۱۰ ۔ جادُو اور سحر کاری کے چکّر
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیرہ نمائے عرب کے کافر اور یہودی حضورﷺ کوبُہت بُری طرح ستاتے تھے ۔آپ ﷺ کو ہراساں اور بددِل کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیّاتی حربے اِستعمال ہُوئے ۔آپ ﷺ پر قاتلانہ حملو ں کی بھر مار کر دی گئی ۔حتیٰ کہ آپﷺ کو ختم کر نے کے لیے کالے جادواور خطر ناک سحر کاری سے بھی کام لینے کی سر توڑکوشِش کی گئی ۔
جادوکی رسّی اور موم کا پُتلا
اُس زمانے میں لبید بن عاصم اور اُس کا خاندان کالے جادُو اور سحر کاری میں بُہت شہرت حاصل کر چکا تھا۔یہود ی اور منافق ہونے کے ناطے سے مدینہ کے یہودیوں سے اُس کے بُہت قریبی مراسم تھے ۔کوئی ۷ھ کے لگ بھگ خیبر کے بعض یہودی مدینہ آئے ۔انھوں نے لبید کو یہودیوں پر ظلم کے مسلمانوں کے مظالم کے من گھڑت افسانے سُنائے ۔اُنھوں نے اُسے بتایا کہ خیبر کے یہودی ساحروں نے حضور ﷺپر بے شمار جادُو کیے مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہُوا۔اُنھوں نے لبید کو یقین دلایا کہ اُس ایسا کایاں جادُو گر ہی اُن کی پریشانیوں کا علا ج کر سکتا ہے ۔لبید کی مٹھّی اشرفیوں سے گرم کرتے ہُوئے اُنھوں نے فرمائش کی کہ حضور ﷺکو ختم کرنے کے لیے کسی بُہت ہی خطر ناک قسم کے جادُو سے کام لیا جائے ۔جادُو گر لبید اس گندے کام کے لیے فوراًآمادہ ہو گیا۔
اُن ہی دنو ں ایک سادہ مزاج یہودی لڑکا حضور ﷺکی سیرت سے متأثّر ہو کر آپ ﷺ کی ذاتی خدمت کے لیے آیا کرتا تھا ۔لبید کے عیّار ٹولے نے اس یہودی لڑکے سے جلد ہی رابطہ قائم کر لیا۔اُنھوں نے اس کی وساطت سے حضورﷺکی کنگھی اور سر کے کچھ بال بھی حاصل کر لیے ۔اِن دونوں چیزوں پر جادو کا عمل کر دیا گیا ،جس میں لبید کی مشہور جادُو گر بہنوں نے بھی حصّہ لیا ۔جادُو شدہ کنگھی اور بال کھجور کے ایک نر گوشہ میں لپیٹ دیے گئے اور سب چیزوں کو جادُو کے ایک خاص عمل سے زر وان میں واقع ایک ویران کنویں کی تہہ میں ایک بڑے پتّھر کے نیچے چھُپا کر رکھ دیا گیا۔
اِس جادُو شدہ سامان کے علاوہ یہ دو اشیاء بھی کنویں میں رکھ دی گئیں :(۱)جادُو شدہ رسّی کا ایک ٹکڑا جس پر گیارہ گرہیں باندھی گئی تھیں ،اور (۲)حضورﷺکا ایک مومی پُتلا جس میں باریک سُوئیاں جا بجا چبھو دی گئی تھیں۔
حضور ﷺکے جسم پر جادُو کا اثر
لبید کا جادُو حضور ﷺکی رُوح اور سیرت کے نبوی پہلُو کو کسی طور متأثّر کرنے میں قطعی ناکام رہا۔آپ ﷺ حسبِ معمول نمازوں کی امامت فرماتے رہے ۔قرآن و سنّت کی تبلیغ و ہدایت باقاعدہ جاری رہی۔مگر کچھ عرصہ بعدآپ ﷺ کے جسم مبارک پر جادُو کے ناروااثرات مرتّب ہونا شُروع ہو گئے ۔آپ ﷺ ایک عجیب سی درد محسوس کرنے لگے جو رفتہ رفتہ شدّت اختیار کرتی چلی گئی ۔آپ ﷺ کا حافظہ کمزور پڑنے لگا ،وزن کم ہو تا گیا ،بینائی بھی کافی متأثر معلُوم ہوتی تھی ۔یہ تکلیف دہ کیفیّت تقریباََایک سال جاری رہی ۔
اُن دنوں جسمانی در دمیں شدّت ہوتی تو آپ ﷺبڑے خشوع و خضوع سے صحت یابی کی دعائیں مانگتے۔ایک رات آپﷺ غنودگی کی حالت میں لیٹے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کی وساطت سے آپ ﷺکو دُشمنوں کی خطر ناک چال سے آگاہ کر دیا۔ساتھ ہی آپﷺ کو لبید کے جادُو کا توڑ بھی بتا دیا گیا ۔چنانچہ حضورﷺ نے پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت کو زروان کنویں کی جانب روانہ کر دیا۔تھوڑی دیر بعد آپ ﷺ خود بھی موقعہ پر پہنچ گئے ۔
جادُو کے توڑ کا قرآنی عمل
کنویں کا پانی مہندی کے پتوں کی طرح گہرا سرخ ہو چکا تھا ۔سارا پانی باہر نکال دیا گیا ۔پتھر کے نیچے سے حضورﷺکی کنگھی اور سر کے بال بر آمد کر لیے گئے ۔گیارہ گرہوں والی رسّی اور حضور ﷺ کا سُوئیوں والا پُتلا بھی کنویں سے باہر نکال لیا گیا۔
یہ کام ہو چکا تو حضور ﷺنے سورہ فلق اور سورہ ناس کی تلاوت شُروع فرمائی ۔ان ہر دو سُورتوں کا ترجمہ یہ ہے :
سُورہ فلق (صُبح)
بِسم اللہ الرّحمن الرّحیم
۱۔ کہو،میں صُبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں ۔
۲۔ ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ۔
۳۔ اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وُہ چھا جائے ۔
۴۔ اور گروہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے ۔
۵۔ اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے ۔
سُورہ ناس (اِنسان )
بِسمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرّحیم
۱۔ کہو ،میں اِنسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں ۔
۲۔ اِنسانوں کے فرماں رواکی ۔
۳۔ انسانوں کے حقیقی معبُود کی ۔
۴۔ اُس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے ۔
۵۔ جو لوگوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ۔
۶۔ (وُہ خواہ )جنّوں میں سے ہوں یا اِنسانو ں میں سے ۔
اِن ہر دوسُورتوں کی تمام آیات کی مجموعی تعداد گیارہ بنتی ہے ۔دونوں سُورتوں کو ملا کر مُعَوِّذَتَےْن کہتے ہیں ۔جُوں جُو ں حضور ﷺمعوذتین کی آیات ایک ایک کر کے تلاوت فرماتے جاتے توں توں رسّی کی گرہیں خود بخود کھلتی جاتیں اور مومی پُتلے کی سُوئیاں باہر نکلتی رہتیں ۔معوذتین کی گیارہ سُورتوں کی تلاوت کے اختتام پر جادُو کی رسّی کی گیارہ گرہیں کھُل چکی تھیں اور مومی پُتلے کی ساری سوئیاں باہر نکل چکی تھیں ۔
اس عمل کے مکمّل ہوتے ہی حضورﷺ کہ طبیعت فوراًہشّاش بشاش ہو گئی اور اُنھیں ایسے محسوس ہُوا جیسے کسی طویل اذیّت سے یک دم نجات ملی ہو ۔
جب حضورﷺکے صحابہؓ کو لبید کی اس خطرناک شرارت کا پتہ چلا تو وہ اُسے ختم کرنے کو اُٹھ کھڑے ہُوئے ۔مگر آپ ﷺ نے اُنھیں روک دیا ۔آپ ﷺنے لبید کوبُلا بھیجا۔اُس نے اپنی مذموم حرکت کا اعترا ف کر لیا۔مگر آپ ﷺ نے اسے مُعاف کر دیااور اُسے نصیحت کرتے ہُوئے فرمایاکہ ’’انسانوں کے خلاف اِس طرح کے جادُو ٹوٹکے اِستعمال کرنا بُہت بُری حرکت ہے ۔‘‘
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
تاریخِ اسلام میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے جادُو کے اس واقعہ کی حقیقت تسلیم کرنے سے صا ف اِنکار کیا ہے ۔مگر ایک زیادہ معقول مکتبِ فکر کا کہنا ہے کہ یہ افسوس ناک سانحہ ایک حقیقت تھی جو فی الواقع ظہور پذیر ہُوئی ۔گو لبید کا جادُو حضور ﷺکی رُوحانی زندگی اور نبوّت کے فرائض پر با لکل اثر انداز نہ ہو سکا،تا ہم حضورﷺ کا جسم اس سے عارضی طور پر ضُرور متأثر ہُوا۔مگر پھر اس جادُو کا علاج بھی قرآنِ حکیم ہی کے ذریعہ سے ہُوا۔
معوذتَین کے علاوہ قرآنِ حکیم میں جادُو وغیرہ کا کئی اور جگہوں میں بھی ذکر ہُوا ہے ۔اور اِنسانی جسم پر اس سے جو اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں ان کی طرف صاف اشارے بھی مُوجود ہیں ۔مگر ایک بات قطعی واضح ہے۔جادُو کے بل بوتے پر اللہ کے نیک بندوں کو اپنے مشن سے ورغلاناناممکن ہے ۔جادُو ٹونہ کی اِسلام میں اجازت نہیں اور یہ کہ اس کے بُرے اثر سے بچاؤ بھی قرآن حکیم کی تلاوت ہی سے ممکن ہے ۔
یہاں ایک اور بات ذہن نشین رکھنا بھی ضروری ہے ۔حضورﷺکے جسم مبارک پر جادُو کا وقتی اثر ایک ایسا سانحہ ہے جو ہر معقول اِنسان کے لیے باعثِ اذیّت ہے۔مسلمان سیرت نگار اگر تاریخی حقائق کو چُھپانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے عادی ہوتے تو وہ اِس تلخ واقعہ کو یا تو بالکل نظر انداز ہی کر دیتے یا اِسے مسخ کر کے اپنے ڈھب سے پیش کر دیتے ۔مگر چونکہ یہ بات اِسلامی روایات کے خلاف تھی ،اس لیے اُنھوں نے اس واقعے کو حضور ﷺکے سوانح حیات میں من و عن بیان کر دیا۔اِس سے اِس حقیقت کی مزید توثیق ہوتی ہے کہ سیرت نگاری میں حضور ﷺکی مُبار ک زندگی کے تمام حالات اور واقعات پُوری صحّت اور صداقت سے بیان ہُوئے ہیں ۔سوانحِ حیات کے بیان کا یہ قابلِ قدر پہلو باقی سب مذاہب میں افسوسناک حد تک غائب ہے ۔