۱۳ ۔ اُحد کی گھاٹی میں
محمد حمید شاہد
۔۔۔۔۔۔۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَامَعَہُمُ
الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
ہم نے اپنے رسولوں کو بیّنات کے ساتھ بھیجا اور اُن کے ساتھ
کتاب اور میزان نازل کی۔ تاکہ لوگ انصاف قائم کریں۔ (القرآن)
تشویشناک خبر
’’اللہ کی قسم!میں نے ایک خواب دیکھا جس کا انجام بخیر ہےَ۔میں نے گائے اور بیل دیکھے۔اور یہ کہ میری تلوار میں ایک دندانہ پڑ گیا ہے۔یہ بھی دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ مضبوط زرہ میں ڈال لیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مدینے کی طرف اشارہ ہے۔گائے بیل سے مراد میرے کچھ اصحاب ہیں۔جو قتل ہونے والے ہیں۔اور اپنی تلوار میں دندانے سے اشارہ میرے خاندان کے کسی شخص کی طرف ہے جو قتل ہو جائے گا۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)جب اپنے ساتھیوں کو بلا کر اپنا یہ خواب سناتے ہیں تو سبھی تشویش زدہ ہو جاتے ہیں۔اس لیے کہ ہر ایک جانتا ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کی زبان سے جو بات نکلے اس کا ظہور ہو کر رہتا ہے۔اور ان کے خواب بھی تو صادق ہو تے ہیں۔مسلمانوں کی تشویش اور اندیشے ہیں بھی بجا،قریش مکہ ابھی تک بدر کی وادی کا واقعہ نہیں بھولے۔مکہ کا ایک ایک باسی انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔وہ مکہ کہ جہاں اگر ایک فرد کے قتل پر تلواریں میانوں سے تڑپ کر باہر نکلتیں تو چاند وزمین کی بیسوؤں گردشوں تک انسانی اجسام کو گاجر مولی کی طرح کاٹتی رہتیں۔یہ کیسے ممکن ہے؟کہ مکہ کے جگر پاروں کے کٹ جانے کے بعد نیاموں میں بند پڑی رہیں۔بات ایک دو کی ہوتی تو خون جوش مار کر ٹھنڈا پڑجاتا۔یہاں تو معاملہ ۷۰ستر افراد کا ہے۔اور پھر بدلہ بھی ان کا کہ جو قریش کی آنکھوں کے تارے رہے۔ماتم کیا جارہا ہے، نوحے پڑھے جا رہے ہیں۔ عورتوں نے تو اپنے مقتو لین کے ذمے داروں کا خون تک پینے کی قسمیں کھا لی ہیں۔ ہند۱،جبیر۲بن معطم کے غلام و۳حشی کو جو کہ حربہ اندازی میں کمال کی مہارت رکھتا ہے۔اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ’’حمزہؓ کو قتل کر دو۔
اس لیے کہ حمزہؓہی تو ہیں جنھوں نے ہند کے باپ عتبہ کو بدر میں قتل کیا تھا۔پھر ہند یہ بھی وعدہ کرتی ہے کہ۔
’’وحشی اگر تم نے یہ کام کر دکھایا تو تمھیں رہا کر وادوں گی۔‘‘
آتش جنگ کے بھڑکنے کے آثار بالکل واضح ہو چکے ہیں۔قریش پے در پے وار کھا کر یوں پیچ وتاب کھا رہے ہیں جیسے سانپ دم کٹنے کے بعد پیچ وتاب کھایا کرتا ہے۔
بدر کی وادی میں سر تاج سردار مارے گئے۔قریش کے جوان قید ہوئے۔اور پھر ۲لاکھ درہم فدیہ مسلمانوں کو دے کر اپنے قیدیوں کو چھڑا نا پڑا۔خون بھی بہا اور مال بھی لٹانا پڑ گیا۔
چوٹی کے سرداروں کے بدر میں مارے جانے کے بعد سرداری ابو سفیان کے ہاتھ میں آتی ہے۔تو اپنے آپ کو قوم کا وفا دار ثابت کرنے کے لیے عہد کرتا ہے کہ:
’’میں اس وقت تک سر میں نہ تو تیل ڈالوں گااور نہ غسل کروں گا جب تک بدر کے مقتولوں کا بدلہ نہیں لے لیتا۔‘‘
چنانچہ دو سو کفار کو ہمراہ لے کر نجدکی راہ پر نکلتا ہے اور مدینہ کے قریب ایک نخلستان کو آگ لگا دیتا ہے۔مگر جب مجاہدین اسلام پیچھا کرتے ہیں تو یہ اپنے ستوؤں کے تھیلے بھی پیچھے چھوڑ کر بھاگ آتا ہے اور یہاں کہتا پھرتا ہے کہ ’’قسم پوری ہو گئی۔‘‘
مگر قریش کے زخموں پر تو یہ مرہم بھی کا ریگر نہیں ہوتا۔پھر زخموں پر یوں نمک پاشی ہوتی ہے کہ عراق کی جانب بہت سی چاندی لے کر جانے والا قافلہ مسلمانوں کی نظروں میں آجاتا ہے۔ تو اپنا مال واسباب چھوڑ کر بڑی مشکل سے جان بچا کر مکہ پہنچتا ہے۔اور یہ پیغام بھی مسلمانوں کی جانب سے حسان بن ثابت کے اشعار کی صورت میں قریش وصول کرتے ہیں۔
إذَا سَلَکت لِلْغَورِ مِنْ بَطْنِ عَالِجٍ فَقُوْلاَ لَہَا لَیْسَ الطَّرِیْقُ ہُنَا لِکَ
’’بطن عالج کے نشیب کی جانب کوئی (قافلہ)چلے تو اس سے کہہ دینا کہ اِدھرراستہ نہیں ہے۔‘‘
مسا۴فع اور ابو ۵عزہ بھی بہت سر گرم عمل ہیں۔اور اپنے اشعار سے کفار مکہ کے دلوں میں مقتولوں کی یاد دِلا دِلا کر تڑپائے جا رہے ہیں۔کعب بن اشرف مدینہ سے چل کر مکہ اس لیے آیا ہے۔کہ قریش کے جذبات کو بھڑکا کر مجاہدین اسلام سے ایک مرتبہ پھر لڑا دے۔کبھی ایک خاندان کو اُبھارتا ہے تو کبھی دوسرے خاندان والو کے انتقام کے جذبات کو ہوَا دے رہا ہے۔اُس کے اشعار بہت کامیاب حربہ ثابت ہو رہے ہیں۔وہ اہلِ قریش سے کہتا پھرتا ہے۔
صَدَقُوْا قَلَیْت الْاَرْضَ سَاعَۃَ قُتِلُوْا ظَلَّت تَسُوْخُ بِأہِلہَا وَ تَصَدَّعُ
’’انھوں نے ٹھیک کہا لیکن کاش جس وقت وہ قتل کئے گئے زمین نے اپنے لوگوں کو دھنسا لیا ہوتا۔اور وہ پارہ پارہ ہو گئی ہوتی۔‘‘
اِدھر کشتگانِ بدر کے ماتم سے کچھ فرصت ملتی ہے تو ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی قیادت میں مقتولین کے ورثا کا ایک وفدا بوسفیان کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے:
’’محمدؐ نے ہماری قوم کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ انتقام لیا جائے۔لہٰذا مال تجارت کے ۶منافع کو اِسی کام پر صرف کیا جائے۔‘‘
جب مقتولین کے ورثا کی جانب سے یہ بات آتی ہے تو بھلا ابو سفیان کیسے انکار کر سکتا ہے۔اگر انکار کرے تو اس کی اپنی سرداری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔چنانچہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر جنگ کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔سردار اِن قریش میں عباسؓدر پر دہ مسلمان ہو چکے ہیں۔اِس ساری کارروائی کی رپورٹ وہ ایک تیز رفتار سوار کے ذریعے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو پہنچا دیتے ہیں۔
صف بندی
پانچ ہزار سپا۷ہ،جن میں تین ہزار شتر سوار،دوسواسپ سوار،سات سو ذرہ پوش پیادہ ہیں۔ مکہ سے نکلِ کھڑے ہوئے ہیں۔ایک ایک فوجی انتقام کی آگ میں جل بھُن رہا ہے۔غیض و غضب کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر منزلوں پر منزلیں مارتا عریضہ کی چراگاہ میں جا پہنچتا ہے۔چراگاہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد کئی روز راستے میں گزارتے ہوئے بدھ کے روز اُحد میں پڑاؤ جا ڈالتا ہے۔ لشکر قریش کو پُشت دکھانے سے باز رکھنے کے لیے فوج کے ہمراہ بڑے بڑے گھرانوں کی ممتاز عورتیں بھی آئیں ہیں۔اُم حکیم بنت حارث،فاطمہ بنت الولید بن المغیرہ،برزہ بنت مسعود بن عمر، ہندبنت عتبہ اور بے شمار عورتیں۔مگر ہند کا جوش انتقام تو سبھی سے زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ جب بھی وحشی اُس کی نظروں کے سامنے آتا ہے۔ہر مرتبہ اُسے یہی کہتی ہے کہ۔
اِشْفِ وَاسَتشفِ
’’میرا کلیجہ ٹھنڈا کر اور اپنا بھی‘‘
مطلب یہی ہے کہ حمزہؓکے ہاتھوںں عتبہ بدر کے معرکہ میں مارا گیا تھا۔اب ہند وحشی کے ذریعہ اپنے باپ کا انتقام لینا چاہتی ہےَ۔اُدھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو بھی لشکر کفار کی سرگرمیوں کا علم ہو چکا ہے۔صحابہ کرامؓکا ایک جم غفیر جمع ہے۔اور اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ
’’دشمنانِ دین کا مقابلہ شہر میں محصور ہو کر کیا جائے یا باہر میدان میں نکل کر۔‘‘
ایک رائے یہ آتی ہے کہ:
’’شہر میں رہ کر مقابلہ کیا جائے کہ یوں محفوظ طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے گا۔‘‘
رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بھی اِس موقع پر اسی رائے کی حمایت کر رہا ہے۔شاید اس لیے کہ اِس ظالم کا درپردہ رابطہ قریش مکہ سے قائم ہے اور اُسے اُمید ہے کہ شہر میں مجاہدین اسلام کے رہنے سے کوئی سازش کامیاب ہو جائے گی۔لیکن نو خیز صحابہ کہ جو شوقِ شہادت سے بے تاب ہیں۔یہ اصرار کرتے ہیں کہ :
’’دشمن کا مقابلہ شہر سے باہر نکل کر میدان میں کیا جائے۔‘‘
اِصرار بڑھتا ہے تو محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)خاموشی سے اٹھ کر گھر کی جانب چل دیتے ہیں اور جب واپس پلٹتے ہیں تو زرہ زیب تن کیے ہوتے ہیں۔اَب جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)زِرہ پہنے اور ہتھیار سجائے سامنے موجود ہیں تو اس کا مطلب بالکل عیاں ہے کہ:
’’نو خیز نو جوانوں کا اصرار بار گاہ رسالت میں تسلیم ہو چکا ہے۔‘‘
مگرا سی لمحے اِن نو جوانوں کے اذہان میں یہ خیال در آتا ہے:
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے جوش میں آکر رسولؐاللہ کی منشا کے خلاف رائے دی اور مجبور کیا؟‘‘
جونہی یہ خیال پیدا ہو تا ہے۔سبھی شرمندہ ہو جاتے ہیں۔اور دَست بستہ عرض کرنے لگتے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ ہم سے بھول ہوئی۔وہی کیجیے جو آپؐ مناسب سمجھیں۔‘‘
لیکن محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)جواباً ارشاد فرماتے ہیں:
’’نبی کے لیے یہ کسی طرح زیبا نہیں کہ وہ ایک مرتبہ زرہ پہن لینے کے بعد بغیر جنگ کیے اُتار دے۔‘‘
الغرض نماز جمعہ اور نماز عصر سے فارغ ہو کر ایک ہزار نفوس پر مشتمل یہ قافلہ بے سرو سامان مدینہ سے ایک شان سے نکلتا ہے۔آگے آگے دو سو رما سعدؓ بن ۸عبادہ اور سعدؓ بن معاذ اوس وخزرج کے علم اُٹھائے ہوئے ہیں۔دونوں زرہ پوش ساتھ ساتھ سالار فوج زبیرؓبن عوام ہیں جب کہ مصعبؓبن عمیر اس معرکے کے علمبر دار ہیں۔اسلامی فوج کے سالار اعظم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ساتھیوں کے درمیان بڑے وقار سے چل رہے ہیں۔ہتھیار سجے ہیں۔کندھے پے کمان۔پیٹھ پر ترکش۔ہاتھوں میں برچھا جس پر پیتل کی گپتی لگی ہوئی ہے۔ایک سے ایک بڑھ کر جلیل القدر صحابی قدم سے قدم ملائے جانب اُحدرواں ہیں۔دُور مغرب کی جانب سورج بھی سرنگوں ہونا شروع ہو گیا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے عصر کا وقت قریب الا ختتام ہے۔اس لیے شیخین کے مقام پر رکنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
زبیرؓ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے حکم پا کر اعلان کرتے ہیں کہ:
’’مجاہدین اپنی صفیں درست کر لیں رسولؐ اللہ اپنے جانثاروں کا معائنہ فرمائیں گے۔‘‘
آن کی آن میں صفیں درست ہوتی ہیں۔کندھوں سے کندھے ملتے ہیں۔سینے تن جاتے ہیں۔اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)ایک جانب سے اپنی سپاہ کا معائنہ شروع کر دیتے ہیں۔ صف میں بالے،نرالے جیالے جوان بھی موجود ہیں۔اور خمیدہ کمر کے بوڑھے بھی،حد تو یہ کہ کمسن بچے بھی نیاز عشق سے راہ خُدا شوق شہادت میں بڑھے چلے آئے ہیں۔اُسامہؓبن زید،عبداللہ۹ بن عمر،زید ۱۰بن ثابت،براؓبن عازب،عمروؓبن حزم،اسیدؓ بن ظہیر، سبھی کمسن ،سبھی چھوٹے اور میدان جنگ کے تقاضے بہت نازک، بہت بھاری، وہاں تلوار کا واربھی،دشمن کی گھات بھی خنجر بھی،نیزے بھی اس لیے حکم ہوتا ہے۔
’’انھیں واپس کر دیا جائے۔‘‘
زبیرؓحکم کی تعمیل کرتے ہیں۔سالاراعظم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)پھر آگے بڑھتے ہیں نو عمر سمر۱۱ہؓ جندب کی باری آتی ہے۔یہ بھی کمسن اور نو خیز ہیں۔اس لیے علیحدہ کر دیے جاتے ہیں۔سمرہؓ دل مسوس کر ایک جانب جا کھڑے ہوتے ہیں۔دل ہے کہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔گھر سے چلے تھے کہ جام شہادت نوش کرنے کا موقع ملے گا دل کی تمنا تھی کہ الٰہی ہمیں بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب کتنے ہی خوش نصیب ہیں یہ افراد جو اس معرکہ کے لیے چن لیے گئے ہیں۔ سمرہؓ اُن کی قسمتوں پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ کہ دفعتاًاُن کی نظر رافعؓ بن۱۲ خدیج پر پڑتی ہے۔ ٹھٹکتے ہیں۔حیران ہوتے ہیں۔خود ہی خود سے کہنے لگتے ہیں۔
’’یہ کیا؟رافعؓبھی میرا ہم سن ہے۔لیکن اُنھیں علیحدہ نہیں کیا جارہا۔‘‘
عُقدہ کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رافعؓ معائنہ کے وقت پاؤں کے انگوٹھوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے یُوں قد بڑا نظر آیا تو چُن لیے گئے۔کچھ اُمید بندھتی ہے۔ایک مرتبہ پھر اپنا مقدمہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔
’’یا رسولؐاللہ!میں رافعؓسے زیادہ طاقت ور ہوں کشتی کر اکے دیکھ لیجیے۔‘‘
سمرہؓکے دعوے کو پرکھا جاتا ہے۔کشتی ہوتی ہے۔سمرہؓرافعؓکو پچھاڑ کر مجاہدین کے ساتھ چلنے کا حق ثابت کر دیتے ہیں۔لشکر اسلامی کے ہمراہ عفت مآب خواتین بھی جذبہ جہاد سے سر شار ہو کر آئی ہیں۔عائشہؓ،اُم سلیم۱۳ سلیمؓ،اُم ۱۴عمارہؓ اور بعض دوسری خواتین اس نازک موقع پر اس مشکل لمحے پر انھیں گوارا نہیں کہ گھروں میں آرام سے بیٹھی رہیں۔رات خاصی بیت چکی ہے۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے ہیں حکم ہوتا ہے:
’’کوچ کیا جائے۔‘‘
تشنگان شہادت میدان جنگ کی جانب بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔’’مقام شوط‘‘آجاتا ہے۔ تو مجاہدین کا قافلہ ایک مرتبہ پھر رُک جاتا ہے۔سامنے کفار کی فوج صاف نظر آ رہی ہے۔نماز کا وقت ہو چلا ہے۔بلالؓاپنا رُخ کعبے کو موڑ کر بڑے سوز سے اذان بلند کرتے ہیں:
اللہ اکبر،اللہ اکبر
اذان ختم ہوتی ہے تو صفیں بندھ جاتی ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)آگے بڑھ کر امامت کرتے ہیں۔قیام ہوتا ہے رکوع ہوتا ہے۔اور سبھی مل کر خدا کے حضورؐ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔نماز ختم ہوتی ہے تو صفوں میں کچھ ہلچل مچتی نظر آتی ہے۔مجاہدین کیا دیکھتے ہیں کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ علیحدہ جا کھڑا ہوتا ہے۔پوچھتے ہیں تمھیں کیا ہوا؟ کہتا ہے:
’’رسولؐاللہ نے دوسروں کی بات مانی اور میری نہ مانی ،لوگو! میں نہیں سمجھتا اس جگہ اپنے آپ کو موت کا نوالہ کیوں بنایا جائے۔‘‘
بزدل،ڈرپوک،کتنے دعووں کے ساتھ چلا، کتنی ڈینگیں ہانکا کرتا تھا۔اب جو سامنے لشکر کفار کو دیکھتا ہے تو ساری ہیکڑی بھول جاتا ہے۔اندر کا نفاق سر اُبھارنے لگتا ہے۔اور یوں واپس مدینہ پلٹ جاتا ہے۔مگر مجاہدین کے حوصلے بھلا کیوں پست ہوں یہ تو تشنگان شہادت ہیں۔ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں،بڑھتے بڑھتے اُحد کی گھاٹی میں جا پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ سامنے پانچ ہزار سپاہ پر مشتمل لشکر کفار موجود ہے جو پچاس ہزار مثقال سونا آج کے دن کے لیے پھونک کر آیا ہے۔سپاہ کی بہتات سازویراق کی کثرت۔۔۔
سامنے مجاہدین صف آرا ہو رہے ہیں۔ آدمیوں کی قلت اسلحہ کی کمی،سامان کا کال خیمہ وخر گاہ بھی موجود نہیں مگر قدم سے قدم ملے ہیں۔ عزم جہاد سینوں سے لگا رکھا ہے۔صف بندی ہو چکی ہے۔بڑی حکمت سے یوں صف بندی کی گئی ہے۔ کہ پشت پر پہاڑی رہے۔تاکہ عقب سے دشمن حملہ نہ کر سکے۔لیکن ایک درہ بھی موجود ہے۔ اس درے سے دشمن کے حملے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
عبداللہؓ بن جبیر کی قیادت میں پچاس ۵۰ تیر اندازوں کا دستہ اس درے کی حفاظت پر متعین کر دیا جاتا ہے۔سالاراعظم محمدؐ(ﷺ)اس دستے کو حکم دیتے ہو ئے فرماتے ہیں۔
’’سواروں کو تیروں کے ذریعے روکنا،تا کہ دشمن عقب سے حملہ آور نہ ہو جنگ کا نقشہ موافق رہے یا مخالف بس تم اپنی جگہ جمے رہنا تمھاری سمت سے ہم پر یورش نہ ہونے پائے۔‘‘
اُدھر سردار ان قریش بھی اپنی فوج کی صف بندی کر رہے ہیں۔کہ بدر کا تلخ تجربہ بہت کچھ سکھا چکا ہے۔ کیل کا نٹے سے لیس، سر تا پا لو ہے کے لباس میں غرق،قریش صف آرا ہو جاتے ہیں۔میمنہ ۱۵پر خالد بن ولید ،میسرہ پر عکرمہ، سواروں کا نگران صفوان بن اُمیہ اور تیر اندازوں کا عبداللہ بن ربیعہ۔جبکہ طلحہ کو علم اٹھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
طبل جنگ
رات کی تاریکی اپنا سیاہ پر تو اٹھاتی ہے۔تو سورج بے حجاب ہو کر سامنے آجاتا ہے۔اور سورج سے بہت دور اُحد کی گھاٹی میں طبل جنگ بج اُٹھتا ہے۔قریش کے معزز گھرانوں کی خواتین دف پر گا گا کر سور ماؤں کو غیرت دلا رہی ہیں۔
’’ہم ہیں ستارہ زادیاں افلاک کی شہزادیاں
دکھلاؤ گے جرات اگر لاؤ گے انسانوں کے سر
دیں کی مبا رکباد یاں افلاک کی شہزاد۱۶یاں
ابو عامر قریش کی صفوں کو چیر کر سامنے آتا ہے۔اور انصار سے مخاطب ہو کر پکا رتا ہے۔
’’مجھ کو پہچانتے ہو؟میں ابو عامر ہوں۔‘‘
یہ ابو عامر وہی ہے۔جو کبھی مدینہ کا مقبول ترین شخص تھا۔پھر مکہ جا کر آباد ہو گیا۔ظہور اسلام سے قبل زہد اور پار سائی کی بنا پر تمام اہل مدینہ اس کی عزت کیا کرتے تھے۔اسی بنا پر اس کا خیال ہے کہ :
’’اہل مدینہ دیکھیں گے تو محمد ؐ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔‘‘
مگر انصار کی جانب سے جواب آتا ہے۔
’’ہاں اوبد کار!ہم تجھ کو پہچانتے ہیں۔خدا تیری آرزو بر نہ لائے۔‘‘
پھر لشکر قریش کا علمبر دار طلحہ صف سے نکل کر آگے بڑھتا ہے۔لشکر کفار لات وہبل کے جے کارے بھرتا ہے۔خواتین قریش کے رجز کچھ اور بر ہم ہو جاتے ہیں۔طلحہ تلوار سونت کر نعرہ بلند کرتا ہے:
’’میں جوڑ جوڑ توڑنے والا آدمی ہوں کون ہے جو میرے مقابلے میں آتا ہے۔اے محمدؐ کے ساتھیوں!تمھارا یہ زعم ہے۔کہ تمھارے مقتو لین جنت میں اور ہمارے مقتولین جہنم جائیں گے۔’’لات کی قسم‘‘تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
علیؓیہ سنتے ہیں تو میدان میں کود پڑتے ہیں۔تلوار بے نیام ہوتی ہے۔دونوں تلواریں بلند ہوتی ہیں۔اور آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ایک مرتبہ پھر تلواریں بلند ہو تی ہیں۔پہلے کی طرح پلٹتی ہیں۔ مگر اس مرتبہ تلوار کے ساتھ ساتھ طلحہ بھی زمین پر لوٹ پوٹ جاتا ہے۔اور خون شراٹے بھرتا بہہ نکلتا ہے۔ طلحہ کے بعد علمبر دار عثمان بن ابو طلحہ کا رزارمیں اترتا ہے تو یہ رجز پڑھنے لگتا ہے۔
اِنَّ عَلٰی اَہْل اللواء حقًا
اَن یخضوا الصعدۃ او تندقا
’’سن لو!علمبردار کا یہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ اپنے تیروں کو دشمن کے خون سے برابر رنگین کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ تیر ٹوٹ ٹوٹ جائیں۔‘‘
حمزہؓ مقابل آتے ہیں پھر وہی منظر دُہرایا جاتا ہے۔چمکتی تلواریں با ہم ٹکراتی ہیں۔آہستہ آہستہ جھنکار بڑھ کر چقا چق کا روپ دھارتی ہے۔حمزہؓپینتر ہ بدل کر وار کرتے ہیں۔تو دشمن کے شانے پر ایسا کاری وار لگتا ہے کہ تلوار کمر تک پہنچ جاتی ہے۔اِدھر دلدوز چیخ فضا کو چیر تی ہے اُدھر مجاہدین اسلام کے فلک شگاف نعرے گونج اُٹھتے ہیں۔کفار پھر کر آگے بڑھتے ہیں۔اور دونوں فوجیں ایک دوسرے میں دھنس جاتی ہیں۔جنگ کا ایسا ہنگامہ گرم ہوتا ہے کہ تلواروں کی آنچ اور نیزوں کے لپکتے سر سراتے شعلوں سے بدن جل اُٹھتے ہیں۔سر اُچھل رہے ہیں گھائل گھائل جسموں کو گھوڑے پا ؤں تلے روندے جارہے ہیں۔ایک جانب ’’ہبل ولات‘‘کے جے کارے اور دوسری جانب خدائے واحد کی عظمت کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔عجب منظر ہے۔یہ گھات وہ دار، یہ داؤ، وہ پینترا، یہ ضرب وہ کرب،مرنے اور زخمی ہونے والوں کی چیخیں، مارنے والوں کے آوازے، فوجیں یوں ٹکرائیں جیسے طوفان نوح کے ریلے باہم ٹکرا گئے ہوں۔محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ہاتھ میں تلوار اُٹھائے ہوئے ہیں۔ اپنے جانثاروں سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
’’کوئی ہے جو یہ تلوار مجھ سے لے لے اور اس کا حق ادا کر دے؟‘‘
وہ بھی آگے بڑھے،یہ بھی آگے بڑھے، کس جانثار کا جی نہیں چاہتا کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تلوار اسے ملے؟زبیرؓبھی بے تابانہ آگے بڑھتے ہیں۔دست سوال دراز ہے اور یقین بھی ہے کہ تلوار مل جائے گی:
’’اس لیے کہ وہ رسولؐاللہ کی پھوپھی صفیہؓکے بیٹے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ قریشی ہیں۔‘‘
مگر تلوار، تلوار تو ابو د۱۷جانہؓ کو مل جاتی ہے۔ابو دجانہؓتلوار ہاتھ میں لے کر سر پر سرخ پٹی باندھ لیتے ہیں اور اکڑ اکڑ کر دلا وروں کی طرح چلتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلوار کے حق دار جو ٹھہرے تو مقدر پہ نازاں ہیں پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو دجانہؓ کی چال کا یہ عالم دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں:
’’اللہ کو یہ چال پسند نہیں، مگر اس وقت یہ بہت خوب ہے۔‘‘
ابو دجانہؓ تلوار ہاتھ میں اُٹھائے آتش جنگ میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے کود پڑتے ہیں۔
انا الذی عاہدنی خلیلی
و نحن بالسفع لدَی التحیل
الا اقوام الدھر فی الکیُّول
اَضرب بسیف اللّٰہ والرَّسُول
’’میں وہی ہوں جس سے میرے حبیبؐ نے کھجور کے درختوں کے قریب پہاڑ کے دامن میں عہد لیا میں کھڑے ہو کر آخری صف تک برابرمقابلہ کرتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی تلوار برابر چلاتا رہوں گا۔‘‘
ابو دجانہؓجدھر بڑھتے ہیں صفوں کی صفیں اُلٹتے جاتے ہیں۔جو بھی راہ میں آتا ہے کٹ جاتا ہے۔دشمنوں کی صفوں میں کہرام مچ گیا ہے۔زبیرؓ یہ منظر دیکھتے ہیں تو معترف ہوتے ہیں اور دل میں پکار اُٹھتے ہیں:
’’واقعی ابو دجانہؓ تلوار کا حق ادا کر رہے ہیں۔‘‘
مشرکوں کا ایک شخص پینترے بدل بدل کر بہت سخت حملے کر رہا ہے۔جو بھی اس کی راہ میں آتا ہے گھائل ہو جاتا ہے۔ ادھر تلوار چمکی یہ فگار،ادھر وار کیا وہ فگار،لیکن اب تلوار ابو دجانہؓ سے جا ٹکرائی ہے۔پہلو بدل بدل کر وار کیے اور روکے جارہے ہیں۔تلواریں بلند ہوتی ہیں ابو دجانہ پھرتی سے وار کرنا چاہتے ہیں۔مگر مشرک بچ جاتا ہے۔لیکن کب تلک؟دوسری مرتبہ تلوار چمک کر اپنا کام کر دکھاتی ہے۔اور مشرک کے سینے سے خون کا فوارہ پھوٹ بہتا ہے۔اس طرف سے فارغ ہو کر ابو دجانہؓ رخ پلٹتے ہیں۔تو سامنے ہند آجاتی ہے۔تلوار اُٹھتی ہے مگر رُک جاتی ہے۔کہ ابو دجانہؓ کے در ذہن پر اس فیصلے نے دستک دے دی ہے۔
’’رسولؐاللہ کی تلوار سے ایک عورت کو ماروں؟اس سے تو بہتر ہے۔کہ پر وقار تلوار کو پاک رکھا جائے۔‘‘
علیؓ اور حمزہؓدونوں کا پلٹ کر جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا بھی دید نی ہے۔یوں تلواریں چمک رہی ہیں جیسے کوندنے لپکے ہوں۔جو بھی راہ میں آتا ہے کٹتا چلا جاتا ہے۔حمزہؓ نے دشمنوں کو اپنی دودستی تلوار کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔جدھر جاتے ہیں صفوں کی صفیں اُلٹ جاتی ہیں۔اب سبا ع بن عبدالعزیٰ اور حمزہؓ کی تلواریں اپنے اپنے جوہر دکھلا رہی ہیں،تلواریں تڑپتی ہیں،مچلتی ہیں اور آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔پھر حمزہؓ کی تلوار مخصوص انداز میں بلند ہوتی ہے۔تو دشمن خدا سباع بن الغریٰ زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔اِدھر وحشی حمزہؓ کو تا کے پھر رہا ہے۔کبھی اس چٹان کے پیچھے کبھی اس چٹان کی عقب میں بچ بچ کر چھپ چھپ کر اب موقع غنیمت ہے۔پھرتی سے حربہ نکلتا ہے۔اور حمزہؓ کی جانب پھینک دیتا ہے۔ظالم کا نشانہ ٹھیک بیٹھتا ہے۔حربہ جسم سے پار ہو گیا ہے۔حمزہؓ اس حال میں بھی لپک کر وحشی کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔مگر وار اپنا کام کر چکا ہے۔وہیں شہید ہو جاتے ہیں حنظلہؓکی تلوار بھی بڑے جوہر دکھلا رہی ہے۔تلوار چمک کر بلند ہوتی ہے اور پھر پلٹتی ہے تو کوئی یہاں گرتا ہے اور کوئی وہاں اب مقابلہ ابو سفیان سے ہے۔لپک کر حملہ آور ہو جاتے ہیں تلوار لپک کر ابو سفیان کا کا م تمام کرنا چاہتی ہے کہ وار کو پہلو سے شداد بن الا سود جھپٹ کر روک لیتا ہے۔پھر دوسرے ہی لمحے ظالم ایسے تاک کو وار کرتا ہے کہ حنظلہؓ شہید ہو جاتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے مسلسل حملوں سے دشمن کے پاؤں اُکھڑرہے ہیں۔قریش کی عورتیں مسلسل رجز پڑھے جا رہی ہیں۔لیکن یہ رجز بھی اُن کے سپاہ کے پاؤں میدان میں جمانے میں ناکام رہے ہیں۔کفار پیچھے ہٹتے ہیں تو مجاہدین اسلام آگے بڑھتے ہیں۔پھر رفتہ رفتہ میدان صاف ہو جاتا ہے۔فتح ونصرت کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔مال غنیمت کو مجاہدین اکٹھا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ منظر عبدؓاللہ بن جبیر کی قیادت میں موجود درے کے محافظ بھی دیکھ رہے ہیں۔سوچتے ہیں اب تو فتح ہو چکی دشمن خدا میدان سے بھاگ چکا ،کیوں نہ مال غنیمت اکٹھا کیا جائے۔کچھ درہ چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں تو ابن جبیرؓ روکتے ہیں۔
’’خدا کے رسولؐ کا حکم یہ ہے کہ درہ نہ چھوڑاجائے۔‘‘
مگر اس فتح کے عالم میں ابن جبیرؓ کی بات بھی نہیں مانی جاتی۔صرف دس جانباز درے پر رہ جاتے ہیں۔
اِدھر لشکر قریش کا خالد بن ولید بھی سارا منظر دیکھ رہا ہے۔جگہ جگہ اور چپے چپے کو تاڑ رہا ہے۔ اب جو نظریں درے پر پڑتی ہیں تو اس کا ذہن فوراً شکست کو فتح میں بدلنے کا منصوبہ تیار کر دیتا ہے۔
نقشہ بدل گیا
وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا ہے اور اپنے دستے کے ہمراہ ایک لمبا چکر کاٹ کر درے کے عقب میں پہنچ جاتا ہے۔ابن جبیرؓکی قیادت میں صرف دس مجاہد درے کی حفاظت کے لیے بچے ہیں۔ باقی سبھی مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں ۔اب جو ابن جبیرؓ پیچھے دیکھتے ہیں تو خالد بن ولید اپنے دستے کے ہمراہ گھوڑوں کو سر پٹ دوڑ اتا سر پر پہنچ چکا ہے۔خالد،ابن جبیرؓ کی جانب اپنے گھوڑے کا رُخ پھیر دیتا ہے۔تو دونوں حریف پنجہ فگن ایک دوسرے سے گتھ جاتے ہیں۔ درے کے سبھی محافظ بڑی ہمت وجرات سے لڑ رہے ہیں مگر کب تلک؟آخر ایک ایک کر کے سبھی شہید ہو جاتے ہیں۔ابن جبیرؓ بھی خالد کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون میں نہا جاتے ہیں۔خالد اپنے ساتھیوں کو لے کر اور آگے بڑھتا ہے۔اور مال غنیمت سمیٹنے والے مجاہدین کو بے خبری میں عقب سے جا لیتا ہے۔کِسے خبر تھی کسے گمان تھاکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟مگر یہ انہونی بات ہو گئی ہے۔ مجاہدین اب جو پلٹتے ہیں تو سروں پر چمکتی،تڑپتی،لپکتی تلواریں پاتے ہیں۔چہار جانب افرا تفری کا عالم مچ جاتا ہے۔جنگ کی بھٹی ایک مرتبہ پھر سُلگ اُٹھتی ہے۔مسلمانوں کی تلواریں اس افرا تفری کے عالم میں میانوں سے نکلتی ہیں۔تو کچھ پتہ نہیں چلتا کون اپنا ہے؟ کون غیر؟ ابو۱۸حذیفہؓ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں۔
’’یہ میرے والد ہیں۔یہ میرے والد ہیں۔‘‘
مگر اس محشر کے ہنگامے میں کون سنتا ہے۔اور ابو حذیفہؓ کے والد مجاہدین ہی کے ہاتھوں شہید ہو جاتے ہیں۔ابو حذیفہؓ کے دِل سے آہ نکلتی ہے۔اور کہتے ہیں۔
’’مسلمانو!خدا تمھیں بخش دے!‘‘
ابو۱۹بردہؓ،جبارؓبن۲۰ صخراور خبا۲۱بؓ بن منذر بھی اپنوں ہی کی تلواریں کی زد تلے ہیں۔ بالآخرخدا خدا کر کے مجاہدین سنبھلتے ہیں تو ڈٹ جاتے ہیں۔اُدھر عکرمہ بھی ایک مرتبہ پھر معرکہ گرم دیکھتا ہے تو پلٹ آتا ہے۔ میمنہ اور میسر ہ دونوں دستے باہم مل کر مجاہدین پر اپنے حملے شدید کر دیتے ہیں۔ ابن قیمہ پرچم اسلامی کو بڑی شان کے ساتھ میدان میں لہراتا دیکھتا ہے۔تو اس جانب لپکتا ہے۔ نزدیک پہنچتا ہے تو مصعبؓ بن عمر کو دیکھ کر سمجھتا ہے۔محمدؐ پرچم اسلامی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ مصعبؓکی شکل وشباہت محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔ابن قیمہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھتا ہے۔تلوار بلند ہو تی ہے۔اور مصعبؓکا وہ بازو کٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے۔ جس میں وہ پرچم اسلامی اُٹھائے ہوئے تھے۔ابن قیمہ کو اُمید ہے کہ اسلامی پرچم گر جائے گا۔ مگر مصعبؓجھٹ پرچم دوسرے ہاتھ میں اٹھا لیتے، ابن قیمہ ٹھٹھکتا ہے۔کتنا جواں عزم ہے یہ علمبر دار بھی۔ پانسا پلٹتا ہے۔گھوڑے کو ایڑ لگا کر نزدیک آتا ہے۔ایک مرتبہ پھر تلوار تڑپ کر بلند ہوتی ہے۔ تو مصعبؓ کا دوسرا ہاتھ کٹ کر جسم سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔اَب ابن قیمہ کو یقین ہے۔کہ علم زمین بوس ہو جائے گا۔مگر مصعبؓ نے دونوں کٹے ہوئے بازوؤں کو جوڑ کر پرچم کو سینے سے لگا لیا ہے۔ ابن قیمہ حیرت وبے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔اللہ اللہ یہ جرات، یہ مردانگی، یہ حوصلہ ،یہ دم خم، موت سر پہ منڈ لا رہی ہے۔مگر پرچم اسلامی ہر وار پر سر بلند ،ہر یورش پر اونچا، کٹے ہوئے دونوں بازوؤں سے خون شراٹے بھرتا بہہ رہا ہے مگر یہ گوارا نہیں کہ پرچم اسلامی سرنگوں ہو!
ابن قیمہ پھرتا ہے۔تلملاتا ہے۔پھر جھنجھلا کر تلوار پھینک دیتا ہے کہ اس کا ہر وار خود اسے بے بس کیے جا رہا ہے۔نیزہ نکا لتا ہے اور پوری قوت سے مصعبؓکے سینے میں گھونپ دیتا ہے۔ ظالم نے اس شدت سے نیزہ پھینکا ہے کہ جسم سے پار ہو کر دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔سینے سے بھی خون کا فوارہ ابل پڑتا ہے۔جسم لڑ کھڑاتا ہے۔اور پرچم اسلامی گراہی چاہتا ہے کہ اتنے میں علیؓآگے بڑھ کر پرچم اسلامی اٹھا لیتے ہیں۔ابن قیمہ بڑا خوش، بڑا نازاں ،بڑا شاداں وفرحاں لشکر قریش کو بتاتا پھر رہا ہے۔
قَتَلْتُ مُحَمَّدُ، قَتَلْتُ مُحَمَّدُ
’’میں نے محمدؐ کو قتل کر دیامیں نے محمدؐ کو قتل کر دیا‘‘
یہ سن کر اہل قریش یورش تیز کر دیتے ہیں۔مجاہدین اسلام بھی ڈٹ کر جواب دے رہے ہیں کہ دفعتاً ایک آواز مجاہدین کے کانوں سے ٹکرا کر تڑپا جاتی ہے۔
الااِنَّ مُحَمَّدٌ قَدْ قُتِلَ
’’سنو سنو محمدؐقتل کر دیے گئے۔‘‘
کیا کہا؟محمدؐشہید ہوگئے؟
مجاہدین سنتے ہیں تو حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔عمرؓ سنتے ہیں تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ تلوار پھینک کر الگ ہو جاتے ہیں۔کوئی پوچھتا ہے۔
’’یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
بولے :
’’جب رسولؐ اللہ نے شہادت پائی تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟‘‘
لیکن ابن نضرؓ اُٹھتے ہیں۔اِک نئے ولولے،اِک نئے جوش،اِک نئے جذبے کے ساتھ اور دشمن پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
’’اگر رسولؐ ؒ ؒ اللہ نے شہادت پائی تو ہم جی کر کیا کریں گے۔‘‘وار پر وار،ضرب پہ ضرب لگاتے،صفوں کو چیرتے ہوئے خود بھی شہید ہو جاتے ہیں۔
دفعتاً کعبؓ بن ۲۲مالک کی صدا مثردہ جانفزاسنا جاتی ہے۔
’’مسلمانو!کافر جھوٹے ہیں۔رسولؐاللہ تو زندہ سلامت ہیں دیکھو وہ ہے۔‘‘
یہ مثردہ جو بھی سنتا ہے دیوانہ وار محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جانب لپکتا ہے۔جانثار ارد گرد گھیرا بنا لیتے ہیں اب دشمن کی یورش بھی اس جانب ہے۔دشمن کو روکنے کے لیے بھر پور کوششیں کی جارہی ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اس لمحے مجاہدین اسلام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
من رجلٌ یشری لنا نفسہ
’’کون ہے جو میری جان کے لیے اپنی جان فروخت کرے؟‘‘
یہ فرمان سنتے ہی ابن السکنؓ اپنے پانچ ہمراہیوں کے ساتھ اپنی جان پیش کرتے ہیں۔ دشمن کی یورش جاری ہے یہ پانچوں مجاہد ایک ایک کر کے اپنی جان محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نچھاور کر رہے ہیں۔آخری مجاہد بھی زخموں سے چور زمین پر گر پڑتا ہے۔مجاہدین کی ایک اور جماعت آگے بڑھ کر دشمن کے آکے ڈٹ جاتی ہے۔دشمن پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے۔تو مجاہدین پیش قدمی کرتے ہیں۔پہلے گروہ کا آخری مجاہد آخری سانسیں لے رہا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) آگے بڑھتے ہوئے فرماتے ہیں:
اونوہ منی، اونوہ منی
’’اسے میرے قریب کر دو،اسے میرے قریب کر دو۔‘‘
حُکم آقاؐ کی تعمیل ہوتی ہے۔زخموں سے چور مجاہد کو قریب لایا جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بیٹھ جاتے ہیں۔زخمی مجاہد کا سر اپنے زانوئے مبارک پر رکھ دیتے ہیں کہ اِسی لمحے مجاہد کی روح قفس عنصری سے پر واز کر جاتی ہے۔
بچہ ناز رفتہ باشد زجہان نیاز مندے
کہ بہ وقت جان سپر دن،بسرش رسیدہ باشی۲۳
ظالم ابن قیمہ ایک مرتبہ پھر صفیں چیرتا۔لاشے الانگتا پھلا نگتا آگے بڑھتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔تلوار کی ضرب مغفر پر پڑتی ہے۔تو دو کڑیاں ٹوٹ کر چہرہ اقدس میں چبھ جاتی ہیں۔ انہی لمحات میں جب کفار کو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قریب پہنچنے کی راہ نہیں مل پاتی تو سنگباری شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نیچے کے دو دانتوں میں داہنادانت بھی شہید ہو جاتا ہے۔چہار جانب سے تیر برس رہے ہیں۔جانثار گھیر ا بنا لیتے ہیں۔ابو دجانہؓمحمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)پر جھک کر سپر بن جاتے ہیں۔اب جو بھی تیر آتے ہیں تو پیٹھ میں پیوست ہوتے جاتے ہیں۔تلواروں کے وار ہو رہے ہیں۔
ابو جانہؓآگے بڑھتے ہیں۔کوئی بات نہیں سوجھتی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں کہ تلوار محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے جسم اطہر کو نہ چھو سکے ابو دجانہؓکا اس کوشش میں ہاتھ کٹ کر دور جا گرتا ہے۔اِدھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں۔
رَبّ اغفرقومی فَانہم لایَعلمون
’’اے میرے رب میری قوم کو بخش دے یہ نہیں جانتے۔‘‘
ابو۲۴ طلحہؓ تیر پر تیر برسا رہے ہیں اب جو کفار کی جانب سے تیروں کی بارش ہوئی ہے۔تو کمان ایک جانب رکھ کر اپنے جسم کو تیروں کے سامنے کر دیتے ہیں۔اُدھر سے تیر آتا ہے۔ابو طلحہؓہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔تیر ہاتھ میں پیوست ہو جاتا ہے۔سعدؓبن وقاص قریب ہی موجود ہیں۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ترکش سے تیر نکال کر سعدؓکے حوالے کرتے ہوئے فرماتے جاتے ہیں:
’’میرے ماں باپ تم پر فدا،اے سعد! تیرچلا۲۵۔‘‘
اللہ اللہ کیا اعزاز نصیب ہوا ہے سعدؓ کو جو بھی سنتا ہے۔سعدؓ کی قسمت پر رشک کرتا ہے۔ جانثا ر بالآخر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو بحفاظت ایک پہاڑی پر پہنچا دیتے ہیں اور دشمن کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔لڑائی بغیر کسی فیصلے کے رک جاتی ہے۔
سیدالشہدؓاء کالا شہ
وہ لاشوں کو الٹتے پلٹتے حمزہؓ کے لاشے تک جا پہنچی ہے۔مارے خوشی کے دیوانی ہو رہی ہے۔ سینے پر جا چڑھتی ہے۔دیوانوں کی سی باتیں،دیوانوں کے سے قہقہے، پھر خنجر نکال کر آنکھیں کان اور ناک کاٹ لیتی ہے۔سینہ چاک کرنے کے بعد کلیجہ نکال کر چبا ڈالتی ہے۔یا الٰہی یہ کیا ہے؟ عورت ہے یا درندہ؟جو بھی دیکھتا ہے ہند کی اس دیوانگی پہ دنگ رہ جاتا ہے۔حتیٰ کہ پاس کھڑے وحشی سے بھی یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو سکتا۔ہند یہ کارروائی کر چکنے کے بعد ایک اونچی چٹان پر چڑھ جاتی ہے۔اور بلند آواز سے چیخ چیخ کر یہ اشعار پڑھنے لگتی ہے۔
نحن جزیناکم لیَوم بدرٍ
والحربَ بعد الحرب داتُ سعر
مَا کَانَ عن عتبۃ لی من صبر
ولا احیّ و عمہ و بَکری
شفیتُ نفسی و قضیت نذری
شفیتَ وحشیُّ غلیل صدری
فشکرُ وحشیٍّ علی عمری
حتّٰی تِرمَّ اعظُمی فی قبریٌ
’’ہم نے جنگ بدر کا بدلہ اتار دیا۔پہلی کے بعد دوسری جنگ زیادہ جو شیلی اور شعلہ بار ہوئی ہے عتبہ کے غم کی برداشت نہ مجھے تھی نہ میرے بھائی کو نہ برداشت عتبہ کے چچا کو تھی نہ میری پہلوٹی اولاد کو میں نے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیا اور اپنی نذر پوری کی۔وحشی تونے میرے سینے کی آگ بجھا دی۔پس میں ساری عمر وحشی کی شکر گزار رہوں گی یہاں تک کہ میری ہڈیاں قبر میں گل جائیں۔‘‘
اِدھر حمنہؓ بنت حجش زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے میں مصروف ہیں۔کوئی آکر خبر سناتا ہے۔
’’تمھارے بھائی عبدؓاللہ شہید ہوگئے۔‘‘
بھائی کی شہادت کی خبر آنکھوں میں آنسو لا دیتی ہے۔پھر کوئی اور آگے بڑھ کر بتاتا ہے۔
’’تمھارے ماموں حمزہؓ شہید ہو گئے۔‘‘
آہ ماموں بھی شہید بھائی بھی شہید اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آنسو اور اُمڈ آتے ہیں مگر فرض تو فرض ہے۔پھر مجاہدین کی خدمت میں مصروف ہو جاتی ہیں۔دل پر ایک اور گھاؤ لگتا ہے کوئی آکر خبر دیتا ہے۔
’’تمھارے شوہر مصعبؓ شہید ہو گئے۔‘‘
زخم پہ زخم،گھاؤ پہ گھاؤ،بھائی شہید،ماموں شہید،اور اب شوہر بھی آقائے حقیقی سے جا ملے صبر کا جام چھلک پڑتا ہے۔اور بے اختیار چیخ اُٹھتی ہیں۔محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تک حمنہؓ کے غم کی بات پہنچتی ہے تو فرماتے ہیں۔
’’عورت کے دل میں شوہر کے لیے خاص جگہ ہوتی ہے۔‘‘
اُدھر دشمن اپنا سامان سمیٹ کر واپس پلٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ابو سفیان پہاڑی پر چڑ ھ جاتا ہے۔کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق یقینی معلومات حاصل ہو سکیں۔پہاڑی پر چڑھ کر چیخ چیخ کر اپنے آپ سے کہتا ہے۔
انعمت فعال والحرب سعال یوم بیوم اعلِ ہُبل
’’تو نے بڑا اچھا کام کیا ،جنگ میں الٹ پلٹ ہو تی ہے۔ایک جنگ دوسری جنگ کا بدلہ ہے۔اے ہُبل!سر بلند ہو۔‘‘
اِدھر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)عمرؓ کو حکم دیتے ہیں کہ اس کا جواب دو،عمرؓکھڑے ہو جاتے ہیں اور پکار کر کہتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ بزرگ وبرتر ہے۔ہمارے تمھارے درمیان کوئی برابری نہیں۔ ہمارے مقتولین جنت میں جائیں گے اور تمھارے مردے جہنم سدھاریں گے۔‘‘
یہ سن کر ابو سفیان کہنے لگا:
’’ذرا اِدھر تو آنا۔‘‘
محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)اجازت مرحمت فرماتے ہیں تو عمرؓ تھوڑا سا قریب ہو جاتے ہیں عمرؓ کو دیکھ کر ابو سفیان پوچھتا ہے:
’’سچ سچ بتاؤ کیا محمدؐ کو ہم لوگوں نے قتل کر دیا ہے۔‘‘
عمرؓ:
’’نہیں بالکل نہیں وہ تو اس وقت تمھاری باتیں سن رہے ہیں۔‘‘
ابو سفیان:
’’میرے نزدیک تم ابن قیمہ سے زیادہ سچے اور دیانتدار ہو وہ کہتا ہے۔کہ میں نے محمدؐکو قتل کر دیا۔‘‘
ابو سفیان منہ لٹکا کر پہاڑی سے اُتر جاتا ہے۔اور پھر اپنے لشکر کو وہاں سے کوچ کر کے مکہ کی جانب چلنے کا حکم دیتا ہے۔
دم بھر کی خبر کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔مدینے کے کوچہ بازار میں خبر پہنچتی ہے تو کہرام مچ جاتا ہے۔فاطمہؓدوڑی دوڑی آتی ہیں۔صفیہؓبھی جانب اُحد رواں ہیں۔ہزار وسو سے ہزار اندیشے۔ بنی دینار کی ایک مومنہ بھی بے چین ہے۔عقیدت انتہائیوں کو چھو جاتی ہے۔کوئی خبر دیتا ہے۔
’’تمھارے بھائی شہید ہو گئے۔‘‘
اُف تک نہیں کرتیں،دوسری خبر آتی ہے۔
’’تمھارے والد اللہ کو پیارے ہوئے۔‘‘
خاموش رہتی ہیں۔کوئی اور آ کر بتاتا ہے۔
’’تمھارے شوہر بھی جنگ میں کام آئے۔‘‘
مگر پروانہیں ہر خبر پر بس ایک ہی سوال لبوں پر ہے۔
’’یہ تو بتاؤ محمدؐ کیسے ہیں،محمدؐکیسے ہیں۔‘‘
بتایا جاتا ہے:
’’وہ تو بخیر ہیں۔‘‘
قریب جاتی ہیں اور ایک جھلک دیکھ کر پکار اُٹھتی ہیں:
کُلّ مصیبۃ بعدک جلل
’’آپؐ کے ہوتے ہوئے سب مصیبتیں ہیچ ہیں۔‘‘
فاطمہؓ بھی پہنچ چکی ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا چہرہ اقدس خون آلو د ہےَ۔علیؓ ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے ہیں اور فاطمہؓخون دھوتی جاتی ہیں۔مگر خون ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ فاطمہؓ پانی ڈالتی ہیں تو پانی کے ساتھ خون بھی بہتا چلا آتا ہے۔فاطمہؓایک چٹائی جلاتی ہیں۔ جب راکھ بن چکتی ہے۔تو زخموں پر لگا دیتی ہیں۔اور تب جا کر کہیں خون رُکتا ہے۔
مجاہدین کے لاشے ترتیب سے رکھے جا چکے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) شہدا کو دیکھنے چلے ہیں۔اب حمزہؓ کی لاش نظروں کے سامنے ہے۔آہ ظالموں نے لاشے کے ساتھ کیا حشر کیا۔ جگر شق ہے۔ناک،کان،اور آنکھیں کٹی ہوئی ہیں۔یہ دیکھ کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)رندھی ہوئی آواز میں فرمانے لگتے ہیں۔
’’آپ کی وجہ سے جو مجھے صدمہ پہنچا ہے ایسا پھر کبھی نہ پہنچے گا میں کبھی ایسی جگہ نہیں ٹھہرا جو اس سے زیادہ مجھے غصہ دلانے والی ہو۔‘‘
اسی لمحے رب کائنات کا پیغام لے کر جبرائیل حاضر ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں۔
’’ساتوں آسمانوں میں حمزہؓ کے متعلق لکھا گیا ہے کہ
حمزہ ابن المطلب اسد اللّٰہ و اسد و رسولہ
حمزہؓ عبدالمطلب کے فرزند اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر۔‘‘
مصعبؓ کی لاش پر پہنچتے ہیں تو قرآن پاک کی یہ آیات تلاوت فرماتے ہیں۔
’’مومنین میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔‘‘
پھر لاش سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میں نے تم کو مکے میں دیکھا تھا۔جہاں تم جیسا خوبصورت جواں اور تم جیسا خوش پوش آدمی کوئی نہ تھا لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمھارے بال اُلجھے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔اور وہ بھی چھوٹی سی۔‘‘
پھر دیگر شہدا کی لاشوں پر نظریں ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’بے شک خدا کا رسول گواہی دیتا ہے۔کہ تم لوگ قیامت کے دن بار گاہ خدا وندی میں حاضر رہو گے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ قیامت تک جو بھی تم پر سلام بھیجے گا یہ بھی اس کا جواب دیں گے۲۶۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
۱۔ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی، ابو سفیان کی بیوی،امیر معاویہؓ کی والدہ تھیں۔فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مسلمان ہوئیں۔خلافت عمرؓمیں وفات پائی۔
۲۔ کنیت ابو محمدؐاور والد کا نام عدی بن معطم تھا۔صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی عرصہ میں اسلام قبول کیا۔معرکہ حنین میں شرکت کی ۵۷ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔
۳۔یہ حرب کے بیٹے تھے۔غزوہ طائف کے بعد مسلمان ہوئے۔اور جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی جانب سے شریک ہوئے۔انھوں نے ہی نبوت کے جھوٹے مدّعی مسیلمہ کذاب کوواصل جہنم کیا تھا۔
۴۔ مسافع بن عبد مناف بن وہب بن خذافہ بن جمح۔
۵۔ ابو عزہ عمرو بن عبداللہ جمحی ایک ایسا شخص تھا کہ جس پر حضورؐ نے جنگ بدر کے بعد احسان فرمایا تھا۔اِس نے حضوؐر سے اپیل کی تھی کہ میں کثیر العیال اور حاجتمند آدمی ہوں اس لیے مجھے آزاد کر دیا جائے۔حضوؐر نے بلا معاوضہ رہا کرایا تھا۔اس موقع پر ابو عزہ نے اقرار کیا تھا کہ وہ آپؐ کے مقابلے میں کسی کی مدد نہ کرے گا۔لیکن اس نے صفوان بن اُمیہ کے لالچ میں آکر عہد کا پاس نہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف شعروں کے ذریعہ کفار کے جذبات کو ابھارنے لگا۔جنگ اُحد کے موقع پر مدینہ واپسی سے قبل ابو عزہ مجاہدین کے ہاتھ آگیا۔اس مرتبہ بھی اس نے معافی مانگی مگر حضوؐر نے فرمایا ’’خدا کی قسم تو اب مکہ جا کر فخر نہیں کر سکے گا کہ میں نے محمدؐ کو دو مرتبہ دھوکا دیا۔ پھر حضوؐر نے زبیرؓکو ابو عزہ کی گردن اُڑا دینے کا حکم دیا جس کی فوراً تعمیل کی گئی۔
۶۔ جنگِ بدر کے ایام میں جو قافلہ شام سے آیا اُس کا منافع ابھی تک بطور امانت پڑا تھا۔
۷۔ رحمتہ العالمینؐ میں سید سلیمان سلمان منصور پوری نے ناسخ التواریخ کے حوالے سے یہی تعداد لکھی ہے جبکہ ابن ہشام شبلی نعانی،سید مودودی اور دوسرے سیرت نگاروں نے مختلف حوالوں سے لشکر قریش کی تعداد ۳۰۰۰لکھی ہے۔
۸۔ اِن کی کنیت ابو ثالث انصاری تھی۔انصار کے سرداروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔شان وشوکت میں بڑھ چڑھ کر تھے۔۱۵ھ میں حضرت عمرؓکی خلافت میں شام کے مقام’’حواران‘‘میں وفات پائی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ۱۱ھ جبکہ حضرت ابو بکرؓکا زمانہ خلافت تھا وفات پائی۔
۹۔ یہ عمرؓبن خطاب کے بیٹے تھے۔اپنے والد کے ساتھ مکہ میں بچپن میں ہی اسلام لائے۔غزوہ خندق میں شریک ہوئے۔جنگ بدر میں کمسنی کی وجہ سے بھرتی نہیں کیے گئے۔خندق کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے۔ حضرت عبداللہؓبن عمر نے اپنی زندگی میں ایک ہزار سے بھی زائد غلاموں کو آزاد کیا تھا۔۷۳ہجری میں وفات پائی اور ذی طوی میں تدفین ہوئی۔وفات کے وقت ان کی عمر ۸۴یا۸۶ سال تھی۔
۱۰۔ زیدؓبن ثابت انصاری حضورؐ کے کاتب بھی تھے۔جس وقت حضورؐمدینہ تشریف لائے اُس وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔ان کا شمار جلیل القدر فقہا صحابہ میں ہوتا ہے۔انھوں نے ہی حضرت ابو بکرصدیقؓ کے دور خلافت میں قرآن پاک کی کتاب کی تھی۔اور قرآن پاک کو مصحف سے حضرت عثمانؓ کے دور میں نقل کیا تھا۔ مدینہ طیبہ میں ۴۵ھ میں وفات پائی وفات کے وقت ان کی عمر ۵۶برس تھی۔
۱۱۔ سمرہؓ بن جندب حافظ تھے ان کا بصرہ میں ۵۹ھ میں انتقال ہوا۔
۱۲۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔حارثی انصاری ہے۔جنگ اُحد میں ان کو تیر آکر لگا جس پر حضورؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تمھارے اس تیر کا میں گواہ ہوں۔اُن کا یہ زخم عبدالملک بن مردان کے زمانے تک چلا اور ۸۶ھ میں مدینہ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر ۸۶سال تھی۔
۱۳۔ اُم سلیمؓ ملحان کی بیٹی تھیں۔انہی کے بطن سے انسؓپیدا ہوئے۔ان کے خاوند مالک بن نضربحالت کفر قتل ہوئے۔لیکن اُم سلیمؓبعد میں اسلام لے آئیں۔اور ابو طلحہؓجب مسلمان ہوئے تو ان سے شادی کر لی۔
۱۴۔ ان کا اصل نام نسیبہ ہے۔اور کعب انصاری کی صاحبزادی ہیں۔بیعت عقبہ میں حاضر اور شریک ہوئیں۔ غزوہ اُحد میں اپنے شوہر زید بن عاصم کی ہمراہی میں شریک ہوئیں۔پھر بیعت رضوان پر بھی موجود تھیں جنگ یمامہ میں بھی حاضر رہیں اور دست بدست جنگ میں ان کا ایک ہاتھ ضائع ہو گیا۔ان کے جسم پر تلوار اور نیزے کے بارہ زخم آئے۔
۱۵۔ ابو سلمان کنیت اور سیف اللہ لقب تھا۔ولید ابن مغیرہ کے بیٹے تھے۔فتح مکہ سے قبل ۶ھ اور ۸ ہجری کے درمیانی عرصہ میں کسی وقت مکہ جا کر اسلام قبول کیا۔قبول اسلام کے بعد مستقل طور پر مدینہ ہی میں مقیم ہوگئے۔یہ اپنے خاندانی عہدہ پر ممتاز تھے۔قبول اسلام کے بعد بھی حضورؐنے ان کا اعزاز برقرار رکھا۔اس سے اسلامی فتوحات میں بڑی مدد ملی۔پہلے جس طرح اسلام کے سخت دشمن تھے اسی طرح اسلام لانے کے بعد مشرکوں کے لیے سخت خطرہ بن گئے۔اسلام لانے کے بعد سب سے پہلے غزوہ موتہ میں شریک ہوئے اور حضرت زیدؓ ،جعفرؓاور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد اسلامی لشکر کا علم سنبھالا۔فتح مکہ میں میمنہ پر متعین تھے۔ غزوہ حنین،تبوک،سریہ بنو حزیمہ سر یہ نجران،سر یہ یمن، سری عزی میں بھی آپ نے قابل رشک کا ر ہائے نمایاں دکھلائے،عہد صدیقیؓمیں جھوٹے مدعیان نبوت کافتنہ اُٹھا تو خالدؓ طلیحہ کی سر کو بی پر مامور تھے۔اور کامیاب لوٹے۔پھر یہاں سے یمامہ میں ثرجیل بن حسنہ کی سر کو بی پر نکلے۔اور یہاں بھی کامیابی نے قدم چومے۔ پھر منکرین زکوٰۃ اور مرتدین سے مقابلہ ہوا۔ اس کے بعد بے شمار فتوحات خالدؓکے ہاتھوں ہوئیں۔حتیٰ کہ عام مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ اسلامی فتوحات کا دارومدار خالدؓکے قوت بازو پر ہے۔ یہ بات خرابی کا باعث بن سکتی تھی۔چنانچہ حضرت عمرؓنے ۱۷ ہجری میں ان کو معزول کر دیا۔معزولی کے بعد خالدؓ کوحضرتعمرؓنے ’’رہا‘‘،’’حران‘‘،’’آمد‘‘اور ’’لرتہ‘‘کا گورنر مقرر کر دیا۔ایک سال بعد یہ خود ہی مستعفی ہوگئے اور مدینہ میں مقیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۲۲ھ میں وفات پائی۔
۱۶۔ یہ اشعار حفیظ جالندھری کے شا ہنامہ اسلام سے لیے گئے ہیں جبکہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ آگے آگے ہند گاتی اور پیچھے پیچھے چودہ عورتیں یہ اشعار گا رہی تھیں۔
نخن بنات طارق نشی علی النمارق
ان تقبلوانعائق!! اوتد برو انفارق
(ہم آسمان کی بیٹیاں ہیں۔ہم قالین پر چلنے والیاں ہیں۔اگر تم بڑھ کر لڑو گے تو ہم تمہیں گلے لگا لیں گی۔اور پیچھے قدم اُٹھاؤگے تو ہم تم سے الگ ہو جائیں گی)۔
۱۷۔ حضرت ابو دجانہؓکا شمار صاحب فضل اصحاب رسولؐمیں سے تھا۔بڑے نڈر اور بلا کے دلیر تھے۔عہد نبیؐکی تمام غزوات میں شرکت کی۔جنگ یمامہ میں بھی انھوں نے بے نظیر شجاعت کا ثبوت دیا۔مسیلمہ ایک باغ میں قلعہ بند ہو کر اپنی فوجوں کو لڑا رہا تھا۔جب دشمن پر در ہو نے کی کوئی صورت نہ رہی تو ابو دجانہؓ نے کہا مجھے اُٹھا کر باغ کی دیوار کے اندر پھینک دو۔ ایسا ہی کیا گیا تو ان کا ایک پاؤں ٹوٹ گیا۔مگر آخر دم تک لڑتے رہے۔حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔اللہ نے مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح دی۔ان کی کنیت ابو دجانہؓ تھی جب کہ نام مسماک تھا۔حضرت سعدؓ بن عبادہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ابو دجانہؓ ہجرت سے قبل ایمان لائے۔
۱۸۔ ابو حذیفہؓکے والد کا نام ’’یمان‘‘تھا۔
۱۹۔ یہ قیس بن سلیم کے بیٹے اور ابو موسیٰ الا شعری کے بھائی تھے۔اسلام لائے اور اپنی قوم کی بلا دسے ہجرت کی۔
۲۰۔ یہ انصاری ہیں اور سلمی کے بیٹے بیعت عقبہ،غزوہ بدر،اور بعد کی تمام غزوات میں شریک رہے۔
۲۱۔ ان کی ابو عمر واور ابو عمر کنیتیں تھیں۔بدر اور بعد کے تمام معرکوں میں حضورؐ کے ہمر کاب رہے۔جنگ خیبر میں یہودیوں کے دس قلعوں میں سے ’’قلعہ صعب‘‘تین یوم کے محاصرہ کے بعد انہی کی سرداری میں فتح ہوا تھا’’قلعہ ابی‘‘کی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔حضرت عمرؓکے دور خلافت میں مدینہ میں انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔
۲۲۔ کعبؓبن مالک انصاری اور خزرجی تھے۔بیعت عقبہ ثانیہ میں حاضر ہوئے تمام غزوات میں شرکت کی حضورؐ کے شعرا میں سے تھے۔یہ اُن تین صحابہ میں سے ہیں جو غزوہ تبوک میں شرکت سے رہ گئے تھے۔۵۰ہجری میں ۷۷سال کی عمر میں نابینا ہو نے کے بعد رحلت فرمائی۔
۲۳۔ وہ نیاز مند کس ناز کے ساتھ جہاں سے گیا ہو گا۔کہ جان سپرد کرتے وقت جس کے سرہانے تو پہنچ گیا ہو گا۔
۲۴۔ یہ حضرت مصعبؓبن عمر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے تھے۔انصاری تھے غزوہ اُحد اور غزوہ حنین میں ان کی بہادری کے جو ہر بہت نمایاں ہیں عہد نبویؐکے بعد مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے۔حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری زمانہ میں مدینہ پلٹ آئے حضورؐ کی رحلت کے بعد ۴۰ سال تک زندہ رہے۔اور ایک بحری لڑائی میں جاتے ہوئے۷۰ برس کی عمر میں شہادت پائی۔
۲۵۔ بخاری شریف بروایت حضرت علیؓ، باب فضیلتِ سعدؓ۔
۲۶۔ اگلے روز اتوار (۱۶شول)کو حضورؐ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ سے نکل کر لشکرقریش کو ہراساں کرنے کے لیے’’حمرا الرسد‘‘ تک پیچھا کیا ابن اسحاق کی روایت ابن ہشام نے نقل کی ہے کہ یہ مقام مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔حضورؐ نے تین روز تک یہاں قیام کیا۔قبیلہ خزاعی کے معبد خزاعی نے جسے مسلمانوں سے ہمدردی تھی حضورؐ کو مل کر ابو سفیان سے آگے جا کر ’’روحا‘‘کے مقام پر ملا۔ابو سفیان دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔معبد خزاعی نے کہا کہ حضورؐ ایک بہت بڑا لشکر لے کر تم پر حملہ کے لیے پیچھے آرہے ہیں۔یہ سنا تو قریش واپس مکہ پلٹ گئے۔
اس کے بعد غزوہ خندق تک جو واقعات پیش آئے وہ یہ ہیں:
(۱) ۱۵ رمضان المبارک ۳ہجری کو حضرت امام حسینؓکی ولادت ہوئی۔
(۲)حضرت حفصہؓسے حضورؐ نے اسی سال شادی کی۔ حضرت حفصہؓحضرت عمرؓ کی شہزادی تھی۔غزوہ بدر کے بعد بیوہ ہو گئیں تھیں۔
(۳)اسی سال حضرت عثمانؓنے حضورؐ کی صاحبزادی ام کلثوم سے شادی کی۔
(۴)یکم محرم ۴ہجری میں طلحہ اور خویلد نے اپنے قبیلہ کو جو’’فید‘‘کے کوہسانی علاقہ ’’قطن‘‘میں رہتا تھا۔مدینہ پر حملہ کے لیے آمادہ کیا۔حضورؐ نے ابو سلمہؓکو ایک سو پچاس مجاہدین کے ساتھ روانہ کیا۔یہ خبر سنتے ہی وہ منتشر ہو گئے۔
(۵) محرم ہی کے مہینہ میں سفیان بن خالد جو قبیلہ لحیان کا تھا اور جو کوہستان عرفہ کا رئیس تھا، نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا حضورؐنے عبداللہ بنؓانیس کو بھیجا۔سفیان بن خالد اسی موقع پر قتل ہوا۔
(۶)صفر ۴ہجری میں ابو برا کلابی جو کلاب قبیلہ کا رئیس تھا۔حضورؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر درخوست کی کہ میرے ساتھ قوم کو دعوت دینے کے لیے وفد بھیجیں ۷۰افراد پر مشتمل قافلہ بھیجا گیا۔جسے ان لوگوں نے بیر معونہ پہنچ کر تہہ تیغ کر دیا۔۶۹افراد شہید ہوئے صرف ایک فرد بچ سکا۔
(۷)انہی دنوں قبیلہ غضل اور قبیلہ عارہ کے ۱۷افراد پر مشتمل ایک وفد آیا اور اس نے بھی یہی درخواست پیش کی حضورؐ نے ۶افراد پر مشتمل مبلغین کا قافلہ بھیجا مگر مقام رجیع پر تین مبلغین شہید کر دیے گئے پھر ظہران کے مقام پر ایک مبلغ شہید ہوا۔اور باقی دو کو مکہ جا کر فروخت کر دیا گیا کفار مکہ نے انھیں کچھ روز بھوکا قید رکھنے کے بعد نہایت بے دردی سے شہید کر دیا۔(۸)۴ہجری میں ہی حضورؐ بنو نضیر کے پاس بیٹھے کسی گفتگو میں مشغول تھے۔کہ بنو نضیر والوں نے حضورؐ کو قتل کرنے کے ارادہ سے چھت سے پتھر لڑ ھکانا چاہا مگر حضورؐ ان کی مشتبہ حرکات سے ان کے ارادوں کا اندازہ لگا چکے تھے چنانچہ وہاں سے اُٹھ آئے۔پھر حضورؐ نے صحابہؓسے مشورہ کیا۔بنو نضیر کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔یہ محاصرہ چھ راتوں تک جاری رہا۔بنو نضیر کی جانب سے جلد وطن ہونے کی درخواست کی گئی جو حضورؐ نے قبول فرمائی۔اور یہ لوگ اپنے اونٹوں پر مال ومتاع لاد کر خیبر اور شام چلے گئے۔
(۹)۴ہجری جمادی الاوّل میں حضورؐ قبیلہ بنو محارب،قبیلہ بنو ثعلبہ اور قبیلہ بنو غطفان سے جنگ کی غرض سے نجد روانہ ہوئے۔
(۱۰)شعبان ۴ہجری کو حضورؐ نے بدر میں آٹھ راتیں گزاریں۔ابو سفیان بھی اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر مقام مجنہ یا عفان سے واپس پلٹ گیا۔
(۱۱) ربیع الاوّل ۵ہجری کو حضورؐ نے غزوہ کے ارادے سے دو متہ الجندل کا رُخ کیا۔مگر تصادم نہ ہوا(ابن ہشام،بخاری شریف،شبلی نعمانی)