skip to Main Content

۱۱۔اسلام کا پر چم

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اسلام کا پرچم ہوں۔ اللہ کے اس سچّے دین کا جو آخر ی نبی حضرت محمد ﷺ اس دنیامیں لے کر آئے ۔
میری زندگی میں ناقابل فراموش واقعات ہوئے جنھیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔سب سے پہلے یثرب کی سر زمین سے بلند ہوا ۔یہ وہی شہر ہے جِسے اب مدینہ منوّرہ کہتے ہیں۔ قریش کے مظالم سے تنگ آ کر رسولﷺ اور ان کے ساتھیوں نے اس شہر میں پناہ لی تھی ۔
نبی کریم ﷺ نے مدینہ پہنچ کر مکّہ کے مہاجرین اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا جس کے نتیجے میں مدینہ کے مسلمانوں نے اپنی استطاعت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ مکہ کے مہاجروں کو اپنا بھائی بنا کر اپنے گھر مہمان رکھ لیا ۔انصار (مدینہ کے مسلمانوں )نے میزبانی کی عظیم مثالیں قائم کیں ۔حتیٰ کہ انھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے سامنے اپنا سارا مال رکھ دیا تا کہ وہ آپس میں بانٹ لیں ۔
مہاجرین و انصار کے درمیان اس بے پناہ محبت کے قائم ہونے پر میری مسرّت کی انتہا نہ رہی اور میں مدینہؔ کی فضا میں خوشی سے لہراتا رہا۔
بدرؔ کی جنگ اسلام اور کفر کے درمیان وہ پہلا معرکہ تھا جس میں مَیں مسلمانوں کے اگلے دستے میں ایک مجاہد کے ہاتھ میں تھا ۔میرے تلے مسلمانوں نے بہادری کی عظیم مثالیں قائم کیں اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود انھوں نے کفّار کو زبردست شکست دی تھی ۔
میں نے آسمان سے فرشتوں کو گروہ در گروہ مسلمانوں کی مدد کے لئے آتے دیکھا ۔جب مسلمانوں کو مکمل فتح ہوئی تو میں فضاء میں بہت بلند تھا اور خوشی سے لہرا رہا تھا ۔
غزوۂ اُحدؔ اور غزوۂ خندق ؔ دو ایسے معرکے تھے جن میں اگر اللہ کی غیبی مدد مسلمانوں کو نہ پہنچتی تو ہو سکتا ہے میں سر نگوں ہو جاتا لیکن مسلمانوں نے انتہائی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔ اللہ کے راستے (جہاد) میں ہر تکلیف کو انھوں نے ہنسی وخوشی قبول کیا ۔یہاں تک کہ بہت سے ایسے مسلمان تھے جنھوں نے ہنسی خوشی شہادت کو قبول کیا۔
میرے نیچے آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی۔ ہر معرکے میں ،مَیں بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔
پھر وہ دن بھی آیا جب بُتوں کا جھنڈا مکّہ میں ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہو گیا اور میں مکّہ کی فضا میں بلند ہوا۔پھر کیا تھا دینِ اسلام میں لوگ جوق در جوق داخل ہونے لگے ۔مکّہ کی فتح کو ایک ہی سال ہوا تھا کہ میں جزیرہ عرب کے ہر کونے میں بلند ہوا ۔سال دس ہجری کو میں حج کے موقع پر تقریباًایک لاکھ مسلمانوں کے درمیان بلند تھا ۔مسلمان رسول اکرم ﷺ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے ۔ کس قدر عظیم تھا وہ دن جب نبی ﷺ نے عرفات کے میدان میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا۔ اِس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں ۔
رسولِ اکرمﷺ کی زندگی کے بیشتر واقعا ت میرے سامنے ہوئے۔غزوات میں کوئی غزوہ ایسا نہ تھا جس میں مَیں آپ ﷺ کے ساتھ نہ ہوتا ۔میرا آپ ﷺ کا دن رات کا ساتھ تھا ۔میں آپﷺ کی زندگی کے معمولات بہت قریب سے دیکھتا رہا۔مَیں نے آپﷺ کو بطورِ انسان ،رہنما ،سپہ سالار اور قائد کے بہت عظیم پایا۔آپ ہر لحاظ سے ایک بلند مرتبہ شخصیت تھے ۔نہ میرے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی اتنی طاقت کہ میں مناسب طریقے سے آپﷺ کے اخلاقِ حُسنہ کی باتیں بتا سکوں ۔آپ کی تعریف اس سے بہتر اور کیا ہو سکتی ہے جوخود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں کی ۔
ترجمہ:
’’بے شک آپﷺ بلند اخلاق کے مالک ہیں ‘‘
(سورۃ القلم، آیت: ۴ )
مُسلمان آپﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور میں بھی ۔عرب کے لوگ جوق در جوق آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے ۔مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جاتی۔ وہ آپﷺ سے عہد کرتے کہ اسلام کی تبلیغ کریں گے اور اسلام کے عَلم یعنی مجھے بلند رکھیں گے ۔پھر ایک دن ایسا آیا جب میرا د ل پھٹ گیا۔یہ دن میری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ اُس دن ایک ایسی خبر آئی جس پر بہت سے مسلمان یقین نہیں کر رہے تھے ۔ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے ۔مدینہ میں ہر طرف مسلمان شدید غم میں مبتلا تھے ۔آخر کار حضرت ابو بکرؓ کی آواز بلند ہوئی ۔وہ فرما رہے تھے :
’’جو شخص محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سُن لے محمد ﷺ وصال کر گئے ہیں اور جو شخص اللہ کی عبات کرتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ بے شک اللہ ہمیشہ زندہ و قائم ہے اور اسے موت نہیں آسکتی ۔‘‘
مسلمانوں کی تسلّی کے لیے خدا کا یہ فرمان بہت کارگر ثابت ہوا جو قرآن کریم میں تحریر ہے کہ : (ترجمہ)
’’محمد ﷺ ویسے ہی رسول ہیں جیسے ان سے پہلے رسول آئے (اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا
کر دنیا سے رخصت ہوگئے) اگر رسولِ اکرم فوت ہو جائیں یا خدانخواستہ شہید کر دےئے جا
ئیں تو کیا تم ان کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑ لو گے ۔سُن لو جو اللہ کے راستے سے
منہ موڑتا ہے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ۔عنقریب اللہ تعالیٰ صبرو شکر کرنے والوں کے
ساتھ ہے ۔‘‘ (القرآن ۔سورۃ اٰلِ عمران، آیت: ۱۴۴)
ان قرآنی آیات کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے ایسا لگا جیسے اس سے پہلے میں نے یہ آیات نہ پڑھی تھیں اور نہ سنیں ۔مسلمانوں پر غم کے بادل چھا گئے ۔رنج کی وجہ سے سب پر سکتہ طاری ہو گیا لیکن نبی صلعم کے پیغام کو ابھی آگے پہنچا نا تھا۔ لہٰذا وہ لشکر جس کی روانگی کا حکم نبیﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا۔اُسامہؔ بن زیدؓ کی سر براہی میں شامؔ کی طرف نکل پڑا اور میں اس لشکر کے آ گے آگے تھا ۔
مَیں اُس لشکر میں بھی آگے آگے تھا جسے حضرت ابو بکرؓ نے ان لوگوں کی سر کوبی کے لئے بھیجا جنھوں نے زکوٰۃ (جو کہ اسلا کابنیادی رُکن ہے ) دینے سے انکار کر دیااور دین سے پھر گئے ۔ایک ایسا وقت بھی آیا جب میں سر نگوں ہوتے ہوتے بچا ۔لیکن فتح حق کی ہوئی ۔اسلام سے منہ پھیرنے اور زکوٰۃ سے انکار کرنے والے شکست کھا گئے اور میں بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔کبھی خالد بن ولید کے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی عبیدہ بن جراح کے،کبھی سعد بن وقاص کے ،کبھی عمرو بن عاص اور کبھی اسامہؔ بن زید کے ہاتھ میں۔
مسلمانوں کے سپہ سالار رومؔ اور فارسؔ کے علاقوں میں مجھے بلند کرتے رہے ۔کامیابی نے ہر محاذ پر مسلمانوں کے قدم چومے ۔یہاں تک کہ میں مغرب میں اُندلس اور مشرق میں چین تک پہنچ گیا ۔ میرے نیچے آنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی ۔آج مختلف رنگ و نسل کے تقریباًایک ارب مسلمان میرے سائے میں ہیں ۔کیوں نہ ہوں ’’میں اسلا کا عَلم ہوں ۔‘‘
وہ خوش نصیب عَلَم جسے سب سے پہلے رسولِ مقبول ﷺ نے بلند کیا ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top