skip to Main Content

۱۳ ۔ جیتی ہُوئی جنگ میں شکست

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ بدرمیں عبرت ناک شکست کے بعد کا فروں میں اِنتقام کی آگ بڑی شدت سے سُلگنے لگی ۔ اُن کے بیشتر سردار اور پیشواہلا ک ہو چکے تھے ۔اُ ن کی یاداُن کے دِلوں میں محو نہ ہُوئی تھی۔قریش کی ہر عورت اپنے باپ،بھائی ،شوہر،بیٹے اور عزیزواقارب کی یاد میں نوحہ کرتی اور آنسُو بہاتی تھی۔اُن کے کئی شاعر اُنھیں بدلہ لینے کے لیے اُکساتے رہتے تھے ۔غرضیکہ مکّہ میں ہر جانب غم واضطراب کے بادل چھائے ہُوئے تھے ۔اور اِنتقام کی آگ پوری طرح شعلہ زن تھی ۔دُوسری طرف ایک خوف ناک مالی بحران اُن کے سر پر منڈلا رہا تھا۔اُنھیں اڑھائی لاکھ درہم سے زائد رقم قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا پڑا ۔مدینہ سے گزرتی ہُوئی شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ پرمُسلمانوں کے قبضہ سے اُن کی تجارت بُہت بُری طرح متأثر ہُوئی تھی ۔نتیجۃً مکّہ کا تقریباًہر گھر اقتصادی بدحالی کا شکار تھا۔چنانچہ جذباتی اشتعال کے علاوہ اقتصادی ویرانی سے نجا ت پانے کے لیے بھی سب چھوٹے بڑے جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔
کفّارِ مکّہ کی لشکر آرائی
آخرکار جب تمام تیّاریاں مکمّل ہو گئیں تو کفّار مدینہ پر لشکر کشی کے لیے اُٹھ کھڑے ہُوئے ۔ پانچ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیّار ہُوا ۔ان میں سات سو زرہ پوش ،دوسو گُھڑ سوار اور تین ہزار اُونٹ سوار تھے ۔لشکر میں عورتوں کا ایک خاص دستہ بھی شامل تھا،جس کی قیادت ابو سفیان کی بیوی ہندہ کر رہی تھی ۔یہ عورتیں دف بجا بجا کر رزمیہ اشعار پڑھتیں اور سپاہیوں کے جذبۂ انتقام کو اُبھارتی تھیں ۔ہندہ یہ اشعار پڑھ رہی تھی :
ہم آسمانی ستاروں کی بیٹیاں ہیں
ہم قا لینوں پہ چلا کرتی ہیں
اگر تم آگے بڑھ کے لڑو گے
تو ہم تُم سے گلیں ملیں گی
اور اگر پیچھے ہٹو گے
تو ہم تُم سے روٹھے رہیں گے
غرض کفّار کا یہ لشکر مکّہ سے بڑی دھوم دھام سے روانہ ہُوا۔راستہ میں جب یہ لوگ ابواء کے مقام پر آنحضورﷺکی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کے پاس سے گُزرے تو بعض مشتعل فوجیوں نے قبر کی توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کرنا چاہی۔مگر کفّار کے سنجیدہ مزاج سرداروں نے اس ناشائستہ حرکت کی اجازت نہ د ی۔ابواء سے یہ لشکر عقیق پہنچا جو کوہِ اُحد کے دامن میں مدینہ سے پانچ میل دُورواقع ہے ۔
مُسلمانوں کی جوابی کار روائی
مسلمانوں کو کفّار کی لشکر کشی کی خبریں لمحہ بہ لمحہ موصُول ہو رہی تھیں ۔اُ ن میں اس معاملے پر اختلاف رائے تھا کہ لشکرِکفّار کا مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے یا باہر نکل کر ۔چونکہ اکثریت شہر سے باہر نکل کر کھُلے میدان میں لڑنے کے حق میں تھی اِس لیے حضورﷺنے اِسی کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ مسلمانوں نے جنگی تیاریاں شروع کر دیں ۔نمازِ عصر کے بعد حضرت محمّد ﷺ نے زرہ پہن لی اور پہلو سے تلوار لٹکا لی ۔آپ ﷺتقریباًایک ہزار فوج لے کر میدانِ جنگ کی جانب روانہ ہُوئے ۔جوشِ جہاد اس قدرعام تھا کہ سخت اصرار کی وجہ سے چند بچّوں کو بھی فوج میں شامل کرنا پڑا ۔بد نام منافق عبداللہ بن اُبی راستے میں بہانہ بنا کر اپنے تین سو آدمیوں سمیت واپس مدینہ کھسک آیا۔لشکرِاسلامی میں اب تقریباًسات سو اَفراد باقی رہ گئے ،جن میں ایک سو زِرہ پوش تھے ۔
اِسلامی فوج نے مدینہ سے تین میل دُور کوہِ اُحد کے دامن میں اپنا پڑاؤڈالا۔مسلمانوں کے پچھلی جانب پہاڑ کے دامن میں ایک درّہ تھا جسے جبل عینین کہتے ہیں ۔خطرہ تھا کہ دشمن اس درّہ سے نکل کر پیچھے سے حملہ آور نہ ہوں ۔اس لیے آنحضورﷺنے شُروع ہی میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ اس درّہ کی حفاظت کے لیے مامور کر دیا ۔دستہ کے سردار عبدالرحمن بن جُبیر مقرّر ہُوئے ۔اُنھیں ہدایت کی گئی کہ فتح ہو یا شکست ،اُنھوں نے کسی صُورت بھی اس اہم پہاڑی مورچہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹنا۔اس لطیف نکتہ کو ذہن نشین رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ جنگِ اُحد میں مسلمانوں کی ہزیمت کا راز اِسی نکتہ میں مضمر ہے کہ جب رسولِ خُدا کے احکام سے تغافل برتا جائے تو کیا حشر بپا ہوتا ہے ۔
شمشیرُِ رسولﷺکے کارنامے
اِسلامی لشکر میدانِ جنگ میں صف آرا ہو گیا۔آنحضورﷺصفوں میں گشت کرتے ۔اُن کی ترتیب و تنظیم کا جائزہ لیتے اور مجاہدوں کو ضروری ہدایات جاری کرتے رہے۔پھر آپ ﷺ نے اپنی ذاتی تلوار ہوا میں لہراتے ہوئے فرمایا:’’کون ہے جو یہ شمشیر لے اور پھر اس کا حق بھی ادا کرے ؟‘‘کئی بہادر جواں حضورﷺ کی شمشیر لینے کے لیے آ گے بڑھے مگر آپﷺ نے اسے کسی کے حوالے نہ کیا۔حضرت ابو دجانہؓ بے حد دلیر مجاہد تھے ۔جب وہ سر پر سرخ پگڑی باندھ لیتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ جنگ میں اسلام کی خاطر خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیّار ہیں ۔اُن کی سُرخ پگڑی کو ’’عمامۂ اجل‘‘بھی کہا جاتا تھا۔آپؓ شمشیر رسولﷺ کے مستحق قرار پائے ۔یہ بُہت بڑا اعزاز تھا۔شمشیر کو تھام کر ابو دُجانہؓ بڑے جا ہ و جلال اور ناز وادا سے لشکرِ اسلامی کی صفوں کے آگے چلنے لگے ۔اُن کی یہ بانکی چال دیکھ کر حضورﷺ نے فرمایا’’یہ وہ چال ہے جسے خُدا اس موقع کے سوا کسی اور مرحلہ پر پسند نہیں کرتا ۔‘‘
کُچھ دیر بعد دونوں فوجیں آمنے سامنے ڈٹ گئیں ۔ایک مغرُور فوج جو تعداد میں کہیں ز یادہ تھی، محض جذبۂ اِنتقام کی تسکین کی خاطر لڑرہی تھی ۔دُوسری فوج تعداد اور سازوسامان میں کہیں کم تھی مگر قوّتِ ایمان اور حُبّ وطن سے سر شار تھی ۔اِکّی دُکّی شمشیر زنی کے بعد عام لڑائی شُروع ہوئی ۔حضرت حمزہؓ ،حضرت علیؓ اور دیگر مسلمان مجاہدوں کی بے مثال جرأت اور ہیبت سے دشمن پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔اسی طرح حضرت ابو دجانہؓ شمشیرِرسولﷺ لہراتے ،دشمن کی صفوں کو چیرتے اور اُنھیں ڈھیر کرتے ہُوئے ہر جانب بجلی کی مانند کُوند تے چلے جا رہے تھے ۔اچانک آپ کی نگاہ ایک کافر سپاہی پر پڑی جو مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا ۔آپؓ فوراًاس پر جھپٹے تو وہ خوف سے عورتوں کی طرح چیخنے چلّانے لگا۔آپؓ نے حیرت سے اُ س کی طرف غور سے دیکھا تو وہ ابو سفیان کی بیوی ہند تھی جو بھیس بدل کر لڑ رہی تھی ۔ابو دجانہؓ نے یہ کہہ کر اُس سے مُنہ پھیر لیا کہ شمشیرِ رسولﷺ کو عورت کے خون میں رنگنا مناسب نہیں ۔
پہلے فتح پھر شکست
اگر چہ لشکرِاسلامی تعداد اور سامان میں بُہت کم تھا تاہم اس کے بہادر سپاہی اس بے جگری سے لڑ ے کہ حملہ آو ر قریش کے دانت کھٹّے ہو گئے ۔مسلمانوں کی شجاعت اور تیغ زنی سے لشکرِکفّار میں خوف و ہراس پھیل گیا۔اُن کے سردار یکے بعد دیگرے ہلاک ہوتے گئے ۔آخرِ کار بدحواسی اور ہزیمت سے اُن کے پاؤں اُکھڑ گئے ۔اُن کو جنگ پر اُبھارنے والی عورتیں بھی نرغے میں آ گئیں ۔برکت و سعادت کے لیے وہ اپنا ایک بُت بھی میدانِ جنگ میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔اِنتشار اور سراسیمگی کے ماحول میں وہ بُت بھی مُنہ کے بل زمین پر گر پڑا۔انتہائی اضطراب اور بد حواسی کے عالم میں کفّارِ مکّہ اپنے بُت کو مسلتے ہُوئے میدانِ جنگ سے بھاگنا شُروع ہُوئے ۔
جنگِ اُحد میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہُوئی ۔کفّارِ مکّہ کے عظیم لشکر نے اپنے سے کہیں چھوٹی اور بے سروسامان فوج کے ہاتھوں بُہت بُری شکست کھائی ۔مسلمانوں نے بھاگتے ہُوئے کفّار کا کافی دُور تک پیچھا کیا۔اور پھر وہ دفعتاًمال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ۔دولت کی ہوس نے اُنھیں دُشمن کا زیادہ دُور تک تعاقب کرنے سے روک دیا۔تیر اندازوں کے اُس دستہ نے جو آنحضورﷺ کی ہدایات کی تعمیل میں گھاٹی کے درّہ کی حفاظت پر مامور تھا جب فاتح مسلمانوں کو مالِ غنیمت پر لپکتے دیکھا تو اُن کے مُنہ میں بھی پانی بھر آیا اور وُہ اپنا اہم مورچہ چھوڑ چھاڑ کر لُوٹ مار میں شریک ہونے کی تیاری کر نے لگے ۔اس پر اُن کے سردار نے اُنھیں مورچہ پر ڈٹے رہنے کی بُہت تلقین کی ،مگر بے سُود ۔چنانچہ صرف چند ایک فرض شناس تیر انداز ہی اُس پہاڑی درّہ پر بد ستور ڈٹے رہے ۔باقی سب نے مالِ غنیمت کے لالچ میں آکر مورچہ چھوڑ دیا اور میدان میں کُود پڑے ۔
صورتِ حال بدلنے لگی تو تھوڑی دیر بعدکفّار کے بھاگتے ہُوئے سپاہی پلٹا کھانے لگے ۔اسی دوران خالد بن ولید (جو ابھی مسلمان نہیں ہُوئے تھے )کی سرکردگی میں کفّار کا ایک تازہ دم دستہ اُدھر آ نِکلا ۔پہاڑی مورچہ کو کمزور پا کر یہ دستہ اس سمت سے مسلمانوں پر حملہ آور ہُوا۔خالد نے آگے بڑھ کر زور سے نعرہ لگایا ۔کفّار کی شکست خوردہ فوج میں گویا پھر سے جان پڑ گئی ۔اور اُن کے بھگوڑے سپاہی میدانِ جنگ میں لَوٹنے لگے اور ےُوں لڑائی کا بازار پھر گرم ہو گیا۔درّہ پر موجود دس تیر انداز کفّار کے ریلے کو روکنے میں ناکام رہے اور ایک ایک کر کے شہید ہو گئے ۔بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت ابھی تک مالِ غنیمت سمیٹنے میں مگن تھی ۔اُنھیں کوئی خبر نہ تھی کہ جنگ کاپانسہ بڑی تیزی سے پلٹ رہا ہے ۔ مسلمان سپاہی منتشر ہو چکے تھے ۔موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کفّار کا زخم خورد ہ لشکر ایک اُ منڈ تے ہُو ئے سیلاب کی طرح پھر آگے بڑھا اور آناًفاناً لوٹ کھسوٹ میں محو مسلمانوں کو چاروں طرف سے اپنے نرغے میں لے لیا۔چنانچہ وُہی مُسلمان جو چند لمحے قبل جارحانہ انداز میں آ گے بڑھ رہے تھے ،اب اپنی جانیں بچانے پر مجبُور ہو چُکے تھے ۔اپنے رسُولﷺ اور دُور بین سپہ سالار ﷺکے ایک حُکم سے غفلت اُنھیں بُہت مہنگی پڑی تھی ۔
وحشی کے ہاتھوں حمزہؓ کی شہادت
میدانِ اُحد میں حضرت حمزہؓ حسبِ معمول بڑی شجاعت سے لڑ رہے تھے ۔اِس سے پہلے جنگِ بدر میں آپؓ نے کفاّر کے جن سرداروں کوموت کے گھاٹ اُ تارا تھا۔اُن میں ہند کا باپ عُتبہ بھی شامل تھا۔ ہند اُس وقت سے باپ کے انتقام کی آگ میں بُری طرح جل رہی تھی ۔اُس نے ایک حبشی غلام وحشی سے یہ بات طے کررکھی تھی کہ اگر وہ حضرت حمزہؓ کو ہلاک کر دے تو اُسے مالامال کر دیا جائے گا ۔وحشی کے آقا جبیر بن مطعم کا چچا طعیمہ بھی جنگِ بدر میں ہلاک ہو چکا تھا۔اُس نے بھی وحشی سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ اگر وہ اُس کے مقتول چچا کے بدلے رسول ﷺ خدا کے چچا حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اُسے آزاد کر دیا جائے گا۔
وحشی محض اسی کام کے لیے جنگِ اُحد میں شریک ہُوا تھا ۔اُسے حبشیوں کے اُس طریقِ نیزہ بازی پر پُورا عبُور حاصِل تھا، جو بے حد مہلک ثابت ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ درختوں اور چٹانوں کی اوٹ میں چھُپتا چھُپاتامُسلمانوں کی صفوں کے بُہت قریب جا پہنچا ۔اُس نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ ایک جگہ کفّار کے سپاہیوں کو تہہ تیغ کرنے میں ہمہ تن مشغول ہیں ۔اُس نے نشانہ باندھ کر نیزہ پھینکا۔نشانہ عین ٹھکانے پر لگا ۔حضرت حمزہؓ بُہت بُری طرح زخمی ہو گئے اور لڑ کھڑا کر وحشی کی جانب لپکے مگر گِر پڑے اور وہیں شہید ہو گئے ۔وحشی اس حرکت کے بعد میدانِ جنگ سے کھسک گیا کیونکہ اُس نے اپنا کام مکمّل کر دیا تھا۔
مسلمان مجاہد دھڑا دھڑگر رہے تھے ۔ہند اور اُس کی ساتھی عورتیں شہیدوں کی نعشوں کی بے حُرمتی اور اُن کے اعضاء کی قطع و برید میں مصروف ہو گئیں ۔اُنھوں نے اُن کا کان اور ناک کاٹ کاٹ کر اُن کے ہار ،کنگن اور پازیب بنائے ۔پھر اُنھیں زیب تن کر کے بڑے غُرور سے اِدھر اُدھر ٹہلنا شُروع کیا۔ ہند نے شہیدوں کے کاٹے ہُوئے اعضاء کے ہار پہن کر اپنے اصل زیورات اُتار دیے اور اُنھیں وحشی کو بطورِ انعام دے دیے۔ہند نے انتہائی درندگی سے حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کیا اور جگر نکال کر چبانا شروع کیا۔وہ اِسے نگل نہ سکی ۔تو زمین پر تھوک دیا۔اس کے بعد وہ شیطان سیرت عورت ایک اونچے ٹیلے پر جا بیٹھی اور چیخ چیخ کر گندے مندے رزمیہ اشعار پڑھنے لگی جن کا لب لباب یہ تھا کہ اُس نے آخرِکار اپنے مقتول والد کا انتقام لے لیا ہے اور شہیدوں کی نعشوں کی بے حُرمتی سے اُس کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ گئی ہے۔کچھ عرصہ بعد ابو سفیان بھی حضرت حمزہؓ کی نعش کے پاس سے گزرا ۔آپؓ کے رخسار کو اپنے نیزہ کی نوک چبو کر بولا:’’اِسے بھی چکھو !او باغی !‘‘
مسلمانوں پر مُصیبتوں کے پہاڑ
مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔حضرت مصعبؓ بن عمیر کی شکل و صورت حضورﷺ سے کافی ملتی جلتی تھی ۔جب وہ شہید ہو گئے تو دُشمنوں نے شور مچا دیا کہ ’’محمدﷺ ہلاک ہو گئے ہیں ۔‘‘یہ افواہ آناً فاناً سارے میدانِ جنگ میں پھیل گئی ۔مسلمانوں کے دِل ٹوٹ گئے ۔حتیٰ کہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی بد دل ہوکر تلواریں پھینک دیں اور افسردہ خاطر ہو کر پہاڑ کے ایک گوشے میں دبک کر بیٹھ گئے ۔بعض مسلمان سپاہی تو انتہائی بد حواسی کے عالم میں ایک دُوسرے پر ہی وار کرنے لگے ۔چنانچہ حضرت ابو حذیفہ غلطی سے کسی مسلمان ہی کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔
کفّار مسلمانوں پر چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہے تھے ۔اُن کی یلغار اس قدر شدید تھی کہ آنحضورﷺبھی شدید زخمی ہو گئے۔آپﷺکے دندانِ مبارک بھی شہید ہوگئے ۔ہونٹوں پر بھی گہرے زخم آئے ۔اِ س کے باوجود آپﷺ سنبھلے رہے اور ساتھیوں کے ساتھ دفاع پر ڈٹے رہے ۔ کفّار نے میدانِ جنگ میں ایک گڑھا کھود کر اُس کا مُنہ گھاس پھُونس سے ڈھانپ رکھا تھا۔دشمن کے ہجوم سے بچ بچا کر آپﷺ اُدھر سے گزرے تو اُس میں گر پڑے ۔حضرت علیؓ نے آپ ﷺ کا ہاتھ تھاما اور حضرت طلحہؓ نے سہارا دے کر آپ ﷺ کو اس خطر ناک گڑھے سے باہر نکالا۔
اصحابہ نے آپﷺ کو چاروں طرف سے اپنے حفاظتی گھیرے میں لے رکھا تھا تا کہ دشمن اور اُن کے تیر آپﷺ تک نہ پُہنچ سکیں ۔حضرت کعبؓ نے آپﷺ کو اچانک دیکھ لیا تو وہ خوشی سے بے اختیار پُکار اُٹھے ’’مسلمانو!خوشخبری ہو ۔نبی ﷺ یہاں (زندہ )موجود ہیں ۔‘‘حضورﷺنے اشارے سے حضرت کعبؓ کو اُونچی آواز سے اعلان کرنے سے منع فرمایا۔مگر اُس وقت تک آپﷺ کے حیات ہونے کی خوش خبری تمام مُسلمان سُن چکے تھے ۔وہ سب آپﷺ کی جانب پلٹے اور اپنی مُنتشر صفوں کو ازسرِ نو ترتیب دینے لگے۔کعبؓ کا اعلان کفّار نے بھی سُن لیا تھا ۔اُنھیں اس بات پر سخت مایوسی ہُوئی کہ حضورﷺاُن کی زد سے بچ نکلے ہیں ۔چنانچہ وہ مختلف سمتوں سے حضورﷺ پر پے در پے حملہ آور ہوتے رہے مگر جان نثار مسلمانوں کا حفاظتی دستہ اپنی جانوں پر کھیل کر آپﷺ کا دفاع کرتا رہا۔اس وقت تک آپﷺ بُہت زخمی ہو چکے تھے ۔حضرت علیؓ ،حضرت عائشہؓ،حضرت فاطمہؓ اور حضرت ابو عبید ہؓ بن جرّاح نے آپﷺ کے زخموں کی مرہم پٹّی کی ۔اتنے میں خالد بن ولید ایک دستہ لے کر آپﷺ پر پھر حملہ آور ہُوا۔مگر مسلمانوں نے اُنھیں مار بھگایا۔اِسی دوران حضورﷺاس قدر نحیف اور تھکان زدہ ہو چکے تھے کہ آپﷺنے جبلِ اُحد پر بیٹھ کر نمازِظہر ادا فرمائی۔آپﷺ کے ساتھ صحابہؓ نے بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھی ۔اِس جنگ میں عمارہؓ بن زیاد بھی شہید ہُوئے ۔اُنھیں یہ قابلِ رشک سعادت نصیب ہُوئی کہ اُنھوں نے جان دیتے ہُوئے اپنے رخسار حضورﷺ کے تلوؤں سے لگا دیے تھے ۔
کفّار اپنی فتح پر آپے سے باہر ہو چکے تھے ۔کبھی کبھی وہ اپنے بر گزیدہ بُتوں کے نام لے لے کر جنگی نعرے بھی لگاتے تھے۔وہ خوش تھے کہ اُنھوں نے جنگِ بدر میں اپنے مقتولوں کا بدلہ لے لیاہے ۔جنگ مدّھم پڑی تو ابو سفیان نے فخر اور تکبّر سے اعلان کیا :’’ہم نے بدر کار بدلہ تو جی بھر کے لے لیا ہے ۔اب ہم اگلے سال تم سے پھر نمٹیں گے ۔‘‘اُدھر اُن کی بے لگام عورتوں نے شہداء کی نعشوں کی بے حرمتی جاری رکھی ۔شہیدوں کے کاٹے ہوئے اعضاء کے ہار پہنے ہند بڑے غرور سے اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی رہی ۔ اس سفّاک عورت نے حضر ت حمزہؓ کی نعش کا چہرہ تو بالکل مسخ کر دیا تھا ۔کفّار کی ان وحشیانہ حرکتوں سے حضورﷺ بے حد رنجیدہ تھے ۔مگر آپ ﷺ نے حکم دیا ہُوا تھا کہ مسلمان انتقاماًایسی بہیمانہ حرکتوں سے باز رہیں ۔
فاتح کفّار کے صرف تیس افراد ہلاک ہُوئے تھے ۔جنگ کے اختتام پر وہ اپنے مُردوں کو دفن کر کے واپس مکّہ روانہ ہو گئے ۔اِس کے بعد مسلمانوں نے اپنے شہیدوں کی تکفین و تدفین کا اہتمام کیا۔کل ستّر مسلمان شہید ہُوئے تھے ۔
لَوٹتے ہُوئے دُشمن کا تعاقُب
اگلے روز حضورﷺ نے صحابہ کو جمع کیا اور آیندہ لائحہ عمل پر سوچ و بچار ہُوا ۔فیصلہ یہ ہُوا کہ مکّہ لَوٹتے ہُوئے دُشمن کا تعاقب کیا جائے تا کہ اس قسم کے جرأت مندانہ اقدام سے مسلمانوں کے حوصلے ازسر نو بلند ہوں اور اُن کے غم و اضطراب کا قدرے مداوا ہو ۔چنانچہ ستّر آدمیوں کا ایک دستہ لشکرِ کفّار کے تعاقب میں فوراًروانہ کر دیا گیا ۔کچھ عر صہ بعد آپﷺ خود بھی باقی ماندہ فوج لے کر کفّار کے تعاقب میں نکل پڑے ۔مسلمان مدینہ سے آٹھ میل دُور ایک مقام حمراء الاسد تک جا پہنچے ۔اس وقت ابو سفیان اور اُ س کا لشکر ایک قریبی گاؤں رُوحا میں رُکے ہُوئے تھے ۔کفّار کو یہ حسرت ستا رہی تھی کہ جی بھر کر مسلمانوں کا پُوری طرح صفایا نہ کر سکے ۔اِس لیے وہ مکّہ کی جانب واپسی ملتوی کر کے دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیّاری کر رہے تھے ۔
جب اُنھیں معلوم ہُوا کہ اُ ن کا تعاقب ہو رہا ہے تو وُہ عجب شش و پنج میں پڑ گئے ۔دوبارہ مقابلہ میں آنے سے شکست کا ڈر بھی تھا ۔مکّہ کی جانب بھاگ نکلنے میں غیرت و عزّت پر حرف آنے کا خطرہ بھی لاحق تھا ۔اسی حالت میں کفّار نے حضورﷺ کو خوف زدہ کرنے کے لیے ایک نفسیاتی چکّر چلایا ۔ انھوں نے یہ جھُوٹ موٹ پیغام بھیجا کہ ’’ابو سفیان مسلمانوں کے دانت کھٹّے کرنے کے لیے پھر پلٹ رہا ہے ۔‘‘حضورﷺ یہ دھمکی موصول ہونے پر بھی اپنے عزم پر ڈٹے رہے او رحمراء الاسد میں پورے تین دن ابو سفیان کا اِنتظار کرتے رہے ۔اسلامی لشکر نے تین رات آگ کا بڑا اَلاؤ روشن کیے رکھا تا کہ کفّار پر واضح ہو جائے کہ مُسلمان دوبارہ مقابلہ پر تُلے بیٹھے ہیں ۔
مسلمانوں کو عزم و جرأت سے ڈٹا دیکھ کر ابو سفیان اور اُس کے لشکر کے حوصلے پست ہو گئے ۔ اُنھوں نے اسی میں خیریت سمجھی کہ چُپکے سے مکّہ لَوٹ جائیں ۔رُوحا سے کفّار کے کوچ کے بعد مسلمان بھی واپس مدینہ لوٹ آئے ۔حضورﷺ کے اس دانش مندانہ تعاقب سے ہزیمت خوردہ مسلمانوں کے پریشان ذہنوں سے اُحد کی شکست کا بوجھ قدرے ہلکا ہُوا اور وُہ نقصان کی تلافی اور آیندہ لائحہ عمل کی تیّاری میں از سرِنو منہمک ہو گئے ۔
غم کی گھٹائیں اور دُشمنوں کے طعنے
جنگِ اُحد میں صاف فتح کے بعد ذلّت آمیز شکست پر مسلمانوں کو بے حد رنج تھا ۔مدینہ پر ہر جانب افسردگی کے بادل چھا ئے ہوئے تھے ۔چونکہ مسلمانوں کا بُہت زیادہ جانی نقصا ن ہُوا تھا اِس لیے کُچھ عرصہ تک توتمام مدینہ ماتم کدہ بنا رہا ۔غم زدہ عورتیں شہیدوں پر زور زور سے نوحہ اور بَین کرتی تھیں ۔ وہ اپنے کپڑے پھاڑتیں ،گالوں پر تھپڑ مارتیں اور وحشت سے چیختی چلّاتی تھیں ۔اظہارِ غم کی یہ رسوم جاہلیہ کے زمانہ سے چلی آ رہی تھیں ۔آنحضورﷺ نے انھیں ترک کرنے کا بڑی سختی سے حُکم دیا۔
مدینہ کے یہودی اور منافق مسلمانوں کی ہزیمت پر بُہت خوش تھے ۔وہ اکثر مسلمانوں کو طرح طرح کے طعنے دیا کرتے تھے ۔زیادہ مُنہ پھٹ دُشمن مسلمانوں سے طنز اًپُوچھا کرتے تھے کہ ’’اگر جنگِ بدر میں مسلمانوں کی فتح حضورﷺ کی صداقت کا ثبوت تھی تواُحد کی شکست کا مطلب کیا تھا؟‘‘مسلمان یہ سب طعن و تشنیع صبر و تحمل سے بر داشت کرتے رہے اور اپنے مقدّس مشن کی تکمیل کے تمام منصوبوں میں ہمہ تن مصروف رہے ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top