداد بصیرت کا لوہا سب مان گئے ۔ آپﷺ کو مسلمہ قائداور تیزی سے اُبھرتی ہوئی فلاحی ریاست کاحقیقی سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ مدینہ کے دفاع اور نظم و نسق کو یوں منظّم و مستحکم کر کے آپﷺ نے نئی نویلی اسلامی ریاست کی محفوظ اور ٹھوس بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے لیے معیاری ماحول فراہم کر دیا ۔
آئندہ دور کے مایوس کن انکشافات
میثاق مدینہ کے بعد رونما ہو نے والے واقعات نے مسلمانوں پر یہ حقیقت بار بار آشکار کر دی کہ اُن کے تین دشمنوں یعنی یہودیوں ، مشرکین اور منافقوں سے اُن کے تعلقات کسی صورت بھی صحت مند اور پُر امن نہیں رہ سکتے ۔ اس سارا عرصہ یہودیوں اور مشرکین آنحضورﷺ پر قاتلانہ حملے کرتے رہے اور مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا جنگیں لڑتے رہے ۔ مکار یہودی تو آپﷺ کے خلاف خطر ناک کالا جادو بھی استعمال کرتے رہے ۔ اُنہوں نے آنحضورﷺ کے وصال پر علانیہ جشن بھی منائے ۔ مشرک بھی آپﷺ کے قتل کی مسلسل سازشیں کرتے رہے ۔ فتح مکہ تک وہ آپﷺ کے خلاف پے در پے جنگیں لڑتے رہے ۔ مکار منافق اسلامی فوج میں بھگوڑوں کا کردار اد ا کرنے اور بغض آلود افواہیں پھیلانے میں بھی مسلسل مصروف رہے۔اُنہوں نے واقعہ افک میں آنحضورﷺ کی معزز و محترم شریک حیات حضرت عائشہؓ کو بلیک میل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
یہ اور اس طرح کے مزید واقعات نے یہ حقیقت قطعی واضح کر دی کہ دشمنوں کی یہ مکاراور خطر ناک تگڈم پر امن بقائے باہمی کے لیے آنحضورﷺ کی اَن تھک اور مسلسل کوششوں کو ہمیشہ ناکام بنانے کی دُھن میں رہی ۔ وہ ہر لحظہ عہد شکنیوں ، مخالفتوں ، سازشوں اور محاذ آرائیوں کی ٹوہ ہی میں رہتے تھے ۔
تعمیر و ترقی کے بنیادی اُصول
آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ہمت و حوصلہ کی نعمتوں سے بھی خوب سرشار کر رکھا تھا۔ دشمنوں کی ان بداخلاقیوں سے خائف یا بد دل ہونے کی بجائے مدینہ کی نئی ریاست کے استحکام او ر ارتقاء کے لیے آپﷺ مسلسل محنت و مشقت فرماتے رہے ۔ اس اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی کے لیے آنحضورﷺ ان بنیادی اُصولوں کی پابندی فرمایا کرتے تھے :
(۱) اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ
اسلامی ریاست اور معاشرہ کے ہر معاملہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنا۔
(۲)شریعت کی اسلامی بنیادیں
اسلامی شریعت یعنی قانون کی بنیادوں کا صرف قرآن اور سنت پر استوار ہونا۔
(۳)آسان ، فوری اور سستا انصاف
انصاف کا حصول ہر کسی کے لیے فوری ، سستااور آسان ہونا۔
(۴)اجتماعی زندگی کے امتیازی نشان
اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کے امتیازی نشانوں کا تعاون ، ہمدردی اور صداقت پر مبنی ہونا۔
(۵)تعلیم سب کے لیے لازمی
تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کا سب کے لیے لازمی ہونا۔
(۶) اللہ تعالیٰ کی منصفانہ اقتصادی تقسیم کار
اللہ تعالیٰ کی منصفانہ اقتصادی تقسیم کار میں کسی قسم کی رخنہ اندازیوں سے قطعی پر ہیز جس سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہو یا جس کے نتیجے میں اجارہ داریاں ، ارتکازِ دولت ، غربت ،محرومی اور مایوسی میں اضافہ ہو۔
(۷)دولت کا جائز استعمال
یہ بات دل و جاں سے تسلیم کرلینا کہ تمام دولت اور وسائل کا واحد مالک صرف اللہ ہی ہے اور انسان اللہ کی دی ہوئی دولت کا صرف امانت دار ہے ۔ اس لیے تمام دولت کاا ستعمال منشائے الٰہی کے عین مطابق ضروری ہے ۔
(۸)ذاتی زندگی میں اعتدا ل
ذاتی زندگی کے تمام شعبوں میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا اور ہر قسم کی انتہا پسندیوں سے پر ہیز کرنا۔
(۹)اقتصادی اور کاروباری معاملات میں صحت و انصاف
تمام مالی اور تجارتی لین دین میں صحت اور انصاف کا پاس رکھنا۔
(۱۰) میثاقوں اور معاہدوں کی پابندی
ذاتی ، معاشرتی ، قومی اور بین الاقوامی سطوح پر کیے گئے تمام میثاقوں اور معاہدوں کا سختی سے احترام اور پابندی کرنا۔
(۱۱) محنت و اُجرت
محنت کا معقول معاوضہ اور اُجرت کی بر وقت اور صحیح ادائیگی ہونا۔ جبری مشقت کا قطعی ممنوع ہونا۔
(۱۲)نسلِ انسانی کا قدرتی سلسلہ
نسل انسانی کے قدرتی سلسلے میں مصنوعی طریقوں سے گڑ بڑ سے گریز کرنا۔
(۱۳)جنسی ضلالتوں کاخاتمہ
ہر قسم کی جنسی قباحتوں ، خرابیوں اور ضلالتوں کا خاتمہ کرنا۔
(۱۴)حرمتِ حیات کا احترا م
انسانی زندگی کا احترام کرنااور ہر قسم کے قتل و غارت اور خود کشی سے پر ہیز کرنا۔
(۱۵) انسانی حقوق و فرائض کا احترام
تمام انسانی حقوق اور فرائض کا احترام کرنا۔
(۱۶)یتیموں کے حقوق کی اوّلیت
یتیموں کے حقوق کو اولیت دینا۔
(۱۷)جھوٹ اور افواہ سے اجتناب
ہر قسم کے جھوٹ اور افواہ کا سخت محاسبہ اور مواخذہ کرنا۔
(۱۸) فکر اور عمل میں توازن
فکرو عمل کے ہر پہلو میں توازن ، مقصد یت اور طہارت کو نمایاں رکھنا۔
یہ تھے چند وہ رہنما اُصول جو آنحضور ﷺ نے مدینہ کی اسلامی ریاست اور مسلمان معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیشہ زیر فکر و عمل رکھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب :۱۴
اسلام کی دو اِبتدائی جنگیں
غزوہِ بد
غزوہ بدر اور غزوہ اُحدابتدائی تاریخِ اسلام کے دو عظیم معر کے متصور ہوتے ہیں ۔ ذیل کی سطور میں ان ہر دو معرکوں کے اسباب او ر حالات پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔
دشمنان اسلام کی خفیہ سازشیں
غزوہِ بدر کے اسباب متعدد ہیں۔مکی زندگی میں خفیہ اشاعتِ اسلام کے ابتدائی سالوں میں آنحضورﷺ کو صرف ایک بڑے دشمن یعنی کفار سے ہی پالا پڑا تھا ۔ مگر مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد متعدد ایسے دشمنوں سے بھی آپﷺ کا واسطہ پڑنے لگا جن کی حیثیتیں ، ہیئتیں اور طاقتیں مختلف تھیں ۔ تاہم ان سب دشمنوں میں ایک مشترک عنصر یہ تھا کہ وہ سب اسلا م اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے ۔ ان اسلام دشمن طاقتوں کامختصر بیان درج ذیل ہے :
(۱)عہد شکن یہودی
میثاق مدینہ کے واضح عہد نامہ کے باوجود مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی خطرناک سازشوں میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے ۔
ّ(۲)چھپے دشمن منافق
مدینہ کے منافق بظاہرمسلمان نظر آتے تھے مگر دراصل مسلمانوں کے جانی دشمن تھے ۔
(۳)ضبط بعید کے ماہر کفار
مکہ سے ریموٹ کنٹرول طریقوں سے مدینہ میں بیٹھے مسلمانوں کو تنگ کرنے میں کفار نے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھے ۔ اُنہیں اس قسم کے نا سازگار واقعات پر پہلے ہی انتہائی غم وغصہ تھا۔ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں مسلمانوں کی کامیابیاں ، عقبہ کی بیعتوں کے ذریعہ مدینہ میں اشاعت اسلام ، اُن کی سخت ناکہ بندی کے باوجود آنحضورﷺ کا اُن کامحاصرہ توڑ کر نکل جانا وغیرہ ، وغیرہ ۔اتنی دور بیٹھے کفار مکہ ،مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں سے مل کر مسلمانوں کے خلاف خطر ناک سازشیں کرتے رہتے تھے ۔
کفار کے تجارتی کاروان سے جنگی کشیدگی
کفارِ مکہ اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے مسلمانوں پر ایک بھر پور اور نتیجہ خیز حملہ کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ جنگی اخراجات برداشت کرنے کے لیے اُنہوں نے ایک عظیم الشان تجارتی قافلہ تیار کیااور اسے ابو سفیان کی سر کر دگی میں شام روانہ کر دیا ۔ اس عظیم تجارتی منصوبے سے حاصل ہونے والے منافع کو وہ جنگی اخراجات پر خرچ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے ۔
اس تجارتی منصوبے سے اُنہیں بہت منافع ہوا۔ جب یہ تجارتی قافلہ وطن واپس روانہ ہوا تو اسے حسبِ معمول مدینہ سے گزر نا تھا۔ مدینہ میں مسلمانوں کی مداخلت کے خدشہ کی وجہ سے ابو سفیان نے کفا ر کو مکہ میں ایک ضرور ی پیغام بھیجا تھا کہ اُسے حفاظت کے لیے کچھ مسلح دستے بھیج دیے جائیں ۔ اس کے جواب میں کفار نے فوراً ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کر کے عتبہ کی کمان میں مدینہ روانہ کر دیا۔
اسی اثناء میں ابو سفیان نے کسی ممکنہ تصادم سے بچنے کی خاطر اپنے تجارتی قافلہ کارُخ موڑ دیا تھااور اسے لمبے ساحلی راستے پر ڈال دیا تھا۔ اب چونکہ تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا، اس لیے ابو سفیان نے عتبہ کے لشکر کو امن وامان سے مکہ واپس لوٹ جانے کے لیے پیغام بھیج دیا۔ تاہم ابو جہل اور متعدد دوسرے جنگجو کافر اس بات پر مُصر تھے کہ لشکر کفار کو مدینہ پر حملہ آور ہو کر اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دینا چاہیے۔ چنانچہ لشکر کفار اپنے پورے جاہ و جلال اور غیض و غضب کے ساتھ مدینہ کی جانب رواں دواں رہا۔
میدانِ بدر میں فوجوں کا تصادم
آنحضورﷺ کو کفار کی ان تما م کاروائیوں کی اطلاع مل چکی تھی ۔آپﷺ نے بھی حملہ آور دشمن سے نبر د آزمائی کا تہیہ کر لیا۔ اسلامی فوج ۳۱۳ افراد پر مشتمل تھی ۔ اس کے پاس صرف دو گھوڑے اور ۷۰ اُونٹ تھے ۔ تعداد میں بہت کم ہونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی مناسب سازو سامان بھی نہ تھا۔ حتیٰ کہ بعضو ں کے پاس ہتھیار کی بجائے اُونٹوں کی ہڈیاں ہی تھیں ۔آنحضورﷺ خود اسلامی فوج کی کما ن کر رہے تھے ۔ اس کے برعکس کفار کالشکر ۱۰۰۰ افراد پر مشتمل تھا۔ اُن کے پاس ۲۰۰ گھوڑے اور ۷۰۰ اونٹ تھے ۔ وہ تلواروں ، تیر کمانوں اور نیزوں سے پوری طرح مسلح تھے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کا بھی وافر سامان موجود تھا۔
دونوں فوجیں بدر کے گاؤں میں خیمہ زن ہوئیں اور میدانِ بدر میں دونوں کے درمیان یہ تاریخی تصاد م رونما ہوا ۔ بدر مدینے سے تقریباً ۶۰ میل دور ایک مشہور گاؤں کانام ہے ۔
جنگِ بدر کے نفع نقصان کا کھاتہ
جنگ بدر حق و باطل کا پہلا معنی خیز تصادم تھا جو ۱۷ رمضان ، ۲ ہجری (۱۳ مارچ ۶۲۴ء ) کو لڑی گئی ۔ اُن دنوں اہل عرب میں جنگوں کے روایتی مرحلے یہ ہوا کرتے تھے :
(۱) ابتدائی شدید دھمکیوں اور توہین آمیز کلمات کا تلخ تبادلہ
(۲) انفرادی مقابلے اور نبرد آزمائیاں ،اور
(۳) عام تصادم اور باضابطہ جنگ ۔
پہلے دو مراحل ختم ہوتے ہی تیسر اخونین مرحلہ شروع ہوا۔ جنگ شروع ہوتے ہی ابو جہل اور متعدد دوسرے کافر اکابر یکے بعد دیگرے مرتے رہے ۔ پھر کچھ عرصہ بعد شدید آندھی کا طوفان شروع ہوا۔ کفار کے حوصلے پہلی ہی اُکھڑ چکے تھے ۔ چنانچہ وہ میدا ن جنگ سے دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اُن کے ۷۰ آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بھی بنا لیے گئے ۔ صرف ۱۴ مسلمان شہید ہوئے ۔
فاتح مسلمانوں کو ۱۱۴ اونٹ اور ۱۵ گھوڑے ہاتھ آئے ۔ مال غنیمت میں کافی کپڑے، غالیچے ، چمڑے کی مصنوعات اور اسلحے کاایک ڈھیر بھی شامل تھے۔
مدینہ میں مسرتیں اور شادیانے ، مکہ پر غم وغصہ کی شدید گھٹائیں
مدینہ میں گھر گھر مسرت اور شادمانی کا ددور دورہ تھا ۔ مسلمانوں نے اپنی شان دار فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ اُن کے ہمت و حوصلہ بلند تر ہو گئے ۔
جب کفار کی عبرت ناک شکست کی خبر مکہ پہنچی تو سار اشہر غم اور مایوسی کی تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ گھر گھر ماتم کی صدائیں بلند ہو نے لگیں ۔ ابو لہب بیماری کی وجہ سے جنگ میں شامل نہ ہوسکا تھا۔ ایک ہفتہ بعد وہ غموں اور صدموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔
اجتماعی حوصلے بلند رکھنے کے لیے اکابرین کفار نے فیصلہ کیا کہ مقتولین بد ر کے افسوس میں آہ و بکااور غم وغصہ کاکوئی بر ملا اظہار نہ کیا جائے ۔ سارا شہر انتقام اور قصاص کے شعلو ں میں جل رہا تھا ۔
کفار کے جنگی قیدیوں سے مہذب سلوک
مروّجہ طریق کار کے بالکل بر عکس مسلمانوں نے کفار کے جنگی قیدیوں سے نہایت مہذب سلوک کیا ۔ آنحضورﷺ نے خصوصی ہدایات دے رکھی تھیں کہ قیدیوں کی اذیت رسانی یاتوہین ہر گز نہ کی جائے ۔ اُن کی رہائی کے لیے مندرجہ ذیل طریق کار وضع کیا گیا ۔
(۱) وہ قیدی جو فدیہ کی رقم فوری طور پر ادا کر سکتے تھے ، انہیں فوراًرہا کر دیا گیا۔
(۲) وہ قیدی جو سخت مفلسی کی بناء پر کسی قسم کا فدیہ ادا کرنے کے قابل نہ تھے ، اُنہیں بھی فوری طور پر رہا کر دیا گیا۔
(۳) اسلحے اور جنگی سامان کے عوض بھی رہائی کی اجازت دے دی گئی ۔
(۴) پڑھے لکھے قیدیوں پر یہ شرط عائد کی گئی کہ وہ مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو اُنہیں بھی بغیر فدیہ لیے رہا کر دیا جائے گا۔
فتح بدر کی عظیم اہمیت
جنگِ بدرعہد جاہلیہ کی قدروں میں پروان چڑھے ہوئے کافروں اور اسلام کے اُبھرتے ہوئے نظام نو میں پلنے والوں کے درمیان پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا۔مسلمانوں کی فتح سے اسلام کے مقام اور وقار کی دھاک بیٹھ گئی ۔ اس سے مدینہ کے گرد و نواح میں بھی مسلمانوں کا وقار بہت بلند ہوا۔ وقت کے دھار ے کارُخ بدلتا دیکھ کر کئی بدوی قبائل بھی پرچم اسلام کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے ۔
اس کے بر عکس کفارِ مکہ کی عزت و آبرو خاک میں مل چکی تھی ۔ اُن کے متعدد نام ور سیاسی اکابر ختم ہو چکے تھے۔اُن کی عسکری قوت کو شدید دھچکا لگا تھا۔ اُن کا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ بُری طرح بکھر چکا تھا ۔ وہ بری طرح مایوس و مغلوب ہو چکے تھے ۔ ایک روشن دماغ اور نئی طاقت کے طور پر مسلمانوں کو اُبھرتا دیکھ کر اُن کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو رہے تھے ۔
مدینہ کی نئی نویلی اسلامی ریاست کی بقاء اور احیاء کی راہ ہموار ہو چکی تھی ۔ آئندہ سالوں میں اس عظیم فلاحی ریاست نے انسانی معیشت و معاشرت کا ایک ایسا صحت مند نمونہ پیش کرنا تھا جسے عن قریب ایک عظیم مفرح معیار تسلیم ہو نا تھا۔
غزوہ اُحد
غزوہ بدر میں شکست فاش سے کفار میں انتقام کے شعلے بھڑک اُٹھے تھے ۔ اُن کے بہترین مدبر اور نام وَر اکابر جنگ میں کام آ چکے تھے ۔ اپنے مقتولین جنگ کی غم آلود یادیں اُن کے اعصاب پر بُری طرح سوار تھیں ۔ ابو سفیان نے عہد کر لیا تھاکہ مقتولین بدر کا انتقام لیے بغیر وہ نہ تو غسل کرے گا اور نہ ہی سر میں تیل ڈالے گا۔ تقریباً ہر کافر خاتون اپنے مقتول باپ ، بھائی ، خاوند ، بیٹے یا رشتے دار کے سوگ میں نوحہ کرتی نظر آتی تھی ۔ مکے کی ساری فضا مایوسی و افسردگی اور توحش و اضطراب میں ڈوب گئی تھی ۔ آتشِ انتقام کو فروزاں رکھنے کے لیے کفار شعراء غم آلود مرثیے لکھتے تھے اور شعلہ بیان خطیب اشتعال انگیز تقریریں کرتے تھے ۔
عظیم اقتصادی بحران
اس جذباتی المیے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اقتصادی بحران کے بادل بھی مکہ کے گلی کوچوں پر منڈلا رہے تھے۔ کفار نے مسلمانوں کو اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے ۰۰۰،۵۰،۲درہم سے زائد رقم فدیہ کے طور پر ادا کی تھی ۔ شامی تجارتی شاہراہ شکست کے بعد تقریباً بند ہو چکی تھی ۔ کفار کی اس زبوں حال اقتصادی کیفیت سے ہر گھر بُری طرح متاثر ہو چکا تھا۔
چنانچہ شدید جذباتی خلجان کے علاوہ مکی معیشت کی تنزل پذیر حالت بھی نفرت و انتقام کے شعلے بھڑکا رہی تھی ۔ ایسے میں انتقام کے لیے ان کی جنگی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری رہیں ۔
مدینہ پر حملہ آور لشکرِ کفار
انجام کارکفارنے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر لیا۔ وہ مدینہ پر حملے کے لیے ۳ ہجری (۶۲۵ ء) کو مکہ سے روانہ ہو گئے ۔ لشکر ۰۰۰،۳ جنگجوؤں پر مشتمل تھا ، ان میں سے ۷۰۰ نے زرہیں پہن رکھی تھیں ، ۲۰۰ گھڑ سوار اور۳۰۰ اونٹ سوار تھے ۔ لشکر میں عورتوں کا ایک خصوصی دستہ بھی شامل تھا جس کی قیادت ابو سفیان کی بدنام بیوی ہند کر رہی تھی ۔ عورتوں کا دستہ اس قسم کے جنگی اور شہوانی گیت گا گا کر فوجیوں کو جوش دلا رہا تھا۔
کافر عورتوں کے جنگی گیت
بڑھو گے تم آگے تو ہم لگا لیں گی گلے تم کو
تمہارے پاؤں تلے قالیں بچھا ئیں گی ہم
میدان سے پر اگر بھاگ نکلے کہیں تم
روٹھ کر تم سے کبھی پھر اُلفت نہ کریں گی ہم
مسلمانوں کی دفاعی حکمت عملی
مسلمانوں کو دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاع رفتہ رفتہ مل رہی تھی۔ اُس روز نمازِ جمعہ کے بعد آنحضورﷺ نے اپنی زرہ بکتر پہن لی ۔ آپﷺ نے اپنی تلوار بھی پہلو میں لٹکا لی ۔ آپﷺ ۱۰۰۰ افراد پر مشتمل ایک لشکر کی قیادت میں مدینہ سے میدان جنگ کی جانب روانہ ہوئے ۔ جہاد کا ذوق و شوق اس قدر نمایاں تھا کہ کئی کم عمر لڑکے بھی لشکر میں شمولیت کے لیے ضد کر رہے تھے ۔راستے میں منافقوں کا سر غنہ عبداللہ بن ابی بہا نہ بنا کر اپنے تین سو کے دستے سمیت اسلامی فوج سے کھسک گیا۔ اُس کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی ، جن میں ۱۰۰ افراد زرہ بکتر پہنے ہوئے تھے ۔
مسلمان لشکر مدینہ سے شمال کی جانب تین میل دور واقع کوہ احد کے دامن میں خیمہ زن ہو گیا۔ اُحد کی ایک جانب ایک چھوٹا سا پہاڑی درّہ ہے ، جسے جبل العینین کہتے ہیں ۔ آنحضورﷺ کوخدشہ تھا کہ دشمن اس درّہ سے ہو کر عقب سے حملہ آور نہ ہو۔ آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی کمان میں منجھے ہوئے پچاس تیر اندازوں کاایک دستہ اس درّے کی حفاظت پر متعین کر دیا۔ اس دستے کوآپ ﷺ کی ہدایات یہ تھیں :’’اپنے تیروں سے دشمن کے گھڑ سواروں کو ہم سے دور رکھنا ۔ جنگ کا پانسا ہمارے حق یاہمارے خلاف پلٹے تو تم نے عقب سے دشمن کو ہم پر ہر گز حملہ آور نہیں ہونے دینا ۔ اپنے مورچے پر ہر حالت میں ڈٹے رہنا تا کہ دشمن ہمیں اس سمت سے مغلوب نہ کر سکے ۔‘‘تیر اندازوں کے اس اہم مورچے والے معاملے کی پوری سوجھ بوجھ بے حد ضروری ہے کیونکہ جنگِ اُحد کا تمام تر محو رو مر کز یہی اہم پہاڑی محاذ ہے ۔
تیر اندازوں کا مورچے سے فرار
مسلمانوں کی تعداد نسبتاً کم تھی اور وہ دشمن فوج کا ایک چوتھائی بھی نہ تھے ۔ تاہم وہ اس قدر بے جگری سے لڑے کہ حملہ آور کفار کے چھکے چھوٹ گئے ۔ اُن کے اکابر یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اُترنے لگے ۔ آخر کار اُن کے حوصلے ٹوٹ گئے اور اُمیدوں پر پانی پھر گیا ۔ اُن کا زنانہ دستہ بھی چاروں طرف سے گھر گیا ۔ کافر جنگ میں برکت اوربرتری کے لیے اپنے ہمراہ ایک بڑا بُت بھی اُٹھا لائے تھے ۔ اُن کے لشکر میں اضطراب اور ابتری پھیلنے سے وہ بُت بھی اوندھے منہ زمین پر گر گیا۔ جب خوف اور وحشت کے عالم میں کافر فوجی میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو اُس بت کو اپنے ہی قدموں تلے روند تے چلے گئے ۔
کفار کا لشکر جرار اب بھگوڑوں کی بزدل فوج میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بہادر مسلمان فوجیوں نے کچھ فاصلے تک تو بھاگتے ہوئے کافروں کا تعاقب جاری رکھا پھر وہ مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے ۔ جب پہاڑی درّے کے محافظ تیر انداز وں نے اپنے بھائی بندوں کو مال غنیمت سمیٹتے دیکھا تو وہ اپنے پیغمبر ﷺ کی واضح ہدایات نظر اندا ز کر کے پہاڑی مورچہ چھوڑ کر خود بھی اس لوٹ مار میں شامل
ہو گئے ۔ اُن کے کمانڈر نے اُنہیں بہت روکا مگر مال غنیمت کے لالچ نے اُنہیں اندھا کر دیا تھا ۔ صرف چند اطاعت گزاراور وفا شعار تیر انداز ہی پہاڑی مورچے پر بدستور ڈٹے رہے ۔
جیتی ہوئی جنگ کی شکست میں تبدیلی
اسی اثنامیں خالدبن ولید (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے ۔) کی کمان میں کافر فوج کا ایک تازہ دم دستہ پیچھے سے اُس پہاڑی درّے پر آپہنچا ۔ درّے کے چند بچے کھچے محافظ تیر انداز خالد کے دستہ کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور ایک ایک کر کے سب شہید ہو گئے ۔ خالد نے بڑے زور کا جنگی نعرہ بلند کیا۔ اس سے بھاگتے ہوئے کافروں کی جان میں جان آگئی ۔ اُن کے حوصلے بلند ہو گئے اور اُنہوں نے پیچھے مڑ کر از سر نو لڑنا شروع کر دیا۔ مال غنیمت سمیٹنے والے مسلمان فوجی دونوں طرف سے دشمن کے جال میں بری طرح پھنس گئے ۔ جنگ کا پانسا بڑی تیزی سے کفار کے حق میں پلٹنے لگا۔
اپنے پیغمبر ﷺ کی نا فرمانی مسلمانوں کو بہت مہنگی پڑی ۔ کچھ عرصہ تو میدان جنگ میں عجب کہرام اور ابتری کا سماں طاری رہا۔ اسی دوران کفار کے ایک غلام ،وحشی نے حضرت حمزہؓ کو شہید کر ڈالا۔ ہند نے اُسے اس کام کے لیے بیش بہا انعام و اکرام اور آزادی کالالچ دے رکھا تھا ۔ کئی نا م ورمسلمان جام شہادت نوش کر چکے تھے اور متعدد زخمی ہو چکے تھے ۔ حتیٰ کہ آنحضورﷺ بھی شدید زخمی ہو گئے تھے ، جب میدان جنگ میں آپﷺ کی شہادت کی افواہ بھی گردش کرنے لگی تو لشکر اسلامی کے حوصلے مزید پست ہو گئے ۔
فتح کے نشے میں مخمور کفار کی ذلیل حرکتیں
مغرور کفار فتح کے نشے میں بُری طرح مخمور ہو چکے تھے ۔ وقفے وقفے کے بعد وہ خوشی کے نعرے بلند کرتے اور اپنے چہیتے بتوں کے نام پکارتے ۔ جنگ کا زور ٹوٹتے ہی ابو سفیان نے یہ اختتامی اعلان کیا:’’ہم نے بدر کی ہزیمت کا بدلہ پوری طرح چکا دیا ۔ اب ہم اگلے سال بدر ہی میں ایک با ر پھر تم سے نبرد آزما ہوں گے۔‘‘
کفار کی بد خصلت عورتیں مسلمان شہداء کی نعشوں کی بے حرمتی ، بد شکلی اور قطع اعضا میں مصروف رہیں ۔ ہند نے حضرت حمزہؓ کے چہرے کو بری طرح مسخ کر دیا تھا۔ آپ کے اعضاء کاٹ کر اُس نے ایک ہار بنا رکھا تھا۔ جسے پہن کر وہ بڑے مغرور انداز میں میدان جنگ میں اِدھر اُھر گھو م رہی تھی ۔ آنحضورﷺ کو ان وحشیانہ حرکتوں سے سخت دکھ ہوا۔ آپﷺ نے حکم دے رکھا تھاکوئی مسلمان انتقامی طور پر بھی اس قسم کی وحشیانہ حرکتوں کا ارتکاب ہر گز نہ کرے ۔
فاتح کافروں کے ۱۲ فوجی مارے گئے تھے۔ اُنہیں دفنا کر وہ میدان جنگ سے واپس مکہ روانہ ہوئے ۔ اس کے بعد مسلمانوں نے اپنے شہید وں کو دفنانا شروع کیا۔ شہداء کی تعداد ۷۰ تھی ۔
حوصلہ کی بحالی کے لیے دشمن کا تعاقب
اگلی صبح یعنی ۱۶ شوال ۳ ھ (یکم اپریل ۶۲۵ ء ) آنحضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ صورت حال کا جائزہ لیا۔ مسلمانوں کی ہمت و حوصلہ خاصے پست ہو چکے تھے ۔ گرتے ہوئے حوصلے کی بحالی کے لیے فیصلہ یہ ہوا کہ مکہ لوٹتے ہوئے فاتح کفار کا پیچھا کیاجائے ۔ چنانچہ آنحضور ﷺ کی کمان میں ایک مختصر سا دستہ ترتیب دیا گیااور دشمن کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ یہ تعاقبی دستہ مدینہ سے تقریباً ۸ میل دور واقع مقام حمر الاسد میں جا اُترا ۔ اُس وقت تک کفار ابھی ایک قریبی گاؤ ں روحا تک ہی پہنچ پائے تھے۔
مسلمانوں کا یہ دستہ وہاں تین دن تک ٹھہرا رہا۔ وہ راتوں کو آگ کے بڑے بڑے الاؤ جلاتے رہے تا کہ دشمن یہ سمجھے کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ انتقامی جنگ لڑنے کے لیے بے تا ب ہیں ۔ تاہم ابو سفیان اور دوسرے کافر اکابر نے بہتر ہی سمجھا کہ مزید تصاد م کاخطرہ مول لینے کے بجائے مکہ واپسی کا سفر جاری رکھا جائے ۔ کچھ عرصہ بعد مسلمانوں کا دستہ بھی مدینہ واپس لوٹ آیا۔ آنحضورﷺ کی اس جرأت مندانہ کارروائی سے مسلمانوں کے حوصلے از سر نو بلند ہو گئے اور اُن کے غموں اور صدموں کی شدت میں خاصی کمی واقع ہوئی ۔ چنانچہ وہ حسب دستوراپنے روز مرہ معاملات زندگی کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتے گئے ۔
رنج و غم کے بادل اور دشمنوں کے طعنے
جنگ اُحد میں ابتداًمسلمان فتح یاب ہو چکے تھے ۔ اپنے بابصیرت پیغمبر ﷺ کی واضح ہدایات سے تغافل سے اُن کی فتح شکست میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ اُنہیں اس شکست کا سخت صدمہ تھا۔ مدینہ پر رنج وغم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ آہوں اور سسکیوں کی دِ ل خراش صدائیں ہر طرف سنائی دے رہی تھیں ۔ غمزدہ عورتیں اپنے عزیز متوفیوں پر اونچی اونچی آہ و بکا کر رہی تھیں ۔ کئی عورتیں سینہ کوبی ، منہ نوچنے ، کپڑے پھاڑنے اور بین کرنے میں مصروف نظر آتی تھیں ۔ مُردوں پر اظہار غم کا یہ انداز قبل از اسلام دور جاہلیہ کا آئینہ دار تھا۔ اس لیے آنحضورﷺ نے اس قسم کی آہ و بکا کی سختی سے ممانعت کر دی ۔
مسلمانوں کی اس افسردہ حالی پر مدینہ کے یہودی اور منافق بغلیں بجا رہے تھے ۔ وہ اس اندوہ ناک عالم میں مسلمانوں کی اندوہ ناک طعنہ زنی سے بہت لطف محسوس کر رہے تھے ۔ اُن میں سے زیادہ بدتمیز لوگ تو مسلمانوں سے اس قسم کے سوال بھی کرنے لگے :’’اگر بدر کی فتح تمہارے پیغمبر ﷺ کی صداقت کا ثبوت تھی تو اُحد کی شکست کا کیا طلب ہوا؟‘‘
مسلمان ان تمام طعنوں اور پھبتیوں کو صبر وتحمل سے سہتے رہے ۔ اِ ن سب باتوں کے باوجود وہ اپنے پیغمبرﷺ کی رہنمائی میں اپنی نوزائیدہ ریاست کی تعمیر و ترقی میں بڑی جاں فشانی سے منہمک رہے ۔
شکست اُحد کی اہمیت
جنگ اُحد میں مسلمانوں کی شکست کو بے حد تاریخی اور سیاسی اہمیت حاصل ہے ۔ اس عظیم سانحہ کے چند اہم پہلو یہ ہیں :
(۱)مسلمانوں کی شکست کا استحصال
مسلمانوں کی شکست کے بعد متعدد خانہ بدوش عرب قبائل نے مسلمانوں سے اپنی وفاداریاں ختم کرنا شروع کر دیں ۔ کفار مکہ نے اس صورت حال کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور کئی اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانا اوربھڑکانا شرو ع کر دیا ۔
(۲)مسلمان مشنری معلموں کی شہادت
کئی غیر مہذب قبائل نے مسلمان مشنریوں کو شہید بھی کر دیا ۔ ان میں سے کئی مشنری معلم ایسے بھی تھے جو اُن قبیلوں کی اپنی درخواست پر بھیجے گئے تھے ۔
(۳)شکست کا درسِ عظیم
جنگ اُحد کی شکست نے مسلمانوں کو ایک بہت بڑا سبق بھی سکھا یا۔ وہ درس عظیم یہ تھا:’’پیغمبر ﷺ کی حکم عدولی بہت مہنگی پڑتی ہے ۔‘‘
بہر کیف ان سب باتوں کے باوجود مدینہ سے گزرنے والی عظیم تجارتی شاہراہ پر مسلمانوں کی اجارہ داری بدستور قائم رہی ۔ مسلمانوں کے پاس کفار مکہ کے خلاف یہی بہت بڑا اور مؤثر حربہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۵
چودہ معرکوں کے دلچسپ واقعات
پچھلے باب میں اسلام کی دو مشہور ترین جنگوں کے واقعات بیان کیے گئے تھے ۔ اس باب میں اسلام کی چودہ اہم جنگوں کے دلچسپ واقعات مختصر اًبیان کیے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک بنیادی بات یاد رہے کہ ابتدائی دورِ اسلام کی ہر اُس جنگ کو غزوہِ کہتے ہیں جس میں آنحضورﷺ خود بنفس نفیس شامل ہوئے ۔ سو پچھلے باب میں مذکور دونوں جنگیں اور اس باب میں بیان کر دہ جنگیں سب کی سب غزوات ہیں ۔ اس باب میں مذکور چودہ جنگوں کے نام یہ ہیں :(۱) غزوہ سویق (۲) غزو ہ بدر الاُخریٰ (۳) غزوہ ذات الرقاع (۴) غزوہِ دومۃ الجندل (۵) غزوہِ خندق (۶) غزوہِ بنو قریظہ (۷) غزوہِ بنی مصطلق(۸) غزوہِ بنو لحیان (۹) غزوہِ ذی قرد (۱۰) غزوہِ خیبر (۱۱) غزوہِ موتہ(۱۲) غزوہِ حنین (۱۳) غزوہِ طائف اور (۱۴) غزوہِ تبوک ۔
(۱) غزوہ سویق
ٍ ۱۲ رمضان المبارک ۲ ھ غزوہ بدر میں کفار مکہ کو شکست فاش ہو چکی تھی ۔ اس پر ابو سفیان نے تہیہ کیا تھاکہ جب تک مقتولینِ بدر کا انتقام نہیں لیا جاتا وہ نہ تو غسل کرے گا اور نہ ہی سر میں تیل ڈالے گا۔ وہ اس دن سے مدینہ کے مسلمانوں کے پیچھے بری طرح سے پڑا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ وہ دوسو گھڑ سواروں کاایک مسلح دستہ لے کر مدینہ پر دھاوا بولنے کے لیے چپکے چپکے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُن کے پاس راشن کے طور پر ستو کی کافی بوریاں بھی تھیں ۔اُ نہوں نے آتے ہی مدینہ میں قتل وغارت ، لوٹ مار اور دہشت گردی کا اُدھم مچا دیا۔ اس پر آنحضورﷺ چند مسلمان ساتھ لے کر حملہ آور دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے نکل آئے مگر ابو سفیان کا دستہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس غزوہ کانام غزوہ سویق اس لیے ہے کہ عربی میں سویق ’’ستو ‘‘کو کہتے ہیں ۔ جلدی اور خوف میں بھاگتا ہوا دشمن راستے میں اپنی ستو کی بوریاں پھینکتا گیاتا کہ گھوڑوں کا بوجھ ہلکاہواور اُنہیں بہ آسانی بھاگ نکلنے میں کوئی د قت نہ ہو۔
(۲)غزو ہ بدر الاُخریٰ
جنگ اُحد میں فتح یابی کے بعد میدان جنگ سے واپس لوٹتے وقت ابو سفیان نے کہا تھا :’’اب ہم اگلے سال بدر میں تمہارا مقابلہ کریں گے ۔‘‘آنحضورﷺ نے ابو سفیان کی یہ دھمکی یادرکھی تھی ۔ چنانچہ آپﷺ ۱۵۰۰ ساتھیوں کے ساتھ ایک دستے کی قیادت کرتے ہوئے یکم ذیقعدہ ۴ ھ (اپریل ۶۲۶ء ) کو بدر جا پہنچے۔ اُدھر ابو سفیان بھی ۲۰۰۰ کا ایک لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوچکا تھا ، مگر مسلمانوں کی عسکری طاقت اور بلند حوصلوں سے خائف ہو کر وہ راستے ہی میں خفیہ طور پر واپس چلا گیا تھا۔ آنحضورﷺ اُس کے انتظار میں آٹھ دن مسلسل بدر ہی میں ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد آپﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔
تاریخ اسلام میں سرد جنگ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ یہ غزوہ ان تین ناموں سے مشہور ہے :(۱) غزوہ بدر الاخریٰ ، (ب) غزوہ بدر الثانیہ او ر (ج) غزوہ بدر الموعد ۔
(۳)غزوہِ ذات الرقاع
ایک روز آنحضورﷺ کو یہ اطلاع موصول ہوئی کے مسلمان کا مخالف قبیلہ بنو غطفان ذات الرقاع کے مقام پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ آنحضورﷺ فوراً ۴۰۰مسلمانوں کاایک دستہ لے کر ذات الرقاع کی جانب روانہ ہو گئے ۔ اس پر دشمن دُم دبا کر بھاگ نکلا ۔ بھاگتا ہو ادشمن اپنے پیچھے کافی سازو سامان چھوڑ گیا۔ مسلمانوں نے کافی مال غنیمت اکٹھا کر لیا۔ چونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ کہیں بھگوڑا دشمن لوٹ کر حملہ آور نہ ہوجائے اس لیے وہ جلدی جلدی مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے اور راستے میں صلوٰۃ الخوف بھی پڑھتے رہے ۔
(۴)غزوہِ دُومۃ الجندل
غزوہِ ذات الرقاع کے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ دشمن کے کچھ لوگ دُومۃ الجندل میں جمع ہو کر خطر ناک سازشوں اور تخریب کاریوں کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ دومۃ الجندل حجاز اور شام کی درمیانی شاہراہ پر بحیرہ احمر اور خلیج فارس کے درمیان واقع ایک نخلستان کانام تھا۔ آنحضورﷺ فوراً دومہ روانہ ہو گئے ۔ مگر مسلمانوں کو دور سے دیکھتے ہی دشمن بھاگ کھڑا ہوا ۔
(۵) غزوہِ خندق
اس مشہور غزوہ میں ایک طرف تو آنحضورﷺ کی قیاد ت میں مسلمان تھے اور دوسری جانب کفارِ مکہ اور اُن کے تمام حلیفوں کی متحد ہ فوج تھی ۔ دشمن کے مدینہ پر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے اور آنحضورﷺ کے حکم پر مدینہ کی اُس غیر محفوظ طرف پر ایک ۱۵ فٹ گہری خندق کھود لی گئی تھی جو تجارتی شاہراہ سے ملحق تھی ۔ خندق کی کھدائی میں ۳۰۰۰ مسلمانوں نے دن رات سخت محنت کی تھی اور اس کٹھن کام میں آنحضورﷺ بھی برابر شریک رہے تھے۔ کھدائی کے بعد خندق کو پانی سے بھر دیا گیا۔
حملہ آور دشمن خندق پر پہنچ کر بالکل بے بس ہو گیا۔ انہیں اس انو کھی اور غیر عرب طریق دفاع پر سخت حیرت اور مایوسی ہوئی ۔ اُنہوں نے خندق کے پار خیمہ زن ہو کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر خندق عبور کر کے مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو سکے ۔ محاصرہ کے دوران مسلمانوں کو بھی متعدد دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ایک روز شدید آندھی کا طوفان اُمڈ آیا۔ ساتھ ہی موسلا دھار بارش بھی شروع ہو گئی ۔ تیز سرد ہواؤں کے جھونکوں سے دشمن کے خیمے اُکھڑ گئے ۔ اُنہیں مجبور اً محاصرہ ختم کر کے بھاگنا پڑا ۔
غزوہ خندق سے مدینہ کی معیشت ، عسکری قوت اور سیاسی وقار پر بڑے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ۔ اس غزوہ کا ذکر قرآن حکیم میں سورہ نمبر ۳۳ کی نویں ، دسویں اور گیارہویں آیات میں ہوا ہے ۔ غزوہ خندق کو غزوہ احزاب (اتحادیوں کی جنگ ) بھی کہا جاتا ہے ۔
(۶) غزوہ بنو قریظہ
بنو قریظہ یہودیوں کا ایک طاقتور قبیلہ تھا جو خیبر میں آباد ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے غزوہ خندق میں حملہ آور دشمن کی مدد کی تھی ۔ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مسلسل مصروف رہے تھے۔ آنحضورﷺ نے اُن کے مضبوط قلعوں اور مورچوں کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد بنو قریظہ نے آخر کار ہتھیار ڈال دیے ۔ اُنہیں اُن کی اپنی مقدس کتاب تورات کی روشنی میں مختلف سزائیں دی گئیں ۔قرآن مجید کی سورہ نمبر ۳۳ کی آیات نمبر ۲۶اور ۲۷ میں اس واقعے کا ذکر ہوا ہے ۔
غزوہ خندق اور غزوہ بنو قریظہ میں پے در پے کامیابیوں کے بعد مسلمانوں کو مدینہ میں بہت استحکام میسر آیا ۔ دشمن کے لیے مزید سازشوں اور بغاوتوں کے مواقع بہت کم اور محدود ہو گئے ۔
(۷) غزوہ بنی مصطلق
اس مشہور غزوہ کو متعدد پہلوؤں سے تاریخ اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ رجب ۵ ھ کو آنحضورﷺ کو اطلاع ملی کی قبیلہ بنی مصطلق مسلمانوں کے خلاف جنگ آزمائی پر تلابیٹھا ہے ۔ چنانچہ آنحضورﷺ مکہ میں اس باغی قبیلہ کے مر کزکی جانب روانہ ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی دو ازواج مطہرات ، حضرت عائشہؓ اور حضرت سلمیٰؓ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھیں ۔ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد دشمن نے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
غزوہ کے اختتام پر حضرت عائشہؓ کسی ضرورت کے لیے باہر نکلیں ۔ راستے میں اُ ن کا ذاتی ہار گر کر کھو گیا ۔ اس کی تلاش میں آپ کا کچھ وقت صرف ہو گیا ۔ آپ جب واپس لوٹیں تو مسلمان لشکر کوچ کر چکا تھا ۔ آپ کا ذاتی اونٹ بھی فوج کے ساتھ جا چکا تھا ۔ بات یہ ہو ئی تھی کہ حضرت عائشہؓ کا وزن بہت کم تھا۔ جب سار بانوں نے آپ کا ہودہ زمین سے اُٹھا کر آپ کے ذاتی اونٹ پر لادا تو اُنہوں نے سمجھا کہ آپ ہودے کے اندر تشریف فرما ہو چکی ہیں ۔
حضرت عائشہؓ پریشانی کے عالم میں وہاں کھڑی تھیں کہ اتنے میں ایک صالح نوجوان صفوان بن معطل بھی اُدھر آنکلا ۔ وہ بھی کسی وجہ سے اسلامی فوج سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اُس نے اُم المومنینؓ کو یوں پریشان دیکھا تو بصد احترام اپنے اونٹ سے نیچے اُتر آیا ۔ حضرت عائشہؓ کو اونٹ پر سوار کر کے وہ خود مہار تھامے آگے آگے پیدل چلنے لگا۔
ساری مسافت طے کر کے جب یہ دونوں افراد مدینہ پہنچے تو منافقوں کے سر غنہ عبداللہ بن ابی کی شریر نگاہیں اُن پر جا پڑیں ۔ بس پھر کیا تھا ۔ اُس بد طینت منافق نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر طرح طرح کے غلیظ آوازوں اور بہتان تراشیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔اُس کے بے بنیاد الزام اور غلیظ تہمتوں کے آوازے جلد ہی مدینہ کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے اور یوں ان سب اُلٹی سیدھی تہمتوں کا گھر گھر چرچا ہونے لگا۔ حتیٰ کہ حضرت حسان بن ثابتؓ ایسے جلیل القدر شاعر بھی اُ س منافق اعظم کے چکر میں آگئے ۔ اُنہوں نے اس سُنی سنائی تہمت کے بارے میں کچھ مذمتی اشعا ربھی کہہ ڈالے ۔
گپ اور تہمت کی اس مذموم فضا سے حضرت عائشہؓ اور آنحضورﷺ کی صحت اور اُ ن کے باہمی تعلقات بھی کافی متاثر ہوئے ۔ پھر ایک روز دفعتاً ایک وحی نازل ہوئی (21-17,11:24)جس میں حضرت عائشہؓ کی معصومیت کی وضاحت کی گئی تھی ۔ اور یوں ایک خطرناک منافق کے ایک بھونڈے چکر کا بخیر و خوبی خاتمہ ہوا۔ حضرت حسانؓ کے علاوہ حمنہ اور بنت جحش نے بھی اس جھوٹی تہمت کی اشاعت میں حصہ لیا تھا اس لیے ان تینوں کو اسلامی شریعت کے قانون قذف کے تحت سخت سزائیں دی گئیں ۔ جرم قذف کا مطلب پاک باز خواتین پر بے بنیاد الزام تراشی کرنا ہے ۔ بعد میں حضرت حسانؓ کو جب اصل حقیقت کا پتا چلا تواُ نہوں نے بے حد اظہار ندامت کیااور حضرت عائشہؓ کی شان میں تعریفی اشعار بھی کہے ۔ اس غزوہ کو ’’غزوہ مریسیع ‘‘بھی کہا جا تاہے ۔
(۸) غزوہ بنو لحیان
مکہ کے قبیلہ بنو لحیان نے حضرت خبیب بن عدیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو بڑی بے دردی سے شہید کر ڈالا تھا ۔ چھٹی ہجری کے موسم گرما میں آنحضورﷺ مسلمان شہداء کا انتقام لینے روانہ ہوئے ۔ اس مہم کو مکمل طور پر مخفی رکھا گیا تھا مگر بنی لحیان کو کسی طرح اس کی اطلاع مل گئی اور وہ بڑی سرعت سے پہاڑوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے ۔ وہ اپنے پیچھے کافی مال غنیمت چھو ڑ گئے ۔
اس کے بعد آنحضورﷺ نے بھاگتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں ۲۰۰ گھڑ سواروں کاایک دستہ حضرت ابو بکرؓ کی کمان میں روانہ کیا مگر اُنہیں شر پسند بھگوڑوں کاکوئی کھوج نہ مل سکا ۔ چنانچہ بنو لحیان کا تعاقب ترک کرکے مسلمان مدینہ واپس چلے آئے ۔
(۹) غزوہ ذی قرد
مدینہ سے تقریباً بارہ میل دُور غابہ کے مقام پر ایک مشہور چراگاہ ہوا کرتی تھی ، جہاں آنحضورﷺ کی بکریاں اور اونٹ چرتے تھے۔ ربیع الثانی ۶ ھ کی ایک رات بنو غطفان کے ایک سردار نے ۴۰ گھڑ سواروں سمیت چراگا ہ پر ہلہ بول دیا۔ حملہ آوروں نے چراگاہ کے نگران کو شہید کر دیااور چند اونٹ بھی ہنکا کر ساتھ لے گئے ۔
آنحضورﷺ نے بھاگتے ہوئے قاتل چوروں کا تعاقب کیا۔ آپﷺ نے انہیں راستے ہی میں جا لیااور ان سے مسروقہ اونٹ بر آمد کر لیے ۔ آپﷺ پانچ دن بعد مدینہ واپس لوٹے ۔
(۱۰) غزوہِ خیبر
مدینہ سے تقریباً ۱۱۰ میل شمال مشرق میں سات زرخیز وادیوں کاایک حسین سلسلہ واقع تھا جو خیبر کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر یہودی قوت اور وقار کاایک مضبوط مر کز بن چکا تھا۔ یہودیوں کے بااثر اور طاقتور سرداروں نے خیبر کی وادیوں میں اہم جگہوں پر مضبوط قلعے اور کمین گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں ، جنہیں علاقے میں یہودی عسکری قوت کا محکم نشان سمجھا جاتا تھا ۔ انہی قلعوں میں شہر پسند یہودی مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف رہتے تھے ۔
محرم ۷ ھ کے دوران ۱۶۰۰ افراد کے ایک بڑے فوجی دستے کی کمان کرتے ہوئے آنحضورﷺ خیبر کی جانب روانہ ہوئے ۔ یہودی بھا گ کر فوراً اپنے قلعوں میں چھپ گئے ۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے محاصرے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ انفرادی تصادموں اور خونی مبارزتوں کے سلسلے کئی روز تک جاری رہے ۔ یہودیوں کے مشہور قلعہ ناعم کو فتح کرنے کے لیے آنحضورﷺ نے پہلے حضرت ابو بکرؓ کو روانہ کیا مگر وہ قلعہ سر نہ کر سکے ۔ اگلے روز مہم حضرت عمرؓ کے سپرد کی گئی ۔ آپ بھی ناکام واپس لوٹے تو تیسرے دن یہ کام حضرت علیؓ کو سونپ دیا گیا ۔ ایک خون ریز جھڑپ کے بعد حضرت علیؓ نے قلعہ ناعم فتح کر لیا۔ اسکے بعد آپ نے یہودیوں کے ایک اور مشہور قلعے قموص پر بھی قبضہ کر لیا۔
بیس دن کے شدید محاصرے کے بعد مسلمانوں نے یہودیوں کے باقی قلعے بھی فتح کر لیے ۔ ان پے در پے ہزیمتوں کے بعد یہودیوں نے فوراً ہتھیار ڈال دیے اور معافی کی درخواست کر دی ، جسے منظور کر لیا گیا ۔ صلح نامے میں مسلمانوں کی شرائط تسلیم کر لی گئیں ۔
اس شدیدمہم جوئی کے اختتام پر آنحضورﷺ مدینہ واپس روانہ ہوئے ۔ تاریخ اسلام میں غزوہ خیبر کو بے حد اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے یہودی قوت اور وقار کے تنزل کاآغاز ہوا۔
(۱۱)غزوہِ موتہ
آٹھویں ہجری کے دوران آنحضور ﷺ نے رومی سلطنت کے عیسائی شہنشاہ کو خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی ۔شہنشاہ روم کی ایما پرغسان قبیلہ کے ایک بدّو نے موتہ کے مقام پر آنحضورﷺ کے ایلچی کو شہید کر دیا تھا۔ اسی علاقے میں اس سے پہلے بھی متعدد مسلمان ایلچیو ں کو شہید کر دیا گیا تھا۔
مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کے لیے آنحضورﷺ نے ۰۰۰، ۳ افراد پر مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا ۔دشمن نے مقابلہ کے لیے عربوں ، شامیوں اور یو نانیوں پر مشتمل ایک لاکھ فوجیوں کاایک عظیم لشکر تیار کر لیا۔ لڑائی کے دوران دشمن فوج نے مسلمانوں کو بُری طرح نرغے میں لے لیا۔ مسلمانوں کے دو جرنیل یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے ۔ آخر مسلمان فوج کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے حوالے کر دی گئی ۔ خالد ؓ معاہدہ حدیبیہ کے بعد مسلمان ہو چکے تھے ۔ اس معرکہ میں مسلمان کوئی قابل قدر کامیابی تو حاصل نہ کر سکے تاہم خالدؓکی عسکری فراست سے مسلمانوں نے اپنے گرد دشمن کاتنگ گھیرا توڑ کر اُن کے شدید محاصرے سے رہائی حاصل کر لی ۔
(۱۲) غزوہِ حنین
آٹھویں ہجری میں فتح مکہ کے بعد آنحضورﷺ نے مکہ میں دو ہفتہ قیا م فرمایا ۔ اسی اثناء میں آپﷺ کو چند تشویش ناک اطلاعات موصول ہو نے لگیں ۔ فتح مکہ سے ہراساں ہو کر اُس وقت کے دو بڑے جنگجو قبائل ، ہوازن اور ثقیف نے اپنی عسکری قوت کااتحاد کر لیا۔ اُنہوں نے حنین کی بلند چوٹیوں اور نیچے پھیلی ہوئی وادیوں میں اپنی متحد فوجوں کو جمع کر نا شروع کر دیا ۔ اس پر آنحضورﷺ نے مدینہ واپسی کا پروگرام منسوخ کردیااور ۰۰۰،۱۲ فوجیوں کا لشکر لے کر حنین کی جانب روانہ ہوئے ۔ لشکر میں ۰۰۰،۱۰ تو وہی مسلمان تھے جو آپ کے ہمراہ مدینہ سے آئے تھے ۔ بقیہ ۰۰۰،۲ نو مسلموں پر مشتمل تھے۔ لشکر اسلام کی کمان خالد بن ولیدؓ کے سپرد تھی اور آنحضورﷺ اپنی سفید خچر پر عقب میں سوار تھے ۔
مکاردشمن نے وادی کے ارد گرد تیر انداز چھپا کر بٹھا رکھے تھے ۔ جوں ہی مسلمان وادی میں داخل ہوئے اُن پر تیرو ں کی سخت بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ اُن کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ اس موقع پر ابو سفیان ، جو اُس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا ۔ بڑے خوشگوار انداز میں بولا :’’اب یہ بھگوڑے ساحل سمندر پر جا کر ہی دم لیں گے ۔‘‘
آخر کار آنحضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے اپنی گرج دار آواز میں بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو واپس آجانے اور میدان جنگ میں ڈٹی ہوئی وفادار مسلمان فوج میں پھر سے شامل ہو جانے کے لیے پکارا ۔ اُنہوں نے اپنی اس زور دار اپیل کو بار بار دہرایا حتیٰ کہ ساری وادی میں آپ کی فلک شگاف صدائیں ہر طرف گونجنے لگیں ۔ حضرت عباسؓ کی اپیل پر مسلمانوں نے لبیک کی اور بڑی تیزی سے محاذ پر واپس لوٹنا شروع ہوئے ۔ پھر وہ اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن کے پاؤ ں اُکھڑ گئے اور و ہ میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مسلمانوں نے کافی دور تک اُن کا تعاقب کیا۔
غزوہ حنین میں فاتح مسلمانوں کو ۰۰۰،۲۲ اونٹ ، ۰۰۰،۴۰ بکریاں اور بڑی مقدار میں چاندی ہاتھ آئی ۔ اُنہوں نے دشمن کے تقریباً ۶۰۰۰ فوجی قید بھی کر لیے ۔ اس سے پہلے اُنہوں نے کسی اور معرکے میں اس قدر مال غنیمت نہیں سمیٹا تھا۔ تاہم اس شاندار فتح کے لیے اُنہیں بہت زیادہ قیمت بھی ادا کرنا پڑی ۔ دشمن کے چھپے ہوئے تیر اندازوں کی اندھا دُھند تیر اندازی اور مسلمان فوج میں بھگدڑ سے کافی جانی نقصان ہو اتھا۔ قرآن حکیم کی نویں سورت کی آیات نمبر ۲۵ اور ۲۶ میں اس عظیم تاریخی معرکے کا ذکر موجود ہے ۔
(۱۳) غزوہِ طائف
غزوہ حنین میں اپنی شکست کے بعد کچھ دشمنوں نے وادی طائف میں پناہ لے لی ۔ طائف بے حد دِل فریب اور زرخیز وادی تھی اور اس میں کھاتے پیتے لوگ بستے تھے ۔ اُنہوں نے اس مشہور شہر کے تحفظ اور دفاع کے لیے مضبوط قلعے ، فصیلیں اور دروازے بنا رکھے تھے ۔
جب مسلمانوں نے اُن کے مضبوط قلعوں کا محاصرہ کیا تو انہیں منجنیقیں بھی استعمال کرنا پڑیں ۔ مگر وہ پھر بھی طائف کے قلعے سر نہ کر سکے ۔ دشمن نے اپنے قلعوں میں اسلحہ اور خوراک کے انبار لگا رکھے تھے ۔ مسلمانوں کی عسکری قوت اور جنگی چالوں کااُن پر ابتدا ء میں کوئی خاطر خواہ اثر نہ پڑا۔ اس پر آنحضورﷺ کو مکی زندگی کے دور میں طائف کے پہلے خطر ناک اور صبر آزما دورے کی یاد بھی تازہ ہو گئی جس میں اُنہیں حد درجہ جسمانی اور جذباتی اذیتوں کاسامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلسل بیس دن رائیگاں محاذ آرائی کے بعد آخر کار آنحضورﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس فیصلے کے لیے دو اسباب ذمہ دار تھے :(۱) وہ مقدس مہینے نزدیک آرہے تھے جن میں جنگ و جدل حرام ہوتی ہے ۔ (ب) آنحضورﷺ کوخدشہ تھا کہ اگر محاصرہ مزید طوالت پکڑ گیا تو کئی مسلما ن فوجیوں کا حوصلہ اور قوت برداشت جواب دے دیں گے ۔
آٹھویں ہجری کو بالآخر محاصرہ اُٹھالیا گیا ۔ قدرت خدا کی اگلے ہی سال وادی طائف کی ساری آبادی مسلمان ہو گئی اور یوں یہ سارا معاملہ بخیر و خوبی اپنے خوش گوار انجام کو پہنچ گیا ۔
(۱۴)غزوہ تبوک
فتح مکہ کے بعد نویں ہجری میں ایک دفعہ آنحضورﷺ کو اطلاع ملی کہ شہنشاہ روم مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر لے کر سرحد کے نزدیک آپہنچا ہے ۔اُن دنوں موسم شدید گرم تھا۔ علاقے میں اناج اور پانی بھی کم یاب تھے ۔ ایسے میں ایک عظیم اور طاقتور دشمن کے مقابلہ کے لیے مناسب فوج ہنگامی طور پر تیار کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
تاہم آنحضورﷺ نے ایک عظیم الشان لشکر کی تیاری کاحکم دے دیا ۔ جنگ کے لیے عطیات کی فراہمی کی مہم شروع کر دی گئی ۔ حضرت عثمانؓ نے ۱۰۰۰ طلائی دینار اور غلے سے لدے ۳۰۰ اونٹوں کا عطیہ دیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنی ساری دولت اور املاک کا نصف دے دیا ۔ حضرت ابو بکرؓ نے اپنی ساری ملکیت اور گھر بار کا سارا سازو سامان دے دیا ۔ مسلمان عورتوں نے اپنے زیورات تک جنگی فنڈ میں جمع کر ا دیے ۔ مسلمان فوج کا لقب ’’مفلس لشکر ‘‘ (جیش العُسرت ) تھا۔ اس میں ۳۰۰۰ بے سرو سامان فوجی شامل تھے ۔ اس مفلس لشکر کا ذکر قرآن حکیم کی نویں سورت کی آیت نمبر ۱۱۷ میں ہوا ۔
طویل اور پر خطر مسافت طے کر کے یہ لشکر بالآخر تبوک جا اُترا ۔ مگر اسلامی لشکر کے جاہ و جلال اور بلند حوصلے سے رومی فوج سخت ڈر گئی ۔ اُن کی ہمت و حوصلہ جواب دے گئے ۔ وہ بڑی تیزی سے بھاگنے لگے ۔ آخر کار انہوں نے کسی مزاحمت کے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے ۔ آنحضورﷺ تبوک میں بیس دن ٹھہرے رہے ۔ اس دوران متعدد قبائل نے اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔
رُومیوں کے فوری اور بزدلانہ اعتراف شکست سے آنحضورﷺ کو اس محاذ کے بارے میں تسلی ہو گئی ۔ مگر آپ کو خدشہ تھا کہ اگر رومی کہیں دومۃ الجندل کی جانب سے حملہ آور ہوجائیں تو وہاں کا عیسائی حکمران اکیدر بغاوت کر کے رومیوں کا ساتھ دے گا ۔ دومتہ الجندل دمشق اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور مقام کا نام تھا۔
مدافعتی اقدا م کے طور پر آنحضورﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ۵۰۰ گھڑ سوار وں کی کمان میں دُومہ کی طرف روانہ کیا ۔ وہ چاند رات تھی اور اکیدر اپنے بھائی کے ساتھ شکار کو نکلا ہوا تھا۔ حضرت خالدؓ نے اُسے شکار کرتے ہوئے جنگل ہی میں گرفتار کر کے آنحضورﷺ کے سامنے پیش کر دیا ۔ اکیدر نے اسلام قبو ل کر لیااور مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ بھی کر لیا ۔ اس معرکے میں حضرت خالدؓ کو بہت بھاری مالِ غنیمت ہاتھ آیا ، جس میں ۲۰۰۰ اونٹ ، ۸۰۰ بکریاں ، گندم کی بڑی مقدار اور ۴۰۰ زرہیں بھی شامل تھیں ۔
غزوہ تبوک آخری غزوہ تھا ، یعنی آخری اسلامی جنگ جس میں آنحضورﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے ، آپ ﷺ کے تدبر و بصیرت نے ایک نفسیاتی فتح کوعظیم سیاسی ، اقتصادی اور دانش مندانہ تحصیل میں بدل دیا تھا ۔ اس تاریخی غزوہ کے بعد سارے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا طوطی بولنے لگا ۔ آنحضورﷺ نے سکھ چین کا سانس لیا۔ علاقے کے باقی ماندہ لوگ بھی جوق در جوق مسجد نبوی میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے لگے ۔ آنحضورﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو سکون کے ساتھ مدینہ میں موجود رہ کر اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ کے استحکام کے لیے مزید تعمیری کام کرنے کا خوش گوار ماحول میسر آیا ۔
اسلامی جنگوں کے تعمیری سبق
اسلامی جنگوں نے روایتی جنگجوئی کے تمام نظریوں اور کارر وائیوں میں ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا ۔ ان جنگوں سے چند بے حد اہم تعمیری سبق بھی حاصل ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک کا مختصر ذکردرج ذیل ہے :
(۱)اعلیٰ و اَرفع مقصد
محض تشدد ، غلبہ اور توسیع کے بجائے اسلامی جنگوں کے چند اعلیٰ و ارفع مقاصد ہوا کرتے تھے ۔ اس قسم کے اعلیٰ مقاصد کی چند انواع یہ تھیں :کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ قائم کرنا، عدل، مساوات کو فروغ دے کر دنیااور آخرت میں خوش گوار اور صحت مند زندگی کی راہ ہموار کرنا، وغیرہ ۔
(۲) باقاعدہ اور منظّم جدو جہد
جذباتی تشدداور انتقامی کارروائیوں کے بجائے اسلامی جنگیں منظّم جدو جہد کا شاہکار ہو اکرتی تھیں ۔ ان سے منظّم اور باضابطہ زندگی بسر کرنے کی ضرورت اور فائدوں کی عملی وضاحت بھی ہوتی تھی ۔
(۳) اُصولوں اور ضابطوں کی بالا دستی
ہر اسلامی جنگ میں چند سنہرے اُصولوں اور ضابطوں کی بالادستی نمایاں نظر آتی تھی ۔ اس قسم کے چند اُصول اور ضابطے یہ تھے :
(ا) تصادم اور لڑائی کے دوران کسی قسم کی عبادت میں مصروف کسی فرد کو بالکل تنگ نہ کرنااور تمام عبادت گاہوں کی بے حرمتی سے پر ہیز کرنا۔
(ب) عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور معذوروں کو ہر قسم کے نقصان یا تکلیف سے محفوظ رکھنا ۔
(ج) انتقامی قتل اور دشمن کے مقتولوں کے قطع اعضا سے قطعی پر ہیز کرنا۔
(د) ہتھیار ڈالنے والے یا جنگ میں شریک نہ ہونے والوں کی اذیت رسانی سے باز رہنا۔
(ر) دورانِ جنگ لوگوں کے گھروں اور جائیدادوں کے اندر بلا اجازت گھسنے سے پرہیز کرنا۔
(ز) درختوں اور اناج کے کھیتوں میں کسی قسم کی تباہی مچانے سے باز رہنا۔
(ژ) معاہدوں اور عہد ناموں کی سختی سے پابندی کرنا ، وغیرہ ۔
(۴) جنگ و جدل میں انقلاب
غزوات نہایت مہذب جنگوں کانام ہے ۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام نے روایتی جنگ و جد ل کے فن اور سارے طریق کار میں ایک عظیم تعمیری انقلاب بر پا کر دیا ۔ اسلامی جنگوں نے وحشیانہ اور بے مقصد تصادموں کی ساری ہیئت ہی بدل ڈالی اور ان کی وساطت سے امن و آشتی اور تعمیر و ترقی کی نت نئی راہیں ہموار کر دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۶
حُدیبیہ میں عظیم اخلاقی فتح
چھٹی ہجری تک مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے چھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا مگر کوئی دن ایسا نہ آیا تھا جب مہاجرین کو اپنے پیارے وطن کی حسین یادیں نہ ستائی ہوں ۔حضرت بلالؓ کفارِ مکہ کے انتہائی وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے تھے ۔ اِ س کے باوجود اُنہیں اور اُنہی کی طرح کے بے شمار دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں مکہ کی محبت ہر لحظہ سلگتی رہتی تھی ۔ خود آنحضورﷺ بھی اپنے آبائی شہر کی یاد میں بے تاب تھے ۔ چھٹی ہجری میں آنحضورﷺ نے ایک رات خواب دیکھا کہ آپﷺ مکہ میں داخل ہو رہے ہیں ۔ قرآ ن حکیم کی سورہ نمبر ۴۸ کی آیت نمبر ۲۷ میں اس خواب کا حوالہ موجود ہے ۔ اِ س اور اسی طرح کے متعدد دوسری باتوں سے آنحضورﷺ صحابہ کرام کی معیت میں مکہ جا کر عمرہ کی سعادت کے لیے تیار ہوئے ۔
کاروانِ عمرہ کی مکہ روانگی
آنحضورﷺ کا کاروانِ عمرہ یکم ذیقعدہ ۶ ھ (مارچ ۶۲۶ء ) کو مکہ کی جانب رواں دواں ہوا۔ آپﷺ کے ہمراہ ۱۵۰۰ پر مسرت صحابہ کرامؓ کا ایک دستہ تھا ۔ وہ احرام پہنے اُونٹوں پر سوار تھے ۔ اُن کے ساتھ قربانی کے لیے ۷۰ اونٹ بھی تھے ۔ان میں سے ایک ابو جہل کا وہ ذاتی اونٹ بھی تھا جو مسلمانوں نے جنگِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر پکڑا تھا۔
یہ کاروان نہایت پر امن طریق سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ اُنہیں کسی قسم کے تصادم یا محاذ آرائی کا خیال تک نہ تھا ۔ خود حفاظتی کے لیے کچھ افراد کے پاس تلواریں بھی تھیں ۔ مگر عرب روایات کے مطابق یہ سب تلواریں نیاموں کے اندر تھیں ۔
حدیبیہ گاؤں میں خیمہ زنی
جب یہ مقدس کاروانِ عمرہ حدیبیہ پہنچا تو آنحضورﷺ کی اُونٹنی قصویٰ وہاں بیٹھ گئی ۔ اہلِ کاروان نے اس لیے یہی مناسب سمجھاکہ اُس گاؤں میں چند لمحے قیام کیا جائے ۔
حدیبیہ مکہ سے تین میل دور ایک کنویں کانام تھا ۔ کنویں کے قریب ہی ایک چھوٹا سا گاؤں بھی آباد تھا جس کانام بھی حدیبیہ ہی تھا ۔ اس تاریخی مقام کو آج کل شمیسی کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ حدیبیہ مکہ شہر کی حدود کے اندر واقع ہے ۔
حُدیبیہ میں خیمہ زن ہونے کے بعد آنحضورﷺ نے ایک مخبر کو مکہ کی صورت حال کا پتا لگانے کے لیے روانہ کیا ۔ مخبر نے واپس آکر اطلاع دی کہ کفار کو آنحضورﷺ کے آنے کا پتہ چل چکا ہے اور یہ کہ اسے مسلمانوں کہ کوئی خطر ناک جنگی چال تصور کرتے ہوئے اُنہوں نے پورے جوش و خروش سے جنگی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ اُن کے ہیرو خالد بن ولید (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے ۲۰۰ جوشیلے جوانوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تیارکر لیاتھاجس میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی شامل تھا۔
عُروہ کی عیّار سفارت اور معنی خیز انکشافات
اصل صورت حال جاننے کے لیے کفار اپنے کئی ایک نمائندے مسلمانوں کی طرف روانہ کرتے رہے ۔ آخر کار اُنہوں نے اس کام کے لیے اپنے نامور دانشور عُروہ بن مسعود ثقفی کا انتخاب کیا ۔ حدیبیہ پہنچ کر عروہ نے آنحضورﷺ سے طویل اور دلچسپ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ۔ اُس نے بتایا کہ قریش مسلمانوں کی اس مہم سے سخت نالاں ہیں ۔ توحش و اضطراب کے عالم میں اُن میں سے کئی لوگوں نے چیتے کی کھالیں بھی پہن لیں ہیں ۔ وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں اور کسی صورت بھی مسلمانوں کو مکہ شہر یا خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔
اس عیّار سفارتی بات چیت کے دوران عروہ نے آنحضورﷺ سے یہ بھی کہا :’’اگر کہیں متوقع تصادم کا رنگ ، ہےئت اور رُخ مسلمانوں کے خلاف تبدیل ہو گیا تو آپ کے اِردگرد جمع ہوئے یہی لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے ۔ ‘‘عُروہ کی اس بے لگام لاف زنی پر حضرت ابو بکرؓ سخت طیش میں آگئے ۔ اُن کے منہ سے بے ساختہ گالی بھی نکل گئی ۔ اُنہوں نے عروہ کو بڑے کرخت لہجے میں کہا:’’تمہیں تو اس بات کا کوئی علم ہی نہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ سے کس قدر شدید محبت اور عقیدت ہے ۔ ہم تو ان سے کسی ممکنہ بے وفائی کا سو چ بھی نہیں سکتے ۔‘‘
پرانے عربوں میں یہ رواج بھی عام تھا کہ جب کوئی شخص کس سے غیر رسمی گفتگو کر تا تو اظہار بے تکلفی اور خلوص کی خاطر وہ اس کی ڈاڑھی کو کبھی کبھی اپنے ہاتھ میں تھام لیتا تھا۔ آنحضورﷺ سے اپنے عیّار خطاب کے دوران عروہ اس قدر محو ہو چکا تھا کہ گاہے بگاہے اس کا ایک ہاتھ آپﷺ کی داڑھی مبارک پر جا پڑتا ۔ حضرت مغیرہؓ ایک ننگی تلوار تھامے آنحضورﷺ کے پیچھے پہرہ پر کھڑے تھے۔اُنہیں عروہ کی یہ بے تکلفی قطعی پسند نہ آئی ۔ چنانچہ وہ بڑے دُرشت لہجہ میں بول اُٹھے:’’اپنا یہ ہاتھ ڈاڑھی سے ہٹالو ورنہ یہ پھر کبھی صحیح و سالم پیچھے نہ ہٹ سکے گا !‘‘
عروہ اپنے مذاکرات میں کسی معنی خیز نتیجہ تک تو نہ پہنچ سکا ۔ تاہم وہ مسلمانو ں کے دلوں میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی محبت و عقیدت سے بے حد متاثر ہوا۔ اس نے مکہ واپس پہنچ کر کفار کو اپنی رپورٹ پیش کی تو بڑے زور دار طریق سے یہ بھی کہا:’’اے اہل قریش! مجھے رومی اور ایرانی شہنشاہوں کے درباروں میں حاضری کا شرف بھی حاصل ہو اہے ۔ میں نے شاہ نجاشی کے محل کا جاو جلال دیکھا ہے مگر میں نے محمدﷺ کے سوا کسی اور فرمان روا کو پنے لوگوں میں اس قدر معز زو محترم نہیں دیکھا ۔ اب تم سنجیدگی سے خود ہی سوچ لو کہ ایسے میں تمہیں کیا کرنا چاہیے ۔‘‘
امن مذاکرات کے دوران کفار کی وحشت
چونکہ امن مذاکرات سے کوئی معنی خیز نتیجہ بر آمد ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا اس لیے آنحضورﷺ نے کفار سے زیادہ با مقصد گفت و شنید کے لیے حضرت خراش بن اُمیہؓ کو اپنا خصوصی سفیر بنا کر کفار کی طرف روانہ کیا ۔ آنحضورﷺ نے سواری کے لیے اُنہیں اپنا ذاتی اونٹ ثعلب بھی دے دیا۔ اُجڈ کفار نے اونٹ مار ڈالا اور حضرت خراشؓ پر حملہ کر دیا ۔ وہ بمشکل جان بچا کر واپس حدیبیہ پہنچے ۔ اس بدذوق وحشت کے بعد کفار نے مسلمانوں کے خیموں میں اُدھم مچانے کے لیے ۷۰ مسلح دہشت گردوں کا ایک ٹولہ تشکیل دے کر حدیبیہ روانہ کر دیا ۔ مسلمانوں نے یہ سارے کا سارا دستہ گرفتار کر لیا ۔ مگر آنحضورﷺ نے ان سب کو معاف کر کے رہا کر دیا ۔
اس کے بعد آنحضورﷺ نے مزید مؤثر مذاکرات کے لیے حضرت عثمانؓ کو کفار کی طرف روانہ کیا ۔ اُنہوں نے کفار کو آنحضورﷺ کا پیغام امن و آشتی پہنچایا۔کفار نے آپﷺ کو عمرہ کرنے کی خصوصی اجازت دے دی ۔ مگر عثمانؓ نے اس ذاتی رعایت سے استفادہ کی یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ وہ اس وقت تک عمرہ نہیں کریں گے جب تک کہ آنحضورﷺ اور سارے مسلمان قافلے کو بھی اس کی اجازت نہیں دے دی جاتی ۔اس پر کفار سخت مشتعل ہو گئے اور اُنہوں نے حضرت عثمانؓ کو اپنے ہا ں نظر بند کر دیا ۔
ببول کے درخت تلے بیعتِ رضوان
اُدھر جب حضرت عثمانؓ معقول وقت کے اندر اندر حدیبیہ نہ پہنچ پائے تو مسلمانوں کی تشویش و اضطراب میں شدید اضافہ ہوا۔ پھر ایک افواہ چل نکلی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے ۔ ایسے میں آنحضورﷺ کو یقین ہو چکا تھا کہ کفار مسلمانوں کاخون بہانے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ چنانچہ آپﷺ نے سب مسلمانوں کو ببول کے ایک قریبی درخت تلے جمع کیا۔ صلاح مشورہ کے بعد آنحضورﷺ نے اُن سے یہ بیعت لی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا پورا پورا قصاص لیا جائے گااور یہ کہ مسلمان کفار کے خلاف لڑائی میں خون کاآخری قطرہ تک بہانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔
اس نازک مرحلے پر مسلمانوں کے جوش و خروش کااس بات سے بخوبی اندازہ ہو سکتاہے کہ کئی جانباز جوانوں نے دو دوتین تین بار بیعت کی ۔ بیعت رضوان سے بر آمد ہونے والی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے صرف ایک بد بخت شخص الجد بن قیس نے ایک اونٹ کے پیچھے چھپ کر بیعت میں شمولیت سے گریز کیا۔ اس تاریخی بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں ۔ ببول کا وہ درخت جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی شجر الرضوان کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس تاریخی واقعے کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ نمبر ۴۸ کی آیت نمبر ۱۸ میں ہوا ہے ۔واقعے کے کافی عرصہ بعد حضرت عمرؓ کو اپنے عہد خلافت میں اطلاع موصو ل ہوئی تھی کہ بعض ضعیف الاعتقاد مسلمانوں نے اس درخت کو مقدس بنا لیا ہے اور اس کے نیچے خصوصی عبادتیں بھی شروع کر دی ہیں ۔ اس خدشہ سے کہ یہ غلط سلسلہ کہیں کسی بدعت اور شرک کی صورت نہ اختیار کر جائے ، حضرت عمرؓ نے اس درخت کو جڑ ہی سے کٹوا دیا۔
تاریخی معاہدہ کی کڑی شرائط
اُدھر جب کفار کو بیعت رضوان کا علم ہوا تو اُنہیں مسلمانوں کے عزم سے خوف آنے لگا۔ اُنہوں نے حضرت عثمانؓ کو فوراً رہا کر دیا اور امن وصلح کے مذاکرات کے لیے رضا مندی کا اظہار بھی کر دیا ۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد صلح نامے کی ایک متفقہ دستاویز مرتب ہو گئی جسے حضرت علیؓ نے تحریری شکل دے دی ۔ صلح نامہ حدیبیہ کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
(۱) مسلمان اس سال عمرہ ادا کیے بغیر مدینہ واپس لوٹ جائیں گے ۔
(۲) وہ اگلے سال عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ مگر اس غرض کے لیے وہ مکہ میں صرف تین روزہ قیام کے بعد پھر مدینہ لوٹ جائیں گے ۔
(۳) مکہ آتے وقت مسلمان غیر مسلح ہوں گے اور عرب دستور کے مطابق اپنی خود حفاظتی تلواریں نیاموں کے اندر رکھیں گے ۔
(۴) مدینہ واپسی کے وقت وہ اپنے کسی فرد کو مکہ رک جانے سے نہیں روکیں گے مگر کسی مکی کو اپنے ساتھ مدینہ نہ لے جا سکیں گے ۔
(۵) اگر کوئی مسلم مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ جائے تو اُسے مکہ میں اُس کے وارثوں کو واپس کرنا ہوگا مگر اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اس کی واپسی نہیں ہو گی ۔
(۶) عرب قبائل اپنی مرضی سے معاہدہ حدیبیہ کے کسی بھی فریق سے باہمی معاہدے کر سکتے ہیں ۔
(۷) دونوں فریق حج ، عمرہ اور تجارت کے لیے ایک دوسرے کے علاقے میں آجا سکتے ہیں ۔
(۸) دونوں فریق ایک دوسرے کے دفاعی معاملات میں غیر جانبدار رہیں گے ۔
(۹) کوئی فریق بھی دوسرے سے دغا یا بد دیانتی کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔
(۱۰) معاہدہ دس سال جاری رہے گا ، جس کے دوران ہر قسم کا تصادم اور محاذ آرائی معطل رہے گی تا کہ دونوں فریق امن اور تحفظ کی فضا میں سانس لے سکیں ۔
حدیث ، سیرت اور تاریخ کی مستند کتابوں میں صلح حدیبیہ کی تفاصیل اور اہمیت پر بہت بصیرت اَفروز روشنی ڈالی گئی ہے ۔
حضرت عمرؓ کی مایوسی اور آنحضورﷺ کی بصیرت
متعدد مسلمان اس معاہدہ سے سخت پریشان ہوئے ۔ اُن کا خیال تھا کہ معاہدہ یک طرفہ ہے اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف بھی ۔ حضرت عمرؓ کو بالخصوص اس معاہدے سے بہت مایوسی ہوئی ۔ آپ کو اس کی یک طرفہ شرائط اور اس قسم کے واقعات سے سخت شکایت تھی :
(۱)رسالت اور تسمیہ سے کفار کا انکار
معاہدہ حدیبیہ کو تحریری شکل دی جانے لگی تو کفار نے اس میں آنحضورﷺ کی رسالت اور تسمیہ (بسم اللہ )کاذکر شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ مسلمانوں کو عموماً اور حضرت عمرؓ کوخصوصاً یہ بات بہت ناگوار گزری تھی ۔
(۲)اس قدر قریب آکر خالی ہاتھ لوٹنے کا رنج
مسلمانوں کو اس بات کا دلی رنج تھا کہ وہ اپنے پیارے آبائی شہر اور اللہ کے مقدس گھر کے اس قدر قریب آکر بھی عمرہ کی سعادت حاصل کیے بغیر واپس لوٹا ئے جا رہے ہیں ۔
(۳) ایک دوسرے کے افراد کی واپسی کی یک طرفہ شق
ایک دوسرے کے افراد کی واپسی کی شق صاف طور پر یک طرفہ اور ناانصاف نظر آرہی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو اس پر بھی زیادہ مایوسی اور رنج تھا۔
تاہم ان سب باتوں کے باوجود قرآن حکیم نے معاہدہ حدیبیہ کو ان دو طریقوں سے تعبیر کیا ہے :(ا) فتح ’’مبین‘‘ یعنی واضح فتح (۴۸:۱)اور (ب) نصر ’’عزیز ‘‘ یعنی قوی مدد (۴۸:۳) ۔بعد کے واقعات سے یہ حقیقت قطعی واضح ہو گئی کہ صلح حدیبیہ کے بارے میں قرآنی تصریحات بالکل حق بجانب تھیں ۔ چنانچہ یہ باتیں کھل کر سامنے آگئیں کہ :
(۱) بظاہر یک طرفہ نظر آنے والی شقیں انجام کار مسلمانوں کے مفاد میں تھیں ۔حتیٰ کہ جب کفار کو ان سے نقصان پہنچنے لگے تواُنہوں نے ان متعلقہ شقوں کی تنسیخ کے لیے خود ہی آنحضورﷺ سے فرمائشیں کرنا شروع کر دیں اور اسی وجہ سے بھی یہ دس سالہ معاہدہ دو سال سے آگے نہ چل سکا۔
(ب) معاہدے کی متعدد یک طرفہ شقیں اشاعت اسلام میں مزید سرعت اور شدت کا باعث بھی بنیں ۔
عام مسلمان معاہدے کی تحریر کے وقت ان باتوں کو بخوبی سمجھ نہ سکے تھے ۔ مگر آنحضورﷺ کی خداداد بصیرت نے یہ سب کچھ بھانپ لیا تھا ۔ چنانچہ آپﷺ مضطرب مسلمانوں کی دلجوئی کرتے رہے اور اُنہیں مختلف شقوں کی اصل غرض و غایت سمجھاتے رہے جس سے اُنہیں سارے معاملے کی تہ تک پہنچنے میں خاصی مدد ملی ۔
معاہدے کی تکمیل کے بعد آنحضورﷺ نے حدیبیہ میں تین روزہ قیام کیا ۔ مسلمانوں نے قربانی کے تمام اُونٹوں کو حدیبیہ ہی میں ذبح کر دیا ۔ پھر آنحضورﷺ نے احرام اُتار دیا اور بال کٹوائے ۔ جس پر باقی مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسکے بعد یہ سارا کارواں مدینہ کی جانب رواں دواں ہو گیا۔
معاہدہ حدیبیہ کے بعد کے چند دلچسپ واقعات
صلح حدیبیہ کے بعد چند ایسے دل خراش ، دلچسپ اور سنسنی خیز واقعات رونما ہوئے جنہیں اُس دور کی تاریخِ اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اس قسم کے چند واقعات کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :
(۱)ایک مظلوم نو مسلم کی لرزہ خیزداستان
ابو جندلؓ مکہ کاایک صالح نوجوان تھا۔ اُس نے جوں ہی اسلام قبول کیا اس کے سنگ دل باپ نے اسے آہنی زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیا۔ نو مسلم بیٹے پر ظالم باپ پھر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگا ۔جب معاہدہ حدیبیہ طے پا چکا اور آنحضورﷺ ابھی حدیبیہ گاؤں ہی میں قیام پذیر تھے، بے چاراابو جند لؓ سنگ دل باپ کی قید سے فرار ہو کر زنجیروں سمیت آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ابو جندلؓ کی داستانِ ظلم و ستم اس قدر لرزہ خیز تھی کہ آنحضورﷺ اور ارد گرد بیٹھے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں ۔
زنجیروں میں مقید نو مسلم ابو جندلؓ کوّ آنحضورﷺ نے بڑی تسلی و تشفی دی ۔ پھر آپﷺ نے دل پر پتھر رکھ کر فرمایا :’’ابو جندلؓ ! بس کچھ عرصہ اور صبر و تحمل سے کام لو ۔ تم ایسے مظلوم و مجبور کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائیں گے ۔ سرِ دست میں تمہارے لیے کچھ کر نے سے قاصر ہوں کیونکہ معاہدہ طے پا چکا ہے اور ہم عہد شکنی کا ارتکاب نہیں کر سکتے ۔‘‘
بے چارے ابو جندلؓ کو ظالم باپ کی وحشیانہ قید میں پھر لوٹنا پڑا ۔ تاہم ابو جندل کی قید اور پٹائی کافروں کو بھی بہت مہنگی پڑی ۔ ابو جندلؓ کے وعظ و تبلیغ سے کفار کے کئی قیدی مسلمان ہو گئے ۔ اسی اثناء میں جب قبول اسلام کی رفتار بڑھنے لگی تو کفار بہت پریشان ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد اُنہوں نے آنحضورﷺ کو اس یک طرفہ شق کی منسوخی کے بارے میں خود ہی لکھ بھیجااور نو مسلموں کے مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جانے پر اظہار رضا مندی بھی کر دیا ۔
(۲)عیص کے جنگلوں میں کفار کے قافلوں کی تباہیاں
مکہ سے مدینہ کی جانب مسلمانوں کی اجتماعی ہجرت کے دوران کئی مسلمان مختلف مجبوریوں کی وجہ سے مکہ ہی میں ٹھہرے رہے تھے ۔ بعد میں جب اُن پر کفار کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تو اُنہوں نے چھپ چھپا کر مکہ سے مدینے بھاگناشروع کر دیا ۔ چونکہ معاہدہ حدیبیہ کے تحت ایسے مسلمان مدینہ میں قیام نہیں کر سکتے تھے اس لیے ان میں سے کچھ لوگ عیص کے جنگلات میں آباد ہو گئے ۔ عیص کے جنگلات بحیرہ احمر کے ساحل کے پاس شامی شاہراہِ تجارت پر حمرااور بدر کے درمیان واقع ہیں ۔ عیص میں ان مسلمانوں نے اپنا ایک دستہ سا بنا لیا اور وہاں سے گزرتے ہوئے کفار کے تجارتی قافلوں کی لوٹ مار سے اپنی گزر اوقات کرنے لگے ۔ قافلوں کی آئے دن لوٹ مار اور تباہیوں سے کفار کی خارجی تجارت کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ۔
اس ناگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے کفار نے آنحضورﷺ کو لکھ بھیجا کہ معاہدہ حدیبیہ کی شق جس کے تحت مکہ کے نو مسلموں کو مدینہ میں آباد ہو جانے کی ممانعت تھی ،ختم کر دی جائے ۔ آنحضورﷺ نے کفار کی یہ درخواست منظور فرمالی ۔ آپﷺ نے ساتھ ہی عیص کے پناہ گزین مسلمانوں کو بدلتے حالات سے آگاہ کر دیااور اُنہیں مدینہ آکر آباد ہونے کی دعوت بھی دے دی ۔ اس اقدام سے عیص سے گزرتے ہوئے کفار کے تجارتی کارواں بھی تباہیوں سے بچ گئے ۔
(۳) آنحضورﷺ کا عمرہ
معاہدہ حدیبیہ کے عین مطابق اگلے سال یعنی سات ہجری (۶۲۹ء) میں آنحضورﷺ نے عمرہ ا دا فرمایا ۔
(۴) مسلمان خواتین کی واپسی سے انکار
اُنہی دنوں چند مکی خواتین نے قبول اسلام کے بعد ہجرت کرنا شروع کر دی ۔ اُم کلثومؓ مکہ کے رئیس کی صاحب زادی تھیں ۔قبول اسلام کے بعد اُنہوں نے بھی مدینہ ہجرت کر لی ۔اس پر اُن کے دو کافر بھائی آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی نو مسلمہ بہن کی بازیابی کی درخواست دی ۔ آنحضورﷺ نے ان کی درخواست کو اس بنا پر مسترد کر دیا کہ معاہدہ حدیبیہ اُن مسلمان خواتین پر لاگو نہیں ہوتا جو مدینہ میں پناہ گزین ہو جائیں ۔
(۵)معاہدے کی قبل از میعاد تنسیخ
مکہ کے کم بصر اور اکھڑ کفار معاہدہ حدیبیہ کی مختلف شقوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتے چلے آرہے تھے ۔ کچھ شقوں کی منسوخی کے لیے وہ خو د بھی فرمائش کرنے لگے تھے ۔ اُن کے اس سیلانی اور غیر معقول رویے سے تنگ آکر آنحضورﷺ اُن کے خلاف مناسب کارروائی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ آٹھویں ہجری میں فتح مکہ کے بعد معاہدہ حدیبیہ خود ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ۔ چنانچہ یہ دس سالہ معاہدہ بمشکل دوسال زیر عمل رہ سکا ۔
معاہدہ حدیبیہ کے بے مثال فائدے
تاریخِ اسلام میں معاہدے حدیبیہ کو بے مثال اہمیت حاصل ہے ۔ ابتداء میں کچھ مسلمان اس کے مخفی اور حقیقی فائدے سمجھنے سے قاصر رہے تھے ۔ مگر بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو گئی کہ اس معاہدے کے بے مثال فوائد کے بارے میں قرآنی خوش خبری اورآنحضورﷺ کی بصیرت بالکل صحیح تھیں ۔ معاہدہ کی چند برکات اور فوائد کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :
(۱)مسلمانوں اور کافرو ں میں فرق کی وضاحت
معاہدے کہ مختلف شرطوں اور شقوں سے متعلق مسلمانوں اور کافروں کے ادراک اور رد عمل میں فرق نمایاں تھا۔ اس سے دونوں فریقوں کے سوچ بچار ، ادراک و فہم اور انداز عمل و کر دار پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس سے دونوں فریقوں کے رہنما ؤں اورقائدین کے طرزِ فکر و عمل میں فرق کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے ۔ آنحضورﷺ فراست و تدبر کا ایک بے مثال نمونہ بن کر سامنے اُبھرے ۔ اس کے بر عکس کافر قیادت اشتعال اور بے بصری کا شکار بنی رہی ۔
(۲) منقطع معاشرتی رابطوں کی بحالی
معاہدے سے فریقین کے ٹوٹے ہوئے معاشرتی تعلقات از سر نو بحال ہوگئے ۔ ا س سے بھی مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہوا کیونکہ ایک دوسرے سے میل ملاپ سے مسلمانوں کا اعلیٰ معاشرتی اخلاق و کردار مزید واضح ہو گیا۔
(۳) تجارت اور کاروبار میں اضافہ
ایک دوسرے کے علاقے میں آزادانہ آنے جانے سے فریقین کی تجارت اور کاروبار میں بھی بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
(۴) تبلیغ اور اشاعتِ اسلام میں وسعت
فریقین کے فکر و عمل میں آزادی سے تبلیغ اسلام کے مشن کو مزید تقویت ملی ۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل ایسی جلیل القدر شخصیات اسی اہم دور میں مسلمان ہوئیں ۔ ان عظیم ہستیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فلپ ہٹی اپنی مشہور تصنیف ’’ہسٹری آف دی عربز‘‘ میں تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مسلمان عسکری قائد ین نپولین اور سکندر سے بھی کہیں ممتاز و برتر تھے ۔
(۵) یہودی قوّت اور وقار کاخاتمہ
معاہدہ حدیبیہ سے دونوں فریق ایک دوسرے کے دفاعی معاملوں میں غیر جانبدار ہو گئے ۔ مسلم ۔۔۔یہودی تصادم کے تناظر میں اب یہودیوں کو کفارِ مکہ سے کوئی کھلی یا خفیہ مدد نہیں مل سکتی تھی ۔ چنانچہ موقع غنیمت جا ن کر مسلمانوں نے سات ہجری میں خیبر پر حملہ کرکے رہی سہی یہودی قوت اور وقار کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا ۔
(۶) نئی اسلامی ریاست کی مسلّمہ برتری
ایسے اور اسی طرح کے دیگر حالات و واقعات سے معاہدہ کے بعد کے دور میں نئی اسلامی ریاست کی اخلاقی ،تمدنی، سیاسی ، معاشرتی ، اقتصادی اور عسکری برتری ہر جگہ تسلیم کر لی گئی ۔
صلح حدیبیہ کامعاہدہ حقیقی معنوں میں ایک مخفی رحمت و برکت ثابت ہوا ۔ اس کے بارے میں قرآنی فتویٰ اور آنحضورﷺ کا ردِ عمل حرف بحرف سچ ثابت ہوئے ۔ انجام کار یہی تاریخی صلح نامہ فتح مکہ کا پیش خیمہ بھی بن گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۷
فتح مکہ کا عظیم تاریخی واقعہ
کفار مکہ کی قوت اور وقار کو مسلسل شدید دھچکے لگتے چلے آرہے تھے ۔ اُن کی حالت انتہائی خستہ اور کھوکھلی ہو چکی تھی ۔ تاہم اُن کا ظاہری غرور اور دکھاوا اِ س زبوں حالی میں بھی بر قرار تھے ۔ اس کے برعکس مسلمان اب تعمیر و استحکام کی راہ پر پوری آب و تاب سے گامزن ہو چکے تھے ۔ کفار اُن سے کھلے تصادم اور محاذ آرائی سے تو گھبرانے لگے تھے مگر اُنہیں جب بھی کوئی مناسب موقع ہاتھ آجاتا تو وہ اپنے تنزل اور بد حالی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف خطر ناک منصوبے اور خفیہ سازشوں سے کبھی باز نہ آتے تھے ۔
کفار نے معاہدہ حدیبیہ منسوخ کر ڈالا
اُس دور کے دو عرب قبیلے بنی بکر اور بنی خزاعہ آپس میں جانی دشمن تھے ۔ بنی بکر کفار کے حلیف تھے اور بنی خزاعہ مسلمانوں کے ۔ آنحضورﷺ کو اطلا ع ملی کہ بنی بکر نے بنی خزاعہ پر حملہ کر کے خانہ کعبہ میں پناہ لینے کے باوجود اُن کے کئی آدمیوں کو مار ڈالا ہے ۔
اپنے مظلوم حلیف بنی خزاعہ کی طرف سے مدد کاپیغام ملنے پر آنحضورﷺ نے اپنا ایلچی کفار مکہ کی جانب روانہ کیااور اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ :
(۱) قبیلہ خزاعہ کو اُن کے مقتولین کا خون بہا ادا کریں ،اور
(۲) بنی بکر کے ساتھ اپنا الحاق ختم کر دیں یا معاہدہ حدیبیہ کی تنسیخ کا اعلان کر دیں ۔
کفار نے غم وغصہ اور جلد باز ی کے عالم میں معاہدہ حدیبیہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر اُنہیں بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ۔ چنانچہ وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور معاہدہ کی بحالی کے لیے فضول کوششیں کرنے لگے ۔ کفار کی مسلسل بے ظا بطگیوں اور سازشوں سے تنگ آکر آخر کار آنحضورﷺ نے مقدس شہر اور خانہ کعبہ کو مسلمانوں کی تحویل میں لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
خفیہ منصوبہ بندی اورخاموش کُوچ
فتح مکہ کی ساری کارر وائی کے بارے میں آنحضورﷺ نے منظم اور مخفی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ منزل اور ہدف بتائے بغیر آپﷺ نے جنگی تیاریوں کاحکم دے دیا۔ آپﷺ نے کفار کو اچانک مغلوب کرنے اور بغیر خون خرابہ مکہ کو مسلمانوں کی تحویل میں لے لینے کا تہیہ کر لیا۔
۱۰ رمضان المبارک ۸ ھ کو نماز ظہر کے بعد آنحضورﷺ نہایت خاموشی سے ۷۰۰۰ افرادکی قیادت میں مدینہ سے روانہ ہوئے ۔ راستے میں متعدد حلیف قبائل بھی اسلامی لشکر میں شامل ہوتے گئے ، حتیٰ کی تعداد ۰۰۰،۱۰ ہو گئی ۔ سارے منصوبے کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ایک پیچ و خم کھاتا ہوا طویل راستہ اختیار کیا گیا تھا۔ دس دن کے مسلسل سفر کے بعد یہ لشکر ۲۰ رمضان المبارک ۸ ھ (21فروری 630ء) کو مکہ جا پہنچا ۔
کفارِ مکہ کا اعتراف شکست
جوں ہی اسلامی لشکر مکہ کے قریب پہنچا کفار نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا جلدی جلدی جائزہ لینا شروع کر دیا۔ مسلمانوں نے آتے ہی شہر کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دائیں اور حضرت زبیر بن عوامؓ نے بائیں جانب سے گھیرا ڈال دیا ۔ حضرت ابو عبیدہؓ پیادہ فوج کی کمان کر رہے تھے ۔
مسلمانوں کی کثیر تعداد ، نظم و نسق ، جوش وجذبہ اور عزم و ہمت سے مرعوب ہو کر کفار نے مزاحمت اور تصادم سے گریز کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ مکہ بغیر کسی خون خرابے کے مسلمانوں کی تحویل میں آگیا۔ صرف چند ہلکی پھلکی جھڑپیں اِدھر اُدھر واقع ہوئیں ۔باقی ماحول مکمل طور پر پُر امن اور خوش گوار رہا۔ کفار کاسارا گھمنڈ اور وقا ر آناًفاناً خاک میں مل گئے ۔ حالات کو اِ س قدر تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھ کر ابو سفیان بے ساختہ چلّا اُٹھا :’’قریش کاسارا سر سبز باغ اُجڑ گیا ، یہ قریش کا خاتمہ ہے ۔‘‘
یہ وہی ابو سفیان تھا جو عمر بھر آنحضورﷺ اور مسلمانوں سے شدید محاذ آرائی کرتا رہا تھا ۔ حضرت عمرؓ فوری اس کا سر قلم کرنا چاہتے تھے ۔ مگر آنحضورﷺ نے اُسے بالکل معاف کر دیا ۔ آنحضورﷺ سے ایک مختصر سی ملاقات میں اُس نے اپنے ماضی پر اظہار افسوس کیااور اپنی زیادتیوں اور گمراہیوں سے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا ۔
عام معافی اور خوش گوار ماحول
اہل مکہ سے اپنے تاریخی خطاب میں آنحضورﷺ نے فرمایا:’’اے اہلِ قریش! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں آج تم سے کیسا سلوک کرنے والا ہوں ؟‘‘ ماحول کی خاموشی توڑتے ہوئے وہ سب یک زبان ہو کر بول اُٹھے :’’ہمیں بہتر سلوک کی توقع ہے ۔ آپﷺ ایک شریف النفس بھائی ہیں اور شریف النفس باپ کے فرزند ہیں ۔‘‘آنحضورﷺ نے پھر اپنے اس اعلان سے سب کو ورطۂ حیرت ڈال دیا : ’’تم آج بالکل آزا ہو۔ کسی کو بھی ماضی کی زیادتیوں کی کوئی سزا نہیں ملے گی ۔ اللہ بھی تم سب کو معاف کر دے !وہی سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘ عام معافی کے اس اعلان سے مضطرب اہل مکہ کی جان میں جا ن آئی ۔ اُن کے خوف و خدشے ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ۔ آنحضورﷺ کی بصیرت اور تدبر نے اُن کے دل جیت لیے ۔
اس کے بعد آنحضورﷺ نے اعلان فرمایا کہ مندرجہ ذیل چار اقسام کے افراد کو مکمل امان اور تحفظ حاصل ہو گا :
(۱) خانہ کعبہ میں داخل ہوجانے والے ،
(۲) ہتھیار ڈال دینے والے،
(۳) ابو سفیان کے گھر میں پناہ لینے والے ،
(۴) اپنے گھروں کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھ رہنے والے ۔
بتوں اور تصویروں کی آلائشوں سے کعبہ کی صفائی
فتح مکہ کے دو بنیادی مقاصد یہ تھے :(۱) اشاعت اسلام کی رفتار کو تیزتر کرنااور (۲) خانہ کعبہ کو ہر قسم کے بتوں کی آلائشوں سے پاک کرنا۔ اُس وقت تک مختلف حجم کے تقریباً 360بت اور مجسمے بیت الحرام کی پاک سر زمین میں نصب کیے جا چکے تھے ۔کفار ان بتوں کے گرد طواف کر کے ان کی پوجا کیا کرتے تھے ۔ بتوں کی یہ پوجا اکثر برہنہ حالت میں بھی ہوتی تھی ۔
آنحضورﷺ ان تمام بتوں کوٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ سورہ نمبر ۱۷ کی آیت نمبر ۸۱ بھی پڑھتے جاتے تھے :’’حق یقیناآچکا ہے باطل تباہ ہو چکا ہے ۔ باطل نے یقیناتباہ ہونا ہی تھا۔‘‘کچھ بت اور تصاویر فرش سے ذرا اُونچے رکھے ہوئے تھے ۔ آپﷺ کے حکم پر حضرت علیؓ نے آپﷺ کے کندھے پر چڑھ کر اُنہیں بھی پاش پاش کر دیا ۔
کعبہ میں چند بت اور تصاویر کچھ زیادہ ہی گمراہ کن نوعیت کی تھیں ۔ مثلاً حضرت ابراہیمؓ اور حضرت اسمٰعیلؓ کے بتوں کو جوا کھیلتے دکھایا گیا تھا۔ آنحضورﷺ نے ان سب کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔ کعبے کی ایک دیوار پر حضرت عیسیٰ ؑ کی قد آدم تصویر بنی ہوئی تھی ۔ آنحضورﷺ نے اسے بھی مٹا دیا۔ ان بھونڈے بتوں اور گمراہ کن تصویروں کو ایک کوڑے کرکٹ کے بڑے ڈھیر کی صورت میں کعبے کی عمارت کے باہر پھینک دیا گیا۔
ان بتوں، مجسموں اور تصاویرکی اندھا دھند پو جا نے سارے جزیرہ نمائے عرب کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ انہی بتوں کی پوجا کی شدید مخالفت کی وجہ سے کفار آپﷺ کے جانی دشمن بن گئے تھے ۔ فتح مکہ پر ان سب بتوں کا آخری دن آخر کار آپہنچا اور انسانی تاریخ کے سب سے بڑے بت شکن ﷺ کی ضرب کاری سے یہ سب بت اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔
بدی کے بد نام ترین دور کا خاتمہ
فتح مکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور خوشیاں منانے کا دن تھا ۔ کعبہ کو بتوں کی نجاستوں سے پاک کرنے کے بارے میں اُس وقت کے ایک بہت بڑے عرب شاعر فضالہ نے یہ اشعار کہے :
بتانِ کعبہ کا عبرت ناک انجام
’’اُس روز گر تم کہیں دیکھ لیتے
محمدﷺ کو بتانِ کعبہ پاش کرتے
تو تم خوب اچھی طرح جان لیتے
نورِ خدا کو ہر سو نور افشاں ہوتے
بت پرستی پہ تاریکیوں کے پردے چھاتے ‘‘
فتح مکہ کے تمام اہم مرحلے بڑے پُروقار طریقہ سے مکمل ہو چکے تھے ۔ مسلمانوں نے کہیں کوئی مالِ غنیمت نہ سمیٹا ۔ لوٹ مار ، آتش زنی ، تشدد یا بے حیائی کاکوئی حادثہ رونما نہ ہوا۔ کوئی شخص قتل یا قید نہ ہوا۔ جب خانہ کعبہ بتوں اور مجسموں کی گندگی سے پاک ہو چکا تو آنحضورﷺ نے حضرت بلالؓ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔ بت پرستی کے پرانے مر کز سے اذان کی از سر نوگونج سے مسلمانوں کے دل مسرت سے جھوم اُٹھے ۔ تاہم چند بد نصیب کافروں کی رگِ جہالت اچانک پھڑک اٹھی ۔ایک بد ذوق کافر بول اٹھا :’’خدا نے میرے والد مرحوم کی عزت بچالی کہ وہ یہ اجنبی آواز سننے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکاتھا ۔ ‘‘ایک اور کافر سردار اذان سنتے ہی چیخ اٹھا :’’اب اس کے بعد جینا بے کار ہے ! ‘‘فاتح مسلمانوں نے ایسے بد نصیب کافروں سے اُلجھنا بے کار سمجھا ۔
حضرت بلالؓ کی تاریخی اذان کے بعد خانہ کعبہ میں صفائی کے بعد پہلی باجماعت نماز ادا کی گئی ۔ آنحضورﷺ نے امامت کے فرائض سر انجام دیے ۔ فتح مکہ اُن تمام انقلابی جہادوں کے سلسلہ کی آخری کڑی تھی جن کا آغاز بھی اِ سی مقدس شہر ہی سے ہوا تھا ۔ اُس مبارک روز بدترین بدمعاش کو بھی معاف کر دیا گیا اور کسی قسم کی کوئی بد مزگی یا تصادم رونما نہ ہوا۔ اسلام کی روشنی نے انجام کار سارے ماحول کو جگمگا دیا۔
آخری ہدایات اور مدینہ واپسی
آنحضورﷺ نے فتح مکہ کے بعد شہر میں تقریباً دو ہفتے قیام فرمایا ۔ ا س مختصر قیام میں آپﷺ نے مندرجہ ذیل اہم امور پر توجہ فرمائی :
(۱) مقدس شہر کے داخلی انتظام کے بارے میں چند تعمیری تجاویزکی تشکیل و تعمیل ،
(۲)اسلام کے بنیادی اُصولو ں اور ضابطوں میں اہل مکہ کی تعلیم و تربیت کے بارے میں ضروری ہدایات و اہتمامات ،
(۳) مکہ کے گرد و نواح میں اسلام کی مؤثر نشرو اشاعت کے لیے چند عسکری دستوں کی روانگی کا اہتمام ۔ اِ ن کی روانگی سے قبل آنحضورﷺ نے اُنہیں واضح اندازمیں سمجھا دیا کہ اُنہوں نے اپنے تبلیغی فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی بھی قسم کے جبرو تشدد سے قطعی گریز کرنا تھا ۔
مکہ مکرمہ میں آپ کا انقلابی مشن سراسر کامیاب رہا۔ مکہ میں امیر مقرر کرنے کے بعدآپﷺ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ واپس مدینہ تشریف لے آئے ۔
مکہ کی تاریخی فتح کی عظیم اہمیت
تاریخِ اسلام میں فتح مکہ کو عظیم تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔ اس عظیم تاریخی واقعے کے چند اہم پہلو مختصراً درج ذیل ہیں :
(۱) جامع منصوبہ بندی اور پرُامن طریقِ عمل
آنحضورﷺ کی خواہش تھی کہ یہ ساری مہم اوّل سے آخر تک پُرامن طریق سے بخیر و خوبی طے ہو۔ اس لیے انہوں نے ساری مہم کے سب پہلوؤں کے لیے جامع منصوبہ بندی کی تھی ۔ مہم کے ہر پہلو کے لیے نہایت دانش مندانہ اور پُر امن طریقِ کار اختیار کیا گیا تھا ۔
(۲) تسخیر قلوب عوام
عوام کے تسخیرِ قلوب کے لیے تو بے حد انقلابی ،تخلیقی اورڈرامائی طریق استعمال ہوا تھا ۔ا نسانی تاریخ میں کہیں بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں سنگین جرائم اور بڑے گناہوں کے مر تکب مفتوحہ لوگوں کو سزائیں دینے کی بجائے اُنہیں دریا دلی سے عام معافی دے دی گئی ہو ۔ آنحضورﷺ کے ڈرامائی اعلان معافی نے سب لوگوں کے دل موہ لیے ۔
(۳)آنحضورﷺ کے نظامِ تعلیم و تربیت کا میٹھا پھل
فتح مکہ ایک ایسی بے مثال مہم تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تصادم ، محاذ آرائی ، ظلم و تشدد ، لوٹ مار ،ِ آتش زنی ، اِضطراب و ابتری واقع نہ ہوئے ۔ اس ساری کارروائی میں تہذیب و تمدن اور اسلامی معیار و اقداد کی نمایاں چھاپ آنحضورﷺ کی مؤثر تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ تھی ۔
اس تاریخی مہم کی اہمیت کو یوں بھی واضح کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک خالص نظریاتی مہم تھی اور کوئی عام روایتی عسکری محاذ آرائی ہر گز نہ تھی ۔ اس کا مرکزی مقصد اسلام کے اعلیٰ و ارفع اقدار و معیارکی وسیع تراشاعت تھا۔استبداداور تشدد کا اس سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا ۔ اس اعتبار سے اس عظیم مہم کو تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تغیر ، انقلاب ، تعمیر اور امن کی عالمی تاریخ میں بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۸
حقوق و فرائض انسانی کا جامع منشورِ اعظم
اسلام کے اصولوں اور ضابطوں نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں کے فکر و عمل کے تمام شعبوں میں ایک بے مثال تعمیری اِنقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہی گنوا راور جنگجو عرب جو ہر قسم کی برائیوں ، بدیوں ، نفرتوں ، تشددوں ، فسادوں اور جہالتوں میں بُر ی طرح ملوث ہوا کرتے تھے ،اِسلام میں داخل ہوتے ہی محبت و اخوت اور تہذیب و تمدن کے بہترین ترجمان کی صورت چمکنے لگے۔ اُن کی معاشرتی اور ثقافتی تعلیم و تربیت میں حج نے بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔
تاریخی کاروانِ حج
ماہِ ذی القعدہ ۱۰ ھ کے آخری عشرے میں آنحضورﷺ نے مسلمانوں کوحکم دیا کہ وہ حج کے لیے آپ ﷺ کے ہمراہ جانے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ بس پھر کیا تھا پہاڑوں ، وادیوں ،میدانوں اور صحراؤں کے دورو نزدیک علاقوں سے مشتاق لوگوں کے ہجوم در ہجوم سفر حج میں آنحضورﷺ کے قرب کی سعادت کے لیے مدینہ منورہ میں جمع ہونے شروع ہو گئے ۔ شہر کے چاروں طرف خیموں کی تیزی سے پھیلتی ہوئی چھوٹی بڑی بستیاں نمودار ہونا شروع ہو گئیں ۔
۲۶ ذی القعدہ کو آنحضورﷺ عقیدت مندوں کے اِ س عظیم سمندر کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ۔ مؤرخوں نے اس عظیم کاروانِ حج کی تعداد میں اختلاف کیا ہے ۔ کسی نے ۰۰۰،۷۰ کسی نے ۰۰۰،۹۰ ، کسی نے ۰۰۰،۱۴،۱ کسی نے ۰۰۰،۴۰،۱ اور کسی نے اس سے بھی زیادہ تعداد بتائی ہے ۔
تلبیہ کی گرج دار گونجیں
مدینہ کے لیے ذُوالحلیفہ میقات ہے ۔ یہ مقام شہر سے تقریباً چھ میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ آنحضورﷺ اور آپﷺ کے سب ساتھیوں نے اس مقام پر احرام پہن لیے ۔ اس کے بعد ساری فضا فوراً تلبیہ کے ایمان افروز کلمات سے گونجنے لگی ۔ تلبیہ کی مکمل عبارت ان چار جملوں پر مشتمل ہے :
(۱) لبَّیک اللّٰھُم لبَّیک (۱) اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں
(۲)لَا شَریک لَکَ ، لبَّیک (۲) تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں
(۳) اِنّ الحمد و النعمۃ لکَ وَ الملک (۳) بیشک تمام تعریف ، تمام نعمت اور تمام حکمرانی تیری ہی ہے
(۴)لَا شَریک لَکَ (۴) تیرا کوئی شریک نہیں ۔
مکہ میں حج کی ادائیگی
۴ ذی الحج کو یہ تاریخی کاروانِ حج بخیر و خوبی مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔ سارا سفر ۹ دن میں طے ہو اتھا ۔ جب بنو ہاشم کے بچوں کوآنحضورﷺ کی تشریف آوری کا پتا چلا تو وہ شوق اور خوشی کے جوش میں آپﷺ کے استقبال کو دوڑے چلے آئے ۔ آنحضورﷺ اُن سے نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور ان میں سے کئی بچوں کو آپﷺ نے باری باری اپنی اونٹنی پر سوار فرمایا ۔ حضرت علیؓ اُن دنوں یمن میں تھے ۔ جب اُنہیں آنحضورﷺ کے عزم حج کی اطلاع ملی تو وہ بھی فوراً مکہ پہنچ گئے ۔
طواف اور سعی کے بعد آپﷺ وادی منیٰ پہنچے ۔ پھر آپﷺ نے میدانِ عرفات میں خیمہ نصب کرکے رات وہیں بسر کی ۔ دوسرے روز آپ ﷺکوہِ عرفات تشریف لائے ۔ عرفات کی چوٹی تک پہنچتے پہنچتے آپ کے ارد گرد ہجوم میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ سارا ماحول تکبیر کی ایمان افروز صداؤں سے گونج رہا تھا۔
اِنسانی حقوق و فرائض کا منشورِ اعظم
۹ ذی الحج کوآنحضورﷺ نے عرفات میں وہ تاریخی خطبہ اِرشاد فرمایا جسے حقوق و فرائض انسانی کے منشورِ اعظم ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ اس تاریخی خطبہ کا ترتیب شدہ اور سلسلہ وار خلاصہ درج ذیل ہے :
(۱) خطبہ عرفات کی اہمیت
خطبہ شروع کرنے سے پہلے ہی آنحضورﷺ نے سامعین کو تاکید کر دی کہ وہ سب باتیں غور سے سنیں کیونکہ آپﷺ ان سے اس جگہ شاید پھر کبھی نہ مل سکیں ۔
(۲) قرآن و سنت کا اِتباع
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے پیچھے یہ دو نعمتیں چھوڑے چلے جا رہے ہیں:(۱) قرآن حکیم جو اللہ تعالیٰ کاکلام ہے اور (ب) سنت جو رسول اللہ کے اقوال و اعمال کا مجموعہ ہے ۔ اگر مسلمان ان دونوں نعمتوں کومضبوطی سے تھامے رہیں گے تو وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوں گے ۔
(۳)اِختتام نبوّت
آنحضورﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور انسانوں کی مکمل رہنمائی کے لیے دین اسلام مکمل کر دیا گیا ہے۔
(۴) اسلامی اصولوں کی تعظیم و تعمیل
اسلامی اصولوں اور ضابطوں کااحترام اور اُن پر عمل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
(۵) جاہلیت کا خاتمہ
آپﷺ نے اعلان فرمایا کہ آپﷺ نے دور جاہلیت کے تمام معیار و اقدار اور رسوم و رواج پاؤں تلے روند کر ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے ہیں ۔
(۶) شیطانی وسوسوں سے گریز
شیطان اب مسلمانوں سے ہمیشہ کے لیے مایوس ہو چکا ہے ۔ اس کی ہر چال اور ہر جال میں اُلجھنے اور پھنسنے سے قطعی پر ہیز کیا جائے ۔
(۷) گمراہی اور نا انصافی سے پر ہیز
آنحضورﷺ کے وصال کے بعد مسلمانوں کو گمراہی اور نا اِنصافی سے بچنا چاہیے ۔
(۸) تمام اعمال کا محاسبہ
روزِ جزا اللہ تعالیٰ لوگوں کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کا کڑا محاسبہ کرے گا ۔
(۹) املاک اور زندگی کا اِحترام
لوگوں کی عزت و آبرو ، اُن کی زندگی اور املاک و جائیداد اسی طرح قابلِ احترام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مہینہ ۔
(۱۰) انتقامی قتل کی ممانعت
عہد جاہلیہ سے مروّج تمام انتقامی قتل و غارت ممنوع ہوں گے ۔
(۱۱) اخوتِ اسلامی
مسلمانوں میں باہمی اخوت و محبت میں تقویت بر قرار رکھی جائے گی ۔
(۱۲) عورت ، بیوی اور خاوند کے حقوق کااحترام
زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا پورا پورا احترام کیا جائے گا ۔ میاں بیوی کے حقوق قطعی تلف نہیں ہوں گے ۔
(۱۳) نوکروں اور ماتحتوں سے حسنِ سلوک
تمام نوکروں اور ماتحتوں کے حقوق کی پاسداری ہوگی اور ہر ایک سے صحیح سلوک کیا جائے گا۔
(۱۴) امانت میں خیانت کی ممانعت
امانتوں میں کسی قسم کی کوئی خیانت نہ ہوگی ۔
(۱۵) سُودی لعنت کاخاتمہ
سُود کی لعنت فوری طور پر ختم کر دی گئی ہے ۔
(۱۶)چند متفرق تشریحات اور توضیحات
اسکے بعد آنحضورﷺ نے اسلام کے متعدد اُصولوں اور ضابطوں کے بارے میں مزید تشریحات اور توضیحات فرمائیں ،مثلاً
(۱) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺکی اطاعت ،
(ب) زنا اور جنسی بے راہ روی سے اجتناب ،
(ج) قرضوں کی ادائیگی کی ضرورت ،
(د) دوسروں سے عارضی طور پر مانگی ہوئی اشیاء کی اصل مالکوں کو واپسی ،
(ر) آقااور خادم کے تعلقات اور حقوق کا احترام ،
(ز) خاوند کی املاک میں بیوی کاحصہ ،
(ژ)ضامن کی ذمہ داریاں ، وغیرہ ،
مقدس مشن اور آخری دین کی تکمیل
خطبہ عرفات بڑے غیر معمولی انداز میں دیا گیا ۔آنحضورﷺ وضاحت کے ساتھ آہستہ آہستہ خطاب فرماتے تھے۔مختلف جملوں کے درمیان آپﷺ وقفہ دیتے جارہے تھے جس کے دوران حضرت ربیعہؓ آپ کے تمام جملے دہراتے جاتے تھے ۔ یہ طریق کار اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ ہر خاص وعام اس عظیم تاریخی خطبہ کے متن اور اصل روح کو بخوبی سمجھ سکے اور اس سے پوری طرح لطف اندوز بھی ہو سکے ۔
خطبے کے اختتام پر آنحضورﷺ نے سامعین سے پوچھا:’’کیامیں نے اللہ کا پیغام آپ تک پہنچا دیا ہے ؟‘‘ہر طرف سے اُونچی آوازیں بلند ہوئیں :’’یقینا!یقیناً۔!!‘‘اس پر آنحضورﷺ نے نہایت اطمینان اور تسلی سے آسمان کی جانب دیکھااور تین بار فرمایا :’’اے اللہ ! گواہ رہنا ، میں نے اپنا مشن پورا کر دیا ۔!‘‘
تکمیل دین کے بارے میں وحی
خطبہ مکمل کر کے آپﷺ اپنی اُونٹنی سے نیچے اُترے ۔ آپﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر ادا فرمائیں ۔ پھر آپﷺحج کی باقی ماندہ رسوم ادا کرنے میں منہمک ہو گئے ۔ صخرہ کے مقام پر سورۃ المائدہ کی تیسری آیت کا یہ مشہور حصہ نازل ہوا۔ :
الیوم اکملت لکم دینکم آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل
واتممت علیکم نعمتی ورضیت کر دیا ، تمہارے لیے اپنی نعمتیں مکمل کر دیں ،
لکم الاسلام دیناً(۵:۳) اور تمہارے لیے اسلام بطور دین پسند کر لیا۔(۵:۳)
آنحضورﷺ نے جلدی جلدی یہ تازہ ترین وحی لوگوں تک پہنچا دی ۔ جب حضرت ابو بکرؓ نے یہ آیت سُنی تو وہ زار و قطار رونے لگے ۔ آپ بڑے ذی بصیرت صحابی تھے ۔ اُنہوں نے فوراً بھانپ لیا کہ جب دین مکمل ہو چکا ہے تواِس جہان فانی سے آنحضورﷺ کی رحلت بھی قریب ہی ہو گی ۔ اس خیال کے آتے ہی وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار رونے لگے ۔
میدانِ عرفات سے آنحضورﷺ مزدلفہ وادی میں تشریف لائے ۔ وہاں رات قیام اور صبح نماز ادا کر نے کے بعد آپﷺ رمی کے لیے جمرہ تشریف لے گئے ۔ ۱۱ اور ۱۲ ذی الحج کو آپﷺ نے جمروں پر رمی فرمائی ۔
اُونٹوں کی قربانیاں
مدینہ سے روانہ ہوتے وقت آپﷺ قربانی کے لیے اپنے ساتھ ایک سو اُونٹ لائے تھے ۔ یوم النحر (قربانی کادن )کو آپﷺ نے اپنی عمر مبارک کے ہر سال کے لیے ایک اونٹ کی قربانی کے حساب سے ۶۳ اُونٹ قربان فرمائے ۔ باقی ماندہ ۳۷ اُونٹ حضرت علیؓ نے قربان کیے ۔
اس کے بعد آپﷺ نے بال کٹوائے ۔ سب رسوم بخیر وخوبی ادا ہو گئیں توآنحضورﷺ اور آپﷺ کے تمام ساتھیوں نے احرام اُتار کر عام کپڑے پہن لیے ۔
تکمیلِ مشن کی لاثانی مثال
آنحضورﷺ نے عہد بنوت کے صرف ۲۳ سال کے قلیل عرصہ میں اِس قدروسیع و عریض مشن مکمل کر دیا۔ اشاعت اسلام کا یہ دورانیہ ۱۳ سال مکہ اور ۱۰ سال مدینہ میں جاری رہا ۔ انسانی فلاح و بہبود کی ساری تاریخ میں ایسی مثال کہیں بھی نہیں ملتی کہ اس قدر ہمہ گیر مشن اتنی قلیل مدت میں مکمل ہو گیا ہو ۔
عظیم حج کی عظیم اہمیت
یہ عظیم حج آخری نبی ﷺ کا پہلااور آخری حج تھا۔ تاریخِ اسلام میں خصوصاً اور دنیا کی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں عموماً اِس حج کو منفرد اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی اہمیت کے چند بنیادی پہلو مختصراً درج ذیل ہیں :
(۱) چار نام اور اہمیت کے چار پہلو
تاریخ میں اس عظیم حج کو مندرجہ ذیل چارناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ہر نام اس یاد گار حج کی متعلقہ اہمیت واضح کرتا ہے :
(۱) الوداعی حج (حجۃ الوداع)
اس حج کاایک اہم خصوصی امتیاز یہ تھا کہ یہ آنحضوﷺ کا پہلااور آخری (یعنی الوداعی ) حج تھا ۔
(ب) حج اسلام (حجۃ الاسلام )
اس عظیم حج کو حجِ اسلام بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے دوران اسلام مکمل ہونے کااعلان ہوااور اسے ساری انسانیت کے لیے شایانِ شان دین قرار دیا گیا۔
(ج) حجِ تبلیغ (حجۃ البلاغ)
یہ حج اسلام کی تبلیغ و اشاعت کاحج تھا کیونکہ اس میں آنحضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موصول متعدد اسلامی احکام کی نشرو اشاعت فرمائی ۔
(د) حج اکبر (حجۃ الاکبر )
یہ حج سب سے بڑا حج بھی تھا کیونکہ اس کے دوران مسلمانوں کو آپﷺ کی مبارک صحبت میں حج کے فریضے ادا کرنے کی منفرد سعادت نصیب ہو ئی ۔
اس عظیم حج کے یہ چاروں نام اس کی اہمیت کے مختلف پہلو اُجا گر کرتے ہیں ۔
(۲)حقوق انسانی کا بے مثال منشور
اس تاریخی حج کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے دوران آنحضورﷺ نے میدان عرفات میں وہ انقلابی خطبہ ارشاد فرمایا جو حقوق و فرائض انسانی کا ایک بے مثال منشورِ اعظم ہے ۔
(۳) دینِ اسلام کی تکمیل
اس عظیم حج کو دورانِ دینِ اسلام مکمل ہونے کی تصدیق میں وحی بھی نازل ہو ئی ۔ (۵:۳)
(۴) آنحضور ﷺکے مقدس مشن کی تکمیل
اسی تاریخی حج کے دوران آنحضورﷺ نے اپنے مقدس مشن کی تکمیل کااعلان بھی فرمایا ۔
ظاہر ہے کہ انسانی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی میں الوداعی حج کو ایک منفرد سنگِ میل کا خصوصی امتیاز حاصل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱۹
آخری پیغمبر ﷺ کے آخری ایام
نبی اکرمﷺ نے زندگی کے ہر شعبہ میں تعمیری انقلاب کی لازوال بنیادیں رکھیں ۔ آپ ﷺ کا مقدس مشن مکمل ہو چکا تھا ۔ اب یوں دکھائی دیتا تھا جیسے انہیں پتا چل گیا تھا کہ وہ اس جہانِ فانی سے عنقریب رخصت ہونے والے ہیں۔ ۱۱ھ کے لگ بھگ انہوں نے اپنی اگلی زندگی کے بارے میں کچھ لطیف اشارے شروع کر دیے تھے ۔ بسا اوقات یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے جاں نثار ساتھیوں کواپنے آنے والے وصال کا صدمہ سہنے کے لیے تیار کر رہے ہوں۔
مرض الموت کی خوفناک اذیتیں
آنحضورﷺ عرصہ سے جسمانی درد کی شکایت کر رہے تھے ۔ پیر وار ،۲۹ صفر ۱۱ھ جب آپﷺ ایک جنازہ میں شرکت سے واپس لوٹے تواُس درد کی شدت میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔ آپﷺ کے آخری مرض کا دورانیہ تقریباً دو ہفتوں پر پھیلا ہوا ہے ۔ پہلے گیارہ دن آپﷺ مسجد تشریف لا کر حسب معمول امامت فرماتے رہے ۔
وصال سے پانچ روز پہلے ایک بار تو شدیدبخار اور اذیت ناک درد اپنے اوج پر پہنچ گئے تھے ۔ آپ ﷺ ٹھنڈے پانی سے غسل فرمانا چاہتے تھے ۔ آپﷺ نے فرمائش کی کہ مدینہ کے سات کنوؤں سے پانی کے سات مشکیزے لائے جائیں ۔ ٹھنڈے پانی کے غسل سے بخار کی تیزی کم ہوئی اور طبیعت قدرے سنبھل گئی ۔ بقول عائشہؓ ’’آپﷺ کاتابندہ و شگفتہ چہرہ قرآنی صفحے کی مانند نظر آرہا تھا۔‘‘ آپ ﷺپھر مسجد تشریف لائے ۔ نماز کے بعد حاضرین سے خطاب کیااور انہیں ہدایت کی کہ اُن کے وصال کے بعد اُن کی قبر کو عبادت کا مرکز نہ بنا دیا جائے ۔
پیروار کی وہ افسردہ سہ پہر
واپس گھر تشریف لاتے لاتے درد کی تکلیف پھر شدت اختیار کرنے لگی ۔ آپ ﷺ بے حد کمزور اور تھکے تھکے نظر آرہے تھے ۔ اس روز غشی طاری ہونے سے پہلے جوآخری الفاظ آپﷺ کے ہانپتے ہوئے ہونٹوں سے سُنے گئے ،اُن کاتعلق ان اہم امور سے تھا:
(۱) قبروں کو عبادت گاہوں کی صورت دینے کاغیر اِسلامی رواج ،اور
(۲) جزیرہ نمائے عرب کو یہودیوں اور عیسائیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت ۔
انجام کار وہ انتہائی غم ناک لمحہ آپہنچا جس کا آپﷺ کے عزیز و اقارب کو اُن اذیت ناک ایام میں سخت خدشہ تھا ۔ پیر وار ۲ ۱ ربیع الاوّل ۱۱ ھ (۲۸مئی ۶۳۲ ء ) آنحضورﷺ نے آخر کار اپنی دنیا وی زندگی کاآخری سانس لے لیا۔ تاریخِ انسانی کا سب سے حسرت ناک لمحہ آخر آپہنچا ۔
آنحضورﷺ کی زندگی میں پیرو ار کا مقام
اُس غم آلود پیر وار کوآنحضورﷺ کی عمر ۶۳ سال سے آٹھ روز کم تھی۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پیر وار نے آپﷺ کی زندگی میں ایک منفرد کردار ادا کیا تھا۔ آپ کا یوم ولادت پیر وار تھا ۔ سانحہ حجر اسودمیں آپﷺ نے پیرکے دن ہی متصادم قبائل میں مصالحت کر وائی تھی ۔ آپﷺ پیر ہی کے دن نبوت پر فائز ہوئے تھے ۔ آپﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت بھی پیر ہی کے دن فرمائی تھی ۔ سفر ہجرت کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آپﷺ پیر وار کو مدینہ میں داخل ہوئے تھے ۔ مرض الموت کی اذیتوں کاآغاز بھی پیر ہی کو ہوا تھا۔
اور اپنے سفرِ آخرت پر بھی آپﷺ پیر وار ہی کو روانہ ہوئے ۔
جائے تدفین اور ہےئت قبر پر اِختلاف
آنحضورﷺ کے وصال کے پہلے دن ہی مختلف چھوٹے بڑے معاملات پر اختلاف رائے کا آغاز ہوا۔ آنحضورﷺ کی تدفین کس شہر میں کی جائے ؟تین شہر زیرِ غور آئے :(۱) یروشلم (۲) مکہ مکرمہ اور (۳) مدینہ منورہ ۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد مدینہ منورہ کے حق میں فیصلہ ہوا۔ اس کے بعد یہ سوال اُٹھا کہ تدفین کس جگہ ہو ۔ تین تجاویز پر غور ہوا:(۱) صحابہ کرامؓ کی قبروں کے نزدیک (۲) مسجد نبوی کے منبر کے قریب اور (۳) حجرہ عائشہ میں ۔ آخر کار فیصلہ ہوا کہ حجرہ عائشہؓ میں ہی تدفین ہو کیونکہ آپﷺ نے آخری سانس وہیں لیا تھا۔
قبر کی شکل و صورت کیسی ہو ؟اس پر بھی خاصی بحث ہوئی۔ قبروں کے یہ دو نمونے زیر بحث آئے :(۱) مکہ میں مروّج صندوقی قبر اور (۲) اہل مدینہ کاپسندیدہ نمونہ لحد ی قبر ۔آخر کار لحدی قبر کا فیصلہ کر لیا گیا ۔
جب آنحضورﷺ کا جسد مبارک نمازِ جنازہ کے لے تیار ہو گیا تو غم گین مسلمانوں کے ہجوم شرکت کے لیے بیتاب تھے ۔ مگر چونکہ وہ جگہ بہت تنگ تھی اس لیے جنازے کی نمازیں دس دس افراد کی ٹولیوں کی صورت میں ادا کی گئیں ۔سب سے پہلے مردوں ،پھر عورتوں اور پھر بچوں نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی ۔
آخری رسول ﷺ کی آخری باتیں
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ کے آخری ایام میں کیا کچھ ہوا؟ آخری رسول ﷺ کے آخری دنوں کی چندآخری باتوں کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :
(۱) آخری رقم کاآخری صدقہ
اپنی زندگی کے آخری روزآپﷺ کے گھر ساتھ دینار پڑے تھے ۔آپﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ساری رقم فوراً غریبوں کو صدقہ میں دے دی جائے۔
(۲) آخری باجماعت نماز
وصال سے چند روز پہلے جب آپﷺ کی طبیعت ذرا سنبھلی توآپﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز کی امامت ادا فرمائی ۔ یہ آپﷺ کی آخری امامتِ نماز تھی۔
(۳) محبوب رسول ﷺ کاآخری دیدار
اُس روز مسجد میں موجود لوگوں کو اپنے آخری رسول ﷺ کے آخری دیدار کی سعادت نصیب ہوئی ۔
(۴) دو آخری سر گوشیاں
آخری روز آنحضورﷺ نے اپنی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزھراء کو بلا بھیجا ۔ آپﷺ نے اُن کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ زار و قطار رونے لگیں ۔ پھر دوسری بار کچھ فرمایا تو وہ مسکرانے لگیں ۔ پہلی سر گوشی اپنے وصال کے بارے میں تھی۔ دوسری سرگوشی میں حضرت فاطمہؓ کو یہ خوش خبری سنائی گئی تھی کہ وہ جنت میں داخل ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی ۔
(۵)ّ آخری خو شخبری
اُسی روز آنحضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو ’’سیدۃ النساء ‘‘ (خواتین کی سردار ) کے خطاب کی خوشخبری بھی د ی۔
(۶) آخری شدید درد
آخری روز آپﷺ پر شدید درد کا دورہ تھا۔ درد کی شدت کم کرنے کی خاطر آپﷺ ایک پیالے میں پانی میں اُنگلیاں ڈبو ڈبو کر چہرہ مبارک پر ملتے رہے ۔
(۷) آخری بوسے
آپ ﷺ نے دونوں نواسوں ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو بلوایااور بڑی شفقت سے دونوں ہونہار بچوں کے بوسے لیے ۔
(۸)آخری وصیّت
دونوں نواسوں کو گود میں بٹھا کر آپﷺ نے اپنی آخری وصیّت فرمائی کہ اُمّہ اُن کا احترام کیاکرے ۔
(۹ ) آخری شفیقانہ تھپکی
آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو بلابھیجااور اُن کا سراپنی آغوش مبارک میں لے کر نہایت شفیقانہ تھپکی دی ۔
(۱۰)دو آخری ہدایات
ان دو امور کے بارے میں آنحضورﷺ اپنی آخری دو ہدایات دہراتے رہے :
(۱) نمازوں میں پابندی اور (ب) نوکروں اور غلاموں سے بہتر سلوک ۔
(۱۱) آخری مسواک کا واقعہ
آخری روز حضرت عائشہ کے بھائی حضرت عبدالرحمنؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اُن کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک تھی۔ آپﷺ نے پُراشتیاق نگاہوں سے مسواک کو دیکھاتو حضرت عائشہؓ نے فوراً اُسے منہ میں چبا کر آرام سے آپﷺ کے ہاتھ میں تھمادیا۔ آپﷺ بہت خوش ہوئے اور آہستہ آہستہ مسواک کرنا شروع کر دی ۔ مگر جلد ہی آپ پر غشی طاری ہو گئی اور مسواک ہاتھ سے پھسل کر نیچے جا گری ۔
(۱۲) آخری تیماداری اور نگہداشت
آخری لمحات میں حضرت عائشہؓ نے اُنہیں اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور اُن کی درد کی شدت کم کرنے کے لیے تیمارداری میں مسلسل صروف تھیں ۔
(۱۳) آخری لمحہ کے آخری الفاظ
آخری روز سہ پہر کے قریب آنحضورﷺ کے سانس اور سینے میں تکلیف مزیدشدت اختیار کر گئی ۔ پھر دفعتاً آپﷺ کے ہاتھ ڈھلک گئے اور نگاہ اوپر اٹھ گئی ۔یہ آخری رسول ﷺ کی زندگی کا آخری لمحہ تھا ۔آپ ﷺ کے مبارک ہونٹوں سے یہ آخری الفاظ دھیمے دھیمے نکل رہے تھے :’’میرا اللہ، میرا اعلیٰ رفیق ۔‘‘اور اِس کے ساتھ ہی آنحضورﷺ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکے تھے ۔
(۱۴) اُدھار تیل پر روشن آخری چراغ شب
اُس ناقابل فراموش شام آپﷺ کے ہاں چراغ روشن کرنے کے لیے تیل تک میسر نہ تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے ہم سایہ عورت سے تیل اُدھار لے کر دیا جلایا۔ سوآخری رسول ﷺ کے ہاں آخری چراغ شب بھی اُدھار تیل سے روشن کیا گیا ۔
غم آلود ماحول کے دل خراش مناظر
وصال کے فوراً بعد یہ دل خراش خبر سارے جزیرہ نمائے عرب میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ سارے ماحول پر موت کا سا سکوت طاری ہو گیا ۔ کئی لوگوں کے حواس مختل ہو گئے ۔ بعض افراد شکستہ دل ہو کر جنگلوں اور صحراؤں کی جانب بھاگنے لگے ۔ آہ و بکا اور گریہ زاری قیامت کا سماں پیش کر رہے تھے ۔
نماز جنازہ کے بعد اُداس سوگوارگھروں کو لوٹنے لگے ۔ اُس روز زمین اور آسمان پر گہرے رنج کا ایک عجیب سناٹا چھایا ہو اتھا۔ حضرت عائشہؓ غم واضطراب میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ حضرت ابو بکرؓ پیکر غم و حسرت تھے ۔ حضرت عمرؓ غم و رنج سے مبہوت ہو چکے تھے ۔ حضرت فاطمہؓ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔ مسکراہٹیں اُن کے پر وقار چہرے سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی تھیں ۔ اس اندوہ ناک المیے کے بعد بمشکل چھ ماہ بقید حیات رہیں ۔
ماتمی مرثیے اور حسرت ناک اشعار
حساس شاعروں نے اس المناک سانحہ پر غم ناک مرثیے لکھے ۔ حضرت حسان بن ثابتؓ کے ایک طویل مرثیے کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
’’کر دیے مختل میرے ہوش و حواس وصال رسول ﷺنے
اے کاش میں نے اس دنیا میں جنم ہی نہ لیا ہو تا!‘‘
حضرت فاطمہؓ نے بڑے ماتمی اشعار لکھے ۔اُن کا ایک شعر یوں ہے :
’’سونگھے اِک بار جو کوئی احمد کی قبر کو
ہو گا ہر عطر کی حاجت سے بے نیاز عمر بھر ‘‘
ایک اور دل خراش مرثیے میں آپؓ کا ایک شعر ہے :
’’ٹوٹ پڑے مجھ پر آلام ومصائب اتنے
گرتے وہ دن پر تو اسے رات بنا دیتے ‘‘
زندہ وتابندہ رسول ﷺ
بجا ہے کہ پیارے رسول ﷺ ہم میں جسمانی طور پرموجود نہیں ۔ تاہم اُن کی من موہنی باتوں اور تعمیری کاموں کی مہک سے کائنات ابد تک سر شار رہے گی ۔ آنحضورﷺ کامقدس مشن انسانی فکرو عمل کو ہر لحظہ گرماتا رہے گا ۔ قرآن حکیم کی اس آیت میں آنحضورﷺ کو کیا شایانِ شان خراج عقیدت پیش ہو اہے ۔
اِن اللہ و ملٰئکتہٗ یصَلُّوْ نَ عَلَی النَّبی ۔ اللہ تعالیٰ اور اُن کے فرشتے نبی مکرم ﷺ پر درود و سلام
یا یُّھَاالذِینَ اٰمنو ا صَلُّو ا علَیہِ بھیجتے ہیں ۔ اسے مسلمانو! تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجا
وَسَلِّمُو ا تَسْلِیماً ((۳۳:۵۶) کرو!‘‘(۳۳:۵۶)
جب بھی ہونٹوں پر حضرت محمدمصطفےٰ ﷺ کانام آتا ہے تو یوں محسوس ہو تا ہے جیسے ان دل نشین جملوں سے ساری کائنات جھوم رہی ہو۔
اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدِِوَّعَلیٰ اٰ لِ مُحَمَّد اے اللہ حضرت محمدﷺ اور اُن کی آل اولاد پر رحمت نازل
ِِ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمََ وَ علی اٰلِ فرما ،جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کی آل اولاد پر
اِبُرَاھِیمَ اِنَّکَ حمِیدمَجِید۔ رحمت نازل فرمائی تھی ۔بے شک تو ہی قابلِ تعریف اور بڑا بزرگ و برتر ہے ۔
اَلّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحمَّدِِوَّعَلیٰ اٰ لِ مُحَمَّد اے اللہ حضرت محمدﷺ اور اُن کی آل اولاد پر برکتیں نازل
ِِ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمََ وَ علی اٰلِ فرما، جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کی آل اولاد پر
اِبُرَاھِیمَ اِنَّکَ حمِیدمَجِید۔ برکتیں نازل فرمائیں ۔بے شک تو ہی قابل تعریف اور بڑا
بزرگ و بر تر ہے ۔
انسانیت کو اُس وقت آنحضورﷺ کے احترام و اطاعت سے مستفیض ہونے کی سعادت با افراط نصیب ہوئی جب آپﷺ جسمانی طور پر لوگوں میں موجود نظر آتے تھے ۔ مگر عقیدت و احترام کی یہ منفرد سعادت انسانوں کو ابد تک نصیب ہو تی رہے گی کیونکہ آپﷺ کامقدس مشن اور انقلابی تعلیمات لا فانی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۲۰
انسانیت کا بہترین نمونہ
حضرت محمدﷺ بلاشک و شبہ انسانیت کا بہترین نمونہ تھے ۔ قرآن حکیم انہیں ’’بلند ترین اخلاق ‘‘کے حامل قرار دیتا ہے ۔(۶۸:۴)ْ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپﷺ ساری انسانیت کے لیے ’’بہترین نمونہ‘‘ہیں ۔ (21:33) آپﷺ کے بے مثال اخلاقی مقام کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا:’’آپﷺ کااخلاق قرآن حکیم تھا۔‘‘ یعنی آپﷺ قرآن مجید میں بیان کیے ہوئے تمام اعلےٰ معیار واقدار کے مجسم پیکر تھے ۔ دنیا کی نامور ہستیوں اور معروف ترین مصنفو ں نے آپﷺ کو بہترین سپاسِ عقیدت پیش کیے ہیں ۔ دوست ، دشمن ، اپنا پرایا غرضیکہ ہر کوئی آپﷺ کے بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کا معترف تھا۔ درحقیقت انسانی تاریخ میں کسی اور شخصیت سے اس قدر والہانہ محبت ، احترام اور عقیدت کا اظہار آج تک نہیں ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔
اس بات کااحاطہ کرنے کے لیے کہ آنحضورﷺ کو انسانیت کا بہترین نمونہ کیوں کہا جاتا ہے ، اس باب میں آپﷺ کے چند منفرد محاسن کو ان عنوانوں کے تحت مختصراً بیان کیا گیا ہے :(۱) بہترین اِنسان (۲) بہترین معلم(۳) بہترین رہنما اور مشیر (۴) بہترین مبلغ (۵) بہترین ترجمانِ حقوق و فرائض اِنسانی (۶) بہترین مصلح(۷) بہترین سیاستدان (۸) بہترین مدبر (۹) بہترین حکمران (۱۰) بہترین قانون ساز(۱۱) بہترین منصف (۱۲) بہترین مزدور (۱۳) بہترین گلہ بان (۱۴) بہترین تاجر (۱۵) بہترین ماہر منصوبہ سازی (۱۶) بہترین مجاہد(۱۷) بہترین صلح جو (۱۸) بہترین سیاح(۱۹) بہترین کھلاڑی (۲۰) بہترین نبی و رسول ۔
(۱)بہترین انسان کا نمونہ
آنحضورﷺ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ بچپن ہی سے آپﷺ کو والدین اور دادا کی وفات کے صدمے پہنچے تھے ۔ ابتدائی عمر اس قدر غم آلود ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے کسی مرحلہ پر بھی کسی ایسے ناگوار ردّ عمل کا اظہار نہ کیا جو اس قسم کے ناساز گار ماحول سے گزرے ہوئے بچے عموماً کیا کرتے ہیں ۔ اس کے بر عکس آپﷺ کی مبارک زندگی اوّل سے آخر تک خوش گوار ، تعمیری اور تخلیقی انداز میں گزری ۔ ایک بہترین انسان کے ناتے سے آپﷺ نے اُن تمام نفسیاتی نظریوں کو عملاً رد کیا جو ناساز گار ماحول میں پروان چڑھے بچوں میں کرداری خامیوں کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔
ایک بچے ، نوجوان ، آدمی ، خاوند ، باپ ، داماد ، بھتیجے ، ہمسائے اور دوست کی حیثیت سے آپﷺ ایک نہایت عمدہ اور عالی ظرف انسان نظر آتے ہیں ۔ قرآن حکیم انہیں بلند اخلاق کی تصویر (5:68) اور ’’بہترین نمونہ ‘‘(21:33) قرار دیتا ہے ۔ حضرت عائشہؓ نے آپﷺ کے اخلاق کو قرآن مجید سے تشبیہ دی ہے ۔ مشہور صحرائی خاتون اُم معبد نے آنحضورﷺ کی جو خیالی تصویر کھینچی ہے وہ اس بات کی ترجمان ہے کہ عوام الناس کے دلوں میں آپﷺ کا تصور کیا تھا۔ غرضیکہ ایک انسان کی حیثیت سے بھی آنحضورﷺ ایک مثالی نمونہ نظر آتے ہیں ۔
(۲) بہترین معلم کا نمونہ
آپﷺ ایک منجھے ہوئے معلم تھے ۔ آپ ﷺ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘عنفوانِ شباب ہی سے آپﷺ وقت کا خاصا حصہ معنی خیز علمی مباحثوں میں صرف کیا کرتے تھے ۔ آپﷺ پر نازل ہو نے والی پہلی وحی قلم اور پڑھنے لکھنے کے بارے میں تھی ۔ جنگ بدر میں قید ہونے والے اُن پڑھے لکھے قیدیوں کو آپﷺ نے بغیر کسی فدیہ کے رہا کر دیا جنہوں نے مسلمان بچوں کو لکھائی پڑھائی سکھائی ۔ زندگی بھر تعلیم و تربیت آپﷺ کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔ آنحضورﷺ فی الواقع بہترین معلم بھی تھے ۔
(۳) بہترین رہنمااور مشیر کا نمونہ
لوگوں کی رہنمائی اور مشاورت میں آنحضورﷺ کو خصوصی دلچسپی تھی ۔ ہر قسم کے لوگ اپنے روز مرہ مسئلوں اور اُلجھنوں میں رہنمائی کے لیے آپﷺ کے پاس کھنچے چلے آتے تھے ۔ آنحضورﷺ ان کے مسائل کا تجزیہ اورحل قرآن و سنت کی روشنی میں کیا کرتے تھے ۔
(۴ ) بہترین مبلغ کا نمونہ
آنحضورﷺ نہایت مؤثر اور نڈر مبلغ اسلام تھے ۔ مکی زندگی میں آپﷺ نے تبلیغ کی خاطر کئی بار اپنی جان بھی داؤ پر لگا دی ۔ عقبہ کی تینوں بیعتیں آپﷺ کے دانش مندانہ طریق تبلیغ کی مظہر ہیں ۔ مدینہ سے مکہ آئے ہوئے حاجیوں میں آپﷺ نے اس لیے اشاعت اسلام کی تاکہ مدینہ میں اسلام پھیلنے سے ہجرت کی کامیابی کی راہ ہموار ہو۔ اِسی طرح بیرونی سر براہانِ مملکت کو دعوتِ اسلام کے خطوط بھی تبلیغی فہم و فراست کامنہ بولتا ثبوت تھے ۔
آپﷺ کے وعظ و تبلیغ کے تمام طور طریقوں میں آپﷺ کے علم و عرفان ، دانش مندانہ منصوبہ بندی اور جرأت و جسارت کی جھلک نمایاں ہوتی تھی ۔ تبلیغ و تعلیم اسلام کے میدان میں بھی آپ ﷺ بہترین نمونہ نظر آتے ہیں ۔
(۵) حقوق و فرائض انسانی کے ترجمان کا بہترین نمونہ
آنحضورﷺ آخری دم تک عورتوں ، بچوں ، نوکروں ، ماتحتوں ، معذوروں اور ناداروں کے حقوق کی پُر زور ترجمانی کرتے رہے ۔ میدا ن عرفات میں آپﷺ کے مشہور خطبہ کو حقوق و فرائض انسانی کا منشورِ اعظم کہا جا تا ہے ۔ بسترِ مرگ پر بھی آپﷺ نے حقوق انسانی کی مؤثر ترجمانی کا مشن جاری رکھا ۔
انسانی تاریخ میں آنحضورﷺ جیسے حقوق انسانی کے موثر و مخلص ترجمان کی نظیر نہیں ملتی، آپﷺ انسانی حقوق و فرائض کے بہترین ترجمان کے بہترین نمونہ تھے۔
(۶) بہترین مصلح کا نمونہ
دو ر جاہلیہ انسانی تاریخ کے بد ترین اور تاریک ترین عہدوں میں شمار ہوتا ہے ۔ آنحضورﷺ نے اُن انتہائی جاہل اور گنوار لوگوں کے فکر و عمل کے تما م شعبوں میں ایک تعمیری انقلاب برپا کر دیا ۔ اپنے مؤثر اِصلاحی اقدام سے آپﷺ نے جاہل ترین بدوؤں کومہذب ترین انسان بنا دیا ۔ اس قدر قلیل مدت میں اس قدر عظیم اصلاح و تغیر کا سہرا بھی آپﷺ ہی کے سر سجا ہوا ہے ۔ تاریخ تہذیب و تمدن میں آپ ﷺ کو بہترین مصلح کے طور پر ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا ۔
(۷) بہترین سیاست داں کا نمونہ
آنحضورﷺ کی سیاسی زندگی ، آپﷺ کا سیاسی فلسفہ اور سیاسی دوستوں دشمنوں سے آپﷺ کا برتاؤ آپﷺ کے سیاسی تدبر و دانائی کے آئینہ دار ہیں ۔ اپنی سیاسی تقریروں اور بیانوں ،منصوبوں اور پروگراموں میں آپﷺ نے کبھی بھی کسی قسم کی نا معقولیت کا اظہار نہ کیا۔ جنگ ہو یا امن آپﷺ نے سیاسی زاویہ میں تدبر اور تحمل کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا ۔ سیاسی میدان میں بھی آپﷺ دانش اور تحمل کا نمونہ نظر آتے ہیں ۔
(۸) بہترین مدّبر کا نمونہ
آنحضورﷺ ایک منجھے ہوئے مدّبر تھے ۔ آپﷺ کا واسطہ دن رات طرح طرح کے گنواروں اور عالمو ں ، عیاروں اور پاک بازوں ، امیروں اور ناداروں ، ظالموں اور مظلوموں سے پڑتا تھا ۔ آپﷺ ہر قسم کے لوگوں سے اپنی خداداد فہم و فراست کا لوہا منوا لیتے تھے ۔ آپﷺ کے بے مثال تدبر کے چند تاریخی نمونوں کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :
(۱) ہنگامہ حجر اسود میں آپﷺ کی مصالحت
آپ کے فہم و تدبر سے ایک اشتعال انگیز محاذ آرائی قتل وغارت سے بچ گئی ۔
(ب) اخوّت انسانی کا عظیم عہد نامہ
جس کی مدد سے مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین اور مدینہ میں موجود انصار کے مابین بھائی چارے کی ایک بے مثال فضا فروغ پائی ۔
(ج) میثاقِ مدینہ
جس کی رو سے مدینہ کے گرد و نواح میں امن و تحفظ کا ساز گار ماحول وجود میں آیا۔
(د) صلح نامہ حدیبیہ
جس میں آپﷺ نے کفارِ مکہ کی بظاہر ناخوشگوار شرائط تسلیم کر کے اپنی صلح جوئی اور مدبرانہ بصیرت کا بے مثال ثبوت دیا ۔
(ر) فتح مکہ میں اظہار تدبر
جہاں آپﷺ نے عام معافی کے اعلان سے دوست دشمن کے دل موہ لیے ۔
(ز) میدانِ عرفات میں حقوق و فرائض انسانی کا تاریخی اعلان
عرفات میں آپﷺ کا تاریخی خطبہ حقوق و فرائض انسانی کے منشورِ اعظم کامقام رکھتا ہے ۔ اِ ن سب باتوں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ بہترین نمونہ تھے ۔
(۹) بہترین حکمران کا نمونہ
پہلی اسلامی فلاحی ریاست کے سر براہ کی حیثیت سے آنحضورﷺ بہترین حکمران کے مثالی نمو نہ کے طور پر اُبھرتے ہیں ۔ مدینہ کی نئی نویلی اسلامی ریاست کو ایک خوشگوار اور ترقی پذیر فلاحی ریاست کا بہترین نمونہ بنانے میں آپﷺ نے بڑی لگن اور محنت سے کام کیا ۔ آپﷺ نے اپنے تئیں کبھی بھی حکمراں یا بادشاہ تصور نہ کیا بلکہ عوام کا خادم ہی سمجھا ۔ آپﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے :’’لوگوں کا سردار اُن کا خادم ہوتا ہے ۔ ‘‘ایک معیاری حکمراں کی حیثیت سے آپ ﷺ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے ۔
(۱۰ )بہترین قانون ساز کا نمونہ
معیشت و معاشرت کی تعمیر و ترقی کے لیے آنحضورﷺ نے متعدد قوانین اور ضابطے تشکیل دیے اور اُن پر تعمیل کی راہیں ہموار کیں ۔ وہ اُن اولین قانون سازوں میں سے ہیں جنہوں نے قانون سازی میں انسانیت کو فروغ دیا۔ آپﷺ کی ابتدائی قانون سازی نے مستقبل میں رونما ہونے والی متعدد قانونی تبدیلیوں اور ترقیوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔
ایک بہترین قانون ساز کی حیثیت سے آنحضورﷺ اپنی مثال آ پ ہیں۔ زندگی کے معاشرتی اور اقتصادی شعبوں میں انقلاب و استحکام کے لیے آپﷺ نے قانون سازی کو مؤثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔
ّ(۱۱) بہترین منصف کا نمونہ
آنحضورﷺ عد ل وا نصاف کا بہترین نمونہ تھے ۔ دوست ، دشمن ، مسلم غیر مسلم سبھی اپنے معاملوں کے تصفیہ کے لیے آپﷺ کے پاس بلا جھجک چلے آتے تھے ۔ ریاست کے سر براہ کی حیثیت سے آپﷺ عدل و انصاف پر مامور افراد اور اداروں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ۔ ان کے فرائض کی انجام دہی میں سر زد ہونے والی خامیوں اور خرابیوں کا سخت محاسبہ ہوتا تھا ۔
عدل ا انصاف کے ہر معاملے میں آنحضورﷺ کی مثا ل بہترین نمونہ نظر آتی ہے ۔
(۱۲) بہترین مزدور کا نمونہ
آنحضورﷺ اپنے خاندان اور دوسروں کے لیے محنت مزدوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ۔ ابتدائی عمر ہی سے آپﷺ کو دوسروں کی خدمت کا شوق تھا۔ ہجرت کے فوراً بعد آپﷺ نے ایک مسجد قبااور ایک مدینہ میں تعمیر کروائی ۔ دونوں میں آپﷺ نے دوسروں سے مل کر رضا کارانہ مزدوری کی ۔ بلکہ آپﷺ باقی مزدوروں سے مل کر دورانِ تعمیر اجتماعی گیتوں میں بھی شرکت فرماتے رہے ۔ اسی طرح مدینہ کے گرد خندق کھدائی میں بھی آپﷺ برابر کے شریک ہوئے ۔
رضا کارانہ مزدوری میں بھی آنحضورﷺ بہترین نمونہ تھے ۔
(۱۳) بہترین گلّہ بان کا نمونہ
اللہ تعالیٰ نے گلہ بانی کو تمام پیغمبروں کے نصاب تربیت میں شامل رکھا ہے ۔ یہ اس لیے کہ گلہ بانی سے اپنے ریوڑ کو خوراک مہیا کرنے اور اُن کی دیکھ بھال اور حفاظت کا اہتمام کر نے کی بہترین تربیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس طرح کی تعلیم و تربیت کے اصولوں اور ضابطوں کو انسانی زندگی میں بھی بخوبی بروئے کا رلایا جا سکتا ہے ۔ پیغمبر بھی توآخر اپنی قوم کا گلہ بان ہی ہو تا ہے ۔
مکی زندگی کے ابتدائی ایام میں آنحضورﷺ اپنے چچا ابو طالب کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ آپﷺ کئی ایک دوسرے لوگوں کی بکریاں اُجرتاً بھی چرایا کرتے تھے ۔ چرواہی زندگی کے ان ابتدائی دنوں میں آپﷺ کو صحراؤں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں بیٹھ کر انسانی زندگی کی غرض و غایت پر غورو فکر کے مواقع بھی میسر آجاتے تھے ۔
آنحضورﷺ کے یہ ابتدائی تجربے گلہ بانی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ۔
(۱۴) بہترین تاجر کا نمونہ
مکی زندگی میں آنحضورﷺ کو تجارت اور کاروبار کا بہت تجربہ ہوا ۔ ایک دفعہ نو عمری میں بھی آپﷺ کو اپنے چچا کے ساتھ تجارت کے سلسلہ میں شام جانے کا اتفاق ہوا۔ راستے میں مشہور عیسائی راہب بحیر ا سے آپ ﷺ کی تاریخی ملاقات ہوئی ۔ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں بحیرا نے اس بات کی تصدیق کی کہ آپﷺ مستقبل کے نامی پیغمبر ہیں ۔
آپﷺ کے تجارتی تجربوں میں حضرت خدیجہؓ کے یمن جانے والے ایک تجارتی قافلہ کی قیادت بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ آنحضورﷺ کو بحرین میں تجارت کرنے کا موقع بھی ملا ۔ اِن تمام تجارتی سفروں کے دورا ن آنحضورﷺ نے قدرت کے گہرے مشاہدے کے ساتھ ساتھ مختلف لوگوں سے زندگی کے بارے میں مباحثے بھی کیے۔
(۱۵) ماہر منصوبہ ساز کا بہترین نمونہ
آنحضورﷺ منصوبہ بندی کے منجھے ہوئے ماہر تھے ۔ بلا سوچے سمجھے اٹکل پچو طریقے سے کام کرنے سے آپﷺ کو نفرت تھی ۔ آپﷺ نے اپنی خداداد منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کو تجارت ، سیاست کے انتظامی امور ، تعلقات عامہ ، جنگوں اور معاہدوں میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ منصوبہ بندی کے میدان میں آنحضورﷺ کو بے مثال نام و مقام حاصل ہے ۔
(۱۶) بے مثال مجاہد کا نمونہ
آنحضورﷺ با کما ل جنگجو ، عسکری منصوبہ بندی کے ماہر ، منجھے ہوئے گھڑ سوار اور تجربہ کار ساربان تھے ۔ عسکری شجاعت اور نڈر جنگجوئی میں آپﷺ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپﷺ نے متعدد جنگوں کی کامیاب سپہ سالار ی کی ۔
یہ امر قابل صدستائش ہے کہ آنحضوﷺ نے میدانِ جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ چنانچہ آپﷺ نے اپنے لشکریوں کو اخلاق باختہ حرکتوں ، کمزوروں کومارنے ،ا نتقامی قتل و غارت اور دشمن مقتولین کے قطع اعضا سے ہمیشہ سختی سے باز رکھا۔
آنحضورﷺ کی عسکری زندگی ایک مہذب مجاہد کا بے مثال نمونہ پیش کرتی ہے ۔
(۱۷) بہترین صلح جو کا نمونہ
اسلام صلح صفائی کا ترجمان ہے ۔ آنحضورﷺ انسانی تاریخ میں صلح صفائی کے درخشاں ستارے کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔ آپﷺ صلح صفائی اور امن و خیر سگالی کے مؤثر ترین پیغامبر تھے ۔ آپﷺ کی بے مثال صلح جوئی اور امن پسندی کی چند مشہور مثالیں درج ذیل ہیں :
(۱) واقعہ حجر اسود میں آپﷺ کی صلح جوئی
حجر اسود کے ہنگامہ میں خوں ریز تصادم رُکوانے اور امن و امان بحال کرنے میں آپﷺ کی مؤثر کوششیں صلح جوئی کا بے مثال کارنامہ ہیں ۔
(ب) صلح حدیبیہ میں اَمن پسندی کا مظاہرہ
صلح حدیبیہ میں بھی آپﷺ نے اَمن پسندی اور خیر سگالی کی ایک عظیم مثال پیش کی ۔
(ج) فتح مکہ پر انتقام کی بجائے عام معافی
فتح مکہ پر بھی آپﷺ نے انتقامی کارروائیوں کے بجائے عام معافی کے اعلان سے صلح جوئی کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔
(د) صلح جوئی کے متفرق معاہدے
مختلف دشمنوں اور مخالفوں سے اَمن اَمان کے متعدد معاہدوں میں بھی آپﷺ نے صلح جوئی کے عدیم النظیر مظاہرے فرمائے ۔
(۱۸) بہترین سیّاح کا نمونہ
سیاحت اور مسافری کے میدان میں بھی آنحضورﷺ بہترین نمونہ تھے ۔ آپﷺ نے جزیرہ نمائے عرب کے اندر اور باہر متنوع قسم کے متعدد اور منفرد سفر کیے ۔ آپ کے چند مشہور سفروں کی اقسام وار تفصیلات مختصراً درج ذیل ہیں :
(ا) ابتدائی تربیت کے اولین صحرائی سفر
یہ وہ ابتدائی صحرائی تربیت کے سفر تھے جو آپﷺ نے اپنی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہؓ کے ساتھ گدھوں پر طے کیے ۔
(ب) والدہ کے ساتھ تفریحی سفر
یہ وہ تفریحی سفر تھا جوآپﷺ نے اپنی پیاری ماں کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک طے کیا تھااور جس میں واپسی پر اَبواء کے مقام پر آپﷺ کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئیں ۔ اُس وقت آپﷺ کی عمر صرف چھ سال تھی ۔
(ج) بیرونی تجارتی سفر
اِ ن دِلچسپ تجارتی سفروں کا رخ شام ، یمن اور بحرین کی جانب تھااور یہ سب مکی زندگی میں طے ہوئے تھے ۔
(د) ہجرت کا پُر خطر سفر
ہجرت کا طویل تاریخی سفر مکہ سے مدینہ کی جانب اُونٹ پر طے ہوا، جب آپﷺ کی عمر ۵۰ برس تھی ۔
(ر) جنگی سفروں کا سلسلہ
مختلف جنگوں اور مہموں کے لیے دور نزدیک کے ان سفر وں کا سارا سلسلہ مدنی زندگی کے دوران ہوا۔
(ز) چوروں اور دہشت گردوں کے تعاقب کے سفر
کچھ سفر ایسے بھی ہیں جو مدنی زندگی میں چوروں ، رساگیروں اور دہشت گردوں کے تعاقب میں طے ہوئے ۔
(ژ) حج اور عمرہ کے سفر
مدنی زندگی کے آخری دور میں آپﷺ نے عمرہ کے لیے مسلسل دو اور حج کے لیے ایک سفر کیا ۔
(س) خلائی اور آسمانی سفر
معراج کے دوران خلاؤں او ر آسمانوں میں ایک بے مثال سفر کا منفرد اعزاز بھی آپﷺ ہی کو حاصل ہے ۔
اس کے علاوہ آنحضورﷺ سیرو سیاحت کی دُنیا میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں ۔
(۱۹) بہترین کھلاڑی کا نمونہ
آنحضو ر بہترین کھلاڑی بھی تھے ۔ ابتدائی بچپن میں آپﷺ کے محبوب کھیل پیرا کی اور دوڑ ، وغیرہ تھے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو کشتیوں ، گھڑ سواری اور ساربانی کا شوق بھی ہوا۔ آپﷺ کے کھلاڑ پن کے دو واقعات بڑے دلچسپ ہیں (ا) کشتی میں عرب کے نامور پہلوان رُکانہ کو دوبار چت کرنے کا دلچسپ واقعہ اور (ب ) اپنی محترمہ زوجہ حیات حضرت عائشہؓ سے دوڑ میں پہلی بار ہارنااور دوسری بار جیتنا۔ اور پھر آپﷺ کا اس پر شگفتہ تبصرہ کہ ’’ہم دوڑوں میں برابر رہے ہیں ۔‘‘
آنحضورﷺ کو بچوں کے لیے کھیلیں تنظیم کرنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ کھیل کی دنیا میں بھی آنحضورﷺ کی زندگی ایک صحت مند نمونہ تھی ۔
(۲۰) بہترین نبی ﷺاور بہترین رسول ﷺ کا نمونہ
نبی ﷺاور رسول ﷺ کی حیثیت سے بھی آنحضورﷺ نے ایک قابل قدر نمونہ پیش کیاہے ۔ آپﷺ انبیاء کے ایک طویل سلسلہ کی آخری کڑی اور اُن سب کے قائد تھے (40:33) ۔معراج کے دوران آپ کو نماز میں انبیاء کی امامت کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ آپﷺ بہترین نبی اور رسول ﷺ کا بہترین نمونہ تھے ۔
ساری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ
زندگی کے جس اہم پہلو سے بھی دیکھا جائے آنحضورﷺ ساری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ نظر آتے ہیں ۔ آنحضورﷺ کی بے مثال سیرت کو زندگی کے ہر پہلو میں قابلِ تقلید نمونہ کے طور پر سامنے رکھنے میں ہی سب کا فائدہ اور نجات ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۲۱
اللہ کے آخری نبی ﷺاور آخری رسول ﷺ
آنحضورﷺ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ ہیں ۔ آپﷺ انبیاء کی ایک طویل کڑی کے مسلمہ قائد ہیں ۔ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے ۔
قرآن اور حدیث کاحتمی ثبوت
قرآن حکیم میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ آنحضورﷺ ’’اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں ۔‘‘(40:33)اس حقیقت کی تصدیق ان ذرائع سے بھی ہوئی ہے :
(۱) حضرت عیسیٰ ؑ کی تائید
جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہوا ہے (6:61) ۔
(۲) احادیث نبوی ﷺ
نبی اکر م ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں مثلاً ’’میں ساری بنی نوع انسان کے لیے بھیجا گیا ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔‘‘
ختم نبوت کا واضح جواز
آنحضورﷺ سے پہلے آنے والے تمام انبیاء کے مشن ، پیغام اور وحی صرف چند محدود لوگوں ، علاقوں اور وقتوں کے لیے ہی تھیں ۔ اس لیے پیغمبر وں کی لمبی قطاروں کے سلسلے جاری رہے تا کہ زیادہ سے زیادہ علاقے اور وقتوں کے لوگ اُن کی تعلیمات سے مستفیض ہو سکیں ۔
اس کے برعکس آنحضورﷺ کے مشن اور پیغام بالکل مختلف اور منفرد تھے ۔ اِن کی چند خصوصیا ت یہ تھیں :
(۱) آپﷺ کا پیغام دائمی اور آخری تھا۔ کسی خاص علاقے ، وقت یا لوگوں کے لیے مخصوص ہو نے کے بجائے یہ ساری کائنا ت کے لیے ہمیشہ کے لیے اور ساری بنی نوع انسان کے لیے تھا۔
(۲) قرآن بھی مکمل ہو چکا ہے ۔ اس میں ردو بدل یا مزید وحیوں کا تمام سلسلہ بند ہے ۔
(۳) دین اسلام بالکل مکمل ہو چکا ہے ۔ (3:5) ۔
ان حقائق کی روشنی میں اب آئندہ نہ تو کوئی نبی یا رسو ل آئے گا ، نہ کوئی وحی نازل ہو گی او ر نہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین آئے گا ۔ ختم نبوت کے عقیدہ میں یہ سب باتیں شامل ہیں ۔ آنحضورﷺ کے ’’خاتم النبیین ‘‘ہونے پر ہر مسلمان کا غیر مشروط ایمان قطعی لازم ہے ۔
جھوٹے نبیوں اور نبیہ کے ہنگامے اور انجام
آنحضورﷺ کے آخری ایام ہی میں متعدد دھوکے بازوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے شروع کر دیے تھے ۔ ان میں ایک حسین و جمیل نبیہ بھی شامل ہے ۔ ان کے نام یہ تھے :(۱) اسود عنسی ، جو اپنے بد صورت چہرہ کی وجہ سے ہمیشہ حجاب پہنے رکھتا تھا، (۲) طلیحہ جو بہت امیر اور جنگجو تھا، (۳) مسیلمہ ، جو زیادہ جھوٹ بولنے کی علّت کی وجہ سے ’’کذاب ‘‘کے لقب سے مشہور تھا، اور (۴) سُجاح ، جو ایک حسین و جمیل بے راہ رو عیسائی دو شیزہ تھی جس نے نبیہ ہونے کا ڈرامائی ڈھونگ رچا رکھا تھا ۔
کچھ عرصہ تو یہ سب جھوٹے نبی سادہ لوح اور شیطان خصلت لوگوں کو کافی ورغلاتے اور پھسلاتے رہے ۔ مگر پھر ان سب کا انجام برا ہوا ۔ اسود عنسی قتل ہو گیا۔ طلیحہ نے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا ۔ مسیلمہ ’’کذاب ‘‘وحشی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ جھوٹی نبیہ سُجاح نے اسلام قبول کر لیا ۔
جھوٹے نبیوں کو ٹھکرانے کی ضرورت
نبوت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے ۔ آنحضورﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان بالکل لازمی ہے ۔ ہرقسم کے ہر جھوٹے نبی کوٹھکراناایمان کا ضروری حصہ ہے ۔ ہر مسلمان کے لیے ان باتوں کا ماننا لازمی ہے :
(۱) حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ﷺ اور آخری رسول ﷺ ہیں ۔
(۲) قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی آخری مقدس کتاب ہے ۔
(۳) اسلام ساری انسانیت کے لیے واحد ، سچااور آخری دین ہے ، اور
(۴) ہر قسم کے جھوٹے نبی کوٹھکرانا ایمان کا لازمی حصہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۲۲
رسالت مآب ﷺ کے عظیم عزیزو اقارب
اس باب میں چند اُن جلیل القدر افراد اور اہم اداروں کا مختصر ذکر کیا گیا ہے جنہیں آنحضورﷺ کے عزیز و اقارب میں شمولیت کا بے مثال اعزاز حاصل ہے ۔ اس خوش بختوں کی مختصرفہر ست یوں مرتب ہوتی ہے :
(۱) پہلا منفرد معاشرہ جو آنحضورﷺ کی تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت سے مدینہ میں سامنے آیا (۲) اُمہات المومنین یعنی آنحضورﷺ کی پاک دامن ازواج (۳)آنحضورﷺ کی آل اولاد (۴) قرآنی وحیوں کے کاتب (۵) صحابہ کرام اور عشرہ مبشرہ (۶) اصحابِ صفہ کے مفلس دانش ور (۷) انصار اور مہاجرین اور (۸) خلفائے راشدین ۔
(۱) مدینہ میں اُبھرنے والا اوّلین مسلم معاشرہ
آنحضورﷺ کی مسلسل تعلیم و تربیت اور رشد وہدایت سے مدینہ میں ایک ایسا صالح اور روشن دماغ معاشرہ اُبھرا جس کے فکر اور عمل اسلامی اصولوں کے عین پابند تھے ۔ یہ صالح معاشرہ آنحضورﷺ کو بے حد عزیز تھا۔ اس صحت مند معاشرے کے ہر چھوٹے بڑے کوآنحضورﷺ سے بے پناہ محبت وعقیدت تھی ۔
(۲) آنحضورﷺ کی پاک دامن بیویاں
آنحضورﷺ کی پاک دامن بیویوں کو اُمہات المومنین ’’یعنی مسلمانوں کی مائیں ‘‘کے اجتماعی لقب سے یاد کیا جا تا ہے ۔ آپﷺ ان سے انتہائی شفقت و محبت و عزت و احترام سے پیش آتے ۔ مختلف وقتوں میں اُن سے آپﷺ کا نکاح ہوا۔ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :(۱) حضرت خدیجہؓ (ب) حضرت سودہؓ (ج) حضرت عائشہؓ (د) حضرت حفصہؓ (ر) حضرت زینب بنت خزیمہؓ (ز) حضرت اُم سلمہؓ (ژ) حضرت زینب بنت جحشؓ (س) حضرت جویریہؓ (ش) حضرت اُم حبیبہؓ (ص) حضرت صفیہؓ (ض) حضرت ریحانہؓ (ط)حضرت میمونہؓ (ظ) حضرت ماریہ القبطیہؓ ۔
زیادہ شادیوں کی ضروری وضاحت نے بڑی لے دے کی ہے ۔ اس لیے ہر قسم کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے وضاحت ضرور ی ہے ۔
آنحضورﷺ نے عمر عزیز کے ابتدائی ۲۵ برس کا بہترین حصہ ایک ہی زوجہ مطہرہ یعنی حضرت خدیجہؓ کی رفاقت میں مکہ میں گزارا ۔ باقی سب نکاح آپﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں فرمائے ۔ حضرت عائشہؓ کے سوا ان خواتین کی اکثر یت بیوہ تھی ۔ ان نکاحوں کی درستگی اور جوازسمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل اہم باتیں ذہن نشین رکھنا ضرور ی ہیں :
(۱) کثرت ازدواج کے لیے خصوصی خدائی اجازت
اللہ تعالیٰ نے اپنی صوابدید کے مطابق آنحضورﷺ کو غیر محدود نکاحوں کی خصوصی اجازت عطا فرمادی تھی (50:33)۔
(ب )عائلی زندگی کا خدائی منصوبہ
آنحضورﷺ کی منفرد زندگی کا منصوبہ اللہ تعالیٰ نے خود مرتب کیا ہوا تھا ۔
(ج) اشاعتِ اسلام میں توسیع کا جذبہ
زیادہ خواتین کو حلقہ زوجیت میں لینے میں آنحضورﷺ کے اشاعتِ اسلام میں توسیع کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔
(د) عورتوں میں وسیع تر تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ
عورتوں کے لیے بہترین معلم رہنما صرف عورت ہی ہوسکتی ہے ۔ ایک محرک یہ بھی تھا کہ خصوصی تربیت یافتہ مطہرات کی ایک سلجھی ہوئی جماعت کے ذریعے عورتوں میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا سلسلہ عام اور وسیع کیا جائے ۔
(ر) بیواؤں اور یتیموں کی آبادکاری
حضرت عائشہؓ کے سوا ان تمام خواتین کی اکثریت بیوگان تھی ۔ ایسی بے سہارا خواتین اور ان کے لاوارث بچوں کی مناسب آبادکاری کا جذبہ بھی آنحضورﷺ کی زیادہ شادیوں میں ایک بنیادی محرک تھا۔
(ز) وفاداریوں اور خدمتوں کا صِلہ
مختلف افراد، خاندانوں اور قبیلوں کی اسلام اور مسلمانوں سے وفاداریوں اور خدمتوں کے صلہ کے طور پر بھی بعض نکاح طے ہوئے تھے ۔
(ژ) تالیف قلوب کا وسیلہ
مختلف خاندانوں اور قبیلوں سے دشمنیاں اور مخالفتیں ختم کرنے اور اسلام کے لیے اُن کے دل موہنے کا شوق بھی اس سلسلے میں کار فرما تھا ۔
(س) خوش گوار گھریلو زندگی کا نمونہ
نیک بیویوں کی خاصی تعداد کے ذریعہ خوشگوار گھریلواور ازدواجی زندگی کا ایک معتدل نمونہ پیش کرنا بھی مقصود تھا۔
(ش) بیویوں سے عدل و مساوات کی مثال
ہر بیوی سے عدل و انصاف اور مساوی حسنِ سلوک کی مثال قائم کرنا بھی ایک محرک تھا۔ ظاہر ہے کہ آنحضورﷺ کو ایک سے زائد شادیوں کی خصوصی خدائی اجازت کے متعدد اعلیٰ و ارفع مقاصد تھے ۔ مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ عام آدمی کو بھی یہی خصوصی اجازت دینے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے تھے ۔
(۳) آنحضورﷺ کی آل اولاد
آنحضورﷺ کے تین بیٹوں کے نام یہ تھے :(ا) حضرت قاسمؓ (ب) حضرت عبداللہؓ اور (ج) حضرت ابراہیمؓ ۔ یہ تینوں بچے اوائل عمر ہی میں انتقال فر ماگئے ۔
آپﷺ کی چار بیٹیوں کے اسماء گرامی یہ تھے (ا) حضرت زینبؓ (ب) حضرت رقیہؓ (ج) حضرت اُم کلثومؓ اور (د) حضرت فاطمہؓ ۔
آنحضورﷺ کے دو نامور نواسوں کے اسماء گرامی تھے (ا) حضرت امام حسنؓ اور (ب) حضرت امام حسینؓ ۔
(۴) خلفائے راشدین
آنحضورﷺ کے وصال کے بعد چار لائق فائق اور نیک سیرت صحابی یکے بعد دیگرے آپﷺ کے خلیفہ یعنی جانشین منتخب ہوئے ۔ ان نام ور خلفاء نے اپنے اپنے عہد خلافت میں اسلام کی نشر و اشاعت اور مدینہ کی اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی میں بیش بہا خدمات سر انجام دیں ۔ان چاروں عظیم اکابرین کو خلفاء الراشدین یعنی ہدایت یافتہ جانشین کہا جاتا ہے ۔ ان چاروں خلفاء کے اسماء گرامی اور عہد خلافت کے دورانیے درج ذیل ہیں :
(ا) حضرت ابو بکر صدیقؓ
۱۱ ھ ۱۳ ھ تک (بمطابق ۶۳۲ء سے ۶۳۴ء تک )
(ب) حضرت عمر فاروقؓ
۱۳ ھ سے ۲۴ تک (بمطابق ۶۳۴ ء سے ۶۴۵ء تک )
(ج) حضرت عثمان غنیؓ
۲۴ ھ سے ۳۵ تک (بمطابق ۶۴۵ ء سے ۶۵۶ ء تک )اور
(د) حضرت علی المرتضیٰؓ
۳۵ ھ سے ۴۰ ھ تک(بمطابق ۶۵۶ ء سے ۶۶۱ ء تک ) ۔
(۵) قرآنی وحیوں کے کاتب
جوں ہی کوئی وحی نازل ہوتی آنحضورﷺ اسے فوراً زبر کر لیتے ۔ آپﷺ کے ارد گرد بیٹھے لوگ بھی اُسے ذہن نشین کر لیتے ۔ اس کے علاوہ قرآنی وحیوں کے ماہر کاتبوں کی ایک مستند فنی جماعت بھی تیار ہو گئی جنہیں آنحضور ﷺ کی مسلسل تعلیم و تربیت اور رشد وہدایت کا شرف بھی حاصل تھا۔
صحابہ کرامؓ میں قرآنی وحیوں کے کاتبوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی ۔ ابتدائی کاتبوں میں یہ جلیل القدر لوگ بہت مشہور ہیں :(ا) حضرت ابو بکرؓ (ب) حضرت عمرؓ (ج) حضرت عثمانؓ (د) حضرت علیؓ (ر)حضرت زید بن ثابتؓ (ز) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ۔
(۶) صحابہ کرامؓ او ر عشرہ مبشرہؓ
صحابہ کرام آنحضورﷺ کے وہ نزدیکی رفقاء کار ہیں جنہیں آپ کے بہت قریب ہونے کا منفرد شرف حاصل ہے ۔ ان خوش نصیبوں کو آنحضورﷺ کاقرب حاصل ہونے کی وجوہات یہ تھیں :(ا) انہوں نے آنحضوڑﷺ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا ، (ب) انہوں نے ناخوشگوار او ر ناساز گار حالات میں بھی آپﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا ، (ج) اُنہوں نے اسلام کے لیے بیش بہا قربانیاں اور بے مثال خدمات سر انجام دیں اور (د) وہ بحالت مسلمان دُنیا سے رخصت ہوئے ۔
ان صحابہ کرام کی فہر ست خاصی طویل ہے ۔ مگر ان میں عشرہ مبشرہ کومزید خصوصی فضیلت حاصل ہے ۔ عشرہ مبشرہ کا مطلب ہے دس ایسے افراد ہیں جنہیں اپنی زندگی ہی میں جنت کی خوش خبری سنا دی گئی ہو ۔ ان دس ممتاز صحابیوں کے اسمائے گرامی قدر یہ ہیں :(ا)حضرت ابو بکرؓ (ب) حضرت عمرؓ (ج) حضرت عثمانؓ (د) حضرت علیؓ (ر) حضرت طلحہؓ (ز) حضرت زبیر بن العوامؓ (ژ) حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ (س) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (ش) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور ( ص) حضرت سعید بن زیدؓ ۔
(۷) اصحاب صُفہ کے مفلس دانش ور (چبوترے والے دوست )
آنحضور ﷺکے قریبی حلقہ احباب میں اصحاب صفہ بھی شامل ہیں ۔مسجد نبوی کے شمالی کونے میں ایک اونچا سا چبوترہ ہوتا تھا ۔ یہ لوگ اپنا اکثر وقت وہیں گزارتے تھے ۔ وہ انتہائی نادارو مفلس مگر بے حد عالم و فاضل لوگ تھے ۔ آنحضورﷺ ان سے خصوصی شفقت و محبت اور عقیدت و احترام کرتے تھے ۔آپﷺ ان کی دیکھ بھال ، تعلیم وتربیت اور کھانے پینے میں گہری ذاتی دلچسپی لیتے تھے ۔ اصحاب صفہ میں بڑے نامی گرامی مسلمان شامل تھے ۔
(۸) انصار اور مہاجرین
ہجرت کے وقت مدینہ کی ساری مسلم آبادی ان دو فرقوں پر مشتمل تھی : (ا) مکہ سے ہجرت کر کے آئے ہوئے مہاجرین اور (ب) مدینہ میں پہلے ہی سے آباد انصار ۔ مہاجرین اپنا گھر بار ، ما ل و دولت اور سب کچھ مکہ چھوڑ کر مدینہ پہنچے تھے ۔ ان کی مالی حالت بہت خستہ تھی کچھ ابتدائی مدت کے لیے مہاجرین کو مددا ور سر پرستی کی اشد ضرورت تھی ۔
آنحضورﷺ نے حضرت انسؓ کے گھر پر انصار اور مہاجرین کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔ آپ ﷺ نے دونوں فریقوں میں موآخات یعنی بھائی چارے کے ایک نئے سلسلے کے آغاز کا اعلا ن کیا۔ موآخات کی رو سے ایک مہاجر ایک انصاری کا بھائی قرار دے دیا گیا اور یوں سب مہاجرا ور سب انصار آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ سلسلہ اخوت میں منسلک ہو گئے ۔ موآخات کی رُو سے ہر انصاری نے اپنی ساری جائیداد اور مال و دولت کا نصف حصہ فوراً اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ۔
موآخات کے ا نقلابی اقدام سے دونوں فریقوں کے درمیان قرب ومحبت کا اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بے چارے مہاجروں کی مشکل بھی آسان ہو گئی ۔ پھر جوں جوں مہاجرین کو بھی مدینہ میں کام کاج ملتے گئے ،اُنہیں کسی قسم کی مدد اور سر پرستی کی ضرور ت باقی نہ رہی ۔ چنانچہ وہ انصار بھائیوں سے ملنے والا امدادی مال و زر اُنہیں واپس لوٹا تے رہے ۔
انصار اور مہاجرین کے درمیان موآخات کے رشتے کو بڑی تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ انقلابی اسکیم آنحضورﷺ کے فہم و تدبر کا ایک اور منفرد ثبوت تھی ۔
ّآنحضورﷺ کے عزیزو اقارب کی بے مثال سعادت
یہ تھیں وہ چند نامور ہستیاں اور جماعتیں جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے سرور عالم حضرت محمدمصطفیﷺ سے قریبی لگاؤ کی منفرد سعادت نصیب ہوئی ۔
اس بے مثال خوش نصیب حلقے میں مدینے کا اُبھرتا ہوا مسلم معاشرہ ، آنحضورﷺ کی پاک دامن ازواج ، آل واولاد ، خلفائے راشدین ،وحیوں کے کاتب ، صحابہ کرا م، عشرہ مبشرہ ، اصحاب صُفہ اور نامور مہاجرین وانصار اور خلفائے راشدین ایسی بلند و بالا ہستیاں شامل ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب ۲۳
خراجِ عقیدت و احترام کے موزوں ترین اَنداز
حضرت محمدﷺ کے مبارک سوانح کا مختصر بیان مکمل ہو تا ہے ۔ کوئی بھی سوانح حیات اتنی دلچسپ ، خیال انگیز ، تعمیری اور انقلابی نہیں ہے جتنی آنحضورﷺ کی مبارک سیرت ۔ سیرت رسول ﷺ پڑھنے والے ہر شخص کو ایک ایسی بے مثال سعادت نصیب ہوتی ہے جو کسی قسم کے کسی اور اَدب کے مطالعہ سے قطعی ممکن نہیں ۔
اِحترام و عقیدت کا موزوں ترین اَنداز
انسانیت کے لیے آنحضورﷺ کی قابل قدر خدمات اور بے مثال قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پایہ کی بلند و بالا ہستی کوخراجِ عقیدت و احترام پیش کرنے کا موزوں ترین انداز کیا ہے ؟ جواب آسان اور واضح ہے ۔ آئیے ہم سب اپنے اندر جھانکیں ۔ کیا اپنی روز مرہ زندگی میں ہم اپنے پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ؟اگر ہم آنحضورﷺ کی تعمیری تعلیمات پر واقعی عمل کرتے ہیں تو یہ اُن کی عظیم خدمات اور قربانیوں کو خراجِ عقیدت و احترام پیش کرنے کا موزوں ترین طریقہ ہوگا۔
عملی عقیدت و احترام کی اشد ضرورت
بجا ہے کہ روایتی انداز میں درود و سلام اور نعت و نظم سے آنحضورﷺ سے اظہار عقیدت واحترام کی سعادت حاصل کرنا بھی ہر مسلمان پر عین فرض ہے ۔ بھلا جس عظیم و اعلیٰ ہستی پر خود خدااور فرشتے درودو سلام بھیجتے رہتے ہوں(56:33) اُن کی عقیدت و احترام سے غفلت برتنا کہاں کی دانش مندی ہے ؟ مگر درود و سلام کے ساتھ ساتھ کچھ اور کرنا بھی آنحضورﷺ سے صحیح عقیدت و احترام کے حقیقی ثبوت کے لیے بے حد ضروری ہے ۔
آنحضورﷺ تقویٰ و طہارت ، فہم و فراست ، فلاح و بہبودد اور تعمیر و ترقی کے مجسم پیکر تھے ۔ اگر ہمیں آپﷺ سے حقیقی عقیدت و احترام ہے تو ہمیں اپنی ساری زندگی آپﷺ کی مبارک سیرت کی مانند ڈھالنا ہو گی ۔قرآنی ہدایت کے عین مطابق آنحضورﷺ کو عمدہ ترین نمونہ عملاً تسلیم کرناہوگا(21:33) ۔اپنے فکر و عمل کے تمام طور طریقوں میں عین وہی تعمیری اِنقلاب بر پا کر ناہو گا جو آنحضورﷺ کے مقدس مشن کی اصل غر ض و غایت تھی ۔
اپنی ذاتی زندگی سنوارنے کے سا تھ ساتھ ہمیں دوسروں کی فلاح و بہبود اور تعمیر وترقی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کر نا ہوگا۔ معاشرتی بھلائی کا تعمیری کام بھی آنحضورﷺ کو عملی خراجِ عقیدت و احترام پیش کرنے کا نہایت موزوں انداز ہے ۔ ہمارے اِرد گرد آئے دن طرح طرح کے حادثے اور المیے رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسے دُکھی انسانوں کے کام آنااور انفرادی اور اجتماعی تعمیر و ترقی کے لیے مسلسل جدو جہد کرنا ہم سب پر فرض ہو جا تا ہے ۔بعض نیک افراد اور منظم ادارے دوسروں کی فلاح و بہبود اور اجتماعی تعمیر و ترقی میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسے حساس کارکنوں اور رفاہی اداروں سے ہر ممکن تعاون بھی آنحضورﷺ سے عقیدت و احترام کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اپنی اصلاح سے غفلت برتنااور دوسرو ں کی تعمیر و ترقی سے منہ موڑنا آنحضورﷺ کی انقلابی تعلیمات کے عین منافی ہے ۔
عملی عقیدت و احترام کے فائدے
آنحضورﷺ سے عملی عقیدت و احترام ایسے تعمیری اظہار کے فائدوں کا شمار ممکن نہیں ۔ صحیح عقیدت کے عملی اظہار سے ہماری ذاتی زندگی سنوار جائے گی ۔ اس سے معاشرے میں ایک عظیم تعمیری انقلاب رونما ہو گا ۔ مسلمانوں کی بقاء اور احیاء کی راہیں ہموار ہوں گی ۔ اس سے ہم پھر وہ کھوئی ہوئی عظمت ، قیادت حاصل کرنے میں بالآخر کامیاب ہو جائیں گے جو آنحضورﷺ کی انقلابی تعلیمات کا اصل لُب لُباب ہے ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔