skip to Main Content
بچپن کا سچ

بچپن کا سچ

محمدالیاس نواز

………………..………………………………….

فانوس نے گرتے ہی یہ بتا دیا تھا کہ اس کے بچپن کا سچ زیادہ خالص تھا۔

…………………………………………………… 

’’انکل میں یہاں بیٹھ جاؤں؟‘‘ 
وائے نوٹ (کیوں نہیں)بیٹا،ضرور بیٹھئے۔
انکل! آپ کیا لکھ رہے ہیں؟
بیٹا مجھے اپنی کہانی کیلئے ایک بات یاد آئی تھی تو میں نے سوچا لکھ لوں ورنہ بھول جاؤں گا۔
’’واؤ،آئی لائک سٹوریز(مجھے کہانیاں پسند ہیں)، آپ سٹوریز لکھتے ہیں انکل؟‘‘
ہاں بیٹا!کوشش کرتا ہوں لکھنے کی۔
’’مگر انکل! آپ میرج لان(شادی لان) میں بیٹھ کر اسٹوری لکھ رہے ہیں؟‘‘
ہاں بیٹا!ایک دو پوائنٹ جو ابھی مائنڈ(ذہن) میں آئے ہیں لکھ رہا ہوں تاکہ بھول نہ جاؤں۔
’’اچھا!آپ کس پر لکھیں گے سٹوری انکل؟‘‘
بیٹا میں اپنے انکل پر لکھ رہا ہوں ۔
’’انکل !آپ کے انکل میں کچھ خاص ہے؟‘‘
ہاں بیٹا! وہ امریکہ سے جہاز میں پیدل آئے ہیں ناں….اسلئے۔
’’او ہ ہ انکل !آپکے انکل تو بہت انٹرسٹنگ (دلچسپ ) ہیں…. ہیں ناں انکل؟آپ انکے بارے میں کچھ اور بتائیے نا پلیز…‘‘
ہاں بیٹا وہ بہت دلچسپ ہیں۔انہوں نے ایک بار مجھے گیارہ سو کا نوٹ گفٹ کیا تھا۔
’’مگر انکل!’ ایلیون ہنڈریڈ(گیارہ سو)‘کا نوٹ تو ہوتا ہی نہیں ہے‘‘۔
بیٹا!ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر اس نوٹ کی ایک سائیڈ ہزار کا پرنٹ تھا اور دوسری سائیڈ سو کا۔
’’اچھا انکل !میرے بھی ایک انکل تھے ،انکی ڈیتھ (موت) ہو گئی ہے۔اور انکل ڈیتھ سے پہلے انکے بال گر گئے تھے ….
بیٹا !بال گرنے کی وجہ سے ان کی ڈیتھ ہوئی؟
’’نہیں انکل شاید ڈیتھ کی وجہ سے انکے بال گرنے لگے تھے ،شاید کمپلیٹ ڈیتھ(مکمل موت) سے پہلے ہی انکی تھوڑی تھوڑی ڈیتھ ہونے لگی ہو…اللہ تعالیٰ ایک دم سے تو کسی کو کمپلیٹ ڈیتھ نہیں نا دیدیتے۔ ہے ناں انکل؟.. …بٹ ….آئی ڈونٹ نو(میں نہیں جانتا) انکل!مگرجب انکے بال تھے ناں تو میرے پاپا نے انکو دیکھاتھا وہ ایک سائن بورڈ پر لگی پکچر سے کہہ رہے تھے کہ’’ ذرا سا ہوا چلے تو میرے بال خراب ہو جاتے ہیں مگرآندھی آئے یا طوفان تمہارے بال خراب نہیں ہوتے ،کیا لگاتے ہویار؟‘‘انکل آپ بتائیے، آپ کے انکل کے بال ہیں؟‘‘
نہیں بیٹا میرے انکل نے ایک بار بائیو آملہ شیمپو دودھ میں پھینٹ کر پی لیا تھااسے کے بعد سے انکی گھنگھریالی ٹنڈ نکل آئی ہے۔ 
’’اچھا انکل! آپ کے انکل نے کہاں تک پڑھا ہوا ہے ،کیاہائی لی ایجوکیٹد(اعلیٰ تعلیم یافتہ) ہیں؟‘‘
ہاں بیٹا!انہوں نے گجرانوالہ تک پڑھا ہے اور انہوں نے ایم اے فقیریات کیا ہوا ہے۔آپ کے انکل نے کتنا پڑھا تھا بیٹا،آپکو پتا ہے؟
اوہ ،گڈ،ایم اے فقیریااات …انکل پاپا کہتے ہیں کہ میرے انکل نے بھی ہوم پولیٹکس(گھریلوسیاسیات) میں’’ڈبل ایویں‘‘ کیاتھااور ماما کہتی ہیں کہ انہوں نے ردی کی پوری چھ ٹوکریاں پڑھی تھیں۔اور انکل!آپکو پتا ہے، میرے انکل بہت انٹیلی جنٹ(ذہین) تھے۔ ایک بار فقیر نے ان سے پیسے مانگے تو انہوں نے انکار کردیا۔ جب پاپا نے کہا کہ’’ وہ بلائنڈ(نابینا) ہے‘‘ تو انکل نے کہا کہ’’ نہیں بلائنڈ نہیں ہے ،بس ویسے ہی نظر نہیں آتا اس کو۔‘‘
اوکے بیٹا!مگر میرے انکل ایسے نہیں ہیں ۔ان سے فقیر نے جب کہا کہ’’ ایک روپیہ دے دو۔ اللہ تمہیں دودیگا‘‘تو انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور اس سے کہا کہ ’’پہلے دو دلاؤ پھر اس میں سے ایک تمہیں دے دوں گا۔‘‘
’’انکل !آپکے انکل کا نام کیا ہے؟‘‘
بیٹا!چوہدری ڈیوڈ ولسن۔
’’اوکے انکل! پہلے میرے انکل بھی سید تھے پھر پاپا بتاتے ہیں کہ وہ سسپنڈ(معطل)ہو کرشیخ ہو گئے تھے۔اور انکل!وہ اتنے سمپل(سادہ) تھے کہ فیس واش سے پاؤں دھو لیتے تھے۔‘‘
بیٹا انکل تو میرے بھی سادہ ہیں۔کہیں اردومیں واش روم(بیت الخلاء)لکھا ہوتو عربی سمجھ کر چوم لیتے ہیں۔ مگر ہیں بہت امیر ایک بار انہوں نے اپنے گھر کال کی اور کہا کہ ایک کروڑ روپے پانی میں ڈال دو، مچھلیوں کا فون آیا تھا انہیں ضرورت ہیں۔اور بیٹا وہ تو ابھی امریکا سے آئے تو سوچ رہے تھے کہ پاکستان کے سارے روڈز پر چیز(خرید) کر لیں مگر گورنمنٹ نے کہا کہ وہ سگنل نہیں بیچتے اس لئے رہ گئے۔
’’اوہ ہ انکل !..سیم(اسی طرح)میرے انکل بھی بہت رِچ(امیر) ہیں۔پاپا بتاتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے آنٹی کو کال کی اور ان سے کہا کہ ’’ایک کروڑ روپے جو میں پانی میں بھگو کر رکھ گیاتھا، انکو نکال کرپریس (استری)کروا دومجھے چاہئیں میں آرہا ہوں۔‘‘بٹ (لیکن) مجھے ناں، انکی ایک بات سمجھ نہیں آئی ۔ان کے ہاں جب کوئی گیسٹ(مہمان) آتا تھا نا..اور وہ جب اس کیلئے ٹی(چائے) بنواتے تھے تواسکو پیتے ہوئے دیکھتے تو ایک بات کہتے تھے کہ’’لائف (زندگی) کا کیا پتا ،چائے پوری ہو کہ نا ہو…‘‘
بیٹا !آپ کے انکل کی یہ بات تو میرے انکل سے ملتی تھی،میرے انکل کے ہاں جب کوئی مہمان آتا ہے تو وہ اس کو کہتے ہیں کہ ’’آپ بیٹھئے،جائیے گا نہیں!میں آپ کے لئے چائے کا منع کر کے آتا ہوں۔
’’انکل!ٹی سے یاد آیا کہ ماما بتاتی ہیں کہ انکل نے زیادہ شربت آسانی سے اور جلدی بنانے کا ایک طریقہ ایجاد کیا تھا۔‘‘
وہ کیابیٹا؟
’’ماما بتاتی ہیں کہ بہت پہلے رمضان کے منتھ(مہینہ) میں ایک باردادا ابو نے ایک بہت بڑی افطار پارٹی بلائی تھی۔تو اس وقت ناں ..دادا ابو نے انکل اور پاپا سے کہا کہ تم شربت بنانے کیلئے شوگر(چینی)گھول لو۔پاپانے کہا کہ میں مارکیٹ ہو آؤں ابھی ٹائم ہے۔ بٹ، جب پاپا آئے تو واشنگ مشین چل رہی تھی مگر چینی گھل چکی تھی۔‘‘
اچھااا،بھئی واقعی آپ کے انکل بہت جینئس (باصلاحیت) تھے، آج کل میرے انکل بھی دس،دس کلو جلیبیاں گھر لے جا رہے ہیں۔
’’کیوں انکل!وہ سویٹس(مٹھائی) بہت لائیکّ (پسند)کرتے ہیں؟‘‘
نہیں بیٹا!وہ یہ ریسرچ کر رہے ہیں کہ جلیبیوں میں شیرہ کیسے بھرتے ہیں۔بیٹا!جب آپ کے انکل بیمار ہوئے تو ان کی فیملی انہیں ڈاکٹر کے پاس نہیں لے گئی تھی ؟
’’انکل !ڈاکٹر کے پاس تو لے گئے تھے، بٹ(لیکن) ڈاکٹر انکل خود حکیم کے پاس گئے ہوئے تھے۔انکل مجھے ناں..انکی بہت یاد آتی ہے۔وہ ہر کسی کیلئے بیسٹ وشز(نیک خواہشات)رکھتے تھے۔انکل!میں آپکو بتاؤں ایک بار کیا ہوا…انکا ایک پڑوسی آیا او رکہنے لگا کہ’’ڈیڈی کی ڈیتھ ہوگئی ہے ‘‘۔تو انکل نے پوچھا کہ ’’کیسے ؟‘‘تو اس نے بتایا کہ گھر کی چھت سے گر گئے تھے ۔تو انکل نے فوراً کہاکہ’’چلو شکر ہے ٹانگ تو بچ گئی ناں‘‘..بلییو می(میرا یقین کیجئے) انکل!وہ ہر کسی کو دعائیں دیتے رہتے تھے۔ماما بتا تی ہیں کہجب میرے نانا ابو بیمار ہوئے تھے نا…تو انکو دیکھنے ہاسپٹل گئے ۔تو نانا ابو کے منہ سے نکل گیا کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ اتنا ایکس پین سیو(مہنگا) علاج کون افورڈ (برداشت) کر سکتا ہے ۔ اب تو مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے‘‘۔توانکل فوراًدعائیں دینے لگے کہ اللہ آپکو اپنا ہاسپٹل دے تاکہ علاج میں پرابلم ہی نہ ہو۔اللہ کرے آپ کی اپنی زمینیں ہوں جن پر آپکا پرسنل(ذاتی) قبرستان ہو۔‘‘
بیٹا! میرے انکل کی یہ عادت ہے کہ جب کسی مریض کو دیکھنے جاتے ہیں تو دعا کرتے ہیں کہ اللہ مجھے صحت دے،اللہ مجھے شفاء دے اور جب کسی کی ڈیتھ پر دعاء کرتے ہیں تو اسکی طرف چہرہ کرکے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے ہیں کہ اللہ مجھے بخشے،اللہ میری مغفرت کرے،مگر بیٹا آپ کے انکل جیت گئے…
’’بٹ(لیکن) وہ کیسے انکل؟‘‘
بیٹا جب انسان بچپن میں ہوتا ہے ناں تو اس کے انکل جیت جاتے ہیں،میں بھی جب بچپن میں تھا تو میرے انکل بھی جیت جاتے تھے(میری زبان کے ذریعے) ۔اصل میں کہانی تو آپ کے انکل پر ہونی چاہئے۔ کیونکہ لگتا ہے آپ کے انکل زیادہ بڑی کہانی تھے (اور آپ کا بچپن اس سے بڑی اسٹوری)۔
’’یس، یس انکل !انہوں نے بہت پہلے نا ایک سٹوری بھی مجھے سنائی تھی ،آپ کو سناؤں انکل؟‘‘
یس ،وائی نوٹ(کیاں نہیں)،بیٹا۔۔۔!
’’وہ بتاتے تھے کہ ایک پہلوان تھا’’نہلا ‘‘۔وہ کسی ولیج (گاؤں)میں رہتا تھا اور اس سے بڑا کوئی اور پہلوان نہیں تھا۔ ایک دن اس سے کسی نے کہا کہبوووہت دوووور ایک ولیج میں تم سے بڑا،بہت بڑاایک اور پہلوان رہتا ہے ’’دہلا‘‘۔جسکا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔تو وہ سن کر شوکڈ (حیران) ہوا کہ میں نے آج تک تو سنا نہیں اپنے سے بڑا پہلوان،بٹ اب کہاں سے نکل آیا۔تو انکل بتاتے تھے کہ اسے شوق ہوا دہلے کو دیکھنے اور اس سے مقابلہ کرنے کا۔تو وہ ہے نا….اس گاؤں کی طرف چل پڑا۔گھر سے چلتے ہوئے ایک ڈنڈا اور ایک چادر اس نے اپنے ساتھ رکھ لئے تھے۔راستے میں اسلو کچھ ایلیفنٹ(ہاتھی)ملے اس نے دوتین ایلفنٹس کو چادر میں گٹھری باندھ کر اس کو ڈنڈے سے باندھا اور شولڈر(کندھے) پر لٹکا لیا۔جب وہ دہلے کے گیٹ پر پہنچا تو اس نے ڈنڈے کو جھٹکا دے کر ہاتھی اس کے گھر میں پھینک دئیے۔اتنے میں اندر سے دہلے کی بیٹی کی آواز آئی ۔
،وہ چیخ چیخ کر اپنی ماما سے کہہ رہی تھی کہ دیکھئے !میں نصف ایمان (صفائی)کر رہی تھی کہ باہر سے کسی نے صحن میں کیڑے مکوڑے پھینک دئیے ہیں۔اس کی ماما نے اس سے کہا کہ بیٹی،لال بیگ آگئے ہوں گے جھاڑو سے باہر دھکیل دو۔انکل بتاتے تھے کہ نہلا بہت شوکڈ(حیران) ہوا تھا۔پھر اس نے دہلے کو آواز لگائی …یو نو(آپ جانے ہیں) انکل! اس وقت ڈور بیل (گھنٹی) نہیں ہوتی تھی۔دہلے کی بیٹی نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو نہلے نے بتایا کہ وہ نہلا ہے اور دہلے سے مقابلے کی وش(خواہش)لیکر آیا ہے۔تو دہلے کی بیٹی نے بتایا کہ ’’پاپا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گئے ہوئے ہیں۔نہلا جنگل کا راستہ پوچھ کر جب جنگل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ہیوی (بھاری) لکڑیوں سے بھرے چھکڑوں کی بہت بڑی لائن ہے جو ایک دوسرے سے اٹیچڈ(بندھے ہوئے) ہیں اور ٹرین کی طرح انکو آگے سے کوئی کھینچ رہا ہے۔ بٹ ،لائن اتنی بڑی ہے کہ آگے والا سرا نظر نہیں آرہا ۔نہلے نے ایک پاؤں اٹھا کر سب سے پیچھے والے چھکڑے پر رکھ دیا جس سے پوری لائن رک گئی۔ تھوڑی دیر میں دور سے ایک آواز آئی کہ’’ چھوڑ دو بھائی کون شرارت کر رہا ہے؟‘‘تو نہلے نے آواز لگائی کہ’’ میں تم سے مقابلہ کرنے آیا ہوں شرارت نہیں۔‘‘ دور سے پھر آواز آئی کہ’’ اچھا، رُکو! میں آتا ہوں ۔‘‘ دہلا چھکڑوں کی لائن کے فرنٹ کو چھوڑ کر بیک پرآگیا اور نہلے کی ساری بات سننے کے بعد وہ بولا کہ’’ یہاں تو ہم اکیلے ہیں۔ اگر ہم لڑتے بھی ہیں تو فیصلہ کون کرے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا۔‘‘اتنے میں دور سے ایک اماں ہاتھ میں ایک پوٹلی اٹھائے آتی ہوئی نظر آئیں ۔ان دونوں نے اماں سے ریکویسٹ (درخواست)کی کہ اماں بیٹھ کر انکی کُشتی دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کون جیتا ،کون ہارا۔ مگر اماں نے کہا کہ’’میرا بیٹا تھوڑا سا آگے بکریاں چرا رہا ہے اور میں اس کے لئے کھانا لیکر جا رہی ہوں اورآج میں ویسے ہی لیٹ ہو گئی ہوں۔میرا بیٹا بھوکا ہوگا اس لئے میرے پاس ٹائم نہیں ہے ۔ مگرمیں تمہیں ایک سجیشن(تجویز) دیتی ہوں۔ کہ تم لوگ جنگل کی گھاس والی زمین کا ایک پیس اٹھا کر میری ہتھیلی پر رکھ کر لڑنا اسٹارٹ کرو، میں چلتی بھی جاؤں گی اور تمہیں دیکھتی بھی جاؤں گی ‘‘۔انہوں نے مل کر گراؤنڈ کا ایک بہت بڑا پیس اکھیڑ کر اماں کی ہتھیلی پر رکھا اور لڑنے لگے۔ اماں انکو دیکھتی جا رہی تھیں کہ سامنے سے انکو اپنا بیٹا نظر آیا جو بھوک سے بے حال ہو گیا تھا ۔ اس نے سوچاکہ آج اماں نہیں آئیں گی اور بھیڑ بکریوں کو ہانکتا ہوا لے گیا تو بہت دیر ہو جائے گی ۔اس نے بھیڑ بکریوں کو اپنی چادر میں گٹھری باندھا اور اب کندھے پر رکھ کر چلا آرہا تھا کہ ایک نیو پرابلم ہو گئی ۔ایک چیل آئی اور اسکی شیپ،گوٹ(بھیڑ،بکریوں )والی گٹھری اچک کر لے گئی۔تھوڑی دور محل کی چھت پر شہزادی شام کے وقت ہوا خوری کر رہی تھی ۔اس نے اوپر دیکھا تو چیل کے پنجے سے گٹھری چھوٹ کر شہزادی کی آنکھ میں گر گئی۔شہزادی پین( درد) سے چیخنے چلانے لگی۔ایمرجنسی بیسز(ہنگامی بنیادوں) پر آنکھ کی صفائی کرنے والے ماہرین بلوائے گئے۔وہ فوراًاپنا مخصوس لباس پہن کرآنکھ کی صفائی کا سامان(شاید مخصوص جھاڑو، وائپر) لیکرآنکھ میں اتر گئے…‘‘
کہانی ابھی جاری تھی کہ اس وقت بھگدڑ اور چیخ و پکار مچ گئی جب …چھنّاک،دز،دھڑاز…. بچپن میں ہی کوئی بچہ اتنا خالص سچ بولے گا تو چھت نہ بھی گرتی، میرج لان کا فانوس تو گرنا تھا۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top