آب حیات
محمد الیاس نواز
……………………
وہ آنکھیں ملتے ہو ئے اُٹھا اور دیکھا کہ واقعی صبح بڑی ہی روشن تھی …..جس صبح وہ زندگی کاراز پا چکاتھا۔
……………………
و ہ چوڑی پیشانی اور رَوشن آنکھوں والا ایک خوبصورت ،ذہین اورحسن اخلاق کا مالک بیس بائیس سالہ نوجوان تھا۔اسے قدرت نے بے شمار خوبیوں سے نوازاتھا۔ایک حسنِ اخلاق ہی ایسی خوبی تھی کہ جس کی وجہ سے تمام لوگ اسے پسند کرتے تھے۔باقی اوصاف کی تو کیا ہی بات تھی۔بیشک خدا نے اسے بڑا نوازاتھا مگر کچھ عرصے سے وہ ایک عجیب خبط میں مبتلا ہو گیا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ہمیشہ رہنے والی زندگی کا راز ڈھونڈ لے جس سے انسان کبھی نہ مرے …. .. بلکہ وہ اَمر ہو جائے اور اسکی زندگی کو دوام مل جائے۔بس اب تو رات دن اسے اسی سوچ نے گھیر رکھا تھا۔وہ اس خیال سے جتنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا…..وہ اتنا ہی ناکام ہو جاتا … . ..اور یہ خیال اتنا ہی اس کے ذہن پر حاوی ہو جاتا ۔اس خیال نے اس کی عبادت تک میں خلل ڈال دیا تھا۔وہ لاکھ کوشش کے باوجود نماز میں بھی اس خیال سے پیچھا نہ چھڑا پاتا۔حالانکہ اسے یہ بات معلوم تھی کہ ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اللہ جانے اس نے مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مسدس کب پڑھ لی تھی کہ ذہن کے کسی گوشے سے مسدس کا ابتدائی شعر نکل کر فوراً سامنے آجاتا۔
کہا د کھ جہاں میں نہیں کو ئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
اور وہ سوچنے لگتا کہ جب قدرت نے ہر دُکھ کی دوا پیدا کی ہے تو یقیناًمرض الموت کی دوا بھی پیدا کی ہو گی۔اس کا ذہن یہ سوچ کر انگڑائی لینے لگتا۔اس کی آنکھوں میں اسی سوچ وفکر کے حلقے پڑے رہتے۔جسکی وجہ سے اس کے گھر والے بھی پریشان رہتے کہ …..فضول گوئی تو پہلے بھی کبھی اس نے نہیں کی تھی مگر اب تو وہ اکثر چپ چپ رہنے لگا تھا۔گرمیوں کی ایک رات وہ اپنے گھر کی چھپ پر لیٹا تاروں بھرے آسمان کو دیکھ کر روزانہ کی طرح کسی ایسے ہی آبِ حیات کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ رات کے جانے کون سے پہر اسے محسوس ہو ا کہ کوئی اس کے پاس موجود ہے۔اس نے غور سے دیکھا تو دھیمی روشنی میں اسے خوبصورت پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر شخص کھڑا مسکراتا ہو انظرآیا۔اس کے خوبصورت جوتے اور اسکے تیل لگے بال دھیمی روشنی میں چمک رہے تھے۔وہ شخص چند ثانئے کھڑا مسکراتا رہا پھر بولا……ہوں…..تو زندگی کے راز کی تلاش میں ہو……؟آؤ میں تمہیں آبِ حیات تک پہنچا دوں۔زندگی نہیں تو زندگی کا راز ضرور پالوگے۔وہ بیساختہ اس شخص کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔جب وہ گھر سے باہر آئے تو گلی میں ایک نئے ماڈل کی خوبصورت کار کھڑی تھی……وہ دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس شخص نے کار چلاناشروع کی۔انجانے راستوں پرکار دوڑتی رہی۔ا ن کے راستے میں نہ کوئی آبادی آئی….نہ کوئی گاڑی…. نہ چوک نہ سگنل اور ….نہ موڑ……بالآخر کافی دیر کے بعد ایک خوبصورت جگہ پہنچ گئے۔جہاں درختوں کے خوبصور ت جھنڈاور ہریالی ہی ہریالی تھی اور کچھ ہی فاصلے پر ایک چشمہ بہہ رہاتھا۔چشمے سے چند نوجوان اور بچے پانی بھر رہے تھے۔اس شخص نے اس سے کہا کہ جاؤ وہ رہا آبِ حیات…..اور اس طرف والی بستی کے لوگ یہ پی کر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔یہ بتاکر اس شخص نے اللہ حافظ کہا اور کار دوڑاتا ہوا غائب ہوگیا۔وہ چند قدم چل کر چشمے کے کنارے پہنچ گیااور لڑکوں سے پوچھا کہ کیا یہ چشمہ آبِ حیات ہے جواب ملا ہاں…..یہی آب حیات ہے۔وہ ابھی یہی پوچھ رہاتھا کہ اس نے چشمے کے دوسرے کنارے دیکھاجہاں درختوں میں اسے قبرستان نظر آیا…..اور وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر یہ آبِ حیات ہے تو اس کے کنارے قبرستان کیوں ہے…..اس نے کچھ سوچا اور پھر نوجوانوں سے کہا کہ وہ اسے اپنے کسی بزرگ کے پاس لے جائیں۔
ایک نوجوان نے اسے ساتھ لیااور بستی کی جانب روانہ ہوگیا…….اورپھر وہ بستی کی مرکزی گلیوں سے گزر کرایک وسیع اور خوبصورت مکان کے اندر داخل ہوئے…..جہاں ایک بزرگ گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ان کے سامنے بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔بزرگ انہیں معا شرتی آداب کی تعلیم دے رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد جب سب لوگ چلے گئے تو بزرگ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور خوب مہمان نوازی کی۔بزرگ بہت ہی حسن اخلاق کے مالک تھے۔انھوں نے اُس سے تفصیلی حال احوال پوچھا مگر مقصد کی بات نہ انھوں نے پوچھی اور نہ اس نے بتائی۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بزرگ کئی سالوں سے اس کے شناسا ہیں۔کئی خوبصورت اور دل نشین باتیں کرنے کے بعد بزرگ نے اس سے پوچھا کہ اے پردیسی نوجوان تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں ہے کہ تم کس مقصد کے لئے یہاں آئے ہو اور ہم تمہاری کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ہم باتوں ہی باتوں میں پوچھنا بھول گئے اور ….ہاں ….تم نے بھی نہیں بتایا۔اُس نے نہایت ادب کے سا تھ عرض کیا….اے بزرگ ہستی میں آداب کے خلاف آپ کی قیمتی گفتگو کا تسلسل توڑ کر بھلا کس طرح اپنا مقصد بیان کر سکتا تھا۔اس نے پوری تفصیل بزرگ کو سنائی اور کہا کہ میں دائمی زندگی کے راز کی تلاش میں تھا کہ قدرت نے مجھے یہاں تک پہنچا دیا او پہنچانے والے نے کہا …..زندگی نہیں تو زندگی کا راز ضرور پالو گے….. جب میں آبِ حیات کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ قبرستان ہے۔میں بیساختہ رک گیا….اور پھر اس کی حقیقت جاننے کے لئے آپ تک پہنچا ہوں ……اے بزرگ ہستی مہربانی فرماکر مجھے بتائیے کہ کیایہ آبِ حیات ہے….جسے پی کر انسان ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتا ہے…..؟اور پھر آپ لوگوں کا تو گزارا ہی اسی چشمے پر ہے…..توکیا آپ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے…؟ اور اگر آپ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے ہیں تو یہ قبرستان کیوں ہے…..اور وہ کون لوگ ہیں جو اس میں دفن ہیں….؟ بزرگ غور سے اس کی باتیں سن رہے تھے…..پہلے مسکرائے پھر سنجیدگی سے کہنے لگے….اے نوجوان تم نے بڑے ہی خوبصورت سوالات کئے ہیں …… دیکھو بیٹا……یہ چشمہ جسے ہم آبِ حیات کہتے ہیں ہمارے لئے یہ آبِ حیات ہی ہے…..پانی انسانی زندگی کے لئے لازمی ہے اور ہماری زندگی کا دار ومدار اسی چشمے کے پانی پر ہے……یہ چشمہ ہماری مقررہ عمر میں ایک سیکنڈ کا اضافہ بھی نہیں کر سکتا……تمہی سوچوبھلا پانی سے بھی کوئی ہمیشہ زندہ رہا ……؟بزرگ تھوڑی دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے اور دوبارہ اپنے دھیمے لہجے میں بات شروع کی۔
تم نے قبرستاں کے بارے میں پوچھا…….تو یہ قبرستان ہمارا آبائی قبرستان ہے۔ہمارے پیارے ہم سے پہلے یہاں پہنچ چکے ہیں اور آج نہیں ……توکل ہم بھی وہیں پہنچ جائیں گے۔تم نے پوچھا کہ کیا ہم ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ؟ہاں ہم ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ہمارا ہر آدمی کوشش کرتا ہے ……کہ مرنے سے پہلے انسانیت کے لئے کچھ کرکے مر جائے…..کیونکہ جو انسانیت کے لئے کچھ کر کے مر جائے…..وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔اس لئے کہ نیکی ہمیشہ زندہ رہتی ہے…….اور وہ شخص جو نیکی کی راہ میں چل کر مر جائے وہ کبھی نہیں مرتا …….یہ ہے زندگی کا راز…..یہ چشمہ آبِ حیات ہے ۔ ہم ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور قبرستا ن میں وہ لوگ دفن ہیں جو کبھی نہیں مریں گے۔
اتنے میں اسے اپنی والدہ کی آواز آئی…..اٹھو بیٹا…..دیکھو صبح کتنی روشن ہو گئی ہے اور تم ابھی تک سو رہے ہو وہ آنکھیں ملتے ہو ئے اُٹھا اور دیکھا کہ واقعی صبح بڑی ہی روشن تھی …..جس صبح وہ زندگی کاراز پا چکاتھا۔