skip to Main Content
ارسطو

ارسطو

محمد سلیم الرحمٰن

……………………..

کہا جاتا ہے کہ یونان کے فلسفی سقراط (469 ق م۔ 399ق م)نے خودکبھی ایک حرف بھی نہیں لکھا لیکن اس کے کہے لفظوں اور تعلیمات نے معاشرہ پر اتنے گہرے نقوش مرتب کیے کہ وہ یونانی ادب کے اہم ترین مشاہیر کی صف میں جگہ پانے کا مستحق ٹھہرا۔ فلسفہ کی تاریخ میں تو ظاہر ہے اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اگر افلاطون اور کسینوفون جیسے اہلِ قلم اس کی شخصیت کی عکاسی اور افکار کے انشراح کا بِیڑا نہ اٹھاتے تو اس کے نام سے قدیم یونان کی تاریخ کے محققین کے سوا شاید ہی کوئی واقف ہوتا۔ اپنے اصولوں پر مر مِٹنے والے تو بہت گزرے ہیں لیکن ہر کسی کو افلاطون جیسا صاحبِ اسلوب اور ارادت مند کہاں نصیب ہوتا ہے۔ سقراط کا باپ سنگ تراش اور ماں دایہ تھی۔ دونوں مِل کر جو کماتے تھے وہ ان کی گزربسر کے لیے کافی تھا۔ سقراط کو نوجوانی میں کبھی فکرِمعاش لاحق نہ ہوئی۔ اس نے متداول فلسفہ میں درک حاصل کیا۔ ابتدا میں اسے طبیعی فلسفہ سے لگائو تھا جو رفتہ رفتہ بالکل سرد پڑ گیا اور اس کے بجائے یہ معلوم کرنے کی چیٹک لگی کہ زندگی بسر کرنے کی وہ روش کون سی ہے جسے انسانوں کے لیے سب سے مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ خاصی عمر کا ہو جانے کے بعد اس نے زین تھیپی نامی ایک عورت سے شادی کی۔ اس کا نام ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور جہیز میں کچھ نہ کچھ نقدی بھی لائی ہوگی۔ زین تھیپی کی بدمزاجی اور جھونجھل کے افسانے بہت مشہور ہیں۔ تندخوئی کے یہ قصے شاید روایتی ہوں کہ درویش منش لوگوں کی بیویوں کو عموماً جھلّی دکھایا جاتا ہے۔ بہرحال، سقراط ایسا شوہر یقینا نہیں ہوگا جس کے ساتھ نباہ کرنا آسان ہو۔ یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ زین تھیپی کو سقراط کی غیردنیادارانہ مصروفیات کی وجہ سے تنگی ترشی سے گزارا کرنا پڑتا ہوگا اور اس طرح کی آئے دن کی جھکندن آدمی کو چراہندا بنانے کے لیے کافی تھی۔ سقراط نے اپنے آبائی پیشے پر توجہ نہیں دی تھی۔ اس کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ وہ اپنے نوجوان شاگردوں سے، جن میں بہت سے ایتھنز کے امیرکبیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، معاوضہ لینا تو درکنار ان کے پیش کیے ہوئے تحائف قبول کرنے سے بھی ہچکچاتا تھا۔ زین تھیپی سے اس کے تین لڑکے ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی نام پیدا نہ کرسکا۔ کیا چہرہ مہرہ اور کیا ڈیل ڈول، کسی طور سقراط کی کوئی کل سیدھی نہ تھی: بھونڈا سا چہرہ، پہیا پھری ناک، لمبوترا سر، مینڈک کی طرح باہر کو نکلی ہوئی آنکھیں، توند نکلی ہوئی، قد ٹِھگنا۔ مگر تھا بڑا ٹانٹھا۔ تھکنا تو وہ جانتا ہی نہ تھا۔ برداشت کا مادہ بہت تھا۔ موسموں کے شدائد کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جاڑوں میں بھی ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھے پھرتا رہتا۔ ایک فوجی مہم کے دوران ایک بار وہ برف پر ننگے پائوں ہی چلتا رہا۔ اسے جب بھی فوجی خدمات کے لیے بلایا گیا اس نے انکار نہیں کیا اور لڑائیوں میں غیرمعمولی بہادری کا ثبوت دیا۔ فوجی مہمات سے قطع نظر، سقراط نے کبھی اپنی مرضی سے ایتھنز سے باہر جانے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ اسے یہ علم بھی نہ تھا کہ شہر کے آس پاس کون کون سے قابلِ دید مقامات ہیں۔ اس کے پاس جو تھوڑی بہت جائیداد تھی وہ اس کی بھی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال نہ کر سکا۔ بس وہ ایتھنز میں اِدھر اُدھر گھوم پھر کر لوگوں سے، اعلیٰ ادنیٰ کی تخصیص کے بغیر، ان کے عقائد اور اخلاقی تصورات کے بارے میں سوال جواب کرتا رہتا۔ بحث میں اس کے سامنے کسی کی پیش نہ چلتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی ماں کا پیشہ اپنا لیا ہے اور افکار جنانے کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ سقراط کی زندگی کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ ان صبرآزما دنوں میں جب پیلوپونے سوسی جنگ میں شکست کے بعد ایتھنز والوں پر جھنجھلاہٹ اور جنون طاری تھا اور انھوں نے اخلاقی اور سیاسی پستیوں کو چُھو لیا تھا اس نے ہر بار، جان ہتھیلی پر رکھ کر، حق و انصاف ہی کا ساتھ دیا۔ سقراط پر بعض دفعہ جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ پہروں اس میں ڈوبا رہتا تھا۔430 ق م میں ایک فوجی مہم کے دوران وہ ایک صبح سے اگلی صبح تک ایک ہی جگہ، بے حس و حرکت، محویت کے عالم میں کھڑا رہا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کبھی کبھی ایک غیبی آواز اسے بعض کاموں سے باز رہنے کی تاکید کرتی ہے۔ موت کے بعد جزا و سزا کے جو تصورات عوام میں رائج تھے وہ انھیں مانتا تھا۔ وہ تناسخ کا بھی قائل تھا اور سمجھتا تھا کہ آدمی کو گزشتہ جنموں کی چند ایک باتیں یاد آ سکتی ہیں۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ روح جسم سے آزاد ہوئے بغیر مکمل پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتی۔ ڈیلفی کے مشہور ہاتف کدے (معبد) میں ایک بار کسی نے استفسار کیا کہ آیا کوئی آدمی سقراط سے زیادہ دانش مند ہے۔ جواب ملا: کوئی نہیں۔ اس جواب نے سقراط کو حیرت زدہ کردیا۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ اپولودیوتا غلط بیانی سے کام نہیں لے سکتا۔ لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ خود دانش کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اس چیستان کو سمجھنے کے لیے اس نے ان اشخاص سے رجوع کیا جو اہلِ دانش کہلاتے تھے اور معاشرہ کے سبھی طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے رہنمائی چاہی۔ پتا آخر کو یہ چلا کہ لوگوں کے ذہن پراگندہ خیالی سے اٹے پڑے ہیں۔ انجامِ کار سقراط اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوتا اکیلا ہی دانا و بینا ہے اور اس نے سقراط کی فراست پر صاد کرکے صرف یہ جتایا ہے کہ جس دانائی پر انسانوں کو ناز ہے وہ محض ہیچ و پوچ ہے۔ ہاتف نے سقراط کا نام مثال کے طور پر لیا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ وہی شخص سب سے دانش مند ہے جو سقراط کی طرح اپنی نادانی اور کم علمی کا فہم رکھتا ہو۔ 399ق م میں سقراط پر فردِجرم عائد کی گئی کہ وہ نوجوانوں کا اخلاق بگاڑتا رہا ہے اور شہر کے دیوتائوں کے بجائے خود ساختہ خدائوں پر ایمان رکھتا ہے۔ استغاثہ نے مطالبہ کیا کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایتھنز میں جمہوریت کی بحالی کے بعد عام معافی کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس لیے مخالفین سقراط پر سیاسی نوعیت کے الزام عائد نہ کرسکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سقراط پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ بالکل پادرہوا نہیں تھے۔ ارستوفانیس نے اپنے ڈراما ’’بدلیاں‘‘ میں سقراط کو ہوا کی پرستش کرتے دکھایا تھا۔ یہ تسلیم کہ ارستوفانیس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا لیکن کوئی بات ہو تبھی بتنگڑ بنتا ہے۔ لوگوں نے یہ فراموش نہیں کیا تھا کہ سقراط کو کسی زمانے میں طبیعی علوم سے شغف تھا اور طبیعی فلسفیوں کو بالعموم دہریہ سمجھا جاتا تھا۔ دو باتوں نے خاص طور پر اسے بہت نقصان پہنچایا۔ ایک تو اس کا سوال جواب کا طریقِ کار جس سے بڑے بڑوں کا پول کھل جاتا تھا۔ لوگوں کو یہ بات نہایت ناگوار گزرتی تھی کہ کوئی شخص کہے تو یہ کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا اور پھر باتوں باتوں میں اُلٹا انھیں کو کُودن ثابت کردے۔ دوسرے سقراط کے شاگردوں اور ہمدردوں کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ انھیں جمہوریت سے کد ہے۔ اس کے بیشتر شاگرد امیرگھرانوں کے چشم و چراغ ہونے کے ناتے اس تصور کو عزیز رکھتے تھے کہ حکومت کرنے کا حق فقط بالائی طبقہ کے چیدہ چیدہ افراد کو ہے۔ عوام کو صرف کان دبا کر کہنا ماننا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس کے دو خاص شاگردوں نے بڑی اخلاقی گراوٹ کا ثبوت دیا۔ الکی جاولیس نے پیلوپونے سوسی جنگ کے دوران ایتھنز سے غداری کی۔ ایک اور شاگرد رشید کرائٹس، ان تیس قہرمانوں (Tyrants) میں شامل تھا جنھیں اہلِ سپارٹا نے فتح حاصل کرنے کے بعد ایتھنز پر مسلط کردیا تھا۔ ان قہرمانوں نے شہروالوں پر بڑے ظلم ڈھائے۔ یہ سمجھنے کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ سقراط کو خود بھی جمہوریت سے کوئی لگائو نہ تھا اور اس کی تعلیمات نے نوجوانوں کا ایک ایسا گروہ پیدا کردیا تھا جو قانون اور آزادی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مزیدبرآں یہ کہ سقراط جرح و قدح کے زور سے بنیادی اصولوں کے پرخچے تو اڑادیتا لیکن ایسے کوئی اصول پیش نہ کرتا جو ان کی جگہ لے سکیں۔ یہ طریقِ کار عام لوگوں کو قطعی طور پر تخریبی معلوم ہوتا تھا۔ اپنی صفائی میں سقراط نے عدالت کے رُوبرُو جو کچھ کہا وہ سب سے مربوط شکل میں افلاطون کی زبانی ہم تک پہنچا ہے۔ اس ’’اعتذار‘‘ میں افلاطون نے اپنی طرف سے کچھ بڑھا یا گھٹا دیا ہو تو عجب نہیں۔ سقراط نے عائدکردہ الزامات کی پُرزور تردید کی اور کہا کہ اگر استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑا ہے تو عدالت میں موجود اس کے سابق شاگردوں یا ان شاگردوں کے باپوں اور بھائیوں کو استغاثہ کی طرف سے گواہی دینے کے لیے طلب کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ سقراط نے یہ بھی کہا کہ ’’ایتھنز کے لوگو!، میں تمھارا احترام اور تم سے محبت کرتا ہوں لیکن فرماں برداری میں خدا ہی کی کروں گا، تمھاری نہیں۔‘‘ جب رائے شماری ہوئی تو جیوری کے281؍افراد نے اسے مجرم قرار دیا اور ۲۰۰؍ووٹ اس کی بَرِیَّت کے لیے پڑے۔ اس کے بعد یہ مسئلہ پیش ہوا کہ سزا کیا دی جائے۔ بعض جرائم کی سزا قانون میں متعین تھی لیکن باقی صورتوں میں مجرم قرار دیا جانے والا شخص اس سزا کی جگہ، جس کا استغاثہ نے مطالبہ کیا ہو، کوئی اور سزا تجویز کرنے کا حق رکھتا تھا۔ اس کے بعد جیوری کے ارکان دونوں سزائوں میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ سُنا دیتے تھے۔ سقراط اگر موت کی سزا کے مقابلہ میں جلاوطنی کی سزا تجویز کرتا تو امکان یہی تھا کہ اسے جلاوطن کردیا جاتا ۔ لیکن وہ بالکل ٹس سے مس نہ ہوا۔ شاید وہ یہ سمجھتا ہو کہ اتنی سخت سزا تجویز کرنا اعترافِ جرم کے مترادف ہوگا۔ دوستوں سے صلاح مشورہ کے بعد، جنھوں نے بلاشبہ اسے کوئی معقول رویہ اپنانے کو کہا ہوگا، اس نے کہا تو یہ کہ وہ تو سمجھتا ہے کہ عوامی محسن کے طور پر وہ ریاست کی طرف سے تاحیات وظیفہ پانے کا مستحق ہے۔ تاہم اپنے احباب کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے وہ تین ہزار درہم کا جرمانہ تجویز کرتا ہے۔ سب کو پتا تھا کہ سقراط کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں ہے۔ اگر اس کا تمام اثاثہ بھی بیچ دیا جاتا تو سو سے زیادہ درہم وصول نہ ہوتے۔ سقراط کے لااُبالی پن کا جیوری نے بہت بُرا مانا اور جب رائے لی گئی تو501 ارکان میں سے تین سو نے کہا کہ اُسے موت کی سزا دی جائے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا تھا۔ اس کے لیے فرار ہو جانا ممکن تھا۔ اس کے ایک دوست نے رشوت دے کر زندان کے داروغہ کو ساتھ ملا لیا۔ اس میں دِقت اس لیے بھی نہیں ہوئی کہ ایتھنز کے عمائدین میں سے کوئی بھی دِل سے سقراط کی موت کا خواہاں نہ تھا۔ لیکن سقراط نے یہ کہہ کر فرار ہونے سے انکار کردیا کہ ’’کیا میں ان قوانین کی اطاعت نہ کروں جنھوں نے اب تک مجھے تحفظ فراہم کیا ہے؟‘‘ اور زہر کا پیالہ پی کر جان دے دی۔ خود سقراط نے تو کچھ نہیں لکھا۔ چناں چہ اہم سوال یہ ہے کہ جن معاصرین نے اس کی شخصیت یا افکار کے حوالے سے اظہارِخیال کیا ہے ان پر کس حد تک تکیہ کرنا جائز ہے؟ اس ضمن میں پہلا نام افلاطون کا ہے جسے سقراط کا شاگرد ِرشید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کا خاصا امکان ہے کہ ابتدائی افلاطونی مکالمے اچھی بھلی تاریخی سچائی کے حامل ہیں۔ بہرحال، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ افلاطون نے بھی سقراط کی وفات کے کئی سال بعد لکھنا شروع کیا تھا۔ البتہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تلمذ کے دوران اہم نکات جستہ جستہ قلم بند کرتا رہا ہو۔ لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ’’مکالمات‘‘ میں سقراط کہاں پر ختم اور افلاطون کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ دعویٰ تو کسینوفون کو بھی یہی ہے کہ وہ سقراط کے بہت قریب تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بعض اہم شواہد کی روشنی میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسینوفون کا ’’منادمہ‘‘ افلاطون کے ’’منادمہ‘‘ کے بعد قلم بند کیا گیا تھا اور افلاطونی تصنیف کا سطحی سا چربہ ہے۔ کسینوفون نے اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ سقراط روایتی مذہبی عقائد اور رسوم پر کاربند تھا، خود بھی روایتی انداز میں نیک آدمی تھا اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا تھا۔ فضول دانشورانہ تجسس کے خلاف تھا۔ مختصر یہ کہ کسینوفون نے سقراط کو ایسا شریف اور معقول آدمی بنا کر پیش کیا ہے جس کے ہر قول و فعل سے بورژوائی کورذوقی کی بُو آتی ہو۔ اگر سقراط ایسا ہوتا تو اس پر مقدمہ ہی کیوں چلایا جاتا! اس خیالی سقراط کی ذہنی سطح اور دل چسپیاں بعینہ وہی ہیں جو خود کسینوفون کی ہیں۔ ارسطو نے بھی سقراط کا ذکر کیا ہے لیکن وہ پیدا ہی سقراط کی وفات کے بعد ہوا تھا اور اسے وہی کچھ معلوم ہوگا جو اس کے استاد افلاطون نے بتایا یا اِدھر اُدھر سے سننے میں آیا۔ ارستوفانیس نے بھی اپنے ڈراما ’’بدلیاں‘‘ میں سقراط کا خاکہ اُڑایا تھا۔ اس نے سقراط کو اس طرح پیش کیا تھا جیسے وہ خیالی دنیا میں رہنے والا، خطابت پردازی بگھارنے والا، اخلاق سے بیگانہ، ٹھیٹ سو فسطائی ہو۔ دراصل ارستو فانیس نے نئے انداز کی تعلیم کے خلاف محاذ قائم کر رکھا تھا اور سمجھتا تھا کہ سو فسطائی شرفا کی اولاد کو خراب کر رہے ہیں۔ یہ تاثر عوام الناس کے ذہن سے کبھی زائل نہ ہوسکا۔ سقراط کے فلسفیانہ خیالات پر نظر ڈالنے سے پہلے مختصر سا جائزہ اس دور کے علمی و عقلی رجحانات کا بھی لینا چاہیے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے ایتھنز میں طبیعی علوم سے اہلِ دانش کی دل چسپی کم ہو گئی تھی اور توجہ خالص فلسفیانہ موضوعات پر مرکوز ہو چلی تھی۔ اس تبدیلی میں ان پیشہ ور معلموں کا خاصا ہاتھ تھا جو سو فسطائیوں کے نام سے مشہور تھے اور یونانی دنیا میں شہر بہ شہر گھوم پھر کر، بھاری فیس کے بدلے، مختلف موضوعات کی تعلیم دیتے تھے۔ ان موضوعات میں خطابت پردازی کو اولین مقام حاصل تھا۔ فلسفیانہ مباحث میں زیادہ زور اخلاقیات کے مطالعہ یا اس سوال پر تھا کہ علم کیا ہے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں محکم دلائل اور مربوط فکر کے ذریعے سے بنیادی اصولوں کا پتا چلانے کی بڑی کاوش کی گئی۔ لیکن چونکہ ابتدا میں ایسے بنیادی مفروضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ جو سب کو قبول ہوں اس لیے نتیجہ تشکّک اور بے یقینی میں اضافے کے سوا کچھ نہ نکلا۔ تمام علم داخلیت کا شکار ہوگیا بلکہ سکڑ سکڑ کر عندیت (Solipsism) کے کوزہ میں بند ہونے لگا۔ ایک مفکر نے تو یہ تک ثابت کرنا چاہا کہ اول تو کچھ موجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ہم اسے جان نہیں سکتے اور اگر جان بھی لیں تو اپنے علم میں دوسروں کو شریک نہیں کر سکتے۔ یہ بے یقینی اخلاقیات اور خود دینی عقائد پر بھی اثرانداز ہوئی اور یہ سمجھا جانے لگا کہ حق اور انصاف محض اضافی اصطلاحیں ہیں۔ بات اسی کی مانی جاتی ہے جس کے پاس طاقت ہو۔ سو فسطائیوں کے بارے میں تو عام خیال یہی تھا کہ انھیں سچائی اور انصاف کا کوئی پاس نہیں، صرف مال و زر کی خاطر، خطابت پردازی کے زور سے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناتے رہتے ہیں اور کسی بھی معاملہ کے حق میں یا خلاف یکساں آسانی سے دلائل دے سکتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی فضا تھی جس میں سقراط کو پہلے دن سے سانس لینا پڑا۔ سقراط ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ خود اسے کچھ بھی معلوم نہیں اور اگر وہ دوسروں سے زیادہ عقلمند ہے تو صرف اس اعتبار سے کہ اسے اپنے جہل کا شعور ہے اور دوسرے اپنی لاعلمی سے بے خبر ہیں۔ سقراطی طریقِ کار کا بنیادی نکتہ ہم کلام کو اس بات کا قائل کرنا تھا کہ درحقیقت اسے کچھ بھی معلوم نہیں۔ جہل کا اعتراف علم کے حصول کی طرف ایک ناگزیر پہلا قدم تھا کیوں کہ وہ شخص علم حاصل کرنے پر آمادہ ہی کیوں ہوگا جو اس وہم میں مبتلا ہو کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ سقراط لوگوں سے بات چیت کرکے انھیں یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ محض جاہل بلکہ اجہل ہیں۔ اس لیے تعجب ہی کیا جو وہ نامقبول تھا۔ ایتھنز والے غلطی سے اسے سوفسطائیوں کی قبیل کا آدمی سمجھ بیٹھے۔ سو فسطائیوں کا کہنا تھا کہ مکمل علم ناممکنات میں سے ہے۔ سقراط یہ ثابت کرتا پھرتا تھا کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ لیکن حقیقت میں دونوں نقطۂ ہائے نظر میں بڑا باریک فرق ہے۔ سقراط کا عمل اس پُرجوش یقین کا آئینہ دار تھا کہ علم کا حصول ممکن ہے لیکن اس کی تلاش میں نکلنے سے پہلے ان کچے پکے اور گمراہ کن خیالات کے کاٹھ کباڑ کو ہٹانا ضروری ہے جس سے بیشتر انسانوں کے ذہن اَٹے پڑے ہیں۔ جب منزل کا راستہ صاف نظر آنے لگے تو سب مل کر صحیح سمت میں قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس اخلاقی ابتری میں، جس نے سقراط کے عہد پر پنجے گاڑ رکھے تھے، ایک بات اسے بالکل واضح طور پر شرانگیز نظر آتی تھی۔ لوگ بھانت بھانت کی اصطلاحیں استعمال کرنے کے عادی تھے، خصوصاً وہ اصطلاحیں جنھیں انصاف، شجاعت، میانہ روی وغیرہ کی تعریف قرار دیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب سقراط نے لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو ان میں سے کوئی بھی ان صفات کی جامع تعریف نہ کرسکا۔ اب اگر کسی شخص کو عقل مندی یا انصاف یا نیکی کا مطلب ہی معلوم نہ ہو تو وہ کس منہ سے کہے گا کہ عقل مندی یا انصاف سے کام لینا چاہیے یا نیکی کرنی چاہیے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مختلف آدمی ایک ہی لفظ سے مختلف معنی مراد لیتے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے کا مفہوم خاک سمجھیں گے۔ اس طرح تو ذہنی اور اخلاقی افراتفری پھیل جائے گی۔ سقراط کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل صاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ملکہ یا مہارت ہی اصل علم ہے یعنی جو کام کرنا ہو اس کی تمام اُونچ نیچ کا پہلے پتا ہونا چاہیے۔ سقراط کو پورا یقین تھا کہ اگر یہ نکتہ انسانوں کے پلّے پڑ جائے تو وہ خودبخود صحیح راستہ چُن لیں گے۔ بقول سقراط، خیر کو سمجھنا خیر کو اپنا لینے کے مترادف ہے۔ علم ہی تقویٰ ہے بالکل جیسے اس کا الٹ یعنی بے علمی شر ہے۔ ہر انسان فطری طور پر اپنی بھلائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ غلط کام اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مانند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انسان غلط کام صرف بے علمی کی وجہ سے کرتا ہے۔ جس فلسفیانہ روش کا وہ داعی تھا اس میں سقراط نے انسانی روح کو سب سے بلند مقام پر رکھا ہے۔ روح کی عظمت کے بارے میں اس کا ایقان کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو سقراط کا یہ فیصلہ اس زمانے کے معاشرہ کی پٹی پٹائی اشرافی اقدار کے منہ پر طمانچہ تھا۔ سقراط کے فکری نظام میں انسان کی اہمیت کا تعین امارت یا اقتدار یا شہرت کے حوالے سے ممکن نہیں۔ روح کا علُوہی انسان کے شرف کا ضامن ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کے پاس روح سے زیادہ بیش بہا چیز کوئی نہیں۔ اسی بنا پر روح کی نگہداشت انسان کا سب سے بڑا فرض بھی ہے۔ سقراط نے اپنی توجہ طبیعی کائنات سے ہٹا کر اخلاقی مسائل پر مرکوز کردی۔ اس کا بنیادی مقصد معلومات فراہم کرنا نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو سوچنے سمجھنے پر اکسانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے طور پر بہتر انسان بن سکیں۔ استادانہ زعم اسے چھو کر بھی نہیں گیا تھا۔ شاگردوں کو وہ اپنا دوست گردانتا تھا۔ سقراط کے مقاصد واضح اور کلّی طور پر اخلاقی تھے اور اس نے خواہ جان بوجھ کر یا اتفاق سے، اخلاقیات اور سیاسیات کے مابین لکیر کھینچ دی۔ اس نے کہا کہ وہی علم سچی اقدار کی راہ دکھا سکتا ہے جو بصیرت پر مبنی ہو۔ جس علم کا انحصار مانگے تانگے کی معلومات پر ہو اس سے راہ نہیں مِلتی۔ اس نے اپنی مثال سے ثابت کیا کہ فلسفہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے کے آرزومندوں کو پہلے تمام حجابوں اور ہچکچاہٹوں کو بالائے طاق رکھنا ہوگا تاکہ وہ آزادی سے سوچ بچار کرسکیں۔ سقراط کی اس تاکید سے فرد کی آزادی اخلاقیات کا مسئلہ بن گئی اور انسان کی اخلاقی خودفرمانی کا آغاز ہوا۔ سچ یہ ہے کہ سقراط نے ڈیلفی کے ہاتف کدے (معبد) کے مشہور پند ’’اپنا آپ پہچان‘‘ میں رچی ہوئی دانائی پر جس یکسوئی سے عمل کیا اس کی کوئی نظیر یونان میں اس سے پہلے نہیں مِل سکتی۔ 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top