جنت کے پھول ۔ ۱
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا
اے اللہ ! ان لوگوں میں سے،انہیں میں سے ایک رسول اٹھائیو ،جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے ۔۔۔۔۔۔اورکتاب اور دانائی سکھایا کرے اور انہیں پاک صاف کیا کرے۔
(سورۃ البقرہ:آیت ۱۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے رسول پاک ﷺ رحمت بن کر آئے
تمہارے پاس ایک رسول آیا خود تمہارے ہی درمیان سے ،کہیں باہر سے نہیں ۔
اللہ کا رسول آیا، ایسا رسول ﷺ جو تمہارے ہرغم کو اپنا غم سمجھتا ہے ،تمہاری ہر تکلیف پر بے چین ہوجاتا ہے ، جس کو ہر وقت ۔۔۔۔۔۔۔تمہاری بہتری کی فکر رہتی ہے ،جسے۔۔۔۔۔۔تمہاری کامیابی سے محبت ہے ،جو۔۔۔۔۔۔۔تمہاری بھلائی کا چاہنے والاہے ۔ بہت ہی چاہنے والا جو مومنوں پر ۔۔۔۔۔۔ بڑا ہی شفیق ہے، رحیم ہے، مہربان ہے، بے حد مہربان ۔۔۔۔۔۔بے حد شفیق
(سورۂ توبہ آیت ۱۲۸کی روشنی میں )
۔۔۔۔۔۔۔
شاندار فیصلہ
جس زمانے میں ہمارے رسول ﷺ نے اپنے نبی ہونے کااعلان فرمایا، اس سے پانچ سال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک دن مکہ کے سب لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی نئی عمارت بنائی جائے کیونکہ پرانی عمارت باربار سیلاب آنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی ہے ،پھر اس کی دیواریں بھی نیچی ہیں اور ان پر چھت بھی نہیں ہے ۔ نئی عمارت بنانے پر تو سب نے اتفاق کر لیا لیکن اس کو بنانے کے لیے پرانی عمارت کا گرانا ضروری تھا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ پرانی عمارت کو کو ن گرائے ۔ تمام لوگ اس عمارت کو بہت مقدس سمجھے تھے اور ان کاخیال تھا کہ جو شخص اس پاک عمارت کو گرانے کی کوشش کرے گا، اس پر کوئی مصیبت آجائے گی ۔ ایک اور رکاوٹ یہ تھی کہ کعبے کے دروازے کے پاس ایک اندھا کنواں تھا جس میں لوگ چڑھاوے اور نذریں ڈالا کرتے تھے ۔ ان کنوئیں میں لوگوں کو کئی بار ایک بڑا سانپ نظر آیا ۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ جو شخص کعبے کی عمارت کو چھیڑے گا یہ سانپ اس کو ڈس لے گا ۔
خدا کی قدرت ایک دن سانپ سر نکالے کنوئیں پر سے جھانک رہا تھا کہ ایک عقاب آیا اور جھپٹا مار کر اسے پکڑ لے گیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں میں جرأت پیدا ہوئی اور ایک دن قریش کے ایک سردار ولید بن مغیرہ نے خانہ کعبہ کی پرانی عمارت کو یہ کہہ کر گرانا شروع کر دیا کہ ’’اے اللہ ہم کسی بُری نیت سے پرانی عمارت کو نہیں ڈھا رہے ہیں بلکہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔‘‘
و لید کعبے کے ایک حصّے پر ضرب لگا کر رُک گیا تا کہ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ شریک ہو جائیں لیکن کوئی اس کی مدد کے لئے آگے نہ بڑھا ۔ یہ لوگ رات بھر انتظار کر تے رہے کہ دیکھیں ولید پر کیاآفت آتی ہے لیکن جب صبح کو انہوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا اور وہ بھلا چنگا ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور بہت جلد پرانی عمارت کو گرا کر زمین کے برابر کر دیا ۔ اس کے بعد سب لوگ زور شور سے نئی عمارت بنانے میں مشغول ہو گئے ۔ خوش قسمتی سے ان کو نئی عمارت کے لئے کافی مقدار میں سنگ مر مر اور دوسر اسامان سستے داموں مل گیاتھا۔ ہوا یوں کہ چند دن پہلے رومی تاجروں کا ایک جہاز شعیبہ (جدہ )کی بندرگاہ کے قریب طوفان سے خشکی پرچڑھ کر ٹوٹ گیا تھا۔ اس جہاز پر سنگ مر مر اور لوہے لکڑی کا بہت سا سامان لدا ہوا تھا جسے رومی تاجر ایک گرجا بنانے کے لئے مصر سے حبش لے جا رہے تھے ۔ مکے کے لوگوں نے یہ سارا سامان رومی تاجروں سے خرید لیا تھا تا کہ اسے کعبہ کی نئی عمارت میں لگائیں ۔
کعبہ کی نئی عمارت بنانے میں قریش کے تمام قبیلے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ،کوئی پتھر ڈھوتا ، کوئی گارا لاتا، کوئی پتھروں کو ایک دوسرے پر رکھتا ۔ اس طرح تھوڑے ہی دنوں میں دیواریں ڈیڑھ ڈیڑھ گز اونچی ہو گئیں ۔ ا س وقت ایک خوفناک واقعہ پیش آیا جس سے تعمیر کاکام رک گیا، ہوا یوں کہ ہر قبیلے نے دعویٰ کر دیا کہ وہی حجر اسود کو اٹھا کر اپنی اصلی جگہ پر رکھنے کاحق دار ہے ۔’’حجر اسود‘‘ کامطلب ہے کالا پتھر ۔ یہ پتھر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے ہاتھوں سے کعبہ کی دیوا ر میں لگایا تھااور عرب کے لوگ اس کو بہت متبرک سمجھتے تھے ۔ مسلمانوں کے نزدیک بھی یہ بڑا مقدس پتھر ہے ۔ حج اور عمرہ کے وقت خانہ کعبہ کے گرد ہر پھیرا (طواف ) اسی سے شروع کیا جاتا ہے اور اس کو بوسہ دیا جاتا ہے ۔ حجر اسود کوئی پندرہ انچ لمبا اور اسی قدر چوڑا (اب اصل حجر اسود کی چند ٹکڑیاں اس میں نصیب ہیں ۔) ہے ۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں ڈیڑھ گز کی بلندی پر لگا ہوا تھا ۔ اسی لئے جب نئی عمارت کی دیواریں ڈیڑھ گز بلند ہوئیں تو ہر قبیلے کی خواہش ہوئی کہ وہی اس پاک پتھر کو دیوار میں لگانے کی عزت حاصل کرے ۔
اس بات پر سب قبیلے لڑنے مرنے پر تل گئے ۔ بعض قبیلوں کے لوگوں نے تو پیالوں میں انسانی خون بھر کر اس میں اپنی انگلیاں ڈبوئیں اور قسم کھائی کہ وہی حجر اسود کو کعبہ کی دیوار میں لگائیں گے اگر کوئی انہیں روکے گا تو ان کا بچہ بچہ اپنے اس حق کی خاطر کٹ مرے گا۔ یہ جھگڑا چار دن تک چلتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔
آخر قریش کا ایک بوڑھا سردار ابو اُمیہ بن مغیرہ اٹھا اور اس نے کہا:
’’اگر تم میں سے ہر قبیلہ اپنی بات پر اڑا رہا تو امن کے اس شہر میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ اس طرح ہم سب برباد ہو جائیں گے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس معاملے کوخدا پر چھوڑدو ۔ میری مانو تو جو شخص کل صبح سب سے پہلے کعبہ میں آئے، وہی اس جھگڑے کا فیصلہ کرے اور سب لوگ اس کو قبول کر لیں ۔‘‘
تمام قبیلے ابو اُمیہ بن مغیرہ کی بہت عزت کرتے تھے ۔ انہوں نے ا س کی رائے پسند کی اور سب ’’منظور ہے منظور ہے ‘‘کے نعرے لگانے لگے ۔
اس کے بعد تمام قبیلے بڑی بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگے ۔ صبح ہوئی تو یکا یک انھوں نے دیکھا کہ کعبہ میں سب سے پہلے آنے والے ہمارے رسول ﷺ تھے ۔ آپﷺکو دیکھ کر لوگ دور ہی سے چلانے لگے ۔
’’یہ تو امین آرہا ہے، ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں ۔ یہ تو محمدﷺ ہے ۔‘‘
رسول پاک ﷺ کی عمر مبارک اس وقت ۳۵ سال کی تھی اور آپ نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا لیکن مکہ کا ہر شخص آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتا تھااور آپ ﷺ کی بہت عزت کرتا تھا ۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے ا س جھگڑے کاحال سنا تو یہ کیا کہ ایک چادر منگوائی۔ حجر اسود کو اس میں رکھااور پھر فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یا کوئی دوسرا آدمی جس کو وہ پسند کرے ، ایک ایک طرف سے اس چادر کو پکڑے اور سب مل کر حجر اسود کو اٹھائیں ۔ جب پتھر اس مقام تک پہنچ گیا ۔ جہاں اس کو لگانا تھا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے پاک ہاتھوں سے اٹھا کر وہاں لگا دیا ۔ اس طرح ایک خوفناک جھگڑا آناًفاناً ختم ہو گیا ۔ بھڑ کی ہوئی آگ بجھ گئی اور پھر سب مل کر نئی عمارت کومکمل کرنے میں مشغول ہو گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
وعد ہ یوں پورا کرتے ہیں
نبوت کے اعلان سے پہلے کا ذکر ہے کہ رسول پاک ﷺ نے مکہ کے ایک شخص عبداللہ بن ابی الحمساءؓ سے کوئی معاملہ کیا۔ جس جگہ یہ معاملہ طے پایا ، عبداللہؓ آپ ﷺ سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ ﷺ یہیں ٹھہریں میں تھوڑی دیر میں واپس آکر حساب دوں گا ۔ آپﷺ نے وعد ہ کر لیا کہ میں تمہارے واپس آنے تک یہیں ٹھہروں گا ۔ ادھر عبداللہؓ کو اپنی بات یاد نہ رہی ، تین دن کے بعد خیال آیا تو دوڑے دوڑے اس جگہ پہنچے جہاں رسول پاک ﷺ کو چھوڑ گئے تھے ۔ دیکھا تو آپﷺ وہیں موجود تھے۔
عبداللہؓ بہت شرمندہ ہوئے اور معافی مانگنے لگے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔ اگر چہ اس سے مجھے تکلیف پہنچی لیکن میں تمہیں معاف کرتا ہوں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہے اور دو آدمیوں کاکھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہے ۔‘‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۴۸۹)
۔۔۔۔۔۔۔
میں دنیا کا بھوکا نہیں ہوں
محمد بن کعب القرظی رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ :
جب رسول پاک ﷺ نے مکے کے کافروں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا اور قریش کے اچھے لوگ مسلمان ہو نے لگے تو کافر پریشان ہو گئے ۔ ایک دن ان کے کچھ سردار کعبے کے اندر بیٹھے تھے۔ اس وقت رسول پاک ﷺ بھی وہاں ایک گوشے میں اکیلے تشریف رکھتے تھے ۔ قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ نے دوسرے سرداروں سے کہا کہ اگر تم لوگ پسند کرو تو میں جا کر محمد ﷺ سے بات کروں اور اس کے سامنے چند تجویزیں رکھوں، شاید وہ ان میں سے کسی کو مان لے اور ہمارے مذہب کے خلاف نہ بولا کرے ۔ قریش کے لوگ عتبہ کو ایک عقلمندآدمی سمجھتے تھے اور اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔ انہوں نے عتبہ سے کہا کہ ہمیں تم پر پورا بھروسا ہے تم ضرور جا کر محمد ﷺ سے بات کرو ۔
عتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ ﷺ کے پاس آبیٹھا اور کہنے لگا :
’’بھتیجے !ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو۔ ویسے بھی تم ایک بہت ہی شریف خاندان کے آدمی ہو لیکن تم نے اپنی قوم کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ۔ ہمارے باپ دادا کے مذہب کو غلط اور ہمیں بے وقوف کہتے ہو اور ہمارے بتوں کی بُرائی کرتے ہو ۔ اب ذرا میری سنو ، میں چند چیزیں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں ان پر غور کرو ، شاید ان میں سے کوئی چیز تم قبول کر لو ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ جو کچھ کہیں گے میں سنوں گا ۔‘‘
عتبہ نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔
’’بھتیجے !یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے ،اگر اس سے تمہارا مقصد دولت کمانا ہے تو ہم سب مل کرتم کو اتنا مال و دولت دے دیں گے کہ تم ہم میں سب سے زیادہ دولت مند ہو جاؤگے ۔
اگر اس کا م سے تم بڑا آدمی بننا چاہتے ہوتو ہم تم کو اپنا سردار بنانے پر تیار ہیں ۔ کسی بات کا فیصلہ تمہارے بغیر نہ کریں گے ۔
اگر بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے پر تیار ہیں ۔
اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم دور نہیں کر سکتے اور تمہیں سوتے اور جاگتے میں واقعی کچھ نظر آتا ہے تو ہم اچھے سے اچھے طبیب بلا کر تمہارا علاج کرانے پر تیار ہیں ۔‘‘
رسول پاک ﷺ عتبہ کی باتیں سنتے رہے ۔جب وہ خاموش ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’آپ کو جوکچھ کہنا تھا کہہ چکے یا ابھی کچھ اور کہنا ہے ۔‘‘
عتبہ نے کہا؛’’مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :’’اچھا اب میری سنئے۔۔۔۔۔۔۔اسکے بعدآپ ﷺ نے سورۂ حم السجدہ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے سنتا رہا ۔ سجدہ کی آیت (۲۸) پر پہنچ کر آپﷺ نے سجدہ کیا ۔ پھر سجدے سے اٹھ کر عتبہ سیفرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’میرا جواب آپ نے سن لیا اب آ پ جانیں اور آ پ کاکام۔‘‘
عتبہ وہاں سے اٹھ کر قریش کے سرداروں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے پوچھا، کیا سن آئے ؟
عتبہ نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’خدا کی قسم میں نے ایساکلام اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ یہ شعر ہے نہ جادو اور نہ کسی نجومی کی بات ۔ اے قریش کے لوگو!میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اگر عرب کے دوسرے لوگ اس پر غالب آگئے تو تم اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے بچ جاؤ گے اور اگر وہ سارے عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہوگی ۔‘‘
قریش کے سردار عتبہ کی باتیں سن کر بول اٹھے :۔۔۔۔۔۔
’’آخر تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سورج ڈوبنے کے بعد قریش کے بہت سے سردار کعبہ کی دیوار کے پاس جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو بلا کر کہا جائے کہ وہ جو چاہیں ہم سے لے لیں مگر ہمارے بتوں کی بُرائی کرنا چھوڑدیں ۔ چنانچہ انہوں نے حضورﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپﷺ کی قوم کے معزز لوگ جمع ہوئے ہیں تا کہ آپﷺ سے بات کریں ۔ چونکہ آپﷺ بھی ان لوگوں کو سیدھے راستے پر لانا چاہتے تھے ،اس لئے آپ ﷺ فوراًتشریف لے گئے ۔ ان لوگوں نے آپﷺ سے کہا:
’’اے محمدﷺ ہم نے تم کو اس لئے بلایا ہے کہ آج ہمارے تمہارے درمیان آخری فیصلہ ہو جائے ۔ خدا کی قسم تم نے اپنی قوم میں جو فتنہ ڈالا ہے عرب میں کسی شخص نے کبھی نہیں ڈالا ۔ تم نے ہم لوگوں کو بے وقوف کہا ، ہمارے بتوں کی بُرائی کی ، باپ دادا کے طریقے کو غلط کہا اور قوم میں پھوٹ ڈال دی اگر تم یہ سب کچھ مال کی خاطر کر رہے ہو تو ہم سب مل کر اتنا مال تمہیں دے دیں گے کہ تم ہم میں سب سے زیادہ دولت مند ہو جاؤ گے ۔ اگر تم اپنی بڑائی چاہتے ہو توہم تم کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں ۔ اگر تم بادشاہی چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں اور اگر کوئی جن تم پر آتا ہے تو ہم اپنے خرچ پر تمہارے علاج کا انتظام کر دیتے ہیں تا کہ یہ جن تمہارا پیچھا چھوڑدے ۔‘‘
جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ مجھے ان چیزوں کی ضرورت ہے جو تم دینا چاہتے ہو ۔ اللہ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر ایک کتاب نازل کی ہے اور مجھے خوش خبری دینے والا ہے کہ تمہارے لئے (ایمان لانے پر ) اور (ایمان نہ لانے پر ) ڈرانے والا بنوں ۔ چنانچہ میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا دیااور تمہیں نصیحت کر دی ۔ اب اگر تم وہ ہدایت قبول کر لو جو میں تمہارے پاس لایا ہوں تو تم دنیااور آخرت میں خوش نصیب ہو گے اور اگر تمہیں اسے قبول کرنے سے انکار ہے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا ۔‘‘
قریش کے سرداروں نے آپ ﷺ کا جواب سنا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ جو کام تم کر رہے ہو ہم اسے یونہی نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ یا تم ہمیں ختم کر دو یا ہم تمہیں ختم کر دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷺ بات آہستہ آہستہ کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کی باتیں اتنی واضح اور صاف صاف ہوتی تھیں کہ ہر سننے والا اچھی طرح سمجھ لیتا تھا ۔
(ابوداؤد)
۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا
جس زمانے میں رسول ﷺ مکے کے کافروں کو دن رات اللہ کے دین کی طرف بلا رہے تھے ایک دن قریش کے بڑے بڑے سردار مل کر آپﷺ کے چچا جناب ابو طالب کے پاس پہنچے اور ان سے کہا:۔۔۔۔۔
’’اے ابو طالب !آپ ہمارے بزرگ ہیں اورہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ہم نے آپ سے کہا تھا کہ اپنے بھتیجے کی حمایت نہ کریں لیکن آپ نے ہماری بات نہ مانی ، اب ہم سے اپنے بتوں اور باپ دادا کی بُرائی برداشت نہیں ہو سکتی ۔ اب یا تو آپ اسے روکیں یا پھر آپ کے ساتھ ہماری لڑائی ہو گی جس میں آپ یا ہم میں سے کوئی ایک مارا جائے گا۔‘‘
اس پر جناب ابو طالب نے اپنے بیٹے عقیلؓ سے کہا کہ جا کر محمدﷺ کو بلا لاؤ ۔ اس وقت سخت گرمی تھی اور رسول اللہ ﷺ گھر سے کہیں باہر تھے ، عقیلؓ آپ ﷺ کو تلاش کر کے لائے تو جناب ابو طالب نے آپﷺ سے کہا:
’’بھتیجے !یہ لوگ تمہاری شکایت لے کر آئے ہیں کہ تم ان کی مجلسوں میں اور کعبے میں جا کر ان کے باپ داداکے مذہب کو غلط کہتے ہو ، ان کے بتوں کو بیکار اور ان کو بے عقل کہتے ہو ۔ ان باتوں سے ان کو تکلیف ہوتی ہے ۔‘‘
اس پر رسول پاک ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھااور قریش کے سرداروں سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’آپ لوگ یہ سورج دیکھ رہے ہیں ؟‘‘
انہوں نے کہا:۔۔۔۔’’ہاں ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’جس طرح یہ سورج آپ لوگوں سے اپنے شعلے نہیں روک سکتا اسی طرح میں بھی اپنا کام نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘
یہ فرما کر آپ ﷺ وہاں سے چلے گئے ۔ آپﷺ کے جانے کے بعد ابو طالب نے قریش کے سرداروں سے کہا کہ میرے بھتیجے نے کبھی کوئی غلط بات نہیں کہی ، اب آپ لوگ رخصت ہو جائیں ۔
وہ لوگ چلے گئے تو ابو طالب نے رسول پاک ﷺکو بلا کر کہا:۔۔۔۔۔۔۔
’’بھتیجے تمہاری قوم نے کہاہے کہ اگر تم نے اپنا کام جاری رکھا تو وہ ہم سے لڑے گی یہاں تک کہ یا وہ مارے جائیں گے یا ہم ۔ تم مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ نہ میں اٹھا سکوں اور نہ تم۔ اس لئے اپنی قوم سے ایسی باتیں کہنا چھوڑدوجو ان کو پسند نہیں ۔‘‘
آپﷺ اپنے مہربان چچا کی بہت عزت کرتے تھے لیکن جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بھیجا تھا ، وہ کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’چچا جان ! اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج رکھ دیا جائے اور بائیں ہاتھ پر چاند تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے کامیاب کر دے یا میں اس راہ میں مارا جاؤ ں ۔‘‘
پھر آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپﷺ اٹھ کر جانے لگے ۔ جناب ابو طالب نے آپﷺ سے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’بھتیجے اپنا کام جاری رکھو اور جو کچھ کرنا چاہو کرو ۔ خدا کی قسم میں کسی بھی چیز کی وجہ سے تمہیں دشمنوں کے حوالے نہیں کروں گا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ہمت نہ ہارو
حضرت خباب بن ارتؓ رسول پاک ﷺ کے بہت پیارے ساتھی تھے ۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ حضرت خبابؓ بتوں کو پوجنے والی ایک ظالم عورت کے غلام تھے ۔ وہ حضرت خبابؓ کے اسلام قبول کرنے پر آگ بگولا ہو گئی اور ان پر سخت ظلم ڈھانے لگی ۔کبھی وہ ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں بٹھا دیتی اور کبھی سخت گرم لوہا ان کے سر کو لگاتی ۔ بعض دفعہ وہ ان کو دوسرے کافروں کے سپرد کر دیتی جو ان کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے ۔ کبھی کوئی موٹاتازہ کافر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھتا تا کہ کروٹ نہ بدل سکیں ۔
حضرت خبابؓ کو ایسے ظلم سہتے سہتے کچھ عرصہ گزر گیا تو ایک دن وہ رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !کافر مجھ پر اس قسم کے ظلم کرتے ہیں ۔آپﷺ اللہ سے ہمارے لئے دعا کیوں نہیں کرتے ۔
رسول پا ک ﷺ اس وقت کعبہ کی دیوار کے سائے میں سر مبارک کے نیچے چادر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے ۔ حضرت خبابؓ کی باتیں سن کر آپﷺ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت خبابؓ سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’تم سے پہلے پچھلے زمانے میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ لوہے کی کنگھیوں سے ا ن کا گوشت نوچ ڈالاگیا ۔ ایسی سختیوں سے بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور وہ اپنے دین پر قائم رہے ۔ ان کے سروں پر آرے چلائے گئے اور ان کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے پھر بھی انہوں نے دین کو نہ چھوڑا ۔ اللہ اس دین (اسلام ) کوضرور کامیاب کرے گا او ر تم (ایک دن )دیکھ لو گے کہ ایک شخص اکیلا عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جائے گا اور اللہ کے سوا اسے کسی کا ڈر نہ ہو گا۔‘‘
رسول پاک ﷺ نے یہ ساری باتیں حضرت خبابؓ کو یہ سمجھانے کے لئے ارشاد فرمائیں کہ پہلے زمانے میں بھی مسلمانوں پر بہت ظلم ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے کسی حال میں بھی ہمت نہ ہاری۔ جان دے دی لیکن اپنے دین کو نہ چھوڑا اس لئے تم بھی حوصلے اور ہمت کے ساتھ ہر قسم کی سختیوں اور ظلم کا مقابلہ کرواور کسی حالت میں بھی ہمت نہ ہارو۔
۔۔۔۔۔۔۔
نیکی کی طاقت
مکہ کے کافر رسول پاک ﷺ کے سخت دشمن تھے لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، نیکی کے کاموں میں سب سے آگے رہتے ہیں اور جو بات آپ ﷺ کے منہ سے نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے تو وہ دل میں ڈرتے تھے کہ کہیں آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ وہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک یتیم لڑکا جس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے، روتا ہواآپﷺ کے پاس آیااور کہا کہ میرے باپ نے مرتے وقت مجھے ابو جہل کے سپرد کیا تھا لیکن اس نے میرے باپ کے چھوڑے ہوئے سارے مال پر قبضہ جما لیاہے اور مجھے اس میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا ہے ۔ میں قریش کے دوسرے سرداروں کے پاس فریاد لے کر گیا لیکن انہوں نے میری کوئی مدد نہیں کی اور مجھے آپﷺ کے پاس بھیج دیا ہے ۔
ابو جہل قریش کامانا ہوا سردار تھااور آپ ﷺ کاجانی دشمن ۔ کسی کو یہ خیال تک نہ آسکتا تھا کہ وہ آپ ﷺکی بات مان لے گالیکن آپ ﷺیتیم لڑکے کی بات سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے او راس کو ساتھ لے کر سیدھے ابو جہل کے پاس تشریف لے گئے ۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر حیران ر ہ گیا۔آپ ﷺ نے اس سے اور کوئی بات نہ کی ، صرف یہ فرمایا:
’’ا س بچے کا حق اسے دے دو ۔‘‘
یہ نیکی کی بات تھی اور نیکی میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ ابو جہل کو انکار کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور اس نے فوراً اس لڑکے کامال لا کر اسے دے دیا۔
قریش کے جن سرداروں نے اس لڑکے کوآپﷺ کے پاس بھیجاتھاوہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ابو جہل حضورﷺ سے لڑ پڑے گااور ان کو یہ لڑا ئی دیکھ کر بڑا مزا آئے گا مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ ابو جہل نے آپ ﷺ کے کہنے پر یتیم لڑکے کامال فوراً اس کو دے دیا تو وہ بھاگے بھاگے اس کے پاس گئے اور اس کو طعنہ دیا کہ تم نے بھی اپنا مذہب چھوڑدیا۔ اس نے کہا، خدا کی قسم، میں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا ۔بات یہ ہوئی کہ جب محمدﷺ نے مجھ سے اس لڑکے کامال دینے کے لئے کہا تو مجھے یوں محسوس ہو ا کہ اس کے دائیں بائیں ایک ایک ہتھیار ہے جو مجھے چیر کر رکھ دے گا ، اگر میں نے اس کی بات نہ مانی ۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں ا س لڑکے کو مال دینے پر مجبور ہو گیا۔
ایک دفعہ ایک شخص کہیں دور سے اونٹ لے کر مکہ آیا اور ان کو بیچنا چاہا۔ ابو جہل نے یہ سارے اونٹ اس سے لے لئے ۔ جب اس نے قیمت مانگی تو وہ ٹال مٹول کرنے لگا ۔ اس شخص نے کعبہ میں جا کردوسرے سرداروں کے سامنے فریاد کی ۔ رسول پاک ﷺ بھی کعبہ کے ایک گوشے میں تشریف رکھتے تھے ۔ ان سرداروں نے فریادی سے کہاکہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، پھر حضورﷺ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے ۔ دیکھو وہ آدمی جو اس کونے میں بیٹھا ہے ، اس کے پاس جاؤ وہ تمہارا روپیہ دلوادے گا ۔۔۔۔فریادی ، رسول پاک ﷺکی طرف چلا تو قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’آج بڑا مزا آئے گا۔‘‘
فریادی نے جا کر حضورﷺ کے سامنے ابو جہل کے ظلم کاحال بیان کیاتو آپ ﷺ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے گھر کی طرف چل پڑے ۔ جب وہاں پہنچے تو دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی ۔ ابو جہل نے اندر سے پوچھا،’’کون ؟‘‘
آپﷺ نے جواب دیا :’’محمدﷺ ‘‘
وہ حیران ہو کر باہر آیا۔ آپ ﷺنے اس سے فرمایا:
’’اس شخص کے اونٹوں کی قیمت دے دو۔‘‘
ابو جہل نے کہا،’’ابھی دیتا ہوں ۔‘‘پھر وہ اندر گیا اور اونٹوں کی قیمت لاکر فریادی کے ہاتھ پر رکھ دی ۔
قریش کے سردارو ں نے اپنا ایک آدمی حضورﷺ کے پیچھے بھیج دیاتھا تا کہ وہ جو کچھ دیکھے ان کو آکر بتائے ۔ اس آدمی نے ابو جہل کوحضورﷺ کی بات مانتے دیکھا تو دوڑتا ہوا قریش کے سرداروں کے پاس گیااور کہنے لگا:
’’خدا کی قسم آج میں نے جو دیکھا ہے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ابوالحکم بن ہشام (ابو جہل )جب گھر سے نکلا تو محمد(ﷺ) کو دیکھ کر اس کے چہرے کارنگ اڑ گیااور جب محمدﷺ نے اس سے کہا کہ اس شخص کا حق دے دو تویوں معلوم ہوتا تھا کہ ابو جہل کے جسم میں جان نہیں ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور روز کا واقعہ ہے کہ رسول پاک ﷺ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ ، اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کعبہ شریف میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک دیہاتی آدمی (بدو) آیااور کہنے لگا:
’’اے قریش کے لوگو! تم باہر سے آنے والوں کو لوٹ لیتے ہو، اب تمہارے پاس اپنی کوئی چیز بیچنے کون آئے گا؟‘‘
حضورﷺ نے اس سے پوچھا ،’’تم پر کس نے ظلم کیا ہے ؟‘‘
اس نے کہا:’’ابوالحکم (ابوجہل ) نے ۔ اس نے میرے تین سب سے اچھے اونٹ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور ان کی قیمت بہت کم لگائی ۔اب کوئی اور شخص اس کے ڈر سے زیادہ قیمت پر اونٹ خریدنے کے لئے تیار نہیں ہے، اگر اس کی لگائی ہوئی قیمت پر بیچ دوں تو مجھے سخت نقصان ہوتا ہے ۔‘‘
حضورﷺ اس کے ساتھ چل پڑے اور تینوں اونٹ مناسب قیمت پر اس سے خود خرید لئے جس سے و ہ خوش ہو گیا ۔ ابو جہل دور بیٹھا ہواان اونٹوں کو بکتے دیکھ رہا تھا ۔ آپﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:’’اگر تم نے آئندہ کسی کے ساتھ ایسی حرکت کی جو اس غریب کے ساتھ کی ہے تو تمہارے لئے اچھا نہ ہو گا۔‘‘
ابو جہل بولا:’’آئندہ میں کبھی ایسانہیں کرو ں گا ۔‘‘
اس پر دوسرے کافر اس کو شرم دلانے لگے کہ تم محمدﷺ کے سامنے بھیگی بلی بن گئے ۔معلوم ہوتا ہے تم ان کا دین قبول کرنے والے ہو۔
ابو جہل نے کہا،’’خدا کی قسم میں کبھی ان کا دین قبول نہیں کروں گا مگر مجھے یوں نظر آیا کہ جب وہ مجھ سے بات کر رہے ہیں تو ان کے دائیں اور بائیں کچھ لوگ نیزے تانے کھڑے ہیں اور میں ڈرا کہ اگر میں نے اُن کی بات نہ مانی تو وہ نیزوں سے میرا سینہ چھید دیں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
خوفناک اونٹ
رسول پاک ﷺ نے لوگوں کو اللہ کے سچے دین کی طرف بلانا شروع کیاتو مکہ کے کافر آپﷺ کے سخت دشمن بن گئے ۔ ان دشمنوں کا سردار ابو جہل تھا۔ ایک دن اس نے قریش کے کافروں کو جمع کیااور ان سے کہنے لگا:
’’اے قریش کے لوگو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ محمد(ﷺ) کو ہم نے بہتیر ا کہا کہ وہ ہمارے مذہب اور ہمارے بتوں کوبُرا نہ کہیں اورنہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ کہیں لیکن اس نے صاف صاف کہہ دیاہے کہ میں ایسا ضرور کروں گا ۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کل ایک پتھر لے کربیٹھوں گااور جب وہ نماز میں سجدہ کرے گاتو اس پتھر سے اس کا سر کچل ڈالوں گا ۔‘‘
دوسرے روز وہ پتھر لے کر کعبہ گیا اور آپﷺ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ رسو ل پاک ﷺہر روز کی طرح کعبہ تشریف لائے اور نماز پڑھنے لگے ۔ قریش کے لوگ بھی یہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے کہ اب ابو جہل کیا کرتا ہے ۔
رسول پاک ﷺ جب سجدے میں گئے توابوجہل آپ ﷺ کو پتھر مارنے کے لیے آگے بڑھا مگر یکا یک وہ آپ کے قریب پہنچ کر پیچھے کی طرف بھاگا ۔ خوف سے اس کے چہرے کارنگ اُڑ گیا تھااور پتھر بھی اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔ قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ تمہیں کیا ہوگیا ؟‘‘
اس نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔
’’میں پتھر مارنے کے لئے محمد(ﷺ) کے قریب پہنچا تو میرے سامنے ایک زبردست اونٹ آگیا کہ میں نے کبھی اتنے بڑے سر اور ایسی گردن اور ایسے نوک دار دانتوں والااونٹ نہ دیکھا تھا اور وہ مجھے چبا ڈالنا چاہتا تھا ۔ اسی لئے میں اپنی جان بچانے کے لئے پیچھے ہٹ گیا۔‘‘
بعد میں رسول پاک ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ وہ جبریل ؑ تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑے انسان
نبوت کے دسویں سال کاذکر ہے کہ ماہِ شوال کے آخر میں ہمارے رسول پاک ﷺ اپنے ایک نہایت پیارے ساتھی اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے طائف کی طرف روانہ ہوئے ۔ طائف، مکہ سے جنوب مشرق کی طرف تقریباً پچاس میل دُور پہاڑوں کے درمیان ایک پرانا شہر ہے ۔ اس شہر کے چاروں طرف ہرے بھرے باغات ہیں ۔جگہ جگہ پانی کے چشمے جاری ہیں ۔ آب وہوا بہت صحت بخش ہے ۔ اس لئے وہ شہر حجاز کی جنت کہلاتا ہے ۔ رسول پاک ﷺ کے مبارک زمانے میں بھی طائف اپنی سر سبزی اور چشموں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اس شہر میں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے لوگ اپنے سر سبز باغوں اور کھیتوں کی وجہ سے بہت امیر تھے ۔ قسم قسم کے میووں ، غلے اور بے انتہا مال و دولت نے ان لوگوں کو بہت مغرور بنا دیا تھااور وہ خدا کو بالکل بھلا بیٹھے تھے ۔ مکہ کے لوگوں کی طرح وہ بھی بتوں کوپوجتے تھے ۔ ان کے سب سے بڑے بت کانام’’لات‘‘ تھا۔ جس کو انہوں نے ایک بہت بڑے مندر میں رکھا ہوا تھا ۔ دوسرے بت کا نام ’’یالیل ‘‘تھاجس کی ہر گھر میں پوجا کی جاتی تھی ۔ بت پرستی کے علاوہ یہ لوگ اور بھی بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے ۔ طائف کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے رسول پاک ﷺ تقریباً دس برس تک مکہ کے لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے رہے لیکن نیک لوگوں کی ایک تھوڑی تعداد کے سوا کسی نے آپ ﷺ کے پیغام پر کان نہ دھرے بلکہ اسلام قبول کرنے والوں پر سخت ظلم ڈھائے ۔ اب آپﷺ نے چاہا کہ طائف جا کر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا جائے ۔اگر یہ لوگ ہدایت کے راستے پر آجائیں تو شاید ان کے اثر اور رسوخ کی وجہ سے مکہ کے کافروں کو بھی شرم آجائے ۔ اسی غرض سے آپﷺ نے طائف کا سفر اختیار کیا۔ آپﷺ کے پاس کوئی سواری نہ تھی اسلئے مکہ سے طائف کا سارا راستہ آپﷺ نے پیدل چل کر طے کیا ۔ یہ مشقت آپﷺ نے صرف اللہ کو خوش کرنے کے لئے اٹھائی ۔ اس زمانے میں طائف پر تین بھائیوں کی حکومت تھی ۔ ان کے نام تھے عبد یالیل ، مسعود اور حبیب ۔ یہ تینوں بڑے دولت مند اور مغرور آدمی تھے ۔
رسول پاک ﷺ طائف پہنچ کر سب سے پہلے ان سے ملے اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنارسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں تم کو یہ پیغام دینے کے لئے یہاں آیا ہوں کہ ایک اللہ کو مانو اور بتوں کو پوجنا چھوڑدو ، یہ نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ۔
حضورﷺ نے تو ان کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلایا لیکن یہ لوگ آپﷺ کے ساتھ سخت بدتمیزی سے پیش آئے ، عبد یا لیل نے غصّے سے کہا:
’’اگر خدا نے تمہیں رسول بنایا ہے تومیں کعبے کے پردے نوچ ڈالوں گا ۔‘‘
دوسرے بھائی مسعو د نے حقارت سے کہا:
’’کیا خدا کو تمہارے سوا اور کوئی نہ ملتاتھا کہ اسے رسول بناتا ۔ تمہارے پاس تو چڑھنے کے لئے سواری تک نہیں ہے ۔‘‘
تیسرا بھائی حبیب بڑا ’’دانا‘‘ بن کر بولا:
’’میں تم سے بالکل کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔اگر تم واقعی خدا کے سچے رسو ل ہوتو تمہاری بات کو نہ ماننا ادب کے خلاف ہے اور اگر تم جھوٹے ہو تو ایک جھوٹے سے بات کرنا میری شان کے خلاف ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے ان تینوں بدتمیز بھائیوں کو ا ن کے حال پر چھوڑ دیا اور طائف کے دوسرے لوگوں کو حق کی طرف بلانا شروع کیا۔ حق کے دشمن تینوں بھائی بھلا یہ کیونکر برداشت کرتے ۔ انہوں نے شہر کے شریر لونڈوں اور بُرے لوگوں کو اُکسایا کہ وہ آپﷺ کو خوب ستائیں ۔ ان شریروں کو دل لگی کا ایک سامان ہاتھ آگیا۔آپ ﷺ ان کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے اور وہ اس کے جواب میں آپﷺ کوگالیاں دیتے ، مذاق اڑاتے ، تالیاں بجاتے اور پتھر مارتے تھے ۔ عربوں کی مہمان نوازی بہت مشہور ہے لیکن طائف کے لوگوں نے آپﷺ سے جو سلوک کیاوہ دنیا کی کسی قوم کے بُرے سے بُرے آدمی بھی اپنے مہمان کے ساتھ نہیں کرتے ۔ جتنے دن آپﷺ طائف میں ٹھہرے ،ہر روز شہر کے گلی کوچوں میں پھر کر لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور ہر روز ہی شہر کے بُرے لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پتھر مارتے تھے ۔ ایک دن تو ان ظالموں نے اتنے پتھر برسائے کہ آپﷺ سخت زخمی ہو گئے ۔ حضرت زید بن حارثہؓ آپﷺ کے دائیں بائیں آگے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے اور پتھروں کو اپنے ہاتھوں اور جسم پر روکتے تھے لیکن پتھروں کی بارش سے وہ خود بھی زخمی ہو گئے اور حضورﷺ کے پاک جسم کاکوئی حصہ بھی ایسا نہ رہا جس کوچوٹ نہ لگی ہو اور اس سے خون نہ نکلنے لگا ہو۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپﷺ کمزوری سے گر پڑے ۔ ظالم طائفیوں نے آپ ﷺکی بغلوں میں ہاتھ دے کرکھڑا کر دیااور پھر پتھر مارنے لگے ۔ آخر آپ ﷺ طائف سے نکلے اور کچھ دور جا کر انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لی۔ پتھر مارنے والے شریر اب تھک ہار کر واپس چلے گئے ۔
باغ میں پانی کا ایک چشمہ جاری تھا۔ رسول پاک ﷺ اس کے قریب بیٹھ گئے ۔ حضرت زیدؓ نے اپنی چادر سے آپﷺ کے جسم مبارک سے خون صاف کیا ۔ جوتوں میں خون اس طرح جم گیا تھا کہ آپ ﷺ بڑی مشکل سے اپنے پاؤں باہر نکال سکے ۔ اس کے بعد آپﷺ نے چشمے کے پانی سے وضو کیا ۔ دو رکعت نماز پڑھی اور پھر بڑے درد کے ساتھ دعا کی کہ اے اللہ میں اپنی کمزوری اور جو سلوک میرے ساتھ کیا گیا ہے اس کی فریاد تجھ ہی سے کرتاہوں ۔اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے ان مصیبتوں کی کچھ پروا نہیں ۔ میں تیری مرضی پر راضی ہوں اور تیری مدداور رحم کے بغیر کسی دوسرے کوکوئی اختیار نہیں ۔
یہ باغ جس میں رسول پاک ﷺ اور حضرت زیدؓ نے پناہ لی تھی ، مکہ کے دو رئیس بھائیوں عتبہ اور شیبہ کا تھا ۔ ان کا دادا عبد شمس حضورﷺ کے پر دادا ہاشم کا سگا بھائی تھا۔ آپﷺ نے مکہ میں ان کے بھائیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی تھی ۔ لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا اور باپ دادا کے مذہب ہی سے چمٹے رہے ۔ اتفاق سے یہ دونوں طائف آئے ہوئے تھے اورا س وقت باغ میں موجود تھے ۔ انہوں نے دور سے مکہ کے ان مسافروں کو اس حالت میں دیکھا تواپنے غلام کو حکم دیا کہ جاؤ انگوروں کا ایک خوشہ طباق میں رکھ کر ان مسافروں کو دے آؤ۔ یہ غلا م عیسائی تھااور اس کانام عداس تھا۔ اس نے جلدی جلدی کچھ پکے ہوئے انگور چنے اور ایک طباق میں رکھ کر حضورﷺ کی خدمت میں یہ کہہ کر پیش کئے کہ یہ اس باغ کے مالکوں نے بھیجے ہیں ۔ آپ ہماری پناہ میں ہیں اور ہمارے مہمان ہیں ۔
حضورﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر انگور کھانے شروع کئے تو عداس حیران رہ گیا اور بولا:
’’خدا کی قسم میں نے تو اس علاقے کے لوگوں سے ایسا کلمہ نہیں سنا۔‘‘
آپﷺ نے پوچھا:’’بھائی تمہارا وطن کو نسا ہے اور تم کس مذہب کے ماننے والے ہو ۔‘‘
عداس نے جواب دیا:۔۔۔۔۔۔ ’’میں نینوا کا رہنے والا ہوں اور عیسائی ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔ ’’اچھا توتم اللہ کے نیک بندے یونس بن متی کے ہم وطن ہو۔‘‘
عداس یہ سن کر حیران رہ گیا اور پوچھا:
’’آپ ﷺ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں ؟‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔’’یونس میرے بھائی ہیں، وہ بھی خدا کے نبی تھے اور میں بھی خدا کا نبی ہوں ۔‘‘
عداس بہت نیک آدمی تھا۔ اس نے تورا ت اور انجیل بھی پڑھی ہوئی تھی، فوراً سمجھ گیا کہ آپﷺ خدا کے وہ آخری نبی ہیں جن کی تورات اور انجیل میں خبر دی گئی ہے ۔ اسی وقت آپ ﷺ کے قدموں پر گر پڑا اور بڑی محبت سے آپ ﷺ کے سر مبارک اور ہاتھوں کو چومنے لگا ۔ پھر بولا:۔۔۔۔۔۔۔
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسو ل ہیں ۔‘‘
عتبہ اور شیبہ دور بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ جب عداس ان کے پاس لوٹ کر گیاتو انہوں نے اس سے کہا:
’’تجھے کیا ہو گیا تھا کہ تو اس مسافر کے ہاتھ پاؤں اور سر چومنے لگا۔‘‘
عداس نے جواب دیا:۔۔۔۔۔۔’’جناب یہ مسافر کوئی معمولی آدمی نہیں، آج ساری دنیا میں اس سے بڑا کوئی انسان نہیں ہے۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی جو ایک نبی کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی ۔‘‘
دونوں بھائیوں نے اس کو جھڑک کر کہا:۔۔۔۔۔۔۔
’’خبر دار اپنا مذہب نہ چھوڑنا ۔ تیرا مذہب اس مسافر کے مذہب سے بہتر ہے ۔‘‘
اس باغ میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد رسول پاک ﷺ طائف سے چل پڑے ۔ اس وقت آپﷺ بہت غمگین تھے ۔ ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری زندگی میں وہ دن سب سے زیادہ سخت تھا جب میں طائف سے نکلا تھا ۔ میں باغ سے نکل کر کچھ دور گیا تو ایک مقام پر بادل کے ایک ٹکڑے نے میر ے اوپر سایہ کر لیا ۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل ؑ دکھائی دئیے ۔ انہوں نے پکار کر کہا:۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپ کی قوم نے آپ سے کہا اور اس سلوک کو بھی دیکھ لیا جو توحید کی دعوت کے جواب میں آپ سے کیا گیا۔ یہ پہاڑوں کا فرشتہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپﷺ جو چاہیں اسے حکم دیں۔‘‘
اتنے میں پہاڑوں کے فرشتے نے پکار کر مجھے سلام کیا اور کہا ،ا ے محمد ﷺ مجھے آ پ کے رب نے آپ ﷺ کے پاس بھیجا تا کہ آپ جو حکم دیں اس کو مانوں ۔ اگر آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑوں کو ایک دوسرے سے ملا کر یہاں کی تمام آبادی کو تباہ کر دوں ۔
میں نے جواب دیا:۔۔۔۔۔۔ ‘‘نہیں میں ایسا نہیں چاہتا بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔‘‘
طائف سے مکہ واپس آکرحضور ﷺ پھر اپنی قوم قریش کو ہدایت کی طرف بلانے لگے لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ آپ ﷺ کو اور آپ ﷺپر ایمان لانے والے نیک لوگوں کو اور زیادہ ستانے لگے ۔ پھر تین سال بعد آپﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ۔ ہجرت کے آٹھویں سال آپ ﷺ نے مکہ فتح کیاتو نجد کے ایک قبیلے بنو ہوازن اور طائف کے قبیلے ’’بنو ثقیف ‘‘نے مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بہت بڑا لشکر جمع کیا۔ حضورﷺ نے مکہ سے آگے بڑھ کر حنین کے مقام پر اس لشکر کو شکست دی اور پھر طائف کامحاصرہ کیا۔ چند دن کے بعد آپﷺ نے اعلان کیا کہ شہر سے باہر طائف والوں کے تمام باغات برباد کر دئیے جائیں ۔ یہ اعلان سن کر طائف والوں نے آپﷺ کوپیغام بھیجا کہ اگر ہمارے باغات بربا دکر دئیے گئے تو ہماری روزی کا ذریعہ جاتا رہے گا اس لئے ہم خدا کا واسطہ دے کر درخواست کرتے ہیں کہ آپﷺ ابھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ د یں ۔
حضورﷺ کو طائف والوں کا پیغام ملا تو آپ کو رحم آگیا اور آپﷺ نے محاصرہ اٹھا لیا ساتھ ہی یہ دعا کی:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ بنوثقیف کو ہدایت دے اور انہیں میرے پاس لا ۔‘‘
خدا کا کرنا ، اگلے ہی سال طائف کے لوگوں نے اپنے چند بڑ ے بڑے سردار آپﷺ کی خدمت میں مدینہ بھیجے تا کہ آپﷺ سے بات چیت کر کے اطاعت قبول کرلیں ۔ بارہ سال پہلے ان لوگو ں نے آ پﷺ سے جو سلوک کیا تھا وہ آپ ﷺ کو یاد تھا لیکن آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بڑی عزت کے ساتھ ٹھہرایا، ان کی بہت خاطر مدارت کی اور ایک دفعہ بھی نہ جتا یا کہ تم نے میر ے سا تھ کیا سلو ک کیا تھا۔ آپﷺ کی شفقت اور حو صلے کو دیکھ کر طا ئف والے مان گئے کہ آپﷺ دنیا میں سب سے بڑے انسان اور خدا کے سچے رسول ہیں چنانچہ واپس جا نے سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور طا ئف پہنچ کر دوسرے لوگوں کو بھی مسلمان بنا لیا۔ اس کے بعد یہ لوگ اسلام کے سپاہی بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہمارے ساتھ ہے
رسول پاکﷺ نے مکہ سے ہجرت فر ما ئی تو پہلے تین دن رات آپﷺ نے مکے سے چند میل دور ایک غار ثو ر میں گزارے۔ مکے کے کا فر آپﷺ کو شہید کر نا چا ہتے تھے ۔وہ آپﷺ کو تلاش کرتے کرتے غا ر کے منہ پر پہنچ گئے اور وہاں کھڑے ہو کر آپس میں باتیں کر نے لگے ۔آپﷺ کے پیارے سا تھی حضر ت ابو بکر صد یقؓ نے انہیں غا ر کے منہ پر کھڑے دیکھا تو بے چین ہو گئے اور آپﷺ سے کہا :
’’یا رسول اللہ ہما رے دشمن غا ر کے منہ تک آ پہنچے ہیں۔اگر ان میں سے کسی نے جھک کر نیچے کی طرف دیکھا تو ہم اس کو نظر آجائیں گے ۔ ‘‘
رسو ل پاک ﷺ نے ان کو تسلی دی اور بڑے اطمینا ن کے سا تھ فر ما یا:۔۔۔۔۔۔
’’ گھبراؤ نہیں اللہ ہما رے سا تھ ہے اور پھر واقعی اللہ نے آپﷺ کو بچا لیا۔ کا فر آپﷺ کو نہ دیکھ سکے اور واپس چلے گئے ۔‘‘
غا ر سے نکل کر آپ ﷺ مد ینہ کی طر ف روانہ ہو ئے تو عر بو ں کے ایک قبیلے کے سر دار سراقہ نے اپنے گھو ڑے پر سوا ر ہو کر آپﷺ کا پیچھا کیا۔ اس کو یہ لا لچ تھا کہ اگر وہ آپﷺ کو پکڑ کر مکے لے جا ئے گا تو مکے کے کا فر اس کو سو اونٹ کا انعام دیں گے ۔وہ اپنا گھو ڑا ڑاتا آپﷺ کے قر یب پہنچ گیا۔ حضر ت ابو بکر صد یقؓ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے کہ کو ئی دشمن اچا نک آپ پر حملہ نہ کر دے۔ جب انہوں نے سر اقہ کو دیکھا تو گھبر ا کر آپﷺ کو بتا یا:۔۔۔۔۔۔
’’ یا رسو ل اللہ ہما را پیچھا کر نے والا ہما رے سر پر آ پہنچا۔‘‘
آپ ﷺ نے اطمینان سے فر ما یا:
’’کچھ فکر نہ کر و اللہ ہما ری حفا ظت کر نے والا ہے ۔‘‘
خد ا کی قدرت ،اسی وقت سراقہ کے گھو ڑے نے ٹھو کر کھا ئی اور وہ زمین پر گر گیا۔ سرا قہ اٹھ کر دوبا رہ سو ار ہوا اور آپﷺ کے اس قدر قر یب پہنچ گیا کہ آپﷺ کی آواز اسے سنا ئی دینے لگی۔ اس وقت آپﷺ قر آ ن پا ک کی آیتیں پڑ ھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ آپﷺکو کوئی نقصا ن پہنچا سکتا۔ اس کا گھو ڑا یکا یک پیٹ تک ریت میں دھنس گیا۔ اب وہ بہت شر مند ہ ہو ا اور گڑ گڑا کر آپﷺ سے معافی چا ہی۔ آپﷺ نے اسے معا ف فر ما دیا اور پھر اس سے فر ما یا:۔۔۔۔۔۔۔
’’ سر ا قہ اس وقت تمہا را کیا حال ہو گا جب تم کسر یٰ (ایر ان کے با د شا ہ) کے کنگن پہنو گے۔‘‘
سر اقہ چند سا ل کے بعد مسلما ن ہو گئے اور رسول پاک ﷺ کے پیا رے سا تھی بن گئے۔ حضر ت عمر فا رو قؓ کی خلا فت کے ز ما نے میں ایر ان کا پا یہ تخت مدا ئن فتح ہو ا تو کسر یٰ کا خزانہ مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔جب یہ خزانہ مدینہ منورہ لایا گیاتو حضرت عمر فاروقؓ نے سراقہ کو بلایا اور ان کو کسریٰ کے کنگن پہنا کر خو شی سے رونے لگے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سا لہا سال پہلے جو فر ما یا تھا اسے آج وہ اپنی آنکھوں کے سا منے دیکھ رہے ہیں،پھر فر ما یا:
’’اے سراقہ! اس اللہ کی تعر یف کر جس نے یہ چیزیں کسر یٰ سے چھین لیں جولو گوں کا رب ہو نے کا دعو یٰ کر تا تھا اور انہیں عر ب کے ایک دیہا تی سر ا قہ کو پہنا دیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سب لوگوں میں اللہ کے نزدیک وہ شخص بہتر ہے جوپہلے سلام کہے ۔‘‘ (ابوداؤد)
۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہارے ساتھ مل کر کام کروں گا
رسول پاک ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی تو پہلے مدینہ منورہ کے قریب ایک بستی قباء میں چند دن قیام فرمایااور اسی دوران میں وہاں ایک مسجد بنوائی ۔ پھر آپ ﷺ خاص شہر مدینہ میں تشریف لے گئے تو کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی ایک مسجد بنوائی ۔ پہلی مسجد کو ’’مسجد قبا‘‘اور دوسری کو’’مسجد نبوی ‘‘ کہتے ہیں ۔ جس وقت یہ مسجدیں بن رہی تھیں تو رسول پاک ﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مل کر گا رااور اینٹیں ڈھوتے تھے ۔۔۔۔۔۔وہ بہتیرا عرض کرتے:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ !آپ رہنے دیجئے ۔ ہم خود یہ کام کر لیں گے۔‘‘
لیکن آپﷺ فرماتے:۔۔۔۔۔۔
’’نہیں !میں تمہارے ساتھ مل کر اس کام میں پورا حصہ لوں گا۔‘‘
اسی طرح ہجرت کے پانچویں سال خندق کی لڑائی پیش آئی تو آپﷺ صحابہؓ کے ساتھ مل کر خندق کھودتے تھے۔ یہ بڑی لمبی چوڑی خندق تھی اور پتھریلی زمین میں اس کا کھودنا بڑا مشکل کام تھا۔ لیکن آپﷺ اور آپﷺ کے پیارے ساتھیوں نے دن رات سخت محنت کرکے چند دن میں یہ خندق تیار کر لی ۔ یوں حملہ کرنے والے کافر شہر کے اندر داخل نہ ہوسکے ۔
خندق کھودتے ہوئے آپ کاجسم مبارک گردو غبار سے اٹ جاتا تھااور آپﷺ بہت تھک جاتے تھے لیکن اس حال میں بھی آپﷺ کام جاری رکھتے تھے ۔ صحابہؓ بار بار عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !آپ یہ کام نہ کریں اور آرام سے بیٹھیں لیکن آپ فرماتے :
’’نہیں ، میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا اور تمہارے ساتھ مل کر خندق کھودوں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اللہ تمہاری صورتوں اور دولت کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور جو کام تم کرتے ہو ، ان کو دیکھتا ہے ۔‘‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۶۷۰۸)
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے
رسول پاک ﷺ بدر کی لڑائی کے لئے روانہ ہوئے تو مسلمانوں کے پاس سواری کے اونٹ بہت کم تھے ۔ہر تین آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا۔ اس پر وہ تینوں باری باری چڑھتے اترتے تھے ۔ رسول پاک ﷺ بھی اپنی باری پر اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر اتر کر پیدل چلنے والوں کے ساتھ شریک ہوجاتے ۔ آ پ ﷺ کے پیارے ساتھیوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اونٹ پر تشریف رکھیں ۔ پیدل چلنے کی تکلیف نہ کریں ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :۔۔۔
’’میں تم سے کم پیدل نہیں چل سکتا اور نہ مجھے تم سے کم ثواب کی ضرورت ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ حسین ، سب لوگوں سے زیادہ سخی اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے ۔‘‘
(صحیح بخاری حدیث نمبر ۶۰۳۳)
۔۔۔۔۔۔۔
اپنا وعدہ ضرور پورا کرو
رسول پاک ﷺ بدر کی لڑائی کے لئے روانہ ہوئے تو مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپﷺ کو ایک ایک آدمی کی سخت ضرورت تھی ۔ لڑائی سے پہلے دو مسلمان حضرت حسیلؓ اوران کے بیٹے حضرت حذیفہؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم مکہ سے آ رہے تھے کہ راستے میں کافروں نے ہمیں پکڑ لیااور پھر اس شرط پر ہمیں چھوڑا کہ ہم لڑائی میں مسلمانوں کاساتھ نہیں دیں گے ۔ مگر یہ مجبوری کاوعدہ تھا اگر ہم ایسا نہ کرتے تو وہ ہمیں کبھی نہ چھوڑتے ۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ ہم کافروں کے خلاف لڑیں ۔‘‘
آ پ ﷺ نے فرمایا:
’’ہر گز نہیں،تم اپنا وعدہ ضرور پورا کرو اور لڑائی میں حصہ نہ لو ۔ ہمیں صرف اللہ کی مدد چاہیے ۔‘‘
اسی طرح آپ ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابو رافعؓ جس زمانے میں اسلام نہیں لائے تھے مکہ کے کافروں نے ان کوکوئی پیغام دے کر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھتے ہی اسلام قبول کرنے پر تیار ہو گئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اب کافروں کے پا س واپس نہیں جاؤ ں گا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’میں نہ تو وعدہ توڑتاہوں اور نہ پیغام لانے والوں کو اپنے پاس روکتا ہوں ۔ تم اس وقت واپس جاؤ۔ بعد میں چاہو تو میرے پاس آجانا ۔‘‘
چنانچہ حضرت ابو رافعؓ واپس چلے گئے اور کچھ مدت کے بعد آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کالگایاہوا زخم
اُحد کی لڑائی میں کافروں نے رسول پاک ﷺ پر تیروں، تلواروں، بر چھیوں اور پتھروں کا مینہ برسا دیا ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺسخت زخمی ہو گئے ۔ لیکن آپ اخیر تک میدان سے نہیں ہٹے اور تھوڑے سے صحابہؓ کے ساتھ برابر کافروں کا مقابلہ کرتے رہے ۔
ایک موقع پر قریش کا ایک نامی بہادر ابی بن خلف اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار صفو ں کو چیرتا ہوا آپﷺ کی طرف بڑھا۔ آپ ﷺ کے جاں نثار ساتھیوں نے اس کا راستہ روکنا چاہا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا، تم اس کا راستہ چھوڑ دو اور اسے آگے آنے دو ۔ پھر آپ ﷺ نے ایک مسلمان کے ہاتھ سے برچھی لی اور جب ابی سامنے آیا تو اس برچھی کی انی اس کی گردن میں چبھو دی ۔ وہ چیختا ہوا واپس بھاگا۔ اس کے ساتھی کافروں نے اُبی سے کہا ، معمولی زخم ہے گھبراتے کیوں ہو ؟
اس نے کہا:۔۔۔۔۔۔’’یہ محمدﷺ کے ہاتھ کا لگایاہوا زخم ہے ۔‘‘
چنانچہ اسی زخم کی وجہ سے وہ مر گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، غصّہ مت کیاکرو ۔ اس نے عرض کیا کہ کوئی اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، غصّہ مت کیا کر ۔ اس نے پھر پوچھا آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا۔
ََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََِِ (بخاری حدیث نمبر :۶۱۱۶)
۔۔۔۔۔۔۔
دُشمنوں کے لئے دُعا
ایک دفعہ بہت عرصہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے مکہ میں سخت قحط پڑ گیا ۔ لوگوں کو کھانے کیلئے کوئی چیز نہ ملتی تھی او ر وہ اپنی جان بچانے کی خاطر مرے ہوئے جانوروں کا گوشت کھا نے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے ستانے کی وجہ سے رسول پاک ﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے ۔ اب اُن کے ایک بڑے سردار ابو سفیان مجبور ہو کر آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ۔۔ ۔ ۔ ۔ ’’اے محمدﷺ آ پ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے ۔ آپ اپنے ربّ سے اس کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے ۔‘‘
مکہ کے کافروں نے آپ ﷺ کو بہت دُکھ دیے تھے، اور کوئی ہوتا تو کہہ دیتا کہ بہت اچھا ہو ا ظالموں کو اپنے کئے کی سزا ملی لیکن آپ ﷺ کو ان لوگوں پر رحم آگیا اورآپ ﷺ نے اسی وقت بڑی عاجزی سے بارش کے لئے دعا کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی دعا قبول کرلی اور اتنا مینہ برسایا کہ مکہ میں ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا اس طرح قحط دور ہو گیا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وعدہ بھی ایک طرح کا قرض ہے (اس لئے اس کوضرور ادا کرنا چاہیے ) طبرانی
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ بہادر
بہادری اور دلیری کسی آدمی کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے ۔ ہمارے رسول پاک ﷺ سب لوگوں سے زیادہ بہادر اور دلیر تھے۔ مکے میں جب آپﷺ نے کافروں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا تو وہی لوگ جو آپﷺ کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے وہ آپﷺ کے دشمن بن گئے ۔ انہوں نے آپ ﷺ پر ایمان لانے والے نیک لوگوں کو بہت ستایا اور بہت دکھ دئیے مگر آپ ﷺ برابر ان کو اللہ کی طرف بلاتے اور بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرماتے رہے ۔
ایک دفعہ کافروں نے کعبہ شریف میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ محمدﷺ اب جیسے ہی کعبہ میں آئیں سب مل کر ان کو شہید کر ڈالیں ۔ اتفاق سے آپﷺ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کہیں قریب ہی تھیں ۔ انہوں نے کافروں کی گفتگو سن لی ۔ وہ روتی ہوئی رسول پاک ﷺ کے پاس گئیں اور آپﷺ کو بتایا کہ کافروں نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔
آپﷺ نے فرمایا :۔۔۔۔۔۔
’’میری پیاری بچی ! گھبراؤ نہیں ، اللہ میرے ساتھ ہے ۔‘‘
پھر آپﷺ نے وضو کیااور سیدھے کعبہ شریف روانہ ہو گئے ۔ جب کعبہ شریف کے صحن میں پہنچے تو کافروں پر آپﷺ کی بہادری اور بے خوفی کا یہ اثر ہوا کہ ان کی نظریں خود بخود جھک گئیں اور کسی کو آپﷺ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
رسول پاک ﷺ اور آپ ﷺ کے پیارے ساتھی مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے لیکن کافروں کا دل پھر بھی ٹھنڈا نہ ہواا ور وہ بار بار مدینہ منورہ پر حملے کرتے رہے ۔رسول پاک ﷺ نے ہر لڑائی میں کافروں کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا اور ان کو ناکا م ہو کر واپس جانا پڑا ۔
بدر کی لڑائی میں تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہزار کافر تھے ۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو رسول پاک ﷺ دشمن کی صفوں کے اتنے قریب تھے کہ آپﷺ کے قریب کھڑا ہونا بھی بہادری اور دلیری کاکام تھا ۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے میدان میں جب سخت لڑائی ہورہی تھی تو ہم رسول اللہ ﷺ ہی کی آڑ میں آکر پناہ لیتے تھے ۔ آپﷺ سب سے زیادہ بہادر تھے ۔ دشمن کی صفوں سے اس دن آپﷺ سے زیادہ کوئی قریب نہ تھا۔
حضرت براء بن عازب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ہم سب سے بڑا بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو لڑائی میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اُحد کی لڑائی میں ایک موقع پر کافروں نے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کر ڈالا ۔ ساتھ ہی رسول پاک ﷺ کی شہادت کی غلط خبر مشہو رہو گئی ۔ یہ خبر سن کر بہت سے مسلمان بد دل ہوکر لڑائی کے میدان سے ہٹ گئے لیکن حضورﷺ اخیر تک میدان میں جم کر کھڑے رہے حالانکہ آپﷺ پر تیروں ، تلواروں ، بر چھیوں اور پتھروں کا مینہ برس رہا تھااور آپﷺ زخمی بھی ہو گئے تھے۔ یہ آپﷺ کی بہادری ہی تھی کہ کافر تھک ہار کر واپس چلے گئے ۔ دوسرے دن آپﷺ نے کچھ صحابہؓ کو ساتھ لے کر کافروں کا پیچھا کیا لیکن ان کو مقابلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی اور وہ مکے کہ طرف واپس بھاگ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حنین کی لڑائی میں دشمنوں نے گھات میں بیٹھ کر مسلمانوں پر اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں افراتفری پھیل گئی اور اکثر مسلمان لڑائی کے میدان سے ادھر اُدھر ہٹ گئے لیکن رسول پاک ﷺ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے ، اس وقت آپ ﷺ بلند آواز سے فرما رہے تھے :
’’میں اللہ کا نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہو ں ۔‘‘
آپ کے خچر کی لگام حضرت عباسؓ نے نے پکڑ رکھی تھی ۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ آپ مہاجرین اور انصار کو آواز دیں ۔ انہوں نے زور سے پکارا :
’’اے انصاریو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو۔‘‘
صحابہؓ نے جو نہی یہ آواز سنی وہ سب پلٹ پڑے اور کافروں کو شکست دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
خطرے میں سب سے آ گے
ایک رات کا ذکر ہے کہ مد ینہ منو رہ کے لوگوں نے ایک ایسی آواز سنی۔ جیسے کو ئی دشمن آتا ہے یا ڈا کہ پڑ تا ہے ۔لو گ آواز سن کر گھبرا گئے ۔ان میں سے کچھ اس آواز کی طرف دوڑے( تا کہ خطرے کا مقابلہ کر یں) تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ رسول اللہﷺ اس آواز کی طرف سے واپس آتے ہوئے ملے کیو نکہ آپ اکیلے ہی سب سے پہلے اس آواز کی طرف تشر یف لے گئے تھے ۔آپ لو گو ں سے فر ما رہے تھے:۔۔۔۔۔۔۔
’’ ڈرو مت، گھبر اؤمت کو ئی خطر ے کی بات نہیں ہے۔‘‘
اس وقت آپ اپنے ایک پیا رے سا تھی حضر ت ابو طلحہ انصا ریؓ کے گھو ڑے پر سوا ر تھے ۔اس پر کوئی زین نہ تھی اور آپ کی گر دن مبا رک میں تلوار لٹکی ہو ئی تھی۔ لوگوں کو تسلی دے کر آپﷺ نے فر ما یا: ’’میں نے اس گھو ڑے کو چلنے میں در یا پا یا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنا عہد نہیں تو ڑوں گا
ہجر ت کے چھٹے سال رسول پا ک ﷺ اپنے چودہ سو پیارے ساتھیوں کے ہمر اہ عمرہ کے لئے مکہ کی طرف روا نہ ہو ئے، راستے میںآپ ﷺ کو خبر ملی کہ مکے کے کا فر اس بات پر تل گئے ہیں کہ وہ مسلما نو ں کو کسی صورت میں عمر ہ نہیں کر نے دیں گے ۔آپﷺ راستہ بدل کر مکے کے قریب حدیبیہ کے مقا م پر پہنچے اور وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں سے آپﷺ نے مکہ کے کا فر وں کو پیغام بھیجا کہ ہم تم سے لڑنے نہیں آئے بس عمر ہ کر کے واپس چلے جا ئیں گے۔
لیکن کا فر نہ ما نے ۔پھر حضور ﷺ نے حضر ت عثما ن غنیؓ کو ان کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم لوگ ضد نہ کرو اور ہمیں شہر میں دا خل ہو کر عمر ہ کر لینے دو۔
لیکن کا فر اپنی ضد پر اڑے رہے اور حضرت عثمان غنیؓ کو بھی شہر میں روک لیا۔ ادھر مسلما نو ں میں مشہور ہو گیا کہ کا فر وں نے حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا ہے ۔اس پر رسول پاکﷺنے صحا بہؓ سے فرمایا کہ ہم عثمانؓ کے قتل کا بد لہ ضرور لیں گے پھر آپ کیکر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور تما م صحا بہؓ نے آپﷺ کے ہا تھ پر اس بات کی بیعت کی کہ ہم مر جا ئیں گے لیکن آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور عثما نؓ کے قتل کا بد لہ ضرور لیں گے ۔اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جا تا ہے۔ کیو نکہ یہ بیعت کر نے والے صحا بہؓ کواللہ تعالیٰ نے اپنے را ضی ہو نے کی خو شخبر ی دی۔
جب مکے میںیہ خبر پہنچی کے مسلما ن لڑنے مر نے پر تیا ر ہو گئے ہیں تو انہوں نے حضرت عثما نؓکو واپس بھیج دیا اور اپنے قاصد بھیج کر صلح کی خوا ہش ظا ہر کی۔ رسو ل پا کﷺ بھی امن کو لڑائی سے اچھا سمجھتے تھے، اس لئے آپﷺ نے چند شر طو ں پر کا فر وں سے صلح کر لی۔ اس صلح کو’’ صلح حد یبیہ‘‘ کہا جا تا ہے ۔صلح کی شر طوں میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر مکے کا کو ئی آدمی اسلام قبول کر کے مسلما نو ں کے پا س چلا جا ئے تو مسلمان اسے اپنے پاس نہیں رکھیں گے بلکہ واپس مکے بھیج دیں گے ۔
ابھی آپ ﷺ حدیبیہ ہی میں تھے کہ ایک مسلمان ابو جندلؓ مکہ سے بھاگ کر وہاں پہنچے ۔ کافروں نے ان کو اسلام لانے کے جرم میں قید کر رکھا تھااور ان کے پاؤ ں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں وہ کسی طرح اپنی قید کی جگہ سے نکل کربیڑیوں سمیت اس حال میں حدیبیہ پہنچے کہ ان کی پنڈلیو ں سے خون ٹپک رہا تھا۔ انہوں نے فریاد کی :۔۔۔۔۔۔
’’مسلمانوں !دیکھو مجھے میرے والد نے اسلام لانے کی یہ سزا دی ہے ۔ کیا تم مجھے اس مصیبت سے نہیں چھڑاؤگے ؟‘‘
انہیں اس حال میں دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھو ں میں آنسو آگئے لیکن حضرت ابو جندلؓ کے والد سہیل جنہوں نے کافروں کی طرف سے صلح کی شرطیں طے کی تھیں بولے :
’’اے محمد(ﷺ) یہ صلح صرف اسی صورت میں مانی جائے گی جب ابو جندل کو ہمارے حوالے کر دیا جائے گا ۔‘‘
آپﷺ نے سہیل کو بہت سمجھایا کہ وہ ابو جندل کو واپس نہ لے جائیں لیکن وہ نہ مانے ۔ آخر رسول پاک ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’اچھا تم ابو جندل کو اپنے ساتھ واپس لے جاؤ ۔‘‘
اس موقع پر حضرت ابو جندلؓ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور بلند آواز سے پکارے :۔۔۔۔۔۔
’’اے مسلمانو! ایک مسلمان کو پھر کافروں کے حوالے کر رہے ہو تا کہ وہ مجھ پر پھر ظلم کریں ۔ ذرا میرے جسم پر ان کی مار پیٹ کے نشان تو دیکھو کہ کس طرح ان سے خون کے دھارے بہہ رہے ہیں ۔‘‘
لیکن رسول پاک ﷺ نے ان سے فرمایا:
’’اے ابو جندل !صبر کرو، میں نے مکہ کے کافروں سے جو عہد کیا ہے اس کو نہیں توڑوں گا۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ جلد ظاہر ہونے کو ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اور دوسرے مظلوم مسلمانوں کے لئے کوئی راستہ پیدا کر دے گا ۔‘‘
اب ابو جندلؓ خاموش ہو گئے اور رسول ﷺ نے انہیں ان کے والد کے حوالے کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت ابوجندل نے قید سے کسی طرح چھٹکارا حاصل کر لیا۔ پھر جب کافروں نے خود ہی یہ شرط واپس لے لی تو وہ رسو ل پاک ﷺ کے پاس مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
دُشمنوں سے بھی انصاف
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت عبداللہؓ کھجوروں کی بٹائی کے لئے خیبر گئے ۔ ان کے چچا زاد بھائی حضرت محیصہؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عبداللہ شہر خیبر کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی نے ان کو شہید کر ڈالا ۔ صاف معلوم ہوتا تھاکہ یہ کام کسی یہودی کا ہے کیونکہ یہی لوگ مسلمانوں کے دشمن تھے۔
حضرت محیصہؓ نے مدینہ واپس آکر رسو ل پاک ﷺ کے سامنے مقدمہ پیش کیااور عرض کیا، یا رسول اللہ !میرے بھائی کو یہود یوں نے شہید کیا ہے ۔
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’تم قسم اٹھا سکتے ہو کہ عبداللہ کو یہودیوں نے شہید کیا۔‘‘
حضرت محیصہؓ نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’تو پھر یہودیوں سے قسم لی جائے کہ انہوں نے عبداللہ کو قتل نہیں کیا۔‘‘
حضرت محیصہؓ نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! ان لوگوں کا کیا اعتبار یہ تو جھوٹی قسمیں کھالیں گے ۔‘‘
خیبر میں صرف یہودی آباد تھے اور وہی حضرت عبداللہؓ کے قاتل ہو سکتے تھے لیکن موقع کا گواہ کوئی نہیں تھا۔ اس لئے آپﷺ نے گواہی کے بغیر اسلام کے دشمنوں پر بھی الزام نہ لگایااور حضرت عبداللہؓ کے خون کے بدلے میں ان کے وارثوں کو سو اونٹ بیت المال سے دلائیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت بہز بن حکیمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
’’خرابی اور نامرادی ہے اس شخص کے لئے جو جھوٹی باتیں اس لئے کہتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے ۔ خرابی ہے اس کے لئے، خرابی ہے اس کے لئے ۔‘‘ (مسند احمد ۲۰۲۷۰+۲۰۰۲۱)
۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ ۔۔۔۔۔۔تمہارے سب قصور معاف
رمضان ۸ہجری میں رسول پاک ﷺ نے مکہ فتح کیا تو قریش کے سب کافر آپﷺ کے سامنے پیش ہوئے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو سالہا سال تک آپ کو ستاتے رہے اور آپ ﷺ کے ماننے والوں پر بھی سخت ظلم ڈھاتے رہے ۔ یہاں تک کہ آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو وطن اور گھر بار چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا ۔ آج آپﷺ کے ساتھ دس ہزار ہتھیار بند صحابہؓ تھے اورکوئی طاقت ایسی نہ تھی جو آپﷺ کو بدلہ لینے سے روک سکتی لیکن آپﷺ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے تھے ۔آپﷺ نے پہلے تو قریش کے سہمے ہوئے لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’اللہ ایک ہے ۔
اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔
اس کا کوئی شریک نہیں ۔
اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ۔ اپنے بندے کی مدد کی اور سارے جتھوں کو توڑ دیا۔
اے قریش ! تم اپنے باپ دادا کی بڑائی پر فخر کرتے تھے ۔
اللہ نے تمہارا یہ غرور توڑدیا ‘‘۔۔۔۔۔۔پھر آپﷺ نے قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھ کر فرمایا :۔۔۔۔۔۔’’تم جانتے ہو کہ میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں ؟‘‘۔۔۔۔۔۔سب نے جواب دیا : ۔۔۔۔۔۔’’آپ ہمارے شریف بھائی اور شریف بھتیجے ہیں ۔‘‘
رسو لﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔’’جاؤ آج تمہارے سب قصور معاف کر دئیے گئے (تم پر کوئی ملامت یا الزام نہیں )تم سب آزاد ہو‘‘
آپﷺ کا یہ سلوک دیکھ کر قریش کے تقریباًسبھی کافروں نے خوشی سے اسلام قبول کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
پیارے چچا کے قاتل کو معاف فرما دیا
رسول پاک ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کو وحشی بن حرب نے اُحد کی لڑائی میں شہید کیا تھا۔ اس سے آپﷺ کو سخت صدمہ پہنچا ۔ رسول پاک نے مکہ فتح کیا تو وحشی ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ کر طائف چلے گئے پھر کچھ عرصہ بعد وہاں سے رسو ل پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ آپﷺ ے انہیں معاف کر دیااور صرف اتنا فرمایا کہ میرے سامنے نہ آیا کرو کیونکہ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے چچا یاد آجاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے سہارا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا ۔۔۔۔۔۔اور جوشخص کسی مسلمان کی کوئی پریشانی دور کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دور کرے گا ۔
اور جو مسلمان کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ (مسلم شریف ۶۷۴۳+۲۴۴۲+۲۹۱۵)
۔۔۔۔۔۔۔
انصاف میں کوئی رعایت نہیں
مکہ کی فتح کے بعد رسول پاک ﷺ وہیں تشریف رکھتے تھے کہ ایک مال دار عورت فاطمہ بنت اسود چوری کرنے کے جرم میں پکڑی گئی ۔
وہ مکہ کے مشہور قبیلے بنومخزوم سے تعلق رکھتی تھی۔ چونکہ اللہ کے حکم کے مطابق فاطمہ کے جرم کی سزا یہ تھی کہ اس کاہاتھ کاٹ ڈالا جائے، اس لئے فاطمہ کے رشتہ دار گھبرائے گھبرائے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس فاطمہ کی سفارش کریں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔
رسول پاک ﷺ کو حضرت اُسامہؓ سے بہت محبت تھی او ر آپ ﷺ ان کو بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے آپﷺ کے پاس فاطمہ کی سفارش کی تو آپ ناراض ہوئے اور لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا جس میں فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’لوگو!تم سے پہلی قومیں اس وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب ان میں سے کوئی کمزور یا معمولی آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے ۔
خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔‘‘
حضور ﷺ کاارشاد سن کر حضرت اُسامہؓ بہت شرمندہ ہوئے اور آپ سے درخواست کی:
’’یا رسول اللہ ﷺ !اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بخش دے (یعنی میرا سفارش کرنے کا قصور معاف فرما دے )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑی دولت
حنین کی لڑائی میں ہوازن کے قبیلے کو شکست ہوئی تو ان کا بہت سامال اسباب ،بھیڑ بکریاں اور اونٹ مسلمانوں کے ہاتھ آئے ۔ رسول پاک ﷺ نے ان چیزوں کو مسلمانوں میں تقسیم فرمایا تو ان کا زیادہ حصہ قریش اور کچھ دوسرے قبیلوں کو دیا جو نئے نئے اسلام لائے تھے ۔آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ ان نئے مسلمانوں کے دلوں کو ہاتھ میں کیا جائے ۔ انصار کے بعض نوجوان اس بات کو نہ سمجھ سکے اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ ہم ہر موقع پر اللہ کے راستے میں اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں اور قریش کے کافروں کاخون ابھی تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن لڑائی میں حاصل ہونے والا زیادہ مال یہی لوگ لے گئے ۔
رسول پاک ﷺ کو ان باتوں کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے انصار کے سرداروں کو بلایااور ان سے پوچھا کہ میں کیسی باتیں سن رہا ہوں ؟
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ!ہمارے بعض نوجوان نے واقعی ایسی باتیں کہی ہیں لیکن ہم میں سے کسی سمجھ دار اور بڑی عمر والے آدمی کے منہ سے ایسی بات نہیں نکلی ۔‘‘
اس پر رسول پاک ﷺ نے سب انصار کو جمع کیااور ان کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ۔۔ ۔۔۔۔
’’اے انصار کے لوگو! کیا یہ سچ نہیں کہ پہلے تم گمراہ تھے۔ میں تمہیں کفر اور گمراہی سے نکال کر اللہ کے سیدھے راستے پر لایااور تمہیں جنت کاحق دار بنایا ۔ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، میں نے تم میں اتفاق پیدا کیا، تم غریب تھے میں نے تم کو مال دار بنایا۔ تمہیں عرب کے دوسرے قبیلے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ میں نے تمہیں عزت والا بنایا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
آپﷺ جو بات فرماتے تھے اس پر انصار بلند آواز سے کہتے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔’’بے شک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہم پربہت بڑا احسان ہے ۔‘‘
پھر رسو ل پاک ﷺ نے ان سے فرمایا:
’’تم بھی اپنے احسان بیان کرو ۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
’’تم کہو، تجھے اپنے گھر سے نکالا گیا ، ہم نے اپنے گھر میں پناہ دی ۔ تیرا کوئی مدد گار نہیں تھا، ہم نے تیری مدد کی ۔ ساری دنیا نے تجھے جھٹلایا ہم نے تیری سچائی کی سچے دل سے گواہی دی ۔ تم بھی جواب دیتے جاؤگے اور میں کہتا جاؤ ں گا ، تم سچ کہتے ہو لیکن اے انصارکے لوگو! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ اونٹ، بکریاں اور مال و دولت اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمدﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ ۔‘‘
آپﷺ کے ارشادات سن کر انصار کا عجیب حال ہوا روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ بے اختیار پکار اٹھے:۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم محمدرسول ﷺکے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔‘‘
اب رسول پاک ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’انصار میرے ہیں اور میں انصار کا ہوں ۔ اے اللہ انصا راور انصار کے لڑکوں پر رحم فرما۔‘‘
پھر فرمایا:۔۔۔۔۔
’’قریش کو اس لئے زیادہ مال دیا گیا ہے کہ ان کی دل جوئی ہو کیونکہ وہ ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا حق زیادہ ہے ۔‘‘
انصار رسول پاک ﷺ کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے تو اس قدر خوش تھے کہ ان کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں تم سے کچھ بچا کر نہ رکھوں گا
ایک دفعہ انصار میں سے بعض نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا ۔آپ ﷺ نے انھیں دے دیا ۔انہوں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے اور عنایت رفرمایا۔وہ بار بار سوال کرتے رہے اور آپﷺ ہر بار عطا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس جو مال تھا وہ سب ختم ہو گیا۔اب انہوں نے سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا تم لوگ اطمینان رکھو کہ میرے پاس جو کچھ ہو گا میں اسے تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا ۔۔۔۔اور (یاد رکھوکہ )جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے اللہ اسے سوال سے بچاتا ہے اور جو دنیا کے مال سے بے پروائی ظاہر کرتا ہے اللہ اسے بے پرواہ کر دیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے اور کوئی بخشش صبر سے بہتر نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ
’’جو شخص اپنی قوم (یا قبیلے) کی ناحق اور ناجائز بات پر مدد کرتا ہے، وہ اس اونٹ جیسا ہے جو اونچی جگہ سے کنوئیں میں گر کر ہلاک ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔اور۔۔۔۔
پھر اس کی دُم کو پکڑ کر اسے کھینچا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں بدلہ نہیں لیا کرتا
ایک دفعہ رسول پاک ﷺ ایک لشکر کے ہمراہ نجد کے علاقہ سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں دوپہر گزارنے کے لئے ایک ایسے مقام پر ڈیرہ لگایا جہاں بہت سے کانٹے دار درخت تھے۔آپ ﷺ خود ایک کیکر کے درخت کے نیچے اترے اور لشکر کے لوگ ادھر ادھر دوسرے درختوں کے نیچے چلے گئے۔ آپﷺ نے اپنی تلواریں اسی کیکر سے لٹکا دی ۔ پھر لشکر کے سب سپاہی سو گئے کہ اچانک آپ ﷺ نے لشکر کے آدمیوں کو آواز دی ۔ وہ اٹھ کر دوڑے اور آپﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے ۔وہاں دیکھا کہ گاؤں کا ایک آدمی آپﷺ کے پاس کھڑا ہے ۔
آپ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’میں سورہا تھا کہ اس شخص نے مجھ پر تلوار کھینچی اور کہا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ اللہ ۔ اس پر اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی اور میں نے اٹھالی ۔ پھر اس سے کہا کہ اب تجھے کون بچا سکتا ہے ؟تو اس نے معافی مانگی اور کہا کہ مجھ سے بھول ہوئی میری جان بخش دیجئے۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایاکہ میں بدلہ نہیں لیا کرتا ۔ میں نے اس کو معاف کر دیا ہے ۔جہاں جی چاہے چلا جائے ۔
وہ شخص جب اپنی قوم میں واپس گیا تو کہنے لگا:۔۔۔۔۔۔۔’’میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں ، جو سب سے بہتر انسان ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ منورہ میں ایک دولت مند آدمی عبداللہ بن ابی ظاہر میں تو مسلمان ہوگیا تھالیکن دل میں رسول پاک ﷺکاسخت دشمن تھا ۔ ایک دفعہ ایک سفر میں اس نے آپﷺ کے خلاف بہت بُری باتیں کیں۔ْ صحابہؓ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اس شخص کو قتل کرا دیں لیکن آپﷺ نے فرمایا ، نہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ اپنے کسی ساتھی کو قتل کراؤ ں۔
عبداللہ بن اُبی کے بیٹے کانام بھی عبداللہؓ تھا۔ وہ بڑے پکے اور سچے مسلمان تھے۔ انہوں نے اپنے باپ کو مدینے میں داخل ہونے سے روکنا چاہا تو آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے باپ کا راستہ نہ روکو اور اس کوشہر میں داخل ہونے دو ۔
۔۔۔۔۔۔۔
آؤ مجھ سے بدلہ لے لو
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ لوگوں میں کچھ تقسیم فرما رہے تھے ۔آپ کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔اتنے میں ایک شخص آیا اور آپ ﷺ کے اوپر اوندھا گرنے لگا۔آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی ۔آپﷺ نے اس چھڑی سے اس شخص کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا تو چھڑی کا سرا اس کے چہرے پر جا لگا جس سے معمولی سی خراش آگئی ۔ اس پر آپ ﷺ کوا فسوس ہوااور آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’آؤ مجھ سے بدلہ لے لو ۔‘‘
اس شخص نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! میں نے معاف کر دیا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایاکہ ’’وہ شخص بہت ہی بُرے آدمیوں میں سب سے بُرا ہے جو لوگوں کے قصور معاف نہیں کرتا ، عذر کو قبول نہیں کرتا اور کسی گناہ کرنے والے کے گناہ معاف نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
کوڑا مارنے کا بدلہ
حضرت ابو ر غفاریؓ ہمارے رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی تھے۔ ۸ہجری میں حنین کی لڑائی کے بعد رسول پاک ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو اسلامی لشکر میں حضرت ابو رُہمؓ بھی شریک تھے۔ چند دن کے بعد آپﷺ طائف کا محاصرہ اٹھا کر واپس چلے تو راستے میں اتفاق سے حضرت ابورُہم کی اونٹنی حضورﷺ کی اونٹنی سے بھڑ گئی اور حضرت ابورُہم کے بھاری اور سخت جوتے سے رسول پاک ﷺ کی ران مبارک پر خراش آگئی ۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا آپ ﷺ نے حضرت ابو رُہم ﷺکے پاؤں پر ہولے سے مارااور فرمایا ، اپناپاؤں پرے ہٹاؤ میری ران پر خراش آگئی ہے ۔
حضرت ابو رُہمؓ کا شرمندگی اور ڈر سے بُرا حال ہو گیا ۔ڈرا نہیں ا س بات کا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچائی ہے کہیں اللہ تعالیٰ کا غضب مجھ پر نازل نہ ہوجائے ۔ چنانچہ سار ی رات وہ سخت بے چین رہے ۔ صبح ہوئی تو وہ اونٹ چرانے جنگل کی طرف نکل گئے۔ واپس آئے تو معلوم ہوا کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یاد فرمایا تھا ۔ اسی وقت ڈرتے ڈرتے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’کل تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی اس کے بدلہ میں ، میں نے تمہارے پاؤں پر کوڑا مارا اس سے تمہیں جو تکلیف پہنچی اس کے بدلے میں یہ بکریاں میری طرف سے قبول کرو۔‘‘
کہتے ہیں کہ یہ اسی بکریاں تھیں جو رسول پاک ﷺ نے ایک ہلکے سے کوڑے کے بدلے میں حضرت ابورُہمؓ کو عطا فرمائیں ۔
حضرت ابو رُہمؓ کہا کرتے تھے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کا مجھ سے راضی ہو جانا میرے لئے دنیا جہان کی ہر شے سے بہتر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
بکریوں کا پورا ریوڑ دے دیا
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب کبھی کسی شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز مانگی آپﷺ نے وہ چیز اسے دے دی ۔
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے کبھی کسی سوال پر ’’نہیں ‘‘ کا لفظ نہیں فرمایا۔
ایک مرتبہ دو پہاڑوں کے درمیان رسول پاک ﷺ کی بکریوں کا ریوڑ چر رہا تھا۔ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا:۔۔۔۔۔۔۔۔
’’وہ ریوڑ مجھے دے دیجئے ۔‘‘
آپﷺ نے اسے دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔اس شخص پر آپﷺ کی دریا دلی کا یہ اثر ہو اکہ وہ اپنے قبیلے میں جا کر لوگوں سے کہنے لگا:۔۔۔
’’اے میری قوم کے لوگو ! مسلمان ہو جاؤ اور محمدﷺ کی پیروی کرو ۔ وہ تواتنے سخی ہیں کہ انہیں اپنے غریب یا محتاج ہوجانے کا کچھ بھی ڈر نہیں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
چاندی سونے کا ذخیرہ لٹا دیا
رسول پاک ﷺ فرماتے تھے کہ اگر میرے پاس اُحد کے برابر بھی سونا ہوتا تو میں اسے تین دن میں حق دار لوگوں میں بانٹ کر ختم کر دیتا ۔۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ ملک بحرین سے خراج آیا۔ یہ اتنا زیادہ مال تھا کہ اس سے پہلے مدینہ منورہ کے لوگوں نے نہیں دیکھا تھا ۔
رسول پاک ﷺ نے حکم دیا کہ اسے مسجد کے صحن میں ڈال دو۔ صحن میں چاندی سونے کا ڈھیر لگ گیا ۔ آپﷺ نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھ کر اسے لوگوں میں بانٹنا شروع کیا۔ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی مالی حالت ان دنوں اچھی نہ تھی ۔ انہوں نے درخواست کی کہ اس مال میں سے کچھ دیا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ جتنا اٹھاکر لے جا سکتے ہیں لے جائیں ۔
حضرت عباسؓ نے چادر بچھائی اور اس میں بہت سا سونا چاندی ڈا ل کر گٹھڑی بنائی لیکن وہ اتنی بھاری ہو گئی کہ اٹھا نہ سکے ۔ اب انہوں نے رسول پاک ﷺ سے کہا، یا رسول اللہ ﷺ !کسی کوحکم دیجئے کہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک چھوڑ آئے ۔ آپﷺ نے فرمایا ، چچا جان ! آپ اسی قدر لیجئے جتنا خود اٹھا کر لے جاسکتے ہیں ۔
اس کے بعدآپ ﷺ وہ مال غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹتے رہے یہاں تک کہ ایک درہم بھی باقی نہ رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں گھر نہیں جاؤں گا
ایک دفعہ فدک کے رئیس نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں چار اونٹ غلہ سے لدوا کر بھیجے ۔ آپﷺ کے حکم کے مطابق حضرت بلالؓ نے یہ غلہ بازار میں فروخت کر دیااور جو قیمت ملی اس سے ایک یہودی کا قرض ادا کر دیا ۔ پھر رسول پاک ﷺ کو اطلاع دی کہ کچھ رقم بچ گئی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’جب تک یہ رقم باقی ہے میں گھر نہیں جاؤں گا۔‘‘
حضرت بلالؓ سے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! کوئی مانگنے والا ہی نہیں ہے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’کچھ بھی ہو جب تک یہ رقم باقی رہے گی ۔ میں گھر نہیں جاؤں گا ۔‘‘
چنانچہ آپﷺ نے مسجد میں رات گزاری ۔ دوسرے دن حضرت بلالؓ نے اطلاع دی کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ ! باقی رقم بھی تقسیم ہو گئی ہے ۔‘‘
آپﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیااور گھر تشریف لے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ضرورت دوسرے کی ضرورت پر قربان کر دی
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ کی چادر پھٹ گئی ۔ ایک نیک بی بی آپﷺ کی اس ضرورت کے وقت ایک چادر لائیں اور اسے آپﷺکی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا:۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ﷺ !یہ میںآپﷺ کو پہنانے آئی ہوں ۔‘‘
آپﷺنے یہ چادر قبول فرمالی کیونکہ آپﷺ کو ا سکی ضرورت تھی ۔ پھر آپﷺ نے پرانی چادر اتار کر یہ چادر پہن لی ۔
ایک شخص جو اس موقع پر موجود تھے کہنے لگے:۔۔۔۔۔۔۔’’یارسول اللہ ﷺ ! یہ چادر بہت عمدہ ہے ، یہ مجھے عطا فرما دیجئے ۔‘‘
آپﷺ نے فوراً وہ چادر اتار کر ان کو دے دی ۔
جب لوگ اس مجلس سے اٹھے تو آپ ﷺ کے بعض ساتھیوں نے ان صاحب کو ملامت کی کہ تم دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس چادر کی کتنی ضرورت تھی مگر تم نے پھر بھی اسے آپ ﷺ سے مانگ لیا اور تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کسی مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔۔۔۔۔۔۔ان صاحب نے کہا :۔۔۔۔۔۔
’’اللہ گواہ ہے کہ میں نے خوامخواہ لالچ نہیں کیا بلکہ جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺنے اسے ایک دفعہ پہن لیا ہے تو میں نے برکت حاصل کرنے کے لئے اسے مانگ لیا تا کہ یہ پاک چادر کفن میں میرے کام آسکے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
تمہاراقرض میں اداکروں گا
ایک دفعہ ایک ضرورت مند آدمی رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے کچھ مانگا۔ آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔’’اس وقت میرے پاس (تمہیں دینے کے لئے) کچھ نہیں ۔ تم کہیں سے قرض لے کر اپنا کام چلاؤ جب میرے پاس ہو گا تو مجھ سے لے کر قرض واپس کر دینا(یا یہ کہ تمہاراقرض میں ادا کروں گا )‘‘
حضرت عمر فاروقؓ اس وقت وہاں پر موجود تھے ۔ انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ !اگر آپ کے پاس موجود ہو اکرے تو د ے دیا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی ایسی چیز دینے کا پابند نہیں کیا جو آپ کے پاس نہ ہو۔‘‘
لیکن رسول پاک ﷺ نے یہ مشورہ پسند نہ فرمایا ۔ ایک انصاری صحابی بھی وہاں بیٹھے تھے ۔ انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اللہ کی راہ میں خوب خرچ کیجئے اور یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تنگ دست نہیں کرے گا۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ مسکرائے ۔ آپ کا چہرۂ مبارک کھل اٹھااور آپﷺ نے فرمایا :
’’مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
سونے کا ڈلا
ایک دن رسول پاک ﷺ عصرکی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی گھرتشریف لے گئے ۔ اس سے پہلے آپ نماز کے بعد کچھ دیر مسجد میں ٹھہراکرتے تھے ۔ لوگ پریشان ہو گئے کہ خداجانے کیا بات ہے کہ آپ نماز کے فوراًبعد گھر تشریف لے گئے ہیں ، مگر حضورﷺ جلد ہی واپس تشریف لے آئے ۔ آپﷺ نے لوگوں کو پریشان دیکھا تو فرمایا :
’’گھر میں سونے کا ایک ڈلا پڑا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سونا رات بھر گھر میں پڑارہے ۔میں گھر والوں سے یہ کہنے گیاتھاکہ اسے رات ہونے سے پہلے خدا کی راہ میں دے دیں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی ﷺ
حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :’’میرا تعلق دُنیا کے ساتھ بس ایسا ہے جیسا کوئی سوار مسافر کچھ دیر سستانے کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھہرااور پھر اس کو اپنی جگہ چھوڑ کر منزل کی طرف چل دیا۔‘‘
(ترمذی شریف )
۔۔۔۔۔۔۔
بُرائی کا بدلہ بھلائی
ایک دفعہ ایک بدو رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی آپﷺ کی چادر اس زور سے کھینچی کہ اس کا کنارہ آپ ﷺ کی گردن مبارک میں کھب گیا جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی ،پھر و ہ بڑی بدتمیزی سے بولا:
’’محمدﷺ !میرے یہ دو اونٹ ہیں ان پر لادنے کے لئے مجھے مال سامان دو۔ تیرے پاس جو مال ہے وہ نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا ۔‘‘
آپ ﷺ کے پیارے ساتھیوں کو اس کی باتیں بہت بُری معلوم ہوئیں اور ا نہوں نے ارادہ کیا کہ اس کو سزا دیں مگر آپ ﷺ نے ان کو روک دیااور بڑی نرمی کے ساتھ فرمایا :
’’مال تو اللہ کا ہے میں اس کا بندہ ہوں ۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے بدو سے پوچھا:۔۔۔۔۔۔’’تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے کیا تم اس پر ڈرتے نہیں ہو؟‘‘
اس نے کہا :۔۔۔’’نہیں ‘‘آپ ﷺ نے پوچھا :’’کیوں ؟‘‘
بولا :۔۔۔۔۔۔’’مجھے یقین ہے کہ تم بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے ۔‘‘
آپ ﷺ مسکرانے لگے اور اس کے اونٹوں پر کھجوریں اور جو لدوا دئیے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
برکت والے چھ درہم
ایک دن ہمارے رسول پاک ﷺ بازار تشریف لے جا رہے تھے ۔ آپﷺ کے پاس چھ درہم تھے۔ آپﷺ نے ایک غریب عورت کو روتے ہوئے دیکھا ۔ آپ ﷺ نے ا س سے پوچھا :
’’بی بی کیا بات ہے تم کیوں رورہی ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا :۔۔۔۔۔۔ ’’میں مدینہ کے فلاں گھر میں نوکرانی ہوں ۔ گھر والو ں نے مجھے دودرہم دے کر کچھ چیزیں خریدنے بھیجا تھا ۔ وہ میرے ہاتھ سے گر پڑے اور کہیں گم ہو گئے ۔‘‘
آپ ﷺنے اس کو دودرہم دئیے اور فرمایا جاؤ جو چیزیں تمہیں خریدنی ہیں خرید کر گھر لے جاؤ ۔
اب آپ ﷺ کے پاس چاردرہم رہ گئے۔آپ ﷺ نے ان میں سے دودرہم دے کر ایک کرتا خریدااور بازارسے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں آپ ﷺ کو ایک بوڑھا آدمی نظر آیا جس کے بدن پر کوئی کپڑا نہ تھا،وہ کہہ رہا تھا:
’’جو مجھے لباس پہنائے گا،اللہ اس کو جنت کا لباس عطاء کرے گا۔‘‘
آپﷺ نے وہ کرتا اسے پہنا دیااور پھر واپس بازار تشریف لے گئے ۔ باقی کے دو درہموں سے ایک اور کرتا خریدا اور پہن لیا ۔ واپسی میں اسی عورت کو پھر روتے ہوئے پایا ۔ آپ ﷺ نے پوچھا:
’’بی بی ! اب کیوں رو رہی ہو؟‘‘
وہ بولی :۔۔۔۔۔۔۔’’اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہے اب واپس جاتے ہوئے ڈرتی ہوں کہ گھر والے سزا دیں گے ۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا :۔۔۔۔۔۔’’گھر واپس جاؤ ۔‘‘
وہ گھر کی طرف چلی تو آپﷺ بھی اس کے ساتھ ہو لئے ۔ اتنے میں انصار کے چند گھر نظر آئے ۔ انصار مدینہ کے رہنے والے مسلمانوں کو کہتے تھے۔ اس کا مطلب ہے ’’مدد کرنے والے ‘‘ چونکہ ان نیک لوگوں نے مشکل وقت میں رسول پاک ﷺ کی مدد کی تھی اور آپﷺ کو مکہ سے اپنے شہر بُلا لیا تھا، اس لئے انصار کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔آپﷺ نے دیکھا کہ ان گھروں کے مرد باہر گئے ہوئے ہیں اور پیچھے صرف عورتیں ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا :
’’اے بیبیو ! تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو ۔‘‘
عورتوں نے آپ ﷺ کی آواز سن لی لیکن سب خاموش ہیں ۔
آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’اے بیبیو! تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو ۔‘‘
عورتیں اب بھی خاموش رہیں ۔
تیسری بار آپ ﷺ نے پھر ان کو اسی طرح سلام کیا۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار سب بیبیوں نے مل کر کہا :۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ کے رسول ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ پر خدا کی سلامتی اور رحمت ہو۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا تم نے میرا پہلا سلام نہیں سنا تھا؟‘‘
بولیں :۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ سنا تھا لیکن ہمارا دل چاہتا تھا کہ آپ ہم پر بار بار سلامتی اور رحمت بھیجیں ،اسی لئے ہم نے اونچی آواز میں آپ ﷺکے سلام کا جواب نہیں دیا۔‘‘
جو بی بی آپ ﷺ کے ساتھ آرہی تھی وہ انہی گھروں میں سے ایک گھر کی کنیز تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’تمہاری اس کنیز کو کسی وجہ سے واپس آنے میں دیر ہو گئی ۔ یہ ڈر رہی ہے کہ اسے سزا نہ دی جائے ۔ میری خاطر اس کو معاف کر دو ۔‘‘
ان بیبیوں نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ !یہ آپﷺ کے ساتھ آئی ہے ، ہم اسے آزاد کرتی ہیں ۔‘‘
واپس ہوتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’یہ چھ درہم کتنے برکت والے تھے ۔ ان کی وجہ سے خوف میں مبتلا ایک انسان کو امن ملا۔ دو آدمیوں کا بدن ڈھانپا گیااور ایک کنیز آزاد ہوئی ۔۔۔۔۔۔اور جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کا بدن ڈھانپا ہے جب تک اس کے بدن پر وہ کپڑے رہتے ہیں پہنانے والے کی اللہ حفاظت کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دینار کا سفر
ایک دن حضرت علیؓ گھر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ رو رہے ہیں ۔ پیارے بچوں کو روتا دیکھ کر ان کو بہت دُکھ ہوااور انہوں نے ان کی والدہ حضرت فاطمہؓ سے پوچھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا ، گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں اس لئے بھوک سے رورہے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت علیؓ گھر سے نکلے اور بازار کی طرف چل دئیے ۔ انہیں بازار میں ایک دینار (سونے کا قیمتی سکہ ) زمین پر پڑا ہوا ملا۔ اس کواٹھا کر گھر آئے اور حضرت فاطمہؓ کو اس کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اسے فلاں یہودی کے پاس لے جائیں اور اس سے ہمارے لئے آٹا لے آئیں ۔
حضرت علیؓ دینار لے کر اس یہودی کے پاس پہنچے اور اس سے آٹا خریدا۔ جب آٹا خرید چکے تو وہ یہودی بولا،’’کیا آپ اس شخص کی بیٹی کے شوہر ہیں جس نے اللہ کا رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے ؟‘‘
حضرت علیؓ نے جواب دیا ،’’ہاں میں وہی ہوں ۔‘‘
اس پر اس یہودی نے کہا:
’’آپ اپنا دینار واپس لے لیں اور آٹا میری طرف سے آپ کے لئے تحفہ ہے ۔‘‘
حضرت علیؓ آٹا اور دینار لے کر حضرت فاطمہؓ کے پاس آئے اور ان کوساری بات بتائی ۔ انہوں نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’اچھا تو قصائی کے پاس جا کر ایک درہم کا گوشت خرید لائیں ۔‘‘
حضرت علیؓ قصائی کے پاس گئے اور دینار اس کے پاس رہن رکھ کر ایک درہم کا گوشت خرید لا ئے ۔
حضرت فاطمہؓ نے آٹا گوندھا ، گوشت چولہے پر چڑھایا، روٹیا ں پکائیں اور اپنے اباجان ، رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے گھر تشریف لائیں ۔ جب حضورﷺ تشریف لائے توحضرت فاطمہؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیاکہ میں آپ کو اس کھانے کاحال سناتی ہوں کہ یہ ہمیں کیسے حاصل ہوا پھر اگر آپ ﷺ سمجھیں کہ اس کا کھانا ہمارے لئے جائز ہے تو آپ ﷺ بھی کھانے میں ہمارے ساتھ شریک ہوں ۔
حضورﷺ نے ان کی ساری بات سن کر فرمایا:
’’اللہ کانام لے کر کھاؤ ۔‘‘
پھر سب کھانے لگے ۔ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ باہر سے ایک لڑکے کی آواز سنائی دی جو اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر اپنے دینار کے گم ہونے کا اعلان کر رہا تھا ۔
حضورﷺ نے اس لڑکے کو اندر بلالیااور اس سے اس دینار کے بارے میں پوچھا۔
اس نے جواب دیا بازار میں اس سے کہیں گر گیا تھا ۔
اس پر رسول پاک ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ قصائی کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں پیغام بھیجا ہے کہ دینار میرے پاس بھیج دو تمہارا درہم مجھ پر قرض رہا ۔
حضرت علیؓ نے قصائی کو حضورﷺ کا پیغام پہنچایا تو اس نے دینار ان کو واپس دے دیا ۔ حضرت علیؓ نے اسے لا کر حضورﷺ کو دیا تو آپ ﷺ نے وہ دینار اس لڑکے کو دے دیا ۔ وہ خوش ہو گیااور ہنستے ہوئے اپنے گھر کا راستہ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے سے دے دو ۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر ۲۴۴۳)
۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کی خدمت
ایک دفعہ ایک کافر رسول پاک ﷺ کا مہمان بنا آپ ﷺ نے اپنی عادت کے مطابق اس کی بہت خاطر تواضع کی ۔ رات کو اس نے اتنا کھانا کھا لیا کہ پیٹ میں گڑ بڑ ہو گئی اور نیند کی حالت میں بستر ہی میں اس کا پاخانہ نکل گیا ۔ وہ شرمندگی کے مارے آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی منہ اندھیرے اٹھ کر چلا گیا ۔ راستے میں یاد آیا کہ جلدی میں اپنی تلوار وہیں چھوڑآیاہوں۔تلوار لینے کے لیے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رسول پاک ﷺ خود بستر دھو رہے ہیں ۔ آپ ﷺ کے کچھ پیارے ساتھی بھی موجود ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔’’اے اللہ کے رسول ﷺ !بستر ہمیں دیجئے ہم اسے دھو دیتے ہیں ۔‘‘ لیکن آپﷺ فرماتے ہیں :
’’نہیں نہیں ، وہ شخص میرا مہمان تھا اس لئے یہ کام میں خود ہی کروں گا۔‘‘
پھر آپ ﷺ کی نظر اس شخص پر پڑی تو آپﷺ نے بڑی نرمی سے فرمایا :۔۔۔۔’’بھائی تم اپنی تلوار یہیں بھول گئے تھے اسے لے جاؤ ۔‘‘
اس کے دل پر آپﷺ کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ اسی وقت مسلمان ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حدیث نبوی
حضرت ابن عمر ﷺ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے ۔(بخاریو ومسلم )
۔۔۔۔۔۔۔
بکری کیسے پکائی گئی
ایک دفعہ ہمارے رسول پاک ﷺ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے ۔ راستے میں ایک جگہ آپﷺ نے پڑاؤ ڈالا آپﷺ کے سامنے تجویزیں پیش کی گئی کہ کھانے کے لئے ایک بکری ذبح کی جائے ۔ حضورﷺ نے فرمایاٹھیک ہے ۔
ایک صحابی نے کہا۔۔۔۔۔’’میں بکری ذبح کروں گا ۔‘‘
دوسرے نے کہا:۔۔۔۔۔۔’’میں اس کی کھال اتاروں گا۔‘‘
تیسرے نے کہا:۔۔۔۔۔۔’’میں اس کا گوشت بنادوں گا ۔‘‘
چوتھے نے کہا :۔۔۔۔۔۔’’میں اسے پکاؤں گا ۔‘‘
یہ سن کر رسول پاک ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔’’میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں چن کر لاؤں گا ۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔’’یا رسول اللہ ﷺ یہ کام بھی ہم خود کر لیں گے ۔آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔’’بے شک یہ کام بھی تم خود کر سکتے ہو لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں اور تم سارے کام کرو ۔ اللہ تعالیٰ اسے ناپسند فرماتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھے اورچاہے کہ اس کے ساتھی اس سے خاص سلوک کریں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں ہے
ایک دن رسول پاک ﷺ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ۔ وہاں آپﷺ کا گزر غلہ بیچنے والے ایک شخص کی دکان پر ہوا ۔ اس نے ایک بوری میں غلہ بھر کر بیچنے کے لئے رکھا تھا۔ آپﷺ نے غلے کی بوری میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو اوپر کا غلہ توخشک تھا لیکن نیچے کاغلہ گیلا تھا۔آپ ﷺ نے دکاندار سے پوچھا :
’’یہ کیا با ت ہے کہ اوپر کاغلہ خشک ہے اور نیچے کا گیلا۔‘‘
اس نے کہا:۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ !اس پر کچھ بارش ہو گئی تھی ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’اس بھیگے ہوئے غلے کو تو نے اوپر کیوں نہیں رکھا تا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ۔ جو شخص کسی کو دھو کا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
نورانی مکھڑے والا خریدار
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت طارق بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں (اسلام قبول کرنے سے پہلے ) اپنے قبیلے (بنو محارب ) کے چند لوگوں کے ساتھ ربذہ سے مدینے کی طرف روا نہ ہوا ۔ ہم وہاں سے کھجوریں خرید کر لانا چاہتے تھے ۔ جب ہم مدینہ کی آبادی کے قریب پہنچے تو ہمارے قافلے نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈال دیا تا کہ سفر کے کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے بدل لیں ۔ اتنے میں شہر سے ایک صاحب آئے جنہوں نے دو پرانی چادروں کا لباس پہن رکھا تھا ۔ انہوں نے سلام کے بعد ہم سے پوچھا :۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ لو گ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟‘‘
ہم نے کہا :۔۔۔۔۔۔
’’ہم ربذہ سے یہیں (مدینہ ) تک آئے ہیں تا کہ کچھ کھجوریں خرید سکیں ۔‘‘
ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا ۔ ان صاحب نے پوچھا :
’’یہ اونٹ بیچتے ہو؟‘‘
ہم نے کہا :۔۔۔۔۔۔۔’’ہاں ، اس قدر کھجوروں کے بدلے میں دے دیں گے ۔‘‘
ان صاحب نے ہم سے کوئی مول تول نہیں کیااور کہا:
’’آپ جو قیمت بتارہے ہیں ، مجھے منظور ہے ۔‘‘
پھر انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر کو چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے کہا کہ ہم تو اس شخص کو جانتے تک نہیں اور وہ ہمارا قیمتی اونٹ قیمت دئیے بغیر لے گیا ۔ کیامعلوم اب اونٹ کی قیمت وصول ہوتی ہے یا نہیں ۔
قافلے میں ہمارے قبیلے کے سردار کی پردہ نشین بیوی بھی شامل تھی (وہ ایک دانا عورت تھی )اس نے پردے کے پیچھے سے ہمیں اس قدر پریشان دیکھا تو بولی :۔۔۔۔۔۔
’’تم لوگ پریشان کیوں ہوتے ہو ۔میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھاجو چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا ۔ ایسے نورانی مکھڑے والا خریدار کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔ اگر وہ قیمت نہ دے گا تو میں دے دوں گی ۔‘‘
یہی بات ہو رہی تھی کہ شہر سے ایک شخص آیا اور کہا:
’’مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے اور تمہارے سرخ اونٹ کی قیمت کی کھجوریں بھیجی ہیں او ر تمہاری دعوت کے لئے الگ کھجوریں ہیں ۔ کھاؤ پیواور قیمت کی کھجوروں کو ناپ کر پورا کرلو۔‘‘
جب ہم کھا پی کر سیر ہو گئے تو شہر میں داخل ہوئے ۔ دیکھا تو وہی صاحب نورانی مکھڑے والے مسجد کے منبر پر کھڑے وعظ کر رہے ہیں ۔ ہم نے یہ الفاظ سنے :۔۔۔۔۔۔
’’لوگو ! خیرات دیا کرو ۔ خیرات دینے میں تمہاری بہتری ہے ۔او پر کاہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ ماں کو، باپ کو ، بہن کو ، بھائی کو، پھر قریبی کو اور دوسرے قریبی کودو ۔‘‘
اب ہم سمجھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ﷺ ہیں ۔ پس ہم سب نے آپ ﷺ کے دست مبارک پراسلام قبول کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دشمنوں کو بھو کوں مر نے سے بچا لیا
مکہ اور اس کے ارد گر د کی زمین پتھر یلی ہے۔ اس لیے وہاں غلہ پیدا نہیں ہو تا۔ رسول پاک ﷺ کے زمانے میں مکہ کے لوگ نجد کے علاقے سے غلہ منگوا یا کر تے تھے۔ رسول پا کﷺ کی مکہ سے ہجرت کے چند سال بعد نجدکے رئیس ثما مہؓ نے اسلام قبو ل کیا تو انہوں نے مکے کے لو گوں کو غلہ بھیجنا بند کر دیا کیو نکہ وہ مسلمانو ں کے سخت دشمن تھے ۔نتیجہ یہ ہواکہ مکے میں غلے کا قحط پڑگیا اور لوگ بھو کوں مر نے لگے۔ آخر انہوں نے اپنے ایک آدمی کو یہ پیغا م دے کر رسول پاک ﷺکی خد مت میں مدینہ منو رہ بھیجا کہ ہم اناج کے ایک ایک دانے کو تر س رہے ہیں، اگر چند دن اور ہمیں غلہ نہ ملا ہم بھوکوں مر جا ئیں گے ۔ آپﷺ ہم پر رحم کر یں اور ثمامہ کو حکم دیں کہ وہ پہلے کی طر ح ہمیں غلہ بھیجنا شروع کر دیں۔
یہ پیغام بھیجنے والے وہی لوگ تھے جن کے ظلم اور زیاد تیوں کی وجہ سے رسول پاکﷺ اور آپ کے سا تھیوں کو اپنا وطن اور گھر بار چھو ڑنا پڑا تھا اور پھر مدینہ منورہ میں بھی انہوں نے مسلمانوں کو امن سے نہ بیٹھنے دیا تھا۔ آپ ﷺ چاہتے تو اپنے دشمنوں کو بھوکا مار سکتے تھے لیکن آپ ﷺ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔ آپ ﷺ کو ان پر رحم آگیا اور آپ ﷺ نے حضرت ثمامہؓ کو پیغام بھیجا کہ اب ان لوگوں پر رحم کرو اور ان کوغلہ بھیجنا شروع کردو۔
حضرت ثمامہؓ نے اپنے آقا ﷺ کاپیغام ملتے ہی مکہ والوں کو غلہ بھیجنا شروع کر دیااور یوں وہ بھوکوں مرنے سے بچ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بُراآدمی کون ؟
ایک دفعہ ایک بوڑھے آدمی رسول پاک ﷺ کے دروازے پر حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔
یہ صاحب بڑے سخت مزاج تھے ۔ شاید بڑھاپے کی وجہ سے ان کامزاج چڑچڑا ہو گیا تھا۔ اس لئے لوگ ان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان کو اندر آنے کی اجازت تو دے دی لیکن ساتھ ہی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا:’’یہ شخص اپنے قبیلے کا اچھا آدمی نہیں ہے ۔‘‘جب وہ اندر آئے تو آپﷺ ان سے بہت اچھی طرح پیش آئے اور بڑی محبت اور نرمی سے گفتگو فرمائی ۔ جب وہ چلے گئے توحضرت عائشہؓ نے حیران ہو کر پوچھا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ یہ شخص اپنے قبیلے کا اچھا آدمی نہیں ہے لیکن جب وہ اندر آیا تو آپ نے اس سے بڑی نرمی اور محبت کے ساتھ گفتگو فرمائی ۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔’’تم نے مجھے بدزبان پایا ہے ؟ اللہ کے نزدیک وہ آدمی سب سے بُرا ہے جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑدیں ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
اونٹ کی فریاد
رسول پاک ﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت یحیےٰ بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور گھٹنے ٹیک کر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس کی دونوں آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا جیسے رو رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :۔۔۔
’’جاؤ معلوم کرو کہ یہ کس کا اونٹ ہے اور ا س کو کیا ہوا ہے (کہ وہ ر و رہا ہے )‘‘
میں اس اونٹ کے مالک کو ڈھونڈنے کے لئے نکلا تو معلوم ہوا کہ یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے فلاں صاحب کا اونٹ ہے ۔ میں ان کو بلا کر رسول ﷺ کے پاس لے گیا ۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : ۔۔ ۔۔۔۔۔
‘‘یہ تمہارے اونٹ کاکیاحال ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔
’’مجھے تو نہیں معلوم کہ اس کا یہ حال کیوں ہے ۔ ہاں بات یہ ہے کہ ہم نے اس سے کام لیا، اس پر مشک لاد کر باغوں میں پانی دیتے رہے یہاں تک کہ اب اس میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ پانی کی مشکیں اٹھا سکے اور ہم باغوں میں پانی دے سکیں ۔ یہ دیکھ کر کل رات کو ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کر لیں ۔‘‘
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔
’’تم اسے ذبح نہ کرو، یا تو اسے مجھے ویسے ہی (بغیر قیمت لئے ) دے دو یا میرے ہاتھ بیچ دو۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:۔۔۔۔۔۔۔
’’یا رسول اللہ ﷺ !یہ اونٹ آپ کا ہوا ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اس اونٹ پر بیت المال کے جانوروں کا نشان لگایااور اسے بیت المال کے جانوروں میں شامل کرنے کے لئے بھیج دیا(تا کہ ان کے ساتھ چرتااور پیتا رہے ۔)
(ترغیب وترہیب بحوالہ مسند احمد)
۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں دُنیا کا نہیں آخرت کا عیش چاہیے
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی کوٹھڑی میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپﷺ کھجور کے پٹھوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ اس کے اور آپ ﷺ کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے اور کھجور کے پٹھوں نے آپﷺ کے جسم مبارک پر گہرے نشانات ڈال دےئے ہیں ، آپﷺ کے سرہانے ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی کوٹی ہوئی چھال بھری ہے ۔۔۔۔۔۔۔یہ حالت دیکھ کر میں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ!اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ آپکی اُمت کو خوب مال اسباب اور خوش حالی عطا فرمائے ۔ روم اور فارس والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت خوشحال اور مال دار بنایاہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’اے عمر ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دُنیا کا عیش ہواور ہمارے لئے آخرت کا عیش ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نرمی کو پسند کرتا ہے
ایک دفعہ چند شریر یہودی رسول پاک ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ ﷺکو یوں بگاڑ کر سلام کیا:
السام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔اس کامطلب ہے تمہیں موت نصیب ہو ،جب کہ السلام علیکم کا مطلب ہوتا ہے تم پر سلامتی ہو۔
اُمت کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ ، آپ ﷺ کے قریب موجود تھیں ۔ ان کو یہودیوں کی بات سن کر سخت غصّہ آیا اور انہوں نے ان کے جواب میں یہ الفاظ کہے :
’’وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃَ‘‘
اور تمہیں بھی موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔
جب وہ چلے گئے تو رسول پاک ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔
’’عائشہ !تم نے کیوں ایسا جواب دیا، اللہ تو نرمی کو پسند کرتاہے ۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ ﷺ!آپﷺ نے یہودیوں کے الفاظ نہیں سنے تھے ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔’’سن لئے تھے لیکن میں نے نرمی سے وعلیکم (اور تم پر بھی ) کہہ دیا تھااور اس قدر جواب کافی تھا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔