جنات اور اسلام
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنات نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے اور اپنی قوم کو بھی اسے قبول کرنے کی دعوت دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے زمین پر اللہ نے صرف دو مخلوق ایسی پیدا کی ہیں جن کو مکمل شعور عطا ء فرمایا اور اس بات کا بھی مکمل اختیار دیا کہ چاہیں تو اپنے لئے سیدھی راہ اختیار کریں اور جنت میں جائیں اور چاہیں تو غلط راہ پر چل کر سیدھا جہنم میں جائیں ۔نیکی کی راہ پر چلنے کے فائدے اور انعامات جبکہ بدی کی راہ پر چلنے کے نقصانات اور سزائیں بتادیں۔ اپنے احکامات بتانے کے لئے اللہ نے انبیاء اور کتابیں بھیجیں ۔چنانچہ سب سے آخری نبی محمدﷺ کو اللہ نے نہ صرف انسانوں بلکہ جنوں کیلئے بھی نبی بنا کر بھیجا اور جیسا کہ آپ کی تعلیمات سے متأثر ہو کر صحابہؓ نے اسلام قبول کیا اسی طرح جنات نے بھی اسلام قبول کیا ۔جنات قرآن سن کر مسلمان ہوئے اور اپنے قبائل میں جاکر اسلام کی تبلیغ کرنے اوراسکو پھیلانے کاکام انجام دیا جس کے نتیجے میں اللہ نے مزید جنات کو ہدایت عطاء فرمائی اور مسلمان جنات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔جنات نے سب سے پہلے طائف کے سفرسے واپسی پر آپ ﷺسے قرآن سنا اور مسلمان ہوئے۔یہاں ہم طائف کے سفر کے بارے میں مختصراً بتاتے ہیں کیوں کہ طائف اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اس لئے اس سفر کی تفصیل پھر کسی مضمون میں لکھیں گے فی الحال ہمارا موضوع ’’جنات‘‘ ہیں۔اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں جہاں آپ ﷺنے اور بہت سی جگہوں کا سفر فرمایا وہیں آپ ﷺمکہ سے ساٹھ میل کے فاصلے پر واقع وادئ طائف بھی تشریف لے گئے ۔طائف کے سرداروں نے نہ صرف آپ ﷺ کی باتوں پر عمل کرنے سے انکار کردیا بلکہ آپ ﷺ کی سخت نا قدری کی۔آپ ﷺکا مذاق اڑایا،تالیاں بجائیں اورآپ ﷺکوپتھر مارے جن سے آپ کو سخت چوٹیں آئیں،اس رویے سے آپﷺ بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کو بڑا دکھ پہنچا کہ ایک آدمی نے بھی اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ الٹا مذاق اڑایا اور تکلیف پہنچائی۔واپسی پر آپ ﷺایک کافر کے باغ میں سانس لینے کے لئے رکے تو اس نے آپ ﷺکی خد مت میں انگور پیش کئے،اسکے بعد آپ نے پھر مکہ کی جانب سفر شروع کیاتو حضرت جبرائیل پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ تشریف لائے اور عرض کی کہ اگر آپ ﷺ حکم فرمائیں تو طائف والوں کو دو پہاڑوں کے بیچ میں پیس دیا جائے مگر آپ ﷺ نے کمال رحمت سے فرمایا کہ ہو سکتا ہے ان کی اولاد وں میں سے کوئی ایمان لے آئے ۔حضرت جبرائیل کے آ نے سے آ پکو کافی سکون ملا اور آپ ﷺ مکہ کی جانب چل پڑے راستے میں آ پ ﷺ نے ایک وادی میں قیام فرمایا جسے وادئ نخلہ کہاجاتا ہے اور یہیں جِنّات نے سب سے پہلے آ پ ﷺ سے قرآن کی تلاوت سنی اور اسلام قبول کیاجس سے آپ ﷺکے دل کو مزیدسکون پہنچااور غم خوشی میں بدل گیا ۔جنات نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے اور اپنی قوم کو بھی اسے قبول کرنے کی دعوت دی ۔ جنات کے اس جگہ ایمان لانے کا ذکر قرآنِ مجید میں دو جگہ آیا ہے۔’’سورۃ الاحقاف ‘‘اور’’ سورۃ الجن‘‘ میں
سورۃالاحقاف کی آیات (۲۹،۳۰،۳۱)میں اللہ تعالیٰ اس واقعے کا ذکر یوں فر ماتے ہیں۔
’’(اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے)جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں۔جب وہ اُس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انھوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ۔پھر جب وہ پڑھا جاچکاتو وہ خبردار کر نے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے۔اُنھوں نے جاکر کہا،’’اے ہماری قوم کے لوگو،ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسٰی ؑ کے بعد نازل کی گئی ہے،تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی۔راہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف۔اَے ہماری قوم کے لوگو،اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرلو اور اُس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے در گزر فر مائے گااور تمہیں عذابِ الیم سے بچادے گا‘‘
جبکہ سورہ الجن کی آیات(۱ ،سے،۱۵) میں اللہ فرماتا ہے۔
’’اے نبی ؐ،کہو،میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سناپھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے)کہا:’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سناہے جو راہِ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اُس پر ایمان لے آئے اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘اور یہ کہ’’ ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے،اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایاہے‘‘۔اور یہ کہ ’’ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں ‘‘۔اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے‘‘۔ اور یہ کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اِس طرح اُنھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔اور یہ کہ’’ انسانوں نے بھی وہی گمان کیاجیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو نبی بنا کر نہ بھیجے گا‘‘۔اور یہ کہ’’ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے‘‘۔اور یہ کہ’’ پہلے ہم سُن گُن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے ،مگر اب جو چوری چُھپے سُننے کی کو شش کر تا ہے وہ اپنے لئے گھا ت میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے‘‘۔اور یہ کہ ’’ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کو ئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا ربّ اُنہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔اور یہ کہ’’ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فرو تر ہیں۔ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔اور یہ کہ’’ ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سُنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔اب جو کوئی بھی اپنے ربّ پر ایمان لے آئے گا اُسے کسی حق تلفی یاظلم کا خوف نہ ہو گا‘‘۔اور یہ کہ ’’ہم میں سے کچھ مُسلِم (اللہ کے اطاعت گزار)ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیارکرلیا اُنھوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی،اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں‘‘۔
ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے بعد جوچند اہم باتیں ذہن میں آتیں ہیں وہ مندر جہ ذیل ہیں۔
(۱) ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس طرح انھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔
(۲) اب جنات آسمان کی طرف جاتے ہیں تو شہاب ثاقب کی بارش ہوجاتی ہے۔جو ان کا پیچھا کرتے ہیں۔
(۳)جنات کو اللہ اپنی قدرت سے وہاں لایا جہاں حضرت محمد ﷺ قرآنِ کریم کی تلاوت فرمارہے تھے تاکہ وہ قرآن سنیں۔
(۴)جنوں نے قرآن کو بڑے غور اور ادب سے سنا اور ایک دوسر ے سے کہاکہ خاموش ہو جاؤ۔
(۵)جنات نے جب قرآن سنا تو ان کو یہ نیا اور اچھوتاکلام لگااورانہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سناہے۔
(۶)جنات نے شرک سے توبہ کی اور کہاکہ’’اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘اور یہ کہ’’ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘
(۷)جب جنات کو اللہ نے ہدایت دی تو انہوں نے اسے اپنے پاس سنبھال کے نہیں رکھا بلکہ اس کو آگے جنات میں بھی پھیلایا۔
(۸)جنات نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کرے گااور تمہیں عذاب سے بچائے گا۔
(۹)انھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔
(۱۰)اوریہ بھی کہاکہ’’جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) کرلیا انھوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی،اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں‘‘۔
اس واقعے کے بعد بھی جنات آپ ﷺ کے پاس ایمان لانے کے لئے وفود کی صورت میں آتے رہے اور جو مسلمان تھے وہ اسلام کی تعلیمات کو سیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔
مؤرخین کے مطابق واقعۂ طائف نبوت کے دسویں سال شوال میں پیش آیا اور عیسوی سن ۶۱۹ء کے مہینوں مئی کے آخر یا جون کے شروع میں پیش آیا۔تو گویا جنات کے اسلام قبول کر نے کا سال بھی یہی ہوا۔