شرارت سے شرافت تک
عبدالقادر
آتا ہے یاد مجھ کو ، اسکول کا زمانہ |
میری شرارتوں کا ، ہر فرد تھا نشانہ |
میری رگوں کے اندر، بسنے لگی شرارت |
پھر مجھ کو دھیرے دھیرے، حاصل ہوئی مہارت |
کرسی اساتذہ کی ، میں کھینچتا تھا اکثر |
لگتی تھی چوٹ اُن کو، گرتے تھے جب زمیں پر |
میری شرارتوں سے ، تنگ آگئے تھے ٹیچر |
پڑتی رہی ہمیشہ ، بیدوں سے مار مجھ پر |
باغوں سے پھل چرانا، میری تھی خاص عادت |
مالی کو تنگ کرکے، ملتی تھی مجھ کو راحت |
گرتے تھے لوگ نیچے، جب ٹانگ میں اڑاتا |
اٹھنے سے پہلے اُن کے ، میں دُور بھاگ جاتا |
بنتا رہا میں اکثر ، مہمان بن بلایا |
شادی گھروں میں میں نے ، کھانا مزے سے کھایا |
اپنی غلیل سے جب ، میں پھینکتا تھا پتھر |
لگتا وہ سیدھا جا کر، شیشے کی کھڑکیوں پر |
مجھ کو شرارتوں سے ، ملنے لگی تھی شہرت |
| | کچھ کارگر نہیں تھی ، مجھ پر کوئی نصیحت | | |
| | گھٹی میں میری شاید ، ڈالی گئی شرارت | | |
مجھ کو شرارتوں سے ، آتی نہ تھی کراہت |
کپڑوں پہ دوسروں کے، چھڑ کی ہے روشنائی |
اپنے قلم سے میں نے ، اِک سنچری بنائی |
اکثر میں باندھتا تھا ، لوگوں کے پیچھے رسی |
یوں دُم لگا کے میں نے ، اُن کے ہنسی اُڑائی |
آواز ریڈیو کی ، کرتا تھا خوب اونچی |
کمرے میں اسٹڈی جب، کرتے تھے میرے بھائی |
چہرے پہ ماسک رکھ کر، پھیلائی میں نے دہشت |
ایسی شرارتوں پر ، جوتوں سے مار کھائی |
گنجے کے سر پہ اک دن ، میں نے چپت لگائی |
اُس نے پلٹ کے فوراً، پکڑی مری کلائی |
کہنے لگا کہ ’’مجھ سے ، کیا دشمنی ہے بھائی؟ |
شوخی دکھائی تم نے ، اب میری باری آئی |
جیسا کیا ہے تم نے، ویسا ہی میں کروں گا |
تم جانتے نہیں ہو ، میں ہوں سلیم نائی ‘‘ |
پھر استرا نکالا ، اور میرے سر پہ پھیرا |
بس پانچ ہی منٹ میں، سر کی ہوئی صفائی |
بچوں کے اک گروہ سے ، بولا وہ گنجا نائی |
’’سر پر چپت لگا کر، کرتے رہو پٹائی‘‘ |
بچوں نے ہر طرف سے ، سر پر چپت لگائی |
میں بن گیا تماشا ، اور نانی یاد آئی |
میں دوستوں کو لے کر، گنجے کے پاس پہنچا |
ہم سب نے مل کے اسکی، چھڑیوں سے کی دُھنائی |
اِک روز باغ میں جب، انگور میں نے توڑے |
مالی نے میری اُس دن ، ڈنڈے سے کی پٹائی |
چند روز بعد مالی ، میری گلی میں آیا |
غصے کی آگ میں نے ، اُس روز یوں بجھائی |
میں نے اچھل اچھل کر ، لاتوں سے اُس کو مارا |
پچیس کِک لگا کر ، تسکین میں نے پائی |
پھر میری زندگی میں ، اک انقلاب آیا |
اک پارسا بشر تک ، میری ہوئی رسائی |
اُس مرد حق نے میری ، حالت بدل کے رکھ دی |
اُس نے شرارتوں سے ، نفرت مجھے دلائی |
اچھا ہے میرا رہبر ، وہ مرد نیک سیرت |
کرتا ہے ہر قدم پر ، وہ میری رہ نمائی |
ساری شرارتوں سے ، کر لی ہے میں نے توبہ |
اب دور ہو گئی ہے ، ہر قسم کی برائی |
نیکوں کے ساتھ رہ کر، جو زندگی گزارے |
پائے گا اس جہاں میں ، وہ خیر اور بھلائی |
| | صحبت کا ہر بشر پر، ہوتا اثر ہے گہرا | | |
| | صحبت ہے نیک جس کی ، اُس نے مراد پائی | | |
*۔۔۔*
Facebook Comments