skip to Main Content

۴ ۔ صحابہ کی تربیت

حکیم محمد سعید

۔۔۔۔۔۔۔

عہد کی پابندی
غزوۂ بدر کے موقع پر دو صحابہ میدان جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۔ یہ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت حِسیلؓ تھے جنھیں کافروں نے مکّے میں روک رکھا تھا اور مدینے نہیں آنے دیا تھا۔
یہ مکّے میں تھے کہ ان کو معلوم ہوا کہ کافر مدینے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ وہ پریشان ہو گئے ۔ انھوں نے سوچا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضورﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کی جانیں تو خطرے میں ہوں اور وہ مکّے میں حفاظت سے بیٹھے رہیں ۔ چناں چہ انھوں نے آپس میں مشورہ کیااور ایک دن موقع پا کر خاموشی سے مکّے سے نکل پڑے ۔
حضرت حُذیفہؓ اور حسیلؓ ابھی مدینے کے راستے ہی میں تھے کہ کافروں نے انھیں دیکھ لیااور گھیر کر پکڑ لیا۔ دونوں صحابہؓ نے کافروں کو یقین دلایا کہ وہ ان سے لڑنے نہیں جا رہے ہیں ۔ اس پر کافروں نے ان سے کہا کہ اگر وہ یہ عہد کریں کہ لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہیں دیں گے اور مسلمانوں کے لشکر سے الگ رہیں گے تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔
کافروں کو اس جنگ میں اپنی کامیابی کااس قدر یقین تھا کہ انھیں ان دو مسلمانوں کے مکّے سے چلے جانے کی کوئی فکر نہ تھی ۔وہ سوچ رہے تھے کہ لڑائی کے بعد حذیفہؓ اور حسیلؓ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا کہ مکّے میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کیوں چلے گئے ۔
مگر رسول اللہ ﷺ کے یہ دو صحابی کچھ اور سوچ رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ جا کر کافروں سے لڑنے کے لیے بیتاب تھے ، ان کا دل شہادت کے لیے بے چین تھا ، انھیں اس بات کا سخت رنج تھا کہ کافروں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے انھیں یہ عہد کرنا پڑا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ۔ انھوں نے آپس میں کہا:
’’کافروں سے عہد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ اللہ کے دشمن ہیں ۔ پہلے وہ مکّے میں مسلمانوں کو ستاتے رہے ، ان پر ظلم کرتے رہے اور اب جب کہ وہ مدینے چلے گئے ہیں تو ان پر حملہ کرنے جا رہے ہیں ۔ انھوں نے ہمیں بھی مکّے سے جانے نہیں دیا اور اب زبردستی ہم سے ایک بے جا عہد لے لیا ہے ۔ ایسے عہد کی پابندی ہم پر کس طرح فرض ہو سکتی ہے ؟‘‘
کافروں کی قید سے چھوٹ کر وہ خوشی خوشی بدر کی طرف روانہ ہو گئے تا کہ میدان جنگ میں پہنچ کر مسلمانوں سے جا ملیں ۔
جب وہ بدر کے میدان میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ حضرت حذیفہؓ اور حضرت حِسیلؓ کو دیکھ کر خوش ہو گئے ۔ انھیں دوہری خوشی تھی ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اِ ن صحابہ کو کافروں کی قید سے رہائی ملی اور دوسری یہ کہ یہ دونوں بڑے بہادر تھے اور اسلامی لشکر میں ان کے شامل ہونے سے کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔
حضورﷺ نے حذیفہؓ اور حسیلؓ سے پوچھا کہ انھیں کافروں سے کس طرح رہائی ملی؟ انھو ں نے پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ انھوں نے کافروں سے کیا عہد کیا تھا۔
وہ کہنے لگے :
’’یا رسول اللہ ﷺ !ہم یہ عہد پورا نہیں کریں گے ۔ ہم شہادت کے آرزو مند ہیں ، ہم کافروں سے لڑیں گے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’تمہارآنا مبارک ہے لیکن تم نے عہد کیا ہے کہ مکّے والوں سے نہیں لڑو گے۔ تمھیں یہ عہد پورا کرنا چاہیے ۔‘‘
انھوں نے عرض کیا:
’’لیکن حضورﷺ ! یہ عہد تو ہم نے مجبوری کے تحت کیا تھا۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’کچھ بھی ہو تم نے عہد کیا ہے ، اسی عہد کے باعث تمھیں رہائی ملی ہے اور مسلمان اپنا عہد پورا کرتا ہے ۔‘‘
انھوں نے بہت ادب سے پھر عرض کیا:
’’حضورﷺ! ہم تو جہاد میں شریک ہو نے آئے ہیں ۔ ہمیں کافروں سے لڑنے کی اجازت دیجیے ۔‘‘
صحابہؓ کو تعجب ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حذیفہؓ اور حسیلؓ کو لڑائی میں شریک ہونے سے منع کر رہے ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو ان جیسے بہادر سپاہیوں کی سخت ضرورت ہے ۔
حضور ﷺ کوحذیفہؓ اور حسیلؓ کی جہاد میں شرکت کی خواہش کا پورااحساس تھا، آپﷺ اپنے صحابہؓ کے خیالات کو بھی سمجھ رہے تھے ، مگر آپﷺ اللہ کے رسول تھے اور مسلمانوں کی ہدایت اور انھیں اچھے اخلاق سکھانے کے لیے تشریف لائے تھے ۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’اللہ اپنے بندوں کو ان کی نیت کے مطابق صلہ دیتا ہے ۔ اللہ کو تمھاری نیتوں کاحال معلوم ہے ۔ فتح اور شکست اُسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنے عہد کو پورا کرناایک مسلمان پر فرض ہے ۔‘‘
اب صحابہؓ کی سمجھ میں آگیا کہ حضورﷺ حذیفہؓ اور حسیلؓ کو مکے کے کافروں کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کہ اجازت کیوں نہیں دے رہے ۔
معاہدے کا پاس
عہد کی پابندی کی ایک اور مثال وہ واقعہ ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر پیش آیا۔
قریش مکّہ نے سہیل بن عمرو کو اپنا سفیر بنا کر رسول ﷺ کے پاس بھیجا کہ صلح کی شرطیں طے کر یں ۔وہ دیر تک صلح کی شرطوں پر گفت گو کرتے رہے پھر جب شرطیں طے ہو گئیں توحضورﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ معاہدے کے الفاظ لکھیں ۔
صلح کی جوشرطیں طے ہوئی تھیں وہ مسلمانوں کے لیے ظاہر میں بڑی سخت تھیں اور وہ اس پر بے چین تھے۔ لیکن حضورﷺ اللہ کے رسول تھے اور آپﷺ جو کچھ کرتے تھے وہ اللہ ہی کے حکم سے کرتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے انھیں قبول کر لیا تھا۔ ان شرطوں میں ایک شرط یہ تھی کہ قریش کا کوئی آدمی بغیر اُن کی اجازت کے مسلمانوں کے پاس چلا جائے تو اس کو واپس کر دیا جائے گا اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کے پاس مکّے چلا جائے گاتو وہ واپس نہیں کیا جائے گا ۔
اِدھر یہ شرطیں ہوئیں اور اُدھر سہیل بن عمر و کے بیٹے ابو جندلؓ جو مسلمان ہو گئے تھے اور اسی جرم میں کافروں کی قید میں تھے ، کسی طرح مکّے سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے ۔ وہ اس حال میں حضورﷺ کے سامنے آئے کہ پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور جسم پر زخموں کے نشان تھے۔
سہیل نے جو دیکھا کہ ان کا بیٹاقید سے بھاگ کر مسلمانوں کی پناہ میںآگیا ہے تو کھڑے ہو گئے اور حضورﷺ سے کہنے لگے :
’’اس کے یہاں آنے سے پہلے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہوچکا ہے ۔ اس کو میرے حوالے کیجیے ۔‘‘
ابو جندلؓ نے اپنے زخم دکھائے اور کہنے لگے :
’’کیا مجھے پھر ان کافروں کے حوالے کر دیں گے جنھوں نے مجھے اتنی سخت تکلیفیں پہنچائی ہیں اور ظلم کیے ہیں ؟‘‘
سہیل نے اصرار کیا کہ معاہدہ کی شرطیں طے ہو چکی ہیں اور حضورﷺ معاہدے کے پابندی کریں ۔
ابو جندلؓ کی فریاد نے مسلمانوں کو بے قرار کر دیا ۔ حضرت عمرؓ جیسے صحابی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے ، اگر حضورﷺ چاہتے تو ذرا سی دیر میں مسلمانوں کی تلواریں نکل آتیں ۔ لیکن آپﷺ کو معاہدے کا پا س تھا۔ آپﷺ نے ابو جندل کی طرف دیکھااور فرمایا :
’’ابو جندل !صبر کرو ۔ اللہ تمھارے لیے اور مظلوموں کے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے گا ۔ اب صلح ہو چکی اور ہم ان لوگوں سے اپنا عہد نہیں توڑ سکتے ۔‘‘
ابو جندل آنکھوں میں آنسو لیے خاموشی سے واپس چلے گئے ۔
محنت کی تلقین
حضورﷺ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی ہر طرح مدد فرماتے تھے ، لیکن آپﷺ کو گدا گری سے سخت نفرت تھی ۔
ایک دفعہ ایک انصاری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔چہرے سے پریشانی ٹپکتی تھی ۔
حضورﷺ نے پوچھا ،’’کیا بات ہے ؟‘‘
عرض کیا،’’حضورﷺ !محتاج ہوں ۔ کھانے کو نہیں ہے ۔ کچھ مدد فرمائیے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :’’تمھارے پاس کوئی چیز ہے ؟‘‘
عرض کیا ،’’حضورﷺ ! میرے پاس کچھ نہیں ۔ صرف ایک بچھونا ہے آدھا بچھاتا ہوں اور آدھا اوڑھتا ہوں اور ایک پیالہ ہے جس میں کھاتا اور پیتا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا ،’’جاؤ وہی لے آؤ ۔‘‘
انصاری اُٹھے اور یہ دونوں چیزیں لے آئے ۔ حضورﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا:
’’ان چیزوں کوکون خریدے گا؟‘‘
ایک صحابیؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !میں یہ چیزیں خریدتا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے دو درہم میں وہ پیالہ اور بچھونا فروخت فرمادیا۔پھرآپ ﷺ نے ان انصاری سے فرمایا:
’’یہ دو درہم ہیں ۔ ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر گھر دے آؤ ۔ دوسرے درہم سے ایک رسّی خرید و ، جنگل میں جا کر لکڑیاں جمع کرو اور اس رسّی سے باندھ کر شہر میں بیچ آؤ ۔‘‘
وہ انصاری فوراً کھڑے ہو گئے اور جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی کیا۔
پندرہ دن کے بعد حضورﷺ اپنے صحابہؓ کے درمیا ن تشریف فرما تھے کہ وہ انصاری حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اب ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ آکر سلام عرض کیااور کہا:
’’یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے جو حکم دیا تھا ، اس پر میں نے عمل کیا۔ اب اللہ کے فضل سے میرے پاس دس درہم جمع ہو گئے ہیں ۔‘‘
حضورﷺ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا :
’’یہ اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت میں اس طرح اٹھتے کہ تمھارا چہرہ بھیک مانگنے والوں جیسا ہوتا۔‘‘
ہاتھ پھیلانا اچھا نہیں ہے
حضورﷺ کے ایک صحابی تھے۔ انھوں نے اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قرض لیا ۔ جب قرض ادا کرنے کا وقت آیا تو ان کے پا س اتنا مال نہ تھا کہ قرض ادا کر سکیں ۔ وہ رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بیان کر کے حضورﷺ سے مدد کی درخواست کی۔
حضورﷺ نے ان کی ضرورت پو ری کر دی ، پھر آپﷺ نے فرمایا:
’’سوال کر نا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف تین آدمیوں کے لیے ٹھیک ہے ۔ ایک وہ جس پر قرضہ زیا دہ ہو گیا ہو، وہ مانگ سکتا ہے ۔ لیکن جب اُس کی ضرورت پو ری ہو جائے تو پھر اُس کو مانگنا نہیں چاہیے ، دوسرا وہ آدمی جس پر اچانک کو ئی مصیبت آگئی ہواوراس کا مال تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ اس کو بھی اس وقت تک مانگنا جائز ہے جب تک اس کی حالت ٹھیک نہ ہوجائے ۔ مالی حالت ٹھیک ہو جانے کے بعد کسی سے مانگنا جائزنہیں ۔ تیسرا آدمی وہ ہے جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو ،وہ فاقے سے ہو اور محلے کے تین معتبر آدمی یہ گواہی دیں کہ یہ شخص فاقے سے ہے ۔ اس کے علاوہ جو کوئی مانگ کر کچھ حاصل کرتا ہے ،وہ حرام ہے ۔‘‘
حکیم بن حزامؓ ایک اور صحابی تھے جو مکّہ فتح ہونے کے بعد اسلام لائے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا ۔حضورﷺ نے انھیں دے دیا۔
چند روز بعد حکیم بن حزامؓ پھر حضورﷺ کے پاس آئے اور سوال کیا۔حضورﷺ نے اس مرتبہ بھی ان کو کچھ عطا کر دیا۔
پھر آپﷺ نے فرمایا،’’اے حکیم ! یہ دولت اچھی ہے ۔ جو اس کی پرواہ نہیں کرتا اس کو برکت ملتی ہے اور جو لالچ سے اس کو حاصل کرتا ہے وہ اس سے محروم رہتا ہے ۔ دولت کو لالچ سے حاصل کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کھاتا چلا جاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا ۔ یاد رکھو، اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے ۔(یعنی دینے والا ، مانگنے والے سے بہتر ہے ۔)‘‘
حکیمؓ پر حضورﷺ کی اس نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اس کے بعد جب تک زندہ رہے کبھی کسی سے معمولی چیز تک نہیں مانگی ۔
غریبوں کی مدد
ایک بار رسولﷺ اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ مہاجرین کی ایک جماعت حضورﷺ کے پاس آئی ۔ یہ سب مہاجر اتنے غریب تھے کہ نہ اُن کے بدن پر کپڑے تھے اور نہ اُن کے پاؤں میں جوتے ۔ صرف ایک چادر ان کے بدن پر تھی اور گلے میں ایک تلوار لٹکی ہوئی تھی ۔
حضورﷺ نے انھیں اس حال میں دیکھا تو آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ نماز کا وقت ہو رہاتھا۔ آپﷺ نے حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ اذان دو ۔صحابہؓ جمع ہو گئے ۔ آپﷺ نے نماز کے بعد صحابہؓ سے خطاب کیااور فرمایا کہ یہ تمھارے بھائی اس حال میں ہیں ان کی مدد کرو۔
حضورﷺ کی تقریر سُن کر فوراً ایک انصاری اٹھے اور ایک توڑا جس کا اتنا وزن تھا کہ مشکل سے اٹھ سکتا تھا۔ لا کر حضورﷺ کے سامنے ڈال دیا اور عرض کیا،’’یا رسول اللہ ﷺ ، یہ حاضر ہے ۔ اس سے ان مہاجروں کی مدد فرمائیے ۔‘‘
انصاری کا یہ ایثار دیکھ کر صحابہؓ میں اور جوش پیدا ہو گیااور وہ سب اُٹھ اُٹھ کر اپنے گھروں سے سامان لانے لگے ۔ ذرا سی دیر میں ان بے سرو سامان مہاجرین کے آگے غلّے اور کپڑوں کاڈھیر لگ گیا۔
قیدیوں سے برتاؤ
جنگ بدر میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی ۔ کافروں کے ستر آدمی مارے گئے ۔ ان میں اُن کے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے ۔ ابو جہل ، عُتبہ اور شیبہ جیسے اسلام کے دشمن مجاہدوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ کافروں کے ستّر آدمی قید کر لیے گئے ۔
جب رسول اللہ ﷺ مدینے واپس تشریف لائے تو آپﷺ نے تمام قیدیوں کو صحابہؓ میں تقسیم کر دیا اور انھیں ہدایت کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ صحابہؓ نے حضورﷺ کے اس حکم پر پوری طرح عمل کیا۔
جنگ بدر میں قید ہونے والوں میں ایک ابو عزیز بن عمیر بھی تھے جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی تھے اور ابھی ایمان نہیں لائے تھے ۔ جب انھیں گرفتار کر کے مدینے لایا گیا تو انصار کے ایک غریب خاندان کے سپرد کر دیا گیا ۔جب کھانے کا وقت آتا تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺکے حکم کی تعمیل میں انھیں تو روٹی کھانے کو دیتے مگر خود سوکھی کھجوروں پر گزارا کرتے ۔ ابو عزیز کو یہ دیکھ کر بہت شرم آتی اور وہ روٹی لینے سے انکار کر دیتے ۔ لیکن وہ صحابی اصرار کرتے اور زبردستی انھیں روٹی کھلاتے ۔ اس حُسن سلوک کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بعد میں ایمان لائے ۔
یہی حال باقی قیدیوں کا بھی تھا جو دوسرے مسلمانوں کے پاس تھے ۔ حضورﷺ کے صحابی ان کے ساتھ اتنااچھا سلوک کرتے کہ قیدی اپنے دلوں میں شرمندہ ہو جاتے ۔ حضورﷺ کے حکم کی تعمیل میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک قیدیوں کا نہیں مہمانوں کا سا تھا جن کی خاطر تواضع اور دیکھ بھال میں مسلمانوں نے کوئی کمی نہیں ہو نے دی ۔
پھر جب اللہ کے رسول ﷺ نے ان قیدیوں کو معاوضہ لے کر چھوڑ نے کافیصلہ کیا تو کچھ قیدی ایسے بھی تھے جو غریب تھے اور معاوضہ ادا نہیں کر سکتے تھے ۔ حضورﷺ نے ان کو یوں ہی چھوڑ دیا۔
ان قیدیوں کا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، یہ معاوضہ مقرر ہو اکہ مدینے کے دس دس بچوں کو پڑھائیں گے ۔
صداقت اور جنّت
اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص حضورﷺ کے پاس آیااور عرض کیا :
’’یا رسول اللہ !میرا جی چاہتا ہے کہ میں جنت میں جاؤں ۔مجھے بتائیے کہ میں کیا عمل کروں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’سچ بولو ۔ کیوں کہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو اس کے دل میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے ،جب اسے ایمان نصیب ہوتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوتا ہے ۔‘‘
بدگمانی نہ کرو
حاطب ابن ابی بلتعہؓ ایک صحابی تھے ۔ ان سے سخت غلطی ہو گئی ۔
حضرت عمرؓ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’حاطبؓ نے اللہ ، اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان کی گردن اُڑا دوں ۔‘‘
حضورﷺ نے حاطبؓ کو بلالیا اور پوچھا:’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
حاطبؓ نے جواب دیا :
’’اللہ کی قسم ، میرے ایمان میں کوئی خرابی نہیں ، میں نے جو کچھ کیا وہ صرف مکّے میں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کے خیال سے کیا۔ میں کافروں پر ایک احسان کرنا چاہتاتھا تا کہ اس کے بدلے میں میرے بیوی بچوں کی جان محفوظ ہو جائے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’حاطب سچ کہتے ہیں ۔ ان کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کرو ، بد گمانی نہ کرو۔‘‘
لیکن حضرت عمرؓ نے پھر کہا۔ ’’انھوں نے اللہ ،اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ اجازت دیجیے کہ ان کی گردن اُڑا دوں ۔‘‘
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کیا یہ بدر میں نہیں تھے؟ کوئی بات تو ہے جو اللہ نے اہل بدر کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ جو چاہو کرو،کیوں کہ جنت تمھاری قسمت میں لکھی جا چکی ہے ۔‘‘
یہ سُن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بول اٹھے :
’’بے شک ۔‘‘
ابو ذرؓ کو نصیحت
حضورﷺ کے ایک صحابی تھے ابو ذرؓ جو اسلام کے شروع دنوں ہی میں ایمان لے آئے تھے ۔ حضورﷺ ان کی سچائی کی بہت تعریف فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ کسی بات پر ناراض ہو کر انھوں نے اپنے ایک غلام کو بُرا بھلا کہا۔
اس غلام کو بہت رنج ہوا ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت ابو ذرؓ کی شکایت کی ۔
حضورﷺ نے ابو ذرؓ کو بُلا بھیجا ۔ جب وہ آئے توحضورﷺ نے غلام کے ساتھ اُن کے اس برتاؤ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ آپ ﷺ نے ابو ذرؓ سے فرمایا:
’’تم میں اب تک جہالت باقی ہے ۔ یہ غلام تمھارے بھائی ہیں ۔ اللہ نے تم کو ان سے بڑا درجہ دیا ہے ۔ اگر تم ان سے خوش نہیں ہو تو ان کو الگ کر دو ۔ اللہ کی مخلوق کو ستایا نہ کرو ۔ جوخود کھاؤ وہ ان کو کھلاؤ جو خود پہنو وہ ان کو پہناؤ ۔ ان کو اتنا کام نہ دو جو وہ نہ کر سکیں ، اور اگر اتنا کام د وتو خود بھی ان کے ساتھ لگ جاؤ ۔‘‘
اسی طرح ایک بار حضرت ابو مسعود انصاریؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی :
’’ابو مسعود ! تم کو جس قدر اس غلام پر اختیار ہے ،اس سے زیاہ اللہ کو تم پر اختیار ہے ۔‘‘
ابو مسعو دؓ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے ۔ ابو مسعود گھبرا گئے ، پھر جلدی سے بولے :
’’یا رسول اللہ ﷺ !میں نے اللہ کے لیے اس غلام کو آزاد کیا۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں چھو لیتی ۔‘‘
مسلمان دھوکا نہیں دیتا
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بازار سے گزر رہے تھے ۔ آپﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ غلّے کا ڈھیر زمین پر لگائے بیچ رہا ہے ۔ آپ ﷺ اس کے قریب تشریف لے گئے ۔ غلّے کو دیکھا پھر اس ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو اندر نمی محسوس ہوئی ۔
حضورﷺ نے غلّہ فروخت کرنے والے سے پوچھا:
’’یہ کیا ہے ؟‘‘
اس نے جواب دیا :
’’یارسول اللہ ﷺ !بارش سے بھیگ گیا ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’اگر بارش سے بھیگ گیا ہے تو اسے چھُپایا کیوں ہے ، اوپر کیوں نہیں رکھا کہ ہر شخص کو نظر آئے ؟‘‘
پھر آپﷺ نے فرمایا :
’’جو لوگ دھوکا دیتے ہیں وہ ہم سے نہیں ۔‘‘
یعنی مسلمان کسی کو دھوکا نہیں دیتا ۔ جو بات ہوتی ہے صاف صاف کہہ دیتا ہے ۔
قابو پا لو تو درگزر کرو
رسول اللہ ﷺ کے کچھ اونٹ ذی قروہ کی چرا گاہ میں چرتے تھے ۔ ان اونٹوں کو قبیلہ بنو غطفان کے آدمی ہنکا کر لے گئے ۔
ابھی صبح نہیں ہوئی تھی کہ حضورﷺ کے ایک صحابی سلمہ بن اکوعؓ اپنے گھر سے نکلے ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے غلام نے انھیں دیکھا تو کہنے لگے :
’’حضورﷺ کے اونٹ چوری ہو گئے ہیں ۔‘‘
سلمہ بن اکوعؓ نے حیران ہو کر پوچھا :
’’کس نے چُرائے ہیں ؟‘‘
غلام نے جواب دیا :
’’قبیلہ بنی غطفان کے لوگوں نے ۔‘‘
سلمہ بن اکوعؓ نے یہ سنتے ہی اس زور کا نعرہ لگایا کہ مدینے کہ اس سرے سے اُس سرے تک ان کی آوازگونج گئی ۔ پھر وہ اکیلے ان ڈاکوؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ بنی غطفان کے یہ لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر پھر رہے تھے کہ حضرت سلمہ بن اکوعؓ پہنچ گئے ۔ وہ بڑے اچھے تیر انداز تھے۔ انھوں نے کمان سنبھالی اور تاک تاک کر ڈاکوؤں پر تیر برسانے شروع کر دئیے ۔ وہ تیر برسائے جاتے تھے اور ایک شعر پڑھتے جاتے تھے جس کا مطلب تھا:
میں اکوع کا بیٹا ہوں
آج سخت جنگ کا دن ہے
انھوں نے قبیلہ غطفان کے لوگوں پر اس قدر تیربرسائے کہ وہ گھبرا گئے اور حضورﷺ کے اونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ گھبراہٹ میں وہ اپنی چادریں تک چھوڑ گئے ۔
اسی دوران حضورﷺ کو خبر ہو چکی تھی ۔ آپﷺ بھی لوگوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے ۔
سلمہؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا ہے ۔ اگر ا ن کا تعاقب کیا جائے تو یہ مل جائیں گے ، ان کو سزا دی جائے ۔‘‘
حضورﷺ تو رحمت عالم تھے ، آپﷺ نے فرمایا:
’’قابو پانے کے بعد درگزر کرو۔‘‘
جنگِ حنین
مکّہ فتح ہو جانے کے بعد ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں نے جو کفر پر قائم تھے سو چا کہ اب مسلمان اُن پر حملہ کریں گے ۔ یہ دونوں قبیلے بڑے طاقت ور اور بہت جنگ جو تھے ۔انھو ں نے آپس میں یہ طے کیا کہ اس سے پہلے کہ مسلمان ان پر حملہ کریں وہ مکّے پر حملہ کر دیں ۔ چناں چہ یہ لوگ بڑے جوش کے ساتھ مکّے پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے ۔
رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے فوراًمقابلے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں ۔ مسلمانوں کا لشکر جس کی تعداد بارہ ہزار تھی ۔ مکّے سے حنین کی طرف روانہ ہوا جہاں بنو ثقیف کی فوجیں جمع ہو رہی تھیں ۔مسلمانوں کے لشکر کو ایک تنگ درے سے گزرنا تھا۔ جب یہ لشکر درے کے اندر داخل ہو گیا تو چاروں طرف پہاڑیوں پر سے اس پر تیروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ بنو ثقیف ماہر تیر انداز تھے ، مسلمانوں کے لشکر کے آنے کی خبر سن کر انھوں نے پہاڑیوں پر مورچے بنا لیے تھے ۔ ان کے اس اچانک حملے سے مسلمان گھبرا گئے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔
مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تھوڑی نہ تھی ۔ وہ اس سے پہلے کہیں کم تعداد میں اپنے سے بڑے لشکروں کامقابلہ کر چکے تھے اور انھیں اس مرتبہ اپنی زیادہ تعداد پر اعتماد بھی تھا لیکن اس اچانک حملے نے ان کے پاؤں اکھاڑ دیے ۔
اس وقت کی کیفیت یہ تھی کہ ہر طرف سے تیروں کی بوچھاڑ تھی ، بارہ ہزار کا لشکر تتر بتر ہو چکا تھا ، رسول اللہ ﷺ تنہا رہ گئے تھے لیکن آ پ ﷺ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم تھے ۔ آپ ﷺ نے دائیں طرف دیکھا اور پکارا:
’’اے گروہ انصار !‘‘
آپﷺ کی آواز کے ساتھ ہی جواب آیا :
’’ہم حاضرہیں ۔‘‘
پھر بائیں طرف دیکھااو ریہی الفا ظ دہرائے ۔ پھر یہی جواب آیا:
’’ہم حاضر ہیں ، یا رسول اللہ ﷺ !‘‘
ٍ ’’حضورﷺ سواری سے اُتر پڑے اور فرمایا:
’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا برحق رسول ہوں ۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے حضرت عباسؓ کوحکم دیا کہ مہاجرین اور انصارکو آوازدیں ۔
انھوں نے آواز دی ۔ جب مسلمانوں نے یہ آواز سنی تو فوراً پلٹ پڑے اور پوری طاقت سے دشمن پر حملہ کر دیا ۔ ذرا سی دیر میں لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا۔ کافر بھاگ گئے ، جو رہ گئے ، و ہ مارے گئے یا قید کر لیے گئے ۔
آپ ﷺ اللہ کے رسول تھے اور آپ ﷺ کا اللہ ہی کی تائید اورمدد پر بھروسہ تھا ۔ اس نازک وقت میں آپﷺ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور مسلمانوں کو پکارا کہ حوصلہ نہ چھوڑیں اور پلٹ آئیں تو وہ ’’ہم حاضر ہیں ‘‘کہتے ہوئے پلٹ آئے ۔
حضرت اسماءؓ کو ہدایت
رسول اللہ ﷺ کے دوست اور ساتھی ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیٹی اسماءؓ ایک مرتبہ حضور ﷺکے پاس آئیں اور کہنے لگیں :
’’حضورﷺ ، میری ماں میرے پاس مدینے آئی ہیں اور مجھ سے کچھ رُپے مانگ رہی ہیں ۔ وہ مشرک ہیں ۔ کیا ایسی حالت میں میں اُن کی مدد کر سکتی ہوں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا ،’’ہاں ، اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
حضرت اسماءؓ کی شادی حضرت زُبیر بن عوّام سے ہوئی تھی ۔ غربت کی وجہ سے وہ ناپ تو ل کر خرچ کرتی تھیں ۔ حضورﷺ نے دیکھا تو منع کیا اور فرمایا،’’اگر تم ناپ تول کر اور گِن گِن کر خرچ کروگی تو اللہ بھی ناپ تول اور گن گن کر دے گا۔‘‘
اسی وقت سے انھوں نے یہ عادت چھوڑدی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آمد نی بڑھ گئی اور پھر کبھی ان کا ہاتھ تنگ نہیں ہوا۔
حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ ایک واقعہ
ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو گالیاں دینے لگا ۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی سے اُ س کی گالیاں سُنتے رہے اور حضورﷺ انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے ۔ آخر کار حضرت ابو بکرؓ کو بھی غصّہ آگیااور انھوں نے جواب میں اس شخص کو ایک سخت بات کہہ دی ۔
اُن کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورﷺ کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور آپﷺ فوراً اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے ۔ حضرت ابو بکرؓ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آئے او ر راستے میں عرض کیا، ’’یا رسول اللہ ! یہ کیا بات ہے ؟وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ ﷺ مسکراتے رہے ، لیکن جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ﷺ ناراض ہو گئے ۔‘‘
حضورﷺ نے جواب دیا:
’’جب تک تم خاموش تھے ، ایک فرشتہ تمھارے ساتھ رہا اور تمھاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا ، لیکن جب تم بول اُٹھے تو وہ فرشتہ چلا گیا اور اس کی جگہ شیطان آگیا۔میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔‘‘
تعصب
ایک صحابی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! میں اپنی قوم سے محبت کرتا ہوں اور اپنے لوگوں کی حمایت کرتا ہوں ۔ کیا یہ تعصب ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’نہیں ۔ یہ تعصب نہیں ۔ تعصب یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے ۔‘‘
ایک لڑکے کی خواہش
۱۰ ہجری کو تاریخ اسلام میں وفدوں کا سال کہتے ہیں ۔ اس سال عرب کے دور دراز علاقوں سے بہت سے قبیلوں کے وفد مدینے آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا ۔ اس سے پہلے بھی کئی وفدحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،انہی میں سے ایک وفد قبیلہ تُجیب کا تھا۔
ٍ یہ وفد تیرہ افراد کا تھا۔ یہ اپنے ہمراہ اپنے قبیلے کے مال کی زکوٰۃ لے کر آئے تھے جو انھوں نے حضورﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اسے واپس لے جاؤ اور اپنے قبیلے کے غریب لوگوں میں بانٹ دو ۔ انھوں نے عرض کیا کہ ہم وہی لائے ہیں جو غریبوں میں بانٹنے کے بعد بچ گیا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے وفد کے لوگوں کے ذوق و شوق کو دیکھ کر ان کی تعلیم و تربیت کاخا ص انتظام کیا۔ یہ لوگ اپنے گھر واپس جانے کے لیے بھی بہت بے چین تھے تا کہ دین کی جو تعلیم انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہ کر حاصل کی ہے اسے جلد سے جلد اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچا سکیں۔
جب وفد کے لوگ واپس جانے لگے تو حضورﷺ نے ان میں سے ہر آدمی کو ایک تحفہ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی آدمی باقی رہ گیا ہے جس کو تحفہ نہ ملا ہو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ایک نوجوان لڑکا ہے جسے ہم اپنے سامان کی حفاظت کے لیے چھوڑ آئے ہیں ۔
حضورﷺ نے فرمایا ،’’اسے بھی بلاؤ ۔‘‘
وہ لڑکا حاضر ہوا اور کہنے لگا ، ’’یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے میری قوم پر بہت عنایت فرمائی ہے ۔ انھیں تحفے عطا کیے ہیں ، مجھے بھی کچھ عطا فرمائیے ۔‘‘
حضورﷺ نے پوچھا، ’’ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ،’’یا رسو ل اللہ ﷺ میں جانتا ہوں میری قوم کے لوگ اسلام کی محبت میں یہاں آئے ہیں ، لیکن میری خواہش ان کی خواہش سے الگ ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے کہا، ‘‘تمھاری کیا خواہش ہے ؟‘‘
لڑکے نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !میں اپنے گھر سے اس لیے آیا تھا کہ آپﷺ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم کرے اور میرے دل کو غنی بنا دے ۔‘‘
حضورﷺ نے اس کے لیے یہی دعا فرمائی اور اسے تحفہ بھی عنایت کیا۔
اگلے سال جب رسول اللہ ﷺ حج کے لیے تشریف لے گئے تو قبیلہ تجیب کے لوگ منیٰ میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ۔ حضورﷺ نے اُن سے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حال ہے ۔
لوگوں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !اس جیسا قناعت کرنے والا ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔ اگر دنیا بھر کی دولت بھی اس کے سامنے تقسیم کی جا رہی ہو تو وہ آنکھ اُٹھاکر بھی نہ دیکھے ۔
حضورﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہم سب کاخاتمہ اسی طرح کرے۔‘‘
کعب بن مالکؓ کی آزمائش
۹ ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ کوخبر ملی کہ روم کا بادشاہ ہرقل ، موتہ کی جنگ میں رومی لشکر کی شکست کا بدلا لینے کے لیے مدینے پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے تو آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کر نے کافیصلہ کیااور مسلمانوں کوحکم دیا کہ وہ تیاری کریں ۔
یہ ایک کٹھن وقت تھا۔ مسلمان بڑی تنگی اور غربت کے عالم میں تھے ۔ بارشیں نہیں ہوئی تھیں ، اس لیے غلّہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ سفر لمبا اور شدید گرمی تھی ۔ اگلی فصل کا پھل پَک چکا تھا ۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے ۔
اس موقعے پر منافقوں نے بھی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔لیکن حضورﷺ کے حکم پر مسلمانوں نے سر جھکا دیا اور تیس ہزار کا لشکر تیار ہو گیا۔ اس لشکر کو لے کر حضورﷺ مدینے سے سرحد کی طرف روانہ ہو گئے ۔ تبوک پہنچ کر آ پﷺ نے دس روز تک انتظار کیالیکن دشمن پر ایسا رعب طاری ہو اکہ وہ مقابلے پر نہیں آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے لشکر کو واپسی کاحکم دیااور مسلمان بغیر لڑے کام یاب ہو کر مدینے واپس آگئے ۔
مدینے میں جو منافق یہ سمجھے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو رومیوں کے مقابلے میں شکست ہو گی ، انھیں بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنے لشکر کے ساتھ نہ جانے کے جھوٹے بہانے بنانے لگے ۔ حضورﷺ نے ان سب کو معاف کر دیا لیکن جو تین مخلص مسلمان محض اپنی سُستی اور کاہلی کی وجہ سے مدینے میں رہ گئے انھیں اپنی غلطی کا پورا احساس تھا۔ انھیں یہ خیال ستا رہا تھا کہ حضورﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے تو گرمی کی شدت اور سفر کی سختیاں برداشت کیں اور وہ آرام سے مدینے میں بیٹھے رہے ۔ اس لیے جب رسول ﷺ مدینے واپس آئے تو انھوں نے حضورﷺ کے پا س جا کر اپنی کوتاہی کاصاف صاف اقرار کر لیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ حضورﷺ سے جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ ان میں سے ایک حضرت کعب بن مالکؓ تھے ۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضو ر ﷺ نے پوچھا:
’’کعب !تم کیوں رہ گئے تھے؟ کیا تمھارے پاس کوئی سامان نہ تھا؟‘‘
کعبؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! میرے پاس تو سب کچھ تھا۔ میرے نفس نے مجھے غافل کر دیا۔ مجھ پر کاہلی سوار ہو گئی اور شیطان کے غلبے میں مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔‘‘
حضور نے فرمایا ،’’اچھا، تم اپنے گھر میں ٹھیرو اور اللہ کے حکم کا انتظار کرو ۔‘‘
یہی بات حضورﷺ نے دوسرے دو صحابیوں سے جو حضرت کعبؓ کی طرح پیچھے رہ گئے تھے ، کہی ۔ وہ دونوں بوڑھے تھے ، چُپ چاپ گھروں میں جا کر بیٹھ گئے ۔ کعبؓ جوان تھے ۔ ان پر اس واقعے کا بڑا اثر ہوا ۔ وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے جاتے ۔ نماز پڑھ کر ایک طرف بیٹھ جاتے ۔ حضور ﷺان کو دیکھتے اور ان کے دکھ کو محسوس کرتے مگر آپ ﷺ ان کی طرف توجہ نہیں فرماتے ۔ مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ نہ کوئی ان سے بات کرتا اور نہ سلام کا جواب دیتا ۔ یہ صورت حال کعبؓ کے لیے بڑے رنج اور صدمے کی تھی ۔ اسی دوران عیسائیوں کے بادشاہ غسّان نے ان کے پاس اپناایک آدمی بھیجااور انھیں یہ پیغام دیا کہ وہ ان کے پاس آجائیں ۔ وہ ان کو بڑی عزت کے ساتھ اپنے پاس رکھے گا ۔ حضرت کعبؓ کو جب یہ پیغام ملا تو وہ اور بھی رنجیدہ ہوگئے ۔ ان کے لیے اس سے بڑھ کر مصیبت اور کیا ہو سکتی تھی کہ ایک عیسائی بادشاہ ان کو دین سے پھر جانے کی دعوت دے رہا ہے ۔ انھوں نے بڑی حقارت سے عیسائی بادشاہ کے پیغام کو ٹھکرا دیا ۔
کعبؓ اور دوسرے دو صحابیوں سے کوئی بات نہ کرتا تھا ۔حتیٰ کہ ان کے دوست ، رشتے دار اور بیوی بچے تک ان سے الگ ہوگئے تھے ۔
اس طرح پچاس دن گزر گئے ۔ ایک رات کو وہ چھت پر لیٹے ہوئے اپنی حالت پر افسوس کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان کے گھر کے قریب پہاڑی پر سے آواز دی :
’’کعب کو مبارک ہو کہ اس کی توبہ قبول ہو گئی ۔‘‘
یہ آواز سنتے ہی کعب نے سجدے میں سر رکھ دیا کہ ان کی توبہ قبول ہوئی اور پھر دوڑے دوڑے رسول ﷺ کے پاس گئے ۔ آگے بڑھ کر حضورﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’کعب !آؤ ، مبارک ہو۔ اللہ رب العالمین نے تمھاری توبہ کو قبول فرما لیا ہے ۔ آج کے دن سے بڑھ کر تمھارے لیے اور کوئی دن نہیں ہے ۔‘‘
صحابہؓ نے بھی بڑھ کر حضرت کعبؓ کو مبارک باد دی اور خوشی کا اظہار کیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top