skip to Main Content
اصل جیت

اصل جیت

محمد حمزہ ظفر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن بھر کی مصروفیت کی وجہ سے اب میرا تھکن سے برا حال ہوگیا تھا۔ مجھے اسکول سے آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی اور میں صوفے پر آرام کرنے کی غرض سے بیٹھا ہوا تھا۔ بیٹھے بیٹھے میری نظر دیوار پر لٹکے ہوئے کلینڈر پر پڑی اور میں چونک سا گیا، کیونکہ کل کا دن ہم لوگوں کیلئے خاص کر میرے لئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔
تھوڑا سا سستانے کے بعد شام کے وقت میں اپنے دوستوں کی طرف روانہ ہوا۔ میرے سب سے قریبی دوست حماد کا گھر نزدیک ہی تھا۔ کافی دیر تک بیل بجائی، لیکن مکھیوں کے علاوہ دروازے پر کوئی نہیں آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا چھوٹا بھائی دروازے پر نمودار ہوا۔
’’السلام علیکم! حماد گھر پر ہے؟‘‘ میں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’وہ تو گھر پر نہیں ہیں کام سے باہر گئے ہوئے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’کچھ پتا ہے کب تک آئیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میرے خیال میں اب تک تو آجانا چاہئے تھا۔ بس آنے ہی والے ہوں گے‘‘۔ اس نے کچھ سوچ کر کہا اور میں ’’اچھا‘‘ کہہ کر ایک طرف ہوگیا۔ وہ بھی دروازہ بند کرکے اندر چلاگیا۔ میرا پروگرام باہر کھڑے رہ کر اس کا انتظار کرنے کا تھا۔ تھوڑی دیر بعد حماد سودا سلف کی ایک بڑی سی تھیلی لئے ہوئے آیا۔ مجھ سے رسمی سی ملاقات کرنے کے بعد اندر گیا اور پھر سامان رکھ کر واپس باہر آگیا۔
’’ہاں بھئی ۔۔۔ اب بتاؤ کیا بات ہے‘‘۔ اس نے مجھ سے بے تکلفانہ انداز میں پوچھا۔
’’تمہیں پتا ہے کل کیا تاریخ ہے؟‘‘ میں نے اُلٹا اس سے سوال کردیا۔
اس نے اپنے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر زور سے اُچھلا۔
’’ارے! کل تو پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہے‘‘۔ اس نے خوشی سے کہا۔
’’جی ہاں! تو پھر کیا پروگرام ہے تمہارا؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’پروگرام کیا ہونا ہے۔ کل اسکول کی چھٹی کریں گے اور پھر آرام سے گھر پر بیٹھ کر میچ دیکھیں گے‘‘۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’ایسا کریں گے کہ ہم سب دوست ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھیں گے۔ اس طرح زیادہ مزہ آئے گا‘‘۔ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔
’’تمہارا سب دوستوں سے کیا مطلب ہے؟ اور کون میچ دیکھے گا؟‘‘ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ارے یار میں ذیشان کی بات کررہا ہوں۔ وہ بھی ساتھ ہوگا تو زیادہ مزا آئے گا‘‘۔ میں نے کہا۔
’’ہاں یہ اچھا آئیڈیا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ اس کے گھر چل کر پوچھ لیتے ہیں کہ اس کی کیا رائے ہے‘‘۔ حماد نے کہا اور پھر ہم دونوں اس کے گھر کی طرف چل دیئے۔
تھوڑی دیر بعد ہم دونوں ذیشان کے ساتھ تھے اور اسے اپنا آئیڈیا بیان کرچکے تھے۔ وہ اسکول سے چھٹی کرنے پر تھوڑا ہچکچا رہا تھا، لیکن ہم دونوں نے مل کر اسے سمجھایا مثلاً:
’’ایسے میچ بار بار کہاں ہوتے ہیں‘‘۔
’’اتنے سالوں بعد ایک تاریخی میچ ہورہا ہے‘‘۔
’’اسکول پھر چلے جانا، روز ہی تو جاتے ہو‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری اتنی ساری باتوں کا اثر یہ ہوا کہ وہ مان گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ سب کس کے گھر جاکر میچ دیکھیں گے۔ اس پر حماد نے سب کو اپنے گھر مدعو کیا۔ میں اور ذیشان اس فیصلے سے کافی خوش ہوئے، کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ حماد کے پاس ایک بڑا اور جدید ٹی وی ہے اور اس پر میچ دیکھنے کا مزا ہی اور ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کے گھر میں زیادہ لوگ بھی نہیں ہوتے، اس لئے آرام سے میچ کے دوران ہلہ گلہ بھی ہوگا۔
میچ صبح نو بجے شروع ہونا تھا، لیکن مجھے مارے تجسس کے پوری رات نیند نہیں آئی۔ میں پوری رات یہی سوچتا رہا کہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ کون اپنے حریف کا زیادہ اچھے طریقے سے مقابلہ کرسکے گا۔ اس کے علاوہ بھی میرے ذہن میں کافی باتیں گردش کررہی تھیں۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اس وقت حماد بھی یہی سوچ رہا ہوگا، کیونکہ اسے بھی میری طرح کرکٹ کا جنون تھا۔ ہم لوگ شام میں اکثر کرکٹ کھیلا کرتے اور دوسرے انٹرنیشنل میچز پر آپس میں تبصرے کرتے۔ پاک، بھارت کرکٹ سیریز پر تو ہم کافی عرصے سے بحث کررہے تھے۔ حماد کا خیال تھا کہ یہ سیریز نہیں ہوگی، جبکہ میرا خیال تھا کہ یہ سیریز ہر حال میں ہوگی اور پاکستان یہ سیریز ضرور جیتے گا۔ اس وقت مجھے پاکستان سے کچھ زیادہ ہی محبت محسوس ہورہی تھی، بلکہ صرف مجھے ہی کیا، میں اور بھی کئی لوگوں کو دیکھ چکا تھا جو کہ اس سیریز کی وجہ سے بہت زیادہ جذباتی تھے اور ہر حال میں پاکستان کو ہی فاتح دیکھنا چاہتے تھے۔
رات بھر مجھے صحیح سے نیند نہیں آئی۔ صبح فجر کے وقت ہی اُٹھ گیا۔ کافی عرصے بعد اس وقت آنکھ کھلی تھی تو سوچا کہ وضو کرکے نماز پڑھ لی جائے۔ میں اُٹھا اور وضو کرکے مسجد چلا گیا۔ وہیں پر میری ملاقات حماد سے ہوگئی۔ اس کی حالت بھی میری جیسی ہورہی تھی، یعنی رات بھر مارے بے چینی کے نیند نہیں آئی۔ نماز پڑھنے کے بعد کافی دیر تک ہم دونوں نے پاکستانی ٹیم کی کامیابی کیلئے دعا مانگی۔ اس کے بعد ہم دونوں مسجد کے قریب واقع پارک میں چہل قدمی کرنے لگے اور ہونے والا میچ ڈسکس کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد گھر آگئے۔ جب ناشتے وغیرہ اور دوسری چیزوں سے فارغ ہوکر گھڑی دیکھی تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ یعنی میچ شروع ہونے میں آدھا گھنٹا باقی تھا۔ میں نے فوراً گھر والوں کو اللہ حافظ کہا اور حماد کے گھر پہنچ گیا۔ ذیشان وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد میچ شروع ہوگیا اور ہم لوگ دنیا و مافیہا سے بے خبر میچ دیکھنے میں گم ہوگئے۔
شروع ہی سے میچ کافی اچھا چل رہا تھا۔ کبھی پاکستان کا پلڑا بھاری ہوجاتا تو کبھی بھارت کا۔ دونوں ہی ٹیمیں میچ جیتنے کی بھرپور کوششیں کررہی تھیں، لیکن پاکستان کی گرفت بھارت کی نسبت میچ پر زیادہ تھی۔ ہم لوگ بڑے شوق سے ٹی وی کے آگے بیٹھ کر میچ دیکھ رہے تھے۔ صبح سے لے کر شام تک کے عرصے میں بس جب کھانے کا وقفہ ہوا تھا، تو ہم نے کھانا کھالیا تھا، ورنہ نماز اور دوسرے کاموں کا تو کسی کو ہوش ہی نہیں تھا۔ عشاء کے وقت میچ اپنے اختتام پر تھا۔ آخری اوور چل رہا تھا اور مجھے کافی اُمید تھی کہ میچ کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوگا، لیکن آخری لمحات میں بھارت نے سخت محنت کرکے میچ کا پانسہ پلٹ کر پاکستان کو شکست دے دی۔
جس وقت میچ کا فیصلہ ہوا، اس وقت ہم لوگ غصے میں لال ہوکر ٹی وی کے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسے نتائج کیلئے تیار نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان کی ہار پر ہم سب کو سکتہ ہوگیا ہو۔ اچانک حماد غصے میں اُٹھا اور زور سے چلایا:
’’ان لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں‘‘۔ اس کا اشارہ پاکستانی ٹیم کی طرف تھا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ٹی وی ریموٹ غصے سے زمین پر پھینک دیا۔ نیچے گرنے کی وجہ سے ریموٹ کا کوئی بٹن دب گیا اور کوئی اور چینل لگ گیا جس میں کوئی صاحب تقریر کررہے تھے۔
میں نے حماد کی طرف دیکھا اور اس سے کہا کہ واپس میچ لگادو، مجھے ابھی میچ کا خلاصہ دیکھنا ہے۔ حماد ریموٹ کو ڈھونڈنے لگا، کیونکہ نیچے گر کر وہ پتا نہیں کہاں چلاگیا تھا۔ میں بھی اس کے ساتھ مل کر ریموٹ ڈھونڈنے لگا کہ کہیں میچ پورا ختم نہ ہوجائے۔ ابھی ہم لوگ ریموٹ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ کمرے میں ایک آواز گونجی:۔
’’آج ہم لوگ اپنی اصل شکستوں پر افسوس کرنے کے بجائے ان شکستوں پر روتے ہیں جن کی درحقیقت کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آج ہم میں سے اکثر لوگ پاک بھارت کرکٹ سیریز کے متعلق بڑے جذباتی ہیں اور پاکستان کی ہار قطعی برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ ہار تو دراصل ایسی ہار ہے جس کی درحقیقت کوئی قیمت نہیں۔ کھیل کے علاوہ دوسرے شعبوں میں جن میں بھارت نے پاکستان کو ہرادیا، ان پر افسوس کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ میرا ملک دنیا کے ہر شعبے میں ترقی کرے اور دوسرے ملکوں کو ہرادے۔ اسی مقصد کی جیت دراصل اصل جیت ہوتی ہے۔ کاش ہم سب پاکستانیوں کو اس بات کا احساس ہو‘‘۔
ان صاحب نے جو کچھ کہا، اس کا ایک ایک لفظ ہمارے کانوں میں گونج رہا تھا اور اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہم لوگ کتنی بڑی غلطی پر تھے۔ اب میرا بقیہ میچ دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، کیونکہ اب میری توجہ اصل جیت پر مرکوز ہوچکی تھی۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top