لکڑی کا منات
فریال یاور
…………………………..
آپ کی شہادت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیکھ کر فرمایا۔
’’میں عمرو رضی اللہ عنہ بن جموح کو لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
…………………………..
’’ارے کسی نے میرے ’منات‘ کو دیکھا ہے۔ ناس ہو تم لوگوں کا۔ معلوم نہیں ہمارے معبود کو کون بدبخت لے گیا ہے۔ نامعلوم کسے ہم سے دشمنی ہے جو ہمارے معبود پر اپنی دشمنی نکال رہا ہے۔‘‘ بوڑھا عمرو نہایت غصے اور بے چینی میں جگہ جگہ اپنے لکڑی سے بنائے بت کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک عمرو کو گندگی سے بھرے گڑھے میں اپنا لکڑی کا بت نظر آہی گیا۔
’’اوہ میرے معبود آپ یہاں ہیں۔ کون ہے یہ گستاخ۔ بھلا بتاؤ کوئی جگہ نہیں سمجھ میں آئی تو اس گندگی میں ڈال دیا۔‘‘ عمرو نے اسے اٹھایا اور گھر لا کر اچھی طرح نہلایا۔ خوشبو لگائی۔ تب کہیں جا کر غصہ کچھ کم ہوا۔
بات تھی ہی غصے کی۔ عمرو کی جان سے زیادہ عزیز ’’منات‘‘ کو کسی نے اٹھا کر نجاست سے بھرے گڑھے میں ڈال دیا تھا۔ رات ہوئی تو عمرو نے پھر آکر اپنے ’منات‘ کو دیکھا اور کہا: ’’خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ایسی گستاخی کس نے کی ہے تو اس کی درگت بناؤں۔‘‘ کچھ دنوں بعد آکر دیکھا تو پھر ’’منات‘‘ کو نہ پایا۔ پریشانی کے عالم میں تلاش شروع کی۔ اس بار بھی منات کو وہیں گندگی کے ڈھیر پر پایا۔ غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کرتے۔ یہ حرکت کرنے والا نظر آئے تو پتا چلے اور منات بے چارہ تو اپنے لیے کچھ کر سکتا تو ہی اپنا بچاؤ کرتا۔ وہ تو لکڑی کا ایک بے جان بت تھا۔ غرض کہ یہ آئے دن کا معمول بن گیا کہ عمرو ’’اپنے پیارے‘‘ منات کو صاف ستھرا کرکے خوشبو لگا کر عبادت گاہ میں رکھتا اور رات کو شرارت کرنے والا اسے اٹھا کر گندگی کے ڈھیر میں پھینک آتا۔ آخر روز روز کی اس شرارت سے تنگ آکر ایک دن عمرو نے بت کے گلے میں تلوار لٹکا دی اور کہا: ’’مجھے تو یہ علم نہیں کہ کون تیرے ساتھ یہ گستاخی کرتا ہے۔ اب یہ تلوار لے اور خود اس سے اپنا دفاع کرنا۔‘‘
اب جو شرارت کرنے والے رات کو آئے اور بت کے گلے میں تلوار لٹکی دیکھی تو وہ بہت ہنسے۔ تلوار تو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی اور عمرو کے پیارے ’’منات‘‘ کو ایک مردہ کتے کے ساتھ باندھ کر ایک ایسے کنویں میں لٹکا دیاجہاں لوگ گندگی پھینکا کرتے تھے۔ صبح کو عمرو نے بت اور تلوار دونوں غائب دیکھے تو پھر تلاش شروع کی۔ اب جو دیکھا تو بت کو مردہ کتے کے ساتھ گندگی کے کنوئیں کے اوپر لٹکا ہوا پایا مگر معاملہ پچھلی مرتبہ کے برعکس نکلا۔ جب عمرو اپنے بت کی تلاش میں اس کنویں پر پہنچے تو اسی وقت ایک مسلمان کا ادھر سے گزر ہوا۔ عمرو نے اپنی مصیبت بھری کہانی اسے سنائی۔ مسلمان نے عمرو کو ملامت کرتے ہوئے کہا: ’’عمرو تم نے اپنے آپ کو خواہ مخواہ مذاق کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ یہ بت بھی بھلا کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میری مانو تو ان بتوں پر لعنت بھیجو اور خدائے واحد اور اس کے رسول ؐبرحق پر ایمان لے آؤ۔‘‘ اس مسلمان کی باتوں میں ایسا اثر تھا کہ فوراً اسلام لے آئے۔
سیدنا حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموع بنو سلمہ کے ایک رئیس تھے۔ زمانہ جاہلیت میں خاندان کے بتوں کے رکھوالے تھے اور بت برستی خود بھی نہایت شوق سے کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ لکڑی کا بت ’’منات‘‘ بنا کر گھر میں بھی رکھا ہوا تھا جس کی صبح و شام پرستش کرتے اور سجاتے سنوارتے۔ گھر گھر اسلام کا چرچا پھیلا مگر انہیں اپنے بتوں سے ہی محبت رہی۔ یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا۔ بعثت کے ۱۲ سال بعد مدینہ سے کچھ لوگ مکہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کی سعادت حاصل کی۔ ان پچھتر مسلمانوں میں حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموع کے صاحبزادے حضرت معاذرضی اللہ عنہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموع کو اپنے بیٹے کے قبول اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت معاذ کو بلایا اور اس بات کی تصدیق کی۔ حضرت معاذرضی اللہ عنہ نے سچ سچ بتا دیا۔ ساتھ ہی سورۃ فاتحہ پڑھ کر سنائی جس کا حضرت عمرورضی اللہ عنہ پر خاصا اثر ہوا۔ مگر اسلام لانے میں الجھن کا شکار تھے۔ جب حضرت معاذرضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو اسلام لانے کا مشورہ دیا تو انہوں نے کہا کہ میں پہلے اپنے ’’منات‘‘ سے مشورہ کر لوں گا۔ جو حکم وہ دے گا میں اسی پر عمل کروں گا ‘‘۔ ’’منات‘‘ سے مشورہ کا یہ طریقہ ہوتا تھا کہ منات کے پیچھے ایک مکار عورت کھڑی ہوجایا کرتی اور جو کوئی بھی کچھ پوچھتا وہ ہی جواب دیا کرتی مگر اس دن حضرت عمرورضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ہندرضی اللہ عنہا نے جو اسلام قبول کر چکی تھیں۔ اس عورت کو بھگا دیا۔ اب جو حضرت عمرورضی اللہ عنہ نے نہایت تعظیم کے ساتھ اپنے منات سے سوال کیا تو منات خاموش رہا پھر حضرت عمرورضی اللہ عنہ نے اور بھی کئی سوالات کیے مگر کسی کا جواب نہیں آیا ۔اس دن سے انہیں بتوں سے نفرت ہوگئی مگر مزید نفرت دلانے اور اسلام کی روشنی میں لانے کے لیے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کو یہ انوکھی شرارت سوجھی جو شروع میں بیان کی گئی۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموع نے اﷲ کا شکر ادا کرنے کے لیے اور اپنے بتوں کی نفرت میں چند اشعار کہے۔
’’خدا کی قسم اگر تو اﷲ ہوتا تو تو اور کتا (مرا ہوا) کنویں کے اندر ایک ساتھ لٹکے نہ ہوتے۔ لعنت ہو تیرے اس جگہ پڑے ہونے پر۔ وہ کیسی ذلیل جگہ تھی کہ اگر میں تجھے اس ذلیل جگہ سے اٹھا کر نہ لاتا تو تو وہیں اوندھا پڑا ہوتا۔ اس اﷲ پاک نے مجھے اس سے بچا لیا کہ میں قبر کی تاریکی میں اتارا جاتا۔ ساری تعریف اس خدائے بزرگ و برتر کے لیے جو احسان کرنے والا رزق دینے والا اور بدلے کے دن کا مالک ہے۔‘‘
حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموع اگرچہ آخری عمر میں مسلمان ہوئے اور صرف تین سال کے قریب نبوت کا زمانہ پایا لیکن اپنے ایمانی جوش کی بدولت ان کا شمار عظیم صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ آپ بڑے سادہ مزاج اور فیاض بزرگ تھے اور ان کی سخاوت کا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اعتراف تھا۔ ایک مرتبہ بنو سلمہ کے کچھ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :
’’تمہارا سردار کون ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا۔’’ ہمارا سردار ایک کنجوس آدمی ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کنجوسی سے بدتر کوئی چیز نہیں ۔ آج سے تمہارے سردار الجعد الابیض (سفید گھنگھریالے زلفوں والے) عمرو بن جموح ہیں۔ اس دن سے حضرت عمرورضی اللہ عنہ بن جموح بنو سلمہ کے رئیس بن گئے اور مسلمان انہیں سید الانصار یعنی ’’انصار کے آقا‘‘ کہنے لگے۔ رمضان ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔ لیکن حضرت عمرو بن جموح جذبہ شہادت کے باوجود غزوہ میں شریک نہیں ہوسکے کیونکہ ان کے پیر کے لنگڑے پن اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے انہیں میدان جنگ جانے سے روک دیا لیکن غزوہ احد کے موقع پر حضرت عمرورضی اللہ عنہ نے لڑائی میں حصہ لینے کے لیے اس قدر اصرار کیا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے صاحبزادوں سے کہا کہ بیٹوں ان کو اب مت روکو۔ شاید ان کے مقدر میں رتبہ شہادت پر فائز ہونا ہی لکھا ہو۔ غزوہ احد میں آپ رضی اللہ عنہ بڑھاپے اور لنگڑے پاؤں کے باوجود انتہائی بہادری سے لڑے اور آخرکار دشمنوں نے گھیرے میں لے کر آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیکھ کر فرمایا۔
’’میں عمرو رضی اللہ عنہ بن جموح کو لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘