ٹیپو کی فتح
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دنیا سے جاتے جاتے اپنی قوم کو ایک پیغام دینا چاہتا تھا،جرأت کی ایک لازوال داستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4مئی 1799ء کی صبح طلوع ہوئی تو نجومیوں نے سلطا ن کو بتایا کہ ستاروں کے حساب کتاب اور چالوں سے آج کا دن سلطان کے لئے اچھا نہیں اور دوپہر کی گھڑیوں میں تو قلعے کے ارد گردنحوست منڈلاتی رہے گی اس لئے سلطان کو صدقہ وخیرات دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ وہ لشکر کے اندر ہی رہیں مگر سلطان ان باتوں کو کہاں خاطر میں لانے والا تھا ۔ اور پھر یہاں تو انسانوں کی بھی چالیں اُلٹی ہو گئی تھیں۔سلطان نے غسل کیا اور سفید کرتا زیبِ تن کرنے بعد بڑی مقدار میں غریبوں ،مسکینوں میں صدقہ وخیرات تقسیم کیا اور آم کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے رک گیا اور حکم دیا کہ کھانا بھی وہیں لگا دیا جائے چنانچہ کھانا وہیں لگا دیا گیا۔سلطان نے ابھی پہلا نوالہ اُٹھا یا ہی تھا کہ شور ہوا سلطان وہ نوالہ وہیں چھوڑ کے کھڑا ہو گیا۔یہ سفید کپڑوں میں ملبوس سلطان کیا کھڑا ہوا بلکہ سفید کفن پہنے شہادت کی آرزواُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ کھڑے ہونے کے بعد پوچھا کہ یہ شور کس بات کا ہے جواب ملا کہ بہادراور وفادار کماندار سید غفار دشمنوں کی توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں ۔یہ سن کے سلطان نے کہا ’’مجاہد کبھی موت سے نہیں ڈرتا اور سید غفار ایک مجاہد تھا‘‘۔بس پھر سلطان دوبارہ نہ بیٹھ سکا ۔ہاتھ دھو لئے اورکہا’’ بس اب ہم بھی چلے‘‘ ۔تلوار اور بندوق باندھی اور گھوڑے کی طرف بڑھا ۔ گھوڑے پر سوار ہوئے اورفصیل سے نکل کر اس طرف گئے کہ جہاں دشمنوں کا زور تھا ۔ادھر سلطان فصیل سے نکلا اور اُدھر سب سے بڑے غدار میر صادق جو مستقبل میں ریاست میسور کا بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہا تھااس نے دروازہ بند کرنے کا حکم دے دیااور سفید کپڑا لہرا کے انگریزوں کو حملے کا اشارہ کروا دیا ۔وہ ابھی واپس پلٹا ہی تھا کہ ایک سپاہی نے اس سے کہا کہ اے غدار سلطان کو مصیبت میں چھوڑ کے کہاں جارہا ہے اور ساتھ ہی تلوار کے وار سے اس کا کام تمام کر دیا کچھ دن تک اس کی لاش گنداور کچرے میں پڑی رہی پھر لوگوں نے اس کو وہیں گڑھا کھود کے بغیر کسی غسل اور کفن کے دفن کر دیا بلکہ ’’گاڑ‘‘دیااور آج بھی لوگ اس کی قبر کی جگہ تھوتھوکرتے ہیں ۔ادھرسلطان نے باہر نکل کے دیکھا کہ اس کے سپاہی وزیروں کے کہنے پر لڑنے سے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں اورجان بوجھ کر بزدل ہو رہے ہیں ۔لہٰذااب باہر نکل کے لڑنے کاکوئی فائدہ نہیں کیونکہ غدار اپنا کام کر چکے ہیں اور بہادری کاوقت اب ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ادھر غداروں کی حرکتوں کو دیکھ کرتقدیر اپنا فیصلہ مرتب کر چکی تھی ۔سلطان اپنے وفاداروں کے ساتھ دوبارہ واپسی کے لئے پلٹا تو قلعے کا دروازہ بند تھا اوراس کی صدا پر کسی نے دروازہ نہ کھولا حالانکہ محل کے محافظ دستے کا سالار میر ندیم چند سپاہیوں کے ساتھ اسی دروازے کے اوپر بیٹھا ہوا تھامگراس درندہ صفت شخص نے اپنے نام ’’ندیم‘‘(دوست،مددگار) کی بھی لاج نہ رکھی اور پھراُس سلطان کو کسی نے نہ پوچھا کہ جو قلعے فتح کر نے میں اپنا نام رکھتا تھا اور جس کانام ہی ’’فتح علی ‘‘تھاآج وہ اپنے ہی قلعے کے دروازے پر کھڑا تھا مگر کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھاوہ مظلوموں کی طرح دروازے کو تکتا رہانہ زمین پھٹی اور نہ آسمان لرزا ۔بند دروازہ ،فوج کا شور وغل اور توپوں کی گھن گرج بھی سلطان کوخوفزدہ نہ کر سکی ۔ادھر گولیاں برساتی اور قریب آتی فوج بھی اس کا دل نہ دہلا سکی ۔توپوں کے گولوں سے قلعے کی دیواریں لرز رہی تھیں مگر سلطان کے پاؤں میں لغزش نہ آئی۔کیوں کہ سلطان یہ سوچ رہا تھا کہ میدانِ جنگ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ،مگر تاریخ کا ایک میدان اس کے ہاتھ میں ہے وہ فرنگیوں کے لشکر کا رخ نہیں موڑ سکتا تھا مگر اس نے تاریخ کا رُخ موڑ کے رکھ دیا۔ سلطان یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ آخری دم تک لڑے گا اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی قوم کو ایک پیغام دے جائے گا جو یقیناًنئی صبح اور فتح کا پیغام ہوگااور یہ صرف وہی لوگ سوچتے ہیں کہ قدرت جنہیں دنیا میں کسی خاص مقصد کے لئے بھیجتی ہے اور جب یہ دنیا سے جاتے ہیں تو اس میں بھی قدرت کا کوئی انو کھا راز پو شیدہ ہو تا ہے۔ اس موقع پر سلطان کے کسی ساتھی نے اس سے کہا کہ آپ بھاگ جائیے اور اپنے آپ کو فرنگیوں پر ظاہر نہ کیجئے یا پھر آپ اپنے آپ کو فرنگیوں کے حوالے کر دیں تا کہ آپ کی جان بخشی ہو جا ئے۔ تو سلطان نے جو جملہ کہا وہ ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جا ئے گا کہ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ سلطان دروازے کی طرف پیٹھ کرکے اطمینان سے اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دشمن کی فوج قریب آجائے تو آخری فرض کے طور پر ان سے لڑے اورآخری فرض نبھا کے چند ہی قدم پہ ادب سے دست بستہ ہاتھ باندھے کھڑی شہادت کی موت کو گلے سے لگا کر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جائے۔ یہاں تک کہ فوج دروازے پر پہنچ گئی سلطان نے لڑنا شروع کردیا ۔ایک تو جگہ تنگ تھی اوپر سے سلطان کے گھوڑے کو گولی لگ گئی اب سلطان نے پیدل لڑنا شروع کیا اور جتنوں کو مار سکتا تھا کنجوسی نہیں کی۔اسی دست بدست لڑائی میں سلطان کے کاندھے میں دل کے قریب آکے گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہو گیا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹا کیوں کہ وہ آخری سانس تک آزادی کی جنگ لڑنا چاہتا تھا۔ اتنے میں سلطان کی بندوق اور تلوار کی قیمتی پیٹیوں کو دیکھ کے ایک انگریز سپاہی آگے بڑھا کہ وہ پیٹیاں(بیلٹ) کھینچ لے سلطان نے ایک بھرپور وار کر کے اس کو زخمی کر دیا اس نے غصے میں سلطان کے سر کا نشانہ لے کر گو لی چلا دی جو کہ سیدھی آکے ماتھے پہ لگی اور سلطان شہید ہو گیا۔ادھر سورج سلطان کے مسکراتے ہوئے چہرے کی تاب نہ لاتے ہوئے شام کی سرخی میں اپنا منہ چھپارہاتھا توادھربھی ایک آفتاب اپنے خون کی سرخی میں ڈوب کر تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے ابھر رہاتھا۔رات کی تاریکی میں مشعلیں جلا کے جب سلطان کی لاش کو پہچان لیا گیا توسب نے دیکھا کہ سلطان کا چہرہ مسکراتا ہوا ہے اور اس کاہا تھ مضبوطی سے تلوار کو پکڑے ہوئے ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ :
جو لڑا تھاسپاہیوں کی طرح
ایسا بھارت میں بادشاہ نہ ہوا
روح تو ہو گئی تھی تن سے جدا
ہاتھ تلوار سے جد ا نہ ہوا
جنرل ہیرس نے سلطان کی لاش پر کھڑے ہو کر کہا کہ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔مگر سلطان کی لا ش مسکراتی ہوئی یہ کہہ رہی تھی کہ جس ہند کی آزادی کے لئے ہم نے خون دیا وہ کبھی بھی تمہارا نہیں ہو سکتا،اور ہوا بھی یہی کہ فرنگیوں کو یہاں کبھی بھی سکون واطمینان نصیب نہ ہو سکا اور آزادی کی لا تعداد تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک ختم نہ ہو تی کہ دوسری شروع ہو جاتی اورجنگِ آزادی 1857ء جیسی بڑی لڑائیوں نے جنم لیا۔کیوں کہ ٹیپو کا پیغام آزادی کا پیغام تھا۔سلطان نے اپنی شہادت سے انگریزوں کویہ پیغام دیاکہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں مگرایک غیرت مند مسلمان اپنی آزادی پر کبھی بھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔اور یہی پیغام مسلمانوں کو بھی دیا کہ کسی بھی شخص کو اپنی آزادی پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے، چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو اور سارے دروازے بندہی کیوں نہ ہوجائیں ۔اور پھر یہ سبق دونوں نے اپنی اپنی گرہ میں باند ھ لیا۔یہی وجہ ہے کہ انگریزوں اور مسلمانوں کی کبھی نہیں بن سکی۔ نہ تو انگریزوں نے کبھی مسلمانوں پہ اعتماد کیا اور نہ مسلمان کبھی آزادی کے مطالبے سے پیچھے ہٹے بلکہ ایک قدم آگے ہی بڑھایاکیوں کہ ٹیپو کی شہادت نے انہیں جری اور بیباک کر دیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات وقتی عمل سے زیادہ اُس نظرئیے ،پیغام،خیال یا سبق کی اہمیت ہوتی ہے کہ جس پر عمل کر کے صدیوں بعداچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں اور یہی پیغام اور نظریہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اور یہ پیغام ٹیپوشہید کی طرح اپنی جان دے کے عملی(Practically) طور پرکر کے دکھا دیا جائے تو اس کے اچھے اثرات سے پھیلنے والی صبح کی روشنی کوکوئی نہیں روک سکتا ،چاہے ظلم کی رات کتنی ہی لمبی اور اندھیری کیوں نہ ہو۔
اوریہی وجہ ہے کہ جب ٹیپو کے پیغامِ خودی کو اقبال کے الفاظ مل گئے تو پھر ڈیڑھ صدی کے بعد فرنگیوں کو ہند سے اپنا بوریا بستر اُٹھاناہی پڑا اوریہ’’ ٹیپو کی فتح‘‘ تھی ۔
وہی ہے بندۂ حُر جس کی ضرب ہے کاری
نہ وہ کہ حَرب ہے جس کی تمام عیّاری
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
اُنہی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری
اقبال