ایک چمچہ
سیدہ انجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تم دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہوتو چھلکا بھی چھپا دیا کرو،
ہوسکتا ہے کسی کو دیکھ کر تکلیف ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوں ہی حسنین صاحب دفتر سے گھر میں داخل ہوئے تو جنید کو آوازیں دینے لگے۔ اس بے چینی کی وجہ وہ تحفہ تھی جو وہ جنید کے لئے بڑی محبت سے لے کر آئے تھے۔ جنید کے پہلی جماعت میں پاس ہونے کی انہیں بھی اتنی ہی خوشی تھی جتنی جنید کو تھی۔ حسنین صاحب جنید سے بہت محبت کرتے ہیں اور جنید بھی حسنین صاحب سے بہت محبت کرتا تھا۔ جنید کی والدہ ثریا کو حسنین صاحب کے گھر کام کرتے ہوئے پانچ سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔ جنید اس گھر کا فرد تھا۔ حسنین صاحب ایک نجی فرم میں شعبہ مارکیٹنگ میں انچارج کی حیثیت سے وابستہ تھے۔ یوں یہ گھرانہ ایک متوسط خوشحال گھرانہ تھا۔ حسنین صاحب کے دو بیٹے وقار، وقاص جو سیکنڈ ایئر اور فرسٹ ایئر میں پڑھتے تھے ایک بیٹی یمنیٰ جو چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ حسنین صاحب بڑے مُشفق اور نرم دل انسان تھے۔ اس کے برعکس حسنین صاحب کی بیگم فرحانہ ان کے تینوں بچے حد درجہ کے بے حس تھے۔ بے حسی کے رویے پر ان کی اکثر آپس میں جھڑپیں بھی ہوجاتیں۔ بھلا چکنے گھڑے پر بھی کبھی پانی ٹھہرا ہے۔ اس کے باوجود حسنین صاحب اپنا فرض خوب نبھایا کرتے تھے۔
حسنین صاحب اردگرد تلاش کرنے کے بعد جب بیٹھک میں داخل ہوئے تو وہاں یمنیٰ سے جنید کے بارے میں دریافت کیا۔ یمنیٰ اس وقت اسکول کا کام کررہی تھی۔ ابو کے دریافت کرنے پر اُس نے جواب دیا ’’ابو اُسے امی نے نکال دیا ہے‘‘۔ ’’نکال دیا ہے وہ کیوں؟‘‘ حسنین صاحب نے حیرانی سے یمنیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ’’ٹھہریے! میں آپ کو بتاتی ہوں قصّہ کیا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے بیگم فرحانہ باورچی خانے سے ہاتھوں کو پونچھتی ہوئی بیٹھک میں داخل ہوئیں۔ ’’اصل میں، میں نے جنید کو رنگے ہاتھ چوری کرتے ہوئے پکڑا‘‘۔ ابھی بیگم حسنین کا جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ حسنین صاحب نے کڑک دار آواز میں کہا ’’ہرگز نہیں یہ بالکل بکواس ہے، میں نہیں مانتا‘‘۔
’’کیا مطلب! ابو یعنی آپ اس چور!‘‘ (قریبی صوفے پر بیٹھے وقار نے جھلاتے ہوئے ابو سے کہا)۔
’’خاموش! اب چور کا لفظ اپنی زبان سے نہ نکالنا‘‘۔ حسنین صاحب نے غصے میں وقار کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اس وقت پوری فضا گرم ہوچکی تھی۔ یہ دیکھ کر بیگم حسنین کہنے لگیں ’’آپ ا صل قصہ تو سنیے پھر فیصلہ کیجئے گا‘‘۔ حسنین صاحب نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا ’’سنائیے‘‘۔ ’’بات یہ ہے کہ آج دوپہر جب وقاص، وقار اور یمنیٰ اپنی پڑھائی کرتے کرتے تھک گئے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیوں نا آئس کریم کھائی جائے۔ آج تو ویسے بھی شدید گرمی تھی۔ اس مشورے کے بعد ان لوگوں نے جنید کو آئس کریم کا ایک لیٹر والا ڈبہ لانے کو بھیجا۔
آئس کریم وقار اور یمنیٰ نے خوب مزے سے کھائی سوائے وقاص کے۔ وقاص کوچنگ چلا گیا تھا۔ میں نے وقاص کے حصے کی آئس کریم کو فرج میں جنید کے ہاتھوں سے رکھوا دی، پھر وقار اور یمنیٰ آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ کوئی سہ پہر ساڑھے تین بجے کے قریب میں کسی کام کے لئے بیٹھک میں گئی تو مجھے باورچی خانے سے کھٹر پھٹر کی آوازیں سنائی دیں، میں سمجھی کوئی بلی باورچی خانے میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ سوچ کر باورچی خانے میں جاکر دیکھا تو حیران رہ گئی کم بخت جنید آئس کریم کھانے میں لگا ہوا تھا۔ کھڑپھڑ کی آوازیں چمچے کی تھیں۔ بیگم حسنین نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا توبہ توبہ سات سال کی عمر میں چوری کی عادت۔ مجھے دیکھ کر جنید رونے لگا وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اُسے ماروں گی‘‘۔ ’’تو پھر کیا تم نے اُسے مارا بھی‘‘۔ حسنین صاحب نے گھبرا کر پوچھا۔ بیگم حسنین نے ہنستے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے جواب دیا ’’جی نہیں میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور سیدھی ثریا کے پاس پہنچی، وہ اُس وقت کپڑوں میں استری کررہی تھی۔ مجھے دیکھ کر جھجھکی کہنے لگی ’’خیریت بیگم صاحبہ‘‘۔ میں نے کہا ’’ہونا کیا تھا چوری کی ہے تمہارے بیٹے نے‘‘۔ ’’چوری‘‘ کا لفظ سن کر ثریا کا چہرہ سرخ ہوگیا، آنکھوں میں نمی سی آگئی، اس نے میرے سامنے زوردار تھپڑ جنید کے رسید کیا، پھر جنید سے پوچھا ’’کس چیز کی چوری کی ہے تم نے اسی دن کے لئے تجھے اسکول پڑھنے بھیجتی ہوں‘‘۔ جنید کچھ دیر تو بت بنا کھڑا رہا پھر کہنے لگا ’’اماں ایک چمچہ آئس کریم کی بس‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ’’ایک چمچہ آئس کریم کیوں کھائی تم نے وہ بھی بغیر اجازت‘‘۔ اماں میرا دل چاہ رہا تھا۔ بس اب نہیں کروں گا معاف کردیں‘‘۔ ثریا مجھ سے کچھ کہنے والی تھی کہ میں نے اُسے کچھ کہنے سے روک دیا اور اُس سے صاف صاف کہہ دیا یہ میرا ظرف ہے میں تمہیں نوکری سے نہیں نکال رہی ہوں۔ مگر اب جنید یہاں نظر نہ آئے‘‘۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چلی آئی۔
’’یہ تھا سارا قصہ کیا اب بھی آپ جنید کی ہی حمایت کریں گے؟‘‘
حسنین صاحب نے جواب دیا ’’جی ہاں یہ سارا قصہ جان کر مجھے دکھ ہی نہیں، بلکہ صدمہ ہوا ہے اور اس تمام واقعہ کے تم سب لوگ ذمہ دار ہو ’’ہم سب‘‘ سب یک زبان ہوکر چیخے ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ جرم کسی نے کیا الزام کسی اور پر دھر رہے ہیں، ویسے تو یہ آپ کی پُرانی عادت ہے۔ ایک چور کی مسلسل حمایت کئے چلے جارہے ہیں۔ ایک مجرم کی حمایت‘‘۔
بیگم فرحانہ منہ پُھلا کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ ’’مجرم! مجرم وہ نہیں تم لوگ ہو۔ تم لوگوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے اُس معصوم بچے پر اُس کا تو دل ہی نہ تھا۔ اگر تمہارے دل اتنے تنگ ہوگئے تھے کہ تم لوگ ایک لیٹر میں سے ایک چمچہ آئس کریم بھی اُسے نہ دے سکتے تھے تو پھر اُس سے شدید گرمی میں آئس کریم کیوں منگوائی تھی۔ وقار، وقاص خود کیوں نہ چلے گئے آئس کریم لانے یہ ہے تم لوگوں کا ظرف اور ایک وہ ہے جو تم لوگوں کی خوشیوں کی خاطر سخت گرمی میں تمہارے لئے آئس کریم لینے گیا، پھر تم لوگوں نے اُس کے سامنے ہی آئس کریم کی تعریفیں کرکے کھانی شروع کردی۔ مجھے تو اس حرکت پر شرم آرہی ہے۔ بخدا میں اُس بچے کے سامنے شرمندہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے فرمایا تھا ’’اگر تم دینے کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو چھلکا بھی چھپا دیا کرو۔ ہوسکتا ہے کسی کو دیکھ کر تکلیف ہو‘‘۔
یہ کہتے ہوئے حسنین صاحب کی آواز بھرا گئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپاتے ہوئے بچوں سے کہا میں اب جنید کو گھر لے کر ہی آؤں گا۔ یہ کہتے ہوئے حسنین صاحب گھر سے باہر نکل آئے۔