ہمارے نبی ﷺ
مسز ایچ۔آئی احمد
………..
پہلا باب
’’اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو تم بھی نبیﷺ پر درود و سلام بھیجو ۔‘‘ (قرآنِ حکیم )
ہمارے نبی ﷺ جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں ،آج سے چودہ سو چالیس برس پہلے ملکِ عرب کے ایک مشہور شہر مکّہ میں پیدا ہوئے تھے ۔
خانۂ کعبہ کی تعمیر
ہمارے نبی ﷺ کی پیدائش سے کئی ہزار برس پہلے ملکِ عرب کی اسی سر زمین پر حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم سے خانۂ کعبہ کی بنیادیں رکھی تھیں اور اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کی مدد سے کعبہ شریف کی عمارت کھڑی کی تھی ۔عمارت پوری ہونے پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے انسان کی تاریخ میں پہلا حج کیا تھا اور قربانی دی تھی ۔
حضرت ابراہیم ؑ کے بعد
حضرت ابراہیم ؑ کے بعد اللہ نے مختلف قوموں کے لئے مختلف زمانوں میں بہت سے نبی ؑ بھیجے ۔یہ نبیﷺ لوگوں کو اچھی باتیں بتاتے تھے ۔لوگ چند روز تو اُن نبیوں کی اچھی باتوں کو یاد رکھتے ،پھر شیطان کے بہکانے میں آکر بُرے کام کرنے لگتے ۔یہ لوگ اللہ کے نبیوں کو بھی طرح طرح کی تکلیفیں دیتے ۔ اس طرح برس گزرتے چلے گئے ۔دنیا میں گناہ بہت بڑھ گئے تھے ۔
ملکِ عرب کی حالت
ملکِ عرب میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ مِل کر اللہ کے حکم سے خانۂ کعبہ کی عمارت کھڑی کی تھی تا کہ لوگ یہاں آکر صرف ایک اللہ کی عبادت کریں ۔
لوگ خانۂ کعبہ کی عزّت کرتے تھے اور اللہ کی طاقت کو بھی مانتے تھے ۔مگر ساتھ ساتھ اُن لوگوں نے مٹّی اور پتھّر کے بُت بنانے شروع کر دےئے تھے ۔
عرب کے لوگ ان بتوں کو پوجتے ۔اُن پر چڑھاوے چڑھاتے اور اُن سے منتیں اور مرادیں مانگتے ۔عرب کے لوگوں نے خانۂ کعبہ کے اندر بھی تین سو ساٹھ بُت بنا کر رکھ دےئے تھے ۔یہ بُت بھی اُن کے خدا تھے ۔
دوسری بُرائیاں
ملکِ عرب کے لوگ اور بھی بُرے کام کرتے تھے ۔وہ شراب پیتے تھے ۔آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے ۔ذرا ذرا سی بات پر انسان کو مار ڈالتے تھے ۔پھر وہ بدلہ لیتے تھے ۔اُن کی لڑائیاں برسوں چلتی تھیں ۔
وہ جُوا کھیلتے تھے ۔اور جُوئے میں اپنی بیویوں تک کی بازی لگا دیتے تھے ۔عورت کا کوئی درجہ نہ تھا ۔ایک مرد جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا ۔عورت اپنے خاوند کی جائیداد سمجھی جاتی تھی ۔عورت اپنے خاوند کے مرنے پر اکثر اس کے وارثوں کو حصے میں دے دی جاتی تھی ۔وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ۔ورثے میں عورت کا کوئی حصّہ نہ تھا۔
عرب لوگ لڑکی کی پیدائش کو بے عزتی کی نشانی سمجھتے تھے ۔اگر کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اور اُن کوخبر مل جاتی تو وہ اس لڑکی کو مار ڈالتے تھے ۔یا زندہ دفن کر دیتے تھے ۔
اس زمانے میں یتیموں ،غلاموں اور لونڈیوں کی بُری حالت تھی ۔کوئی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والا نہ تھا ۔لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے تھے ۔لوگ غلاموں اور لونڈیوں پر بہت سختی کرتے تھے ۔غریبوں اور بے کسوں کا کوئی سہارا نہ تھا۔اس زمانے میں شرم و حیا بھی بہت کم ہو گئی تھی۔
عربوں میں کچھ خوبیاں ضرور تھیں ۔وہ بہت بہادر تھے اور سخی تھے۔مگر وہ اپنی بہادری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرتے تھے ۔اُن کی سخاوت اور مال سے کسی غریب انسان کو فائدہ نہیں ہوتا تھا۔وہ سخاوت نام کے لئے کرتے تھے ۔وہ بڑی بڑی دعوتیں کرتے تھے ۔بڑے بڑے لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔غریبوں کے لئے اُن کے پاس کچھ نہ تھا ۔
اس نازک وقت میں ایک ایسے نبی کی بہت ضرورت تھی جو لوگوں کو انسانیت کا سبق دے ۔جو مظلوموں اور بے کسوں کا سہارا ہو۔جو دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے ۔
حضرت ابراہیم ؑ نے خانۂ کعبہ بناتے وقت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ اللہ پاک اُن کی جماعت ہی میں سے ایک ایسا رسول مقرر کر دے جو لوگوں کو اللہ کی آیتیں سُنائے اور اُن کو نیک اور اچھی باتیں بتائے جن کو سُن کر لوگوں کے دل پاک و صاف ہو جائیں ۔
حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اللہ نے قبول کی اور حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد سے ایک رسول بھیجا ۔
یہ رسول کون تھا ؟یہ رسول ہمارے نبیﷺ ،ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ﷺ تھے۔
ہمارے نبیﷺ حضرت اسمٰعیل ؑ کے زمانے سے کئی ہزار برس کے بعد مکّہ میں ۲۲اِپریل ۵۷۱ء میں پیر کی صبح کو دنیا میں تشریف لائے۔
یا نبی سَلامُ عَلیکَ یا رسول سَلامُ عَلیکَ
یا حبیب سَلامُ عَلیکَ صَلوٰۃُ اللہ عَلیکَ
ہمارے نبی ﷺ کے والدین
ہمارے نبی ﷺ کے والد کانام حضرت عبداللہ اور والدہ کانام حضرت بی بی آمنہ تھا۔ہمارے نبی ﷺ کے والد حضرت عبداللہ ہمارے نبی ﷺ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے فوت ہو گئے تھے ۔اس لئے بچپن میں حضرت محمدﷺ کے سر پر ست اُن کے دادا تھے ۔
ہمارے نبی ﷺ کے دادا
ہمارے پیارے نبیﷺ کے دادا کانام عبدالمطلب تھا ۔اُن کے قبیلے کانام قریش تھا۔قریش قبیلہ اپنی بہادری اور شرافت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔عرب کے لوگ اس قبیلہ کی بہت عزّت کرتے تھے اور اس لئے خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال قریش کے ذمے (سپرد )تھی ۔
حضرت عبدالمطلب کو اپنے نوجوان بیٹے کی بے وقت موت کا بہت دُکھ ہوا تھا ۔وہ پوتے کی پیدائش کی خبر سُن کر بہت خوش ہوئے اور عبداللہ کے یتیم کو فوراًخانۂ کعبہ لے گئے ۔
حضرت عبدالمطلب نے پوتے کانام محمدﷺ رکھا۔محمدﷺ کے معنی ہیں تعریف کے قابل ۔ حضرت بی بی آمنہ نے بیٹے کانام احمدﷺ رکھا ۔اُن کو یہ نام رکھنے کی خوشخبری ملی تھی ۔
رِضاعت کا زمانہ
عربی زبان میں بچّے کے دودھ پلانے کے زمانے کو رِضاعت کا زمانہ کہتے ہیں ۔
عرب کے بڑے گھرانوں کے بچّوں کو بدوی قبیلوں کی عورتیں دودھ پلاتی تھیں ۔اور بعد میں کئی سال تک وہ اُن کی پرورش کر تی تھیں۔یہ بدوی عورتیں بچّوں کو لینے مکّہ آ جاتی تھیں ۔اِن بدوی عورتوں سے بچّوں کی پرورش کرانے کی دو بڑی وجہ تھیں ۔
پہلی وجہ تو یہ تھی کہ دودھ پیتے بچّے بدوی عورتوں اور اُن کے خاندانوں کے ساتھ شہروں سے دُور کھُلی ہوا میں پلتے ۔وہ ہر موسم اور ہر تکلیف کا بے دھڑک مقابلہ کرتے ۔اس لئے وہ بہت بہادر ،نڈر اور مضبوط ہو جاتے تھے ۔
اِن بدوی عورتوں سے بڑے گھرانوں کے بچّوں کی پرورش کرانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عرب کے بدوی قبیلے بہت صحیح اور اچھی عربی بولتے تھے ۔اور عرب کے لوگوں کو اپنی زبان پر بہت فخر تھا۔اس لئے وہ اپنے بچّوں کی پرورش بدوی قبیلوں کی دائیوں سے کرانا پسند کرتے تھے تا کہ ان کے بچّے بہت اچھی اور صحیح عربی بولیں ۔بچّوں کے والدین اِن دائیوں کو اپنی حیثیت کے مطابق ا نعام دیتے تھے ۔
بی بی حلیمہ سعدیہؓ
جب ہمارے نبی ﷺ پیدا ہوئے تو اُن دنوں قبیلہ ہوازن (بنو سعد ) کی بدوی دائیاں مکّہ آئیں ۔ وہ بڑے گھرانوں کے بچّوں کو لینے آئی تھیں ۔ان بدوی دائیوں نے جھٹ پٹ ان گھرانوں کے بچّوں کو لے لیا جن گھرانوں سے اُن کو اچھا انعام ملنے کی امید تھی ۔مگر بی بی آمنہ کالال تو یتیم تھا ۔اس لئے کسی نے اُن کو نہیں لیا۔
حضرت عبدالمطلب اپنے یتیم پوتے کو گود میں لئے لھڑے تھے ۔سامنے بنو سعد قبیلے کی ایک غریب اور کمزور عورت کھڑی تھی ۔اس بدوی عورت کانام حلیمہ سعدیہ تھا۔اس بدوی عورت کی درخواست پر حضرت عبدالمطلب نے عبداللہ کے یتیم کو اس کے سپرد کر دیا۔
بی بی حلیمہ سعدیہ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ اللہ نے اُسے حضرت محمدﷺ کو دودھ پلانے اور اُن کو پالنے کی عزت بخشی ۔
ہمارے نبیﷺ کی برکت سے حلیمہ سعدیہ کی غریبی دُور ہو گئی ۔اُن کے مویشی (جانور) زیادہ دودھ دینے لگے۔اُن کا اپنا دودھ بھی اتنا زیادہ ہو گیا کہ ہمارے نبیﷺ کے سوا بی بی حلیمہ کے دودھ پیتے بچّے کو بھی پیٹ بھر کر دودھ ملنے لگا ۔بی بی حلیمہ کے گھر میں بہار آگئی ۔اللہ کی رحمت برسنے لگی ۔بی بی حلیمہ سعدیہ کا پورا گھرانہ ہمارے نبیﷺ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمارے نبیﷺ کو بھی ان سب سے محبت ہو گئی تھی ۔
حضرت محمدﷺ بی بی حلیمہ کے پاس پانچ برس سے اوپر ہی رہے ۔چھٹے سال وہ اُن کو بی بی آمنہ کے پاس چھوڑ گئیں ۔
چند ماہ بعد بی بی آمنہ اپنے یتیم بیٹے کو لے کر مدینہ شریف گئیں ۔اس شہر میں بی بی آمنہ کے رشتے دار رہتے تھے ۔بی بی آمنہ کا گھرانہ بنو نجا رکے نام سے مشہور تھا ۔مدینہ میں حضرت عبداللہ کی قبر بھی تھی ۔
حضرت بی بی آمنہؓ کی وفات
حضرت بی بی آمنہؓ چند ماہ مدینہ میں رہیں ۔پھر وہ مکّہ کی طرف روانہ ہوئیں ۔راستے میں وہ سخت بیمار ہوئیں اور ’’ابواء‘‘کے مقام پر فوت ہو گئیں ۔اس سفر میں ان کی لونڈی اُمّ ایمن ان کے ساتھ تھیں ۔
اُمّ ایمن معصوم اور بے ماں باپ کے بچّے کو لے کر مکّہ پہنچ گئیں ۔حضرت محمدّ اس وقت چھ برس کے ہو گئے تھے ۔اُمّ ایمن نے حضرت ﷺ کو اُن کے دادا کے سپرد کر دیا ۔
دادا سے جُدائی
حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے کی نشانی کو گلے سے لگا لیا۔اور بہت محبت سے پالا ۔حضرت ﷺ کی قسمت میں دادا کے ساتھ صرف دو ہی سال رہنا لکھا تھا ۔جب حضرت محمدﷺ آٹھ برس کے ہوئے تو دادا بھی رخصت ہو گئے ۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات سے پہلے اپنے آٹھ برس کے پوتے کو اپنے بیٹے حضرت ابو طالب کے سپرد کر دیا ۔حضرت ابو طالب حضرت عبد اللہ سے بڑ ے تھے ۔حضرت محمدﷺ کو دادا کا بڑا سہارا تھا ۔اب دادا بھی رخصت ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ جب دادا کا جنازہ اُٹھا تو آٹھ سال کا یتیم پوتا بھی روتا ہوا جنازہ کے ساتھ جا رہا تھا۔
دوسرا باب
ہمارے نبی ﷺ کا لڑکپن
حضرت ابو طالب اور اُن کی بیوی نے چھوٹے بھتیجے کو بہت پیارو محبت سے پالا۔حضرت ابو طالب حضرت محمد ﷺ کو اپنے بچّوں سے زیادہ چاہتے تھے ۔اور اُن کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
عادات
ہمارے نبیﷺ بچپن ہی سے بہت نیک اور خوش مزاج تھے ۔آپﷺ میں بہت اچھائیاں تھیں۔آپﷺ کوصفائی پسند تھی ۔آپﷺ محنتی تھے ۔آپﷺہمیشہ سچ بولتے تھے ۔آپ ﷺ بہت ایماندار تھے ۔آپﷺ جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے ۔آپﷺ اپنے وعدے کو ہمیشہ پورا کرتے تھے ۔
ہمارے نبیﷺ کو لڑنا جھگڑنا اچھا نہیں لگتا تھا ۔آپﷺ ہمیشہ لڑائی جھگڑے کو دبانے کی کوشش کرتے تھے ۔آپﷺ کو انصاف پسند تھا۔
ہمارے نبیﷺ بہت ہمدرد اور رحمدل تھے ۔آپ ﷺکمزوروں اور ضرورت مندوں کی مددکرتے تھے ۔آپﷺ بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتے تھے ۔ہمارے نبیﷺ بڑوں کی عزّت کرتے تھے اور چھوٹوں پر مہربانی کرتے تھے ۔
آپﷺ کو بچپن سے کم بولنے کی عادت تھی ۔آپﷺ خاموش بیٹھ کر کچھ سوچتے رہتے تھے ۔
پیشہ
اس زمانہ میں عوام کا پیشہ مویشی پالنا تھا ۔ہمارے نبی ﷺ نے بھی بچپن میں بی بی حلیمہ سعدیہ کے بچّوں کے ساتھ اُن کی بکریاں چرائی تھیں ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کو کام کرنا بہت اچھا لگتا تھا ۔آپ ﷺ دوسروں کاکام بھی بڑی خوشی سے کر دیتے تھے ۔آپ ﷺ کو پڑوسیوں کے حق کا بہت خیال رہتا تھا ۔
عرب کے بڑے لوگوں کا پیشہ تجارت تھا۔وہ اپنا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے ۔وہ اس مال کو دوسرے ملکو ں میں فروخت کرتے اور نفع حاصل کرتے ۔
عرب ایک ریگستانی ملک ہے اور اونٹ ریت پر آسانی سے چل سکتا ہے ۔اس لئے اونٹ کو ریگستان کا جہاز کہتے ہیں ۔عرب کے لوگ اپنا مال اونٹوں ہی پر لاد کر لے جاتے تھے ۔یہ قافلہ کہلاتا تھا ۔قافلہ کو کارواں بھی کہتے ہیں ۔
سفرِ شام
ہمارے نبیﷺ نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے پیارے چچا ابو طالب کو قافلوں کے ساتھ تجارتی سفر کرتے دیکھا ۔جب آپ ﷺ بارہ تیرہ برس کے ہوئے تو آپﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے کہا کہ وہ اُن کو بھی تجارتی سفر میں اپنے ساتھ لے جائیں ۔
اس تجارتی سفر میں آپ ﷺ کا قیام چند روز بصرہ میں ہوا۔بصرہ اس وقت ملکِ شام کی مشہور بندر گاہ تھی ۔اس وقت بصرہ کی بڑی آبادی عیسائی تھی اور یہاں عیسائیوں کے بڑے پادری رہتے تھے ۔ اُن میں سے ایک بڑے پادری نے آسمانی کتابوں میں پڑھا تھا کی ایک نبی آنے والا ہے جو دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے گا اور آخری نبی ہوگا۔
اس بڑے پادری کوجب مکّہ کے قافلہ کی خبر ملی تو وہ قافلے والوں سے ملنے آیا۔اُس نے حضر ت محمدﷺ کو بھی دیکھا۔اُن سے باتیں کیں ۔اُن سے مِل کر وہ بہت خوش ہوا ۔اُس کو یہ خیال ہو گیا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر آخری نبی ہوگا۔پادری کا خیال سچ نکلا۔
تجارتی سفر
یہ سفر بہت کامیاب رہا اور ہمارے نبیﷺ نے تجارت کاکام شروع کر دیا۔آپﷺ لوگوں کا تجارتی مال بصرہ ،شام اور یمن لے جاتے تھے ۔آپﷺ کئی سال تک یہ کام کرتے رہے۔لوگ آپ ﷺ کی سچائی اور ایمانداری کی وجہ سے بہت خوش تھے۔وہ آپﷺ کوصادق (سچ بولنے والا) اور امین کہتے تھے۔لوگ اپنی امانتیں ہمارے نبیﷺ کے پاس رکھواتے تھے ۔سب کو اُن پر بھروسہ تھا۔
حضرت بی بی خدیجہؓ
اس وقت مکّہ میں ایک بہت نیک ،شریف اور خوبصورت بیوہ خاتون رہتی تھیں ۔اُن کا نام خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھا ۔یہ خاتون بھی قریش قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔یہ بہت امیر تھیں ۔یہ خاتون اپنا مال تجارت کے لئے دوسرے ملکوں کو بھجواتی تھیں ۔
حضرت بی بی خدیجہؓ کو بھی حضرت محمدﷺ کی سچائی ،ایمانداری اور عقلمندی کی خبر ملی۔انہوں نے آپﷺ کو درخواست بجھوائی کہ وہ ان کا مال بھی تجارت کے لئے دوسرے ملکوں میں لے جائیں ۔ پیغمبر ﷺ خدا راضی ہو گئے ۔آپﷺ نے محنت ،سچائی اور بہت ایمانداری سے بی بی خدیجہؓ کاکام کیا۔اور تجارت کا نفع حضرت خدیجہؓ کو لاکر دے دیا۔بی بی خدیجہؓ حضرت محمدﷺ کی سچائی ،ایمانداری اور اُن کی دوسری خوبیوں کو جان کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے حضرت ابو طالب کو درخواست بھیجی کہ وہ اپنے بھتیجے حضرت محمدﷺ کی شادی اُن سے کر دیں ۔بی بی خدیجہؓ کی درخواست منظور ہوئی اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔
شادی
حضرت ابوطالب اور خاندان کے دوسرے لوگ حضور ﷺکے ساتھ بی بی خدیجہؓکے گھر گئے اور آپﷺ کا نکاح ہو گیا ۔اس وقت ہمارے نبیﷺ کی عمر پچیس سال تھی اور حضرت بی بی خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔
حضرت بی بی خدیجہؓ اس قدر نیک تھیں کہ عرب کے لوگ اُن کو طاہرہ کہتے تھے۔طاہرہ کے معنی پاک بی بی کے ہیں ۔یہ شادی بہت مبارک ثابت ہوئی۔بی بی خدیجہؓ سچّے معنوں میں اپنے شوہر کی شریک زندگی ثابت ہوئیں۔
اولاد
حضرت بی بی خدیجہؓ سے آپ ﷺ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔حضرت ﷺ کے دونوں بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے ۔حضرت ﷺ کی بیٹیوں کے نام حضرت زینبؓ ،حضرت رقیہؓ ، حضرت اُمِّ کلثومؓ اور حضرت فاطمہ زہراؓ تھے ۔حضرت فاطمہ زہراؓ سب سے چھوٹی تھیں۔ہمارے نبیﷺ اُن سے بہت محبت کرتے تھے۔
تعلیم
اس زمانے میں عرب میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ چرچا نہ تھا۔ہمارے نبیﷺ کو بھی پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔مگر اللہ نے آپﷺ کو بہت سمجھ بوجھ اور عقل دی تھی۔آپﷺ صحیح فیصلے کر سکتے تھے۔آپ ﷺ کی سچائی ،آپﷺ کی ایمانداروں اور آپﷺ کے انصاف کی وجہ سے لوگ آپﷺ کے فیصلوں کو مان لیتے تھے۔لوگ آپﷺ کے فیصلوں کی قدر کرتے تھے۔
ہمارے نبیﷺ کا ایک بڑا فیصلہ
اس زمانے میں بارش اور سیلاب کی وجہ سے کعبہ شریف کی عمارت کمزور پڑگئی ۔قریش نے کعبہ کی عمارت کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔عرب کے لوگ خانہء کعبہ کی بہت عزت کرتے تھے۔وہ اس کو حرم کہتے تھے۔وہ حرم کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کرتے تھے۔
خانۂ کعبہ کی تعمیر میں حصّہ لینا ایک مذہبی خدمت تھی۔اس مذہبی خدمت میں حصّہ لینے کے لئے عرب کے تمام قبیلوں کے سردار مکّہ میں جمع ہوگئے تھے۔اور سب لوگوں نے آپس میں کام بانٹ لیا تھا۔
جب سنگِ اَسود لگانے کا سوال آیا تو جھگڑے فساد کا ڈر ہو گیا۔سنگِ اَسود کو ہاتھ لگانا بہت عزت کی بات تھی۔ہر آدمی چاہتا تھا کہ سنگِ اسود وہ ہی لگائے ۔سنگِ اسود کو سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے خانہء کعبہ تعمیر کرتے وقت لگایا تھا۔
اس پر کئی روز بحث رہی کہ سنگِ اسود کون لگائے۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ صبح جو آدمی حرم میں سب سے پہلے داخل ہو گاوہ فیصلہ کرے گا کہ سنگِ اسود کون لگائے۔سب لوگ اس آدمی کا فیصلہ مان لیں گے۔ فیصلہ کرانے والے کو ثالث کہتے ہیں۔
اگلی صبح ہمارے نبی حضرت محمدﷺ سب سے پہلے حرم میں داخل ہوئے۔اُن کو دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے اور شورمچ گیا کہ امین آگیا،امین آگیا۔
ہمارے نبیﷺ نے اپنی چادر زمین پر پھیلائی۔اس چادر پر آپﷺ نے سنگِ اسود رکھ دیا۔پھر ہر قبیلے کے سرداروں میں سے اُن کی مرضی سے ایک ایک سردار کو بلایا اور سب سے کہا کہ وہ مل کر چادر اٹھائیں۔سب سرداروں نے مل کر چادر اٹھائی۔وہ اس چادر کو خانۂ کعبہ کی دیوار کے پاس لے گئے۔
ہمارے پیارے نبیﷺنے اپنے ہاتھوں سے سنگِ اسود اُٹھایا اور اس کو کعبے کی دیوار میں لگا دیا۔ سب بہت خوش ہوئے۔اس طرح ہمارے نبیﷺ کے صحیح فیصلے اور عقلمندی سے کام ہو گیااور کوئی جھگڑا فساد نہ ہوا۔
تیسرا باب
رسول اللہﷺ
ہمارے نبیﷺکے دل میں شروع ہی سے اللہ کی محبت تھی۔آپ ﷺ حرم چلے جاتے اور خاموشی سے اللہ کی عبادت کرتے۔حضرت ابراہیمؑ کی طرح آپ کو بھی بُت نا پسند تھے۔آپﷺ صرف ایک اللہ کو مانتے تھے۔
ہمارے نبیﷺ کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا کہ لوگ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔بلکہ وہ مٹی اور پتھر کے بنائے ہوئے بتوں کو پو جتے ہیں۔اُن کو خدامانتے ہیں۔
ہمارے نبیﷺ کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا تھا کہ امیر لوگ غریب لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور کمزوروں کو ستاتے ہیں۔
ہمارے نبیﷺ کو غلاموں ،بے کسوں،ضعیفوں اور بیماروں سے ہمدردی تھی۔آپﷺ چاہتے تھے کہ کسی طرح دُکھی لوگوں کا دُکھ دُور کریں۔آپ ﷺ غور و فکر کرتے اور اللہ سے مدد مانگتے ۔
غارِ حِرا
مکہ سے تین میل دور ایک پہاڑ ہے ۔اُس پہاڑ کا نام حِرا ہے ۔اس پہاڑ کی چوٹی کے پاس ایک غار ہے ،جسے غارِ حِرا کہتے ہیں۔ہمارے نبیﷺ اس غار میں چلے جاتے اور کئی کئی دن تک وہاں رہتے ۔وہ اس غار میں بیٹھ کر غوروفکر کرتے اور اللہ کو یاد کرتے۔حضرت بی بی خدیجہؓ آپﷺ کے ساتھ سوکھا کھانا‘ کھجور اور ستّو بنا کر دیتی تھیں۔
اللہ کا پیغام
ایک رات ہمارے نبیﷺ غارِحرا میں اللہ کی عبادت کر رہے تھے کہ اُن کو ایک فرشتہ نظر آیا۔اس فرشتے کا نام جبریل ؑ تھا۔حضرت جبریل ؑ ہمارے نبیﷺ کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آئے تھے۔اللہ کا پیغام وَحی کہلاتا ہے۔
حضرت جبریل ؑ نے حضرت محمدﷺ سے کہا کہ اللہ نے اُن کو اپنا رسول مقرر کیا ہے۔پھر حضرت جبریل نے حضور ﷺ سے کہا کہ وہ سورۃ علق(اِقرا) کی چند آیتیں پڑھیں ۔اِن آیتوں کا مطلب یہ تھا:’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے جہاں بنایا۔جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔پڑھ‘تیرا رب بہت کریم ہے۔اللہ نے انسان کو قلم سے لکھنا سکھایا۔اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
ہمارے حضور ﷺ نے حضرت جبریل ؑ کو بتایا کہ اُن کو پڑھنا نہیں آتا۔یہ سن کر حضرت جبریل ؑ نے آپﷺکو تین مر تبہ اپنے سینے سے لگا کر زور سے دبایا۔اللہ کے حکم سے آپﷺ کا سینہ علم سے بھر گیا۔اور ہمارے نبیﷺ کو دونوں جہاں کا علم حاصل ہو گیا۔
فرشتہ چلا گیااور اللہ کے رسولﷺ گھر آئے۔آپﷺ نے سب حال بی بی خدیجہؓ کو بتایا۔یہ حال عجیب سا تھا۔یہ باتیں انوکھی سی تھیں۔مگر بی بی خدیجہؓ کو معلوم تھا کہ حضرت محمدﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔وہ ایماندار ہیں ۔لوگ اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس رکھواتے ہیں۔بی بی خدیجہؓ کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپﷺ رحم دل او ر نیک ہیں۔اس لئے انہوں نے آپﷺ کی کسی بات پر شک نہیں کیا۔حضرت بی بی خدیجہؓ نے آپﷺ کی باتوں پر فوراً یقین کر لیا۔
حضرت خدیجہؓ کا اسلام قبول کرنا
حضور ﷺ کے پاس برابر وحی آتی رہی۔ایک مرتبہ آپﷺکو اللہ کا پیغام ملاکہ اپنے عزیزوں اور قریبی رشتے داروں کو دین کے بارے میں خبر دو ۔انہیں عذاب سے ڈراؤ ۔
نبیﷺ نے سب سے پہلے اپنی شریکِ زندگی حضرت بی بی خدیجہؓ کو اللہ کاحکم سُنایا ۔بی بی خدیجہؓ نے اللہ کا حکم سُنتے ہی دینِ اسلام قبول کیا۔یہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ کے تمام بندوں میں سب سے پہلے ایک خاتون نے دینِ اسلا م قبول کیا ۔یہ خاتون اللہ کی نیک بندی حضرت بی بی خدیجہ ؓ تھیں ۔
حضرت خدیجہؓ کے اسلام لانے کے بعد ہمارے حضور ﷺ کے دوست حضرت ابو بکر صدیقؓ ، آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت علی مرتضےٰؓاور حضور ﷺ کے آزاد کئے ہوئے غلام حضرت زیدؓ ایمان لائے ۔
ہمارے نبیﷺ چپکے چپکے اپنے لوگوں کو دینِ اسلام کے بارے میں بتاتے رہے اور تین سال میں چالیس آدمی مسلمان ہو گئے ۔
ایک روز ہمارے نبیﷺ کو اللہ کا پیغام ملاکہ ’’جو کچھ تم کو بتایا جاتا ہے وہ کھول کر صاف طور سے لوگوں کو بتاؤ ۔کسی کے جھٹلانے کی پروا مت کرو ۔‘‘
یہ پیغام سُن کر آپﷺ کوہِ صفا پر گئے ۔صفا اور مروہ مکّہ کی دو پہاڑیاں ہیں ۔پیغمبرﷺ خدا نے لوگوں کوجمع کیا اور اُنہیں بتایا کہ اُن کو اللہ نے سچّے دین کے لئے اپنا رسول مقرر کیا ہے ۔اُس دین کانام اسلام ہے ۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے بھی ہیں اور اللہ کے رسول بھی ۔رسول کاکام اللہ کاپیغام اس کے بندوں تک پہنچانا ہے ۔
اللہ کا پیغام
اللہ کا پیغام یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو ۔کسی اور کو اللہ کا شریک نہ بناؤ ۔بُتوں کو مت پوجو ۔برائیوں سے بچو ۔کسی پر ظلم نہ کرو۔غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرو۔ایک دوسرے سے ہمدردری کرو ۔سب کے ساتھ محبت سے پیش آؤ ۔رشتے داروں ،عزیزوں ،ضعیفوں ،یتیموں سے اچھا سلوک کرو۔اسلام میں سب لوگ برابر ہیں ۔اچھے کام کا بدلہ اچھا اور بُرے کام کا بدلہ بُرا ہوگا۔
رسولﷺ نے قریش کو دینِ اسلام کے بارے میں اور بھی باتیں بتائیں ۔اسلام صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کو کہتا ہے۔ اسلام بتوں کو پوجنے سے منع کرتا ہے ۔اسلام سچائی اور ایمانداری کی تعلیم دیتا ہے ۔اسلام امن و محبت کا پیغام لایا ہے ۔اسلام کی تعلیم ہے کہ ملک میں جھگڑا فساد نہ پھیلاؤ ۔آپس میں مِل جُل کر رہو۔لوگوں کو ناحق قتل نہ کرو ۔کمزوروں،بے کسوں ،غلاموں اور لونڈیوں پر ظلم نہ کرو ۔انصاف سے کام لو۔وعدہ پورا کرو ۔کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی مت کرو ۔اسلام مساوات (برابری ) کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلام میں بڑے اور چھوٹے (امیر غریب) کا فرق نہیں ہے۔
قریش کو دینِ اسلام اچھا نہیں لگا۔اسلام میں جتنی باتیں تھیں اُن سے قریش کی دولت اور طاقت گھٹنے کا ڈر تھا ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ دینِ اسلام ان کے مذہب کے خلاف تھا۔
قریش نے سوچا کی دینِ اسلام کو دبا دیں ۔اس کو اُبھرنے نہ دیں ۔مگر اللہ کے کرم سے اور اللہ کے رسول ﷺ کی محنت او ر کوشش سے دینِ اسلام پھیلنے لگا۔قریش نے حضرت ابو طالب سے شکایت کی کہ حضرت محمد ﷺ بُتوں کو بُرا کہتے ہیں ۔بُت پوجنے کو منع کرتے ہیں ۔پھر قریش نے خود حضرت محمد ﷺ سے باتیں کیں ۔اُ ن کو دنیا کا بڑے سے بڑا لالچ دیا کہ وہ خاموش ہو جائیں ۔اللہ کے رسولﷺ پر قریش کے کسی لالچ کا اثر نہ ہوا ۔وہ اپنا کام کرتے رہے اور اسلام پھیلتارہا۔
دشمنی
دینِ اسلام کو بڑھتا دیکھ کر قریش کو بہت پریشانی ہوئی ۔وہ رسولﷺ کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ رسول اللہﷺ کے ایک چچا بھی اُن میں شامل تھے۔اُن کا نام ابو لہب تھا۔وہ سب کے ساتھ مل کر اپنے بھتیجے کو بہت تکلیفیں دیتے ۔ وہ آوارہ لڑکوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیتے اور خود تماشا دیکھتے ۔ابو لہب کی بیوی آپﷺ کی راہ میں کانٹے بچھا دیتی ۔کچھ لوگ سجدے کی حالت میں آپﷺ پر گندگی ڈال دیتے ۔ رسولﷺ اللہ کو تکلیف دینے میں مرد اور عورتیں دونوں شا مل تھے ۔
اللہ کا پیارانبی ﷺ صبر اور خاموشی سے ان تکلیفوں کو بر داشت کرتا رہا۔
مسلمانوں پر ظلم
اب قریش نے بے کس مسلمانوں کو ستانا شروع کیا ۔مسلمان زیادہ تر غریب یا کمزور تھے ۔قریش کا جس مسلمان پر بس چلتا اُس کو پکڑ کر سخت سزا دیتے ۔کسی مسلمان کو جلتی ہوئی ریت پر لٹا دیتے اور اس کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے۔کسی مسلمان کو جانور کی کھال میں سی کر اس کو دھوپ میں ڈال دیتے ۔ کسی کے پیرمیں رسّی باندھ کر اس کو گلی گلی گھسیٹتے ۔ان غریبوں کی خطا یہ تھی کہ ان لوگوں نے دینِ اسلام قبول کیا تھا ،حضور ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تھاا ور قیامت پر یقین رکھتے تھے۔
ہجرت حبشہ
اللہ کے نبی ﷺنے مسلمانو ں پر بہت ظلم ہوتا ہوا دیکھا تو مسلمانوں کو ایک دوسرے ملک حبشہ میں ہجرت کرنے کو کہا ۔دین اور مذہب کے لئے اپنا گھر بارچھوڑ کر دوسرے ملک میں چلے جانے کو ہجرت کرنا کہتے ہیں ۔جو لوگ ہجرت کرتے ہیں اُن کو مہاجر کہتے ہیں ۔
پیغمبر ﷺ اسلام کے حکم پر دو سال میں سو۱۰۰ سے زیادہ آدمی حبشہ ہجرت کر گئے ۔قریش بہت غصّہ ہوئے ۔وہ چاہتے تھے کہ حبشہ کا بادشاہ ان مسلمانوں کو مکّہ واپس کر دے ۔
حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا۔عیسائی بادشاہ کو دینِ اسلام کی بہت سی باتیں اچھی لگیں ۔اُس نے مسلمان مہاجروں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔
تبلیغ
دین پھیلانے کے کام کو تبلیغ کہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ تبلیغ کرنے لوگوں کے پاس جاتے رہے ۔کچھ لوگ دینِ اسلام کی باتیں سُن کر غصّہ ہوجاتے تھے ۔چند لوگ دینِ اسلام کی اچھائیاں سُن کر اسلام قبول کر لیتے۔
رسولﷺ اللہ سے میل جول بند
قریش اسلام کو آگے بڑھتا نہ دیکھ سکے ۔انہوں نے اپناغصّہ دکھانے کے لیے رسولﷺاللہ اور اُن کے گھرانے سے میل جول بند کر دیا۔نہ کوئی اُن سے بات کرتا اور نہ اُن کو کوئی سودا فروخت کرتا تھا۔
تین سال تک پیغمبرِﷺ اسلام اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں رہے۔اس زمانے میں آپﷺ نے بہت دُکھ اٹھائے ۔پھر قریش نے ہمارے نبیﷺ اور اُ ن کے گھر والوں کو مکّہ میں رہنے کی اجازت دے دی ۔اس وقت ہمارے نبیﷺ کو اللہ کا رسول مقرّر ہوئے دس سال ہو گئے تھے ۔
دو بڑے صدمے
اسی سال اللہ کے رسولﷺ کو دوبہت بڑے صدمے اٹھانے پڑے ۔پہلے تو آپﷺ کے پیارے چچا فوت ہوگئے ۔پھر چند ماہ بعد آپﷺ کی شریکِ زندگی اور چاہنے والی بیوی حضرت بی بی خدیجہؓ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ہمارے نبیﷺ کو ان دونوں سے بڑا سہارا تھا۔آپﷺ کو اِن دونوں کی وفات کا بہت غم ہوا۔
قریش کو اب تک حضرت ابو طالب کاڈر تھا۔ان کی وفات سے وہ ڈر جاتا رہا۔
طائف کا دورہ
اللہ کے رسولﷺ نے اپنے غم کوصبر سے برداشت کیا۔وہ دین پھیلانے کے لئے ایک اور بستی میں گئے ۔یہ بستی مکّہ سے ساٹھ میل دُور تھی۔اس بستی کانام طائف تھا۔ہمارے نبیﷺ کے ساتھ اُن کے آزاد کئے ہوئے غلام حضرت زیدؓ تھے ۔حضرت زیدؓ ہمارے نبیﷺ کو اتنا چاہتے تھے کہ وہ آزاد ہونے پر بھی اُن کے ساتھ رہے۔
طائف والوں کا برتاؤ
طائف والوں نے اللہ کے رسولﷺسے اچھا برتاؤ نہیں کیا۔انہوں نے آپﷺ کو تکلیفیں دیں اور آپﷺ کے پیچھے آوارہ لڑکوں کو لگا دیا۔اِن لڑکوں نے آپﷺ پر پتھر مارے ۔آپﷺ کو بہت چوٹ لگی ۔آپ ﷺ کے پیروں سے خون بہنے لگا ۔حضرت زیدؓ نے آپ ﷺکے زخم دھوئے ۔
اللہ کے رسولﷺ نے طائف والوں کوبُرا بھلا نہیں کہا۔بلکہ اُن کو معاف کر دیا۔اور ان کے حق میں دعا مانگی ۔ہمارے پیغمبر ﷺ اپنے دشمنوں کوہمیشہ معاف کر دیتے تھے ۔
مدینہ کے لوگوں سے ملاقات
حج کے موقعے پر مدینہ کے لوگ مکّہ آتے تھے ۔رسول اللہﷺ اُن سے باتیں کرتے اور دینِ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ۔دینِ اسلام کی اچھی باتیں سُن کر سو ۱۰۰ سے زیادہ لوگ مسلمان ہو گئے ۔رسول ﷺنے ایک پڑھے لکھے صحابی کو دین کی باتین بتانے کے لئے مدینہ بھیج دیا۔
جن مسلمانوں کو یہ موقع ملا تھا وہ رسولﷺ اللہ کے قریب بیٹھے تھے اور اللہ کے رسولﷺ سے بات چیت کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو صحابیؓ کہتے ہیں ۔
مدینہ والو ں کو رسولﷺ اللہ کی باتیں اتنی اچھی لگیں کہ مدینہ کے مسلمانوں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ و ہ مدینہ چلیں ۔وہاں قیام کریں ۔اور مدینہ میں دینِ اسلام پھیلائیں ۔
اللہ کے رسولﷺ نے خود کوئی فیصلہ نہ کیا۔آپﷺ اللہ کے حکم پر ہر کام کرتے تھے ۔اس وقت تک معراج کا واقعہ پیش آ چکا تھا ۔
چوتھا باب
ہجرت
اللہ کے رسولﷺ کو ہجرت کاحکم مِل گیا ۔آپ ﷺنے صحابۂ کرامؓ کو اللہ کا حکم سُنا دیا ۔مسلمانوں کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ روانہ ہو گئے ۔مکّہ میں صرف چند مسلمان باقی رہ گئے ۔
قریش کامنصوبہ
قریش نے میدان خالی پایا تو انہوں نے رسول ﷺ اللہ کو قتل کرنے کامنصوبہ بنایا ۔اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے حکم سے اُسی رات مکّہ سے مدینہ کو ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا۔انہوں نے اپنے پلنگ پر اپنے چھوٹے اور بہادر چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو سُلا دیا اور ان پر چادرڈال دی ۔
امانتوں کی واپسی
ہمارے نبی ﷺ کے پاس لو گوں کی امانتیں تھیں ۔وہ انہوں نے حضرت علیؓ کے سپرد کر دیں اور اُن سے کہا کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر دیں ۔پھر مدینہ ہجرت کریں ۔
اندھیری رات
اللہ کے بھروسے پر اندھیری رات میں پیغمبرِ خداﷺباہر نکلے ۔اللہ نے دشمنوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔وہ حضورﷺ کو نہ دیکھ سکے ۔رسول اللہ ﷺ سیدھے حضرت ابو بکرؓ کے گھر گئے ۔آپ ﷺ نے اُن کو بتایا کہ ہجرت کاحکم مِل گیا ہے۔دونوں اندھیری رات میں مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔
پہلا قیام
مکّہ سے تین چار میل پر ایک پہاڑ ہے ۔اس کی چوٹی کے پاس ایک غار ہے۔اس غار کو غارِ ثور کہتے ہیں ۔اس پہاڑ کی چڑھائی بہت سخت ہے ۔اللہ کے نبیﷺ تین دن تک اس غار میں چھُپے رہے۔
دشمن کاغصّہ
دشمن رسولﷺ اللہ کے گھر کو رات بھر گھیرے کھڑے رہے ۔صبح کوجب حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کے پلنگ سے اٹھے تو اُن کا غصّہ اور بھی بڑھ گیا ۔انہوں نے فوراًرسولﷺ اللہ کی تلاش شروع کر دی ۔بلکہ ایک بڑا انعام بھی مقرر کر دیا اور کہا جو محمدﷺ کو پکڑ کر لائے گا اُ س کو بڑا انعام ملے گا۔
اللہ ہمارے ساتھ ہے
انعام کے لالچ میں لوگ آپﷺ کی تلاش میں نکلے ۔چند لوگ غارِ ثور کے پاس بھی چلے گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کواپنی جان سے زیادہ اللہ کے رسولﷺ کی فکر ہوئی کہ دشمن سر پر آگیاہے اب کیا ہوگا۔مگر اللہ کے رسولﷺ نہیں گھبرائے اور کہا’’مت ڈرو ‘اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو بچا لیا اور دشمن کے آدمی باہر ہی سے واپس چلا گئے ۔
تین دن
حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ برابر کھانا بھیجتی رہیں ۔اُن کا ایک آدمی بکریاں چراتا ہو اغار کے پاس چلا جاتا تھا ۔وہ چپکے چپکے آپ کو کھانا دے دیتا اور بکریوں کا دودھ پینے کو دے دیتا۔
تیسری رات وہ آدمی تیزچلنے والی دو او نٹنیاں لایا۔اللہ کے رسولﷺ حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کر گئے ۔ہمارا سنِ ہجری مدینہ کی ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے ۔
مسجدِ قُبا
مدینہ کے قریب ایک اونچی بستی تھی ۔اس بستی کانام قباتھا ۔اللہ کے رسول ﷺ نے یہاں قیام کیا اور ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔اس مسجد کو مسجدِ قبا کہتے ہیں۔اس مسجد کے بارے میں قرآن حکیم میں بھی بیان ہے۔چند روز بعد حضرت علیؓ قبا پہنچ گئے ۔اُنہوں نے مکّہ والوں کی امانتیں واپس کر دی تھیں ۔
مدینہ والوں کا شوق
مدینہ کے لوگ رسول اللہﷺ کے مدینہ آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔اس خوشی میں بنو نجار کے گھرانے کی لڑکیاں دف (ایک عربی باجہ )بجا بجا کر گا رہی تھیں ۔بی بی آمنہ کا لال اللہ کا رسولﷺ بن کر مدینہ آ رہا تھا۔
مدینہ میں قیام
مدینہ میں اس وقت سو ۱۰۰ کے قریب مسلمان تھے ۔ہر مسلمان کا جی چاہتا تھا کہ رسول ﷺاللہ اسی کے مہمان ہوں ۔اللہ کے رسولﷺ نے کسی کادل نہ توڑا اور کہا کہ جس گھر کے سامنے میری اونٹنی بیٹھ جائے گی اسی گھر میں ٹھیروں گا۔
ہمارے نبی ﷺ کی اونٹنی بنو نجار کے محلّے میں مدینہ کے ایک مسلمان کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی ۔اُس مسلمان کانام حضرت ابو ایو ب انصاریؓ تھا۔ہمارے پیارے نبیﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مہمان ہو گئے ۔اب اللہ کی عبادت کرنے کے لئے ایک مسجد بنانے کا سوال تھا۔
مسجدِ نبوی کی زمین
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے ایک بڑی زمین خالی پڑی تھی ۔اس زمین کے مالک دو یتیم لڑکے تھے ۔یہ لڑکے اللہ کے نبیﷺ کو زمین کا تحفہ دینا چاہتے تھے ۔لیکن اللہ کے رسولﷺ نے یتیموں سے زمین مفت لینی پسند نہ کی ۔آپﷺ نے لڑکوں کو پیار سے سمجھایا اور حضرت ابو بکرؓ سے زمین کی قیمت ادا کروادی ۔حضرت ابو بکرؓ مال دار تھے ۔انہوں نے اس زمین کو مسجد بنانے کے لئے لڑکوں سے خرید لیا۔
مسجدِ نبوی کی تعمیر
زمین خریدنے کے بعد مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی ۔اللہ کے رسولﷺ کوکام کرنا اور محنت کرناپسند تھا ۔ ان کے دل میں محنت کی بہت عزت تھی ۔وہ تو اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگاتے تھے ۔خود اپنے جوتوں کی مرمت کر لیتے تھے ۔انہوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر مسجد کھڑی کرنے میں حصّہ لیا۔
اس وقت اس مسجد کی دیواریں کچّی تھیں ۔اس مسجد کے ستون کھجور کے تنے سے بنائے گئے تھے ۔ اس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں اور کھجور کے پتّوں سے بنائی گئی تھی ۔اس طرح مسجد تیار ہو گئی ۔یہ مسجدِ نبوی کہلاتی ہے ۔بعد میں اس کو پکّا بنایا گیا اور بڑھایا گیا۔اب بھی اس میں تعمیر کاکام ہو رہا ہے ۔
حُجرے
عربی زبان میں کمرے کوحجرہ کہتے ہیں ۔اس مسجد کی زمین پر ایک طرف اللہ کے نبیﷺ اور اُن کے گھر والوں کے رہنے کے لئے کچّی مٹّی کے حجرے تھے ۔حضرت بی بی خدیجہؓ کی وفات کے چند ماہ بعد پیغمبرِ خدا کا نکاح حضرت ابو بکرؓ کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہو گیا تھا ۔کہتے ہیں حضرت بی بی عائشہؓ کو اُن کی سچائی کی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتے ہیں۔
مہاجر اور انصار
دین کی خاطر مہاجر اپنا گھر بار اورجمی جمائی زندگی چھوڑ کر مکّہ سے مدینہ آئے تھے ۔اب ان کی گُزر کا سوال تھا۔ہمارے نبی ﷺ نے مدینہ کے مسلمانوں کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ مہاجروں کی مدد کریں ۔ مدینہ کے مسلمانوں نے مکّہ کے مہاجروں کو بہت آرام دیا۔وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔مدینہ کے مسلمانوں کو انصار کہتے ہیں ۔انصار مدر گار کو کہتے ہیں ۔
مدینہ کا انتظام
اللہ کے کرم سے رسولﷺ اللہ کی حیثیت مدینہ کے سردار کی سی ہو گئی تھی ۔سب لوگ اُن کی بات سُننے لگے تھے ۔ہمارے نبیﷺ نے مدینہ کے سب قبیلوں کے لوگوں کو جمع کیا۔اِ ن لوگوں میں مدینہ کے انصار ،مکّہ کے مہاجر اور مدینہ کے یہودی وغیرہ شامل تھے۔اللہ کے رسولﷺ نے اُن سب کے سامنے کچھ شرطیں پیش کیں ۔سب نے وہ شرطیں منظور کر لیں ۔
اِن شرطوں میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر مدینہ پر کسی باہر کے دشمن نے حملہ کیا تو سب مِل کر شہر کوبچائیں گے۔اب مدینہ کا پورا بندوبست رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں تھا۔
مدینہ کی زندگی
مسلمان مدینہ میں بے فکری اور چین سے رہنے لگے ۔ان کو عبادت کرنے ،اذان دینے اور نماز پڑھنے کی پوری آزادی تھی ۔وہ بہت خوش تھے ۔مدینہ اُن کا گھر بن گیا ۔اسلام کی اچھی باتیں دیکھ کر مدینہ کے دوسرے لوگ بھی مسلمان ہونا شروع ہو گئے ۔
پانچواں باب
قریش کے حملے
قریش کے تجارتی قافلے ملکِ شام کو جاتے تھے ۔راستے میں اِن قافلے والوں کو مدینہ کی خبریں ملتی رہتی تھیں ۔قریش کو مسلمانوں کاآرام و چین سے بیٹھنا اور اسلام کا اُ بھر نا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس لئے وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کے بہانے ڈھونڈنے لگے ۔
جنگِ بدر
قریش نے لڑائی کا جھوٹا بہانہ ڈھونڈ لیا اور وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے چل پڑے ۔اُن کے لشکر میں ایک ہزار آدمی تھے اور بہت سا لڑائی کا سامان تھا۔
مسلمان ابھی تک مدینہ میں اچھی طرح جمنے بھی نہ پائے تھے اور قریش دینِ اسلام کے خلاف لڑنے آ رہے تھے ۔مگر دین کی حفاظت ضروری تھی ۔دونوں لشکروں کا مقابلہ بدر کے مقا م پر ہوا ۔بدر مدینہ کے نزدیک ایک گاؤں تھا ۔
مسلمانوں کے لشکر میں صرف تین سو تیرہ آدمی تھے ۔اُن کے پاس لڑائی کا سامان بھی بہت کم تھا ۔ مگر مسلمانوں کا ایمان بہت مضبوط تھا ۔اُ ن کو اپنے اللہ پر بھروسہ تھا۔اُن کے دل میں اللہ کے رسول ﷺ کی محبت تھی ۔
رسولﷺ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ خود لڑائی شروع نہ کریں ۔دشمن نے لڑائی شروع کر دی ۔مقابلہ سخت تھا ۔اللہ کے رسولﷺ نے سجدے میں سر جھکایا اوراللہ سے دعا مانگی کہ وہ مسلمانوں کو فتح دے تا کہ مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کر سکیں ۔اللہ نے اپنے رسولﷺ کی دعا سُن لی ۔مسلمان جوش اور بہادری سے لڑے ۔قریش بُری طرح ہار گئے ۔اُن کے کئی بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔وہ میدا ن چھوڑ کر بھاگے ۔بدر کی جنگ ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی ۔
قیدیوں سے بر تاؤ
قریش کے بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے ۔رسولﷺ اللہ کے حکم سے مسلمانوں نے قیدیوں سے بہت اچھا برتاؤ کیا۔کسی پر سختی نہیں کی گئی کہ وہ دینِ اسلام قبول کرے ۔دینِ اسلام سختی سے نہیں پھیلا۔
قریش کا مدینہ پر دوسرا حملہ
جنگِ اُحد
بدر کی ہار کے بعد قریش نے قسم کھائی کہ وہ اس ہار کا بدلہ مسلمانوں سے ضرور لیں گے ۔انہوں نے پھر تیاری شروع کر دی ۔بدر کی جنگ کے ایک سال بعد قریش تین ہزار آدمی لے کر مدینہ کی طرف بڑھے ۔مدینہ سے تین میل دُور اُحد کا پہاڑ تھا۔قریش نے اُحد کے میدان میں ڈیرے ڈال دئیے۔
رسولﷺ اللہ کو قریش کے اس بڑے لشکر کی خبر ملی ۔دین کی حفاظت کے لئے دشمن کامقابلہ ضروری تھا ۔اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ سات سو آدمی تھے ۔اُن کے پاس کھانے پینے کا سامان بہت کم تھا۔اُن کے پاس لڑائی کاسامان بھی بہت کم تھا ۔مگر مسلمانوں کوکسی چیز کی پر واہ نہیں تھی۔وہ دین کی خاطر لڑ رہے تھے ۔وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے ۔
رسولﷺ اپنے لشکر کے ساتھ اُحد پہاڑ کے دامن میں ٹھہرے ۔اُن کے سامنے اُحد کا میدان تھا۔ان کے پیچھے احد کا پہاڑ ایک مضبوط دیوار کی طرح تھا۔اس پہاڑ میں ایک درّ ہ تھا۔درّہ پہاڑ میں سے آنے جانے کے قدرتی راستے کوکہتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس درّے کی حفاظت کے لئے پچاس آدمی کھڑے کر دےئے تھے۔اور ان کوحکم دیا تھا کہ وہ کسی حالت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں ۔
لڑائی زور کی تھی ۔دشمن گھبرا کر بھاگا ۔دشمن کا پیچھا کرنے کو مسلمان بھاگے ۔اُس وقت ان پچاس آدمیوں نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی جن کو رسول اللہ ﷺنے درّے کی حفاظت کے لئے کھڑا کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ کسی حالت میں درّہ نہ چھوڑیں ۔ان پچاس آدمیوں نے رسولﷺ اللہ کے حکم کو یاد نہ رکھا اور درّہ چھوڑ کر چلے گئے ۔درّہ خالی رہ گیا ۔درّے کے پیچھے دشمن کے چند آدمیوں نے موقع دیکھ کر حملہ کر دیا ۔ مسلمان گھبرا گئے ۔
جنگِ اُحد میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے ۔اس لڑائی میں پیغمبرِ خدا کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شہید ہوئے ۔اس لڑائی میں اللہ کے پیارے رسولﷺ بھی زخمی ہوئے ۔میدانِ جنگ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت بی بی فاطمہؓ زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں ۔
قریش نے مسلمان شہیدوں کے ناک کان کاٹے ۔اسلام کے ایک بڑے دشمن ابو سفیان کی بیوی ہِندہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبا لیا۔لیکن دشمن کو مسلمانوں نے بڑی ہمّت کر کے بھگا دیا۔
اُحد کی جنگ ہجرت کے تیسرے سال ہوئی تھی ۔اب مدینہ کے امن کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔قریش کے حملے کا ہر وقت ڈر تھا ۔مدینہ کے اندر یہودی جھگڑا فساد پھیلا رہے تھے۔وہ اپنے وعدے بھو ل گئے تھے۔اس لئے اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کو مدینہ سے نکال دیا۔
قریش کا تیسرا حملہ
جنگِ خندق
ہجرت کے پانچویں سال قریش نے پھر مدینہ پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا ۔اس مرتبہ قریش نے عرب کے دوسرے قبیلوں کے لوگوں کوبھی اپنی مدد کے لئے بلایا۔یہودی بھی قریش کی مدد کو آئے ۔
قریش کے لشکر میں دس ہزار ، بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی تھے ۔دشمن نے سیدھا مدینہ کا رُخ کیا۔
رسول اللہﷺ سب کام دوسروں کی صلاح اور مشوروں سے کرتے تھے۔سب کے مشوروں سے یہ طے پایا کہ مدینہ کے چاروں طرف ایک خندق کھو دی جائے۔خندق کھودنے کاکام شروع ہو گیا۔اس کام میں بھی اللہ کے رسولﷺ نے حصّہ لیااور سب نے مِل کر مدینہ کے چاروں طرف خندق کھود ڈالی ۔
مسلمانوں کے پاس کافی خوراک نہ تھی۔وہ بھوک مارنے کے لئے اپنے پیٹ پر اکثر پتھر باندھ لیتے ۔رسولﷺ اللہ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوتے تھے ۔
رسولﷺ کوئی چیز اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیتے تھے۔
دشمن نے مدینہ کو ہر طرف سے گھیر لیا۔وہ ایک ماہ تک مدینہ کو گھیرے رہے ۔خندق کا مسلمانوں کوبڑا سہارا تھا۔دشمن ایک ساتھ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔مسلمان ہر طرف بہادری سے دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے ۔اس لڑائی میں حضرت علیؓ نے دشمن کے ایک بہت بڑے پہلوان کو قتل کیا۔
سردی کاموسم تھا۔دشمن پریشان ہو گیا۔ایک رات بہت بڑا طوفان آیا۔بہت زور کی آندھی آئی جس سے دشمن کے خیمے اُکھڑ گئے۔دشمن ڈر گیا اور ڈر کر راتوں رات بھاگ گیا۔
تاریخ میں یہ لڑائی جنگِ خندق کے نام سے مشہور ہے۔قریش کا مدینہ پر یہ آخری حملہ تھا۔اس کے بعد انہوں نے کبھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کی ہمت نہ کی ۔
چھٹا باب
ہجرت کے بعد سے رسولﷺ اللہ مکّہ نہیں گئے تھے ۔ہجرت کے چھٹے سال آپﷺ نے عُمرہ کرنا چاہا۔وہ چودہ سومسلمانوں کو لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہوئے ۔مکّہ کے قریب وہ ایک جگہ ٹھہرے جس کا نام حُدیبیہ تھا ۔اُس جگہ پانی کا ایک کنواں بھی تھا۔
قریش کوجب خبر ملی کہ رسولﷺ اللہ مکّہ آ رہے ہیں تو وہ غصّے ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کومکّہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ہم اس سال مسلمانوں کو عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔ قریش نے کہا کہ اس سال مسلما ن مدینہ واپس چلے جائیں ۔وہ اگلے سال عمرہ کرنے آئیں ۔مگر صرف تین دن تک مکّہ میں رہیں ۔مکّہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں ۔
سخت شرطیں
قریش کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکّہ کا کوئی مسلمان بھاگ کر مدینہ چلا جائے تو اس کو واپس کر نا ہوگا۔دوسری شرط یہ تھی کہ اگر مدینہ کا کوئی مسلمان مکّہ آیا تو قریش اس کو واپس نہیں کریں گے ۔
مسلمانوں نے قریش کی یہ شرطیں مان لیں ۔ظاہر میں یہ مسلمانو ں کی ہار تھی۔مگر اللہ نے قرآن شریف میں اس ہار کو جیت کانام دیا اور فرمایا کہ ہم نے مسلمانوں کوکھلی فتح دی ۔فتح کے معنی جیتنے کے ہیں ۔
اگر سوچا جائے تو یہ فتح اس طرح تھی کہ اس ہار سے مسلمانوں میں نیا جوش پیدا ہوگیا۔ان میں نئی ہمّت آگئی اور دِ ن بہ دِن مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔
اللہ کے رسولﷺ نے اگلے سال بہت سے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کیا۔ہمارے نبیﷺ نے حدیبیہ کے صلح نامے کی سب شرطیں پوری کیں ۔سب وعدے پورے کئے ۔قریش کی تکلیفوں سے بچ کر کئی مسلمان مکّہ سے مدینہ بھاگ گئے تھے ۔رسولﷺ اللہ نے اُن مسلمانوں کو مکّہ واپس کر دیا۔اللہ کے رسولﷺ کو یہ معلوم تھا کہ قریش ان مسلمانوں کو بہت تکلیف دیں گے ۔بہت سخت سزا دیں گے ۔مگر ہمارے نبیﷺ نے فرمایا کہ ہم کو اپنا وعدہ ہر حالت میں پورا کر نا چاہیے ،چاہے وہ وعدہ دشمن کے ساتھ کیا گیا ہو۔
دینِ اسلام پھیلانا
اللہ کے رسولﷺ صرف ملکِ عرب کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔ اسلام صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے امن کا پیغام لایا تھا۔اس لئے اسلام کے پیغام کو دوسرے ملکوں میں پھیلانے کی ضرورت تھی۔اللہ کے رسولﷺ نے دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔دینِ اسلام دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شرو ع ہو گیا۔
فتحِ مکّہ
اس وقت مکّہ سازشوں کا اڈّا بنا ہوا تھا۔مکّہ میں ہر روز دینِ اسلام کومٹانے کی سازشیں کی جاتی تھیں ۔ہجرت کے آٹھویں سال رسولﷺاللہ بڑا لشکر لے کر مکّہ کی طرف بڑھے ۔آٹھ سال پہلے مسلمان دین کی خاطر مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تھے۔آٹھ سال میں مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی تھی ۔اُن کی تعداد بڑھ گئی تھی ۔اب وہ اللہ کا دین پھیلانے کے لئے مکّہ کی طرف بڑھے ۔وہ بے دھڑک مکّہ میں داخل ہو گئے ۔قریش خاموش دیکھتے رہے ۔مکّہ فتح ہو گیا۔
اللہ کے رسولﷺ خانۂ کعبہ میں داخل ہوئے ۔آپ ﷺ نے ایک ایک کر کے تمام بُت توڑ ڈالے ۔آپﷺ کہتے جاتے تھے سچ کی فتح ہوئی جھوٹ مِٹ گیا ۔جھوٹ مِٹنے والا ہی تھا ۔یہ دینِ اسلام کی بڑی فتح تھی۔
عام معافی
قریش نے اللہ کے رسول ﷺ کو بہت ستایا تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو بہت دکھ دیئے تھے۔اب دشمن کو ڈر لگ رہا تھاکہ اُن کو سزا ملے گی۔مگر اللہ کے رسولﷺ رحمت بن کر آئے تھے۔لوگوں کو معاف کرنا رسولﷺ کی شان تھی۔وہ بدلہ نہیں لیتے تھے۔جس جس نے معافی مانگی اُن سب کو معافی مِل گئی۔ پیغمبرِ خداﷺ نے بڑے بڑے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا ۔رسول ﷺ کا کرم دیکھ کر بہت لوگ مسلمان ہو گئے ۔آپﷺ نے اسلام کے بڑے دشمن ابوُ سفیان کو بھی معاف کر دیا۔
مکّہ میں ہر طرف سے اذانوں کی آوازیں آنے لگیں ۔مکّہ اللہُ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا ۔مکّہ لا الٰہ الا اللہ کے نعروں سے گونج اُٹھا ۔محمد رسول اللہﷺ کی آوازوں سے گونج اُٹھا ۔اللہ کے رسولﷺ کا بول بالا ہو گیا۔اسلام کا بول بالا ہو گیا۔
فتح مکّہ کے بعد
مکّہ فتح ہونے کی خبر سن کر عرب کے دوسرے قبیلے مسلمانوں کی طاقت سے ڈر گئے۔انہوں نے مِل کر مدینہ پر چڑحائی کا منصوبہ بنایا۔لیکن وہ بُری طرح ہارے۔اب مسلمانوں کی طاقت کوپورے عرب نے مان لیا۔
لوگ اسلام کے بارے میں حالات معلوم کرنے کے لیے مدینہ آنے لگے ۔وہ یہ سوچ کر آتے تھے کہ محمد ﷺ بہت شان سے رہتے ہوں گے۔اُن کا دربار بڑاہوگا۔مگر مدینہ آکر وہ حیران رہ جاتے ۔ یہاں نہ امیری تھی نہ شان تھی۔
اللہ کا رسولﷺ سادگی کا نمونہ تھا۔مسلمانوں کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی۔رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں سب سے بہت محبت سے ملتے تھے۔آپﷺ کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے تھے۔آپ ﷺ چٹائی پر بیٹھتے اور امیر و غریب سب کے سوالوں کا جواب نرمی سے دیتے۔آپﷺ عرب کے سردار تھے۔لوگ اس عرب کے سردار کی سادگی دیکھ کر حیران رہ جاتے ۔بہت سے لوگ آپﷺ کی باتیں سن کر دینِ اسلام قبول کر لیتے ۔بہت سے لوگ ہمارے پیارے نبیﷺ کا چہرہ ہی دیکھ کر مسلمان ہو جاتے ۔وہ آپﷺ کا چہرہ دیکھتے ہی کہتے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے نبی کا نہیں ہو سکتا۔
اللہ کے رسول ﷺلوگوں کو دین کی باتیں بتاتے رہتے تھے۔مگر جو بات وہ لوگوں کو بتاتے اُس پر پہلے خود عمل کرتے تھے۔
انصاف
اللہ کے رسولﷺ کا انصاف غریب وامیر سب کے لیے یکساں تھا۔ایک مرتبہ ایک امیر قبیلے کی عورت نے چوری کی۔اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹناہے۔کسی نے اس امیر عورت کی سفارش کی۔ رسول اللہﷺ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیتا۔آپﷺ نے کہا کہ انصاف کے سامنے امیروغریب سب برابر ہیں۔
ساتواں باب
خطبۂ عرفات
ہجرت کے دسویں سال حج کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ بہت سے مسلمانوں کو لے کر مکّہ گئے ۔ آپ ﷺعرفات کے میدان میں ایک اُونٹنی پر سوار ہوئے تاکہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ سکیں ۔اس وقت تک دینِ اسلام اتنا پھیل گیاتھا کہ عرفات کے میدان میں سوا لاکھ کے قریب مسلمان جمع تھے۔ آپ ﷺنے وہاں خطبہ دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا یہ آخری خطبہ اور آخری حج تھا۔
خطبے میں ہمارے نبی ﷺنے سچائی ،ایمانداری اور انصاف پر زور دیا۔آپﷺنے کمزوروں پر ظلم کرنے کو منع کیا۔آپﷺ نے غلاموں سے برابری کا سلوک کرنے کی نصیحت کی۔
ہمارے نبیﷺ عورتوں کے سب سے بڑے مُحسن تھے۔آپﷺ نے عورتوں کا درجہ بلند کیا۔ آپﷺ نے عورت کو بڑی عزت بخشی ۔آپﷺ نے فرمایا’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس آخری خطبے میں بھی عورتوں کے حقوق کو یاد رکھا۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبے میں بھی مَردوں کو نصیحت کی کہ وہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کریں ۔ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ۔اِس خطبے میں رسولﷺ نے مَردوں کو کُھلے طور پر بتا دیا کہ جیسا مردوں کا حق عورتوں پر ہے ویسا ہی عورتوں کا حق مَردوں پر بھی ہے۔
پیغمبرِخداﷺ نے فرمایاکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔تم لوگ شیطان کے بہکانے میں مت آنا ۔سیدھے راستے پر چلنا ۔بُرے کام نہ کرنا،سُود مت لینا ۔اللہ کو ایک ماننا ۔صرف اللہ کی عبادت کرنا۔کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا۔رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی عبادت کرنے اور پانچوں وقت کی نماز پڑھنے پر زور دیا ۔رسول اللہ مقبولﷺ خود بہت عبادت کرتے تھے ۔آپﷺ نے لوگوں سے کہا: پانچوں وقت کی نماز پڑھنا ،رمضان میں روزے رکھنا اورمال کی زکوٰۃ دینا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ یہ سب نصیحتیں اور یہ سب ذمہ داریاں سب مسلمانوں کیلئے ہیں۔
خطبہ ختم ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اے اللہ تو گواہ رہنا۔میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا ہے۔
بیماری
حج کے دو ماہ بعد صَفر کے مہینے میں رسولﷺ بیمار ہوگئے ۔آپﷺ کی بیماری بڑھتی گئی ۔جب تک آپﷺ میں طاقت رہی آپﷺ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھاتے رہے ۔جب کمزوری بہت بڑھ گئی تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کوحکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں ۔
وفات
ہمارے پیارے نبیﷺکی حالت دِن بہ دِ ن خراب ہوتی گئی۔اور وہ ربّیع الاوّل کے مہینے کی بارہ تاریخ کو اللہ کو یاد کرتے ہوئے اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔اِنَّا لِلّٰہِ و اِ نَّا اِ لَےْہَ رَاجِعُون۔وفات کے وقت ہمارے نبیﷺ کی عمر تریسٹھ سال تھی ۔
رسولﷺ اللہ کی وصیّت کے مطابق آپﷺ کو اسی حجرے میں دفن کیا گیا جس حجرے میں آپﷺ کا انتقال ہوا تھا۔یہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ تھا۔
گنبدِ خضراء
ہمارے نبیﷺ کے روضۂ مبارک کا گنبد سبز رنگ کا ہے ۔عربی زبان میں سبز رنگ کوا خضریا خضراء کہتے ہیں ۔اس سبز گنبد کو اسی لئے گنبدِ خضراء کہتے ہیں۔
آخری نصیحت
اپنی وفات سے پہلے رسول اللہ ﷺنے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیاتھا کہ ہر آدمی (چاہے وہ مرد ہو یا عورت )اپنے اپنے عمل کا خود جواب دہ ہے۔جو آدمی اچھے کام کرے گا اس کے لئے جنت ہے۔جو آدمی بُرے کام کرے گااس کاٹھکانہ دوزخ ہو گا۔دوزخ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔قیامت میں ہر آدمی کے عمل کا حساب ہوگا۔چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔
تیئیس برس
وفات کے وقت حضرت محمدﷺ کو اللہ کا رسول مقرر ہوئے تیئیس برس ہوئے تھے ۔مگر اِن تئییس برسوں میں آپﷺ نے پورے عرب کی کایا پلٹ دی ۔آپﷺ نے عرب کے لوگوں کو انسانیت کا سبق سکھایا۔آپﷺ نے لوگوں کوصرف ایک اللہ کو ماننے کی تعلیم دی۔ہماراپہلا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ محمد الرَّسُوْل اللہ ہے۔جس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں ۔محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔
رسولﷺ نے بندوں کو اللہ کے حقوق اور بندوں پر دوسروں کے حقوق بتائے۔
اللہ کے رسولﷺ نے صرف تئییس برس میں مسلمانوں کو ایک قوم بنا دیا ۔مسلمانوں کو محبت کے رشتے میں باندھ دیا۔اللہ کے رسولﷺ چاہتے تھے کہ محبت پہلے گھر سے شروع ہو۔
رسولﷺ اللہ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ دین کو مضبوطی سے تھامیں اور دین کی تعلیم پر چلیں ۔ اللہ کے رسولﷺنے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہمیشہ مِل جُل کر رہیں ۔آپس میں صلح و اتفاق سے رہیں ۔آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں ۔ملک میں فساد نہ پھیلائیں ۔
مشکلوں پر قابو پانا
ہمارے نبیﷺ کودینِ اسلام پھیلانے میں بہت مشکلیں پیش آئیں ۔دشمنوں نے آپ ﷺ کو بہت تکلیفیں دیں۔دشمنوں نے اسلام کو دبانے کی کوشش کی ۔مگر ہمارے نبی ﷺ مشکلوں سے نہیں گھبرائے۔ انہوں نے تکلیفوں کی پروا نہیں کی۔انہوں نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔آخر اسلام کی فتح ہوئی ۔ سچ کی فتح ہوئی۔
ہمارے نبیﷺ کے پاس نہ دولت تھی اور نہ طاقت ۔شروع میں آپ ﷺ کے مدد گار بھی بہت کم تھے ۔مگر آپﷺ کے پاس خلوص تھا ۔آپﷺ کا بر تاؤ لوگوں سے بہت اچھا تھا۔آپﷺ کی طبیعت میں صبر تھااور برداشت کی طاقت تھی ۔آپﷺ کی اچھائیاں دیکھ کر غیر لوگ بھی آپﷺ کے بن گئے ۔اللہ کے رسولﷺ کو اپنے اللہ پر بھروسہ تھا۔وہ اللہ کے بھروسے اور اس کے حکم پر عمل کرتے تھے ۔
اللہ نے اپنے رسولﷺ پر ایک آسمانی کتاب اُتاری ۔اس کتاب کا نام قرآن ہے۔قرآن میں اللہ کے تمام احکامات لکھے ہیں ۔قرآن کے تمام احکامات انسان کی طبیعت اوراس کے مزاج کے مطابق ہیں ۔قرآن شریف میں ایسا کائی حکم نہیں جس پر عمل نہ کیا جاسکے ۔
اللہ کے رسولﷺ کاکام یہ تھا کہ وہ اللہ کے اِن احکامات کو لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں سے اُن پر عمل کرنے کو کہیں ۔اللہ کے نبیﷺ نے سب سے پہلے خود اللہ کے ہر حکم پر عمل کر کے دکھایا۔
رسولﷺ اللہ کی زندگی
رسولﷺ اللہ کی زندگی ہم سب کے لئے نمونہ ہے۔اللہ کا رسولﷺ مقرر ہونے سے پہلے بھی وہ سچّے ،ایماندار اور نیک تھے۔اسلام کے دشمن تک ان کو صادق اور امین کہتے تھے ۔اور اپنی امانتیں اُن کے پاس رکھواتے تھے۔
ہمارے نبیﷺ نے کبھی کسی کا دل نہیں دُکھایا ۔کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی ۔کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ ہمارے نبیﷺ کمزوروں اور بے کسوں کی مدد کو ہمیشہ تیار رہتے تھے ۔اُن کو پڑوسیوں کے حق کابہت خیال تھا۔ ان کو بیماروں سے ہمدردی تھی۔وہ اُن کی طبیعت پوچھنے جاتے تھے ۔وہ بڑوں کی عزت کرتے تھے اور چھوٹوں پر مہربانی کرتے تھے ۔بچّوں سے بہت محبت کرتے تھے ۔ہمیشہ خود پہلے سلام کرتے تھے ۔
اللہ کے رسولﷺ نے ماں باپ کی محبت تو نہیں دیکھی تھی مگر اُن کو ماں باپ کے درجے کا بہت خیال تھا۔وہ لوگوں کو ماں باپ کی خدمت کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔
پیغمبرِخدا کوغرور کرنا پسند نہیں تھا ۔آپ ﷺنے مسلمانوں کو غرور کرنے سے منع کیاہے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کوکسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرنے کو سختی سے روکاہے۔
رسولﷺ اللہ ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کرتے تھے ۔وہ ہمیشہ انصاف سے کام لیتے تھے ۔اُن کے دروازے سے کوئی سائل(مانگنے والا)خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔مگر وہ لوگوں کو خود اپنی روزی کمانے کو کہتے تھے ۔آپﷺ فرماتے تھے کہ مانگنے کے بجائے محنت مزدوری کرنابہت اچھا ہے ۔
ہمارے پیارے نبیﷺ کو خیرات کرنی بہت پسند تھی ۔وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کوئی چیز گھر میں نہیں رکھتے تھے ۔بلکہ اللہ کی راہ میں سب کچھ خیرات کر دیتے تھے ۔وہ خود بھوکے رہ جاتے اور سائل کا پیٹ بھر دیتے تھے۔لیکن وہ خیرات کرکے کبھی احسان نہیں جتاتے تھے ۔
رسولﷺ کو محنت کرنے والوں اور مزدوروں سے بہت ہمدردی تھی ۔آپﷺ محنت کرنے والوں کو پسند کرتے تھے ۔اُن کی عزت کرتے تھے ۔آپﷺ فرماتے تھے کہ مزدور کو اس کی محنت کا پیسہ فوراً دے دو ۔مزدور کا پیسہ اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔
اللہ کے رسولﷺ نے علم سیکھنے پر زور دیا ہے۔آپﷺ نے عورتوں اور مَردوں دونوں کو علم سیکھنے کو کہا ہے۔آپﷺ کا پیغام ہے کہ عورتوں کے لئے علم سیکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مَردوں کے لئے ۔
اب یہ بالغ عورتوں کاکام ہے کہ وہ علم سیکھیں اور اس پر عمل کریں اور اس نبیﷺ پر درود وسلام بھیجیں جو عورتوں کے سب سے بڑے محسن تھے۔جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن تھے ۔
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد و بارک وسلم
۔۔۔۔۔۔۔