بے چارے فکری ماموں
احمد حاطب صدیقی
……………..………………….………………….…..
’’ تُم نے گالی ہی غلط اُردو میں دی تھی۔ اماں اُلّو کا مؤنث بھی اُلّو ہی ہے۔‘‘
………………….……………………………………..
ابھی اِنھی چھٹیوں کی تو بات ہے!
سیکنڈری کلاسوں میں پڑھنے والے تمام بچوں کو بُلا کر ایک دن چھوٹے چچا نے سمجھانا شروع کیا:
’’ دیکھو بھئی ! تم لوگوں کے فکری ماموں اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے لاہور سے کراچی آ رہے ہیں۔ خُدا کے واسطے اُن کے سامنے کبھی غلط اُردو مت بولنا، ورنہ قیامت آ جائے گی…..‘‘
’’ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں‘‘ عمار نے شور مچاتے ہوئے کہا:
’’ فکری ماموں کے سامنے غلط اُ ردو بولنے سے کبھی قیامت نہیں آ سکتی، ورنہ کب کی آ چُکی ہوتی، کیا لاہور میں کسی کو غلط اردو بولنا نہیں آتاہوگا؟ اور کیا کسی نے کبھی بھی فکری ماموں کے سامنے غلط اردو نہیں بولی ہوگی؟…..پھر قیامت کی نشانیوں میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ فکری ماموں کے سامنے غلط اردو بولنا بھی قُربِ قیامت کی ایک نشانی ہوگی……‘‘
عمار میاں دونوں ہاتھ نچا نچا کر تقریر کیے جا رہے تھے کہ چھوٹے چچا نے ایک چپت لگا کر اُنھیں چپ کرایا۔
’’ قیامت آ جانا ایک محاورہ ہے ،مولانا صاحب !اس محاورے کا مطلب ہے ….مُصیبت کھڑی ہو جانا…..‘‘
’’ اچھا! تو یوں کہیے نا کہ فکری ماموں کے سامنے غلط اردو بولنے سے عاشی کھڑی ہو جا ئے گی ، یہ بھی اچھی خاصی مُصیبت ہے….‘‘
ابھی عمار کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ عاشی اپنے دونوں مُکّے تان کر عمارکی طرف لپکی، وہ تو اُسے چھوٹے چچانے راستے ہی میں پکڑ کر اوپر اُٹھا لیا ورنہ ایک عظیم الشان ’’ خانہ جنگی‘‘ برپا ہو جاتی۔ چھوٹے چچا نے اپنی بات پھر شروع کی:
’’ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھاکہ ….فکری ماموں پنجاب یونیورسٹی میں اُردو کے پروفیسر ہیں،وہ شاید گالی تو برداشت کرلیں ، مگر غلط اُردو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ چھوٹے چچا !‘‘
عُمیر نے باقاعدہ سعادت مند طالب علمو ں کی طرح ہاتھ اُٹھا کر سوال کیا:
’’ اُن کے سامنے ہماری اُردو اگر غلط ہونے لگے تو کیا ہم لوگ کوئی چھوٹی موٹی گالی بک دیاکریں، مثلاً: اُلّو، پاجی ، گدھے….‘‘
’’ احمق‘‘
’’ جی! جی!…احمق بھی کہہ سکتے ہیں…. ‘‘
’’ تُم ہو احمق! بدتمیز کہیں کے،نہ ادب نہ لحاظ،جو تُم سے کہا جا رہا ہے غور سے سُنو اور اُس پر عمل کرو۔‘‘
چھوٹے چچا نے اتنے زور کی ڈانٹ پلائی کہ سارے بچے ڈر کر چُپ ہو گئے، چھوٹے چچا نے پھر کہنا شروع کیا:
’’ تُمھارے فکری ماموں صرف اُردو کے پروفیسر ہی نہیں ہیں،وہ مُلک کے ایک مشہور ادیب اور ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔جناب مُفکّر فکری۔وہ بہت عمدہ طبیعت اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں۔ اُن کے سامنے اپنی جہالت کا ثبوت پیش کرنے مت کھڑے ہوجانا۔
عمار کا دل تو بہت چاہا کہ وہ چھوٹے چچا سے یہ بھی پوچھ لے کہ:
’’ چھوٹے چچا ! کیا جہالت بھی سائنس کا کوئی اُصول ہے،جس کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت پڑتی ہو۔‘‘
لیکن ابھی ابھی جو زور دار ڈانٹ پڑی تھی اُس کی گونج فضا میں اور اُس کی کپکپی جسم میں ابھی تک طاری تھی،بلکہ چھوٹے چچا کی پیشانی سے تو ابھی سِلوٹیں بھی نہیں مِٹی تھیں۔
***
عمران کا خیال تھا کہ:
’’فکری ماموں یعنی جناب مفکر فکری کوئی بہت ہی فکرمند اور پریشان قسم کے آدمی ہوں گے، اُن کی تیوریاں ہر وقت چڑھی رہتی ہوں گی،آنکھیں غصے سے سُرخ رہتی ہوں گی اور چہرے پر ایک عجیب سی وحشت طاری رہتی ہوگی۔‘‘
کوئی بچہ عمران کے اِس خیال سے اختلاف کی جرأت نہ کرسکا کیوں کہ وہ نویں جماعت کا امتحان پاس کر کے میٹرک میں پہنچ گیا تھا۔مگرجب فکری ماموں تشریف لے آئے تو تمام بچوں نے اس بات کی پُرزور تائید کی کہ عمران بھائی کا خیال کُچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھا۔
چھوٹے چچانے تو یہ بتایا تھا کہ فکری ماموں بہت عُمدہ طبیعت اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں،لیکن اُن کے اُلجھے ہوئے کھچڑی بال اور اُن کی پیشانی پر پڑی ہوئی گہری لکیروں کو دیکھ کر بقول عاشی کے یوں لگتاتھا کہ وہ اپنی شخصیت کے ’’مالک‘‘ نہیں بلکہ ’’ کرایہ دار‘‘ ہیں۔ جب کہ اُن کی عمدہ طبیعت کے متعلق عمار کا خیال یہ تھا کہ اُنھیں جس وقت بھی دیکھا جائے یہی محسوس ہوتا ہے کہ طبیعت ابھی ابھی خراب ہوگئی ہے۔
غلط تو کیا ، دو چار دنوں تک ،بچے اُن کے سامنے صحیح اردو بولنے سے بھی کتراتے رہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ سرے سے بولنے ہی سے شرماتے رہے۔مگر یہ تو بچوں کی صرف احتیاطی تدبیر تھی ۔یہ ساری احتیاطیں اُس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب فکری ماموں نے خود بچوں سے بات چیت شروع کردی۔ یہی سب سے خطرناک وقت تھا۔
ایک دن اُنھوں نے نعمان میاں کو اپنے قریب بُلایا اور اُن کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:
’’ نومی میاں ! آپ کس جماعت میں پڑھتے ہیں؟‘‘
نومی صاحب کچھ دیر تو زیرِ لب جلدی جلدی کچھ بڑبڑاتے رہے، غالباً اپنی اُردو درست کرنے کی کوشش کر رہے تھے،پھر ڈرتے ڈرتے ادب سے جواب دیا:
’’ جناب ! میں جماعت ششم الف میں پڑھتا ہوں۔‘‘
کلاس مع سیکشن معلوم ہوتے ہی فکری ماموں مُسکرانے لگے۔اُسی وقت یہ خبر بچوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ:
’’ فکری ماموں مُسکراتے ہوئے پائے گئے ہیں۔‘‘
اُن کے مُسکرانے کی خوشی میں عاصم میاں نے فوراً ’’ بابو جنرل اسٹور‘‘ سے لالی پاپ لاکر ’’مُستحقین‘‘ میں تقسیم کروائے۔ مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ کیوں کہ اگلے ہی روز اُنھوں نے عمار سے پوچھ لیا کہ:
’’ میاں صاحب زادے ! آپ کے محلے میں کوئی کُتب خانہ بھی ہے؟‘‘
’’ جی ہاں ! جی ہاں! کیوں نہیں!‘‘
یہ کہتے ہوئے عمار صاحب جھٹ جوتے پہن کر اُن کی اُنگلی تھامے اُنھیں ’’ امیر علی کبیر علی تاجران و سوداگرانِ کُتب‘‘ کی دُکان پر پہنچا آئے۔ واپسی پر دُکان سے گھر تک سارے راستے اور گھر پہنچنے کے بعد بھی آدھے گھنٹے تک جو اُنھیں فکری ماموں کا طویل لیکچر سُننا پڑا اُس سے یہ اندازہ تو ہوگیا کہ ’’کُتب خانہ‘‘ شاید لائبریری کو کہتے ہیں۔مگر خیریت یہ ہوئی کہ عمار میاں اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے اُنھیں ’’آپ کی اپنی لائبریری‘‘ لے کر نہیں جا پہنچے،جہاں سے وہ دو روپئے روز پر کہانیوں کی کتابیں اور بچوں کے ناول پڑھنے کے لیے لایا کرتے تھے، ورنہ اُنھیں لائبریریوں کی اقسام پر بھی لمبی تقریر سُننی پڑتی۔
اس کے بعد پے بہ پے کئی ایسے دلچسپ واقعات رونما ہوگئے کہ جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ بچوں کے دل سے فکری ماموں کا خوف دور ہوگیا اور وہ اُن سے الفاظ ،ضرب الامثال اور محاوروں کے معنی سیکھنے لگے۔ اس سلسلے میں ایک بہت مزے کا واقعہ ننھی مُنی ماریہ کے ساتھ پیش آیا۔ ماریہ بچاری کو تو ابھی ٹھیک طرح سے بولنا بھی نہیں آتا تھا۔مگر فکری ماموں نے اُس کی زبان کی اصلاح کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ہوا یوں کہ وہ ایک دن نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے فیصل کو پُکار بیٹھی:
’’ فیصل ! اِدھر آؤ !‘‘
فکری ماموں نے اُسے وہیں پکڑ لیا:
’’ فیصل نہیں، فیصل بھائی کہو‘‘
’’ کُوں‘‘
ننھی ماریہ نے اپنی توتلی زبان سے سوال کرتے ہوئے باقاعدہ بھنویں بھی سُکیڑیں۔ فکری ماموں نے سمجھایا:
’’ اِ س لیے کہ وہ تم سے بڑا ہے‘‘
’’ مجھ سے کُوں بڑا ہے؟‘‘
ماریہ نے پھر سوال کردیا تو فکری ماموں کچھ دیر کو چکرا کر رہ گئے۔مگر فوراً ہی سنبھل کر جواب دیا کہ:
’’ وہ تم سے پہلے پیدا ہوا اس لیے تم سے بڑا ہے۔‘‘
اب ماریہ کچھ دیر تو اُن کی گود میں بیٹھی کچھ سوچتی رہی، پھر بولی کہ :
’’ کیا عاشی باجی بھی مجھ سے بڑا ہے؟‘‘
’’بڑا نہیں……بڑی…… عاشی باجی بڑی ہیں۔‘‘
’’کُوں….. فیصل بھائی بڑا ہے ….. عاشی باجی بڑی ہے…… کُوں؟‘‘
یہ سوال تو اور بھی چکر ا دینے والا تھا۔مگر فکری ماموں اس چکر سے بھی کامیابی سے نکل آئے۔ماریہ کو سمجھایا:
’’ فیصل لڑکا ہے اس لیے بڑا ہے۔عاشی لڑکی ہے اس لیے بڑی ہے۔‘‘
شاید مذکر مؤنث کا یہ فرق ماریہ کی سمجھ میں فوراً ہی آگیا،چنانچہ اُس نے جھٹ اگلا سوال کیا:
’’ کیا عاشی باجی بھی مجھ سے پہلے پیدی ہوئی تھی؟‘‘
اس پر ایک زبردست قہقہہ پڑا ۔ فکری ماموں جھینپ کر رہ گئے۔شاید اُن کی سمجھ میں بالکل نہ آسکا کہ ماریہ کو ’’ پیدا‘‘ اور ’’ پیدی‘‘ کافرق قائم کرنے سے کس طرح باز رکھیں، لہٰذا سب کے ساتھ وہ بھی ہنس پڑے۔
بچوں کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ :
’’ ہنسے تو پھنسے ، مُسکرائے تو جیب میں آئے۔‘‘
جیب میں تو وہ مُسکراکر پہلے ہی آچکے تھے، مگر اب پھنس بھی گئے۔ بچے بھی اُن کے ساتھ ساتھ خوب ہنسے۔ اس کے بعد تو بچوں او ر فکری ماموں کے درمیان جو رہا سہا تکلف تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ سب فکری ماموں سے شوخیاں کرنے لگے۔ بچوں کو شوخ ہونے میں بھلا دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
ہاں تو اُس روز فکری ماموں نے سب بڑے بچوں کو جمع کیا اور کہا کہ :
’’ آج میں دیکھوں گا کہ تم لوگ کتنے پانی میں ہو؟‘‘
’’ وہ مّارا‘‘ عمار میاں نے پہلے تو ایک زوردارنعرہ مارا پھر بہ آوازِ بلند یہ اعلان کیا کہ:
’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فکری ماموں آج ہم لوگوں کو کلفٹن لے جائیں گے۔‘‘
’’ کلفٹن کابھلا یہاں کیا ذکر؟‘‘
فکری ماموں نے جھلا کر ڈانٹتے ہوئے پوچھا تو عمار نے سہمے ہوئے لہجے میں وضاحت کی کہ:
’’ آپ ہمیں کلفٹن کے ساحل پر لے جاکر ہی تو دیکھیں گے کہ ہم لوگ کتنے پانی میں ہیں؟‘‘
فکری ماموں نے اپنا سر پیٹ لیا۔سر پیٹ کر فارغ ہوئے توکہنے لگے کہ:
’’ یہیں پتا چل گیا کہ تُم لوگ کتنے پانی میں ہو…….غضب خدا کا…… تُم ساتویں جماعت کے طالب علم ہو اور محاوروں کے استعمال سے بھی ابھی تک ناواقف ہو… ٹھہرو …. میں مزید کچھ سوالات کرتاہوں جن سے فوراً دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ‘‘
اب جو عمران کی شامت آئی تو وہ بول پڑا کہ:
’’ فکری ماموں ! یہ ’’ دودھ کادودھ‘‘ کیاہوتاہے؟ ہم نے بھینس کادودھ ،گائے کا دودھ،بکری کادودھ، یہاں تک کہ ڈبّے کا دودھ بھی سُنا ہے، مگر ’’ دودھ کادودھ‘‘ توآج تک نہیں سُنا۔‘‘
ابھی فکری ماموں کا پارہ چڑھنا شروع ہی ہوا تھا کہ نومی میاں نے بھی اپنے علم بلکہ لاعلمی کا اظہار کر نا شروع کردیا:
’’ اور فکری ماموں! یہ ’’پانی کا پانی‘‘ بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔دریا کا پانی ،سمندر کا پانی،تالاب کا پانی، بارش کاپانی،نل کا پانی، بلکہ آنکھوں کا پانی بھی سُنا ہے ، مگر ’’ پانی کا پانی ‘‘ بھی ہم نے کبھی نہیں سُنا۔‘‘
’’ اُفّوہ….. اُفّوہ‘‘ فکری ماموں نے اپنے بال نوچنے شروع کر دیے اوراُنھیں باقاعدہ غصہ آگیا۔
’’ ارے بھئی ! ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ تو ایک ضرب المثل ہے۔قصہ مشہور ہے کہ ایک گوالادودھ میں پانی ملا ملا کر بیچا کرتا تھا۔ایک روز وہ دودھ بیچ کر آرہاتھا کہ راستے میں ایک نہر میں اُس کے روپوں کا بٹوا گرگیا۔اُس نے نہر میں ایک غوطہ مارا اور پانی میں گرے ہوئے روپئے جلدی جلدی نکالنے لگا۔کچھ روپئے ہاتھ آئے، کچھ پانی میں بہہ گئے۔ جب گوالے نے روپئے گنے تو معلوم ہوا کہ جتنی قیمت دودھ کی تھی،اُتنی رقم اُس کے ہاتھ آگئی اور جتنی مقدار اُس نے پانی ملا کر بڑھائی تھی،اُتنی رقم پانی میں بہہ گئی۔گوالا یہ دیکھ کر کہنے لگا کہ ’’ یہ تو دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔‘‘ بس اُسی دن سے یہ ضرب المثل ایسے موقع پر بولی جانے لگی جب صحیح اور غلط الگ الگ ہو کر سامنے آجائے۔‘‘
بچے یہ قصہ سن کر حیران رہ گئے۔
’’ اچھا تو فکری ماموں کہانیاں بھی سُنا سکتے ہیں۔‘‘
فیصل نے دانت نکال فرمایش کی کہ:
’’ فکری ماموں! کوئی اور کہانی سُنائیں۔‘‘
فکری ماموں نے اُسے گھور کر دیکھا اور کہا:
’’ بھئی تم لوگ بڑے کام چور ہو۔ میں تو تمھیں محاورے اور ضرب الامثال سکھانا چاہتا تھا اور تم لوگ مجھے کہانیوں کے چکر میں اُلجھا دینا چاہتے ہو۔اس طرح کی کام چوری نہیں چلے گی۔‘‘
’’ فکری ماموں ….. کام چوری کیا ہوتی ہے؟‘‘
نومی نے تو ڈرتے ڈرتے بڑی آہستگی سے پوچھا تھا مگر فکری ماموں (اپناہی ) سر پکڑکر بیٹھ گئے۔
’’ اُف…. اُف… کام چوری کرتے ہو مگر اس کا مطلب نہیں سمجھتے…. اُف ……. چلو عائشہ تم ’’ کام چوری‘‘ کو جملے میں استعمال کر کے دکھاؤ۔‘‘
عاشی نے گھبر ا کر پہلے تو دوپٹہ سر پر رکھ کر جلدی سے بُکّل مارلیا، پھر آنکھیں موند کر بالکل سبق پڑھنے والے انداز میں بولی:
’’ چھوٹی پھوپھو نے مجھے کڑھائی کرنے کا کام دیا تھا، مگر سمیہ نے میرا کام چوری کرلیا اور ساری کڑھائی خود کر ڈالی۔‘‘
’’ ہرگز نہیں…ہرگز نہیں…. ‘‘ فکری ماموں نے غصے میں قریبی میز پر مُکے مارتے ہوئے کہا:
’’ اگر سُمیہ نے ساری کڑھائی خود کر دی تو یہ’’ کام چوری‘‘ ہرگز نہیں۔دوسروں کاکام بھی اپنے سر لے لیناکام چوری کے اُصولوں کے خلاف ہے۔‘‘
عاشی بے چاری تو اس طرح منہ ڈال کر اور سر جھکا کر بیٹھ گئی جیسے ہوم ورک نہ کرنے پر کلاس میں میڈم کے آگے سر جھکالیتی ہے۔مگر فیصل نے ذرا ہمت کی اور پوچھا:
’’ کام چوری کے اُصول کیا ہوتے ہیں؟‘‘
’’ خود کام کرنے سے جی چُرانا اور یہ توقع رکھنا کہ کوئی دوسرا یہ کام کردے گا۔‘‘
کام چوری کی یہ تعریف سن کر فیصل نے شرارت سے آنکھیں نچاتے ہوئے بڑے مہذب طالب علمانہ انداز سے سوال کیا:
’’ فکری ماموں ! اس اُصول کی روشنی میں تو عاشی ہی کام چور ہوئی نا؟‘‘
’’ کام چور ہوگے تُم خود‘‘ عاشی غصے سے لال بھبھوکا ہوتے ہوئے بولی:
’’ ابھی ابّو جان سے کہہ کر تمھاری مار پٹواتی ہوں۔‘‘
مگر عاشی کا یہ جملہ سُن کر خود فکری ماموں غصے سے لال بھبھوکا ہوگئے:
’’مہمل…. مہمل …… یہ ’’مارپٹوانا‘‘ کیاہوتا ہے؟ بالکل فضول اور بے معنی بات ہے۔صحیح ترکیب ہے ’’ مار پڑوانا‘‘ یا ’’پٹائی کروانا‘‘ کیا سمجِھیں؟ کیوں فیصل میاں؟ ‘‘
’’ جی…جی… مار پڑوانا یاپٹائی کروانا…. ‘‘
فیصل نے ہکلاتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا، کیوں کہ ابوجان کے ہاتھوں خواہ اُن کی ’’ مارپٹے‘‘ یا’’ مارپڑے‘‘ نتیجہ تو دونوں صورتو ں میں ایک ہی نکلنا تھا۔ نظر بچا کر اُس نے عاشی کو مُکا بھی دکھایا۔ اُسے فکری ماموں پرالگ غصہ آرہا تھا کہ وہ عاشی کو ’’صحیح ترکیب‘‘ کیوں بتا رہے ہیں۔ اُس کو پٹوانے کے لیے عاشی کی غلط ترکیبیں ہی کیا کم تھیں کہ اب وہ اُس کو’’ صحیح ترکیبیں ‘‘ بھی سمجھا رہے ہیں۔ اس طرح تو اُس کی شامت آنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی۔اِس موقع پر اُس نے فکری ماموں کے ڈر سے غلط اُردو میں کچھ کہنے سے تو پرہیز کیا ، مگر منہ چڑاتی عاشی کو دیکھ کر بے ساختہ اُس کے منہ سے ایک انوکھی گالی نکل گئی:
’’ اُ لّی‘‘
اور اگلے ہی دن فکری ماموں اپنا بوریا بستر باندھ کر لاہور روانہ ہو گئے۔یہ کہتے ہوئے کہ:
’’ انتہائی نالائق بچے ہیں۔انھیں کچھ سکھانا پڑھانا بالکل فضول ہے۔ اُف اُف……. اُفّوہ۔‘‘
فکری ماموں کے یوں اچانک چلے جانے کے بعد چھوٹے چچا پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن بیٹھا،اور ہر بچے کاکان پکڑ پکڑ کر انکوائری کی گئی تو پتا چلا کہ وہ آخری بات جس سے فکری ماموں بھڑک اُٹھے تھے اور ایسا بھڑکے کہ بھڑکتے چلے گئے،وہ آخری بات فیصل کی گالی تھی۔
فیصل سے جواب طلبی کی گئی تو اُس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا:
’’چھوٹے چچا! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ فکری ماموں شاید گالی تو برداشت کر لیں، مگر غلط اُردو برداشت نہیں کر سکتے۔مجھے عاشی کی بات کے بہت سارے جواب آتے تھے،مگر میں نے اس ڈر کے مارے ایک بھی جواب نہیں دیا کہ کہیں میری اُردو غلط نہ ہو جائے۔بس
میرے منہ سے گالی نکل گئی، مگر میں نے اُس کی بھی گرامر صحیح کر لی تھی۔لیکن فکری ماموں تو عاشی کو دی جانے والی گالی بھی برداشت نہ کر سکے۔‘‘
چھوٹے چچا کا قہقہ نکل گیا، مگر اُنھوں نے سسکیاں بھرتے ہوئے فیصل کو پہلے تو چُمکارا:
’’ بیٹے….. بیٹے!‘‘
پھر سمجھانے والے انداز سے بولے:
’’ تُم نے گالی ہی غلط اُردو میں دی تھی۔ اماں اُلّو کا مؤنث بھی اُلّو ہی ہے۔‘‘
***