۹ ۔ بدر کا کنواں
سید محمد اسمٰعیل
۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک کنواں ہوں اور میرا مقام مکّہ ؔ اور مدینہ ؔ کے درمیان ہے۔ اس مقام کو بدرؔ کہتے ہیں۔ جب آپ مکّہؔ سے مدینہؔ جائیں گے تو میرے پاس سے گزریں گے ۔میرے پاس پانی پینے کی غرض سے راہ گیر بھی آتے ہیں اور چرواہے بھی ۔ایک دن میری زندگی میں ایسا آیا کہ جس کے بعد میرا چرچا نہ صرف عرب میں ہوا بلکہ آج تک وہ واقعہ اسلام کی تاریخ میں ایک سُنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ بات سنِ ہجری کے دوسرے سال ماہِ رمضان کی سترہ تاریخ کی ہے ۔
ہوا یوں کہ جب مکّہؔ کے مسلمان ہجرت کر کے مدینہؔ جا بسے اور وہاں خُوش و خُر م رہنے لگے تو مکّہؔ کے کافر بہت طیش میں آگئے ۔مکّہؔ کے مہاجر اپنا سارا سامان قریش کے پاس چھوڑ آئے تھے ۔اگر چہ مدینے والوں نے ان کی بہت مدد کی مگر مکّہؔ سے آتے ہوئے مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزرتی تھی کہ وہ مدینے کے لوگوں پر بوجھ بنے رہیں ۔وہ چاہتے تھے کہ اپنے پاؤں پر کھڑ ے ہوں ۔
انھیں ایک دن اطلاع ملی کہ قریش کا سامان سے لَدا ہوا ایک قافلہ شام کی جانب سے آرہا ہے ۔اس قافلے کا سردار ابو سفیانؔ تھا ۔مہاجرین نے یہ مشورہ کیا کہ اِس قافلے کو روک کر اس کاسامان اس مال و دولت کے عوض جو وہ مکّہ میں کافر وں کے پاس چھوڑ آئے تھے ،چھین لیں ۔
جب یہ خبر مکّہؔ پہنچی تو قریشؔ آگ بگولہ ہو گئے ۔اُن کا غصّہ اور بھی بڑھ گیا ۔جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ رسولﷺ کی طرف سے آیا ہوا ایک دستہ جو ابو سفیان ؔ کے قافلے کی خبر لینے آیا تھا، کچھ کافروں پر حملہ آور ہوا اور اس لڑائی میں مسلمانوں نے دو کافر قید کر لئے اور ایک کو مار دیا۔
بس کیا تھا مکّہ والو نے فوراًباہر نکل کر مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ایک ہزار کا لشکر جس میں ایک سو گھوڑے تھے، مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے مکہ ؔ سے چلا۔ادھر نبی اور نبی ﷺ کے ساتھیوں نے کا فروں کا مقابلہ کر نے کے لئے پیش قدمی کی ۔مسلمانوں کا لشکر کفار کے لشکر کے ایک تہائی سے بھی کم تھا ۔کل ۳۱۳ لوگ تھے اور سوائے دو گھوڑوں کے ان کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا ۔جب مسلمان بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابیؓ کے مشورے سے انھوں نے میرے قریب پڑاؤ کیا تا کہ وہ مجھ سے پانی حاصل کرتے رہیں اور کافروں کو یہ پانی نہ مل سکے۔مسلمانوں نے میرے قریب ایک حوض بنایا جس سے وہ خود بھی پانی پیتے تھے اور اپنے جانوروں کو بھی پلاتے تھے ۔ادھر اپنے سازو سامان و ہتھیاروں سے لیس گھوڑوں سمیت کافر بھی آ پہنچے ۔جب قریشؔ کو مسلمانوں کی اس حکمتِ عملی کا پتہ لگا کہ مسلمانوں نے کنویں پر قبضہ کر لیا ہے ۔تو ان میں سے ایک کافر نے قسم کھائی کہ وہ مسلمانوں کا گھیراتوڑ کر پانی پیے گا اور پھر میرے حوض کو ڈھا دے گا ۔پیارے نبیﷺ کے چچا حضرت حضرت حمزہؓ آگے بڑھے اور اس کافر کا کام تمام کر دیا ۔
پُرانے زمانے میں جنگ کا یہی طریقہ تھا کہ پہلے ایک سپاہی آگے نکلتا اور مخالف فوج سے کسی ایک کو للکارتا ۔ایک ایک کی لڑائی کے بعد گھُمسان کارن پڑتا ۔اس دستور کے مطابق عُتبہ ؔ جس کے طائف میں انگوروں کے باغ تھے اور اس کا بھائی شیبہؔ اور اس کا بیٹا ولید ؔ آگے بڑھے ۔اور چیلنج کیا کہ ہے کوئی محمد ﷺکا ساتھی جو ہم سے مقابلہ کرے ؟ اِس چیلنج کے جواب میں مدینہ کے کچھ انصار آگے بڑھے لیکن کفّار نے اصرار کیا کہ وہ مکّہ کے مہاجرین سے لڑنے آئے ہیں ۔یہ بات سُن کر حضرت حمزہؓ ،نبی ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ بن حارث آگے بڑھے اور ان تینوں نے اپنے مخالفین کو ختم کر دیا ۔اس پر کافروں کا سردار ابو جہلؔ چیخا ۔اے مکّے والو آگے بڑھو۔
مسلمانوں نے پہل نہ کی اور کافروں کے حملہ کا انتظار کیا۔جو نہی کافر قریب آئے مسلمان شیروں کی طرح ان پر جھپٹے اور ان کی صفوں کو چیرنا شروع کر دیا ۔مسلمان اللہ اکبر ،اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ لڑائی زوروں پر تھی ۔حضرت ابو بکرؓ کافروں کی بڑی تعداد اور اسلحہ دیکھ کر گھبرا گئے اور نبیﷺ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے مدد مانگیں ۔اِدھر لڑائی زوروں پر تھی اور اُدھر نبی صلعم اپنے رب کے حضور سجدہ میں گرے یہ کہہ رہے تھے ،یا حئی یا قیوم ،یا حئی یا قیوم ،اے قائم و دائم رہنے والے ،اے قائم و دائم رہنے والے ۔
کافی دیر بعد آپ سجدے سے اُٹھے اور ایک مٹھی بھرریت کافروں کی طرف پھینک دی ۔آپﷺ نے حضرت ابو بکرؓ و دیگر مسلمانوں کوخوشخبری دی کہ فتح مسلمانوں کی ہو گی ۔یہ سُننا تھا کہ مسلمانوں کی آوازیں اور بلند ہوئیں اور وہ زیادہ زورو شور سے کا فروں پر وار کرنے لگے ۔اِدھر رسول اکرمﷺ مسلمانوں کو بتا رہے تھے کہ اللہ نے ان کی فتح کا وعدہ کیا ہے ۔اور یہ کہ جو مسلمان اِس جنگ میں کام آگیا اس کو جنّت ملے گی ۔
یہ سُن کر ایک صحابی عمیرؓ ؔ بن حمام انصاری جو ہاتھ میں کھجوریں لئے کھا رہے تھے ،بولے ۔اوہ کیا! اچھی بات ہے کہ میرے اور جنّت میں داخلے کے درمیان کچھ بھی فرق نہیں ماسوائے اس کے کہ میں شہید ہو جاؤں ۔ یہ کہہ کر کھجوریں ہاتھ سے پھینکیں اور کافروں پر زور دار حملہ کیا حتیٰ کہ خود شہید ہو گئے ۔
یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس میں اسلحہ سے لیس ایک ہزار کافر تھے ۔ان میں سے سو گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کے مقابلے میں صرف تین سو تیرہ مسلمان تھے جو جنگ کے معاملے میں زیادہ تجربہ نہ رکھتے تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں کی بھی کمی تھی ۔یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ ایک جانب کفر ہتھیاروں سمیت تھا اور دوسری طرف ایمان شجاعت اور حق ۔فتح آخر حق کی ہوئی ۔
جو کچھ میں نے دیکھا اگر کوئی اور وہاں ہوتا تو اس کا دل دہل جاتا ۔قریشؔ کے ساتھ بڑے بڑے سور ما تھے لیکن ان میں سے ستّر مارے گئے اور چوہتّر قید ہو گئے توقریشؔ میدان سے بھاگنے لگے ۔ مرنے والوں میں ابوجہل بھی تھا۔نبیﷺ اور اُن کے ساتھیوں کے ہاتھوں ذلّت آمیز شکست کھا کر کافر مکّہ لوٹ رہے تھے ان میں سے بیشتر زخمی تھے ۔
اِدھر مُسلمان کامیاب و کامران ۷۴قیدی اوربہت سا مالِ غنیمت لئے مدینہؔ واپس ہوئے ۔ مسلمانوں کے صرف ۱۴ساتھی میرے قریب شہید ہوئے ۔ان شہیدوں کے بارے میں اللہ نے کہا کہ یہ زندہ ہیں اور اللہ کے ہاں ان کو رزق ملتا ہے ۔
یہ فتح ایک معجزہ تھی ۔جب مُسلمان مدینہؔ واپس پہنچے تو مدینےؔ کے مسلمانوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔مدینہ کے وہ لوگ جو اب تک ایمان نہ لائے تھے صرف اس وجہ سے اسلام میں داخل ہو گئے کہ انھیں یقین ہو گیا کہ یہ دین سچّاہے اور اسے اللہ کی مدد حاصل ہے ۔
مسلمانوں نے قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ کچھ قیدیوں کو فدیہ لے کرچھوڑ دیا گیا اور جو فدیہ دینے کے قابل نہ تھے ان سے کہا گیا کہ جو دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے اسے آزاد کردیا جائے گا۔
میں ایک ایسا یاد گار کنواں ہوں جہاں پر مسلمانوں نے باطل کے خلاف پہلی جنگ لڑی اور فتح حاصل کی ۔میں نے حق کو غلبہ پاتے اور باطل کو بھاگتے دیکھا۔
ترجمہ : بے شک باطل بھاگنے والا ہے ۔ سورۃ بنی اسرائیل ،آیت (۸)
قرآن کریم میں اسی معرکے کا ذکر اس طرح آیا ہے :
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں تمھاری مدد فرمائی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزورتھے لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو ۔امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے ۔‘‘
سورۃآل عمران، آیت (۱۲۳)