شیشہ کس نے توڑا؟
اعظم طارق کو ہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ لگا چھکا۔‘‘ میں نے نعرہ لگایا۔
گیند ہوا کے دوش پر اڑتی ہوئی ہماری بنائی ہوئی مخصوص باؤنڈری لائن پار کرگئی۔ آج کرکٹ کھیلتے ہوئے ہمیں خصوصی طور پر خیال رکھنا پڑرہا تھا۔ اشرف صاحب کی گاڑی آج سڑک کے کنارے پر ہی پارک ہوئی تھی۔ مجھے کھیلنے کے معاملے میں خودپر تو اعتماد تھا مگر طاہر کے اناڑی پن سے ہمیشہ کی طرح ڈر رہا تھا لیکن آج یہ ڈر کچھ زیادہ محسوس ہورہا تھا۔ طاہر پہلے بھی اُلٹی سیدھی شارٹ مار کر گیندیں گما چکا تھا، اب بھی میں ڈر رہا تھاکہ کہیں وہ کوئی ایسا شاٹ نہ مار دے جس کی وجہ سے ہمیں کوئی مشکل اٹھانی پڑے۔
دل ہی دل میں آج ہم سب اشرف صاحب کو خوب کوس رہے تھے کہ انہیں یہی جگہ ملی تھی گاڑی کھڑی کرنے کے لیے۔۔۔! اسی پریشانی کے عالم میں مجھ سے صحیح کھیلا بھی نہ گیا۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ میچ کو وہیں روک کر ہم نے اپنے قدم مسجد کی طرف بڑھا دیے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم واپس گھر کی جانب چل دیے۔ ابھی ہم گلی کے نکڑ پر پہنچنے والے تھے کہ ہمیں کچھ ’’شور‘‘ سا محسوس ہوا۔
’’خدا خیر کرے۔‘‘ میں بڑ بڑایا۔ گلی میں پہنچتے ہی میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ میرے دوسرے ساتھی جو کہ میرے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے اب اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔
’’یہ ان ہی شیطانوں کا کام ہے۔ کوئی اور جگہ نہیں ملی ہے انہیں کرکٹ کھیلنے کے لیے ۔۔۔ کچھ بھی ہوجائے، یہاں گلی میں ہی آکر کھیلیں گے‘‘۔ اشرف صاحب ہاتھ نچا نچا کر روایتی اور ناکام سیاست دانوں کی طرح مجمع سے مخاطب تھے۔ میں گلی کے کونے میں ہی کھڑا ہوگیا۔اچانک طاہر بھی پیچھے سے آکر ٹپک پڑا۔ اشرف صاحب کے تیور دیکھ کر پہلے تو اس نے حیرت کا اظہار کیا: ’’یار ہوا کیا ہے ؟اور یہ اشرف صاحب گلا کیوں پھاڑ رہے ہیں؟ لیکن۔۔۔ تمہیں کیا ہوا؟‘‘ طاہر نے جب مجھے جھنجھوڑا تو گویا میں ہوش میں آگیا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ میں گڑبڑا کر بولا۔
’’یہ کیا ہاں ہاں۔۔۔ نہیں لگا رکھی ہے۔‘‘
’’وہ اشرف صاحب کی گاڑی کے شیشے کو دیکھو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا ہوا شیشے کو؟۔۔۔ ارے یہ کس نے کیا؟‘‘ ٹوٹے ہوئے شیشے کو دیکھ کر طاہر کے ہاتھ پیر پھول گئے، جبکہ میرے ہاتھوں کے توتے پہلے ہی اُڑ چکے تھے۔ اب تک کسی کی بھی نظر ہم پر نہیں پڑی تھی اور ویسے بھی ہم ذرا ’’اُوٹ‘‘ میں تھے۔
’’اشرف صاحب تو یقیناًہم پر ہی شک کریں گے۔۔۔ میں تو نو دو گیارہ ہی ہوجاؤں تو بہتر ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ طاہر یہ کہہ کر بھاگتا، میں نے اس کا کالر مضبوطی سے کسی پہلوان کے مانند پکڑ لیا۔
’’طاہر بھاگنے کی کوشش فضول ہے۔۔۔ بغیر سامنا کیے، جان چھڑانا ممکن نہیں، ویسے بھی یہ ہماری شرارت نہیں ہے، پھر ہم کیوں ڈریں؟‘‘ کہنے کو میں نے یہ جملہ کہہ دیا لیکن اس وقت میرے دل کی کیفیت میرا اللہ ہی جانتا تھا۔
’’تم اکیلے چلے جاؤ۔ بڑے بہادر بنتے ہو ناں تم۔۔۔‘‘ طاہر نے مجھے تمثیلی انداز میں میری بہادری کے قصے یاد دلاتے ہوئے کہا۔ میں کچھ کہنے ہی لگا تھاکہ اشرف صاحب نے ہماری جھلک دیکھ لی۔
’’ہاں بھئی ہاں ۔۔۔لڑکو! اب چھپ کر دیکھ رہے ہو، باہر آؤ‘‘۔ اشرف صاحب نے ہماری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ہم نے اسی میں عافیت جانی کہ باہر نکل آئیں۔
’’ڈریں ہمارے دشمن۔۔۔ ہم تو آہی رہے تھے۔‘‘ طاہر نے باآواز بلند کہا تاکہ سب سن لیں۔
’’تم لوگ گاڑی کا شیشہ توڑ کر بھاگے ہو، آج تمہاری خیر نہیں ہے۔‘‘ قدوائی صاحب کو تو ویسے بھی ہر معاملے میں بولنے کی عادت تھی۔
’’ہیلو انکل! ہم کہیں نہیں بھاگے بلکہ۔۔۔‘‘ طاہر نے نجانے کس خیال کے تحت بات ادھوری چھوڑی۔ ’’بلکہ۔۔۔ کیا بلکہ۔۔۔ کیسا بلکہ۔۔۔‘‘ سب ایک آواز میں بولے۔
’’نماز کے لیے گئے تھے۔‘‘ میں نے طاہر کا مطلب سمجھتے ہوئے خود ہی بتادیا۔ طاہر کی یہ عادت کافی اچھی تھی کہ وہ نیکی کے کاموں کا چرچا نہیں کرتا تھا۔
’’اب یہ نماز وغیرہ کا بہانہ نہیں چلے گا۔ پورا محلہ گواہ ہے یہاں پر تم لوگ ہی کرکٹ کھیل رہے تھے اور یہ شیشہ بھی گیند سے ٹوٹا ہے۔‘‘ اشرف صاحب تپ کر بولے۔ وہ اس وقت غصے کے مارے ایسے گرم ہوئے تھے کہ اگر اُن پر کچا انڈا کھینچ کر مارا جاتا تو وہ فوراً پک کر تیار ہوجاتا۔
’’پورے چھ ہزار روپے کا خرچہ ہے۔ یا تو خرچہ دو یا پھر میرا شیشہ لگوا دو، ورنہ۔۔۔‘‘ اشرف صاحب بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوئے تو میں نے بھڑک کر کہا: ’’ورنہ کیا کرلیں گے آپ؟ کہہ جو دیا یہ شیشہ ہم نے نہیں توڑا۔ ہمارے نماز پڑھنے جانے کے دوران کسی نے یہ شرارت کی ہے۔‘‘
’’کس نے کی ہے؟‘‘ اشرف صاحب نے کہا۔
’’ہمیں کیا معلوم۔‘‘ جواب طاہر کا تھا۔
’’تم لوگ مجھے ٹوپیاں پہنانا بند کرو۔ نقصان بھرتے ہو یا شام کو تمہارے والدین کام سے آئیں گے تو ان کو تمہاری شکایت لگاؤں۔‘‘ اشرف صاحب طاہر کے جواب سے جھلاّ گئے تھے۔
شکایت لگانے کی دھمکی پر ہمارا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ہم دونوں کے ماتھے پر پسینہ آچکا تھا۔ ہمیں ہر حال میں سزا ملنی تھی۔ اشرف صاحب کے ساتھ پورا محلہ تھا جب کہ ہماری آواز نقار خانے میں توتی کی آواز ثابت ہورہی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اب پورا محلہ ہمیں لعنت ملامت کررہا تھا۔ میرے تو طاہر سے بھی زیادہ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اچانک نجانے طاہر کس خیال کے تحت سامنے والی عمارت میں گھس گیا۔ اس عمارت میں پچاس کے قریب فلیٹ تھے۔ لوگ سمجھے شاید وہ پیسے لینے گیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی۔ لوگوں کی نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں۔
’’اِدھر آؤ۔‘‘ طاہر نے اشارے سے مجھے بلایا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’پتا چل گیا ہے کہ شیشہ کس نے توڑا ہے۔‘‘ طاہر مسکراتے ہوئے بولا۔
’’کس نے۔۔۔؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا ۔۔۔’’اور تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’تمہیں پتا ہے، رحیم بابا ہر وقت چھت پر ہوتے ہیں اور نظریں ان کی گلی میں۔ میں نے جب انہیں مسئلہ بتایا اور پوچھا کہ ۳۵:۱ ؍یا اس سے آگے پیچھے گلی میں کوئی آیا تھا؟ تو اس نے بتایا کہ ایک لڑکا اس گلی میں منڈلا رہا تھا جس نے لال رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔‘‘
میں نے اپنا ہاتھ زور سے ماتھے پر مارتے ہوئے کہا: ’’بدھو آدمی اس سے ہمیں کیا پتا چلے گا کہ مجرم کون ہے؟‘‘
’’پوری بات تو سنو۔۔۔! اس نے چشمہ بھی پہنا ہوا تھا اور چشمے میں ایک باریک سی زنجیر بھی لگی ہوئی تھی جو کہ چشمے کو نیچے گرنے سے روکتی ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ میں حیرت سے چلاّ اٹھا۔
’’ہاں چور وہی ہے جو تم سوچ رہے ہو۔ یہ حرکت ’’عامر ‘‘کی ہی ہے۔ اس طرح کا چشمہ اس محلے میں ہی نہیں بلکہ پورے ظفر ٹاؤن میں وہی پہنتا ہے۔‘‘
’’اور اسے ہمارے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہے، وہ ہمیشہ ہمیں پھنسانے کی ترکیبیں کرتا رہتا ہے۔‘‘ میں نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔
میں محلے والوں کی طرف مڑا جو ہمیں یوں کھسر پھسر کرتے دیکھ کر شدید بے چینی محسوس کررہے تھے۔
’’مجرم کا پتا چل گیا ہے۔ میرے ساتھ چلے آؤ۔‘‘ میں نے جیمز بونڈ بننے کی کوشش کی۔
میرے بلند آواز سے اس اعلان پر وہ سب ہماری طرف ٹوٹ پڑے۔
’’کون ہے؟‘‘
’’کہاں ہے؟‘‘
’’یہ ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں۔‘‘
’’ان کی باتوں میں نہ آنا۔‘‘
’’یہ بھاگنے کے چکر میں ہیں‘‘
اس قسم کی فضول آوازوں پر ہم نے قطعاً کان نہ دھرے اور یہ کہہ کر عامر کے گھر کی جانب قدم بڑھا دیے کہ ’جس کو اپنے نقصان کی فکر ہے وہ چلا آئے، بعد میں ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ‘ہمیں امید تھی کہ اور کوئی آئے نہ آئے اشرف صاحب ضرور آئیں گے۔
مگر ان کے ساتھ مزید دس بارہ افراد بھی تھے۔ جو کہ یقیناًہمارے خیر خواہ ہر گز نہیں ہوسکتے تھے۔مجرم کا معلوم ہونے پر میرے تو پیر ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ ’’آج تو اس عامر کے بچے سے سارے اگلے پچھلے بدلے چکا کے رہوں گا۔‘‘ میں نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے سوچا۔
عامر کی گلی آچکی تھی۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کے گھر کے پاس پہنچتے طاہر رک گیا۔ جس کی وجہ سے پیچھے آنے والا قافلہ بھی رک گیا تھا۔
’’کیا ہوا؟ رک کیوں گئے؟‘‘ میں نے طاہر کے کان میں سرگوشی کی۔
’’نہیں میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ طاہر نے ایسے کہا جیسے وہ ہپناٹائز ہوا ہو۔
’’اب آگے بھی بڑھو۔‘‘ قدوائی صاحب طنزیہ انداز سے بولے۔
’’مجھے معلوم تھا یہ سب ٹوپی ڈراما ہے۔‘‘ منیر صاحب نے لقمہ دینا ضروری سمجھا۔ جب کہ میں طاہر کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’انکل! گاڑی کا شیشہ میں نے توڑا ہے۔ اس کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے میں تیار ہوں۔‘‘ طاہر نے کہا تو میری حسرت سے چیخ نکل گئی۔
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو؟‘‘
’’مجھے پہلے ہی شک تھا یہ سب ڈرامے بازی ہورہی ہے۔ شیشہ تم میں سے ہی کسی نے توڑا ہے اور اب اس شک کو تم نے دس لوگوں کے سامنے یقین میں بدل دیا۔‘‘
اشرف صاحب نجانے اور کیا کیا کہہ رہے تھے مگر وہ پیسے جو کہ طاہر نے سائیکل خریدنے کے لیے جمع کررکھے تھے ، گھر سے لا کر اشرف صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دو دن تک میں بالکل بھی طاہر سے نہ بولا۔ مگر جب تیسرے دن وہ مجھے منانے آیا تو مجبوراً مجھے اس سے ہاتھ ملانا ہی پڑا، کیوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ ناراض ہونے سے منع فرمایا ہے۔ ’’میں تمہاری جانب ہاتھ بڑھاؤں گا مگر ایک شرط پر کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ الزام اپنے سرکیوں لیا؟ حالانکہ تم بے قصور تھے۔‘‘
اسکول کے ہاف ٹائم میں ہماری یہ ملاقات ہورہی تھی اور عامر بھی ہماری ہی کلاس میں پڑھتا تھا۔ گزشتہ دو دن سے وہ بھی ہماری اس ناراضی پر بہت کِھلا کِھلا تھا۔ ہمیں یوں ناراض دیکھ کر وہ سچ مچ بغلیں بجا رہا تھا۔
میری بات سن کر طاہر نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: ’’مجھے معلوم تھا اس کے علاوہ تم میری جان بخشی نہیں کرو گے لیکن تم بھی یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے حتیٰ کہ عامر کو بھی۔۔۔اب تم بھی وعدہ کرو۔‘‘ مجبوراً مجھے وعدہ کرنا پڑا۔
’’تمہیں تو معلوم ہے عامر کے والد کتنے سخت مزاج ہیں، انہیں اگر عامر کی اس حرکت کا پتا چلتا تو وہ اس کی ہڈی پسلی ایک کردیتے۔ دوسری بات اچانک اُس وقت میرے ذہن میں یہ آئی کہ عامر کے والد ایک مزدور ہیں، وہ چھ ہزار بھلا کہاں سے لائیں گے! مہینے کی آخری تاریخوں میں ان کے گھر میں خود فاقے چلتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اُس کی ماں بھی نہیں ہے اور تم سے زیادہ ماں کی اہمیت کا اندازہ کسے نہیں ہوگا۔‘‘ طاہر کی اس بات نے مجھے میری مرحومہ ماں کی یاد دلادی اور نہ چاہتے ہوئے بھی دو آنسو میرے گالوں پر لڑھک گئے۔
’’ بس میرے دوست یہ بات سوچ کر میرے قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔‘‘
منظر کا پس منظر سن کر میری آنکھوں بھیگ گئی تھیں۔ ’’میرے دوست تم واقعی عظیم ہو۔‘‘ میری آواز فرطِ جذبات سے کانپ اُٹھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اسی شام کو میں طاہر کے گھر میں بیٹھا اس سے گپ شپ کررہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی کی آواز آئی۔
طاہر نے جاکر دروازہ کھولا۔ جب کافی دیر بعد اس کی واپسی نہ ہوئی تو مجھے حیرت ہوئی اور میں اس کی تلاش میں دروازے تک آیا۔
منظر کافی حیران کن تھا۔ طاہر اور عامر گلے لگ رہے تھے۔ عامر کی آنکھوں میں باقاعدہ آنسو تھے۔
’’مجھے معاف کردو میرے دوست میں سخت غلطی پر تھا۔‘‘ جب کہ پاس ہی اشرف صاحب ایک نئی نویلی سائیکل لیے کھڑے تھے۔
’’مجھے معاف کرنا بیٹے، میں تمہیں سمجھ نہیں پایا۔‘‘ طاہر کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا۔
’’قسم سے یار میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ہے۔‘‘
عامر بولا: ’’ہاں طاہر اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا، جب تم دونوں باتیں کررہے تھے تو میں نے تم دونوں کی باتیں سن لی تھیں اور اس وقت میرے غرور کا بت پاش پاش ہوگیا۔ اسکول سے واپسی پر میں نے اشرف صاحب کو سب کچھ بتایا تو انہوں نے مجھے نہ صرف کھلے دل سے معاف کردیا بلکہ تمہارے لیے ایک نئی سائیکل تحفے کے طور پر لائے ہیں۔‘‘
اس دن مجھے جو خوشی ہوئی اس جیسی خوشی میں زندگی بھر نہ پاسکا۔
*۔۔۔*۔۔۔*