سرگودھا
سرگودھا کا نام سرگودھا کیوں ہے ۔اس کی وجہ دل چسبی سے خالی نہیں۔ اس شہر کا نام دو الفاظ سے مل کر بنتا ہے یعنی’’سر‘‘اور ’’گودھا‘‘۔’’سر‘‘ پانی کے چشمے کو کہتے ہیں اور ’’گودھا‘‘ ایک ہندو جوگی کا نام تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں ایک چشمہ ہوا کرتا تھا جس کے کنارے ایک چھوٹی سی کٹیا میں ایک ہندو جوگی جس کا نام’’بابا گودھا‘‘تھا رہا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام ’’سرگودھا‘‘ پڑ گیایعنی ’’گودھا کا چشمہ ‘‘پڑ گیا۔ سرگودھا ضلع میں چھ تحصیلیں(چھوٹی شہر یا بڑے قصبے )ہیں۔جن کے نام سرگودھا،سلاں والی،کوٹ مومن،بھلوال،ساہیوال اور شاہ پورہیں۔ملک کا سب سے بڑااور جنگی ساز و سامان سے آراستہ ائیربیس اسی شہر میں ہے۔سرگودھا کی تحصیل سلانوالی اپنی ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔مگر اس ضلع کی اصل شہرت یہاں کے کینوں،مالٹے اور سنترے ہیں ۔جن کے معیارکی وجہ سے یہ شہر دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتا ہے۔ تاریخی حوالے سے بھی سرگودھا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔سرگودھا سے ۱۴ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ’’کرانہ‘‘ شروع ہوتا ہے جو چینوٹ تک جاتا ہے۔انہیں پہاڑیوں میں ایک تاریخی مندر موجود ہے جو’’ہنومان جی کا مندر‘‘کہلاتاہے۔یہ جگہ ایک سیاحتی مرکز بھی ہے اور ہندو دیو مالا میں اسے ایک خاص اہمیت بھی حاصل ہے۔اس کے علاوہ سرگودھا میں ایک جگہ’’دھریمہ‘‘ ہے جہاں مغل شہزادے ’’شاہ شجاع‘‘ کی قبر ہے۔شاہ شجاع مغل بادشاہ ’’شاہ جہان‘‘ کا بیٹا تھا اور بادشاہ کے مرنے کے بعد جب بھائیوں میں لڑائی ہوئی تو یہ اپنے سوتیلے بھائی اورنگ زیب سے شکست کھا کریہاں آیا اورایک بزرگ کے پاس بقیہ ساری عمر گزار دی۔یہیں انتقال ہوا اور یہیں اس کی قبر موجود ہے۔دوسری اہم جگہ یہاں کی’’بھیرہ‘‘ہے۔۱۵۴۰عیسوی میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی تو ہمایوں بھاگ کر یہاں آیامگر شیر شاہ اس کا پیچھا کرتا ہوا یہاں بھی پہنچ گیا۔ہمایوں تو نکلنے میں کامیاب ہو گیا مگر بھیرہ تباہ ہو چکا تھا۔شیرشاہ نے خصوصی توجہ سے بھیرہ کو دوبارہ تعمیر کروایا۔اس کی ایک نشانی یعنی جا مع مسجد پھیرہ آج بھی شان کے ساتھ موجود ہے۔اس کے علاوہ یہاں ایک اور تاریخی ’’حافظانی مسجد‘‘بھی موجو دہے، جسے اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروایا تھا۔یہاں ایک اور تاریخی جگہ ’’تخت ہزارہ‘‘ ہے جس کا ذکر پنجاب کی لوک داستانوں میں ملتا ہے۔