skip to Main Content
عظیم قربانی

عظیم قربانی

توصیف الرحمن آفاقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقبوضہ کشمیر کے دوسرے بڑے شہر اسلام آباد میں داخل ہوں تو مغرب کی طرف جاتی شرپیاں روڑ پر پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک انتہائی دلکش اور خوبصورت گاؤں آتا ہے۔
پہلے پہل لوگ اسے ’’تاری گام‘‘ کہتے تھے اب لوگ اسے ’’اقبال آباد‘‘ کہتے ہیں۔ یہ نام اسی گاؤں کے ایک عظیم سپوت اقبال شہید کے نام پر رکھا گیا تھا۔
جنت عرضی کے خوبصورت ترین گاؤں میں سے ایک گاؤں یہ بھی تھا۔ چاول کی فصل کے لہلاتے کھیت اس گاؤں کے اردگرد پھیلے ہوئے تھے جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے ہندو بینے کی ایک پوری بٹالین نے ایک مکمل منصوبے کے تحت اس گاؤں پر حملہ کردیا آن کی آن میں ظالموں نے گاؤں کو کھنڈر بنا ڈالا۔ وہ گاؤں وادی کا حسین ترین گاؤں تھا۔ انگوروں کی بیلیں اپنی پوری بہار دکھا رہی تھیں مگر بھارتی درندوں نے ان کو جڑوں سے اکھاڑ دیا پر ثمر درختوں کو آگ لگا دی ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ بھارتی درندوں کے اس وحشیانہ عمل اور کاروائی سے کئی انسان جن میں عورتیں مرد اور بچے بھی شامل تھے زندہ جل گئے۔ بھارتی غاصب فوجی اپنی اس کامیابی پر پھولے نہ سمارہے تھے۔ کیونکہ انہیں اس گاؤں میں بچوں کی پیاری پیاری باتیں سنائی نہ دیتی تھیں۔ پرندے بھی اپنے گیت نہیں گارہے تھے۔ اب ہر طرف سے جلتی ہوئی لکڑیوں کے پٹاخوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف موت کی خاموشی چھاگئی تھی۔ ساجدہ بھی اسی گاؤں کی رہنے والی ایک نیک اور پارسا عورت تھی۔
ساجدہ کے دو بھائی اور ایک جوان بیٹا آزادی کشمیر کی راہ میں قربان ہوگئے تھے۔ جبکہ ایک نو عمر بچی کو بھارتی ظالم فوجی اٹھا کر لے گئے تھے۔ جس کی دو دن بعد مسخ شدہ لاش ملی تھی۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہی تھا کہ ساجدہ کا جھونپڑا گھر آگ سے محفوظ تھا۔ اس جھونپڑے میں ساجدہ کے علاوہ اس کا ایک چھ سالہ بیٹا اور ایک زخمی مجاہد تھا۔ ساجدہ اس مجاہد کی دن رات تیمار داری کررہی تھی۔ وہ مجاہد اس کے بھائیوں جیسا تھا۔ اس لیے وہ اسے ہر قیمت پر بچانا چاہتی تھی۔ گاؤں کی تباہی کا بھی اسے بے حد رنج تھا۔ مگر اس وقت وہ اس رنج کو بھول گئی تھی۔ مگر زخمی مجاہد جانبر نہیں ہورہاتھا۔ اس کے زخم گہرے تھے۔ وہ چند ساعتوں کا مہمان نظر آتا تھا۔ ساجدہ ہر وقت اس کے سرہانے کھڑی نظر آتی تھی۔ ’’ساجدہ بہن تم مجھے موت کی آغوش سے نہ چھین سکو گی۔ مجھے یہاں ہی رہنے دو اور تم اپنے بچے کو لے کر کسی محفوظ مقام کی طرف نکل جاؤ۔‘‘ زخمی مجاہد نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ ’’میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی یہ ایک بہن کی شان کے خلاف ہے میں تمہارے ساتھ جیؤں گی تمہاری ساتھ مروں گی۔ تمہاری تیمارداری کر کے مجھے ایک فرحت اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ ساجدہ کا جواب سن کر زخمی مجاہد لاجواب ہوگیا۔
کرنل رامیش اور اس کے ساتھی دو دن سے اس علاقے میں چھپتے پھر رہے تھے۔ مجاہدین نے حملہ کر کے کرنل رامیش کی بٹالین کا حشر کرڈالا۔ کئی افسر اور سپاہی مارے گئے۔ کئی فرار ہوگئے اور جائے پناہ ڈھونڈنے لگے کرنل رامیش اور اس کے ساتھی مجاہدین کے خوف سے چھپتے پھر رہے تھے۔ بھوک اورپیاس نے ان کا برا حال کردیا تھا۔ اس تباہ شدہ گاؤں میں پہنچ کر انہوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی تلاشی شروع کردی۔ بھوک اور پیاس انہیں ساجدہ کے جھونپڑے میں لے آئی۔ انہوں نے ایک دھکے سے جھونپڑے کا دروازہ توڑ ڈالا۔ ساجدہ ان کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہوگئی۔ مگر کرنل رامیش نے ایک دھکے سے پرے دھکیل دیا۔ جونہی کرنل اندر داخل ہوا حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئی‘‘۔ کمانڈر ماجد‘‘ رامیش نے زخمی مجاہد کو دیکھ کر بے ساختہ کہا۔ ’’بڑے عرصے سے تلاش تھی تمہاری‘‘ کرنل رامیش نے بندوق کی نالی زخمی مجاہد کی طرف کر کے ایک مکرو قہقہہ لگایا اور پورا برسٹ مجاہد کے سینے میں اتار دیا۔ کمانڈر ماجد کے لبوں پر کلمے کے ورد جاری رہا۔ اس کی روح جنت کی آزاد فضاؤں کی طرف پرواز کرگئی۔
ساجدہ آگے بڑھی اور اپنے مجاہد بھائی کو اپنی آغوش میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیکن ان درندوں پر اس آہ وزاری کا زرہ برابر اثر نہ ہوا کیونکہ رحم اور انسانیت کے جذبات اور رحم کے احساسات مدتیں ہوئی انڈین آرمی کے دلوں سے مفقود ہوچکے تھے ان میں سے ایک نے ساجدہ کو گھسیٹ کر الگ کیا اور حکم دیا کہ وہ ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرے۔ ساجدہ بھلا کیسے انکار کرتی دہشت زدہ سی ادھر ادھر ہونے لگی اس نے جھونپڑی میں جتنی بھی کھانے پینے کی اشیاء تھیں ان کے سامنے رکھ دیں۔ اسی اثناء میں وہ ایک دلیرانہ عمل کا فیصلہ کرچکی تھی جو کسی بھی غیرت مند اسلام کی بیٹی کو کرنا چاہئے تھا۔
اس نے جھونپڑے کے باہر ان کو کھانا دیا۔ اور پھر اپنے معصوم اور خوبصورت بچے کو گود میں اٹھا کر سلانے لگی۔ بھارتی درندے اس کی ہر ہر حرکت کا جائزہ لے رہے تھے۔ کھانا ان کے سامنے پڑا تھا۔ مگر کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ ایک نوالہ بھی اٹھا کر منہ میں ڈالے اتنے میں ساجدہ باہر آگئی اس نے دیکھا وہ کھانا نہیں کھا رہے تو کہنے لگی ’’تم کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ جلدی سے کھانا کھاؤ اور اپنی راہ لو تم نے میرا بھائی شہید کرڈالا ہے تم نے اسے اس عالم میں قتل کیا ہے کہ وہ تمہاری بزدلی اور حیوانیت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ اب جاؤ کہ میں تنہائی میں اس کی موت پر آنسو بہانا چاہتی ہوں‘‘ پھر وہ بولی ’’ شاید تم اس لیے کھانا نہیں کھا رہے کہ میں نے اس کوئی زہریلی چیز نہ ملا دی ہو، چلو میں پہلے کھاتی ہوں کہ تمہارا شک بھی دور ہوجائے‘‘ اس نے نوالہ منہ میں ڈالنے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو کرنل رامیش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’ماں کی محبت بہن کی محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے، اپنے بچے کو اٹھا لاؤ پہلے تم اسے کھانا کھلاؤ گی‘‘ ساجدہ اٹھی اور جھونپڑے سے اپنے بچے کو اٹھا لائی اس نے اسے جگایا اور ایک نوالہ کھلایا اور پھر پانی کا پیالہ بھی اس کے لبوں کے ساتھ لگا دیا۔ ساجدہ امتحان میں پوری اتری تو انہوں نے بلا خوف وخطر کھانا شروع کردیا۔ جونہی ان کی بھوک اور پیاس بجھ گئی تو انہوں نے ساجدہ کے ساتھ بے ہودہ مذاق اور انسانیت سوز ظلم شروع کردیا جس کو لکھتے ہوئے قلم بھی کانپ اٹھتا ہے۔ زمیں کانپتی ہے آسمان چلاتا ہے لیکن انہیں کون ظلم سے روک سکتا تھا۔ یکایک بچے کی خوفناک چیخ سے کمرہ گونج اٹھا وہ سب ایک دم سہم گئے ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی تھی کہ موت دبے پاؤں ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارتی بزدل موت کے ڈر سے دیوانے ہوگئے وہ سب ساجدہ پر ٹوٹ پڑے اور بولے ’’ تونے کیا کیا؟‘‘ میں نے کیا کیا‘‘ ساجدہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ ’’میں نے تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جو تم نے میرے مجاہد بھائی کے ساتھ کیا وہ مجھے بے حد عزیز تھا۔ میں نے اس کا انتقام لینے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑے کو قربان کردیا ہے۔ زندگی اب میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے تم میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتے ہو کرلو میں جانتی ہوں تو مجھے جان سے مار ڈالو گے۔ کیونکہ پاک دامن عورتوں اور لڑکیوں کی عزتوں کو پامال کرنا ہی تمہارا کام ہے معصوم پھول جیسے چہروں والے بچوں، عورتوں اور ہنستے مسکراتے لوگوں کو مار ڈالنا ہی تمہارا شیوہ ہے۔ مجھے اب کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ مجھے اب یقین ہے کہ تم اب کسی اور عورت کے پاکستانی بھائی کو اتنی بے بسی کے عالم میں شہید نہیں کرسکو گے۔
تھوڑی دیر بعد تم سب موت کی آغوش میں چلے جاؤ گئے‘‘ کرنل رامیش اور اس کے ساتھیوں پر دیوانگی طاری ہوگئی ان بزدل ظالم درندوں نے جوش اور دہشت میں وہ آخری ظلم بھی کرڈالا جس کے بعد ان کے ظلم وستم کا اس دنیا میں خاتمہ ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد ساجدہ بھی انوکھی قربانی کی مثال قائم کر کے شہادت کا رتبہ پاگئی۔ بھارتی فوج ایک کرنل ایک لیفیٹنٹ اور چار سپاہیوں سے محروم ہوگئی۔ ساجدہ نے قربانی دے کر جہاد کشمیر کی رگوں میں نیا خون دوڑا ڈالا اور خود امر ہوگئی۔ آج بھی اس جیسی ہزاروں مائیں اور بیٹیاں اپنے جگر گوشوں کو میدان کا زار میں بھیج رہی ہیں۔ ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں پاکستانی بھائیوں محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد جیسے نوجوانوں کی راہیں تک رہیں ہیں۔ اللہ رب العالمین ہمیں اپنی جان لٹا کر ان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ء۔۔۔ء

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top