skip to Main Content

انوکھی شرارت

اطہر انصاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 1978ء کی بات ہے۔ جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے دوست کاشف عزیز اور فرحان میرے ہم جماعت بھی تھے اور ہمسائے بھی۔ اسکول سے واپسی کے بعد ہم چاروں کا سارا وقت ایک ساتھ ہی گزرتا تھا۔ ہم سب ایک ساتھ ہی کھیلتے اور پڑھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ ہمارے والدین کے بھی آپس میں بہترین مراسم تھے۔ جس کی بناء پر ہماری دوستی اور بھی مضبوط ہوگئی تھی۔
ہم چاروں اسکول میں شرارتی ٹولے کے نام سے مشہور تھے۔ کلاس کا کوئی ایسا لڑکا نہیں تھا۔ جو ہماری شرارتوں کی زد میں نہ آیا ہو۔ ہم جب بھی کوئی شرارت کرتے۔ اس شرارت کے پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی بات کلاس کے لڑکوں کو سخت نالاں گزرتی تھی۔ اگر چہ ان کو معلوم ہوتا تھا کہ شرارت ہم نے کی ہے۔ مگرپھر بھی کسی شہادت کے نہ ہونے کی بناء پر وہ لوگ ماسٹر صاحب سے ہماری شکایت کرنے سے قاصر تھے۔
ایک مرتبہ کلاس میں حاضری بہت کم تھی۔ پیچھے کی تمام کرسیاں بالکل خالی پڑی تھیں۔ صرف آگے کی کرسیوں پر لڑکے براجمان تھے۔ انگریزی کا پریڈ تھا اور ماسٹر صاحب بلیک بورڈ پر کام کروانے میں مصروف تھے۔ فرحان اپنی سیٹ پر سے اٹھا۔ اور پیچھے کی کرسیوں میں سے چھپتا ہوا کونے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ثاقب تک گیا۔ اور اس کے بیگ کے کنڈے کو اس کی پتلوں سے اٹکا دیا۔ اور فیتے کو کھول کر سیٹ سے باندھ دیا۔ اور پھر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
سب منہمک ہوکر اپنا کام کر رہے تھے۔ اتفاقاً منصور نے فرحان کو یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ مگر باقی کسی کو اور خود ثاقب کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ ابھی فرحان اپنی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ کلاس میں چپراسی نے آکر اطلاع دی کہ ثاقب کے والد صاحب آئے ہیں اور وہ ان کو آفس میں بلا رہے ہیں۔ یہ سن کر ثاقب جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا تو فوراً ہی دھڑام سے گر پڑا۔ یہ دیکھ کر سب لڑکوں اور خود ماسٹر صاحب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ انہوں نے فورآ اپنی ہنسی پر قابو پایا اور زور دار آواز میں کہا ’’کس نے کی ہے یہ حرکت۔ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے۔ وہ خود کھڑا ہوجائے۔ ورنہ میں پوری کلاس کو سزا دوں گا۔‘‘
اچانک منصور نے اٹھ کر کہا ’’سر یہ حرکت فرحان نے میری آنکھوں کے سامنے کی ہے۔‘‘ فرحان اچانک اپنی چوری پکڑے جانے پر سٹپٹا گیا۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا منصور نے اس کو یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھاہے۔ ماسٹر صاحب نے فوراً فرحان کو دیکھاتو فرحان نے ہمیشہ کی طرح مسکین شکل بنا کر کہا۔ سر میرے اور ثاقب کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہے کہ آپ خود غور سے سوچیں تو یہ ناممکن ہے کہ میں نے ثاقب کے جوتے کا فیتہ کرسی سے باندھا ہو۔ سر یہ حرکت یقیناًمنصور نے کی ہے۔ جو ثاقب کے برابر والی قطار میں بیٹھا ہے۔ اور اب سزا سے بچنے کے لیے وہ مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔‘‘ ماسٹر صاحب نے فرحان کی بات سے اتفاق کیا۔ اور منصور کی بھری کلاس میں خوب بے عزتی کی۔ جب کہ ہم خوش ہورہے تھے کہ ہمیشہ کی طرح ہماری یہ شرارت بھی پکڑی نہیں جاسکی تھی۔ بس پھر تو منصور نے ہماری جاسوسی کرناشروع کردی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ہمیں کوئی شرارت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے اور ہمیں اسکول میں سزا ملے۔
ایک دفعہ ہم چاروں اسکول کی کینٹین میں بیٹھے ہوئے کسی نئی شرارت کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ مگر ہماری سمجھ میں کوئی ایسی شرارت نہیں آرہی تھی۔ جو بہت دلچسپ ہو۔ دراصل اس مرتبہ ہم کوئی انوکھی شرارت کرنا چاہ رہے تھے۔ ابھی ہم سب سر جوڑے بیٹھے تھے کہ کاشف چلایا۔ آگئی ترکیب ہم تینوں ایک زبان ہوکر بولے بتاؤ کیا ہے وہ ترکیب۔ کاشف نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ہم سب نے اپنے کان کاشف کی طرف کردیئے۔ کاشف نے راز دارانہ لہجے میں کہا۔ کیوں نہ ہم اسکول میں فون کر کے یہ کہہ دیں کہ اسکول میں بم ہے۔ ہمارے لیے یہ بالکل نئی اور انوکھی شرارت تھی۔ اس لیے اتفاق رائے سے اس شرارت کو ہم سب نے منظور کرلیا۔ لہٰذا طے پایا کہ عزیز اسکول سے چھٹی کرے گا اور اسکول فون کر کے بم کی اطلاع دے گا۔ اگلے روز جب عزیز سوکر اٹھا تو اس نے پیٹ میں درد کی اداکاری شروع کردی کہ میرے پیٹ میں سخت درد ہورہا ہے۔ اور مجھ سے اٹھا نہیں جارہا ہے۔ اس کی یہ اداکاری دیکھ کر اس کی امی پریشان ہوگئیں اور سمجھیں کہ اس کے پیٹ میں واقعی درد ہے۔ انہوں نے فوراً اس کو پیٹ کے درد کی دوا دی اور ہمارے گھر آئیں۔ اور کہنے لگیں بیٹا عزیز کے پیٹ میں شدید درد ہے۔ وہ آج اسکول نہیں جاسکتا۔ تم ایسا کرو کہ ماسٹر صاحب کو یہ درخواست دے دینا۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ہنسی آئی۔ مگر چونکہ میں اس قسم کے کاموں کا عادی تھا۔ اس لیے میں نے اپنی ہنسی روک کر معصوم چہرہ بنا کر ان سے درخواست لے لی اور اسکول آگیا۔ اسکول آکر میں نے وہ درخواست فرحان اور کاشف کو بھی دکھائی تو ان کا بھی ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ جیسے ہی ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے ہم میں نے وہ درخواست ان کو دے دی۔ انہوں نے وہ درخواست بغور پڑھ کر اپنے رجسٹر میں رکھ دی۔
چوتھا پریڈ شروع ہوچکا تھا۔ ہم سب پریشان تھے کہ عزیز نے اب تک فون کیوں نہیں کیا۔ جوں جوں وقت بڑھتا جارہا تھا۔ ویسے ہی ہماری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ ہمیں خیال تھا کہ ہوسکتا ہے اسکول والوں نے عزیز کی بات کو اہمیت نہ دی ہو۔
ادھر عزیز نے اپنی امی سے کہا کہ وہ ذرا ڈاکٹر صاحب سے دوا لے کر آرہا ہے۔ یہ کہہ کر عزیز گھر سے نکلا اور پی سی او جاکر اسکول فون کیا اور ریسور پر کپڑا رکھ کر بات کی کہ اسکول میں بم ہے۔ جو ایک گھنٹے کے اندر اندر پھٹ جائے گا۔ اگر بچوں کی خیریت چاہتے ہوتو فورا کچھ کرو۔ یہ کہہ کر عزیز نے فورا فون رکھ دیا۔ اور پی سی او والے کو پیسے دے کر تھوڑی بہت چہل قدمی کے بعد وہ گھر آگیا۔ اس کی امی نے خالی ہاتھ گھر آنے کی وجہ پوچھی تو عزیز نے یہ کہہ کر اپنی امی کو مطمئن کردیا کہ ڈاکٹر صاحب کی کلینک آج بند ہے۔
اسکول میں اس خبر سے افراتفری پھیل گئی۔ اس خبر نے انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھلا دیئے۔ پلک جھپکتے میں سارا اسکول خالی کروا لیا گیا۔ بچوں کو جلد از جلد اسکول کے احاطے سے باہر نکالا جارہا تھا۔ جو بچے پیدل اپنے گھروں کو جاتے تھے۔وہ گھروں کو جانے لگے۔ جو بچے اسکول بسوں میں جاتے تھے۔ ان کو جلدی جلدی بس میں بٹھا کر گھروں کو روانہ کیا جانے لگا۔ ہر شخص پریشان تھا، سوائے ہمارے، ہم سب ان لوگوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بم ڈسپوزل کا عملہ بھی آگیا۔ اب اسکول کی عمارت مکمل خالی تھی۔ صرف بم ڈسپوزل کا عملہ ہی اندر تھا۔ یہ عملہ بھی بم ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد اسکول کی بلڈنگ سے نکل کر میدان کراس کر کے باہر آہی رہے تھے کہ ایک دم زور دار دھماکہ ہوا۔ ایسا لگا گویا قیامت آگئی ہو۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں چھا گیا۔ دھماکہ اتنی شدید نوعیت کا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دھند کا یہ عالم تھا۔ کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا۔ کچھ دیر بعد جب یہ دھند چھٹی تو یہ دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں کہ اسکول کی تین منزلہ عظیم الشان عمارت زمین بوس ہوچکی تھی۔ ایسا حیرت ناک منظر ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہم تینوں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارا مذاق سچ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو محض ایک مذاق کیا تھا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا۔ وہ محض ایک اتفاق تھا۔ اگر چہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا تھا۔ مگر بھر بھی مالی نقصان تو بہت ہوا تھا۔ مگر پھر بھی ہم سب بہت خوش تھے۔ کیونکہ آج ہماری شرارت سے ان گنت معصوم جانیں ضائع ہونے سے بچ گئیں تھیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top