skip to Main Content

۳ ۔ پیغمبر

محمد حمید شاہد
۔۔۔۔

یٰسٓ[36:1] وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ[36:2] اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ [36:3] عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ[36:4]

قرآن حکیم کی قسم، اے محمد!ؐ تم یقیناًرسولوں میں سے ہو سیدھے راستے پر ہو۔
(یٰسن۳۶:۱۔۴)

تفکر کے طویل لمحے
کیا یہ وحشی معاشرہ سُدھر بھی سکے گا؟
کیا اِن لوگوں کی اصلاح ممکن ہے؟
یہ اخلاقی بے راہ روی کا طوفان کیوں کر تھمے گا؟
کوۂ حرا کے دامن میں موجود غار میں بیٹھے ہوئے محمدؐنے دیوارِ غار پر نظریں گاڑ کر سوچا۔۔۔ اور پھر سوچ کا دھارا اُن برائیوں کی جانب بہہ نکلا، جو اِس معاشرے۱؂ کا حصہ بن گئی تھیں۔
آہ! پورا علاقہ خانہ جنگی، باہمی دشمنی، قبائلی حسد اور چپقلش کی منہ بولتی تصویر ہے۔ پوری قوم جہالت و گمراہی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لاقانونیت، ظلم و تشدد اور سنگ دِلی قوم کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہاں کوئی دستور نہیں اور نہ ہی کوئی قانون ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشیں بڑی بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں اور اس قدر جنگ وجدل ہوتی ہے کہ سر زمین عرب کے ریگ زار لالہ زار ہوجاتے ہیں۔
کعبۃ اللہ، ہاں وہی مقدّس کعبہ! جو ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے اس واسطے حکم خدا سے تعمیر کیا تھا کہ یہاں خدائے واحد کی عظمت کا ذکر چھڑے گا۔ لیکن خدائے واحد کی عظمت کا تصور تو پورے معاشرے میں دھند لاچکا ہے اور بے شمار بتوں ۲؂ کو اس مقدس کعبے کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کو ظالم اور وحشی باپ زندہ درگور کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ عورتوں کی تذلیل کی جاتی ہے عورتوں کی حالت مویشیوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں، عورتوں کو تو محض نفسیاتی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
جوأ اور شراب۳؂ قوم کے دن رات کے مشاغل بن چکے ہیں۔
ذہنِ محمدؐ کے آکاش پر یہ سوال ایک مرتبہ پھر اُبھرا:
کیا یہ وحشی معاشرہ سُدھر بھی سکے گا؟
کیا ان لوگوں کی اصلاح ممکن ہے؟
یہ اخلاقی بے راہ روی کا طوفان کیوں کر تھمے گا؟
اس قسم کے بے شمار سوالات درِ ذہن پر پلٹ پلٹ کر دستک دینے لگے۔ پریشانی کے سائے اور زیادہ گھمبیر ہوگئے۔ ایسے سوالات اور معاشرے کی ناگفتہ بہ حالت نے تو جیسے محمدؐ کوچپ لگا دی ہو۔ معاشرے سے رفتہ رفتہ کٹنے لگے۔ قرب و جوار کی پہاڑیوں میں بلامقصد گھومنے نکل جاتے یا پھر غارِ حرا میں جا کر ان سوالات کا حل تلاش کرتے تھے۔ رات سوتے تو بے شمار خواب دیکھتے۔ ہرفرد محسوس کرنے لگا تھا کہ محمدؐ معاشرے سے کٹتے جا رہے ہیں۔ قوم محسوس کر رہی تھی کہ محمدؐ کچھ غمگین سے رہتے ہیں۔نظریں دیکھ رہی تھیں کہ محمدؐ ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں گم نظر آتے ہیں اور اس کیفیت میں ایک دو روز نہیں بلکہ پورے چھ ماہ گزر گئے۔
اقراء
چالیس(۴۰) سال اور چھ(۶) ماہ، یہی عمر تھی آپؐ کی جب ایک عجب واقعہ پیش آیا اور تاریخ ایک نئے موڑ پر آ پہنچی۔
۴۰؍ عام الفیل۔۔۔ اور
ماہِ رمضان کی سہانی رات۔۔۔
آسمان تاروں سے بھرا پڑا تھا۔ شمال مشرق سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مکّہ سے باہر کوہِ حرا کے دامن میں موجود غار میں محمدؐ حسبِ سابق قوم کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ شاید کسی طرح گتھی سلجھ جائے۔ شاید کوئی تدبیر نکل آئے۔ آپؐ سوچتے رہے اور رات آہستہ آہستہ رینگتی چلی گئی۔
دفعتاً کیا دیکھاکہ ایک فرشتہ آ سامنے ظاہر ہواہے۔ اور مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’پڑھیے‘‘
آپؐ نے کہا:
’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘
فرشتے نے یہ سُنا تو سینے سے لگا کر کچھ اس انداز سے بھینچا کہ آپؐ کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ چھوڑ کر کہا:
’’پڑھیے‘‘
اِس بار پھر وہی جواب تھا کہ
’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘
فرشتے نے سینے کے ساتھ بھینچ لینے کا عمل دہرایا۔ اس باربھی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ پھر گرفت ڈھیلی کی اور کہا:
’’پڑھیے‘‘
اس مرتبہ بھی جواب حسب سابق تھا:
’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘
فرشتے نے تیسری دفعہ بھی سینے سے لگا کر اس قدر زور سے بھینچا کہ اس مرتبہ بھی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ فرشتے نے پھر چھوڑ دیا اور کہا:
اِقْرَاء
پڑھیے
بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا
خَلَقَ الْاِنْسَانَ
انسان کی تخلیق کی
مِنْ عَلَقَ
جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے
اِقْرَاء
پڑھیے
وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ
اور آپ کا رب بڑا کریم ہے
عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ
انسان کو وہ علم دیا
مَا لَمْ یَعْلَمْ
جسے وہ نہ جانتا تھا۴؂
اور آپؐ اس سب کو دہراتے چلے گئے!!!
حسرت ناتمام
آسمان پر چمکتے دمکتے ستارے کچھ ماند پڑ گئے جیسے چمک چمک کر تھک گئے ہوں۔ رات کی سیاہی بھی زیادہ گھنیری نہ رہی۔ دُوراُفق کے مشرقی جانب سے آسمان بھی نیلگوں ہونا شروع ہوگیا کہ نڈھال نڈھال محمدؐ غارِ حرا سے باہر نکلے۔ تاروں کی دم توڑتی روشنی سے چہرہ اقدس پر موجود پسینے کے قطرے جھلملانے لگے۔ یوں لرزتے کانپتے گھر پہنچے اور اپنی رفیقۂ حیات سے کہا:
’’خدیجہؓ! مجھے اوڑھا دو، مجھے اُوڑھا دو۔‘‘
وفا شعار خدیجہؓ آگے بڑھیں اور اپنے شوہر پر کمبل اوڑھا دیا۔ پھر سراپا کا جائزہ لینے لگیں۔ بکھرے بکھرے بال، اُڑی اُڑی رنگت، آنکھوں میں خوف کے سائے تیرتے ہوئے، گلا خشک اور پیشانی پر پسینے کے چمکتے دمکتے ننھے مُنّے شبنمی قطرے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ کچھ پوچھنا چاہتی تھیں کہ آپؐ نے کہا:
’’اے خدیجہؓ! یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’ابوالقاسمؓ۵؂! آپؐ ہی بتلائیے، آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا۔ کچھ تو بتائیے‘‘
خدیجہؓ نے بے چینی سے پوچھا۔
تو محمدؐ نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ بیتی ختم کرکے کہا:
لَقَدْ خَشیت عَلٰی نَفْسِیْ
’’مجھے خطرہ ہے اپنی جان کا۔‘‘
خدیجہؓ پکار اُٹھیں:
کلا واللّٰہ ما یخزنک اللّٰہ ابداً اِنّکَ لتصل الرحیم و تصدق الحدیث و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تُعین علی نوائب الحق
’’ہرگز نہیں، خدا کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رنج نہ دے گا۔ آپ تو رشتہ داروں کے کام آتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں۔ بے کسوں کی مدد کرتے ہیں۔ نادار کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمان کی تواضع کرتے ہیں اور تمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘‘
پھر خدیجہؓ آپؐ کو عیسائی عالم ورقہ بن نوفل ۶؂ کے پاس لے گئیں اور سارا ماجرا کہہ سُنایا۔ ورقہ نے آپ سے بھی واقعہ سنا۔ کہنے لگا:
’’یہ وہی عالم بالا سے وحی لانے والا فرشتہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ۷؂موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش میں اِن کے زمانے میں ہوتا۔ کاش! میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب اِن کی قوم اِن کو نکالے گی۔‘‘
آپؐ نے حیران ہوکر پوچھا:
’’کیا یہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟‘‘
ورقہ نے جواب دیا:
’’ہاں! کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہوجو آپؐ لائے ہیں اور اُس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپؐ کا زمانہ پایا تو آپؐ کی بھرپور مدد کروں گا۔‘‘
لیکن، ہائے کہ یہ حسرت ہی رہی اور ورقہ بن نوفل کاکچھ عرصے بعد انتقال ہوگیا۔
سجدہ
محمدؐ مکہ کے بالائی حصے میں موجود تھے۸؂۔
فرشتہ جبرائیل بہترین صورت اور عمدہ خوشبو کے ساتھ آ سامنے ظاہر ہوا اور کہنے لگا کہ ’’اے محمدؐ! اللہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ جن و انس کی طرف میرے رسول ہیں۔ اس لیے قول لا اِلہ اِلاَّ اللّٰہ کی طرف اِن کو دعوت دیں۔‘‘
یہ کہہ چکنے کے بعد جبرائیل نے زمین پر پاؤں مارا۔ زمین سے پانی کا چشمہ اُبل پڑا۔ جبرائیل نے وضو کیا اور محمدؐ دیکھتے رہے۔ وضو کر چکنے کے بعد جبرائیل نے محمدؐ سے کہا:
’’آپؐ بھی وضو کریں۔‘‘
وضو کا مرحلہ مکمل ہوا۔ تو اکٹھی دو رکعتیں چار سجدوں کی پڑھیں۔ پھر خدیجہؓ کو وہاں لائے وضو کرایا۔ اور دو رکعت اُن کے ساتھ ادا کیں۔
ہم ساتھی ہیں
جب اس کائنات کی حقیقت منکشف ہوگئی!جب معاشرے کے سُدھرنے کا حل مِل گیا!
جب ظلم کو زیر کرنے کا نسخہ ہاتھ آیا!جب صراط مستقیم روشن ہوگئی!
جب فساد کی حقیقت کھل گئی!جب نیکی صحیح روپ میں سامنے آئی! اور
جب ذہن کی ساری گتھیاں سلجھ گئیں! تو محمدؐ نے سکھ کا سانس لیا۔ اِدھر خداوند عزوجل کی جانب سے نبی ہونے کا پیغام ملا، اُدھر وفاشعاربیوی خدیجہؓ آگے بڑھیں اور اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہوگئیں۔ بڑوں میں ابوبکر۹؂صدیقؓ آگے بڑھے۔ بچوں میں حضرت علیؓ۱۰؂لپک کر آئے اور غلاموں میں سے ۱۱؂زیدؓ بن حارثہ نے قدم بڑھائے اور دِل کی گہرائیوں سے اِس حقیقت کا اقرار کیا کہ
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ
نیا حکم
تین سال خفیہ دعوت دیتے دیتے گزر گئے۔ بہت سوں کے سینے نورِ ایمان سے منور ہوچکے تھے۔ وہ اِس کائنات اور اپنی حقیقت سے آشنا ہوچکے تھے۔ لیکن بارگاہِ ایزدی بھلا کب تلک دنیا میں بدی کا راج دیکھتی رہتی، حکم ہوا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَر
’’جو کچھ دیا جا رہاہے اُسے واشگاف کہہ دیجیے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ معاشرتی برائیوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے شبلی نعمانی لکھتے ہیں ’’بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھائی جاتی تھی۔ باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملتی تھی۔ حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی۔ ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ قماربازی، شراب خوری، زناکاری کاروا ج عام تھا۔ لڑائیوں میں لوگوں کو زندہ جلا دینا۔ مستورات کا پیٹ چاک کر ڈالنا۔ معصوم بچوں کو تہہ تیغ کرنا عموماً جائز تھا۔

۲۔ مشہور بتوں اور پوجنے والے قبائل کے نام کچھ یوں ہیں: طائف میں قبیلہ ثقیف والے ’’لات‘‘ نامی بت کو پوجتے تھے۔ مکّہ میں قریش و کنانہ والے ’’عزّیٰ‘‘ نامی بت کی عبادت کرتے تھے ۔مدینہ میں اوس و خزرج اور غسّان والے ’’منات‘‘ نامی بت کی پوجا کرتے ۔ دومۃ الجندل کے مقام پر کلب قبیلہ والے ’’ودّ‘‘ نامی بت کی پوجا کرتے تھے ۔قبیلہ ہذیل والے ’’سواع‘‘ و قبیلہ مذحج اور بعض قبائلِ یمن’’یغوث‘‘ نامی بت کو پوجتے جب کہ ہمدان والے ’’یعوق‘‘ بت کی عبادت کرتے تھے۔

۳۔ سیّد قطب شہید لکھتے ہیں: ’’شراب خوری اور جوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے اور اُن پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کی تمام شاعری، خمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے:
فلو لاثلاث ہن من عیشۃ الفتی
وَجدک لم احفل متی قام عودی
اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازم ہیں نہ ہوتیں تو مجھے کسی چیز کی پرواہ نہ رہتی، بشرطیکہ مجھے تاتسدِ رمق غذا ملتی
فمنہن سبقی العاذلات بشربۃ
کمیتُ متی ما تعل بالمدتزید
رہتی۔اُن میں سے ایک میرا رقیبوں سے مے نوشی میں سبقت لے جانا ہے اورمے بھی وہ جو دو آتشہ جس میں اگر پانی ملایا
وما ذال تشرابی الخمور ولذّتی
و بذلی واتفاقی طریفی و تالدی
جائے تواُس پر کف آجائے شراب نوشی، لذّت پرستی، بذل و اسراف پہلے بھی میری گھٹی میں پڑے ہوئے تھے آج بھی ہیں۔

۴۔ القرآن۔۔۔ سورۂ العلق

۵۔ حضورؐ کے فرزند کا نام قاسمؓ تھا۔ اِسی لیے آپؐ اِس کنیت سے پکارے جاتے تھے۔

۶۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہؓ کا چچا زاد بھائی تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بُت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہوا تھا۔ عربی اور عبرانی زبان میں انجیل لکھتا تھا۔ بوڑھا اور نابینا تھا۔

۷۔ نام موسیٰ ؑ ، والد کا نام عمران بن یصر۔ خدا کے نبی تھے، ایک سوبیس برس عمر پائی۔ وادئ موآب میں فوت ہوکر دفن ہوئے ۔ان کا زمانہ انتقال حضور سے تقریباً۲۰۲۲۲ سال پیش تر ہے۔

۸۔ ابن ہشام

۹۔ نام عبداللہ، کنیت ابوبکر اور صدّیق لقب، والد کا نام عثمان ابو قحافہ تھا۔ حضورؐ نے انھیں ’’عتیق من النار‘‘ کا لقب بھی دیا۔ ہر غزوہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ شریک رہے۔ آپؐ سے کبھی بھی جدا نہیں ہوئے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اِن کی اولاد، والدین اور پوتے کو حضورؐ کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ واقعہ فیل سے دو سال چار مہینے کے بعد مکّہ میں پیدا ہوئے۔ حضورؐ کے ساتھ ہر مشکل سہی، ہجرت کی، وصالِ نبوی کے بعد پہلے
خلیفہ بنے جمادی الاخر۱۳ھ کے آٹھ دن باقی تھے کہ وفات پائی۔ اُس وقت ابوبکرؓ کی عمر ۶۳ سال تھی۔ عمرؓ بن خطاب نے نماز جنازہ پڑھائی، آپ کی خلافت کا زمانہ دو(۲) سال اور چار ماہ ہے۔

۱۰۔ نام علی، والد کا نام ابوطالب، کنیت ابوالحسن اور ابوتراب، قریشی ہیں۔ بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قبولِ اسلام کے وقت اِن کی عمرمیں اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں عمر ۱۵ سال تھی بعض نے کہا: ۱۶سال اور بعض کے نزدیک ۸ سال جبکہ ۱۰ سال بھی بیان کرتے ہیں۔ حضور کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے۔ سوائے غزوہ تبوک کے کہ وہ اپنے گھر والوں میں ضرورتاً رکھے گئے تھے۔ اِس واقعہ کے بعد حضورؐ نے ان سے فرمایا تھا کہ کیا تمہیں یہ پتہ نہیں کہ تمہیں میری جانب سے وہی حیثیت حاصل ہے جو حضرت ہارونؑ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھی۔ حضرت عثمانؓ کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ ان کی اولاد نے اسلام کے لیے بہت عظیم قربانی دی تھی۔ حضرت علیؓ گندم گوں تھے اور گیہواں رنگ کھلا ہوا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں والے تھے۔ زیادہ طویل القامت نہ تھے۔

۱۱۔ ان کی کنیت ابواُسامہؓ ہے۔ ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ ہیں جو کہ بنی معن میں سے ہیں۔ زیدؓ بن حارثہ کو ان کی والدہ اپنی قوم کے پاس ملانے کے لیے لائیں تو بنی معن ابن جریر کے ایک لشکر نے زمانہ جاہلیت میں ان پر لوٹ مار کی پھر اس لشکر کا گزر بنی معن کے اُن گھروں سے ہوا جو زید بن حارثہ کی والدہ کا خاندان تھا۔ زیدؓ بن حارثہ کو یہ لٹیرے اُٹھا کر لے گئے۔ اُس وقت ان کی عمر ۸ برس تھی۔ لٹیروں نے انھیں بازار عکاظ میں فروخت کیا۔ حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی خدیجہؓ کے لیے چار سو درہم میں خرید لیا۔ حضورؐ سے نکاح کے بعد خدیجہؓ نے ان کو حضورؐ کے لیے وقف کردیا۔زید کے خاندان والوں کو پتہ چلا تو وہ لینے آئے، مگر زیدؓ نے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور حضورؐ کے پاس رہنا پسند کیا۔ اس واقعہ کے بعد حضورؐ زیدؓ کو مقامِ حجر
لے گئے اور اعلان کیا کہ میں نے زیدؓ کو بیٹا بنا لیا۔ زیدؓ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ حضورؐنے ان کا نکاح اُمّ ایمن سے کر دیا۔ ان سے اسامہؓ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد زینب بنت حجش سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ صرف یہی واحد صحابی ہیں۔ جن کا نام قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ غزوہ موتہ میں جب کہ یہ لشکر کے امیر تھے، شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر ۵۵سال تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top